اردو دنیا، جنوری 2025
صدیوں سے کائنات کا
مشاہدہ اور مطالعہ انسان کے لیے دلچسپی کا موضوع رہا ہے۔ جب ہم غور و فکر کرتے ہیں
تو یہ راز آشکار ہوتا ہے کہ یہ کائنات ہماری فہم و ادراک سے بھی زیادہ پر اسرار
اور وسیع ہے۔یہاں بے شمارکہکشائیں، لاتعداد ستارے اور سیارے موجود ہیں۔ ہماری یہ کائنات
بے شمار عجائبات کی مظہر ہے۔ یہاں ایسی ایسی چیزیں وجود رکھتی ہیں جن کا مشاہدہ
انسان روئے زمین پر رہ کر نہیں کر سکتا ہے جس کے لیے ہم کو خلاؤں کا سفر طے کرنا
ہوگا۔ موجودہ دور کی سائنس آج اس قابل ہو گئی ہے کہ وہ روز بروز خلاؤں میں تحقیق
کرکے اس سے متعلق نئی نئی وضاحتیں کر رہی ہے،جس کے سبب عصر حاضر کا انسان بہت سی
سائنسی حقیقتوں سے آشنا ہو سکا ہے۔سائنسدانوں اور ماہرین فلکیات کی کوششوں کے نتیجے
میں آج انسان ان سوالات کا جواب بھی حاصل کر چکا ہے جن کو وہ برسوں سے تلاش کر
رہا تھا اور جو کبھی اس کے لیے معمہ بنے
ہوئے تھے۔یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ صرف ماہرین فلکیات ہی نہیں
بلکہ ہمارے معاشرے اور سماج و کائنات کے مسائل پر نظر رکھنے والے شعرا کے اذہان میں
بھی فلکیات سے متعلق موضوعات گردش کرتے رہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اردو شاعری میں بھی
نظام شمسی اور اس سے متعلق سیاروں اور دیگر اجرام فلکی کی بھرپور عکاسی دیکھنے کو
ملتی ہے، کیونکہ اس نے عربی اور فارسی سے اپنا خمیر اٹھایا تھا۔ عربی و فارسی کے
بہت سے شعرا گزرے ہیں جنھیں علم فلکیات میں گہری دلچسپی تھی۔ اس لیے انھوں نے
علامتوں استعاروں میں ڈھال کر علم فلکیات اور اس سے متعلق اجرام فلکی کی منفرد
ترجمانی کی۔خود ہندوستان میں علم فلکیات میں دلچسپی رکھنے والے بڑے بڑے عالم
تھے۔اس لیے عوام کے لیے بھی یہ موضوع کوئی نیا نہیں تھا۔یہی وجہ ہے کہ شعرا نے
اردو شاعری میں علم فلکیات کے مختلف موضوعات کو پیش کیا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ
ہمارے شعرا نے شعوری اور غیرشعوری طور پر ایسے بہت سے اشعار رقم کر دیے ہیں، جو
عصر حاضر کی جدید تحقیقات کے عین مطابق لگتے ہیں۔لہٰذا اس تحقیقی مضمون میں اردو
غزل میں ایسے اشعار کا انتخاب کیا گیا ہے جو نظام شمسی اوراس سے متعلق اجرام فلکی
کے پر اسرار حقائق کے ترجمان ہیں۔
جب انسان خلا کی وسعتوں
سے آشنا ہوا تو اس کے دل میں تجسس پیدا ہوا کہ وہ ستاروں سے آگے جاکر نئے جہان کی
تلاش کرے اور خلا میں پیش آنے والے نئے نئے چیلنجز کو حل کرے۔ جیسے جیسے یہ تحقیق
کرتا گیا خلائوں سے متعلق نئے نئے راز آشکار ہوتے گئے۔اسی کی تحقیق کا ثمرہ ہے کہ
آج ہم نظام شمسی سے متعلق پوشیدہ معلومات کو جان سکے ہیں۔راز بنارسی کا ایک شعر دیکھیں
جس میں شاعر نظام شمسی کا قصیدہ پڑھتا ہوا
نظر آتا ہے ؎
اپنے اس اک نظام شمسی میں
دیکھو پوشیدہ راز کتنے ہیں
شاعر اپنے اس شعر میں نہ
صرف نظام شمسی کی تعریف کر رہا ہے بلکہ اس کے پوشیدہ رازوں سے آشکار ہونے کی دعوت
بھی دیتا ہوا نظر آتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ ہم کو اپنے اس نظام شمسی سے واقفیت
رکھناضروری ہے اور اس بات کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ اس میں کتنے راز پوشیدہ ہیں۔ اگر
ہم اپنے اس نظام شمسی میں پوشیدہ رازوں سے واقف ہو جاتے ہیں تو اس وسیع کائنات میں
موجود اسی طرح کے دوسرے نظاموں کو سمجھنے اور ان کے رازوں کو سلجھانے میں بہت مدد
ملے گی۔ در اصل شاعر اپنے اس شعر کے ذریعے ذہنوں کو بیدار کرنا چاہتا ہے، کیونکہ ایک
ماہر فلکیات کی طرح اس کے دل و دماغ میں بھی وہ سوالات ہل چل مچا رہے ہیں جن
سوالات کا جواب جدید سائنس تلاش کر رہی ہے۔اسی ضمن میں فراق گورکھپوری کا یہ شعر دیکھیں ؎
اس میں لاکھوں نظام شمسی
ہیں
یوں تو دل تیرہ روز گار
بھی ہے
مصرع ’اس میں لاکھوں نظام
شمسی ہیں‘ فراق کی علم کونیات سے واقفیت ظاہر کرتا ہے۔ شاعر بخوبی اس بات سے آشنا
ہے کہ ہماری کائنات میں صرف ہمارا نظام شمسی ہی نہیں بلکہ اس میں ایسے لاکھوں نظام
شمسی وجود رکھتے ہیں۔
نظام ِشمسی سورج اور ان
تمام اجرام فلکی کے مجموعے کو کہتے ہیں جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر سورج کی
ثقلی گرفت میں ہیں۔اس میں 8 سیارے ان کے 162 معلوم چاند، 3شناخت شدہ بونے سیارے (Dwarf
Planet) جس میں پلوٹو بھی شامل ہے،ان کے 4 معلوم
چاند اور کروڑوں دوسرے چھوٹے اجرام فلکی شامل ہیں۔ ہمارا نظام شمسی آٹھ سیاروں،ہر
سیارے کے ارد گرد گردش کرتے متعدد چاند اور اربوں، کھربوں شہاب ثاقب سے مل کر بنا
ہے اور آج کی جدید سائنس اور ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ ہماری کہکشاں جسے مِلکی
وے کہا جاتا ہے جس میں ہمارا نظام شمسی بھی آتا ہے۔اسی طرح کی اربوں اورکھربوں
کہکشائیں بھی اس خلا میں اپنا وجود رکھتی ہیں اور ہر ستارے یعنی سورج کے اپنے اپنے
سیارے ہیں۔جو مسلسل اس کے ارد گرد گردش کر رہے ہیں۔
نظام شمسی اور دیگر اجرام
کے اس تعلق سے غزل کا ایک شعر دیکھیں جس میں شاعرنظام شمسی کے درمیان کام کرنے والی
قوت سے بندھے ہونے کا ذکر کر رہا ہے
؎
بندھے ہوئے ہیں بنا ڈور
کے سبھی رشتے
نظام شمسی میں جیسے
کھنچائو کی صورت
(ایوب خاں بسمل)
ایوب
خاں بسمل اپنے اس شعر کے ذریعے نظام شمسی میں سورج اور دیگر اجسام کے درمیان موجود
قوت ثقل (Gravitional force) کی
ترجمانی کر رہے ہیں۔ ہمارے نظام شمسی کا محور سورج ہے جس نے ایک خاص قوت کے ذریعے
سیاروں کو جکڑ رکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ سیارے ایک مخصوص فاصلے پر اپنے مدار کے
اندر رہتے ہوئے سورج کا طواف کرتے ہیں۔
سورج کے گرد مدار میں
گردش کرنے والے اجسام کو ماہرین فلکیات تین گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں جو اس طرح ہیں۔سیارے،بونے
سیارے (Dwarf Planet) اور
چھوٹے شمسی اجسام (Small Solar System Bodies)۔
ماہرین کا خیال ہے کہ
ہمارا نظام شمسی نیبولائی نظریے کے مطابق وجود میں آیا ہے۔ یہ نظریہ سب سے پہلے
عمانویل کینٹ نے 1755 میں پیش کیا تھا۔ اس نظریے کے مطابق 44 ارب 600 کروڑ سال
پہلے ایک بہت بڑے مالیکیولی بادل کے ثقلی انہدام (Gravitational
collapse)کی وجہ سے نظام شمسی کی تشکیل ہوئی۔ یہ
بادل شروع میں اپنی وسعت میں کئی نوری سال پر محیط تھا اور خیال ہے کہ اس کے
انہدام سے کئی ستاروں نے جنم لیا ہوگا۔ قدیم شہابیوں میں ایسے عناصر کے معمولی
ذرات (Traces) پائے گئے ہیں جو
صرف بہت بڑے پھٹنے والے ستاروں (Exploding stars) میں
تشکیل پاتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سورج کی تشکیل ستاروں کے کسی ایسے جھرمٹ
خوشۂ انجم (Star cluster) میں
ہوئی جو اپنے قریب کے کئی سپر نووا دھماکوں کی زد میں تھا۔ ان دھماکوں سے پیدا
ہونے والی لہروں (Shock wavess) نے
اپنے پاس پڑوس کے نیبولا کے گیسی مادے پر دباؤ ڈال کر زیادہ گیسی کثافت کے خطے پیدا
کر دیے جس سے سورج کی تشکیل کی ابتدا ہوئی۔اور پھر اس کے بعد ہمارا نظام شمسی اور
اس کے سیارے بنے۔ ندا فاضلی کی غزل کا ایک شعر دیکھیں جس میں شاعر نیبولائی نظریے
کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آتا ہے ؎
کہیں نہیں کوئی سورج
دھواں دھواں ہے فضا
خود اپنے آپ سے باہر نکل
سکو تو چلو
گویا ندا فاضلی سورج بننے
سے قبل نیبولائی عمل کی ترجمانی کر رہے ہیں۔اور اس وقت کی منظر کشی کر رہے ہیں جب
سورج کا وجود بھی نہیں تھا۔ یعنی وہ اپنے بننے کے ابتدائی مراحل میں تھا۔ان حقائق
کی تائید عصر حاضر کے سائنسی انکشافات بھی کرتے ہیں۔ جب سائنسدانوں نے جیم ویب ٹیلسکوپ
کی مدد سے اربوں سال پیچھے خلا میں جھانکا تو کائنات کے وجود میں آنے سے متعلق
بہت سے راز آشکار ہوئے۔شعر کا پہلا مصرع ’کہیں نہیں کوئی سورج دھواں دھواں ہے
فضا‘ نیبولائی بادلوں کا ترجمان ہے۔ دوسرا مصرع ’’خود اپنے آپ سے باہر نکل سکو تو
چلو‘‘اپنی محدود کائنات سے باہر نکل کر تحقیق کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اسی ضمن میں ایک
اور شعر دیکھیں ؎
نہیں ہے کوئی بھی سورج
خلا کے صحرا میں
جہاں بھی دیکھیے گرد و
غبار چھایا ہے
(عادل فراز)
بہرحال ہماری اس کائنات میں
صرف ہمارا ہی نظام شمسی نہیں اس سے بھی بڑے بڑے ستارے اور ان کا نظام وجود رکھتا
ہے۔ اگر ہم اپنے نظام شمسی کے محدود دائرے سے باہر نکل کر دیکھیں تو اربوں کھربوں
کہکشائیں ہماری منتظر ہیں۔لیکن ان تک رسائی تب ہی ممکن ہے جب ہم لاکھوں نوری سال کی
مدت طے کر کے ان تک پہنچیں گے۔لیکن اس کے لیے ہمیں روشنی کی رفتار سے سفر کرنا
ہوگا۔اس ضمن میں راحت اندوری کا ایک شعر دیکھیں ؎
سوال یہ ہے کہ رفتار کس کی
کتنی ہے
میں آفتاب سے آگے نکل
کے دیکھوں گا
یہاں یہ شعر اپنے دامن میں
بہت سے مفاہیم کو سمیٹے ہوئے نظر آتا ہے۔پہلا یہ کہ راحت نظام شمسی میں موجود
سورج اور اس سے متعلق اجرام فلکی کی گردش کی رفتار کی پیمائش کی بات کر رہے ہیں۔تبھی
کہتے ہیں ’سوال یہ ہے کہ رفتار کس کی کتنی ہے‘دوسرا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ
وہ خلا میں سفر کرنے کی رفتار یعنی لائٹ کی اسپیڈ سے سفر کرنے کی بات کر رہے ہیں۔یعنی
عصر حاضر میں ہمارے خلائی جہاز کی کتنی رفتار ہے۔اور ہمارے موجودہ نظام شمسی میں
آفتاب اور اس سے آگے کا سفر طے کرنے میں ہمیں کتنی رفتار سے سفر کرنا ہوگا۔ ان
تمام باتوں کی طرف راحت اندوری کا یہ شعر ذہن کو مرکوز کرتا ہے۔
سورج (SUN):سورج
ہماری زمین کے لیے روشنی اور حرارت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔اس کے ذریعے ہمارے نظام
شمسی کا نظام قائم و دائم ہے۔یہ ہماری کہکشاں ’مِلکی وے‘ کے مرکزے سے تقریباً 30
ہزار نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔یہ ہمارے نظامِ شمسی کا مرکز ہے۔
سورج زیادہ تر ہائیڈروجن
اور ہیلئم گیسوں پر مشتمل ہے۔اس کے مرکزمیں ایک بڑا نیوکلیائی ری ایکٹر ہے۔جس کا
درجۂ حرارت کم از کم ایک کروڑ 40 لاکھ سینٹی گریڈ (2 کروڑ 50 لاکھ فارن ہائیٹ) ہے۔ سورج نیوکلیائی فیوژن کے
ذریعے توانائی پیدا کرتا ہے۔ نیوکلیائی فیوژن سے مراد وہ عمل ہے جس سے ہائیڈروجن ہیلئم
میں تبدیل ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ توانائی کا اخراج بھی ہوتا ہے۔سورج 40 لاکھ ٹن فی سیکنڈ کی شرح سے توانائی کی صورت
اپنی کمیت کا اخراج کر رہا ہے۔جو زمین کی کمیت کا 3,30,000 گنا اور نظام شمسی کے تمام سیاروں کی کمیت کا
745 گنا ہے۔سورج کا قطر 13,92,000 کلومیٹر (8,63,000 میل) ہے جو زمین کے قطر سے
109گنا بڑا ہے۔سورج کا حجم زمین سے 13 لاکھ گنا زیادہ ہے۔اس کے اطراف میں 8 بڑے سیارے،
ان کے چاند، سیاروں کے مابین واقع چھوٹے اجسام، ہزاروں سیارچے، دمدار تارے، شہابیے
گردش کرتے رہتے ہیں۔
اردو غزل میں شعرا نے
جہاں سورج کو اپنی شاعری میں علامت اور استعارے کے پیرائے میں ڈھال کر پیش کیاہے
وہیں انھوں نے سورج کے اطراف گردش کر رہے اجرام فلکی اور سیاروں کی بھی منظر کشی
اپنے اشعار میں منفرد انداز میں کی ہے۔غزل کا ایک شعر دیکھیں جس میں شاعر اسی فکر کا
ترجمان نظر آتا ہے۔
زد میں
سیاروں کی کیسے آگیا سورج مرا
سوچتا ہوں بارہا پر راز
کھل پاتا نہیں
(محسن فتح پوری)
شاعر اپنے اس شعر میں
نظام شمسی میں موجود سورج کے اطراف میں گردش کر رہے سیاروں کے بارے میں بات کرتا
ہوا نظر آتا ہے۔اور اس کے پیچھے کے سائنسی عمل کو سمجھنے کی دعوت دیتا ہے۔اردو
غزل کا ایک اور شعر ملاحظہ کریں یہ شعر بھی اسی سائنسی فکر کا ترجمان ہے ؎
سورج یہ نظام شمسی کا دیتا
ہے اجالے دنیا کو
کیا راز ہے اس میں پوشیدہ
سمجھو تو ہمیں بھی سمجھانا
(جاوید اعظمی)
عطارد (Mercury):
عطارد ہمارے نظام شمسی کا سب سے اندرونی سیارہ ہے۔جو
سورج کے گرد ایک چکر زمینی اعتبار سے 87.969 دنوں میں پورا کرتا ہے۔اس کے علاوہ
سورج کے گرد لگانے والے ہر دو چکروں میں
عطارد اپنے محور کے گرد تین بار گردش کرتا ہے۔چونکہ زمین سے عطارد ہمیشہ سورج کے
قریب دکھائی دیتا ہے اس لیے عطارد کا مشاہدہ عموماً سورج گرہن کے دوران ہی کیا
جاسکتا ہے۔ شمالی نصف کرے پر عطارد کو دیکھنے کے لیے غروب آفتاب کے فوراً بعد یا
طلوع آفتاب سے ذرا قبل کا وقت مناسب ہوتا ہے۔ماہرین فلکیات کے مطابق عطارد کے
بارے میں نسبتاً بہت کم معلومات موجود ہیں۔ زمین سے دور بین سے کیے جانے والے
مشاہدات سے ہلال کی شکل کا عطارد دکھائی دیتا ہے تاہم زیادہ معلومات حاصل نہیں ہوتی۔
عطارد کو جانے والے دو خلائی جہازوں میں سے پہلا جہاز ’میرینر دہم‘ تھا۔جس نے 1974
سے1975 کے دوران عطارد کے 45فیصد حصے کی نقشہ کشی کی تھی۔دوسرا جہاز میسنجر تھا۔جو
عطارد کے مدار میں 17 مارچ 2011 کو داخل
ہوا اور بقیہ حصے کی نقشہ کشی میں مصروف ہو گیا ہے۔ سطح کی درجہ حرارت منفی 183سے
427درجے تک رہتا ہے۔ سورج کی دھوپ والے حصے سب سے زیادہ گرم ہیں جب کہ قطبین کے
نزدیک والے گڈھے سب سے سرد مقام ہیں۔ اس کے اندر بہت بڑی مقدار میں لوہا پایا جاتا
ہے۔ جس کی وجہ سے اس کا مقناطیسی میدان زمین کے مقناطیسی میدان کا محض ایک فیصد
ہے۔اپنے چھوٹے حجم اور لوہے کے اندرونی ڈھانچے کے باعث عطارد کثیف ہے۔عطارد شکل میں
ہمارے چاند سے مشابہ ہے اور شہابیوں کے گرنے سے پیدا ہونے والے گڑھے یہاں بے شمار
ہیں۔اس کا اپنا کوئی قدرتی چاند نہیں ہے اور نہ ہی کوئی خاص فضاہے۔اردو غزل کا
شاعر جب اپنی غزل میں عطارد کا ذکر کرتا ہے تو اس کی اس خصوصیت کو کچھ اس طرح بیان
کرتا ہے ؎
رکھتا نہیں ہوں آج کوئی
اپنے پاس چاند
کیا میں بھی ہوگیا ہوں
عطارد تری طرح
(زبیر صدیقی)
زمین سے دیکھنے پر عطارد
سورج کے سب سے قریب دکھائی دیتا ہے۔اس حقیقت کی ترجمانی میں ایک شعر ملاحظہ کریں:
قربت تری خورشید سے رہتی
ہے برابر
اس واسطے ہم تجھ کو عطارد
ہی کہیں گے
(شمیم عارف)
زہرہ (Venus): سورج
سے دوسرا سیارہ ہے اور سورج کے گرد ایک چکر زمینی وقت کے مطابق 224.7 دنوں میں
مکمل کرتا ہے۔اس کا نام قدیم رومن دیوی ’وینس‘ کے نام پر رکھا گیا ہے جومحبت و حسن
کی دیوی کہلاتی تھی۔ رات کے وقت آسمان پر ہمارے چاند کے بعد دوسرا روشن ترین خلائی
جسم ہے۔ اس کی روشنی سایہ بناسکتی ہے یہ سیارہ عموماً سورج کے آس پاس ہی دکھائی دیتا
ہے۔سورج غروب ہونے سے ذرا بعد یا سورج طلوع ہونے سے ذرا قبل زہرہ کی روشنی تیز ترین
ہوتی ہے۔اس وجہ سے اسے صبح یاشام کا ستارہ بھی کہا جاتا ہے۔زہرہ کو ہمارے شعرا نے
محبوب کے حسن کی ترجمانی میں بطور علامت بھی استعمال کیا ہے۔ اس سے متعلق اشعار دیکھیں ؎
نظر جب بھی زہرہ جبیں کوئی
آئی
ستارہ صبح کا مجھے یاد آیا
(نوید اشرف)
زہرہ دکھائی دینے لگا
آسمان پر
سورج نکلنے والا ہے اپنے
مکان پر
(جمیل کوثر)
زہرہ زندگی کی علامت بھی
ہے اورحسن کا ترجمان بھی۔اس کا دیدار ہونے پر یہ خبر بھی ملتی ہے کہ کچھ دیر میں
اندھیرا دور ہو جائے گا یا سحر نمودار ہوگی
کیونکہ سورج طلوع ہونے والا ہے۔اس سے متعلق اشعار دیکھیں ؎
بنام زہرہ جبینان خطّۂ
فردوس
کسی کرن کو جگائو بڑا
اندھیرا ہے
(ساغر صدیقی)
نہ تیرگی کے لیے ہوں نہ
روشنی کے لیے
ستارہ ٔسحری ہوں میں زندگی
کے لیے
(عین سلام)
زمیں کی گود سے سورج
نکالنے والو
ستارۂ سحری رہنما نہ ہو
جائے
(اسلم فرخی)
زمین (Earth):
نظامِ شمسی میں سورج کا تیسرا نزدیک ترین سیارہ ہے۔ زمین
کی بیرونی سطح پہاڑوں، ریت اور مٹی کی بنی ہوئی ہے۔ پہاڑ زمین کی سطح کا توازن
برقرار رکھنے کے لیے بہت ضروری ہیں۔ اگر زمین کو خلا سے دیکھا جائے تو ہمیں سفید
رنگ کے بڑے بڑے نشان نظر آئیں گے۔ زمین کا صرف ایک چاند ہے۔ زمین کا شمالی نصف
کرہ زیادہ آباد ہے جبکہ جنوبی نصف کرہ میں سمندروں کی تعداد زیادہ اور خشکی کم
ہونے کی وجہ سے کم آبادی ہے۔
قطب شمالی اور قطب جنوبی
پر چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ کی رات رہتی ہے۔ عام دن اور رات کا دورانیہ چوبیس
گھنٹے کا ہوتا ہے۔ماہرین فلکیات کے مطابق نظام شمسی میں واحد ہماری زمین ہی ایک ایسا
سیارہ ہے جس پر حیات پائی جاتی ہے۔اس فکر کی ترجمانی میں ایک شعر دیکھیں ؎
یہی زمین ہے واحد نظام
شمسی میں
جہاں حیات کا اک کاروبار
چلتا ہے
(عادل فراز)
ماہرین فلکیات کا یہ بھی
ماننا ہے کہ ہماری زمین اور سورج کے ارد گرد گردش کر رہے سیارے دراصل سورج کے ہی
ٹکڑے ہیں جو اس سے ٹوٹ کر الگ ہوئے تھے۔اس کی عکاسی میں ایک شعر ملاحظہ کریں ؎
اسی زمین نے سب کو حیات
بخشی ہے
جدا ہوئی تھی کبھی آگ کے
سمندر سے
(شعلہ بجنوری)
ماہرین فلکیات جہاں اس
بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ اس کائنات میں صرف ہمارا نظام شمسی نہیں بلکہ اس جیسے
اور بھی لا تعداد نظام وجود رکھتے ہیں۔جس میں سورج اور اس کے ارد گرد سیارے گردش
کر رہے ہوں گے۔ یعنی ہماری زمین کی طرح اور بھی لا تعداد زمینیں ہوں گی۔ اس فکر کی
ترجمانی میں کیفی اعظمی کا ایک شعر دیکھیں ؎
میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ
جہاں نہیں ملتا
نئی زمین نیا آسماں نہیں
ملتا
(کیفی اعظمی)
گویا کیفی اعظمی نئے نظام
شمسی اور اس میں موجود نئی زمینوں کی تلاش کرنے کی طرف ذہن کو مرکوز کر رہے ہیں۔
مریخ (Mars):
مریخ نظام شمسی میں سورج سے فاصلے کے لحاظ سے چوتھا اور
عطارد کے بعد دوسرا سب سے چھوٹا سیارہ ہے۔مریخ کی سرخ رنگت کی وجہ سے اسے سرخ سیارہ
بھی کہا جاتا ہے۔یہ سرخ رنگ مریخ کی سطح پر آئرن آکسائڈ کی کثرت کی وجہ سے ہے۔مریخ
ایک زمین مماثل سیارہ ہے جو زمین کی نسبت ہلکا کرہ ہوائی رکھتا ہے۔مریخ کے دو چاند
ہیں جنہیں ’فوبوس‘ اور ’دیموس‘کہتے ہیں۔اردو غزل کا شاعر جب مریخ کو اپنی غزل میں
پیش کرتا ہے تو کہتا ہے ؎
آنکھوں میں اتنی سرخی مریخ
لگ رہے ہو
محفل میں چل رہے ہو دو
چاند ساتھ لے کر
(خورشید ضیغم)
مشتری (Jupiter):
ہمارے نظام شمسی میں مشتری سورج سے پانچواں اور سب سے
بڑا سیارہ ہے۔گیس جائنٹ ہونے کے باوجود اس کا وزن سورج کے ایک ہزارویں حصے سے بھی
کم ہے۔لیکن نظام شمسی کے دیگر سیاروں کے مجموعی وزن سے زیادہ بھاری ہے۔مشتری
آسمان پر سورج، چاند اور زہرہ کے بعد چوتھا روشن ترین اجرام فلکی ہے۔شمیم کرہانی
اپنے ایک شعر میں زہرہ، مشتری، اور ماہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں ؎
دل بھی کیا راہ گزر ہے کہ
ہمیشہ جس میں
زہرہ و مشتری و ماہ چلا
کرتے ہیں
شمیم کرہانی کا یہ شعر اس
بات کی وضاحت کرتا ہے کہ شاعر اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ ہمارے نظام شمسی میں
مشتری کے علاوہ زہرہ اور چاند بھی روشن ترین اجسام ہیں۔ اور شاعر کے دل میں ہمیشہ
ان کے بارے میں جاننے کی خواہش پیدا ہوتی رہتی ہے۔
زحل (Saturn): زحل ہمارے سورج سے
چھٹے نمبر پرہے جب کہ ہمارے نظام شمسی کا دوسرا بڑا سیارہ ہے۔زحل کے گرد 62چاند دریافت
ہوچکے ہیں۔اس کے گرد نو دائرے ہیں جو زیادہ تر برفانی ذرات سے بنے ہیں جب کہ کچھ میں
پتھر اور دھول بھی موجود ہے۔اردو غزل کا یہ شعر دیکھیں جس میں شاعر منفرد انداز میں
زحل اور اس کے اطراف میں پائے جانے والے دائروں کی ترجمانی کرتا ہے ؎
ایسا گھرا ہوا ہے محفل میں
دائروں کی
مثلِ زحل ہواہے وہ مہ جبیں
ہمارا
(ہلال نقوی)
صمد رضا بھی اپنی غزل کے
ایک شعر میں زحل کے بارے میں جاننے اور تحقیق کرنے کے لیے آمادہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ؎
چاند پر جائو کہ مریخ پہ
پہنچو
اس سے آگے کی نہ سوچو کہ
زحل پڑتا ہے
یورینس (Uranus): ہمارے نظام شمسی میں
سورج سے ساتواں سیارہ یورینس ہے۔ یہ سیارہ اپنے رقبے کے اعتبار سے تیسرا جب کہ وزن
کے اعتبار سے چوتھا بڑا سیارہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس سیارے کا نام یونانی دیوتا یورینس
کے نام پر رکھا گیا ہے جو آسمان کا دیوتا کہلاتا ہے۔دیگر سیاروں کی طرح یورینس کے گرد بھی چھلے پائے جاتے ہیں اور اس
کا اپنا مقناطیسی فضائی کرہ اور کئی چاند بھی ہیں۔ماہرین کے مطابق یورینس کے اب تک
کل 27 قدرتی چاند دریافت ہو چکے ہیں۔جن کے نام شیکسپیئر اور الیگزینڈر پوپ کی تحاریر
سے لیے گئے ہیں۔ پانچ بڑے چاندوں کے نام میرانڈا، ایریل، امبریل، ٹائیٹانیہ اور
اوبیرون ہیں یورینس کی فضا زحل اور مشتری سے ملتی جلتی ہے اور اس میں ہائیڈروجن
اور ہیلیئم پائی جاتی ہے۔ اس کی فضا میں پانی، امونیا اور میتھین سے بنی برف زیادہ
پائی جاتی ہے۔ ہمارے نظام شمسی کی یہ سرد ترین فضا ہے جس کا کم سے کم درجہ حرارت
منفی 224 ڈگری سینٹری گریڈ ہے۔بناوٹ کے اعتبار سے یورینس نیپچون سے بھی مشابہت
رکھتا ہے۔ اردو غزل کا ایک شعر دیکھیں جس میں شاعر اس مشابہت اور نظام شمسی میں ان
کے آخر میں ہونے کی بات کرتا ہوا نظر آتا ہے ؎
سورج تیری محفل میں یہ
جڑواں نظر آئے
کیا کام ہے ان کا کوئی
بتلائے جہاں کو
(زاہد اسرار)
یورینس نیپچون ہوں کیا
ذکر آیا ہے میرا آخر میں
(حامد مشتاق)
نیپچون (Neptune): ہمارے نظامِ شمسی
میں نیپچون آٹھواں اورسورج سے بعید ترین سیارہ ہے۔ اسے روم کے سمندری دیوتا کے
نام پر نیپچون کہا گیا ہے اور نصف قطر کے لحاظ سے چوتھا جبکہ کمیت کے اعتبار سے تیسرا
بڑا سیارہ ہے۔ نیپچون زمین سے 17 گنا زیادہ وزن رکھتا ہے اور اپنے جڑواں یورینس سے
کچھ زیادہ بھاری ہے۔ زمین کی نسبت اس کا سورج سے اوسط فاصلہ 30 گنا زیادہ ہے۔
سورج سے دوری کی بنا پر
اس کی فضا ہمارے نظامِ شمسی کے سرد ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ بادلوں کے بالائی
سرے پر درجۂ حرارت منفی 218 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے جبکہ سطح پر درجۂ حرارت تقریباً
5000 ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ نیپچون کے گرد مدھم سے حلقے پائے جاتے ہیں جنھیں
پہلی بار 1960 کی دہائی میں دریافت کیا گیا۔
نیپچون کے اب تک 14 معلوم
چاند ہیں۔ سب سے بڑا اور تمام چاندوں کے مجموعی وزن کے 99.5 فیصد کمیت کا حامل
چاند ٹریٹن ہے جو کُروی شکل کا ہے۔ اسے ولیم لاسل نے نیپچون کی دریافت کے محض 17
دن بعد دریافت کیا تھا۔ پورے نظامِ شمسی میں یہ واحد چاند ہے جس کی حرکت سیارے کے
مخالف سمت ہے۔اس سے متعلق غزل کا ایک شعر دیکھیں ؎
سورج کی بزم میں یہی واحد
ملا ہے چاند
گردش میں مختلف ہے ہر اک
اعتبار سے
(انعام رضا)
غزل کا یہ شعر غور و فکر
کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ آخر ہمارے نظام شمسی میں نیپچون کا چاند ٹریٹن اپنے سیارے
سے مخالف سمت میں گردش کیوں کرتا ہے۔
پلوٹو (Pluto):
ایک بونا سیارہ ہے جو 1930 میں دریافت ہوا تھا۔ پلوٹو
1930 سے 2006 تک نظامِ شمسی کے نویں سیارے کے طور پر جانا جاتا رہا ہے۔ لیکن 2006
میں نئی تحقیق کے بعد اس کو نظام شمسی کے سیارے کی حیثیت سے باہر نکال دیا گیا۔ماہرین
کا ماننا تھا کہ ایک سیارہ اپنے مدار میں آنے والے تمام سیارچوں کو اپنی جانب کھینچتا
ہے یعنی اس کی اپنی بے پناہ کشش ثقل ہونی چاہیے۔چونکہ سیارہ نیپچون کی کشش سیارے
پلوٹو پر اثر انداز ہوتی ہے، اور سورج کے گرد گردش کے دوران ان کے مدار دو بار ایک
دوسرے کو قطع کرتے ہیں، اس لیے، یونین کے نئے معیاروں کی وجہ سے پلوٹو کو سیارہ نہیں
کہا جا سکتا، اور اس کا درجہ کم کر کے اِسے ڈوارف پلینٹ یعنی بونے یا چھوٹے سیارے
کا درجہ دیا گیا۔اردو غزل کے اشعار دیکھیں جو پلوٹو کے نظام شمسی کے سیارے کی حیثیت
سے باہر نکالے جانے کی ترجمانی کرتا نظر آتا ہے ؎
کس لیے حسن کی محفل سے
نکالا اس کو
کیا کہیں قد میں وہ سورج
کے برابر تو نہیں
(سجاد حیدر)
میں انساں ہوں کوئی پلوٹو
نہیں ہوں
نکالو نہ محفل سے بونا
سمجھ کر
(عطا وارث)
اس میں کوئی شک نہیں کہ
عصر ِحاضر کے شعرا نے نئے نئے موضوعات کو غزل کے پیرائے میں شامل کر کے اس کو نئے
جہانِ معنی سے آشنا کرایا ہے۔کیونکہ یہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے اور اب
شعر و ادب کے تقاضے بھی بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں اس لیے سائنسی رجحانات
کو اردو غزل کے پیرائے میں ڈھال کر پیش کرنا بے حد ضروری ہے۔
غرض یہ کہ اردو غزل کے
دامن میں اتنی وسعت ہے جس میں نہ صرف ہمارے نظامِ شمسی کی ترجمانی کی جاسکتی ہے
بلکہ اس میں کائنات کے تمام پہلوئوں اور اس کے حسن و جمال کو ایک مختصر سے شعر کے
قالب میں ڈھال کر پیش کیا جا سکتا ہے۔
کتابیات
.1 کائنات
کیسے وجود میں آئی مترجم ’مولانا محمد زکریا اقبال‘
.2 تخلیقِ
کائنات مترجم’عبدالستار‘
E.R Mohd Adil
Hilal House, H. No:
4/114, Jagjeevan Colony
Naglah Mallah, Civil
Line
Aligarh- 202001 (UP)
Mob.: 8273672110
mohdadil75@yahoo.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں