21/1/25

جمال گیاوی: شخص و شاعر، مضمون نگار: آفتاب عالم

اردو دنیا، دسمبر 2024

شعری اصناف میں غزل کے بعد نظم مقبول عام ہے۔ نظم میں ایک موضوع کی اتنی وضاحت ہوتی ہے کہ شاعر اور سامع دونوں سیر ہوجاتے ہیں اور موضوع بھی تشنہ نہیں رہتا۔’نظم‘ اہتمام وانصرام، ترتیب وتنظیم اور ربط وتسلسل کی متقاضی ہوتی ہے۔ انسانی حیات میں بھی ایک تسلسل ہوتا ہے،گہرا مربوط اور مضبوط بھی۔ ایک بہتا ہوا سیال اورا مواج دریا، جس میں طغیانی بھی آتی ہے اورتلاطم بھی ہوتا ہے۔ انسان کی ہر سانس اہم اور قیمتی ہوتی ہے، مگر یہ نفس جب مسلسل چلنے لگتا ہے تو حیات کسی حد تک معتبر اور اہم ہوجاتی ہے۔ بے یقینی میںبھی ایک یقین پیدا ہوتا جاتا ہے۔

نظم بھی اسی طرح کاتسلسل،نظم اور ضبط چاہتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ عمدہ اور کامیاب نظمیں دل ودماغ کو آسودگی،فرحت بخش،اطمینان اور ایک انبساط انگیز کیف عطا کرتی ہیں۔ غزل کا مفرد شعر اپنے آپ میں ہزار جامع ومانع سہی،مگر بادلوں کے ہجوم میں ایک تڑپتی ہوئی بجلی سے زیادہ اہمیت نہیںرکھتا۔غزل کے اشعار اگر شبنم کے حسین قطرات ہیں تو نظم زمین کو سیراب اور دلِ دہقاں کو شاداں وفرحاں کردینے والی موسلا دھار بارش ہے۔

نظم کے تمام اشعار موضوع سے گہرا تعلق رکھتے ہیں،اس کے اندر تدریجی ارتقا پایا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ شاعر کے تجربات وتصورات کی انسانی حیات کی طرح نشو و نما ہوتی رہتی ہے۔ لیکن تمام خیالات وتصورات،جذبات واحساسات کاہم آہنگ ہونا ایک کامیاب نظم کے لیے ضروری ہے۔ ’نظم‘ کی ابتدا نہایت دلکش اور حسین لہجے میںہوتی ہے۔اس کاعروج اپنے اندر شباب کاجوش وخروش رکھتا ہے اور انجام واختتام کی حسن کاری بھی قابل توجہ اور نتیجہ خیز ہوتی ہے،کثرت میں یہی وحدت نظم کو کامیاب بناتی ہے۔

اردو شاعری کے اندراگرچہ نظیر اکبرآبادی نے نظم نگاری کی ابتدا کی تھی مگرصحیح معنوں میں اس کی ترقی آزاد،  حالی، اسماعیل اور درگا سہائے سرور کے ہاتھوں ہوئی اور اسے اوجِ کمال تک اقبال نے پہنچایا لیکن جمال گیاوی کو بھی انھیں متذکرہ شعراء کرام کی صف میں شمار کرنے کی وکالت کروں گا۔ جمال گیاوی کی پیدائش 4جنوری 1945کوآبائی وطن رفیع گنج احمد پور جھکٹیا اورنگ آبادمیں ہوئی اور خطاطی میں خوب شہرت پائی۔ میرے نزدیک شاعری وہ چیز ہے جو ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں۔ پہلے تو اظہار کی خاطر اپنے خالق کو تصوراتی کائنات کے خوبصورت دیدہ زیب مناظر سے آشنا کراتی ہے اور پھر اس کی تصوراتی کائنات کو ایک پل میں سمیٹ کو مصرع کی صورت میں غم کائنات کی ایک ایسی تصویر بناتی ہے، جو خالق، باری کی ذات ووحدانیت کا اقرار کراتی ہے۔

شاعری کے فنی لوازمات میں جن چیزوں کا عمل دخل ہے انھیں عروض داں پہلے ہی بیان کرچکے ہیں، اس لیے کسی کے فن  پرگفتگو کرتے ہوئے شعری اصول و ضوابط کا دہرانا تضییع اوقات سمجھتا ہوں۔ البتہ احتیاط اورشعور وتدبر کو بروئے کار لاناان امور لازمیہ میں سے ایک ہے، جن کی پاسداری بہ ہرحال کی جاتی ہے۔ جمال گیاوی بھی ایک ایسے ہی شاعر ہیں جنھوں نے یہ مشکل کام اپنے لیے سہل بنا لیاہے۔جمال گیاوی نے اپنے مجموعہ نغمات جنوں کے سرورق اور بیک کور پر جو شعر جلی رسم الخط میں پیش کیے ہیں انھیں دیکھیں       ؎

غور سے دیکھو جمال ہوں میں

ایک ہستیِ باکمال ہوں میں

——

خوش بختیو ں پہ اپنی نہ کیوں ناز ہو جمال

شاگرد شمس کا ہوں مقلد ہوں جوش کا

نغمات ِجنوں ‘کے جیسا نظموں کاشعری مجموعہ بخدا میری نگاہ سے نہیں گزرا۔ اوپر درج کیے ناموں کے بعد کے بعض شعرا نے نظم نگاری کے موضوع کو اپنے فکری خیال کا ذریعہ بنایا اور موضوع کے علاوہ نظم کی ہیت میں بھی انقلاب پیدا کرنے کی کوششیں کیں۔ نظم معریٰ اور آزاد نظمیں بھی کثرت سے لکھی گئیں،مگر میں اپنے مشاہدے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ جمال گیاوی صاحب نے کمال کی نظمیں لکھی ہیں۔ نغمات جنوںمیں اپنے فنی وفکری شعری کمال سے وہ مجھے بے مثال معلوم ہوتے ہیں۔ کتابت کے فن میں مہارت حاصل کرنے کے بعد ’تاج پریس‘ گیا کے مسودے،ہفتہ وار نورش (گیا) مورچہ ( گیا) ماہنامہ سہیل( گیا) وغیرہ کی کتابت کرتے رہے۔اردو زبان کی لفظیات کے حسن سے مرعوب ہوئے جمال گیاوی نے اردو کی خدمت اور اپنے روز گار کے لیے کتابت کو موزوں جانا اور یہ کام عرصہ دراز تک کیا لیکن  پروفیسر جگن ناتھ آزاد کے زیر نگرانی  جن دنوں آپ نے کام کیا وہ جمال گیاوی کا سنہری دور تھا۔ آپ نے گیارہ سال کتابت کی۔ 24 جولائی 2004میں پروفیسر جگن ناتھ آزاد کے دنیا سے گزر جانے کے بعد یہ کام توقف کی نذر ہوا،او ر کچھ دنوں کے بعد جموں یونیورسٹی میں آپ کتابت کے کام پر لگادیے گئے۔فن کتاب میں مہارت کی بنیاد پر آپ کے رابطوں میں ملک کی قد آور شخصیات آنے لگیں، متعدد اربابِ علم وادب سے مستحکم تعلقات کی مثالیں ان کے شعری مجموعوں کے پس منظر میں لکھی تحریروں سے ملتی ہیں۔لوگوںسے اچھے اور مضبوط مراسم ہوتے چلے گئے۔

آغا زشاعری سے قبل کسی شعری مجموعے کا منظوم دیپاچہ خود طبیعت کوتحّیر آمیز بنا دینے جیسا ہے۔ ’نغمات ِجنوں‘ میں مالک سنگھ وفا جموں( جموںتوی)نے حق ربط وانبساط اور تعلقات کی ایسی مثال دی ہے،جس کی نظیر پانے سے آج تک میں قاصر ہوں۔نظموں پر مشتمل مجموعے کے تناظر میں 12مصرعوں کامکمل دیپاچہ منظوم لکھ دینا میں سمجھتا ہوں حیرت میں ڈال دینے سے کم نہیں۔مالک سنگھ وفا لکھتے ہیں        ؎

دل فریب و دلنشیں ہے سوزِ نغمات جنوں

دل کو میرے بھاگئی آواز نغمات جنوں

ہے یہی میری تمنّا اے جمال ہم نشیں

میں بھی دیکھوں ایک دن پرواز نغمات جنوں

ہوںگے انگشت بدنداں دشمن اردو ادب

ایک دن دیکھیں گے جب اعجاز نغمات جنوں

تین اشعاراور بھی ہیں منظوم دیپاچہ میں، جنھیں طوالت کے پیش نظر نقل نہیں کررہا ہوں۔ اپنی بات مصنف جمال گیاوی نے ثابت قدمی کے ساتھ لکھی ہے،اپنی خامیوں اور خوبیوں کے بارے میں اگلے وقتوں کے ادیبوں کی رائے من وعن کتاب میںنقل کردیا جانارہ مستقیم کے سفیر کی نشانی ہے۔غور کیجیے جس شاعر کا پہلا شعری مجموعہ ’سوزِ دروں‘ کے نام سے 1967 میں شائع ہوا  ہو اس کی شاعری میں کس بلا کی پختگی در آئی ہوگی،یہ سوچنے کا مقام ضرور ہے۔اس مجموعے کے پیش لفظ میں علی سردار جعفری (مرحوم )نے فرمایا تھا کہ ’’ بمبئی میں میں جن شاعروں سے متاثر ہوا ہوں ان میں جمال گیاوی بھی ہیں۔ ان کی نظموں میں جوش ملیح آبادی کارنگ نظر آتا ہے اور غزلوں میں جمیل مظہری کا،یہ کمسن اور ہو نہارشاعر ایک دن آسمان ادب پر آفتاب بن کر چمکے گا۔‘‘

’’جمال گیاوی  کے تعلق سے ظہیر غازیپوری،نے بھی اپنے تاثرات دیے ہیں، بقول ظہیر غازی پوری جمال گیاوی کی شاعری میں خوبیاںکم اور خامیاں زیادہ ہیں۔ ان کو ابھی اپنی شاعری پر بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے‘‘۔ اس تاثر کے بعد جمال گیاوی اپنی کتاب نغمات ِ جنوں میں رقمطراز ہیں ’’بہر کیف پنتالیس سال کا یہ طویل سفر طے کرنے کے بعد میری شاعری کس مقام پر پہنچی ہے۔اس کا فیصلہ قارئین کرام کے اوپر چھوڑتا ہوں‘‘۔ جمال گیاوی 1970میں گیا سے پٹنہ چلے گئے تھے مگر فن کتابت اور شاعری میں جمال گیا وی کا جمال دیکھتے ہی بنتا ہے۔جمال گیاوی کی شعرو ادب سے غیر معمولی دلچسپی ان کے تعمیری ذہن اور مثبت افکار وخیالات کی دین ہے،لیکن جسے ہم اور آپ جمال کانام دیتے ہیں یہ جمال اس وقت مزید نکھرتا اور اپنی جانب متوجہ کرتا ہے جب توصیف اردو زبان پر جمال گیاوی قلم اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ       ؎

ہم داستان ِ غالب  و اقبال کیا کہیں

کیسے گزر گئے ہیں مہہ وال کیا کہیں

سازش کے بُن رہے ہیں عدو جال کیا کہیں

اردو زباں کا آج جو ہے حال کیا کہیں

پھٹتا ہے غم سے میرا کلیجہ یہ دیکھ کر

دل رورہا ہے میرا تماشہ یہ دیکھ کر

 

شعروں میں ایطا ہے کہیں املا کی غلطیاں

اڑنے لگیں ہیں خوب تلفظ کی دھجیاں

جملوں کی ساخت ٹھیک نہ بحروں کی سختیاں

جو غیر اردو داں ہیں وہ کستے ہیں پھبتیاں

جن کو شعور ہی نہیں لفظ وبیان کا

کیا ہوگا اب زمانے میں اردو زبان کا

نغماتِ جنوں شعری مجموعے میں یہ وہ نظم اُردو ہے جس کے بہت سے بند میں سے صرف دو بند یہاں حسب ضرورت شامل کیے،آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ جمال گیاوی کی نظر زبان استعمال کرنے اور زبان کادم بھرنے والے زبان دانوں کے ساتھ زبان پر ترچھے وار کرنے والوں پر بھی ہے۔اس کے باوجود آپ کی نظموں میں منفی پہلوؤں کے لیے میں سمجھتا ہوں کسی قسم کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ویسے بھی ہندوستانی معاشرے میںہر تیسر ا فرد ذہنی تناؤ کا شکار ہے تو وہ منفی تناؤ کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ اردو زبان کے ساتھ بھی ایسا ہی اکثرو بیشتر جمال گیاوی کو دیکھنے کو ملا۔

یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ منفی جذبات پر تناؤ ہوتے ہیں،ایسے لوگوں میں ہر وقت فکر مندی،غصہ،مزاج میں مستقل خوف اور وسوسوں میں گھرا ہونا ایسوں کا مقدر ہوجایا کرتا ہے۔ یہ امر باعث اطمینان اور مسرت خیز ہے کہ بیشتر نظموں میں جمال گیاوی کی احکام الٰہی سے کامل وابستگی کا احساس ہوتا ہے۔جبکہ کچھ نظموں میں ان کی سوچ اور تعمیری واصلاحی مزاج کے مظہر ہونے کی بھی شہادتیں ملتی ہیں۔

آئیے بلا کسی تاخیر جمال گیاوی کی شاعری سے محظوظ ہوا جائے،اور دیکھیں کہ وہ کس طرح کے نظم گو ہیں   ؎سر زمین کر گل کے حوالے سے ملک کے جانباز محافظوںاور اس جنگ میں فتح کا پرچم لہرانے والے قومی سپوتوں کے لیے جن عزائم کا اظہار کیا ہے اس نے جمال گیاوی کی نظموں میں انفراد پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ قابل مطالعہ بنانے کی کامیاب سعی کی ہے۔سر زمین کر گل کا یہ دو بند ملاحظہ کریں      ؎

تم غم نہ کرو اے مرے جانباز سپاہی

تم حق کے پرستار ہو انصاف کے راہی

پیدا صف دشمن میں کرو زور تباہی

گودن بھی تمہارے لیے ہے شب کی سیاہی

منھ کھولے یہاں موت بھی سر گرداں ہے کل سے

ڈرنا نہیں سیکھا ہے مگر تم نے اجل سے

——

جس قوم کے دل میں بسا ابلیس لعیں ہے

اس قوم کی تقدیر میں دنیاہے نہ دیں ہے

سر ہے کہیں انسان کا تو جسم کہیں ہے

ہاں خون سے لت پت یہی کرگل کی زمیں

قربان کیا جس نے زمیں کے لیے تن کو

کرتا ہوں سلام ایسے شہیدان وطن کو

نظموں کے عنوانات دیکھنے کے قابل ہیں،مثلاََ اپنی والدہ کی یاد میں، جوش ملیح آبادی کے سانحہ ارتحال پر، میرا وطن، داستانِ ماضی،عورت،میرے بھارت کی شان، گاؤں کی ایک دوشیزہ،تاج محل،وادیِ کشمیر، حالات حاضرہ سے متاثر ہوکر،سوال،علامہ اقبال، ساقی نامہ، جگن ناتھ آزاد، فرنگی اور ہم، نئی نسلوں کے نام، خانہ بدوش، وزیر اعلیٰ بہار نتیش کمار جی کے نام، ماتم آزادی، اردو زبان، طوائف، ریاض گیاوی کے نام، ماں باپ، وقت، جموں کی شام، سر زمین کرگل، جشن آزادی، رودادعید، اکیسویں صدی، تغیرات جنوں،  شیر کشمیر شیخ محمدعبد اللہ،تہنیت نامہ، جشن عید، شاہ جہانِ ثانی، سچے موتی، بھول جا، رفیقۂ حیات کے انتقال پر، رشک چمن، سرشک خول،پرستاران ادب سے معذرت کے ساتھ،مسلمانوں سے خطاب، اور دعا نظم شامل ہے۔

نظم تاج محل کا ایک بند پیش خاطر ہے       ؎

دنیائے عاشقی میں ترا اونچا ہے مقام

دلچسپی رکھتے ہیں تری شہرت سے خاص وعام

اب ذہن سے اترتا نہیں تاج تیرا نام

اس خوش نما محل میں ہے ممتاز کا قیام

تاعمر جس نے اپنی وفاؤں کی چاہ کی

اک یاد گار ہے یہ اسی بادشاہ کی

جمال گیاوی کے یہاں جہاں لطافت ِشعر ہے، نزاکت اور بانکپن ہے وہاں برمحل تراکیب اور شوخی کی بھی کوئی کمی نہیں نظر آتی۔نظم رشکِ چمن اس کی بین مثال ہے ایک بند پر اکتفا کریں         ؎

پلکیں ہیں تری جیسے کوئی نوک سناں ہو

جھک جائیں تو خاموش نگاہوں کا بیاں ہو

اٹھ جائیں تو اس دہر کا ہر راز عیاں ہو

بیمار جو دیکھے اسے وہ تاب وتواں ہو

بے خود ہر اک انسان ہو وہ تجھ میں پھبن ہے

تو رشکِ چمن،رشکِ چمن،رشکِ چمن ہے

نظم میں زندگی کے تجربات کبھی آہوں میں بکھرتے نظر آتے ہیں تو کبھی چہرے میں کائنات کے حسن کی رنگینیاں جھلکتی ہیں۔پلکوں کو نوک سناں سے تعبیر کیا جاتا ہے،تو کبھی جھکی ہوئی خاموش نگاہ کے بیانیے کی بات ہوتی ہے،نگاہ اٹھنے پر دہر( دنیا) کا ہر راز افشا ہوجانے کی بات کہی جارہی ہے،بیمار اگر اٹھتی ہوئی نگاہ دیکھ لے تو توانا ئی پالے،غرض کہ جمال گیاوی کی جولانیِ طبیعت شوخیِ گفتار اس نظم میں اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔

نغمات ِجنوں، ہی نہیں،سوز دروں میں جتنی بھی نظمیں ہیں ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔شروع کی ایک نظم ’’ مناجات‘‘ تو ہے، اس کے بعد جو بھی نظم آپ نے لکھی ہے ایک ایسی موتیوں کی مالا ہے جس کے داخل میں سے کسی ایک مصرع یا سطر کے نکالنے کی بھول میں نظم کی مالا توڑ نا صنف ِنظم کو فوت کر دینے کے مترادف ہوگا۔نظم کا بنیادی اصول جمال گیاوی کے مزاج پر اس قدر اپنا غلبہ طاری کرچکا ہے کہ اب وہ سوچتے یا کہتے ہیں وہ بھی ایک نظم کے پیکر میں ڈھلنے کو بیتاب نظر آتا ہے۔افسوس جس وقت یہ مضمون لکھا گیا اس کے فوراََ بعد جمال گیاوی کے انتقال کی خبر آگئی،اللہ غریق رحمت کرے۔آمین۔ ان کا انتقال25مئی 2024پٹنہ عالم گنج بہار میں ہوا۔

 

Dr. Aftab Alam

Haji Jamaluddin Library

At +Post: Nauranga

Distt: Gaya -823003 (Bihar)

Mob.: 9162669393

E-mail: aftabalam898608@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

جمال گیاوی: شخص و شاعر، مضمون نگار: آفتاب عالم

اردو دنیا، دسمبر 2024 شعری اصناف میں غزل کے بعد نظم مقبول عام ہے۔ نظم میں ایک موضوع کی اتنی وضاحت ہوتی ہے کہ شاعر اور سامع دونوں سیر ہوجاتے ...