17/3/22

مولانا ابو الکلام آزاد اور ہند کا اتحاد - مضمون نگار: پروفیسر رفعت جمال

 



شورش عندلیب نے روح چمن میں پھونک دی

ورنہ یہاں کلی کلی مست تھی خوابِ ناز میں

مولانا آزاد ہندوستان کی آزادی اور ایکتا کے علمبردار تھے وہ اسلامی تہذیب و تمدن کی عظیم دین تھے انھوں نے اپنے خیالات و جذبات کے ذریعہ ملک و قوم کی جو خدمت کی وہ قومی تاریخ کا اہم حصہ بن گئی۔ قومی اتحاد، وطن پرستی اور انسان دوستی کا درس دیا اور ملک کی تعمیر و ترقی میں وہ کردار نبھایا جس کی نظیر نہیں ملتی۔ وہ ایک قومی رہنما او رہندوستانی جنگ آزادی کے سچے سپاہی تھے ان کی روشن ذات زندگی بھر ہماری رہنمائی کرتی رہی۔ ہمیں حالات کے اندھیروں سے روشنی کی طرف لاتی رہی اور بھٹکنے سے بچاتی رہی۔ آج جبکہ ملک کی فضائیں مکدر ہو گئی ہیں ہماری زندگی کی کشتی یاد مخالف کے جھونکوں کی زد میں ہے۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا اور مولانا آزاد کی ذات سے روشنی کی کرنیں لینا پڑیں گی۔ ان کی اول پرستی کو اپنی زندگی میں اتارنا پڑے گا کیونکہ ان کی زندگی کا سب سے اہم پہلو ان کی اصول پرستی ہے انھوں نے اپنی زندگی میں جس نظریہ کو اہم سمجھا اس پر ہر ناگوار حالات میں ڈٹے رہے اور کہتے رہے کہ

’’حق و صداقت کا پیغام ہر مذہب میں ہے اسلام یہ نہیں سکھاتا کہ دوسرے مذہب والوں سے پُر خاش رکھو۔ غلامی بہت بڑی لعنت ہے اس کو مل جل کر مٹانا چاہیے اس کا جنازہ جب ہی نکلے گا جب ہر ہندوستانی اپنے آپ کو ہندوستانی کہے گا‘‘

آج ہم ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، جین پتہ نہیں کیا کہا بن گئے مگر کیا ہم فخر سے اپنے آپ کو ہندوستانی کہنے کے لائق بنے۔ موجودہ حالات میں جبکہ ساری دنیا میں انسانیت کا جنازہ نکل گیا ہے افرا تفری کا عالم ہے ہمیں ضرورت ہے کہ ہم سچے ہندوستانی بنیں۔ اپنے ملک سے پیار کریں۔ اپنی راشٹر یہ بھاشا کو اپنائیں۔ سچائی اور ایمانداری کو شعار زندگی بنائیں اور ایک اچھے انسان بنیں۔ جس کا درس قدم قدم پر ہمیں مولانا آزاد نے دیا تھا ان کے سیاسی سفر کا آغاز1912 میں ’الہلال‘ کے اجرا کو کہہ سکتے ہیں جس نے قومی شعور پیدا کیا اور سیاسی شعور کو بیدار کرکے ملک میں تہلکہ مچا دیا پھر کیا ایوان حکومت میں زلزلہ آ گیا جس وقت مولانا نے اپنے پرچہ کے ذریعے آزادی اور ہندو مسلم اتحاد کا غلغلہ بلند کیا اس وقت ہماری قومی تحریک ابتدائی مرحلہ میں تھی مولانا کے انقلاب و آزادی کا جو پر جوش نعرہ لگایا اس سے ہند کے بام و در لرز اٹھے اس کی گونج پورے ملک میں پھیل گئی کیونکہ انھوں نے انگریزو ں کے ظلم کے خلاف سارے ہندوستانیوں کو ایک قوم ہو جانے کا مشورہ دیا تھا ۔وہ مانتے تھے کہ حصول آزادی اور اس کی جدوجہد ان کا دینی اور ملی فریضہ ہے اور ہر مسلمان کو اپنے ہم وطنوں کے ساتھ اس آگ میں کود جانا چاہیے:

’’ آزادی کی راہ میں قربانی و جاں فروشی ان کا قدیم اسلامی ورثہ ہے ان کا اسلامی فرض ہے کہ ہندوستان کی تمام جماعتوں کو اس راہ میں اپنے پیچھے چھوڑ دیں۔ میری صدائیں بے کار نہ گئیں ۔ مسلمانوں نے اب آخری فیصلہ کر لیا ہے کہ اپنے ہندو سکھ، عیسائی اور پارسی بھائیوں کے ساتھ مل کر اپنے ملک کو غلامی سے نجات دلائیں‘‘(قول فیصل،ص100)

اپنے ہم وطن ہندوؤں اور دوسرے طبقوں کے ساتھ مل کر آزادی کی لڑائی لڑنے کے لیے مولانا آزاد نے جن باتوں کو اہم سمجھا ان میں مشترکہ تہذیب اور متحدہ قومیت کے بنیادی اصولوں کو اولیت دی۔ انگریزوں کی ’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی نے ہندو مسلم اور دوسرے طبقوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا تھا اب ملک کی سا لمیت کے لیے ضروری تھا کہ ہندوستانیوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جائے ۔ ان میں باہمی اتحاد کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ مشترکہ تہذیب کا احساس دلا کر ، متحدہ قومیت اور افادیت کا جذبہ پیدا کیا جائے۔

’’ عزیزو تبدیلیوں کے ساتھ چلو، یہ نہ کہو کہ ہم اس تغیر کے لیے تیار نہ تھے بلکہ اب تیار ہو جاؤ، ستارے ٹوٹ گئے لیکن سورج تو چمک رہا ہے، اس سے کرنیں مانگ لو او ران اندھیری راتوں میں بچا دو، جہاں اجالے کی ضرورت ہے‘‘

(خطبات ۔ اکتوبر1947)

 جب مولانا نے انقلابی غیر مسلموں کا اعتماد جیت لیا ان کی کوششیں رنگ لائیں او ران کی بدولت ہندو انقلابیوں کے ساتھ مسلمان انقلابی آملے اور یہ سلسلہ کلکتہ سے شروع ہو کر شمالی ہندوستان تک جا پہنچا۔ ان کی خفیہ میٹنگیں ہونے لگیں۔ بد گمانیاں دور ہوئیں تو خفیہ پروگرام تشکیل پانے لگے کیونکہ ہم وطنوں کے درمیاں دوریاں بنانے میں بڑی حد تک غیر ملکی حکمران کی حکمت عملی تھی۔ انھوں نے کہا تھا:

’’ میں مسلمانوں سے خاص طورپر دو باتیں اور بھی کہوں گا۔ ایک یہ کہ اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ پوری طرح متفق رہیں اوراگر ان میں سے کسی ایک بھائی یا کسی ایک جماعت سے کوئی نادانی کی بات بھی ہو جائے تو اسے بخش دیں … دوسری بات یہ ہے کہ مہاتما گاندھی پر پوری طرح اعتماد رکھیں۔ اور جب تک وہ کوئی ایسی بات نہ چاہیں (اور وہ کبھی نہیں چاہیں گے) جو اسلام کے خلاف ہو۔ اس وقت تک پوری سچائی اور مضبوطی کے ساتھ ان کے مشوروں پر کاربند رہیں۔‘‘

(ہفتہ وار اخبار پیغام، کلکتہ،16ستمبر1921،ص5)

اپنی اس مصلحت پسندی اور جادو بیانی سے مولانا آزاد نے ملک کے دو فرقوں کے درمیان ذہنی رفاقت اور اتحاد عمل پیدا کیا۔ تحریک آزادی کے یہ دو عظیم رہنما۔ گاندھی جی اور ابو الکلام آزاد اپنے اپنے میدان عمل میں مضبوطی سے جمے رہے کیونکہ مولانا آزاد اپنے صحیح العقیدہ مسلمان اور اسلامی تعلیم و تہذیب کا وارث ہونے پر ہمیشہ فخر رہا تو گاندھی جی ایک راسخ العقیدہ ہندو تھے لیکن دونو ںکو ملک و قوم کی اجتماعی زندگی میں حد بندیاں گوارہ نہیں تھیں وہ خود ہی حقیقت سے آشنا تھے اور اہل وطن کو باور کرانا چاہتے تھے کہ جس سر زمین کی آب و ہوا میں وہ سانس لے رہیں وہاں رونما ہونے والے حالات و واقعات دونوں طرف یکساں طور پر اثر انداز ہوں گے۔ ہم اپنی شخصی پہچان بنانے کے بعد بھی باہمی اتحاد و اعتماد حاصل کر سکتے ہیں اس احساس کو عام کرنے کے لیے انھوں نے مسلمانوں کی غیرت کو ان الفاظ میں للکارا:

’’اگر تم کہو کہ تاریخ ہند میں ہمارے لیے بھی شرف و عظمت کا باب ہوگا تو تم خاموش رہو اور مجھ سے کہو کہ میں اسے پڑھ دوں بے شک ایک باب ہوگا۔ مگر جانتے ہو اس میں کیا ہوگا کہ ہندوستان ملکی ترقی اور ملکی آزادی کی راہ میں بڑھا اور ہندوؤں نے اس کے لیے اپنے سروں کو ہتھیلی پر رکھا مگر مسلمان غاروں میں چھپ گئے۔ انھوں نے پکارا، مگرانھوں نے اپنے منھ اور زبان پر قفل چڑھا لیے … اس کے بعد آنے والا مورخ لکھے گا کہ بالآخر وہ سب کچھ ہو جو ہونا تھا۔ بیسویں صدی میں کوئی ملک غلام نہیں رہ سکتا او رنہیں رہا لیکن دنیا یاد رکھے گی کہ جو کچھ ہوا اس قوم کی سرفرازی سے ہوا جو مسلم نہ تھی۔‘‘

(ابو الکلام آزاد، سوانح حیات،عرش ملسانی،ص35-36)

ان الفاظ میں وہ غم و غصہ ہے جو اپنے ہم مذہبوں میں اس بصیرت کے فقدان کے رد عمل کے طو رپر انھیں بے چین کیے ہوئے تھا یہ بے چینی تو ایک ہندوستانی کی تھی او رایک مسلمان کی حیثیت سے بھی ان کے تصور میں اسلام صرف خدا شناسی کا پیغام نہیں دیتا بلکہ خود شناسی کا درس بھی دیتا ہے :

’’ میرا یہ اعتقاد اس لیے ہے کہ میں ہندوستانی ہوں اس لیے ہے کہ میں مسلمان ہوں، اس لیے ہے کہ میں انسان ہوں…… میرا اعتقاد ہے کہ آزاد رہنا ہر افرد اور ہر قوم کا پیدائشی حق ہے کوئی انسان یا انسانوں کی گھڑی ہوئی بیورو کریسی یہ حق نہیں رکھتی کہ خدا کے بندوں کو اپنا محکوم بنائے۔ محکومی اور غلامی کے لیے کیسے ہی خوشنما نام کیوں نہ رکھ لیے جائیں، لیکن وہ غلامی ہی ہے اور خدا کی مرضی اور اس کے قانون کے خلاف ہے پس میں موجودہ گورنمنٹ کو جائز حکومت تسلیم نہیں کرتا اور اپنا ملکی، مذہبی اور انسانی فرض سمجھتا ہوں کہ اس کی محکومی سے ملک و قوم کو نجات دلاؤں۔‘‘

اس کے لیے مولانا آزاد1920 سے پہلے آزادیٔ جمہوریت اور غیر فرقہ وارانہ سیاست کا علم بلند کر چکے تھے اور اپنے آدرشوں کی خاطر قید و بند کی سختیاں بھی جھیل رہے تھے وہ پہلے مسلم رہنما ہیں انھوں نے بھرپور قوت کے ساتھ ہندوستان کی متحدہ قومیت کا تصور پیش کیا اور عوام و خواص میں رائج کرنے کے لیے اپنی تمام ذہنی صلاحتیں صرف کردیں۔ ساتھ ہی عالمگیر انسانی اخوت و مساوات پر بھی زو ردیا ار مسلمانو ںکو یاد دلایا کہ خدا کے نزدیک ایک انسان کو دوسرے انسان پر یا ایک انسانی گروہ کو دوسرے انسانی گروہ پر برتری یا کوئی فضیلت حاصل ہو سکتی ہے تو صرف اس کے عمل صالح او رپاکیزہ کردار کی بدولت۔دوسری کوئی وجہ اس برتری کو قائم نہیں کر سکتی۔ انھوں نے مسلمانوں کو یہ بھی یاد دلایا کہ جس خدا پر وہ ایمان رکھتے ہیںاس کی صفت رب العالمین ہے او رجس پیغمبر نے اس خدا کا پیغام تم تک پہنچایا ہے وہ رحمت اللعالمین میں کرایا تھا۔ ترجمہ

اے پیغمبر ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام عالموں کے لیے رحمت بنا کر‘ خطبہ اتحاد اسلامی یعنی اسلام کا امن آتشی محبت و صلح اور بھائی چارہ کا پیغام تمام انسانیت کے لیے ہے ۔ یہ بات جتنی مولانا آزاد کے دور میں  اہم تھی اس سے کہیں زیادہ ہندوستان کی سیاست اور جنگ آزادی کے لیے اہم تھی چونکہ ہندوستان ذہنی غلامی کی زنجیریں کاٹ کر مذہبی اختلافات کے گمراہ کن حالات اور خوف وہراس کے ماحول سے نکل کر اتحاد، اتفاق، حب الوطنی اور آزادی کے نئے تصور میں داخل ہو رہا تھا۔ مولانا آزاد نے قومی ایکتا کے لیے جو خدمات انجام دیں وہ بڑی اہم ہیں قومی ماحول کو متاثر کرنے والے مولانا آزاد کے ان خیالات کے حقیقی معیار کو سمجھنے کے لیے ان کے ذہنی رجحانات کو اہمیت دینا پڑے گی۔ وہ بے پناہ ذہین اور غیر معمولی شخصیت کے مالک تھے انھوں نے ملک کے اہم سیاسی مسائل پر اپنا دائرہ فکر مرکوز کر دیا تھا ۔ وہ ان لوگوں کو منکرین حق قرار دیتے ہیں جو خدا کی عطا کر دہ عقل کو استعمال نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ:

’’ یہ اللہ کا ناقابل تغیر قانون ہے کہ اگر آپ اپنی آنکھیں نہیں کھولتے تو سمجھ لیجیے ان پر تاریک پردہ پڑ جائے گا۔ اگر آپ اپنے کانوں کا استعمال نہیں کرتے تو آپ بہروں کے مانند ہو جائیں گے اگر آپ سوچنے سے انکار کر دیتے ہیں تو آپ کے عقل کی روشنی خود بخود مدھم اور دھندلی ہو جائے گی۔‘ ‘

(خبر نامہ ،جون، ص17)

قوم و وطن کی فلاح و بہبود کے لیے مولانا اخبار نویسی اور پریس کو اہم ذریعہ اور وسیلہ مانتے تھے اور اس کے ذریعہ انھوں نے آزادی اور قومی یکجہتی کے پیام کو عام کیا اور اقوام عالم کو پوری انسانی برادری کا حصہ قرار دینا ایسے حالات میں جبکہ رنگ و نسل کی تفریق نے اس طرف متوجہ ہونے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی تھی مولانا آزاد نے کہا:

’’ ہماری ایک ہزار سال کی مشرک زندگی نے ایک متحدۂ قومیت کا سانچہ ڈھال دیا ہے ۔ ایسے سانچے بنائے نہیں جا سکتے، وہ قدرت کے مخفی ہاتھوں سے صدیوں میں خود بخود بنا کرتے ہیں۔ مگر اب ہم ایک ہندوستانی قوم اور ناقابل تقسیم ہندوستانی قوم بن چکے ہیں۔ ہمیں قدرت کے فیصلے پر رضا مند ہونا چاہے اور اپنی قسمت کی تعمیر میں لگ جانا چاہیے۔‘ ‘

مولانا آزاد ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے حامی تھے اور چٹان کے مانند مضبوط رہے اس بات پر ہم مذہبو ںکی برائی بھی لینا پڑی۔ ان کی ذات غیر معمولی علمیت کی حامی تھی جس پر کسی تعصب کا غلبہ کبھی نہیں ہونے پایا۔ ان کی شخصیت ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہندوستان کی اس گوناگوں تہذیب کی چھایا ملتی ہے جیسے بہت سے بیرونی دھاروں نے متاثر کیا تھا وہ ہندوستانی کلچر کے نمائندے تھے۔ انھوں نے ترجمان القرآن کے ذریعہ بتایا کہ بنیادی سچائیاں تمام مذاہب میں موجود ہیں۔ انھیں اس بات پر فخر تھا کہ وہ ایک ہندوستانی تھے اور ناقابل تقسیم ہندوستانی قومیت کے فرد تھے ۔ وہ کہتے ہیں:

’’ ہماری گیارہ صدیوں کی مشترک تاریخ نے ہماری ہندوستانی زندگی کے تمام گوشوں کو اپنی تعمیر سامانیوں سے بھر دیا ہے۔ ہماری زبانیں، ہماری شاعری، ہمارا ادب ہماری معاشرت، ہمارا ذوق، ہمارا لباس، ہمارے رسم و رواج، ہماری روزانہ زندگی کی بے شمار حقیقتیں، کوئی گوشہ بھی ایسا نہیں، جس پر اس مشترک زندگی کی چھاپ نہ لگ سکی ہو، ہماری بولیاں الگ الگ تھیں مگر ہم ایک زبان بولنے لگے۔ ہمارے رسم و رواج ایک دوسرے سے بیگانہ تھے، مگر انھوں نے مل جل کر ایک نیا سانچہ پیدا کر لیا‘‘

 آج کے بدلے ہوئے حالات میں ان الفاظ میں پوشیدہ پیغام ہم ہندوستانیوں کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا اس وقت تھا جب یہ الہامی الفاظ امام الہند مولانا آزاد کی زبان مبارک سے نکل رہے تھے ہم اپنی قسمت کی تعمیر میں لگے تو مگر زندگی کا مکاں کچھ اور بن گیا۔مقدر کے کھیل نرالے ہو گئے ملک کی فضائیں مکدر ہو گئیں ذہن غبار آلود ہو گئے ملک کی تقسیم کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ مولانا آزاد کسی قیمت پر ملک کی تقسیم نہیں چاہتے تھے۔ جب ملک تقسیم ہو گیا تو آزاد ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح منھ تکتے رہ گئے۔ بقول شاعر

میری نماز جنازہ پڑھائی غیروں نے

مرے تھے جن کے لیے رہے وضوکرتے

 

Prof. (Mrs.) Rifat Jamal

Dept. of Urdu, Women's College

B.H.U, Banaras-221005 (UP)





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں