23/1/25

ہمارا تمدن، ماخذ: ہندوستان سرزمین اور عوام، مصنفہ: نارائنی گپتا، مترجمہ: ایس کے سنگھ

 اردو دنیا، دسمبر 2024

’’میں یہ گوارا نہیں کرسکتا کہ میرے مکان کے چاروں طرف دیواریں کھینچ دی جائیں اور کھڑکیاں بند کردی جائیں۔ میں چاہتا ہو ںکہ تمام دنیا کا تمدن ہوا کی طرح لہراتا ہوا زیادہ سے زیادہ میرے مکان میں داخل ہو۔‘‘ (مہاتما گاندھی)

ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ ہندوستان کا سماج ان تمام اثرات کو لیے ہوئے ہے جو وقتاً فوقتاً ہندوستان میں داخل ہوتے رہے ہیں۔ ان اثرات کی گہرائی اس کے ادب، موسیقی اور دیگر فنونِ لطیفہ میں پائی جاتی ہے، جو یہاں کے باشندوں کی تخلیقی قوت کی مظہر اور علمبردار ہے۔ یہ تمام فنون حال تک بطور خود ہندوستانی سماج کے مذہب کے زیراثر رہے ہیں اور اس کا دوسرا پہلو جو ان تمام میں پایا جاتا ہے یہ ہے کہ ان کا اتار چڑھاؤ شاہانِ وقت یا شاہی دربار کی سرپرستی کا مرہون منت رہا ہے۔ بالخصوص فن تعمیر اور فن سنگتراشی کیونکہ یہ لامحدود اخراجات کے حامل ہوتے ہیں۔ مصوری، موسیقی اور ادب اپنی قدرتی شکل میں بذات خود ترقی کرسکتے ہیں اور یہ عوام کی امداد اور جوش کی وساطت سے نشو و نما پالیتے ہیں۔ یہ دو صورتیں یعنی ان کا مذہب کے ساتھ گہرا تعلق اور حکومت کی سرپرستی پر انحصار دوسرے ملکوں کے فنون میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ہندوستان اور یورپین ملکوں میں ایک زبردست فرق بھی رہا ہے کہ ہندوستان میں ذات پات کے باعث تعلیم ایسی عام اور وسیع نہیں ہوئی ہے جیسی موجودہ یورپ میں۔ اب بھی سیکڑوں ہندوستانی تعلیم سے بے بہرہ ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے تمدنی ورثہ سے عام لوگوں کو اتنا فائدہ نہیں ہوا جیسا کہ اب ہورہا ہے۔

ہندوستان کا ادب متعدد نظریوں کے امتزاج کا ایک دلکش نمونہ ہے۔ جس طرح آج ہم کسی ایک شخص کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کی رگوں میں خالص آریہ یا خالص دراوڑ خون ہے اسی طرح ہم کسی ہندوستانی زبان کے متعلق بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ قطعی طور پر خالص زبان ہے کیونکہ یہ تمام کئی ایک تاثرات کی تخلیق ہیں۔ ہندوستانی ادب میں تین ملکی اور ایک غیرملکی زبان کی آمیزش صاف دکھائی دیتی ہے اور یہ ہیں دراوڑ، سنسکرت، فارسی اور انگریزی زبانیں۔

زمانہ قدیم کا ادب جو کچھ بھی ہم تک پہنچا ہے وہ سب سنسکرت میں ہے۔ وید دنیا بھر میں تسلیم شدہ سب سے پرانی کتاب ہے۔ لفظ وید جو سنسکرت کے فعل ’وِد‘ سے نکلا ہے کا ارتھ ’جاننا‘ ہے۔ یہ ایک مناسب نام ہے کیونکہ شروع کے آریہ لوگوں کی زبان میں ہندوستان کا راز بیان کرتے ہیں اور جب فن تحریر کمال کو پہنچا تو سنسکرت ادب بھی نشو و نما پانے لگا۔ یہاں تک کہ دنیا کو کلاسیکی زبانوں میں سنسکرت کا رتبہ نہایت بلند ہوگیا۔ اس زبان میں کتنے ہی مختلف مضامین پر کتابیں تصنیف ہوئی ہیں۔ نہایت دقیق فلسفہ، رزمیہ نظموں، راج نیتی یعنی ریاستی نظام سے لے کر گرامر، ڈرامہ اور خوش الحان شاعری ان تمام مضامین پر نہایت کارآمد کتابیں ملتی ہیں۔ مسلمانوں کے آجانے سے یا فارسی کے سرکاری زبان ہوجانے کی وجہ سے سنسکر کا رتبہ کسی طرح کم نہیں ہوا۔ بلکہ اکثر مسلمان حکمرانوں نے سنسکرت کے مطالعے میں دلچسپی لی اور سرپرستی کی۔ اس کا زوال دیگر ہندوستانی زبانوں کی وجہ سے ہوا جو کہ اس سے زیادہ آسان تھیں۔شمال میں سنسکرت کا دور دورہ تھا تو جنوب میں درواڑ زبانیں نشو و نما پارہی تھیں۔ جنوب کا سب سے پرانا علم و ادب تامل سنگم ہے جو صدیوں پرانا یعنی مسیح کی پہلی دوسری صدی کا ہے۔ یہ خالص تامل زبان میں ہے۔ جنوب کی دیگر زبانیں کنڑی، تلگو اور ملیالم ہیں اور ان میں سنسکرت کے الفاظ بھی بکثرت پائے جاتے ہیں۔ یہ زبانیں خاص طور پر نویں صدی کے بعد زیادہ رائج ہوئیں۔ آندھراپردیش میں تیلگو، میسور کے جینیوں کی زبان کنڑی اور کیرل میںان دونوں سے بھی پہلے کی زبان ملیالم۔ یا دو بادشاہوں کے زمانے میں مراٹھی نے جو سنسکرت اورپراکت دونوں کی ملی جلی زبان ہے، کافی ترقی کی، اور مشرق میں سین بادشاہوں کی سرپرستی میں بنگالی زبان پھلی پھولی۔ اسی طرح گجرات میں جین منیوں کی زبان گجراتی اور پندرہویں صدی میں شنکر دیو کی وجہ سے آسامی اور اسی وقت بہار میں میتھلی اور راجستھان میں راجستھانی زبان نے ترقی کی۔

ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کے ہمراہ فارسی زبان کو دخل ہوا۔ یہ نہ صرف سرکاری زبان رہی بلکہ ہند میں اس نے اپنی خصوصیت کی وجہ سے ایک بلند پایہ علم و ادب پیدا کیا۔ امیر خسرو ہند کا ایک بلند مرتبہ فارسی داں ہوا ہے۔ فارسی زبان کی وجہ سے شمالی ہند کی زبانوں کی لغت میںکافی اضافہ ہوا ہے۔ دو اور ہندوستانی زبانیں تیرہویں  صدی میں پیدا ہوئیں۔ ایک ہندی اور دوسری اسی سے اخذ کی ہوئی اردو جس میں عربی اور فارسی کے کافی الفاظ کی ملاوٹ ہے۔ یہ تمام زبانیں نہ صرف عام بول چال میں مستعمل ہوتی تھیں بلکہ ان میں لوک گیت اور بھجن بھی گائے جاتے تھے۔

گذشتہ صدی میں ہندوستان میں ایک اور زبان سرکاری زبان کی صورت میں نمودا رہوئی۔ یہ تھی انگریزی۔ جو تمام زبانوں سے مختلف تھی۔ لیکن چونکہ انگریزی عملداری مقابلتاًکم عرصہ ہندوستان میں قائم رہی، اس لیے یہ زبان اتنی نہیں پھیلی جتنی کہ فارسی۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ انگریزی زبان نے ہندوستانی علم و ادب میں کوئی اضافہ نہیں کیا بلکہ انگریزی زبان نے اور اس کے ساتھ ہی یورپ کی دیگر زبانوں نے بھی جن کا انگریزی زبان میں کافی ترجمہ ملتا ہے، ہندوستان کے علم و ادب کو غیرمعمولی وسعت دی ہے۔ ان زبانوں میں کئی ایسے مضامین پربحث ملتی ہے جن کی طرف ہمارے ملک میں کبھی توجہ ہی نہیں دی گئی تھی۔ مثلاً سائنس اور پولیٹکل فلاسفی۔ انگریزی کی وجہ سے ناول نویسی کا آغاز ہوا۔ آج کل بھی  اگرچہ اب انگریزی حکومت چلی گئی ہے انگریزی زبان کا کافی رواج ہے اور اس سے ہمیں باہر کی دنیا کے متعلق کافی واقفیت حاصل ہوتی ہے۔

عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ فنونِ لطیفہ کی مصنوعات کے تلف ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ بہ نسبت ادبی شہ پاروں کے۔ اسی لیے زمانہ قدیم کی مصوری ہم تک بہت کم پہنچی ہے۔ ہاں و ہ چند نمونے جو ہمیں دستیاب ہوئے  ہیں اور جن میں اجنتا کے غاروں، باگھ اور سیتانواسل کی تصاویر شامل ہیں ان میں سے اول الذکر دو تو گپتا بادشاہوں کے زمانے کی ہیں اور موخرالذکر پالول بادشاہوں کے وقتوں کی ہیں اور یہ ظاہر کرتی ہیں کہ مصوری نے اس ملک میں کتنی شاندار ترقی کی تھی۔ ان مجسموں کے نمایاں خد و خال اور شوخ رنگوں کا نہایت خوب صورت اور متناسب استعمال اعلیٰ پیمانے کی مصوری کا مظہر ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں صدیوں علم مصوری پر تاریکی غالب رہی ہے اور اس دوران غیرملکی حملہ آوروں کی لوٹ کھسوٹ سے ہمارا فن مصوری نیست و نابود ہوگیا ہے۔ مگر بایں ہمہ ان غاروںکی مصوری ہندوستانی فنِ مصوری کی تابناک مثال ہے اور یہ پتہ چلتا ہے کہ کسی وقت میں مصوری کسی قدر بلند پایہ فن تھا۔

مندرجہ بالا فن کے بعد مصوری کا جو ایک نیا انداز اس ملک میں آیا وہ ایک دوسری قسم کا تھا۔ اس نے شمالی ہند میں عہد مغلیہ میں نشو و نما پائی۔ اسے فن تصویرچہ کہا جاتا ہے۔ اجنتا کی تصاویر تو حجم میں بہت بڑی تھیں۔ ان کے بڑے بڑے نقش تھے۔ مگر یہ چھوٹی چھوٹی تصاویر جیسا کہ نام سے عیا ںہے۔ بہت چھوٹی چھوٹی اور باریک خطوط پر مشتمل تھیں۔ اجنتا کے رنگ کافی جگہ گھیرے ہوئے ہیں۔ مگر یہ تصویرچے چھوٹے چھوٹے جواہرات کی مانند کئی مختلف اور خوب صورت دلکش رنگوں میں چمکتے ہیں۔ اجنتا کی تصویروں کے مضامین بودھوں کی کتھاؤں سے لیے گئے تھے مگر تصویرچوں کی مصوری بادشاہوں او ران کے درباریو ںکی سوانح کو پیش کرتے ہیں۔ یہ تصویرچے کی مصوری مغل بادشاہو ںکے دربار میں ایران اور وسطی ایشیا سے آئی تھی۔ اگرچہ بعد میں یہ فن کئی جگہ مروج ہوگیا۔ اٹھارہویں صدی میں کانگڑہ، راجستھان، اور ٹیڑھی گڑھوال میں بھی مقبول ہوگیا۔ ان کا موضوع ہر قسم کے مذہبی ،غیرمذہبی، قدرتی نظاروں اور موسیقی کے راگو ںپر مشتمل تھا۔

گذشتہ صدی میں اسی طرح بنگالی آرٹ نے جنم لیا۔ اس نے اپنا تاثر ہندوستانی نیز مغربی طرز فن سے لیا۔ اس کے ماہرین نے پانی کے نہایت لطیف رنگوں میں حقیقت نگار اور تاثر پذیر شکلوں میں تصویرکشی کی ہے۔

گذشتہ سو برسوں میں مغربی آرٹ نے مختلف شکلوں میں ہندوستانی آرٹ پر بڑا زبردست اثر ڈالا ہے اور ہندوستانی مصوروں کے لیے دنیا میں ایک نیا دروازہ کھل گیا ہے اور ہر ایک مصور اپنا حسب پسند طرز فن ان متعدد مغربی فنون سے یا روایتی ہندوستانی فن میں سے منتخب کرسکتا ہے۔ اب ہم اسے ہندوستانی آرٹ کے نام سے منسوب نہیں کرسکتے کیونکہ اب یہ ہندوستانی آرٹ دنیا کے آرٹ کا جز بن گیا ہے۔

سنگ تراشی اور فن تعمیر مصوری سے بھی زیادہ اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ مختلف اوقات پر مختلف طریقے  فن کی آپس میں آمیزش ہوتی رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ پتھر بھی بولتے ہیں اور یہ درست ہے۔ سنگ تراشی اور عمارات قدیمہ کے بکھرے ہوئے کھنڈرات سے ہم پرانے زمانے کی کہانی پڑھ سکتے ہیں۔ عمارتی کھنڈرات پر نگاہ دوڑائیے اور ان دنوں یہاں آنے والے سیاحوں کے بیانات کا مطالعہ کیجیے اور ذرا اپنی قوتِ تخیل کو وسعت دیجیے تو ان آثارِ قدیمہ کی واضح تصویر آپ کے دماغ میں آجائے گی کہ وہ عمارات  جس وقت ان کی تعمیر ہوئی تھی کس انداز کی ہوں گی اور ساتھ ہی آپ وہ مشابہت بھی دیکھ پائیں گے جو ہندوستانی اور غیرملکوں کی سنگ تراشی اور تعمیرات میں پائی جاتی  ہے۔

یہ امر قابل غور ہے کہ ہمارے اجداد نے تعمیر کے کام میں یا حقیقت نگاری میں جو کچھ بھی مسالہ ان کے ہاتھ لگا مثلاً لکڑی، اینٹ، پتھر یا دھات۔ اسی سے کام لیا۔ دھات او رپتھر کی اشیا تو زمانے کی دست برد سے بچ گئی ہیں مگر لکڑی اور اینٹ کی مصنوعات نابود ہوگئیں۔ ہاں جو کچھ بھی انھوں نے بنایا اتنے وسیع پیمانے پر بنایا کہ خرچ، مسالہ اور مزدوری کی انتہا کردی۔ خاص کر جب کوئی مندر یا محل کسی بادشاہِ وقت کے فرمان سے بنایا گیا اور بارہا ایسے کاموں کی تخلیق اور تکمیل مذہبی موضوع پر ہی مبنی ہوتی تھی۔ آرٹ کے خیال سے ایسا نہیں کیا جاتا تھا اور اگرچہ ان کی تخلیق ہندوستانی مذہب اور ہندوستانی تعمیر اور ہندوستانی رنگ تراشی کی بنیاد پر تھی تاہم اس میں کئی دیگر ملکوں کے نمونوں کو پیش نظر رکھا گیا اور اس کے عوض میں اپنا انداز دوسرے ملکوں کو عطا کیا گیا۔

 

ماخذ:  ہندوستان سرزمین اور عوام، مصنفہ: نارائنی گپتا، مترجمہ: ایس کے سنگھ، دوسرا ایڈیشن: 2004، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

نئی نسل اپنی تخلیق کو تخلیقیت کے دم پر زندہ رکھنا چاہتی ہے: ڈاکٹر معصوم شرقی،(خصوصی گفتگو)ظہیر فیصل

  اردو دنیا، دسمبر 2024 ظہیر فیصل :   اپنی پیدائش اور خاندانی پس منظر پر روشنی ڈالیں۔ معصوم شرقی :   شہر نشاط کلکتہ سے 35 کیلو میٹر دور...