24/1/25

آنکھ، ماخذ: ہمارے جسم کا معجزاتی نظام، مصنف: قیصر سرمست

 اردو دنیا، دسمبر 2024

آنکھ آپ کے جسم کا صرف ایک حصہ ہی نہیں جو آپ کی خوبصورتی کا مظہر، آپ کی ذہانت کا آئینہ دار آپ کی ہوشیاری کا نقیب اور آپ کی بصارت کا ذریعہ ہے بلکہ بہت کچھ ہے۔ ان دو معمولی سے ڈھیلوں Eye  Balls میں قدرت کی بڑی کاریگری پوشیدہ ہے۔ آپ اگر توجہ دیں تو آپ کے لیے معلومات اور بھلائی کے خزانے ہیں ورنہ بینائی کھو دینے کے مواقع بہتیرے ہیں۔ تو آئیے ان دو آب گینوں کے اندر جھانک کر دیکھیں۔

جب روشنی آنکھ میں داخل ہوتی ہے تو عضلات کے سر ے Nerve Endingsپراثرانداز ہوتی ہے جو آنکھ کے ڈھیلے Eye Ball کے پچھلے حصے پر واقع ہوتے ہیں جسے Retinaکہتے ہیں— یہاں سے روشنی کی شعاعیں عضلاتی خلیوں کے ذریعے دماغ کے مخصوص حصے میں پہنچتی ہیں جسے مرکز بصارت Optical Center کہتے ہیں۔ یہیں سے دماغ دیکھنے کے  عمل کا  آغاز کرتا ہے ۔ اگر کسی شخص کا مرکز بصارت کسی وجہ سے مجروح ہوجائے تو (حالانکہ اس کی بینائی ہر طرح سے اچھی ہے) مکمل طور پر بینائی سے محروم ہوسکتا ہے۔

ہماری آنکھ کا ڈھیلا Eyeball بہت زیادہ پیچیدہ بناوٹ کا حامل ہوتا ہے۔ آنکھ کے ڈھیلے پر شفاف اور مہین سی جھلی قرنیہ Cornea چڑھی رہتی ہے۔

روشنی کی شعاعیں اسی قرنیہ کے ذریعے پانی جیسے محلول (Aqueous Humour Aqueous) بہ معنی پانی جیسا اور Humour) بہ مائع) میں سے گزرتی ہیں یہی آنکھ کا رنگین حصہ Iris کہلاتا ہے۔ آنکھ کی پتلی (پردہ غیبیہ Iris عموماً نیلی،بھوری اور ہری مائل ہوتی ہے) اس کی غرض و غایت روشنی کی مقدار کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے جو آنکھ میں داخل ہوتی ہے۔ اس کے بیچ میں ایک بہت ہی چھوٹا سوراخ ہوتا ہے اور یہی روشنی کو کنٹرول کرتا ہے۔کھلنے والا حصہ Pupil کہلاتا ہے۔ جب ہمارا سامنا تیز اور چکاچوند کردینے والی روشنی سے ہوتا ہے تو پیوپل چھوٹی ہوجاتی ہے تاکہ کم روشنی داخل ہو۔ ہوتا یہ ہے کہ آئرس Iris پیوپل کے گرد قریب ہوجاتی ہے اور جب مدھم روشنی داخل ہوتی ہے تو آئرس سمٹ کر پیچھے چلی جاتی اور پیوپل پھیل جاتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ روشنی آنکھ میں داخل ہوسکے۔ پیوپل کے پیچھے آنکھ کا عدسہ Crystal Line Lens ہوتا ہے۔ تمام روشنی جو آنکھ میں داخل ہوتی ہے وہ عدسہ کے ذریعے سے ہوتی ہے۔

بعض لوگ انسانی آنکھ کو عکس گیر یعنی کیمرہ Camera سے تشبیہ دیتے ہیں۔ دونوں میں روشنی ایک ایسے کھلے حصے سے داخل ہوتی ہے جو بہت چھوٹا ہوتا ہے اور روشنی کی شعاعیں عدسوں سے گزر کر مڑ جاتی ہیں اور تصویر اس حصے پر مرتسم ہوجاتی ہے جو کیمیائی طور پر روشنی کے معاملے میں بہت حساس ہوتا ہے۔ یہ حساس حصہ عکس گیر کی فلم ہے اور آنکھ کا پردہ Retina ہے۔ آنکھ بہ نسبت کیمرے کے بہت زیادہ عظیم تر ہے کیونکہ آنکھ غیرمحدود تصاویر، ذخائر کی صورت میں ذہن میں محفوظ کرلیتی ہے اور آئندہ جب کبھی ضرورت پڑے ذہن کے پردے پر آویزاں کردیتی ہے۔

آنکھ ایک کرہ ہے جو ملائم انسجہ Fabby Tissue کی ملائم گدیوں اور کھوپڑی کی ہڈیوں سے بنے چشم خانے میں رہتا ہے۔ آنکھ کا ڈھیلا اپنی شکل اس طبقے کی وجہ سے برقرار رکھتا ہے جسے صلبیہ Sclera کہتے ہیں۔ آنکھ کا دوسرا طبقہ جو بہت سی عروق دمویہ (خون کی نالیوں) پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسے مشیمیہ کہتے ہیں۔

آنکھ ہمارے جسم کے مابقی اعضا کی طرح زندہ عضو ہے اور اسے بھی غذا اور آکسیجن، خون کے ذریعے پہنتے رہنا چاہیے۔

آنکھ کا انتہائی اندرونی طبقہ Layer شبکیہ Retina بہت سے انتہائی نازک عضلاتی خلیوں Nervecell سے بنا ہے۔ یہ کوئی تصویر حاصل کرکے دماغ کے مرکز بصارت Sightcentre تک عصب بصری Optical Nerve کے ذریعے پہنچاتا ہے۔

آنکھ کے ڈھیلے کا بیرونی طبقہ صلبیہ Sclera آگے آنے کے بعد شفاف قرنیہ Cornea ہوجاتا ہے۔ آنکھ کو زخمی ہونے سے بچاتا ہے۔ قرنیہ Cornea کے پیچھے کا خانہ ایک قسم کے مائع Aqueous Humour سے بھرا رہتا ہے۔

عدسہ آنکھ کا وہ حصہ ہے جہاں سے روشنی کی شعائیں مڑجاتی ہیں تاکہ شبکیہ Retina کے نقطۂ ماسکہ پر مرکوز ہوسکیں۔

Folus عدسے میں خود اتنی قوت و صلاحیت ہوتی ہے کہ شکل و صورت بدل سکے۔ یہ موٹے اور تقریباً گول ہوجاتے ہیں۔ جب ہم نزدیک کا معروض Objects دیکھتے ہیں اور جب دور کی چیز دیکھتے ہیں تو عدسہ پتلا اور لانبا ہوجاتا ہے۔ یہ موقتی تبدیلی ان اعصاب و عضلات Muscles کی وجہ سے ممکن ہوتی ہے جو آنکھ کے ڈھیلے کے اندرونی حصے سے منسلک ہوتے ہیں۔

عدسہ (لینس) کے پیچھے گاڑھا اور جیلی جیسا مائع رطوبت زجاجیہ Vitreous Humour ہوتی ہے اور یہ مائع تقریباً آنکھ کے تمام ڈھیلے میں بھرا رہتا ہے۔ یہ گاڑھا ہونے کے باوجود شفاف ہوتا ہے اور روشنی کو لیس سے آنکھ کے پردے Retina تک گزرنے دیتا ہے۔ آنکھ کا پردہ کروڑہا عضلاتی خلیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ اپنی شکل و صورت کی وجہ عصا اور مخروط Rod And Cone کہلاتا ہے۔ یہی عضلاتی خلیے بصارت کا پیام دماغ تک پہنچاتے ہیں۔

بعض لوگوں کی بصارت میں خرابی کا تعلق Rod سے ہوتا ہے۔ ایسے بدنصیب افراد سرخ اور سبز Red and Green رنگوں میں فرق نہیں کرسکتے۔ اسی قبیل کے لوگوں کو رنگندھے Colour Blind کہتے ہیں۔ کبھی آپ نے ٹرافک کے سگنلوں Traffic Signals پر غور کیا؟ سرخ روشنی ہمیشہ اوپر کیوں رہتی ہے؟ یہ رنگندھے لوگوں کو سمجھنے کے لیے ہے۔ چونکہ وہ سرخ اور سبز میں فرق محسوس نہیں کرسکتے ا س لیے اوپر کی جلتی ہوئی روشنی کو دیکھ کر وہ سمجھ جاتے ہیں کہ رکنے کا اشارہ کیا جارہا ہے— یہ ٹرافک کی عالمی زبان ہے کیونکہ آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں گے تو یہی اصول پائیں گے۔

آنکھوں کی بعض خرابیاں: آنکھوں کی اکثر خرابیاں ایسی ہیں جن کے دور کرنے کے لیے عینکوں کا استعمال ضروری ہوجاتا ہے۔ ایک تو نزدیک کی بصارت کی کمزوری یا خرابی ہے۔ عموماً یہ حالت اس وقت ہوتی ہے جب آنکھ کا ڈھیلا Eyeball بہت زیادہ لانبا ہوجاتا ہے۔ آنکھ کے ڈھیلے کے لانبا ہونے سے یہ ہوتا ہے کہ جب روشنی کی شعاعیں لینس میں داخل ہوتی ہیں تو وہ ٹھیک طریقے پر شبکیہ Ratina پر فوکس نہیں کرسکتا جیسا کہ ہونا چاہیے— یہ خرابی یا تو پیدائشی ہوتی ہے یا پھر خراب طبع کی ہوئی کتابوں یا ناکافی روشنی میں پڑھنے سے ہوتی ہے۔

جس آدمی کی نزدیک کی بصارت کمزور ہو اس میں عموماً ہوتا یہ ہے کہ Retina تک روشنی کی شعاعیں پھیل کر پہنچتی ہیں۔ عینک ان پھیلی ہوئی شعاعوں کو پھیلنے نہیں دیتی اور Retina پر ایک مرکز بناتی ہوئی پہنچتی ہیں جس سے تصویر واضح اور صاف طور پر نظر آتی ہے۔

ایسی بصری کمزوری اکثر ہمیشہ قائم رہنے والی ہوتی ہے لیکن ایسے بچے جن کی آنکھیں کمزور ہوں صحیح نمبر کی عینک استعمال کرکے اس کمزوری سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں اور ایک عام خرابی دور کی نظر Farsightedness کی خرابی ہے۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ جب روشنی کی شعاعیں Focusکے پیچھے Retina کرتی ہیں تو آنکھ کا ڈھیلا بہت زیادہ چھوٹا ہوجاتا ہے۔ اس کاعلاج بھی ایسی عینک لگانا ہے جو روشنی کی شعاعوں کو ایک دوسرے کے قریب کرکے Retinaپر صحیح اور ٹھیک ٹھیک Focus کرسکے زیادہ عمر کے لوگوں میں یہ خرابی بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔

جب Cornea یا آنکھ کے ڈھیلے کی اگلی تہہ ناہموار، غیرمسطح اور مڑی ہوئی ہوتی ہے تو ایسے لوگ نظر کی لامرکزیت (Astigmatism) میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ غیرہموار مڑا ہوا پن روشنی کی شعاعوں کو Retina تک ایک نقطے پر پہنچانے سے رکتا ہے۔ اس لیے معروض Object دھندلا نظر آتا ہے۔ ٹھیک عدسے اس لامرکزیت Astigmatism کو ٹھیک کرتے ہیں۔ چنانچہ ایسے لوگ اچھی طرح سے دیکھنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ ہم کو اپنے اطراف چوتھی خامی جو نظر آتی ہے وہ ترچھا پن Crosseyenessہے۔ ایسے اشخاص کی آنکھوں کے اندرونی عضلات جو آنکھ کی حرکت کو قابو میں رکھتے ہیں اپنا کام مناسب طریقے پر نہیں کرسکتے۔ ہوتا یہ ہے کہ ایسے لوگو ںکی دونوں آنکھیں ایک ہی وقت میں ایک معروض Object پر فوکس کرتی ہیں۔ چنانچہ ایسے خامی والے لوگوں کی آنکھیں اندر کی طرف مڑجاتی ہیں یا باہر کی جانب

مناسب عدسے Lenses اور مناسب ورزش جو ڈاکٹر بتائے ترچھے پن کو دور کرسکتے ہیں اور بعض حالتوں میں خاص قسم کا آپریشن بھی ترچھے پن کو دور کردیتا ہے۔ خصوصاً چھوٹے بچوں میں۔

ہلکے رنگ اور آپ کی بصارت

مختلف رنگوں کی وجہ سے روشنی کی شعاعوں کی تعداد میں زبردست فرق آجاتاہے۔ گہرے رنگ، میلی اور گندی دیواریں اور چھتیں روشنی کی شعاعو ںکے لیے کمزور منعکس ہوتے ہیں۔ ہر اس کمرے کی چھتیں اور دیواریں سفید یا قریب قریب سفید ہونی چاہیے جہاں پڑھنے، لکھنے کا کام کیا جاتا ہے۔ یہ بظاہر معمولی سی بات معلوم ہوتی ہے لیکن بصار ت کے لیے بہت ضروری اور اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔

ہلکے رنگ جیسے سفید، ہلکے زرد Cream،گلابی Pnk، روشنی کی شعاعوں کے لیے اچھے منعکس ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ہلکے سبز اور ہلکے نیلے ہوتے ہیں۔ گہرا بھورا Dark Brown رنگ روشنی کی شعاعوں کا دسواں حصہ منعکس کرتے ہیں۔ اس لیے اچھی بصارت کے لیے ہلکے رنگ بے حد ضروری ہیں۔

زرد yellow اور نیلا Blue رنگندھا ایسا ہے جو صرف سرخ Red Shades اور سبز رنگ ہی دیکھ سکتا ہے۔ لیکن رنگدھوں کی اکثریت سرخ اور سبز دیکھنے سے محروم ہوتی ہے۔ ایسے رنگدھے لوگ ان دونوں رنگوں میں تمیز نہیں کرسکتے اور یہ دونوں ہی رنگ انھیں بھورے معلوم ہوتے ہیں۔ سو میں اگر آٹھ مرد رنگدھے پائے جائیں تو ان میں صرف آدھا فیصد عورتیں ہوتی ہیں۔

ہم اپنے اطراف کی چیزوں سے اپنی حسیات Sense سے اتنی معلومات حاصل نہیں کرسکتے جتنا کہ دیکھنے سے۔

کسی بھی چیز کو دیکھنے کے لیے ہمیشہ کسی بھی طرح کی روشنی کا ہونا ضروری ہے۔ جب تک کہ معروض Object سے روشنی کی شعاعیں ٹکرا کر ہماری آنکھوں تک نہ پہنچیں ہم اسے دیکھنے سے قاصر ہیں۔

آپ تو جانتے ہیں کہ روشنی کی شعاعیں ہوا کے واسطہ میں سے خط مستقیم میں چلتی ہیں اور جب کسی کثیف واسطہ سے گزرتی ہیں تو وہ اپنا رخ تھوڑا سا موڑ لیتی ہیں۔ یا ان کے راستے میں فرق آجاتا ہے۔ اس وقت ہماری آنکھ روشنی کی منعطف شعاعوں سے معروض Object سے وصول کرکے نقطہ ماسکہ Focus پر مرکوز کرکے Retina تک پہنچاتی ہیں۔

ہم  آہنگی یعنی Accomodation نزدیک اور دور کی نظر کو ہم آہنگی بنانے کو Accommodation کہتے ہیں اور یہ اس طریقے کو کنٹرول کرتی ہے بلورین عدسہ Crystallinelens کی حرکت۔ آنکھ کا عدسہ ایک خمیدہ عدسے کے مشابہ ہوتا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ آنکھ کا عدسہ، کانچ کے عدسے کی طرح یکساں اور ہموار بناوٹ نہیں رکھتا بلکہ خلیوں کی دو ہزار تہوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ چنانچہ روشنی کی شاعیں جب ان طبقات میں سے گزرتی ہیں تو ہر طبقے میں نامعلوم طور پر منعطف ہوتی ہیں۔ ایک اور قابل لحاظ فرق کانچ کے عدسے اور ہماری آنکھ کے عدسے میں پایا جاتا ہے۔ یہ انتہائی لچکیلا ہوتا ہے اور وہ سخت۔ ہماری آنکھ کا عدسہ ایک طرح سے کیمرے کے لینس سے اس حد تک ملتا جلتا ہے کہ جب تک فوکس نہ ہو اسے آگے پیچھے کیا جاتاہے اسی طرح ہماری آنکھ کا عدسہ بھی اپنی وضع بدلتا رہتا ہے۔

 

ماخذ: ہمارے جسم کا معجزاتی نظام، مصنف: قیصر سرمست، پہلا ایڈیشن: 1999، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

آنکھ، ماخذ: ہمارے جسم کا معجزاتی نظام، مصنف: قیصر سرمست

  اردو دنیا، دسمبر 2024 آنکھ آپ کے جسم کا صرف ایک حصہ ہی نہیں جو آپ کی خوبصورتی کا مظہر، آپ کی ذہانت کا آئینہ دار آپ کی ہوشیاری کا نقی...