21/3/22

مولانا عبدالماجد دریا بادی کی صحافت نگاری - مضمون نگار : سلیتہ جان

 



          مولانا عبدالماجد دریا بادی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے تنقید ، تفسیر ، ترجمہ اور شاعری کے ساتھ ساتھ صحافت کے میدان میں بھی ایک خاص مقام بنایا ۔ مولانا ایک بے باک صحافی تھے انھوں نے بِلا کسی ڈر کے حقائق کی پاسداری کی جس کی وجہ سے اُن کو بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ انھوں نے اس سلسلے میں بہت لڑائیاں بھی لڑی ۔ وہ صحافت کے اصولوں سے اچھی طرح واقف تھے ۔ اُن کی صحافت نگاری بے لوث اور با مقصد تھی۔ تحسین فراقی صاحب ان کی صحافت نگاری کے بارے میں اس طرح لکھتے ہیں:

’’ماجد کی شخصیت جس صداقت سے عبارت تھی اس کا اظہار ان کے ادب وانشائ اور ان کی دینی تحریروں کے علاوہ ان کی صحافت میں بھی اس بے باکی سے نمایا ں ہوا کہ تقسیم کے بعد کے ہندوستان میں بلاشائبۂ تردید کہا جاسکتا ہے کہ ان جیسا قلم اور ان جیسا دبنگ لہجہ کسی دوسرے مسلم قلم کار یا صحافی کو نصیب نہ ہوا۔ صحافت ان کے لیے عبادت تھی اور ان کے عبدِوعاجز ہونے میںکیا کلام ہے؟‘‘

(ڈکٹرتحسین فراقی ، مولانا عبدالماجددریابادی،احوال وآثار،ص:661)

          عبدالماجد دریا بادی نے اپنی صحافتی زندگی کی شروعات تب کی جب وہ صرف بارہ برس کے تھے۔اودھ اخبارکے ایک مراسلے سے انھوں نے شروعات کی۔عبدالماجدکی تحریریں تقریباََایک درجن سے زیادہ روزناموں،ہفتہ واراخبارات اور رسائل میںچھپتی تھیں۔اُردو کے علاوہ انگریزی اخبارات ورسائل میں بھی اِن کی تحریریں شائع ہوتی تھی مثلاً انڈین ڈیلی ٹیلی گراف،ایڈوکیٹ(لکھنؤ)نیچر(لندن)ایسٹ اینڈ ویسٹ (بمبیٔ)ماڈرن ریویو (کلکتہ) وغیرہ وغیرہ۔

          امرتسر سے دو مشہوراخبارـــــ’’ضیا اسلام‘‘اور’’ وکیل‘‘نکلتے تھے۔ وکیل میں ان کے دو مضامین’’محمدغزنوی‘‘اور’’ غذائے انسانی‘‘ شائع ہوئے۔فلسفے کے ساتھ ان کو خاص دلچسپی تھی۔انھوں نے مغربی فلسفیوں کی تنقید بھی کی۔علامہ شبلی کی مشہورکتاب ’’الکلام‘‘کی تنقید ’’طالب علم‘‘ کے نام سے ماہنامہ’’الناظر‘‘ میں قسطوں میں شائع ہوتی رہی۔مشہورروزنامہ ’’ہمدم‘‘صحافی سیدجالب دہلوی کی ادارت میں لکھنؤسے نکلتا تھا۔ عبدالماجد کی شہرت اُس وقت تک ایک صحافی کی حیثیت سے ہوگئی تھی۔’’ہمدم‘‘کے ایڈیٹرنے پہلی اشاعت کے لے ان سے طویل مضمون مانگا،اور اس کو شائع کیا،اس کے بعدماہ نامہ’’معارف‘‘میں کثرت سے نوٹ،تبصرہ اور ترجمے بھی کرتے رہے۔

          1919 میں عبدالماجدنے’’معارف‘‘میں مستقل شذرہ نگاری کا آغازکیا۔یہ شذرات اُن کی ’’سچی باتیں‘‘جو سچ،صدق اور صدق جدید کا مستقل کالم ہوا کرتا تھا،جس سے ہندوپاک کے بیشتراخبارات اور رسائل نقل کرتے تھے۔اس کے بعدمحمد علی جوہر کا اخبار ’’ہمدرد‘‘دہلی سے نکلنا شروع ہوا۔مولاناکے اصرار پر عبدا لماجد نے اس کے انتظامی اُمور میں حصہ لیناشروع کیا۔مولانا کے قلم سے کئی مضامین’’ہمدرد میں شائع ہوتے رہے۔شیرکی گرج،نہرورپوٹ خاص طور پرمقبول ہوئے۔’’ہمدرد‘‘ اور’ ’’حقیقت ‘‘کی نگرانی بھی کی ۔پھر اپنے تین ہفتہ واراخبارنکالے جن کاتعارف پیش کیا جارہاہے۔

          سچ ـ:جنوری 1925 میں مولاناعبدالماجد دریا بادی نے باقاعدہ طورپراپنی صحافتی زندگی کی شروعات کی۔’’الناظر‘‘کے ایڈیٹرظفرالملک علوی کے ساتھ ان کا دوستی کا رشتہ تھا،دونوں نے مل کرہفتہ وار ’’سچ‘‘ کا پہلاشمارہ جنوری1925 میں شائع کیا۔پہلے سچ کے ایڈیٹرظفرالملک تھے ۔ اگست1925 میں ظفرالملک اس کے مینجر اورعبدالماجد دریا بادی اس کے ایڈیٹربن گئے۔

          ’’سچ‘‘ایک قوم پرست اخبار تھا۔اس اخبار نے ہمیشہ تحریکِ آزادی کی حمایت کی۔اس اخبار میں اُن سارے جملوں کا جواب دیا جاتا جواسلام کے خلاف بولے جاتے تھے،مغربی تہذیب کے مضراثرات و رجحانات سے بچنے کی مسلمانوں کو تلقین بھی کی جاتی تھی ۔’’سچ‘‘میں ایک خاص کالم’’سچی باتیں‘‘کے نام سے لکھا جاتا تھا۔جس میں شدیدقسم کا طنز ہوتا تھا،دوسرے کیٔ اخبارنے اس عنوان کی نقل کی۔تحسین فراقی ’’سچ‘‘کے بارے میں اس طرح لکھتے ہیں:

ــ’’سچ‘‘کواپنی زندگی میں بڑی بڑی لڑائیاں لڑنی پڑیں۔ اصلاحِ معاشرہ، ردِّ بدعات، تجدید اور ترقی پسندی کی مخالفت اس کے چند خاص موضوعات تھے۔فتنۂ انکارِحدیث کا مقابلہ بھی  اس پرچے نے خوب کیا۔‘‘         

(ڈکٹرتحسین فراقی ، مولانا عبدالماجددریابادی،احوال وآثار،ص:669)

          ’’سچ‘‘ کے بیشتر مشمولات عبدالماجد خود لکھا کرتے تھے ۔اس میں حالات حاضرہ کے ساتھ ساتھ مسائل پر بھی تبصرے ہوا کرتے تھے۔ ان اخبارات کی سُرخیاںدلچسپ اور جاذب نظر ہوتی تھی ۔اہل علم کے مقالے اور مراسلے بھی شائع ہو تے تھے ۔اس نے تعلیم یافتہ لوگوں کے دلوں میں مغربی تہذیب و تمدن کی سطحیت،بے وقعتی اور تحقیر پیدا کی ۔جس سے قومی تحریکات اورملی مفادات کو بڑا فائدہ ہوا اور یہ اخبار برطانوی حکومت کی نظروں میں کھٹکتے تھے جس وجہ سے جولائی1930 میں بعض مضامین کی اشاعت پر یوپی حکومت نے ’’سچ‘‘سے ضمانت طلب کی ،اور تقریباََ چار مہینے تک اس کی اشاعت موقوف رہی ۔نومبر 1930 میں اس کی دوبارہ اشاعت شروع ہوئی ۔

          ’’سچ‘‘میں جہاںمغربی تہذیب وتمدن کے بُرے اثرات دکھائے گئے وہیں انشائے ماجدی کی دلآویزی اور مذہب اسلام کی صحیح تعلیم،وطن پرستی کے علاوہ تعصبات،ترجیحات اور ذاتی پسندو ناپسند سے اوپر اُٹھ کر حقائق و انصاف کے ساتھ مناقشوں اور مباحثوں کو شائع کیا جاتاتھا۔’’سچ‘‘ کے متعلق عبدالعلیم قدوائی اس طرح اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں:

’’ سچ میں انشا  ماجدی کی دلآویزی کے ساتھ صحیح مذہب،وطن دو ستی اور علم و اخلاق کی مستندقدریںملتی ہیں۔اس پرچے نے اردو صحافت میں حق گوئی،علم دوستی اور حقیقی تنقید کی نظرقائم کی۔سلیس و عام فہم عبارت،بلیغ وبرجستہ سُرخیوں اور مصرعوں کے استعمال سے اس کا علمی و اونچارتبہ بہت بلند ہوگیا تھا۔اس کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ ولایتی اخبارات و رسائل اورمذہبی وعلمی کتابوں سے اخذکردہ صحیح معلومات پڑھنے والوںکوفراہم کی جاتی تھیں اورذاتیات وشخصیات سے الگ رہ کرانصاف و توازن سے مباحثوں اورمجادلات میں حصہ لیا جاتا تھا۔‘‘

(عبدالعلیم قدوائی،مولانا عبدالماجددریابادی حیات و خدمات، ص:152)

          جس زمانے میں ’’سچ‘‘کااجرا ہوا، اُس وقت مسلم قوم تعلیمی و اخلاقی اعتبارسے پسماندگی کا شکار تھی۔ عورتوں کے شرعی حصہ دینے، عقدبیوگا ن اورشادی بیاہ فاتحہ وغیرہ میں فضول رسومات کاعمل جاری تھا۔ ’’سچ‘‘میں ان خرابیوں کے خلاف آواز بلند کی گئی، اور مسلمانوں کو صحیح راستہ دکھانے کی کوشش کی گئی  ۔ سچی باتیں کا ایک اقتباس اس طرح ہے:

’’اسراف کے پہلوکو چھوڑ کر بھی دیکھیے، توکسی حیثیت سے ان رسموں کو آپ مفید پائیں گے؟سرمایا کی فراہمی میں کس قدردقتیں اُٹھانی پڑتی ہیں،کتناضروری کاموں کا ہرج ہوتا ہے،خواہ مخواہ قرض لینا پڑتاہے ،گھر کی جائیدادخطرہ میں پڑتی ہے،سودی دستاویزلکھ کر خُدا کی سخت ترین نافرمانی کا عذاب مول لیناپڑتا ہے اور ان تمام زحمتوںاور گناہوں کے باوجود مہمان اور اہل برادری پھر بھی خوش نہیں ہوتے۔ کوئی صاحب کھانے میں نقص نکالتے ہیں،کسی کو کپڑے زیور کی کمی پر اعتراض ہوتاہے،کوئی صاحب بد انتظامی پراعتراض کرتے ہیں۔’’ نقصان مایہ‘‘ تو پوری طرح ہوتا ہی ہے ساتھ ہی ’’شماتت ہمسایہ‘‘کا پورا حصہ مل جاتاہے۔ کیا ایسی شادیاں کبھی آئندہ چل کرباعث برکت ثابت ہوسکتی ہیں۔ ‘‘

(نعیم الرحمٰن صدیقی،مرتب سچی باتیں،جلد اول،ص:34)

          نیازفتح پوری نے اپنے رسالہ’’نگار‘‘میں مذہب ،آخرت یہاں تک کہ ذات باری تعالی پر بھی نازیباحملے کیے،مسلمانوں کے اعتقادکا مذاق اُڑایا تھا۔مولانا نے ’’سچ‘‘میں اس کی زبردست گرفت کی،1931 میں انھوں نے ’’سچ‘‘میں ایک طویل مضمون’’ایک دشمن اسلام‘‘کے عنوان سے لکھااور پورے ملک کے مسلمانوں کو اس مذموم حرکت کے خلاف بیدارکیا اور اس حرکت پر پورے ملک کے مسلمانوں نے ایک ہو کر احتجاجی مظاہرے کیے۔ آخرکارنیازفتح پوری کو معافی نامہ داخل کرانا پڑا۔ 1932 میں ترقی پسند مصنفین نے انگارے کے نام سے افسانوی مجموعے کی اشاعت کی ۔جس میں فحش الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔اس میں ذا ت باری ،فرشتوں اور مذہب کی شان میں گستاخی کی گئی تھی۔1933  میں مولاناعبدالماجد نے ’’سچ‘‘میں اس کتاب کے بارے میں ایک مضمون لکھا اور اس کتاب کا عنوان ’’ایک شرم ناک کتاب‘‘رکھا۔دوسرے اخبارات جیسے خلافت،معارف اور سرفراز وغیرہ نے بھی پھر اس کتاب کے خلاف لکھنا شروع کیا۔

           صدق ـ:مئی 1935 میں مولانا عبدالماجد دریا بادی نے ’’صدق‘‘ لکھنؤ سے نکالا۔شروع میں عبدالرؤف عباسی ا س کے منیجر تھے اور مولانا ماجد بدستور ایڈیٹررہے۔ بعد میں مولانا کے بڑے بھتیجے اور دامادحکیم حافظ عبدالقوی اس کے مستقل منیجر بن گئے۔

          مشمولات اور سائز میں ’’صدق‘‘ ،’’سچ‘‘ کا نقش ثانی اور نعم البد ل تھا، مگر ’’ صدق ‘‘ میں چند سالوں کے بعد تفسیر قرآن کے کالم کے ساتھ ساتھ مشورے و گزارش کے کالم کا اضافہ بھی کیا گیا۔ اس کالم میں مختلف قسم کے سوالات کا جواب اور مسائل کے حل پیش کیے جاتے تھے۔ مولانا کواس کالم سے دلچسپی تھی عالموں اور ادیبوں کے مضامین بھی شائع ہوتے رہتے جیسے سید سلمان ندوی ، مناظر احسن گیلانی اور مولانا سید ابولاعلی مودودی وغیرہ۔

          ’’صدق‘‘ کو بھی سچ کی طرح کئی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن مولانا نے کبھی سچ کا دامن نہیں چھوڑا جس کی بدولت بہت سے مخالفین بھی پیدا ہو گئے۔ مولانا کے مخالف بعض اخبار و رسائل بھی رہے۔ خاص طور پر حیات اللہ انصاری (مدیر) نے’’ قومی آواز‘‘  میں مولانا پر اور صدق پر یہ الزام لگایا کہ مولانا دو قومی نظریہ اور مسلم لیگ کے حامی ہیں اور ہندوستان کے بد خواہ۔ مولانا عبدلما جد نے ان اختالافات کو بھی ذاتی دشمنی کا رنگ نہیں دیابلکہ ان سے دوستانہ تعلق برابر قائم رکھا۔

          مولانا عبدالماجد نے’’صدق‘‘ میں نئی طبع شدہ مذہبی، ادبی کتابوں پر تبصرے’’ نئی کتابوں‘‘ کے عنوان سے شائع کئے ۔مولانا کے یہ تبصرے علمی، ادبی، مذہبی اور تنقیدی اعتبار سے اہم ہوتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریڈیائی نشریے بھی شائع ہوتے تھے اس اخبار میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، ندوۃ العلمائ، دارالمصنفین اعظم گڑھ، انجمن ترقی اردو غیرہ کے بارے میں اطلاعات اور ان کمیٹیوں کاحال شائع کیا جاتا تھا۔ اس میں اشتہارات سفر حج کے علاوہ دینی کتابوں پر تبصرے بھی ہوتے تھے۔

          زبان وبیان،لغت وقواعد،فلسفہ وغیرہ سے مولانا کوخاص دلچسپی تھی۔ انھوں نے مولوی عبدالحق کی مرتب کردہ انگلش اردو لغت  کے علاوہ دوسری علمی و ادبی کارنامے انسائکلوپیڈیا جیسی اہم تصانیف کے تعارف کے علاوہ تبصرے بھی ’’صدق‘‘میں پیش کیے۔ ’’صدق‘‘ کی مالی حالت اگرچہ پہلے سے ہی کمزور رہی لیکن ملک کی تقسیم کے ساتھ ہی اس کے خریداروں کی تعداد بھی کم ہو گئی ۔پاکستان کی مالی بندش کی وجہ سے ’’صدق‘‘کا مالی ربط بھی ٹوٹ گیا۔کاغذ،چھپائی کمتر ہونے کے ساتھ ساتھ پریس کی خرابی کی وجہ سے پرچے کو خاصی دشواری کا سامنا رہا۔ حضرات مالی امداد بھی کرتے رہے۔خریداروں کے اضافے کی مہم چلائی گئی،مالی تعاون کی اپیل بھی جاری کی گئی،مگر کوئی خاص فرق نہیں پڑا ۔

          عبدا الرؤف عباسی نے جب دیکھا کہ اخبارکو مالی دشواری کا سامنا ہے تو انھوں نے بڑھتے ہوئے نقصانات کے تحت پرچہ جاری رکھنے سے معذرت کی ۔ اِس دوران مولانا عبدالماجد کو یہ خیال آیا کہ پرچہ کو اس مرتبہ براہِ راست ذاتی انتظام و انصرام میں شائع کیا جائے۔اس سلسلے میں انتظامی امورکی ذمہ داری مولاناکے بڑے بھتیجے اور داماد حکیم عبدالقوی دریابادی کو دی گئی انھیں منیجر اور نائب مدیر دونوں مقررکیاگیا۔ اخبار کی تیاری،چھپائی،روانگی اور دفتری کاموں کی ذمہ داری محمدمعین اور حساب کتاب کی ذمہ داری علی احمد سندیلوی کو دی گئی۔ پرچے کے نام کا سوال پھر سے پیدا ہو گیا۔ ظفرالملک کی طرح اس مرتبہ مہتمم عبدالرؤف عباسی نے ’’صدق‘‘نام کو اپنی ملکیت بتایا اور کوئی بھی دستاویز یا رجسٹر دینے سے انکار کیا۔ مولانا اس کے بارے میں ’’آپ بیتی‘‘میں یوں لکھتے ہیں:

’’نئے پرچے کے نام کا سوال قانونی حیثیت سے پھر پیدا ہوا،اور اب مہتمم صاحب صدق کے نام کو اپنی ملکیت بتایا،مجبوراََضابط کانام صدق ’’جدید‘‘رکھناپڑاِاورپہلا پرچہ چند ہی ہفتہ کے اندر شروع دسمبر50 میں نکل گیا۔ دفتر سابق سے کاغذ وغیرہ کسی قسم کی کوئی چیزنہ ملی۔ ‘‘

(مولانا عبدالماجددریابادی،آپ بیتی،ص:225۔224)

رسالہ ’’صدق‘‘کی عمر ’’سچ‘‘ کے مقابلے میں کا فی طویل رہی، 1950 تک وہ شائع ہوتا رہا۔ 

          صدق جدید :مولانا عبدالماجد دریا بادی نے 1950 میں ’’صدق جدید‘‘کے نا م سے ایک ہفتہ وار اخبار جاری کیا۔ ملک کی آزادی کے بعد اردو صحافت میں ’’صدق جدید‘‘نے ایک منفرد مقام بنا لیا۔ عوام وخواص دونوں میں یہ اخبار بڑامقبول ہوا۔ اس کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ مولانا کی انشاپردازی ،اسلوب نگارش ،طنزوظرافت،شگفتہ نگاری اور ریایت لفظی وغیرہ تھی۔ مولانا عبدالماجد علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کے بقائ و تحفظ ،تعمیری واصطلاحی ادب ،ہندومسلم یکجہتی، مسلمانوں کے اتفاق کے لیے ایک سچے اور با اصول صحافی کی طرح جدوجہد کرتے رہے۔ ’’صدق جدید‘‘ کا سب سے اہم کار نامہ یہ بھی ہے کہ اس نے مجبور ،محکوم،مسلم اقلیت اور اردو زبان ادب اور مشرقی تہذیب و اقدار کی تر جمانی کے علاوہ تحفظ کا فریضہ بحوبی ادا کیا۔

          مولانا عبدالماجد دریا بادی کو اردو زبان سے بہت لگاؤ تھا۔ جو لوگ اُردو کو مسلمانوںکی زبان سمجھ کراس پر اُنگلی اُٹھاتے تھے، مولانا نے ان کو ’’صدق جدید‘‘میں راہ راست پر لانے کے لیے کئی تحریریں ’’سچی باتیں‘‘ کے کالم میں شائع کی۔ جس میں اُنھوں نے اس بات پر زور دیاکہ اُردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں بلکہ ہندوستان کی زبان ہے ،اور یہ ملی جلی تہذیب و تمدن اور ہندو مسلم اتحاد کی نشانی ہے۔یوپی میں جب اُردو اکیڈمی کی بنیادپڑی تو مولانا نے حکومت کے اس فیصلے کو ’’صدق جدید‘‘میں کافی سراہا اور ابتدا میں اکیڈمی میں ایک رکن کی حیثیت سے جلسوں میں پابندی سے شریک ہوئے ۔

          ’’صدق جدید‘‘کثرت سے خریدا گیا۔  اس کے خریدنے والے تو زیادہ ظاہر ہے مسلمان ہی تھے مگر ہندو بھی خریدار تھے۔ ملک اور بیرون ملک کے رسالوں اور اخباروں کی طرف سے مولانا کو مضمون لکھنے کی فر مائش آتی رہتی ۔ پرچہ کی ار ادی ، شعوری ،دانستہ کو شش ہر دور میں دین کو بلند کرنے کی رہی ۔ مولانا اپنے اخبار کی پیشانی پر جس آیت کو نقل کیا کرتے تھے  یہی آیت ان کی زندگی کا نسب العین قرار پائی تھی ۔ مولانا پوری زندگی سچ کو سچ ہی کہتے رہے ۔ انھوں نے خود کہا صحافت تجارت نہیں عبادت ہے خود یہ بھی کہا ہے کہ سچائی اور دیانت داری کے راستے میں بڑی مشکلات کا سامنا ہے ۔انھوں نے صحافت کو اصلاح اور تعمیری و ترقی کا ذریعہ تصور کیا، قلم کا استعمال ایمانداری سے کیا۔

          مخصوص اسلوب اور منفرد تحریر انداز کے علاوہ ان کے اخبار کی سُرخیاں بھی بڑی دلچسپ اور پُرکشش ہو تی تھیں چند سُرخیاں اس طرح ہے،ہاتھ نکلے اپنے دونوں کام کے،کٹے زبان تو خنجر کو مرحبا کہیے ،کفر ٹوٹا خداخدا کر کے،اس کافر کی ادا یادآئی۔سارے گلے تمام ہوئے اک جواب میں ،کیا یہ نمرود کی خدائی ہے وغیرہ وغیرہ۔

            مولاناعبدالماجد دریا بادی بے باک تھے اُن کی شخصیت کا خاص پہلویہ تھاکہ وہ حقائق کو بیان کرنے میں دوست اوردشمن کا لحاظ نہیں کرتے تھے۔ بلکہ ’’سچ‘‘کا ساتھ دیتے تھے۔مولانا نے ہمیشہ اپنا قلم سچائی،دوسروں کی بھلائی اور قوم کی بیداری کے لیے اُٹھایا۔ ’’سچ‘‘ سے ’’صدق جدید‘‘ تک پہنچتے پہنچتے ان کا صحافتی قلم درجہ کمال تک پہنچ چکا تھا۔

 

 

Ms. Saleeta Jaan

Safapura

Gandarbal- 193504(J & K)

 saleeta121@gmail.com

               




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں