24/1/25

بھیل عورتیں، ماخذ: ہندوستان کی قبائلی عورتیں:، مصنف: شیام سنگھ ششی، مترجم: محبوب الرحمن فاروقی

 اردو دنیا، دسمبر 2024

 
بھیل راجستھان، گجرات، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر تک پھیلے ہوئے ہیں ۔ ہندوستان کے مغربی حصے میں بھیل دوسرا سب سے بڑا درج فہرست قبیلہ ہے۔ ان میں زیادہ تر مغربی راجستھان کے اودے پور، بانسواڑہ، درگاپور، بھیلواڑہ اور چتوڑ گڑھ کے ضلعوں میں رہتے ہیں۔ راجستھان کے ہر پانچ درج فہرست ذات کے ارکان میں سے دو بھیل ہیں۔

ہندوستانی قبائلیوں میں بھیل اعلیٰ نشانے باز مانے جاتے ہیں۔ مہابھار ت کے زمانے میں دروناچاریہ کا شاگرد ایکلپیہ بھیل تھا وہ اپنے وقت کا مثالی نشانے باز تھا۔ رام کو بیر نذر کرنے والی شبری بھی بھیل مانی جاتی ہے۔

’بھیل‘ دروڑ لفظ سے نکلا ہے جس کا مطلب ’دھنش‘ ہے اور یہ اس قبیلے کا خاص ہتھیار ہے۔ قدیم سنسکرت ادب میں اس لفظ کا استعمال دوسرے جنگلی قبیلوں جیسے نشاد، شبر کے لیے بھی کیا گیا ہے۔ نشاد کا مطلب ہے۔ برہمن باپ سے شودرماں کی اولاد، حقیقت میں بھیل نام ان قبائلیو ںکو دیا گیا جو تیر کمان کا استعمال کرتے ہیں۔

بھیل اپنی ابتدا ایک راجپوت قبیلے سے مانتے ہیں جن کی شاخیں درج ذیل ہیں:

          ہیرات   تیجات

          نوات    کھیتات

          رتنات   امرات

          بھیتات  جگات

          رنگات   نکیات

ناڈ نے بھیلوں کا تذکرہ کالے اور بھدے، سب سے لمبے، پورا جسم ڈھک لینے والی لمبی داڑھیوں اور بالوں والے لوگوں کی شکل کا کیا ہے، بھیلوں کے لیے بھلا اور بھیڑاناموں کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔

بھیل گاؤں کو پال کہا جاتا ہے، جس میں مختلف ’پھل‘ ہوتے ہیں۔ پھل میں ایک ہی باپ کے خاندان کے مختلف افراد رہتے ہیں۔ لیکن پال، لفظ کا استعمال تبھی کیا جاتا ہے۔ جب وہاں 2000 سے زیادہ آبادی ہو ورنہ وہ گاؤں ہی کہلاتا ہے۔

ڈاکٹر ایل ایل دوشی کا قول ہے کہ خاندان کی عورتوں پر مردوں کی فوقیت ایک مسلمہ خاندانی روایت ہے۔ خاندان کی عورتوں سے ان کی حیثیت کے مطابق سلوک کی امید کی جاتی ہے۔ مرد اکثر و بیشتر فحش گالیوں کے استعمال سے اپنی فوقیت جتاتے ہیں، لیکن عورتوں کی طرف اس طرح کی زبان کے استعمال کی امید نہیں کی جاتی۔ اس کے برعکس ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ خاموش رہیں۔ یہ ان کے کمزور ہونے کی علامت ہے۔ اگر بیوی شوہر کا حکم نہیں مانتی تو اس کو مارا جاتا ہے جس کے شور و شغب سے پورا گاؤں یہ جان لیتا ہے کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔

لیکن گھنٹالی کے بھیلوں کا سلوک اس سے مختلف ہوتا ہے۔ وہاں عورتیں مردوں کے لیے اتنے لحاظ کا جذبہ نہیں رکھتیں اور نہ ہی مردانہ فوقیت کا خیال کرتی ہیں۔ اگر شوہر بیوی سے گالی گلوج یا فحش کلامی کرتا ہے تو بیوی بھی شوہر کے لیے ویسے ہی الفاظ کا استعمال کرتی ہے۔ بیویوں کے ذریعے شوہروں کو مارنے پیٹنے کے واقعات بھی بعید نہیں ہیں۔ یہاں عورتیں جنسی اخلاقیات کی بندشوں کا بھی اتنا لحاظ نہیں کرتیں۔ جتنا کہ میدانی علاقوں کی عورتیں کرتی ہیں۔ اگر شوہر جنسی طور پر مطمئن نہیں کرسکتا تو بیوی اسے گالیاں دیتی ہوئی علی الاعلان نامرد کہہ کر اسے ہمیشہ کے چلے چھوڑ سکتی ہے۔ دوسری طرف جیسا کہ اشارہ کیا جاچکاہے کاؤریا اور منبلا میں عورتوں کا خاندان کے مردوں کی مرضی کو مقدم ماننا بہتر سمجھا جاتا ہے۔

بھیل پدری خاندان ماننے والی، ایک ہی نسل اور ایک شادی کرنے والی برادری ہے۔ شادی کے بعد دلہن اپنے شوہر کے گھرآجاتی ہے صرف ’گھر داماد‘ اس سے مستثنیٰ ہے۔ جو شادی کے بعد اپنی بیوی کے ماں باپ کے گھر رہتا ہے۔ ایسی حالت میں خسر کی جائداد کا وہ وارث ہوتا ہے۔ بھیلوں میں شادی ایک سماجی بندھن مانا جاتا ہے۔

بھیل عورتیں گھر پر بھی کام کرتی ہیں اور شوہر کے ساتھ کھیت میں بھی، وہ جنگلوں سے ایندھن جمع کرتی ہیں اور جانوروں کو چراتی ہیں۔ وہ مردوں سے زیادہ محنتی ہوتی ہیں۔ جناب این این ویاس کا قول ہے کہ بھیل عورت کسی بھی قبیلے یا برادری کی عورت کی طرح زندگی کے تین اہم مراحل سے گزرتی ہے۔ کنواراپن۔ ازدواج اور ماں کی حیثیت۔ شادی سے قبل وہ اپنے باپ کے گھر رہتی ہے، جہاں بھیل تہذیب کے مطابق اسے سماجی اخلاق و اطوا رکی تعلیم دی جاتی ہے۔ بچپن سے ہی لڑکی گھریلو کاموں میں اپنی ماں کی مدد کرتی ہے۔ سات آٹھ برس کی عمر میں وہ ماں کی غیرموجودگی میں چھوٹے بھائی بہنوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ بارہ تیرہ سال کی ہوتے ہوتے وہ اپنے گھر کا ہر کام کرنے کے لائق ہوجاتی ہے۔

ڈاکٹر دوشی کے مطابق بہو کے خاندان میں ضم ہوجانے (گھل مل جانے) کے سلسلے میں کچھ دقتیں پیدا ہوتی ہیں کیونکہ خاندان سے باہر شادی کے رواج نیز گاؤں کے دو تین خاندانوں میں منقسم ہونے کی وجہ سے بہو ہمیشہ دوسرے گاؤں کی ہوتی ہے جس کی وجہ سے شوہر کے خاندان میں اسے ایک الگ سماجی انداز و عمل ملتا ہے مگر اعلیٰ ذات کے ہندو، جو مشترکہ خاندانوں کے رکن ہوتے ہیں، کے مقابلے میں ان کے سامنے کم دقتیں پیش آتی ہیں کیونکہ اپنے سسر کے گھر میں صرف چند سال ہی رہتی ہیں اور جیسے ہی ان کا خاوند اپنے کھیتوں کے تعلق سے آزاد ہوجاتا ہے۔ وہ شوہر کے بنائے ہوئے نئے گھر میں چلی جاتی ہیں۔ سسر کے گھر میں بسر کیے گئے وقت کو وہ نئے تعلقات استوار کرنے میں صرف کرتی ہیں۔

کنواری لڑکی کو پاک مانا جاتا ہے کیونکہ وہ پیدائش ی علامت ہوتی ہیں اور اسی علامت کی وجہ سے اسے مختلف طاقتوں کا سرچشمہ مانا  جاتا ہے۔ کٹائی کے وقت اسے اناج کا پہلا دانہ دیا جاتا ہے کیونکہ یہ عقیدہ ہے کہ اس سے فصل اچھی ہوتی ہے۔ شادی کے موقعے پر وہ دولہا کو خوش آمدید کہتی ہے۔ اس موقعے پر وہ سرپر مٹی کا گھڑا رکھتی ہے۔ وہی شادی کی رسم کے موقعے پر نوشادی شدہ جوڑے کے کپڑوں میں گرہ بھی لگاتی ہیں اور اسے کھولتی بھی ہیں۔ اگر کوئی مرد کسی کام سے باہر جارہا ہو اور غیرشادی شدہ لڑکی اس کا راستہ کاٹ دے تو یہ اچھا شگن سمجھا جاتا ہے۔

بیوی کا مقام اس پر منحصر ہے کہ شادی کس طرح ہوئی ہے۔ ان گاؤں میں جہاں بہت سی بیویوں کا رواج ہے۔ بیوی کو اعلیٰ مقام حاصل نہیں ہوتا۔ جس خاندان میں دو یا تین بیویاں ہوتی ہیں ان خاندانوں میں شوہر کی طرف سے دی گئی اہمیت پر اس کا انحصار ہے۔ پھر بھی بڑی بیوی کی حیثیت بہتر ہوتی ہے اور جشن و تیوہار کے معاملوں میں اور سماجی تعلقات کے سلسلے میں ا س کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے ورنہ شوہر اور سوتن میں جھگڑوں کے امکانات ہیں۔ سوکنوں کے آپسی تعلقات زیادہ تر جذباتی ہوتے ہیں کیونکہ جس بیوی کو شوہر کی محبت زیادہ ملتی ہے وہ خاندانی معاملوں میں اپنا حق زیادہ جتاتی ہے۔

بھیلوں کی عورتیں بیوہ نہیں رہتیں کیونکہ سوگ کی مدت ختم ہوتے ہی وہ دوسری شادی کرلیتی ہیں۔ صرف بوڑھی عورتیں ہی جو دوبارہ شادی نہیں کرتیں بیوہ رہتی ہیں۔ اس صورت میں بھی اسے خاندان کے دوسرے ارکان عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

بھیلوں کی عورتوں کا روایتی لباس ٹخنوں تک لمبا گھاگھرا، چوٹی اور زیور ہوتا ہے۔ آج کل بھیل عورتیں ساڑی بھی پہنتی ہی۔ ایک شادی اور بہت سی شادی دونوں کا رواج ملتا ہے۔ مگر نمائش یا صرف دکھاوے کے لیے شادی کا رواج نہیں ہے۔

بھیل عورتیں ہندو دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتی ہیں۔ جیسے گنیش، ہنومان، کالی، چنڈی، وہ دیوالی، ہولی، دسہرا وغیرہ تیوہارو ںکو مانتی ہیں۔

راجستھان کی بھیل عورتیں کھیتوں میں مزدوروں کی حیثیت میں بھی کام کرتی ہیں۔ درحقیقت وہ سخت محنت اور لگن کی ایک علامت ہیں۔

 

ماخذ: ہندوستان کی قبائلی عورتیں:، مصنف: شیام سنگھ ششی، مترجم: محبوب الرحمن فاروقی، سنہ اشاعت: 1998، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

آنکھ، ماخذ: ہمارے جسم کا معجزاتی نظام، مصنف: قیصر سرمست

  اردو دنیا، دسمبر 2024 آنکھ آپ کے جسم کا صرف ایک حصہ ہی نہیں جو آپ کی خوبصورتی کا مظہر، آپ کی ذہانت کا آئینہ دار آپ کی ہوشیاری کا نقی...