17/3/22

صدیقہ بیگم سیوہاروی کی افسانہ نگاری - مضمون نگار: ڈاکٹر شاداب تبسم

 



          بیسویں صدی کی تیسری دہا ئی میں جب ترقی پسند تحریک اپنے نقطۂ عروج پر تھی تو اس تحریک نے دنیا کی تمام زبانوں کے ادب کو متاثر کیا۔ علی گڑھ تحریک کے بعد ترقی پسند تحریک دوسری شعوری تحریک تھی جس کے زیر اثر ہمارے ادب کو بعض اہم تبدیلیوں سے دوچار ہونا پڑا۔اس تحریک نے اردو ادب میں نشاۃ الثانیہ لانے کا کام کیا جن لوگوں نے اردو ادب کے مختلف شعبوں کاتوجہ سے مطالعہ کیا ہے ان سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ اردو زبان میں ایک بڑا ذخیرہ اس تحریک کی پیداورا ہے۔  اس تحریک نے یوں تو تمام ادبی اصناف کو متاثر کیالیکن شاعری ،افسا نہ اور تنقید پر خاص اثر پڑا۔  ترقی پسند افسانے کو عروج پر پہچانے میں جن افسانہ نگاروں نے سعی کی ان میں سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، خواجہ احمد عبّاس، عصمت چغتائی ، احمد ندیم قاسمی، غلام عباس، بلونت سنگھ، اخترانصاری ، ممتاز مفتی، شکیلہ اختر، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، رضیہ سجاد ظہیر، ہنس راج رہبر کے ساتھ صدیقہ بیگم سیوہاروی کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے۔

          صدیقہ بیگم سیوہاروی کا آبائی وطن سیوہارہ ضلع ،بجنور ہے ۔ان کی پیدائش 1925 کو لکھنؤ میں ہوئی۔ عمر کے ابتدائی دس سال لکھنؤ میں گذرے اور تعلیم بھی وہیں حاصل کی ۔بعد میں اپنے والدین کے پاس سیوہاررہ چلی آئیں۔ ان کے والد بابو شفیع احمد بہت خوش ہال زمیندار تھے۔ صدیقہ بیگم طفل شیر خواری ہی میں تھیں کہ ان کی والدہ کی رحلت ہو گئی لیکن سو تیلی ماں نے  بہت پیار و محبت سے ان کی پرورش کی۔گھر کا ماحول خالص مشرقی تھا ان کی تعلیم سخت ترین پردے میں ہوئی ۔ اسی ماحول میں رہ کر انھوں نے قرآن شریف، اردو، عربی اور فارسی کی چند کتابیں پڑھیں۔ مثلاً راشد الخیری کی تصانیف، ڈپٹی نذیر احمد کے ناول اور کچھ اخلاقی کتابیں۔  اپنی اسی ابتدائی تعلیم کے تعلق سے کہتی ہیں:۔

’’بس یہ گھر تھا میرا مدرسہ اور یہ کتابیں میرا بستہ تھیں۔ جنہیں میں باربار پڑھتی تھی ۔جیسے کلام پاک کی تلاوت ہوتی ہے۔ فرق یہ تھا کہ یہ سمجھ میں آتی تھیں۔ اور ان کو پڑھ کر لطف بھی آتا تھا۔ اس زمانے میں اردو کی بیشتر کتابیں پڑھنے کا موقع ملتا تھا۔‘‘

(ضلع بجنور کے جواہر۔فرقان احمد صدیقی، جیّد پریس ، بلی ماران دہلی ،۔1991،ص87)

          صدیقہ بیگم سیوہاروی کے بھائی اخلاق احمدوارثی پرانی قدروں کے سخت مخالف تھے۔ بھائی کو گوندیا مدھیہ پردیش میں ملازمت مل گئی تو وہ ان کے ساتھ مدھیہ پردیش چلی گئیں۔ وہیں ان کے تخلیقی دور کا آغاز ہوا۔ ان کے افسانے وقتاً فوقتاً مختلف رسائل مثلاً عالم گیر، ساقی، ادیب، شاہکار، کلیم، ادبی دنیا، اد ب لطیف میں شائع ہوتے رہے ۔سی پی قیام کے دوران ہی انھوں نے ایک رسالہ ’’نورس‘‘ نکالا۔اس کے دو شمارے چھپے بعد میں ۱۹۴۷ کے ہنگاموں کی نذر ہوگیا ۔ اس سے پہلے رسالہ ’’’آواز نسواں‘‘ ٔ’’نیا راگ‘‘ کے نام سے ترتیب دے چکی تھیں۔اس کے تعلق سے لکھتی ہیں:

’’اس تجربے کو سید سجاد ظہیر، ممتاز حسین، اور دوسرے ادیبوں نے بہت سراہا۔‘‘

(ضلع بجنور کے جواہر ۔فرقان احمد صدیقی ،ص87)

          ستمبر 1947 میں ان کی شادی اطہر پرویز سے ہوئی اور ان کے ساتھ الہ آباد چلی گئیں۔ الہ آباد میں اردو رسالہ ’’فسانہ‘‘ کے ادارہ تحریر میں شامل ہوگئیں۔ 1950 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی گئیں وہاں رہ کر بہترین افسانے لکھے جو ریڈیو سے نشر ہوئے اور ادب لطیف، نقوش اور شاہرہ میں شائع ہوئے۔ 1956 میں شوہر کے ساتھ علی گڑھ چلی گئیں۔ وہاں ان کی ملاقات ڈاکٹر رشید جہاں سے ہوئی۔ ان کی رہنمائی میں ان کے فن میں مزید پختگی آئی۔ ان کے شوہر علی گڈھ میں شعبۂ اردو میں ریڈر تھے۔ 10مارچ 1984 کو حرکتِ قلب بند ہونے سے ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا۔ شوہر کے انتقال نے ان کے ذہن اور جسم دونوں کو مفلوج کردیا۔ آخری دنوں میں یادداشت بھی باقی نہ رہی ۔29ستمبر 2012 کو علی گڈھ میں صدیقہ بیگم کی رحلت ہوگئی۔

          صدیقہ بیگم سیوہاروی کا ادبی سرمایہ کل پانچ افسانوی مجموعوں مثلاً ہچکیاں، دودھ اور خون، پلکوں میں آنسو، ٹھیکرے کی مانگ، اور ’ رقصِ بسمل‘ کے علاوہ رسائل میں شائع مختلف تحریروں اور دیگر مضامین پر مشتمل ہے۔

          ترقی پسند افسانہ نگاروں کی فہرست میں صدیقہ بیگم سیوہاروی کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے۔ رشید جہاں کی شخصیت پر ’’رشید جہاں‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھا جو نقوش کے’’ شخصیات نمبر’’میں شائع ہوا۔ علی گڈھ کے دورانِ قیام ان کی ملاقات ڈاکٹر رشید جہاں سے ہوئی۔ اس ملاقات نے ان کی زندگی کی ڈگر ہی بدل دی۔ مضمون’رشید جہاں‘ میں انھوں نے رشیدہ جہاں سے پہلی ملاقات کا نقشہ بہت ہی دلفریب انداز میں کھینچا ہے۔ اس سے رشید جہاں کی سیرت اور شخصیت کھل کر سامنے آجاتی ہے ۔لکھتی ہیں:

’’میں علی گڈھ امیر نشاں میں رہتی تھی اور مجھے آئے ہوئے مشکل سے پندرہ دن ہی ہوئے ہوں گے کہ دیکھتی کیا ہوں کہ بونے سے قد کی ایک خاتون چلی آرہی ہیں۔ جان نہ پہچان بی خالہ سلام۔۔۔۔ مردوں کی یہ بات مجھے پسند ہے کہ گھر میں  مردانے میں بھی داخل ہوںگے تو دستک ضرور دیں گے ۔لیکن یہ خاتون چلی آئیں بس برسات کی سڑی گرمی پڑ رہی تھی ۔۔۔۔۔کہتی تو کیا کہتی  بیگما ہیں کہ میرے سلام کا جواب دئے بغیر کمرے میں گھسی چلی آرہی ہیں۔۔ ۔ میں سوچتی رہی کہ یہ اللہ ماری کون آگئی۔

لیکن چند سیکنڈ کے اندر جیسے زمین پاؤں کے نیچے سے نکل گئی۔ مجھے اپنے تن بدن کا ہوش نہ رہا۔

’’تم صدیقہ ہو مجھے رشیدجہا ں کہتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر رشید جہاں!!! میرے منھ سے بلا سوچے سمجھے نکل گیا ‘‘۔ ’’ کیوں کیا رشید جہاں کافی نہیں‘‘ ۔ ۔ انھوں نے بڑے پیار سے کہا جیسے کسی بچے کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہو ئے کہ یہ رہی ہوں‘‘۔

(رسالہ نقوش۔ شخصیات نمبر،ص908)

          صدیقہ بیگم سیوہاروی کا ایک مضمون ’میں اور میرے افسانے ‘کے عنوان سے رسالہ ’’ٖفسانہ‘‘ اپریل 1948 کے شمارے میں شائع ہوا۔ اس میں انھوں نے ان واقعات کا ذکر کیا ہے جو ان کے افسانوں کے محرک بنے۔ پہلی مرتبہ انھوں نے کہانی لکھی تو ان  کے گھر میں طوفان برپا ہو گیا۔ جو ماحول پیدا ہوا اسی کے تعلق سے لکھتی ہیں:

’’کل جب اس نے پہلے پہل قلم اٹھایا تھا اور اس کا نام رسالوں میں مردوں کے دوش بدوش چھپا تھاتو خاندانی عزت پر بٹہ لگ گیا تھا ۔اسلامی ننگ و ناموس روایتوں کی ڈگر سے اتر کر ایک ایسی شاہ راہ پہنچ گیا تھاجہاں صور اسر افیل ہی اس کی منزل تھا۔ لیکن آج وہ ان حدود سے آگے بڑھ چکی ہے۔ ماضی کی فرسودہ روایتوں کو روندتے ہوئے آگے نکل گئی ہے۔‘‘(’’فسانہ‘‘۔الہ آباد ، اپریل 1948)

          دوسری جگہ لکھتی ہیں:

’’چند سال پہلے کی بات ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں ایک ایسا وقت آیا کہ دروازے پر موت نے دستک دی۔ بنگال بھوکا مرنے لگا۔ چالیس کروڑ انسانوں میں ہلچل مچ گئی۔ وہ رشتہ جس نے ہمیں ایک دوسرے سے منسلک کیا تھا ٹوٹنے لگا برسوں کی پالی ہوئی تہذیب کا جنازہ نکل رہا تھا۔ باپ اپنی بیٹی کو ،مائیں اپنی اولاد کو ، بھائی اپنی بہنوں کو ایک ایک دانے چاول پر بیچنے لگے۔‘‘  (فسانہ۔ الہ آباد ، 1948)

          مضمون ’’میں اور میرے افسانے‘‘ میں ان تمام واقعات کا ذکر کیا ہے جو اس وقت رونما ہوئے۔ آخر میں لکھتی ہیں:

’’یہی ہے وہ پس منظر جس پر ہمیں اپنے ادب کی بنیادوں کو دیکھنا ہے۔‘‘

(فسانہ۔الہ آبا،1948)

          ان کی ایک تحریر ’’آخری خط کے عنوان‘‘ سے 184 میں منظر عام پر آئی۔ اس تحریر میں انھوں نے اپنے عہد یعنی سیاست مسلم لیگ، کمیونسٹ پارٹی، ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد، قحطِ بنگال، فسادات کی تصویر اس طرح پیش کی ہے کوئی گوشہ خالی نہیں رہا۔ لکھتی ہیں:

’’ ہندوستان آزاد ہوگیا‘‘مجھے سردار جعفری کا وہ شعر یاد آیا

سنہرا دوپٹہ اڑھائیں گے ہم

ستاروں سے آنچل بنائیں گے ہم

اس سنہرے دوپٹے کی دھجاں اڑنے لگیں۔ ستارے بکھرنے لگے۔ہندوستان کا بٹوارہ ہوگیا۔ چلو ٹھیک ہے۔

لیکن یہ مارکاٹ یہ خون خرابہ کیسا بھائی بھائی کا خون بہارہا تھا  ہندوستان اور پاکستان کی سر زمین پر ایک ہی رنگ کا خون تھا سرخ خون۔‘‘(آخری خط، نقوش ،  2 ؍اکتوبر،1956)

          اس ’’آخری خط‘‘ میں جو شوہر کے نام ہے۔ آخر میں شوہر کے انتقال کا ذکر کیا ہے۔لکھتی ہیں:

’’تم چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے تمہارے ہاتھ میں قلم بھی نہیں تھا۔ تمہاری آنکھیں بند تھیں اور چاندنی نے تم کو نورکی چادر اڑھادی تھی۔سفید سفید چادر۔یہ تاریخ تھی10 مارچ 1984 اور یہ کہانی یہیں ختم ہوگئی۔‘‘(آخری خط)

          صدیقہ بیگم سیوہاروی کے افسانوں کا پہلا مجموعہ حیدرآباد سے 1944  میں’ ہچکیاں‘ کے عنوان سے منظر عام پر آیا۔ دوسری مرتبہ 1950 میں پربھات پبلیشر، پریاگ راج(الہ آباد) سے شائع ہوا۔ یہ مجموعہ کل دس افسانوں پر مشتمل ہے۔پیش لفظ سید اعجاز حسین نے تحریر کیا ہے۔ مجموعے میں شامل افسانے’تصویر‘،’ آندھی‘ اور’چاول کے دانے‘ کا موضوع قحطِ بنگال ہے۔ ’’چاول کے دانے‘‘ میں ضعیف آدمی کو بھوک کی شدت نے اتنا مجبور کردیا کہ وہ اپنی پوتی کی جان بچانے کے لیے اسے امیر سیٹھ کو صرف ڈیڑھ پاؤ چاول کے عوض میں بیچ آتا ہے۔ لیکن جب اس کا ضمیر اس پر ملامت کرتا  ہے تواس کے جذبات اور ذہنی کیفیت کو افسانہ نگار نے بہت ہی موثر انداز میں پیش کیا ہے۔اپنے بیٹے نذیر کو بوڑھا شخص یادکرکے کہتا ہے:

’’ ہائے  اللہ  کافی رات ہو گئی ۔۔۔۔۔شفو۔۔۔میری شفو کا تو ٹھکا نا ہو ہی گیا۔۔۔نذیر سنے گا تو کیا کہے گا میں نے اس کی لڑی کو بیچ دیا ڈیڑھ پاؤ چاول پر۔۔۔۔ڈیڑھ پاؤ چاول۔۔ معلوم نہیں وہ اس کے ساتھ کیسا برتاو ٔ کرے۔‘‘

( ہچکیاں،چاول کے دانے، کریمی پریس ،الہ باد،1950)

          قحط بنگال کے موضوع پر لکھی کہانی ’’آندھی‘‘ بہترین کہانی ہے۔ کہانی فلیش بیک میں چلی جاتی ہے۔ افسانے کی ہیروئن تارا کو اس کی ماں اناج کے عوض میں کوٹھے پر فروخت کردیتی ہے۔ہیروئن اپنا ماضی یادکرتی ہے۔ بھوک سے تڑپ کر مرتے ہوئے تارا کے بھائی کی موت کا نقشہ بہت ہی دردناک اندازمیں کھینچا ہے۔

’’ بھیا کبھی کبھی آہستہ سے بولتا ’’ بھوک‘‘۔اب تو اس کی زبان بھی نہ دکھائی دیتی تھی تالو کو چپک گئی تھی۔ہاں اس کے منھ سے ہرے ہرے جھاگ نکل رہے تھے  تھوڑی دیر پہلے اس نے  درخت کے پتے کھا ئے تھے۔‘‘ 

  ( ہچکیاں،افسانہ ،آندھی،ص84)

          افسانوی مجموعہ ’ ہچکیاں‘ کے تعلق سے اعجاز حسین رقمطراز ہیں:

’’ایک خاص بات جو فنی لحاظ سے سب سے پہلے ہم کو محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ افسانے کو رنگین بیانی یا پر جوش اور بھاری بھرکم الفا ظ کا سہارا دے کر دلکش بنانے کی کوشش نہیں کی گئی  بلکہ واقعات  اور اہمیت اور تفصیل کو ایسے موقع اورایسے سیدھے سادے الفاظ میں قلم بند کر دیا گیا ہے کہ افسانوی عنصر خود بخود پڑھنے والے کومسحور کر لیتے ہیںاور ساتھ ہی ساتھ یہ انداز بیان کہ جیسے کچھ نہیں کہا جا رہا ہے اور سب کچھ خود بخود ماحول سے یکجا ہوکر ذہن پر چھائے جا رہے ہیں‘‘۔

( ہچکیاں ، ص14)

          مجموعہ ’’پلکوں میں آنسو‘‘  پہلی مرتبہ1948 میں ( پریاگ راج) الہ آباد پبلشنگ ہائوس سے شائع ہوا۔اس کا پیش لفظ سہیل عظیم آبادی نے تحریر کیا ہے۔ ان افسانوں میں ’’ہچکیاں‘‘ میں شامل افسانوں کے مقابلے صدیقہ بیگم سیوہاروی کااحساس تیز اور نقطۂ نظر وسیع ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔  ان کا فن برابر ترقی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ بنگال کے قحط سے ان کے احساس کو سخت جھٹکا لگا۔ان کے افسانوں کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بنگال کا قحط ان کے رجحانات،تصورات اورفن کا موڑ ہے۔قحط بنگال کے بعد جو افسانے انھوں نے لکھے  اس کے تعلق سے پروفیسر احتشام حسین لکھتے ہیں:

’’بنگال کی بھوک نے ان کے افسانوں میں زندگی کی تڑپ پیدا کردی۔ ان کے خلوص کا بہاو تیز کردیا۔ ان کے بیان کا زور بڑھادیا۔زندگی سے ہم آغوش کردیا۔‘‘

(پیش لفظ۔ پلکوں میں آنسو، ص9)

          مجموعہ ’’دودھ اور خون‘‘ پہلی مرتبہ 1953 ، دوسری مرتبہ 1957 میں سرفراز قومی پریس لکھنؤ سے شائع ہوا۔ اس مجموعے میں شامل افسانوں کی کل تعداد13 ہے۔ افسانہ ’’راکھ اور چنگاری‘‘ ایک طرف قلیل تنخواہ پانے والے انسان کی داستان ہے اور دوسری طرف نئی اور پرانی نسل کے تصادم کی تصویر پیش کرتا ہے۔ اردو ادب میں ہم جنس پرستی جیسے موضوع پر لکھے گئے افسانوں کی کمی نہیں ہے ۔ ا س ضمن میں صدیقہ بیگم سوہاروی کا افسانہ ’’ تارے لرز رہے ہیں‘‘ قابل ذکر ہے۔

          مجموعہ ’’رقصِ بسمل ‘‘ اردو گھر علی گڈھ سے شائع ہوا۔ اس میں کل 8 افسا نے شامل ہیں۔ مجموعے میں شامل افسانہ ’’گلدان کے پھول‘‘ کا موضوع تعدادِ ازواج اور ان کا استحصال ہے ۔زبان و بیان کے تشبیہاتی انداز کے اعتبار سے یہ افسانہ ایک شاہکار کا درجہ رکھتا ہے۔ اس افسانے میں گلدان کا پھول علامتی اشارہ ہے۔ یعنی گلدان کا پھول عورت کی زندگی ہے جو مرجھا گیا تو گلدان میں دوسرا پھول لگا دیا گیا۔ گلدان وہی رہتا ہے پھول بدلتے رہتے ہیں۔ اولاد پیدا نہ ہونے کا زمہ دار صرف عورت کو ٹھہرایا جاتا ہے۔عورت صرف مرد کی دلبستگی کا ذریعہ ہے۔ جنسیات کو طنز اور تیکھے انداز میں پیش کرنے کے ہنر سے وہ بخوبی واقف ہیں۔ اس ضمن میں مجموعہ ’’رقصِ بسمل‘‘ میں شامل افسانہ ’’بیمار‘‘ کا نام لیا جاسکتا ہے۔

          صدیقہ بیگم ترقی پسند تحریک کے زیر اثر لکھنے والی افسا نہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں کے مطالعے سے یہ نتائج اخذ ہوتے ہیں کہ بلاشبہ مشرقی عورت کے پیکر تراشنے میں انھیں مہارت حاصل ہے۔ عورتوں کے مسائل کے ہر گوشے سے پوری طرح واقفیت رکھتی ہیں۔ جہیز، آپسی تصادم، نفسیاتی الجھنیں، غریبی، جہالت، جنگِ آزادی، تقسیم ہند، قحطِ بنگال گو یا انھوں نے ہر طرح کے موضوعات چاہے وہ سیاسی ہوں یا سماجی سب پر کامیاب افسانے لکھے۔ ان کے مطالعے سے زندگی کی رنگ برنگی تصویر نظرآتی ہے۔

          ان کے افسانوں کے کردار سماج کے حقیقی لوگ ہیں۔ واقعات کی تفصیل اور اختصار دونوں طرح سے افسانوں کو آگے بڑھاتی ہیں ۔ان کا مطالعہ تاریخی، سیاسی اور مذہبی اعتبار سے بھی بہت وسیع ہے۔ وہ بچوں کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں۔ ’’رقصِ بسمل‘‘ میں شامل افسانہ ’’شیر اور ہرن‘‘ اس کی عمدہ مثال ہے۔ بچوں کے ذہن میں کیسے کیسے تصورات نمودار ہوسکتے ہیں اس بات کا انھیں پورا اندازہ ہے۔ لکھتی ہیں:

’’شیردہاڑا۔ غررّ۔غررّ۔بچے چونک پڑے پھر پانچوں بچے سوگئے۔ رات بھر شیر کو مارنے کے لیے خواب میں تیر و کمان بناتے رہے۔‘‘

(رقص بسمل۔ شیر اور ہرن)

          کسی بھی ادیب کی تخلیق  میں اس کا اسلوب سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ صدیقہ بیگم کے افسانوں کی زبان شگفتگی اور سادگی سے پر ہے۔ انھیں الفاظ کے انتخاب میں زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ خود بخود موقع محل کے لحاظ سے الفاظ آراستہ ہوجاتے ہیں۔ افسانہ ’’پرانا کوٹ‘‘ موضوع ،زبان و بیان اور کردار نگاری سبھی اعتبار سے بہت کامیاب ہے۔ کہیں کہیں مشکل الفاظ اور فارسیت غالب آجاتی ہے۔ مثلاً ’’پلکوں میں آنسو‘‘ میں لکھتی ہیں:

’’قائد ِ اعظم محمد علی جناح اور مہاتماگاندھی ادھر باہم سمجھوتا کرنے کے سلسلے میں ایک دوسرے سے گفت و شنید کررہے ہیںاور ادھر برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر چرچلؔ سے امریکہ کے صدر مسٹر روزولٹ کیوبک میں ہندوستان کی آزادی کے سلسلے میں مل رہے ہیںاور تیسری طرف جرمنی میں فاشزم کا خاتمہ ہو رہا ہے۔‘‘(پلکو ں میں آنسو)

          تاریخی شواہد گنوانے میں کبھی پیچھے نہیں رہتی قاری کو وہی احساس کراتی ہیں جو کرانا چاہتی ہیں۔ افسانہ ’’رقص بسمل‘‘ میں بھی تاریخی شواہدسے افسانے میں جان ڈال دی ہے:

’’بھگت سنگھ مسکرارہا تھا اس کے گلے کی رسّی کھل گئی تھی۔جلیاں والا باغ میں قمقمے جل رہے تھے۔ چاندنی چوک کی خونیں لاشیں اپنا خراج وصول کر رہی تھی۔‘‘(رقص بسمل)

           افسانوں کامجموعہ ’’ ٹھیکرے کی مانگ‘‘ میں شامل افسانے بھی زندگی کی تلخ حقیقت کو پیش کرتے ہیں ۔

          افسانہ ’’یہ کہانی‘‘ خاکہ نگاری کا عمدہ نمونہ ہے۔ افسانے میں اپنی بھابھی کا خاکہ بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے اور طنز یہ تحریر سے اپنے بھائی کو بھی نہیں بخشا۔ طنزو مزاج کے تعلق سے ’’ ٹھیکرے کی مانگ ‘‘ میں شامل  ان کے افسانے ’’وکیل ہوتو ایسا‘‘ دوست ہو تو ایسا قابل ذکر ہیں ۔  اسی مجموعے میں دو افسانے ’’ ہڈی کا داغ ‘‘اور ’’ ٹھیکرے کی مانگ ایک ہی طرز کے افسانے ہیں دونوں کا موضوع پرانی اور فرسودہ روایات سے بغاوت ہے۔ دونوں ترقی پسند افسانے کے زمرے میں آتے ہیں۔افسانہ ’’ثروت‘‘ ایسے واقعات پر مبنی ہے جن کا ہمارے معاشرے میں واقع ہونا تعجب کی بات نہیں ۔یہ ایک نئی نویلی دلہن کی کہانی ہے جس کی زند گی دیکھتے ہی دیکھتے محرومی اور غموں کے سمندر میں غرق ہو جاتی ہے۔ موضوع کے لحاظ سے صدیقہ بیگم کے افسانوں میں کافی تنوع ہے ۔افسانہ ’’یہ دھرتی کے بیٹے‘‘ کسان کی جدوجہد کی سچی تصویر دکھاتا ہے۔متوسط طبقے کی تصویر افسانہ ’’کلرک ‘‘ اور’’ اسکول ماسٹر‘‘ میں صاف دکھائی دیتی ہے حقیقت تو یہ ہے کہ اپنے موضوع کی تلاش ہر ماحول میں کر لیتی ہیں۔ بقول سہیل عظیم آبادی

’’وقت کے لحاظ سے موضوع پر افسانہ لکھنے والوں میں کرشن چندر کے بعد صدیقہ بیگم کا ہی نام آتا ہے۔ بہت سے مواقع پر جب ہمارے دوسرے فنکار خاموش رہے ہیں تو کرشن چندر نے ہماری رہنمائی کی ۔اپنی پوری قوت اور صلاحیت کے ساتھ۔اس لحاظ سے صدیقہ بیگم کی خدمات بھی نہیں بھلائی جاسکتیں۔ انہوں نے ہمیشہ وقت کی آواز پر لبیک کہا ہے اور جب بھی لکھا ہے پورے جوش کے ساتھ۔‘‘

(پیش لفظ پلکوں میں آنسوں۔سہیل عظیم آبادی ، ص11)

وقار عظیم  رقمطراز ہیں:

’’ صدیقہ بیگم موضوع کی تلاش میں مختلف دنیا کی سیر کرتی ہیں غریبوں کی بستیاں ،امیروں کے محل ، بنگال کے قحط زدہ علاقے،جذبات کی دنیا،ماضی کے تصورات ان مختلف فضائوں میں انھیں کبھی کبھی ایسی دنیا مل جاتی ہے جو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اپنی ذاتی دنیا ہے۔اس د نیامیں آکر ان کے بیان میں بھی جوش پیداہوجاتاہے  اور کہانی میں بھی کہانی کی بات پیدا ہو جاتی ہے ‘ ‘۔

 ( نیا افسانہ ،وقار عظیم،جناح پریس ،دہلی ، 1946،ص200)

تقسیم ہند اور اس کے بعد رونما ہونے والے فسادات کو صدیقہ بیگم نے اپنے افسانوں میں پورے فنی شعور کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں ان کے افسانے رقص بسمل، روپ چند، گوتم کی سرزمین، شیشے کے گھر، ’’پرائے دیس میں‘‘ شاہ کار افسانوں کی فہرست میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔قیامت خیز ہنگاموں کا بیان صدیقہ بیگم نے اپنے افسانے’’ گوتم کی سر زمین ‘‘ بہت موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ماضی اور حال کی تصویر اپنی پوری فنی مہارت کے ساتھ بیان کی ہے۔سیاسی رہنمائوں پر زبردست طنز بھی کیا ہے۔

        مختلف موضوعات پر دوسرے کئی افسانہ نگاروں نے افسانے لکھے۔ مثلاً منٹو، کرشن چندر، بیدی، عصمت چغتائی، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور وغیرہ ان کے علاوہ صدیقہ بیگم ہم عصر افسانہ نگار بانو قدسیہ، عصمت چغتائی ، قرۃ العین حیدر، ممتاز شیریں وغیرہ نے بھی عورتوں کے مسائل فسادات، تقسیم ہند قحطِ بنگال کے علاوہ دیگر موضوعات پر افسانے لکھے اور اپنا مقام حاصل کر لیا۔ لیکن ہمارے ناقدین نے صدیقہ بیگم سیوہاروی  پر اس طرح گفتگو نہیں کی جو دیگر افسانہ نگاروں کے حصے میں آئی۔ اس گفتگو میں دیگر افسانہ نگاروں سے صدیقہ بیگم سیوہاروی کا موازنہ مقصود نہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ انھیں وہ مقام و مرتبہ ضرور ملنا چاہیے جس کی وہ مستحق ہیں۔



Dr. Shadab Tabassum

23/14, Zakir Nagar,

Okhla, New Delhi-110025

Mob.: 09999149012



ماہنامہ خواتین دنیا، نومبر 2021

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں