21/3/22

ناول ‘کہانی کوئی سناؤ متا شا’ کا تجزیاتی مطالعہ - مضمون نگار : ڈاکٹر صابرہ خاتون حنا


 


ناول’کہانی کوئی سناؤ متاشا‘ ڈاکٹر صادقہ نواب سحر کا پہلا ناول ہے جس کی اشاعت 2008 میں ہوئی اور اب تک اس کے تین ایڈیشن (دوسرا2013 اورتیسر2021) میں شائع ہوچکے ہیں جو اس ناول کی مقبولیت کی دلیل ہے۔کہا جا تا ہے کہ ناول ایک ایساآئینہ خانہ ہے جس میں زندگی کے سارے روپ دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایچ جی ویلز کے مطابق’اچھے ناول کی پہچان حقیقی زندگی کی پیشکش ہے۔‘ اس تناظر میں زیر نظر ناول کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ حقیقی زندگی میں بطور خاص متوسط طبقہ کو جس طرح کے حالات سے نبرد آز ما نا ہوناپڑتا ہے اس ناول میں اس کی خاطر خواہ عکاسی کی گئی ہے۔ اس کا پلاٹ بہت ہی گتھا ہوا اور بیانیہ مضبوط ہے اور ایک کے بعد ایک قصّے کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ کہیں بھی کسی جوڑ یا پیوند کاری کا احساس تک نہیں ہوتا، واقعات بڑے ہی فطری اور منطقی انداز میں تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں، حالانکہ یہ کہانی بظاہر ایک کردار متاشاکی ہے مگراس متاشا کی زبانی اڑیسہ،کو لکاتا، علی گڑھ،الہ آباد، بمبئی،پونے اور کئی چھوٹے چھوٹے قصبوں اورشہروں کے ساتھ ساتھ بے شمار کرداروں کی کہانیاں بھی زیب ِداستاں ہوگئی ہیں جس کی وجہ سے پلاٹ بھی اکہرا یا سادہ نہیں بلکہ مرکب ہو گیا ہے پھر بھی فاضل مصنفہ نے اس مرکب پلاٹ کو بھی بہت ہی کامیابی سے برتا ہے اور اس کی فنکارانہ ترتیب میں کامیاب رہی ہیں- جہاں تک ناول کے ایک اور جزقصہ یا کہانی کا سوال ہے تو یہ قصہ کہانیوں سے ہی بنا ہوا ناول ہے جنھیں چھوٹے چھوٹے عنوانات کے ذریعہ جوڑ کر اس ناول کی تکمیل کی گئی ہے بلکہ اگر عنوانات پر ہی غور کریں توکم و بیش ہرایک کے بطن سے ایک کہانی کا جنم ہوتا نظر آئے گا۔ پہلے ہی عنوان ’شاستری‘کو دیکھیں ’میرے پردادا کے پر دادا جگن ناتھ پوری مندر میں شاستری تھے‘ اور ’نانیہال‘ کا ابتدائی جملہ کچھ اس طرح ہے کہ ’میرے ناناکے پر نانا قنوج کے برہمن تھے اور زمیندار بھی‘ پورا منظرنامہ آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ ایک طرف اڑیسہ اور دوسری طرف مغربی بنگال، پھر دونوں خاندانوں میں دھرم پر یورتن،برہمن سے عیسائی بننے کا دورانیہ، اسباب، نتائج، زمینداری کا خاتمہ، کاروبار اور پھرمتاشا کے دادیہالی اور نانیہالی خاندان جو دو مختلف تہذیبی دھارائوں کے امین ہونے کے باوجود ایک خاص نقطہ پر ایک دوسرے سے مل کرسمبندھی بن جاتے ہی اور اس فطری سنگم کے بعد ان کے یہاں پہلی  اولاد متاشا ہوتی ہے، بس یہیں سے اس بھرے پُرے اور بظاہر مہذب خاندان کی قلعی کھل جاتی ہے، جب بیٹی کی پیدائش پر ناول نگار کے قلم سے یہ جملہ خون بن کر ٹپکتا ہے۔ ’میرے پا یا کولڑکیوں سے بڑی نفرت تھی۔‘اور اس کے بعد سے ہی اصل کہا نی کی ابتداہو جاتی ہے جوقدرتی بہائو کے ساتھ بڑی ہی خوبصورتی سے کچھ اس طرح آگے بڑھتی ہے کہ پڑھنے والوں کواس پرسچ کا گمان ہونے لگتا ہے، حالانکہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات ہی دراصل کسی بھی کہانی کے محرک بنتے ہیں لیکن ان واقعات میں رنگ آمیزی اور حقیقی مشابہت کی ذمہ داری فنکار کی ہوتی ہے۔متاشاکی یہ کہانی دردسے عبارت ہے مگراس  دردکوسینے میں چھپائے وہ زندگی کے ہر میدان میں بلا خوف و خطردوڑتی ہے یا یوں کہیں کہ ہر طرح کے مسائل کامردانہ وار مقابلہ کرتی ہے۔ اب اس کی ذات کے گرد گردش کرتے یہ لوگ اورپھر ان لوگوں کی اپنی اپنی کہانیاں یہ سب مل کر ناول کی دلچسپی میں اضافے کا سبب بنتی ہیں اور قاری بغیر رکے تجسس کے ساتھ ناول کی قرأت میں مصروف رہتا ہے۔ صادقہ نواب نے بلاشبہ اس ناول میں افسانویت یا کہانی پن پر خصوصی توجہ دی ہے اور اسے برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں۔ بقو ل سلام بن رزاق:

’’میرینزدیک فکشن کی پہلی شرط اس کا مطالعاتی وصف ہے اور یہ وصف ’کہانی کوئی سناؤ متاشا‘میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔اپنے تخلیقی اظہار،رواں دواں بیانیہ اور حقیقی کردار نگاری کے سبب یہ ناول شروع سے آخر تک قاری کو نہ صرف  باندھے رکھتا ہے بلکہ ورق ورق اس کے اندر ایک دبی دبی سی کسک کا احساس بھی پیدا کرتا ہے، ناول کا مرکزی کردار ’متاشا‘ پورے ناول میں لہر لہر ڈوبتی اور گھاٹ گھاٹ ابھرتی ہے۔ناول ختم ہو جاتا ہے مگر ’متاشا‘قاری کے ذہن پر دیر تک دستک دیتی رہتی ہے‘‘

(بحوالہ کتاب ’کہانی کوئی سناؤمتاشا‘کے بیک کور کی رائے)

واقعی ’تخلیقی اظہار،رواں دواں بیانیہ اور حقیقی کردار نگاری‘اس ناول کی جان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ناول ختم ہو جاتا ہے مگر ’متاشا‘ قاری  کے ذہن پردستک دیتی رہتی ہے۔        دراصل’متاشا‘ہمارے سماج کی صد فیصد نہ سہی نوے فیصد عورتوں کی مماثل ضرور ہے۔ صادقہ نواب نے بڑی ہی چابک دستی سے اس کردار کو خلق کیا ہے۔ وہ بچپن ہی سے مظلوم ہے،باپ کی نفرت اور ماں کی مار کھا کھا کر بڑی ہوئی ہے،اس کی خوبصورتی کی وجہ سے دادی کاپیاراس کے حصے میں آتا ہے مگر وہی خوبصورتی اس کے لیے دشواریوں کے پہاڑ بھی کھڑے کرتی ہے اور کبھی وہ سڑک چھاپ مجنوئوں کے رکیک ریمارک کا سامنا کرتی ہے تو کبھی اپنے باپ کے دوست موریشور کاکا کی ہوس کا نشانہ بنتی ہے،یہی نہیں وہ یوراج اور بھرت سے شادی نہ کرنے کا اصرار کرکے اپنے باپ کے ہاتھوں ذلیل و خوار بھی ہوتی ہے اور ماں سمیت گھر بدر بھی ہوجاتی ہے، اس کا عاشق پربھاکر بھی اس سے نفرت کرنے لگتا ہے اور و ہ لوگ دربدر کی ٹھوکریں کھاتے بالآخر علی گڑھ پہنچتے ہیں جہاں اس کا اپنا ’سوریہ کاکا‘ہی اس کی عزت کے درپے ہوجاتا ہے۔گھر اور بچوں کی کفالت کے لیے ماں سلائی کرنے لگتی ہے تو متاشا بھی ایک اسکول سے جڑجاتی ہے لیکن بدقسمتی وہاں بھی پیچھا نہیں چھوڑتی اور آخر وہ اپنے بھائی پرسادکے ساتھ ممبئی ایک رشتہ دار کے یہاں ٹھہر کر نوکری کی تلاش میں لگ جاتی ہے کچھ دنوں بعد رشتہ داروں کے یہاں سے بھی نکال دیا جاتا ہے اور وہ دونوں بھائی بہن اسٹیشن پر پناہ لینے پرمجبورہوجاتے ہیں۔ کئی بار نوکری ملتی اور کسی نہ کسی بہانے چلی جاتی، اسی طرح ڈوبتے ابھرتے پانچ بچوں کے باپ گوتم سے ملاقات ہوتی ہے جو کسی مسیحا کی طرح اس کے سامنے آتا ہے۔ دونوں کے درمیان ایک دوسرے کے خاندان کو سنبھالنے کے وعدے ہوتے ہیں، قسمیں کھائی جاتی ہیں، بالآخر متاشا اس ادھیڑ عمر شخص سے شادی کر لیتی ہے اور ایک بچے دیپیش یا دیپو کو جنم دیتی ہے۔ یہ گوتم کے پانچ بچوں اور اس کے بھانجوں کو بھی سنبھالتی ہے جبکہ گوتم وعدے کے مطابق اس کے بھائیوں کی تعلیم اور پھر ان کے روزگار پردھیان دیتا ہے، سب کچھ ٹھیک چل رہا ہوتا ہے کہ درمیان میں ’موریشور‘وہاں پہنچ کر اس کا گھر توڑنے کی کوشش کرتا ہے مگر تھوڑی تلخی کے بعدسب کچھ ٹھیک ہوجاتا ہے۔ بالآخر چند برسوں کے بعد گوتم کی موت واقع ہوجاتی ہے اور متاشا کے سوتیلے بچے، اس کے اپنے بھائی بھاوج، سبھوں کا رویہ اس کے ساتھ ظالمانہ ہونے لگتا ہے اور وہ پھر سے اسی مقام پر آجاتی ہے جہاں سے اس نے زندگی کی شروعات کی تھی،دکھوں کی اتھاہ گہرائی اسے ہر طرف سے گھیر لیتی ہے مگر وہ ہمت نہیں ہارتی اور اپنی بچی کھچی طاقت کو مجتمع کرکے ایک بار پھر اٹھ کھڑی ہوتی ہے،سوتیلے بیٹے انکت اور اپنے بھائی کے ساتھ مل کرگوتم کے کاروبار کو سنبھالنے کی کوشش کرتی ہے مگر انکت کے مکر و فریب اوراس کے ظلم وستم سے تنگ آکر اپنے بیٹے دیپو کے ساتھ دور ایک گائوں میں چلی جاتی ہے حالانکہ ابھی اس کے امتحان  کے دن باقی تھے دیپو غلط صحبت میں پڑکر نونیتا کو بن بیاہی ماں بنا دیتا ہے اور خود نشہ کرتے ہوئے سخت بیمار پڑ جاتا ہے۔نونیتا روتی ہوئی اس کے پاس آتی ہے جسے دلاسہ دے کر اس کے بچے کی پرورش کی ذمہ داری بھی وہ خود ہی لے لیتی ہے تاکہ وہ آزادانہ طورپر کسی اور کے ساتھ اپنا گھر بسا سکے۔ یہاں ناول اپنے اختتام کو پہنچتا ہے مگر اس کا اختتامی جملہ ’اب کیسے جاؤگی دادی‘، ان ان دیکھی بیڑیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جن کی وجہ سے متاشا کو پھرسے زندگی کی طرف لوٹنا پڑتا ہے اور وہ اپنے بھائیوں،سوتیلے بچوں،بھانجوں اور اپنے بیٹے دیپو کی پرورش کرنے کے بعد اس کے بچے کی پرورش کا بار بھی اٹھانے کو تیار ہوجاتی ہے۔ متاشا کی شکل میں ناول نگارنے ایک بہت ہی فعال، متحرک اور پیچیدہ کردار کی تخلیق کی ہے جو ہمیشہ تغیر پذیر ہے، وہ متاشا جو چاع سال کی عمر میں ہی مار پیٹ کے ڈر سے جھوٹ بولنا شروع کرتی ہے اورزمانۂ طالب علمی میں اسی کے سہارے اپنی کئی غلطیوں کی پردہ پوشی کرتی ہے، وہ بالآخرعمر پختہ ہونے پر اس جھوٹ سے اپنا پیچھا چھڑا لیتی ہے، اس طرح وہ بزدل لڑکی دھیرے دھیرے اتنی سخت جان ہوجاتی ہے کہ زندگی کے سردو گرم کابڑی ہی ہمت اور استقلال کے ساتھ سامناکرتی ہے اور حرف شکایت تک زبان پر نہیں لاتی یہ اور اس طرح کی ڈھیروں تبدیلیاں اس کے اندر رونما ہوتی رہتی ہیں جواس کردار کے ارتقائی سفر کی دلیل ہیں اور یہ ثابت کرتی ہیں کہ یہ کردار جامد نہیں۔کچھ ایسے بھی کردار ہیں جو وقت کے ساتھ تبدیل تو نہیں ہوتے مگر اپنی خصوصیات کے ساتھ پوری کہانی میں اپنی موجودگی کا ثبوت دیتے ہیں جیسے’موریشور کا کا‘ کاکردارجو اپنی خباثت کے ساتھ آخری حد تک چلا جاتا ہے اور ممبئی کا ہوائی سفر صرف اس لیے کرتا ہے تاکہ وہ متاشا کا ماضی سامنے لاکر اس کے بسے بسائے گھر کوبرباد کرسکے۔ متاشا کی ماں کا کردار بھی اپیل کرتا ہے، وہ شروع ہی سے سخت جان تھی، اس کے والد کی ڈانٹ،جھڑکی، غصہ اور مارپیٹ کا شکار ہوتی مگر اُف نہ کرتی، شوہر کی اطاعت اور ساس کی خدمت کو اپنا وطیرہ جانتی، تین سال کی عمر سے ہی بیٹی پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کردیں، ضرورتاًپٹائی بھی کرتی مگر پربھاکر  والے معاملے میں جب شوہر کے ظلم اور بیٹی کی مظلومیت کا اندازہ ہوا اور بھرت جیسے بے جوڑ شخص سے جب شادی کی بات آئی تو متاشا کی مرضی کے خلاف جانے سے انکار کردیا اور نتیجتاً ساس اور بچوں سمیت گھر چھوڑنے پر مجبور ہوگئی، وہیں سے اس کا رشتہ متاشا کے ساتھ سہیلیوں جیسا ہو گیا اور آخر آخر تک اس نے متاشا کا ساتھ نبھایا۔ متاشاکے باپ کابھی رویہ عجیب تھا،بیٹی سے نفرت کی تو اس قدر کہ ساری زندگی اس کے خلاف رہااور اس پر طرح طرح کی الزام تراشیاں کیں، یہاں تک کہ جان بوجھ کر ایسے حالات پیداکیے کہ وہ موریشور کی ہوس کا شکار ہو گئی،پربھاکر کو بھی اس سے بد ظن کر دیا اور مرنے سے پہلے جب اپنی غلطی کا احساس ہوا توبیٹی کے آگے ہاتھ جوڑلیے۔ غرض کرداروں کی اس بھیڑ میں بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے کردار کی نفسیات پر بھی مصنفہ کی گہری نگاہ ہے، دادی جیسی مادر مہربان کی محبت اور خود داری کے مختلف رنگ، یوراج،پربھاکر، منجیت اور سمیر وغیرہ کے عشق کی نیرنگیاں،زندگی کے مشکل ترین دور میں متاشا کے ساتھ اس کے بھائیوں کی مشترکہ جد وجہد،نوکری کی تلاش، رشتہ داروں کی بے حسی، شادی کے بعد بھائیوں کے مزاج میں تبدیلی، بھابھیوں کے بدلتے رویے،کم عمری میں سوتیلے بچوں کامتاشا کے لیے پیار اور احترام مگرباپ کی موت کے بعد ان کا ظالمانہ سلوک بطور خاص بڑے بیٹے انکت کی مارپیٹ،گوتم اور بے بی جیسے کردار،بیٹے دیپو اور اس کے دوستوں میں آستا اور نونیتاکا کردار،پھو پھا جی اور رونق، اروی اور بلبل،بھرت اور سوریہ کاکا یہاں تک کہ اسٹیشن کے لاکر میں سامان رکھوانے والی آیا اور بیلن سے شوہرکو پیٹتی وہ دیدی بھی اپنا اپنا تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہیں۔ان سارے کرداروں کی نفسیات پرگہری نگاہ رکھتے ہوئے مصنفہ نیانہیں خلق کیاہے اور تمام ہی کردار جگہ اور ماحول کے حساب سے بالکل فٹ اور پر فیکٹ ہیں۔ افتخار امام صدیقی کے مطابق:

’’کسی بھی ناول میں بہت سارے کردار ہوں تو ان کی پوری نفسیات کو شروع سے آخرتک برقرار رکھنا پڑتا ہے اور یہ آسان کام نہیں۔‘‘

(بحوالہ ’کہانیوں سے بنا ناول‘ مشمولہ کتاب’کہانی کوئی سنائو متاشا‘ ص:11)

اس کے علاوہ یہ رائے بھی دیکھیں:

’’پورے ناول کی فضا میں بہت ساری سانسیں جی رہی ہیں اور ہر ایک کی اپنی کہانی ہے۔‘‘(ایضاً)

غرض ان سارے کرداروں کی زندگی کے نشیب و فراز بیان کرنے کے لیے مصنفہ نے خود بھی ان کی زندگیوں کوجیا ہے، اپنے کاندھے پر ان کا سر لٹا کر سوچاہے، اپنے سینے میں ان کا دل رکھ کر محسوس کیا ہے تب جاکر ان کی نفسیاتی گر ہیں کھل پائی ہیں اور یہ کردار ہمیں زندہ جاوید اپنے آس پاس چلتے پھرتے نظرآسکے ہیں۔ کرداروں کی نفسیات اور ان کی ذات کے اظہار کے لیے مکالمے بھی بڑی ہی چابک دستی سے استعمال کیے گئے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ مصنفہ کو مختلف علاقوں کی زبان اور ان کے روز مرّہ سے گہری واقفیت ہے، مثال کے طور پر بمبئی سینٹرل اسٹیشن پر جب ویٹنگ روم کی آیا سے متاشا وہاں پیسے دے کر رکنے کی بات کرتی ہے تو وہ کیا کہتی ہے دیکھیں:

’’چلے گا۔ اس نے کہا‘‘

’’سامان کہاں رکھوں؟‘‘

’’لفٹ لاکیج میں رکھنے کا۔ایک دن کا ایک روپیہ لگتا ہے۔‘‘

’’یہ چلے گا۔‘‘

’’اور لفٹ لاکیج میں رکھنے کا‘‘

یہ بمبئی کی عام لوگوں کی زبان ہے اور اسے عام طور پر وہاں کم پڑھے لکھے لوگ بولتے ہیں کیونکہ اسی طرح باندرہ کی وہ عورت بھی جب اپنے شوہر کو مارتی ہے تو متاشا کے سوال کے جواب میں کچھ اس طرح کے جملے ادا کرتی ہے: ’’آدمی کو ایسے ہی سدھارنے کا‘‘ مطلب آدمی کو ایسے ہی سدھارا جاتا ہے۔

علی گڑھ کی خالص اردو زبان اور وہاں کی تہذیب سے کون واقف نہیں جب متاشا اپنے کلیگ میڈم صدیقی سے ملنے ان کے گھر جاتی ہے اور ان کی تین سال کی بچی اپنے ہاتھوں کو پیشانی تک لے جاکر جب یہ کہتی ہے:

’’آداب، آئیے تشریف رکھیے،ٹھنڈا لیںگی یا گرم‘‘ تو متاشا حیران رہ جاتی ہے اور مسٹر صدیقی کو جب متاشا ’صدیکی صاحب،آداب‘‘ کہتی ہے تو وہ کہتے ہیں ’محتر مہ متاشہ صاحبہ!صدیکی مت بولیے۔حلق سے بولیے۔۔۔ بولیے قاف‘‘اسی طرح کو لم میں آشو کے ماما کی زبان سے ادا کیے گئے ان جملوں میں وہاں کا مقامی رنگ کیسے جھلکتا ہے دیکھیں۔ ‘‘

’’اور دندا (دھندا) کرنا ہے تو بورڈ ملیالم میں بنانا۔ دوسری باشا (بھاشا) میں لگائے تو توڑ کے پھینکتے سو۔‘‘

غرض اس ناو ل میں مصنفہ نے کم وبیش جن جن علاقوں کا تذکرہ کیا ہے، وہاں کی زبانوں پر بھی بطورخاص نگاہ رکھی ہے اور اس پر بھی کہ ان مکالموں کی ادائیگی کا پس منظر کیاہے؟ مکالمہ کب، کہاں اور کس کی زبان سے ادا ہورہا ہے؟ زماں اور مکاں کا بھی خاص خیال رکھا ہے۔ ناول میں بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں کے واقعات و حالات کی منظر کشی کی گئی ہے اور اسی زمانے کے اعتبار سے مختلف علاقوں کے رسم و رواج، تہذیب و تمدن، زبان و بیان اور رہن سہن پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔جزئیات نگاری میں تو مصنفہ کو ملکہ حاصل ہے، اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے رہن سہن،پہناوا اورمزاج کے ساتھ ان کی پوجا پاٹ کے طریقے، ویشنوی سماج کی رسمیں، ان کے طور طریقے، ان کے حالات،عیسائیوں کی تعلیمات اوران کی عبادتوں کے طریقے اور رسم ورواج کی اس طرح سے تصوریر کشی کی ہے کہ سارا منظر نگاہوں کے سامنے تو پھرتا ہی ہے، مصنفہ کی معلومات پر بھی ذہن عش عش کراٹھتا ہے۔ مثال کے طور پر لوہانہ ویشنوی سماج میں گوتم کی موت کے ساتویں اور تیر ہویں دن ہونے والے کاموں کی تفصیلات دیکھیں:

’’ساتویں دن ناسک میں گوتم کاپنڈدان ہو ا۔ تیرہویں دن گھر پر بھی برہمنوں کوکھلا یا گیا۔ یہاں بھی ساتویں دن ہی کی طرح پانچ کلو چاول،گیہوں،ایک ایک کلو دالیں وغیرہ تیل، گھی، میدہ، روا، آلو،ایک گاؤں جو تے چپل،لالٹین،لاٹھی، پی نٹ، شرٹ، لنگی، کرتا،گدّا،سونے کا سواستک اور انگوٹھی، لاکیٹ، سورگ میں جائیں، اس لیے چاندی کی سیڑھی جس میں سات پائیدان تھے،یہ سب چیزیں برہمن مردوں اور عورتوں کو دان میں دی گئیں۔‘‘

(بحوالہ ’کہانی کوئی سناؤمتاشا‘،ص:271)

غرض مصنفہ نے بڑی عرق ریزی اور ایمانداری کے ساتھ مختلف مقامات اور سیاسی،سماجی، معاشی و جغرافیائی حالات اور انسانی نفسیات سے خاطرخواہ واقفیت کے بعد ہی اس ناول کی تخلیق کی ہے،ان کے اسلو ب میں بے ساختگی اور دل پذیری ہے، چھوٹے چھوٹے جملے اورعام مکالمے ناول کی دلچسپی کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں۔ اس پورے ناول میں مصنفہ کا نقطۂ نظر بھی بالکل واضح اور صاف وشفاف ہے کئی مقامات پر بطور خاص مرکزی کردار متاشا کی زبان سے ادا ہونے والے جملوں سے بھی نقطۂ نظر کی وضاحت ہوجاتی ہے۔ اس ناول کی تانیثی حیثیت بھی اپنی جگہ مسلّم ہے۔پورا ناول عورت کی مظلومیت کی داستان ہے لیکن کہیں بھی زندگی سے فرار نہیں ہے۔ پیدائش سے بچپن،لڑکپن، جوانی اور عمر کی پختگی تک ہرپل استحصال کا شکار ہوتی متاشا کو مردذات سے نفرت ہوگئی ہے مگر اسے ’ممی اور بھائیوں کے لیے جینا تھا۔

آگے چل کر اسے اپنے شوہر،سوتیلے بچوں اور اپنے بیٹے کے لیے جینا پڑا اور آخر میں دیپو کی ہونے والی اولاد کی پرورش کے لیے اس نے جینے کا فیصلہ کیا، ستم ظریفی حالات نے اسے پل پل مارا مگر اس نے ہار نہیں مانی اور یہی کہتی رہی:’’ہار کے نہیں جائوں گی،میں جائوں گی مگرہاروں گی نہیں‘‘ (بحوالہ ’کہانی کوئی سنائو متاشا‘،ص:88)یہ اور اس طرح کے ڈھیروں پیغام ناول کے بطون میں موجود ہیں جو بدترین حالات میں بھی زندگی جینے کا حوصلہ اور سلیقہ دیتے ہیں،انسانیت کی خدمت کا سبق پڑھاتے ہیں اور امید کی شمع روشن  رکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔بلا شبہ ناول نگاری کی تما م تر خصوصیات سے مزّین یہ ایک کامیاب ناول ہے جسے ڈاکٹر  صادقہ نواب سحر نے بڑی ہی کامیابی سے پایۂ تکمیل تک پہنچایا

ہے۔

 

Dr. (Mrs.) Sabera Khatoon Hina

Assistant Prof.

T.D.B College

Raniganj

Paschim Bardwan-713347 (W.B)

 




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں