20/1/25

بہتا ہوا پانی ارتقا میں ایک بڑا محرک، ماخذ: انسانی ارتقا، مصنف: ڈاکٹر ایم آر ساہنی، مترجمہ: ڈاکٹر احسان اللہ خاں

 اردو دنیا، دسمبر 2024

کروڑوں زندگیوں سے بھرا ہوا بے کل سمندر ایک ایسا تھیٹر تھا جہاں 50 کروڑ سال یا اس سے بھی پہلے انسانی ارتقاکے عظیم ڈرامہ کے اولین منظر پر سے پردہ اٹھا۔ اگرچہ یہ حیرت انگیز معلوم ہوسکتا ہے لیکن یہ یقین کرنے کی ہر وجہ موجود ہے کہ ارتقا کے اہم سنگ میل یعنی لینسلیٹ جیسی شکلوں سے مچھلیوں کا پیدا ہونا اور مچھلیوں سے خشکی و تری دونوں پر رہنے والے (جل تھل) جانداروں کا ظہور سمندر کی گہرائیوں کے بجائے تیزی سے بہتے ہوئے تازہ پانی میں جدوجہد کا نتیجہ تھا اور یہ بھی اس حقیقت کے باوجود کہ ان گروہوں کے اول ترین باحیات ارکان (نرم ہڈی والے جانداروں میں مچھلی نما کیڑے اور بلاہڈی کی مچھلیاں) بیشتر سمندری مخلوق ہیں۔ اس نظریے کے حامی یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ ایسے جانداروں کی نسل سے ہیںجو اصلاً تازہ پانی کے مکین تھے لیکن مقابلہ اور ماحول کے دوسرے عوامل کی وجہ سے سمندر میں واپس آگئے جن شواہد پر یہ نظریات مبنی ہیں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن ہم یہاں ان کی تفصیل میں نہیں پڑسکتے۔ بہرحال یہ بات قابل توجہ ہے کہ اولین مچھلیاں آرڈو ویشین تازہ پانی کی تلچھٹ میں پائی جاتی ہیں جبکہ جل تھلی سمندری شکلوں سے نہیں بلکہ غالباً ڈیوونئین دور میں تازہ پانی والی مچھلیوں کی بعض شکلوں سے نکلی ہیں۔

فضائی ہوا میں سانس لینے والے پہلے جاندار

جب کہ ریڑھ دار جانداروں نے آرڈوویشیئن دور میں اپنا لائحہ عمل بنانا شروع کیا۔ سلورین کے خاتمے پر پہلے پہل تقریباً 32 کروڑ سال قبل ہوا میں سانس لینے والے جانوروں کو عروج ہوا۔ درحقیقت جہاں تک ہماری موجودہ معلومات کا تعلق ہے آخری سلورین دور کے بچھو فضائی ہوا میں سانس لینے والے پہلے جاندار تھے اور آج تک برائے نام تبدیلی کے ساتھ جمے ہوئے ہیں۔ بہرحال بچھوؤں کا تعلق ارتھروپوڈس (Arthropods) کے عظیم گروہ (غیرریڑھ دار جانداروں کے قدیم ترین گروہوں میں سے ایک) ہے جو کہ اغلب طور سے کیچوے جیسے کیڑوں سے پیدا ہوئے، ارتھروپوڈس براعظموں کی بے پایاں سطحوں پر قبضہ کے لیے دوڑ میں ریڑھ دار جانداروں کوشکست دیتے ہیں۔ ریڑھ دار جانداروں کے پھیپھڑا پیدا ہونے سے کافی پہلے انھوں نے ہوا کی نالی کے ذریعے خشک ہوا میں سانس لینا سیکھا۔ بہرحال ہوا کی سانس لینے والے پہلے ریڑھ دار جانور یعنی پھیپھڑے والی مچھلیاں تقریباً 28کروڑ سال قبل وسطی ڈیوونیئن میں ظاہر ہوئیں۔

کاربونیفرس دور کے آغاز میں اور اس سے بھی پہلے آخیر ڈیوونیئن زمانے میں تقریباً 26 کروڑ سال پہلے تازہ پانی میں رہنے والے ریڑھ دار جانداروں کی ارتقائی روش میں ایک زبردست تبدیلی ہوئی۔ کچھ مچھلیوں نے اپنے ابتدائی آبی گھر کو چھوڑ کر خود کو بتدریج خشکی پر رہنے کا عادی بنایا اور اس طرح نمایاں تبدیلیوں سے گزرے۔ فی الواقع انھوں نے فضائی ہوا میں سانس لینے کے لیے اصلی پھیپھڑے پیدا کیے اور ایسی اولاد کو جنم دیا جس کے بری نقل و حرکت کے لیے موزوں اعضا تھے۔ بلاشبہ ان تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ان کی جسمانی بناوٹ میں اتنی ہی انقلابی تبدیلیا ںہوئیں۔ اس طرح مچھلیوں سے وہ گروہ ابھرا جو جل تھلی کے نام سے معروف ہے اور جس کے کچھ ارکان اپنی زندگی کی تاریخ کا ایک حصہ پانی میں بسر کرتے ہیں۔ مثلاً مینڈک کے بچپن کا زمانہ نشو و نما پوری ہونے پر یہ جل و تھل دونوں میں رہنے کے لائق ہوتے ہیں۔ اس صفت کی وجہ سے ان کا نام جل تھلی (Amphibian) رکھا گیا۔ یونانی زبان میں اس سے مراد وہ جاندار ہیں جو دوہری زندگی بسر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ یہ نمایاں تبدیلی کس طرح ہوئی اس کی وضاحت ابھی کی جائے گی۔

جل تھلی کی مورث ہونے کی دعویدار مچھلیاں

اسٹرے کوڈرم اور پلیکوڈرم مچھلیاں (Ostracoderns and Placoderns)

اب یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ مچھلیوں کے کون سے مخصوص گروہ سے جل تھلی پیدا ہوئے۔ اس طرح کے سوالات کے اطمینان بخش جواب کے لیے کافی تکنیکی تفصیلات درکار ہوتی ہیں۔ بہرحال ہم اس نوعیت کے کام کی پیچیدہ تکنیکی باتوں میں الجھنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا یہاں حقائق کا ایک اجمالی جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔

مچھلیوں کا ایک گروہ اسٹریکوڈرمس کہا جاتا ہے۔ جس کے بارے میں یہ یقین کیا جاتا ہے کہ وہ اعلیٰ ریڑھ دار جانداروں کے سیدھے شجرے سے زیادہ دور نہیں ہے۔ اسٹریکوڈرمس سے مراد ہڈی دار کھال والی مچھلیاں ہیں (شکل 11) بعض باتوں میں یہ سطحی طور سے ارتھرو پوڈس سے مشابہ ہوتی ہیں اور دوسری باتوں میں زیادہ ترقی یافتہ مچھلیوں سے۔ جیسا کہ ان کے نام سے ظاہر ہوتا ہے اسٹریکوڈرمس کا بیرونی حصہ پلیٹوں سے بنے ہوئے ہڈی والے کیس پر مشتمل ہوتا ہے لیکن ان کا کوئی اندرونی ہڈی دار ڈھانچہ نہیں ہوتا۔ نہ ہی اسٹریکوڈرمس کے اچھی طرح نشو و نما پائے ہوئے دونوں تیرنے والے اعضا ہوتے ہیں اور بعض صورتوں میں یہ سرے سے ہی غائب تھے۔ یہ مچھلیاں اب بالکل معدم ہوچکی ہیں لیکن بالائی آرڈو ویشیئن زمانے سے لے کر بالائی ڈیوونیئن زمانے تک ان کی بالادستی رہی۔ دس کروڑ سال سے زیادہ کے اس طویل وقفے میں یہی زمین پر اصلی ریڑھ دار جانور تھے۔



شکل 11 : اسٹریکوڈرمس کے نام سے معروف ابتدائی مچھلیاں جن کے باہری حصے میں ہڈی دار ڈھانچے تھے اور جو آرڈوویشیئن زمانوں میں پیدا ہوئیں۔

a        دبی ہوئی سلورین زمانے کی شکل۔

b        زیریں ڈیوونئین دور کی ڈریپنس پس (Drepanaspis) ساری اسٹریکوڈرمس بلا جبڑے والی ہیں۔ انھوں نے پلیکوڈرمس مچھلیوں کو جنم دیا۔ یقین کیا جاتا ہے کہ انھیں سے بعد میں جل تھلی پیدا ہوئے۔

 

کیا اسٹریکو ڈرمس مچھلیوں میں سب سے ابتدائی تھیں؟ اس کے بارے میں شواہد آسانی سے سامنے نہیں آرہے ہیں۔ بہرحال یہ ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ ایسا رہا ہو کیونکہ بجا طور سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ پہلی مچھلیاں مکمل طور سے سخت حصوں سے محروم تھیں جیسا کہ آج کل بلا جبڑے والی بام کی شکل کی قدیمی تنبو Lanpreys مچھلیاں ہیں۔ لیکن آرڈوویشئن سے قبل کے پانیوں میں رہنے والے ان بلا ہڈی کے جانداروں کے محفوظ رہ سکنے کا امکان زیادہ نہیں ہوسکتا۔ بلا ہڈی والے جموئیٹس کروڈی کے پائے جانے کی طرح ان کے احفوری حالت میں پائے جانے کا موقع شاذ و نادر ہی آسکتا ہے۔

صوریاتی شواہد بظاہر اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اسٹریکوڈرمس سے زیادہ ترقی یافتہ مچھلیاں مثلاً پلیکوڈرمس نکلیں جن سے مراد پلیٹوں والی کھال کی مچھلیاں ہیں۔ اگرچہ ابھی تک کوئی ایسی شکل منظر عام پر نہیںا ٓسکی ہے جسے قطعی طور سے پلیکوڈرمس کا مورث سمجھا جاسکتا ہو۔ بہرحال ان گروہوں کے مفصل تقابلی مطالعے کے علاوہ یہ حقیقت کہ بحیثیت مجموعی اسٹریکوڈرمس ارضیاتی طور سے پہلے کی ہیں اس کی طرف اشارہ کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے کہ ان سے پلیکوڈرمس ابھریں۔ انھیں پلیکوڈرمس بالخصوص زیریں ڈیوونئین میں پائی جانے والی ان کی ایک شاخ ارتھروڈائرز (Arthrodires)میں کبھی کبھی جل تھلی کا شجرہ تلاش کیا جاتا ہے۔

ارتھروڈائرز تازہ پانی کی مچھلیاں تھیں جو کہ خاص طور سے زیریں ڈیوونئن میں تھیں اور ڈیوونئن کے ختم ہوتے ہوتے معدوم ہوگئیں۔ انھیں یہ نام  ان کی جڑی ہوئی گردنوں کی وجہ سے دیا گیا۔ ان کے ایک اندرونی ہڈی دار ڈھانچہ اور جبڑے کے عناصر تھے جو کہ زیادہ تر کرکری ہڈے جیسے تھے۔ یعنی یہ کہ وہ ہڈی کے بجائے کان جیسی نرم ہڈی کے بنے ہوئے تھے۔ ان میں سے کچھ مچھلیاں کافی بڑے سائز کی ہوئیں جیسے ڈن التھیس (Dinichthys) جس کی لمبائی 30 فیٹ تھی۔ انھوں نے بحیثیت مجموعی تازہ پانی  سے سمندری حالات اور چھوٹے کے بجائے بڑے سائز کو اختیار کرنے کا رجحان ظاہر کیا۔

کراسوپٹری جئنس (Crossopterygians) اور ڈپنوئی (Dipnoi) یا دوہری سانس لینے والی مچھلیاں

مچھلیوں کا ایک اور گروہ جن سے ریڑھ والے بڑے جانداروں کی شروعات کا امکان ہے۔ کراسوپٹری جئنس (Crosspterygians) یا تیرنے والے جھالردار اعضا کی مچھلیاں ہیں۔ ان کے پہلے سے سینے اور پیٹ کے پاس تیرنے والے اعضا کے ایک جوڑے تھے۔ یہی وہ اعضا ہیں جن سے خشکی پر رہنے والے جانداروں کے ہاتھ پیر کی نشو و نما ہوئی۔ ان کے کچھ ابتدائی وارثوں میں تنفس کا ایک نیا ڈھانچہ بننے لگا تھا۔ ان میں ڈپنوئن مچھلیاں بھی شامل ہیں۔ جن کے خشکی پر رہنے والے جانداروں کی طرح پھیپھڑے ہوتے ہیں۔ جن گڑھوں میں یہ مچھلیاں رہتی تھیں ان کے سوکھ جانے پر یہ آزادی کے ساتھ فضائی ہوا میں سانس لے سکتی تھیں۔ جیسا کہ ہم ابھی دیکھیں گے یہ جل تھلی کے ارتقا کی طرف ایک بڑا قدم ہے۔ علاوہ ازیں ان کے زیادہ ترقی یافتہ ریڑھ دار جانداروں کی طرح منھ میں کھلنے والے نتھنے تھے اور اس طرح وہ گلپھڑے اور پھیپھڑے دونوں سے بیک وقت سانس لے سکتی تھیں۔ اتفاقاً اسی وجہ سے انھیں ڈپنوئی نام ملا جس سے مراد دوہری سانس لینے والے جاندار ہیں۔

ان ڈپنوئن مچھلیوں کی زندہ نمائندہ افریقہ میں پائی جانے والی پروٹوپٹرس ہے (دیکھیے شکل 12)

یہ جن دلدلوں میں رہتی ہے ان کے سوکھ جانے پر یہ خودبخود نرم کیچڑ میں گڑ جاتی ہے اور اس طرح اس وقت تک کے لیے خشک موسم کو جھیل جاتی ہے جب تک کہ اس کا گھر بارش سے دوبارہ نہ بھر جائے اتنی ہی دلچسپی کا ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اس کے لمبے پتلے اور بیچ میں مڑے ہوئے تیرنے والے

شکل 12: افریقہ میں پایا جانے والا موجودہ ڈپنوئن پروٹوپٹرس (Protopterous) یہ جن دلدلوں میں رہتا ہے ان کے خشک ہوجانے پر یہ خود نرم کیچڑ میں گڑ جاتا ہے۔ یہ خشکی پر کی زندگی اختیار کرنے کی سمت میں پہلا قدم ہے (خیال کے مطابق)

اعضا ہوتے ہیں جو اعلیٰ ریڑھ دار جانداروں کے اعضا کی یاد دلاتے ہیں۔ یہ کبھی کبھی ا ن اعضا کے اوپر پانی میں چلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ایک اور دلچسپ ڈپنوئن لیپڈوسرین (Lepidosiren) ہے۔ یہ جنوبی امریکہ میں پائی جانے والی ایک ایسی پھیپھڑے دار مچھلی ہے  جس کے قدرے لمبے و پتلے تیرنے والے اعضا ہوتے ہیں۔ (دیکھیے شکل 13) یہ تیرنے والے اعضا گڈھے کی تہہ میں مچھلی کو سہارا ینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں جیسے

شکل 13: لپیڈوسرین ایک دوہری سانس لینے والی مچلی جو جنوبی امریکہ میں پائی جاتی ہے۔ اس مچھلی کے پچھلے اعضا میں دوہرا عصب (حصہ جسم کو جھکانے والا) اعلیٰ ریڑھ دار جانداروں کے ٹخنہ اور گھٹنوں کے جوڑ سے مطابقت رکھتا ہے اور ان کے اعصاب کے ارتقا میں ایک مرحلے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اگلے اعضا زوال پذیر ہیں (گراہم کے مطابق)

کہ وہ پروٹوپٹرس کی طرح جس کا تذکرہ ابھی کیا جاچکا ہے پیروں کے ایک جوڑے پر کھڑی ہوں۔ بعض باتوں میں سب سے اہم شکل ڈپنوئن سراٹوڈس ہے (دیکھیے شکل 14) جو کہ اب استوائی اسٹریلیا کے علاقوں میں رہتی ہیں۔ یہ ٹرائسک دور سے باقی ہے جسے پندرہ

شکل 14: آسٹریلیا کا سراٹوڈس۔ یہ نوع ٹرائسک زمانہ سے یعنی 15 کروڑ سال سے زیادہ عرصہ سے موجود ہے۔ (گراہم کے مطابق)

 

کروڑ سال ہوچکے ہیں۔ اس طرح اسے بجا طور سے ایک ’زندہ احفور‘ کہا جاسکتا ہے۔

یہ مشاہدہ کیا جائے گا کہ بعض مچھلیوں نے مختلف مرحلوں میں اعلیٰ ریڑھ دار جانداروں کے اعضا سے ملتے جلتے ڈھانچوں کی نشو و نما کا رجحان اختیار کرلیا۔ جن خطوط پر یہ حاصل کیا گیا ان کی نشاندہی شکل 15 میں کی گئی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے خشکی پر رہنے والے جانداروں کی طرح کھلی فضا میں سانس لینے کی صلاحیت

شکل 15: ریڑھ دار جانداروں کے اعضا کے ارتقا کے عمومی خطوط کو ظاہر کرتی ہے۔

a        بالائی ڈیوونین مچھلی سورپٹرس کے تیرنے والے اعضا کی ہڈیاں (گریگوری سے ماخوذ)

b        پریئن زمانے میں خشکی پر رہنے والے جل تھلی ایریاپس (Eryops) کے دائیں عضو کا استخوانی ڈھانچہ (گریگوری کے مطابق)

c        وہیل کے بازو (تیرنے والے اعضا) کا ڈھانچہ اور % انسانی ہاتھ کا ڈھانچہ (بیڈنل کے مطابق)

مچھلی:     جل تھلی۔ آبی تھن دار جانوروں اور انسان کی ہڈیوں کے انداز میں عمومی یکسانیت پر دھیان دیجیے۔

H       اوپری بازو کی ہڈیR کلائی ہار یا کلائی کی دو ہڈیوں میں سے اوپر کی ہڈی U زنداسفل (کلائی کی دو ہڈیوں میں سے نیچے کی ہڈی)

میں  سانس لینے کی صلاحیت پیدا کی۔ یہ صفات مچھلیوں اور جل تھلیوں کے درمیانی قدموں یعنی مراحل کی طرف دھیان دلاتی ہیں۔ ایسی اقسام میں معدوم سورپٹرس (جن کی عضویاتی ہڈیاں کافی نمایاں یا ممیز ہوچکی تھیں) اور موجودہ ٹیلیوسٹین پیریوپتھالمس جو پیڑوں پر چڑھتی ہے اس کی بہترین مثال ہیں۔

 

ماخذ: انسانی ارتقا، مصنف: ڈاکٹر ایم آر ساہنی، مترجمہ: ڈاکٹر احسان اللہ خاں، دوسرا ایڈیشن: 1998، سنہ اشاعت: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

جمال گیاوی: شخص و شاعر، مضمون نگار: آفتاب عالم

اردو دنیا، دسمبر 2024 شعری اصناف میں غزل کے بعد نظم مقبول عام ہے۔ نظم میں ایک موضوع کی اتنی وضاحت ہوتی ہے کہ شاعر اور سامع دونوں سیر ہوجاتے ...