22/3/22

تبسم فاطمہ کے افسانوں میں احتجاج - مضمون نگار : ڈاکٹر نزہت پروین

 



          تبسم فاطمہ کی پیدائش 3؍جولائی 1967میں آرا(بہار) میں ہوئی ۔ابتدائی تعلیم آرا میں حاصل کی ۔بی ۔اے کی ڈگری آراسے ہی حاصل کی اورنفسیات میں ایم ۔اے کیا۔ انھوں نے  1984سے لکھنا شروع کیا۔ ان کے افسانوں کاپہلامجموعہ ’’لیکن جزیرہ نہیں‘‘ 1995 میں شائع ہوا۔ دوسرا مجموعہ ’’تاروں کی آخری منزل ‘‘ 2012 میں شائع ہوا۔ ان دومجموعوں سے تیرہ افسانے نکال کر’’سیاہ لباس ‘‘ کے نام سے ایک مجموعہ 2014میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ہندی میں ایک درجن سے زائد کتابوں کے ترجمے کرچکی ہیں ۔

          تبسم فاطمہ کی شادی مشہور فکشن نگارمشرف عالم ذوقی سے ہوئی اوردونوں نے الیکٹرونک میڈیاسے جڑ کرسینکڑوں کی تعداد میں سیریل ، Short filmاور ڈیکومینٹری فلمیں بنائیں ۔الیکٹرونک میڈیا میں دونوں کانام کافی جانا پہچاناتھادونوں نے  ایک بڑے بجٹ کاڈیلی سوپ ’’جوالامکھی ‘‘ کاآغاز کیاتھالیکن فائننسر نہ ملنے کی وجہ سے شروع نہیں ہوسکا۔ بہرحال تبسم فاطمہ نے ادب سے کبھی اپنارشتہ منقطع نہیں کیا۔وہ پڑھتی زیادہ تھیں اورلکھتی کم تھیں ۔ کم لکھنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اکثرسوچتیں کہ کیالکھوں کہ میری الگ شناخت قائم ہو۔ وہ لکھتی ہیں :

میں نے اچھی کہانیاں تونہیں لکھیں لیکن اتناضرور کہوں گی کہ اپنے آس پاس کے ہونے والے واقعات سے میں نے کبھی آنکھیں بندنہیں رکھیں ۔ واقعات ،حادثات اورسماج میں اٹھنے بیٹھنے والے کردارکب کیسے میری کہانی کے کرداربن گئے کہہ نہیں سکتی ۔‘‘ (لیکن جزیرہ نہیں ،صفحہ 9)

          تبسم فاطمہ نے اچھی کہانیاں لکھیں یانہیں یہ توفیصلہ وقت کرے گالیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ انھوں نے سماج میں ہونے والی زیادتیوں اور ناانصافیوں کواپنے افسانے کاموضوع بنایا۔ وہ عورت کوکمزور یابزدل نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ عورتیں آنسونہ بہائیں بلکہ حالات کاڈٹ کرمقابلہ کریں اور احتجاج کریں ۔اس لیے وہ کہتی ہیں کہ ’’میں بالکل نہیں مانتی کہ عورت بہت کمزور اور مجبور ہے ۔وہ ستائی ہوئی ہوسکتی ہے مگر ہاری ہو ئی نہیں۔ ‘‘

          تبسم فاطمہ زندگی میں کبھی ہارنہیں مانی ۔مشرف عالم ذوقی صرف قلم لے کر دلی آئے تھے اورچند سال کے بعدہی ان کی تبسم فاطمہ سے شادی ہوگئی لیکن تبسم فاطمہ نے ذوقی کاہرحال میںنہ صرف ساتھ دیابلکہ حالات سے لڑنا سیکھایا۔ ذوقی لکھتے ہیں -’’ بیشک میں زندگی میں کئی مقام پرہارا۔ کئی مقام ایسے بھی آئے جب ہارتے ہارتے بچا ہوں اور ایسے ہرمقام پرسوچتاہوں تبسم کاساتھ نہ ملاہوتاتو شاید کمرے کی ویرانی اوراپنے اندر کی خاموشی سے سمجھوتہ کرچکاہوتا۔‘‘

          جس عورت نے اپنے شوہر کے حوصلے اورہمت کوکبھی پست نہیں ہونے دیاوہ یقینا ذہنی طورپر کتنی تواناہوگی اس کااندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ تبسم فاطمہ عملی طورپربھی بولڈ تھیں اوراپنے افسانوں میںبھی اپنی بولڈنس کاثبوت فراہم کرتی ہیں ۔افسانہ ’’صحرا میںنہیں رہنا ‘‘ کی عورت وہی سب سوچتی ہے جوتبسم فاطمہ سوچتی ہیں ۔

’’یہ کیسی آزادی ہے کہ ساری زندگی ایک چہاردیواری کے اندر ایک ایسے آدمی کے ساتھ بسرکی جائے جس سے نہ خیال ملتے ہوں ۔ نہ معیار اور وہ ہروقت ساتھ میں پنجرہ لیے گھومتا رہتاہو…زیادہ اُڑان مت بھرو پنجرے میںآجاؤ ۔یہ ٹی ۔ وی دیکھنے کاوقت نہیں ہے۔میرے دوست آنے والے ہیں چلوپنجرہ سنبھالو۔تم جاب کروگی ؟نہیں تم پنجرے میں زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہو۔‘‘

(افسانہ صحرا میں نہیں رہنا،ادب سلسلہ، صفحہ200)  

          ان چند جملوں میں تبسم فاطمہ نے وہ سب کچھ کہہ دیاہے جوآج کی عورت کا درد ہے۔ایک لڑکی اپناسب کچھ چھوڑ کرایک اجنبی گھر، اجنبی لوگوں کے درمیان شادی کے بعد آتی ہے اوراسے سسرال میں آکر کیاملتاہے ۔شوہر سے خیال ملتے ہوں یانہ ہوں ۔  اس کے معیارپرپورا اترتاہویانہ ہولیکن اس کے ساتھ زندگی گزارنی پڑتی ہے ۔ نہ عورت کے جذبات کی اسے فکرہوتی ہے نہ اس کے خیالات کی ۔وہ عورت کوزرخرید غلام سمجھتاہے اور ہروقت ایک پنجرہ لے کرگھومتارہتاہے۔ ذراسابھی اُڑنے کی کوشش کرتی ہے شوہر پنجرہ لے کر سامنے آجاتا ہے۔اگرعورت جاب کرناچاہے تواسے نہیں کرنے دیاجاتا۔ گھروالوں کی خدمت کون کرے گا۔کھاناکون بناکردے گا۔ سب کاخیال کون رکھے گا ۔ عورت سب کاخیال رکھے مگراس کاخیال کوئی نہیں رکھتا۔وہ کولہوکے بیل کی طرح جتی رہتی ہے ۔وہ اپنی مرضی سے کوئی کام نہیں کرسکتی ۔ آگے کی تعلیم جاری رکھنے کے لئے شوہر اورساس سسرکی اجازت لینی ضروری ہے۔ نوکری کرنے کے لیے سسرال والوں کی رضامندی ضروری ہے ، گھرسے کہیں باہر جاناہے توبغیر اجازت کے نہیں جاسکتی ۔ کتنی عورتیں ہیں جواپنی مرضی سے زندگی جیتی ہیں اوراگر احتجاج کیاتو پھرگھرکادروازہ کھلاہے ۔جاسکتی ہو ،لیکن اس افسانہ کی راوی آزاد زندگی گزارناچاہتی ہے ۔ جب اس کی شادی طے ہونے لگی تواس نے کہا۔

’’جہاں مرضی کردیجیے ۔وہ میرے ساتھ جی سکے گا تو یہ اس کی خوش نصیبی ہوگی ۔ اماں میرے ان تیوروں سے واقف تھیں ۔ وہ اکثر میری باتوں پرخاموش رہناہی پسند کرتی تھیں ۔ویسے بھی وہ خاموش طبیعت واقع ہوئی تھیں ۔میں ایک این ۔جی ۔ او سے وابستہ تھی اور کاشف بینک میں اعلیٰ عہدے پرتھے۔ کچھ ہی دن میں وہ میرے مزاج سے واقف ہوگئے جبکہ شروعات میں انہوں نے دباؤ بنانے کی کوشش کی تھی لیکن جلد ہی کاشف کواس بات کااحساس ہوگیاکہ یہ لڑکی ٹیڑھی کھیرہے اوربہترہے کہ بھِڑ کے چھتے میں ہاتھ نہ ڈالا جا ئے ۔‘‘

(افسانہ’’ صحرا میں نہیں رہنا‘‘ ادب سلسلہ صفحہ202) 

          یہ افسانہ ایک باغی لڑکی کاافسانہ ہے جواپنے طورپرزندگی گزارنا چاہتی ہے ۔ وہ اپنی آزادی کے لیے کبھی ہارمونیم بجاتی، کبھی کتابوں کاسہارا لیتی جبکہ اس کا شوہر نہ رومانی تھانہ اسے موسیقی پسند تھی لیکن کاشف کے اندر ایک تبدیلی آتی ہے وہ اس کے ہار مونیم بجانے پرایک دن کہتاہے ’’تم واقعی ہارمونیم اچھا بجالیتی ہو۔‘‘ پھروہ کتاب اٹھاکر پوچھتا ہے۔ یہ توقرۃ العین حیدر کاناول’’ چاندنی بیگم‘‘ ہے ۔ میںنے ان کانام سناہے ۔ ممکن ہے کاشف میں یہ تبدیلی اس ڈرکی وجہ سے ہوجواپنی بیوی کی آزادی سے گھبرا کراس کا ساتھ دے رہاہوں۔

          تبسم فاطمہ عورت کواسی روپ میں دیکھناچاہتی ہیں لیکن افسانہ ’’سیاہ لباس ‘‘ کی ماں آزاد خیال ہوتے ہوئے بھی جوان ہوتی بیٹی کے لیے فکر مندہے ۔بیٹی جس طرح روز ہونے والے واقعات وحادثات کوماں سے شیئر کرتی ہے ماں ڈرجاتی ہے لیکن بیٹی نظر انداز کردیتی ہے کہ نئے زمانے میں یہ تو روز کامعمول ہے لیکن جب کالج کابوڑھا پروفیسر راستے میں اور بوڑھے لوگ کی نگاہیں اسے اپنے جسم میں اندرتک چبھتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں تووہ کہتی ہے ۔

’’نہیں ……صحیفہ زورسے چیخی ۔لڑکوں سے ڈرنہیں لگتا بوڑھوں سے ڈرلگتاہے … وہ میری آنکھوں میںآنکھیں ڈالے کہہ رہی تھی … سڑک پرباتیں کرتے ہوئے شاپنگ کرتے ہوئے کہیں بھی چلے جاؤ … بوڑھی نظریں ایسے گھوررہی ہوتی ہیں جیسے کبھی لڑکی دیکھی ہی نہ ہو…… جیسے یہ نظریں جوان گوشت میںسماجائیں …… کیوں ہو گئے ہیں سب لوگ ایسے ۔ کیوں سمجھتے ہیں کہ لڑکیاں محض گوشت کی دکان ہیں ان کے لیے ۔ صحیفہ زورسے چیخی …… وہ کالج کابڈھا پروفیسر …میں اسے کئی دنوں سے دیکھ رہی ہوں … مگراب … صحیفہ کی سانسیں الجھ گئی تھیں …… گھرسے باہر نکلوتو جیسے جسم پرہزار چبھتی ہوئی آنکھیں ہوتی ہیں ۔‘‘

(افسانہ سیاہ لباس صفحہ 15)

اورصحیفہ ایک الگ فیصلہ لیتی ہے ۔نہ وہ کالج چھوڑتی ہے نہ راستے پرچلنا  بلکہ اپنے لیے ایک نقاب خریدتی ہے اوراب وہ نقاب لگاکر باہر نکلتی ہے۔ 

          یہاں ایک سوال پیداہوتاہے کہ کیانقاب لگانا مسئلے کاحل ہے۔ صحیفہ اس لیے نقاب پہن کرنکلتی ہے چونکہ وہ مسلمان ہے لیکن ہندولڑکیاں کیاکریں گی ۔یہاں مردوں کی سوچ اور نظریہ پرحملہ ہے۔ راہ چلتی یاکالج جاتی لڑکیوں کواس طرح گھورناایک عام بات ہے لیکن اس سوچ میںکب تبدیلی آئے گی اپنی نظروں سے لڑکیوں کے جسم کوچھیدنے والے شخص یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ان کی بہوبیٹیاں بھی تو باہرنکلتی ہیں اوراس کے جسم کوبھی توکوئی اپنی نظروں سے چھید تاہوگا۔تبسم فاطمہ مردوں کواپنی سوچ بدلنے کے لیے پرزور اپیل کرتی ہیں تاکہ کسی لڑکی کونقاب لگاکرگھرسے نکلنے کی ضرورت نہ ہو۔

          افسانہ ’’حجاب ‘‘ میں چودہ سال کے ایک بیٹے کوماں کے نیٹ پر چیٹ کرنے سے اعتراض ہے ۔

          ’’کیاکررہی تھی اماں -؟ ‘‘

          یکایک اس کے سوال سے چونک پڑی میں … ’’کچھ نہیں۔‘‘

          ’’چیٹ کررہی تھی ؟ ‘‘

          ’’ہاں کہتے ہوئے اس کی طرف مڑی …… اماں چیٹ نہیں کرسکتی کیا؟‘‘

          ’’کیوں نہیں … کوئی دوست ؟ ‘‘

          ’’اماں کے چیٹ فرینڈ نہیں ہوسکتے کیا؟ ‘‘

          ’’کیوں نہیں …‘‘   

          ایک ماں بیٹے کے درمیان یہ مکالمہ بیٹے کی ذہنیت کوواضح کرتا ہے۔ ماں جووقت گزاری کے لیے نیٹ سے جڑی ہے لیکن بیٹے کویہ قطعی پسند نہیں کہ ماں کے فرینڈہوں اوروہ چیٹ کرے ۔ جبکہ اس کے شوہر کوکوئی اعتراض نہیں ہے ۔

          ’’حجاب ‘‘ ایک باغی عورت کاافسانہ ہے جب وہ بڑی ہورہی تھی اورماں اسے حجاب پہننے کے لیے کہتی ہے تووہ صاف منع کردیتی ہے کہ وہ حجاب نہیں پہنے گی زرینہ بچپن میں گلی میں بچوں کے ساتھ کنچے کھیلتی تھی… کبڈی کھیلتی تھی۔ بندرکاتماشہ دیکھتی تھی لیکن اس کے جوان ہوتے ہی تمام چیزوں پرپابندی لگادی گئی ۔ لیکن اس کاسوال اپنی جگہ قائم تھا کہ بھائیوں کوساری آزادی اورمجھے قید کیوں …… وہ جہاں چاہیں جا سکتے ہیں۔ جس سے چاہیں مل سکتے ہیں ۔میں ایساکیوں نہیں کرسکتی اسے کیوں حجاب پہنانے کے لیے گھرکے لوگ بضد ہیں۔ اورزرینہ بغاوت کرتی ہے ۔ پھراس کی شادی ہو جاتی ہے اوراس کا بیٹا عظمی دھیرے دھیرے پروان چڑھتاہے اورآج چودہ سال کا بیٹا ماں سے چیٹ کرنے پرسوال کرتاہے ۔ در اصل عظمی بیٹاکی شکل میں مردانہ سماج کا نمائندہ بن جاتاہے ۔زرینہ کے والد کل جوچھوٹی بڑی باتوں پراسے ٹوکتے رہتے تھے آج زرینہ کابیٹا ماں کے چیٹ کرنے پرسوال کررہاہے ۔یعنی زمانہ اتنی ترقی کرنے کے بعدبھی عورت کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی روپ میں مردانہ سماج کے بندھن سے نہیں نکل سکی ہے ۔بغاوت کرنے والی زرینہ آج ایک بارپھراسی سوال کے گھیرے میں ہے ۔

          ’’میں واپس اس جگہ کودیکھتی ہوں جہاں کچھ دیرپہلے عظمیٰ موجود تھا۔اب وہاں کوئی نہیں ہے … لیکن اس کے لفظ مجھے ڈرارہے ہیں …اندر ایک ہلچل سی ہے ۔ سائن آؤٹ کرتی ہوئی میںخاموشی سے ٹھہر جاتی ہوں -ایسالگا جیسے برسوں بعدایک بارپھر میرے بیٹے نے مجھے حجاب پہنادیاہو۔ ‘‘

          عورت چاہے جتنی بھی ترقی پسندہوکہیں نہ کہیں کسی نہ کسی روپ میں اس کے وجود پرحملہ ہوتارہتاہے ۔کبھی باپ …کبھی شوہر … اور کبھی بیٹا… یعنی عورت گھوم پھرکراسی محور پررقص کرتی رہتی ہے جیسا صدیوں سے کرتی رہی ہے ۔

          افسانہ ’’جرم ‘‘میں ایک شوہر اور بیوی کی کہانی ہے ۔ منیش اوردیپانے محبت کی شادی کی ہے ۔ منیش دبوقسم کاشخص ہے جبکہ دیپا بے حد بولڈ ۔رات کے وقت دیپا کے اندر ایک ایسی عورت ابھرکرسامنے آتی ہے جواپنے طورپر رات گزارناچاہتی ہے لیکن منیش دوسرے مردوں کی طرح اسے ٹریٹ کرتاہے جودیپا کوپسندنہیں ہے ۔

          تبسم فاطمہ کی عورت سراپااحتجاج ہے ۔کبھی یہ عورت اپنے باپ سے احتجاج کرتی ہے ۔کبھی اپنے شوہر سے ۔کبھی سماج سے اورکبھی اپنے بیٹے سے ۔تبسم فاطمہ کی عورت روز مرد سماج سے ٹکراتی ہے اورانقلاب کاجھنڈابلند کرتی ہے ۔ یہ لڑائی اکیلے تبسم فاطمہ کی نہیں ہے ہر خواتین افسانہ نگار کی ہے لیکن تبسم فاطمہ جیسی جرأت کتنی خواتین افسانہ نگاروں میںہے۔ اس لیے تبسم فاطمہ دوسری خواتین افسانہ نگاروں سے الگ نظرآتی ہیں ۔

 

Dr. Nuzhat Parween

Hanif Manzil

Koyli Pokhar, Police Line

Gewal Bigha

Gaya-823001 (Bihar)

Mob. 8084808032

 




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں