اردو دنیا، دسمبر 2024
ظہیر فیصل :
اپنی پیدائش اور خاندانی پس منظر پر روشنی ڈالیں۔
معصوم شرقی :
شہر نشاط کلکتہ سے 35 کیلو میٹر دور باری پاڑہ(کانکی نارہ) کے ایک متوسط
گھرانے میں 4 ؍ نومبر1948 میں
آنکھیں کھولیں۔ نام عبدالغفار انصاری رکھا گیا۔ میرے والد محمد شفقت علی انصاری
تقسیم سے قبل ملازمت کے سلسلے میںبہار سے نقل مکانی کرکے کلکتہ آگئے اور کانکی
نارہ میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
مدرسے کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد چشمۂ رحمت ہائی
اسکول سے اسکول فائنل‘ آر۔بی۔سی کالج سے پری یونیورسٹی آرٹس‘ مولانا آزاد کالج‘
کلکتہ سے بی اے آنرز(اردو)‘ کلکتہ یونیورسٹی سے اردو و فارسی ادبیات میں ایم اے
کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور ایل این متھلا یونیورسٹی دربھنگہ سے پی ایچ
ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ حمایت الغربا ہائر سکنڈری اسکول(کانکی نارہ) کے شعبۂ اردو و
فارسی سے بحیثیت استاذ وابستہ رہا اور 4نومبر 2008 کو سبکدوش ہوا۔
ظ ف: وہ کیا محرکات تھے جنھوں نے آپ کو شعر و ادب کی
طرف راغب کیا؟
م ش: کلاسیکی ادب، رسائل اور شعرائے اردو و فارسی کے
کلام کے مطالعے نے شعر و ادب کی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ ادبی صلاحیت میری فطرت کا
جزو ہے لیکن اسے صیقل کرنے میں استاذی محترم حشم الرمضان(مرحوم) کی کوششوں کا بڑا
دخل ہے۔ ان کے وجود کی شعاعوں سے میری فکر روشن ہوئی۔ خارجی محرکات میں وہ مشاعرے
ہیں جو ہمارے علاقے میں برپا ہوا کرتے تھے۔ پھر بھی فطری امنگ اور ذہنی اپج نے ہی
اپنے اظہار کے لیے شعر کا پیرایہ اختیار کیا۔ اس طرح میرے اندر چھپا ہوا جو
شاعرتھا اس نے معصوم شرقی کا روپ دھار لیا۔ زمانہ طالب علمی میں شعرگوئی کی ابتدا
ہوئی لیکن باقاعدہ شاعری کا آغاز 1966 سے ہوا۔ 1970 تا 1980 میری ادبی زندگی کا
اہم دور رہا ہے۔ میری تخلیقات ملک کے ہرقابل ذکر اخبار ورسائل میں شائع ہوئیں۔
شہر نشاط کلکتہ سے میرا تعلق گھر آنگن سا رہا ہے۔ یہیں
میرا شعور پروان چڑھا اور یہیں میری ادبی زندگی کا ارتقا ہوا۔ اس شہر کے تعلق سے میری
دو رباعیاں سن لیجیے ؎
آماج گہہِ علم و ہُنر کلکتہ
ہے وحشت و پرویز کا گھر کلکتہ
اس شہر سے ہے نسبتِ قلبی مجھ کو
رکھتا ہے مجھے محوِ سفر کلکتہ
——
پروان یہیں رہ کے چڑھا فن میرا
کیا خوب کھِلا فکر کا گلشن میرا
معصوم یہ میرا وطنِ ثانی ہے
بنگال سے وابستہ ہے بچپن میرا
ظ ف: تنقید و تحقیق سے وابستگی سے متعلق اپنے خیالات کا
اظہار کریں۔
م ش :یہ شروع سے ہی مزاج کا حصہ تھا لیکن میرے تحقیقی
مقالۂ امتحانیہ کا موضوع بہت سخت تھا۔ اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں ہفت خواںطے کرنا پڑا۔ سات برس کی محنت شاقہ اور
جد وجہد کے بعد میرے بے چین ذوق کو تسکین میسر ہوئی۔ اس کے ضمنی اثرات یہ ہوئے کہ
میرے اندر تنقیدی و تحقیقی شعور پیدا ہوا جو 1990 تا حال میری تحریر کا جزو ہے۔ میری
تنقید کا اصل مدعا ادب کا معروضی مطالعہ اور ادبی معیار و اقدار کا تعین ہے۔ لیکن
شاعری مجھ سے ترک بھی نہ ہوسکی۔ یہ کسی صورت میں اب بھی میرے ادبی مشاغل میں شامل
ہے۔ میری بنیادی پہچان میری شاعری کے وسیلے سے ہے تاہم تنقید و تحقیق‘ تبصرہ‘
ترجمہ اور سفر نامہ کے میدانوں میں بھی میرے کام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ظ ف: آپ کا کوئی اہم ادبی کارنامہ ؟
م ش: ’’نظیر
ثانی اشک امرتسری : تعارف‘ تنقید اور تدوین کلام‘‘ ایک تحقیقی کتاب
ہے جو اپنے موضوع کی طرف پہلا قدم ہے۔ یہ ایک قیمتی دریافت اور انکشاف کی حیثیت
رکھتی ہے۔ ملک کے متعدد سربرآوردہ ناقدین اور محققین نے میری اس کاوش کو نہ صرف
پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا بلکہ بڑی فراخدلی سے سراہا اور رفتار قلم کو جاری رکھنے
کا حوصلہ بخشا۔ میری ادبی شخصیت کی تعمیر میں اس کتاب نے بڑا کام کیا۔
ظ ف: آپ کے لائحہ عمل میں نوشت و خواند کا تناسب کیا
ہے ؟
م ش: ذوق مطالعہ مجھے طبعی طور پر ملا ہے۔ جو کتاب یا
رسالہ ہاتھ لگا بس شروع سے آخر تک پڑھ ڈالا۔ میں 80 فیصد پڑھتا ہوں اور 20 فیصد
لکھنے پر عمل پیرا ہوں۔ میری شادمانی کا سرچشمہ ’نشاط بخش ادب‘ کا مطالعہ رہا ہے۔
مطالعۂ کتب مجھے ذہنی طور پر پرُ نشاط اور احساس و جذبے کی سطح پر تازہ دم‘ خرم
اور شادماں رکھتا ہے۔
ظ ف: شاعری اور نثر نگاری دونوں میں آپ کس کو فوقیت دیتے
ہیں؟
م ش: فوقیت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دونوں کی
اپنی اہمیت ہے۔
ظ ف: آپ نثرونظم دونوں میں بات کہنے کا ہنر جانتے ہیں۔
اپنے خیالات واحساسات کے اظہار کے لیے کس میں آسانی یا سہولت محسوس کرتے ہیں؟
م ش: اس کے لیے میں نظم کو ترجیح دیتا ہوں۔
ظ ف: کوئی ایسی تخلیق جسے آپ تحریر کرنا چاہتے ہوں اور
ابھی تک تحریر نہیں کرپائے ہوں؟
م ش: مرشدِ فن، مشہور صوفی شاعر محمد سعید سرمدؒ میرے
پسندیدہ شاعر ہیں۔ میں ان پر بھرپور کام کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ایک بڑا پروجیکٹ ہے۔ ایک
باب لکھ چکا ہوں، مزید مطالعہ جاری ہے۔
ظ ف: پی ایچ ڈی کی تحقیق کے بارے میں کچھ بتائیں۔
م ش: پی ایچ ڈی
کی تحقیق کا معیار دن بہ دن گرتا جارہا ہے۔ اس لیے کہ اسے کیرئیر سے جوڑ دیا گیا
ہے۔ ہر کوئی جلدی میں ہے کہ اسے ملازمت حاصل کرنی ہے‘ ایسے میں معیار کا خراب ہونا
فطری بات ہے۔
ظ ف: آپ کا خود نوشت سوانح عمری لکھنے کا ارادہ؟
م ش: زندگی کے اہم واقعات اور ادب کے نشیب و فراز
کو’ماضی کے تعاقب میں‘ کے نام سے خود نوشت سوانح عمری جستہ جستہ لکھ رہا ہوں۔
ظ ف: عزت‘ شہرت‘ محبت یعنی خدا کی اتنی ساری نعمتوں کے
میسر آجانے کے بعد بھی آپ کو اپنی زندگی میں کسی کمی کا احساس ہوتا ہے؟
م ش:بشر کو کمی کا احساس دم آخر تک رہتا ہے۔ ’قرآن
کہتا ہے ’’اے لوگو! حبِ ذات‘ حبِ اقتدار‘ حبِ شہرت‘ حبِ ستائش اور حبِ زن وزر کی
شدت اتنی نہ بڑھالو کہ تمھارے لیے باعث رسوائی ہوجائے۔‘‘ عزت اور شہرت اللہ کی دین ہے۔ بشر کو چاہیے کہ
اللہ کی عطاکردہ نعمتوں کا شکرادا کرے۔ جب ہم شاکر ہوجائیں گے تو ہمارے اندر حلیمی
پیدا ہوگی‘ دلوں میں اداسی اور کسی کمی کا احساس نہیں ہوگا۔
ظ ف: ماشاء اللہ آپ نے طویل عمر پائی ہے۔ آپ نے کئی
ادبی تحاریک دیکھیں۔ آپ نے کس تحریک کو خوش آمدید کہا؟
م ش: ادب میں ضرورت کے مطابق تحریک کا آغاز ہوا جیسا
کہ ترقی پسند تحریک تھی۔ میں نے اس تحریک کو خوش آمدید کہا لیکن ادب میں کسی تحریک
کے زیراثر نعرہ بازی کو میں پسند نہیں کرتا بلکہ میں زمانے میں وقوع پذیر حالات کی
ترجمانی کرنا پسند کرتا ہوں‘ جبکہ ادب میں تصوف کی عکاسی بھی میرا پسندیدہ عمل ہے۔
ظ ف: آپ کے خیال میں کیا ادب کے ذریعے لوگوں میں سماجی
آگہی پیدا کی جاسکتی ہے؟
م ش: ضرور کی جاسکتی ہے‘ اگر ادیب وشاعر اس امر کی جانب
توجہ دیں۔ صرف تفننِ طبع اور داد وتحسین بٹورنے کے لیے ادب تخلیق کرنے سے گریز کریں۔
ظ ف: آپ ’ادب برائے ادب‘ کے قائل ہیں یا ’ادب برائے
زندگی‘ کے؟
م ش: ’ادب برائے ادب‘کی مخالفت کیے بغیر میں ’ادب برائے
زندگی‘ کو ترجیح دیتا ہوں۔
ظ ف: یہ بات عام ہے کہ رباعی کے اوزان 24 ہیں لیکن بعض
عروض داں کی رائے ہے کہ رباعی کے اوزان 34 ہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
م ش: قدما نے رباعی کے 24 اوزان مقرر کیے ہیں جن پر
مدتِ مدید سے شعرائے متقدمین‘ متوسطین اور متأخرین نے طبع آزمائی کے عمدہ نمونے
پیش کیے۔ بیسویں صدی کے نصف کے بعد زار علامی اور دیگر عروض دانوں نے بحررباعی میں
اضافہ کیا اور خود ان کے نمونے پیش کیے۔ لیکن ان نئی بحروں کو بعض شعرا نے قبول کیا
اور بعض نے نہیں قبول کیا لیکن 24 بحریں مستند ہیں۔
ظ ف: کیا نئی نسل کو نقاد کی عدم موجودگی کا احساس
ہے؟ اگر ہے تو کیوں؟
م ش: نئی نسل
اپنی تخلیق کو تخلیقیت کے دم پر زندہ رکھنا چاہتی ہے۔ نئی نسل اس بات کو محسوس
کرنے لگی ہے کہ اگر تخلیقات میں متوجہ کرنے کی صلاحیت ہے تو از خود نقاد حضرات فن
پارے کی طرف رجوع کریں گے۔
ظ ف: آپ کے بعد کی نئی نسل کے قلمکاروں سے آپ کی کیا
توقعات ہیں؟
م ش: میں اپنے بعد کی نئی نسل کے قلمکاروں سے بہت پرامید
ہوں۔ ان میں تخلیقی اعتبار سے آگے بڑھنے کی صلاحیت ہے۔ اچھے شاعر‘ افسانہ نگار‘
ناول نگار اور دوسری اصناف میں اچھے لکھنے والے متعارف ہورہے ہیں لیکن وہ عجلت
پسند ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وقت سے پہلے ان کو وہ سب کچھ مل جائے جس کے لیے ایک مدت
درکار ہوتی ہے۔ انھیں سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔
ظ ف: مشاعرے کی اہمیت و افادیت سے کم و بیش ہر کوئی
واقف ہے۔ ادبی نشستوں کی اہمیت پر کچھ اظہار خیال کریں۔
م ش: ادبی نشستوں میں حصہ لینے والے لوگ معیاری ہوں تو
شاعر اور سامع دونوں کی تخلیقی اور تنقیدی قوتوں میں اضافہ ہوتا ہے‘ تازہ گویوں کی
قابل لحاظ جماعت سامنے آتی ہے۔ ادبی نشستوں کی افادیت اس وقت بہت مستحکم ہوجاتی
ہے جب ان میں شرکاء اعلیٰ معیار کے ہوں اور اعلیٰ ظرف بھی رکھتے ہوں یعنی ان میں
تنقید اور نکتہ چینی کی صلاحیت ہو۔ ایک زمانہ یہ آیا ہے کہ سخن شناس مفقود ہیں
اور ناشناس خود کو بحر ادب کا شناور‘ دریائے معانی کا غواص سمجھتے ہیں۔
ظ ف: کیا اردو کے موجودہ منظر نامے سے آپ مطمئن ہیں؟
م ش: مطمئن تو نہیں ہوں مگر مایوس بھی نہیں ہوں۔ ہر صنف
میں باصلاحیت لکھنے والوں کی کمی نہیں مگر سستی شہرت اور انعام کی رقم کے لیے کچھ
لوگ اپنی سطح سے نیچے اتر رہے ہیں۔ میں نے ایک شعر میں اس خیال کو اس طرح باندھا
ہے ؎
ضمیر بیچ کے حاصل جسے کیا تو نے
ترے گلے میں وہی تمغۂ ادب تو نہیں
ظ ف: آپ اپنے ہم عصر ادبا وشعرا کے بارے میں کچھ بتائیں۔
م ش: دیکھیے
جناب! ’ہم عصر‘ اور ’ہم عمر‘ میں بڑا فرق
ہے۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اول الذکر میں وہ ادبا وشعرا شامل ہیں جن کی طبعی
اور تخلیقی عمر بھی ہم سے بہت زیادہ ہے لیکن ایک ہی عہد میں ساتھ ساتھ تخلیقی سفر
جاری رہا۔ ایسے قابل احترام بزرگ ہم عصر شعراوادبا میں جرم محمد آبادی‘ نواب دہلوی‘
احمد سعید ملیح آبادی‘ سالک لکھنوی‘ ابراہیم ہوش‘ علقمہ شبلی‘ نصر غزالی‘ ناظم
سلطان پوری‘ مضطر حیدری‘ قیصر شمیم‘ احسان دربھنگوی‘ مظہرامام‘ رونق نعیم‘ حشم
الرمضان‘ عابد ضمیر‘ فیروز عابد‘ اویس احمد دوراں وغیرہ۔
’ہم
عمر‘ معاصرین میں نصرت جمیل‘ احمد رئیس‘ انیس رفیع‘ صدیق عالم‘ ف س اعجاز‘ ایم اے
نصر‘ خورشید اختر فرازی‘ ڈاکٹر خواجہ نسیم اختر‘ شہناز نبی‘ شہیرہ مسرور‘ زار غازی
پوری‘ ایم نصراللہ نصر‘ انور حسین انجم وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام قلمکاروں سے میرے
خوشگوار تعلقات رہے ہیں۔
ظ ف: شہر نشاط کلکتہ کے ادبی منظر نامے پر کچھ روشنی
ڈالیں؟
م ش: کلکتے میں تحقیقی‘ تنقیدی اور تخلیقی سرگرمیاں
دوسری ریاستوں سے کم تیز نہیں ہیں۔ دور حاضر میں جن قلمکاروں سے کلکتے کا ادبی
مستقبل وابستہ ہے اُن کی موجودگی یہاں کے ادبی منظر نامے کے روشن مستقبل کی ضمانت
سمجھی جاتی ہے۔ رواں صدی میں کلکتہ ومضافات کے شعر و ادب کا جو منظر نامہ ابھرتا
ہے وہ قابل قدر اور خوش آئند ہے۔ میں ان تمام قلمکاروں کو تہنیت پیش کرتا ہوں۔
ظ ف: خدمت ادب میں آپ نے نصف صدی گزاردی‘ آپ کا جو
کچھ بھی ادبی سرمایہ ہے کیا اس سے آپ مطمئن ہیں؟
م ش: کمی کا احساس فنکار کی زندگی کی علامت ہوتی ہے۔
اگر فنکار زندگی سے پوری طرح مطمئن نہیں ہے‘ اس نے جو کچھ کیا ہے اس سے اگر وہ
مطمئن نہیں ہے تو وہ زندہ ہے اور اگر مطمئن ہوگیا تو گویا وہ مرگیا۔
ظ ف: نئی نسل کے لیے کوئی پیغام؟
م ش: نئی نسل کے لیے مرزا بیدل کا ایک شعر نذر ہے ؎
بگیر ایں ہمہ سرمایۂ بہار از من
کہ گُل بدستِ توٗ از شاخِ تازہ تر ماند
(بہار کا یہ تمام سرمایہ مجھ سے لے لو کہ
پھول تمہارے ہاتھ میں شاخ سے زیادہ تر و تازہ رہتا ہے)
Md Zahiruddin (Zahir Faisal)
Research Scholar, Dept of Urdu
Aliah University
Kolkata- 700014 (West Bengal)
Mob.: 9681548062
md.zahiruddin428@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں