21/1/25

سادگی میں گہرائی: فہمی بدایونی کی شاعری، مضمون نگار: شہپر شریف

 اردو دنیا، دسمبر 2024

فہمی بدایونی کی شاعری واقعی اپنی سادگی اور روانی کی وجہ سے بہت مقبول ہوئی۔ انھوں نے معاشرتی مسائل کو نہایت مہارت سے اپنے اشعار میں پیش کیا، جس نے انھیں عوامی شاعر کا درجہ عطا کیا۔ ان کی عام فہم زبان اور منفرد اندازِ بیان نے نہ صرف ان کے کلام کو آسانی سے سمجھنے کی صلاحیت فراہم کی بلکہ ان کے اشعار میں گہرائی بھی پیدا کی جو قاری کو متاثر کرتی ہے۔ ان کی شاعری میں معاشرتی حقیقتوں کی عکاسی کے ساتھ ساتھ انسانی جذبات اور احساسات کی بھی بھرپور نمائندگی ملتی ہے۔ وہ اپنی شاعری میں سادگی، روانی اور معاشرتی مسائل کے گہرے شعور کو اس طرح پیش کرتے تھے کہ ہر طبقۂ فکر کے لوگ ان کے کلام سے جڑ جاتے تھے۔ ان کا منفرد اندازِ بیان اور عام فہم زبان میں بڑے مسائل کی عکاسی کرنا ان کی شاعری کی پہچان بن گئی۔ وہ صرف ادب کے خواص میں نہیں، بلکہ عوامی حلقوں میں بھی مقبول تھے۔

 4 جنوری 1952 کو بدایوں کے بسولی قصبے میں پٹھان ٹولہ میں پیدا ہونے والے زماں شیر خان عرف پتن خان نے شاعری کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد ’فہمی بدایونی‘ کا تخلص اختیار کیا اور اسی نام سے ادبی حلقوں میں شہرت حاصل کی۔خاندانی ذمے داریوں کے سبب انھوں نے کم عمری میں لیکھ پال کی ملازمت اختیار کی، مگر دل کا لگاؤ ہمیشہ ادب اور علم سے رہا۔ بعد میں ملازمت چھوڑ کر ریاضی اور سائنس کی کوچنگ کو ذریعۂ معاش بنایا۔

ان کے تین شعری مجموعے، ’پانچویں سمت‘، ’دستکیں نگاہوں کی‘ اور ’ہجر کی دوسری دوا‘ ان کی فنی مہارت اور تخلیقی قابلیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان مجموعوں میں موجود موضوعات زندگی کی تلخیوں، محبت، جدائی، اور انسانی احساسات کی گہرائی کو بڑی مہارت سے پیش کرتے ہیں۔

فہمی بدایونی نے اپنی غزلوں کے ذریعے محبت کی خاموشی اور دوری کی شدت کو بیان کیا ہے۔ محبت میں اکثر خاموشی اور عدم توجہی سے دلوں میں فاصلے بڑھ جاتے ہیں، حالانکہ بعض اوقات ایک چھوٹا سا سوال یا خیال اس فاصلے کو کم کر سکتا ہے۔محبت میں اعتماد، خفگی اور توقعات کے جھگڑے کی گہرائی کو بیان کرتا ہے، محبت میں کچھ نہ کچھ خفگی بھی ضروری ہوتی ہے، تاکہ تعلقات میں گہرائی اور معنویت برقرار رہے اور اس میں ایک طرح کی چاہت بھی موجود ہو کہ ناراضگی کی کیفیت کم از کم برقرار رہے تاکہ محبت کی چنگاری جلی رہے۔ جیسا کہ فہمی بدایونی صاحب کے اِن اشعار سے بھی ظاہر ہے        ؎

مری وعدہ خلافی پر وہ چپ ہے

اسے ناراض ہونا چاہیے تھا

ہمارا حال تم بھی پوچھتے ہو

تمھیں معلوم ہونا چاہیے تھا

پوچھ لیتے وہ بس مزاج مرا 

کتنا آسان تھا علاج مرا

تم نے ناراض ہونا چھوڑ دیا

اتنی ناراضگی بھی ٹھیک نہیں

محبت کے اندر موجود خواہش اور افسوس جہاں محبت کی شدت کے باوجود، ملاقات کا لمحہ بھی گزر جاتا ہے۔ محبت کی ادھوری خواہشات اور دل کی حالت کی عکاسی اور انسانی جذبات کی گہرائی اور محبت کے احساسات کو فہمی بدایونی کس طرح خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں          ؎

کاش وہ راستے میں مل جائے

مجھ کو منہ پھیر کر گزرنا ہے

محبت کی انفرادیت اور خاص تعلق جو محبت کی گہرائی اور اس کی انفرادیت کو اجاگر کرتا ہے۔ انسانی تعلقات کی نازکیوں اور محبت کی پیچیدگیوں کوفہمی بدایونی اس طرح بیان کرتے ہیں          ؎

تیرے جیسا کوئی ملا ہی نہیں

کیسے ملتا کہیں پہ تھا ہی نہیں

فہمی بداوینی کی شاعری میں محبوب کے دیدار کی شدت اور اس کی عدم موجودگی کے احساس کو بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔محبوب کا دیدار محض بصری احساس نہیںبلکہ اس کے لیے دل اور روح کی گہرائی میں اترنے کی ضرورت ہے۔ محبت میں ملاقاتیں صرف جسمانی نہیں ہوتیںبلکہ یہ ایک جذباتی اور روحانی تعلق بھی ہوتا ہے۔ جب کسی کی محبت کی شدت بڑھ جاتی ہے، تو اس کا ملنا ایک خواب سا لگتا ہے، محبت کی شدت میں فاصلوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اور ایک فون کال بھی محبوب کی قربت کا احساس دلا سکتی ہے۔ محبت کی شدت میں اکثر انسان اپنی زندگی کی دوسری چیزوں کو بھول جاتا ہے اور محبوب کی موجودگی میں خوش رہتا ہے۔یہ احساس ایک طرح کی خود کو محدود کر لینے کی علامت ہے، جس کا اظہار فہمی بدایونی صاحب نے واضح طور پر اس طرح کیا ہے   ؎

ایسا لگتا ہے اب تیرا دیدار

صرف آنکھوں کے بس کی بات نہیں

وہ جہاں تک دکھائی دیتا ہے 

اس سے آگے میں دیکھتا ہی نہیں

رات بھی جب تمھارا فون آیا

تم ہمارے ہی پاس بیٹھے تھے

آپ تشریف لائے تھے اک روز 

دوسرے روز اعتبار ہوا

فہمی بدایونی کے اشعار محبت کی کوششوں اور امیدوں کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔محبت کے راستے میں مشکلات آتی ہیں، لیکن پھر بھی ہم اپنی کوششیں جاری رکھتے ہیں۔ ان کے ایک شعر میںپتنگ کی پرواز کو محبت کی راہ میں کی جانے والی کوششوں کی علامت کے طور پر دیکھا جا سکتاہے   ؎

ڈور کم پڑ رہی ہے اور ہمیں

اس کے گھر تک پتنگ اڑانی ہے

فہمی بدایونی کے اشعارمحبت اور تعلق کی گہرائی کو بیان کرتے ہیں۔ محبت کی شدت اور اس جگہ کی قدر و قیمت کو بھی محسوس کیا جا سکتا ہے جسے دل میں بسا رکھا ہے۔ اس کے ساتھ جڑی ہوئی تمام خوبیاں، یادیں، اور دنیا کی خوبصورتی بھی نظر آتی ہے۔یہ ایک خوبصورت تصور ہے جس میں کسی کی محبت اوراس کا مکان اس کی ذات میں موجود ہے اور اس کے مقام کی مٹی زندگی میں کیسے گہرائی سے شامل ہو جاتی ہے، جیسا کہ فہمی بدایونی کے ان اشعار سے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں         ؎

نجانے کس طرح میری جبیں پر

ترے آنگن کی مٹی لگ گئی ہے

بس تمھارا مکاں دکھائی دیا

جس میں سارا جہاں دکھائی دی

وہ وہیں تھا جہاں دکھائی دیا

عشق میں یہ کہاں دکھائی دیا

محبت کی عجیب و غریب نوعیت کہ جہاں انسان اپنے محبوب کی رائے، خیالات اور احساسات کے بارے میں بے حد حساس ہوتا ہے۔ محبت کے درد، خواہش، دوسرے کی رائے اور احساسات کتنے اہم ہوتے ہیں، کس طرح ان کے خیالات زندگی کے ہر گوشے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ فہمی بدایونی محبت میں دوری، خواہش، اور احساس کی گہرائی اور اس کی شدت کی اس طرح عکاسی کرتے ہیں          ؎

کٹی ہے عمر بس یہ سوچنے میں

مرے بارے میں وہ کیا سوچتا ہے

جس کو ہر وقت دیکھتا ہوں میں 

اس کو بس ایک بار دیکھا ہے

فہمی بدایونی محبت کی لطافت اور چہرے کے تاثرات کی طاقت کو بیان کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ چہرے کے تاثرات یا اس کی موجودگی اتنی اثر انگیز ہوتی ہے کہ وہ خود ایک زبان بن جاتی ہے۔ خاموشی میں کئی خیالات، احساسات، یا پیغامات موجود ہوتے ہیںجو کبھی کبھی الفاظ سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔خاموشی میں بھی بہت کچھ کہنے کا پہلو موجود ہوتا ہے۔ یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کبھی کبھی اپنی باتوں کو کہے بغیر بھی اپنی موجودگی، جذبات، یا خیالات کا اظہار کیا جا سکتا ہے       ؎

میں چپ رہتا ہوں اتنا بول کر بھی 

تو چپ رہ کر بھی کتنا بولتا ہے

نگاہیں کرتی رہ جاتی ہیں ہجے 

وہ جب چہرہ سے املا بولتا ہے

دھمک ہو رہی ہے خیالوں کی چھت پر

بہت زور سے خامشی چل رہی ہے

فہمی بدایونی کی شاعری انسانی تعلقات میں رابطے کی اہمیت، بات چیت کی ضرورت اور خاموشی کے ممکنہ منفی اثرات کی بھی عکاسی کرتی ہے۔اگر خاموشی اختیار کی جائے تو لوگ اپنی مرضی سے باتیں بنا سکتے ہیں یا پھر اس خاموشی کا مطلب نکال سکتے ہیں۔ یہ خاموشی اکثر غلط فہمیاں پیدا کر سکتی ہے، اس لیے محبوب یا دوست سے بات چیت ضروری ہے چاہے وہ باتیں معمولی ہی کیوں نہ ہوں۔ فہمی بدایونی نے محبت، خواہش اور تعلق کی مضبوطی کا اظہارکچھ اس طرح کیا ہے        ؎

کچھ نہ کچھ بولتے رہو ہم سے 

چپ رہو گے تو لوگ سن لیں گے

فہمی بدایونی کی شاعری اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ محبت میں خوشیوں کے ساتھ ساتھ ناکامیاں، افسوس اور ملال بھی ہوتے ہیں۔  محبت یا کسی خاص شخص کی یاد کے ساتھ خوشی کی شدت کو بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جہاں خوشی کے لمحے میں ایک شخص کو کھو دینا یا اس کی یادوں کو محفوظ نہ کر پانا دکھائی دیتا ہے۔یہ ایک طرح کی محبت میں گزرے وقت کی قدر کو ظاہر کرتا ہے، جہاں ایک لمحے کی خوشی دوسری طرف غم کی شکل میں تبدیل ہو جاتی ہے۔جس کا اظہارفہمی بدایونی صاحب نے کچھ اس طرح کیا ہے   ؎

خوشی سے کانپ رہی تھیں یہ انگلیاں اتنی 

ڈلیٹ ہو گیا اک شخص سیو کرنے میں

فہمی بدایونی کی شاعری محبت کی قربانی اور زندگی کی حقیقتوں کو بھی بیان کرتی ہے۔ یہ محبت کے تقاضے اور ان کے ساتھ آنے والی مشکلات کی عکاسی بھی کرتی ہے، جہاں خوب صورتی حاصل کرنے کے لیے قربانی دینی پڑی ہے۔وہ محبت کی خوب صورتی کے ساتھ ساتھ اس کی قیمت بھی بیان کر رہے ہیں۔ ہر خوب صورت چیز کے پیچھے کچھ کڑوی حقیقتیں چھپی ہوتی ہیں اور فہمی بدایونی صاحب کا یہ شعر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کبھی کبھار خوشیوں کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں           ؎

پھولوں کو سرخی دینے میں 

پتے پیلے ہو جاتے ہیں

فہمی بدایونی کے اشعار محبت کی پختگی، وفاداری اور قربانی کو ظاہر کرتے ہیں کہ چاہے دنیا کیسی بھی ہو، وہ محبت میں ثابت قدم ہے۔دنیا بھر کی رونقیں اور واقعات اس کے گرد گھومتے رہے، مگر وہ ہمیشہ اپنی محبت کی راہ پر قائم رہے۔ فہمی بدایونی کا یہ شعر محبت کے لیے ہمیشہ ثابت قدمی، وفاداری اور عشق کی قوت کو واضح کرتا ہے وہ لکھتے ہیں         ؎

مجھ پہ ہو کر گزر گئی دنیا

میں تری راہ سے ہٹا ہی نہیں

 محبت کے احساسات اور یادوں کو سمیٹنا ایک خوب صورت احساس ہے کہ محبوب کی موجودگی اس کی زندگی میں ہمیشہ برقرار رہے، تاکہ وہ اپنے دل کے کونے میں اس کی یادوں کو جگہ دے سکے۔محبت کے ان احساسات اور یادوں کو سمیٹنے کو فہمی بدایونی اس طرح بیان کرتے ہیں          ؎

ابھی خالی نہ کر خود کو ٹھہر جا

میں اپنی روح میں خانے بنا لوں

فہمی بدایونی محبت کی دردناک حقیقتوں اور احساسات کی شدت کو بھی بیان کرتے ہیں کہ کبھی کبھار ہم اپنی مشکلات اور دکھوں کا سامنا کرتے ہیںحالانکہ یہ عمل دردناک ہوتا ہے۔ ان کی یاد ہمیں مسلسل ستاتی رہتی ہے انسان اپنی محبت کے زخموں کو پالنے کی کوشش کرتا ہے، جیسا کہ فہمی بدایونی کے اس شعر سے بھی ظاہر ہے۔ وہ کہتے ہیں          ؎

نمک کی روز مالش کر رہے ہیں

ہمارے زخم ورزش کر رہے ہیں

فہمی بدایونی کے اشعار انسانی رشتوں کی حساسیت، محبت، اور سرپرستی کی اہمیت کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ وہ سرپرست والد، استاد یا کوئی ایسا بڑا ہو سکتا ہے جو زندگی میں رہنمائی کرتا تھا۔ اس شخص کی موجودگی میں جو شرارتیں وہ کیا کرتے تھے، اب ان میں کوئی مزہ نہیں رہا۔ یہ ایک طرح کا دکھ اور خالی پن ہے جہاں وہ احساس کراتے ہیں کہ کسی کی سرپرستی اور محبت کی غیرموجودگی میں زندگی کی مٹھاس ختم ہو جاتی ہے۔بطورِ مثال پیشِ نظر ہے ان کا یہ شعر         ؎

 مر گیا ہم کو ڈانٹنے والا

اب شرارت میں جی نہیں لگتا

فہمی بدایونی کے اشعار علامتی انداز میں انسانی زندگی کے حالات کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ جہاں ایک چھوٹے سے نشان سے بڑی بڑی باتیں سمجھی جا سکتی ہیں۔ اس میں ایک نازک توازن ہے کہ کیسے زندگی کی سچائیاں چاہے وہ چھوٹی ہی کیوں نہ ہوں، ہمیں بڑی بڑی حقیقتوں کی خبر دیتی ہیں۔ فہمی بدایونی کا یہ شعر انسانی تجربات اور مشاہدات کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے        ؎

چھت کا حال بتا دیتا ہے 

پرنالے سے گرتا پانی

جب شیشے ٹوٹتے ہیں تو ان کے نوکیلے کنارے بن جاتے ہیں جو خطرناک اور تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ جب محبت یا تعلقات میں درار آتی ہے تو وہ تکلیف دہ بن جاتے ہیں اور بکھر جانے کے بعد انسان کے جذبات بھی اسی طرح نوکیلے ہو جاتے ہیں جو دوسروں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔شیشے کی علامت اس کی نازکی، حساسیت، اور دل کے جذبات کو ظاہر کرتی ہے۔ جب کسی چیز کو توڑا جاتا ہے، تو اس کی حالت بدل جاتی ہے اور وہ ایک نئے روپ میں سامنے آتی ہے۔جس کا اظہار فہمی بدایونی صاحب نے واضح طور پر اس طرح کیا ہے         ؎

توڑے جاتے ہیں جو شیشے 

وہ نوکیلے ہو جاتے ہیں

 کبوترجو عام طور پر سکون اور آزادی کی علامت سمجھے جاتے ہیں، اب بے چینی اور بے یقینی میں اڑ رہے ہیں۔جو اس بات کی علامت ہے کہ وہ خطرے سے آگاہ ہیں اور اپنی جان بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔فہمی بدایونی نے انسانی زندگی کی نازکی، خطرات اور ان کے سامنے آنے والی مشکلات کی اپنی شاعری میں کس طرح بہترین عکاسی کی  ہے کہ     ؎

خوشی سے کب یہ تنکے اڑ رہے ہیں

ہوا کے ڈر کے مارے اڑ رہے ہیں

کہیں کوئی کماں تانے ہوئے ہے 

کبوتر آڑے ترچھے اڑ رہے ہیں

فہمی بدایونی کی شاعری عزم و ہمت، خود انحصاری، اور نئی راہوں کی تلاش کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔ بہادروں یا عظیم لوگوں نے روشنی یعنی رہنمائی یا امید کی تلاش کی ہے۔ وہ اپنے راستے میں مشکلات کا سامنا کرتے رہے ہیں انھوں نے اپنی کمزوریوں، خوف یا مدد کی ضرورت کو چھوڑ دیا ہے۔ بیساکھیاں عام طور پر ان چیزوں کی علامت ہوتی ہیں جو انسان کی مدد کرتی ہیں یا اس کی کمزوری کو چھپاتی ہیں۔ انھیں جلا دینا اس بات کی علامت ہے کہ خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اب وہ کسی مدد یا سہارے کے بغیر خود کو سنبھالنے کے لیے تیار ہیں۔جس کا اظہار فہمی بدایونی صاحب نے واضح طور پر اس طرح کیا ہے     ؎

شہسواروں نے روشنی مانگی

میں نے بیساکھیاں جلا ڈالیں

فہمی بدایونی کی غزلوں اور اشعار کی عوامی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے ویڈیوز کا وائرل ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ انھوں نے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے فن کو پیش کیا اور ہر دل میں جگہ بنائی۔ ان کی آواز، اندازِ بیان اور اشعار کی سچائی نے انھیں ایک منفرد مقام عطا کیا، جہاں وہ نہ صرف اردو کے شائقین بلکہ عام لوگوں کے دلوں میں بھی زندہ رہیں گے۔20 اکتوبر 2024کو ان کے انتقال سے اردو دنیا ایک ایسے شاعر سے محروم ہوگئی جس نے نہ صرف شاعری کے میدان میں اپنی چھاپ چھوڑی بلکہ سماجی شعور اور حقیقت نگاری کا خوب صورت امتزاج بھی پیش کیا۔

 

Dr. Shahpar Shareef

Dept of Urdu, School of Humanities

Uttarakhand Open University

Haldwani- 263139 (Uttarakhand)

Mob.: 9027699292

sshareef@uou.ac.in

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

جمال گیاوی: شخص و شاعر، مضمون نگار: آفتاب عالم

اردو دنیا، دسمبر 2024 شعری اصناف میں غزل کے بعد نظم مقبول عام ہے۔ نظم میں ایک موضوع کی اتنی وضاحت ہوتی ہے کہ شاعر اور سامع دونوں سیر ہوجاتے ...