20/1/25

ودربھ کا لسانی، علمی، ادبی و تہذیبی منظر نامہ، مضمون نگار: شکیل احمد خان

اردو دنیا، دسمبر 2024

علاقہ ودربھ، مہاراشٹر میں کئی ضلعوں پر مشتمل  اردو زبان و ادب کا ایک  زرخیز علاقہ ہے۔ اس کے ضلعوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے تو پہلا امراؤتی، آکولہ، بلڈانہ، ایوت محل اورضلع  واشم ( باسم)امراؤتی ڈویژن اور دوسرا  ناگپور،وردھا، بھنڈارا اور چندر پور ہے جو ناگپور ڈویژن کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ 

اوّل الذکر پانچ اضلاع آج بھی برار کہلاتے ہیں۔

سنسکرت کی کتابوں میں علاقہ برار کے متعدد نام مثلاً  ودربھ، مہاراشٹر اور کرتھ کیشِک  ملتے ہیں۔

برار ایک مدت تک فرماں روائے دکن کی عمل داری میں رہا ہے چنانچہ وردبھ میں اردو زبان کا آغاز بھی دکن میں اردو کی تَخم ریزی اورنشوونما کے ساتھ ہوا ہے۔

ودربھ کے اضلاع (برار) 1348سے 1902 تک براہِ راست دکن سے منسلک رہے، لہٰذادکنی زبان و تہذیب سے ان کا متاثر ہونا یقینی تھا۔ بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد برار میں عماد شاہی سلطنت کی بنیاد پڑی، اور یہ حکومت تقریباً سو سال تک قائم رہی۔ عمادشاہی  دورِ حکومت ودربھ میں اردو کے فروغ کا زمانہ ہے اس عہد کی زبان فارسی اثرات سے محفوظ نہیں تھی لیکن علاقائی رنگ بھی اس میں پوری شد و مد کے ساتھ موجود تھا۔ ودربھ کا اولین شاعر خواجہ محمددہدار فانی (1541تا1607) خالص فارسی اثرات کا شاعر تھا۔ جب کہ ہندوی روایات کے نمائندے جانم اور جگت گرو تھے اور ہندوی روایات کے ساتھ فارسی اثرات کی نمائندگی عبدل اور شہبازحسین قادر نے کی۔

1543میں دو سندھی عالموں ( شیخ قاسم اور شیخ طاہر) کی ایلچپور ضلع امراؤتی میں آمد اور سکونت سے بھی یہاں کی زبان اور ادب متاثر ہوئے۔ عہدِ قطب شاہی کے دوران اردو نے ایک مشترک زبان کی حیثیت حاصل کرلی تھی۔ ابراہیم قطب شاہ کے دور میں علم و ادب کا خوب چرچا ہوا۔ محمد قطب شاہ نے بھی ان ہی روایات کی پاسداری کی۔ 1680تک دکنی روایات کا خاتمہ ہو چلا تھا  اورزبان نئی تشکیل کے دور سے گذرتی ہوئی ریختہ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب ولی دکنی نے شمال کی زبان کو دکنی روایات سے ملا دیا تھا۔ شعرابرار میں ان کے معاصرین آقا محمد امین وفا ایلچپوری، شیخ غلام مصطفٰے انسان ایلچپور، محمد شاہ معظم خاں محرم اور ابوالحسن رسا بالاپوری تھے۔

دکن میں مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد مراٹھے بھی نمایاں ہو چلے تھے، چنانچہ برار کی اردو پر مراٹھی کے اثرات مرتب ہونے لگے تھے۔ اس دور کے اہم شاعر شاہ غلام حسین ایلچپوری، ان کی زبان پر دکنی رنگ غالب تھااس سلسلے میں ان کی مثنوی ’اودھو نامہ‘ کا  موضوع  اور زبان قابلِ غور ہے۔ شاہ غلام حسین ایلچپوری کے شعری سرمائے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ شمالی ہند کی زبان کے اثرات دکن کی بہ  نسبت برار پر زیادہ مرتب ہوئے۔ ان کی بعض نظمیں ہندی افکار اور طریقہ اظہار کی آئینہ دار ہیں۔  اس طرح یہ سلسلہ برار کے دیگر نامور شعرا نواب نامدار خان پنّی جرنیل اور ان کے ہم عصر نیر ناقص، فیض اور نفیس سے ہوتا ہوا  صوفی سیدامجد حسین خطیب ایلچپوری تک پہنچتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جس وقت فورٹ ولیم کالج اور تحریکِ سر سید کے تہذیبی،علمی، ادبی اور لسانی اثرات نے پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ چنانچہ اس سے علاقہ برار اور ودربھ کے اضلاع بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

انیسوی صدی کے وسط و آخر میں ودربھ کے بعض دیدہ وروں نے اپنی زبان علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کی تاریخ تذکروں کی شکل میں مرتب کردی ہے۔ ان تصانیف میں سب سے اہم تصانیف تاریخ امجدیہ تذکرہ شعرائے دکن، تذکرہ محبوب التواریخ، تذکرہ اولیائے دکن مراۃ ابرار  اور بعض دیگر مصنفین کی کتب مثلاً ’دکن میں اردو‘ ( نصیرالدین ہاشمی)، دکنی ادب کی مختصر تاریخ( محی الدین قادری زور)،تاریخِ ادب اردو ( جمیل جالبی) کے مطالعے سے ودربھ میں اردو زبان وادب کے آغازوارتقاکے احوال آشکار ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ’تاریخ برار‘ کے عنوان سے کم از کم چھ قلمی نسخے محفوظ ہیں جن کی اشاعت سے برار کی ادبی  تاریخ اردو دنیا کو متحیر کرسکتی ہے۔

’خیال‘ کامٹی کے مدیر فیض انصاری کی ’سی پی کے موتی‘ کے عنوان سے ایک گراں قدر تصنیف  ہے۔ انھوں نے وسطِ ہند میں اردو کا اوّل تا حال تاریخی جائزہ لیتے ہوئے صوبہ  متوسط وبرار کے شعراکا تذکرہ ترتیب دیا تھا۔ یہ تصنیف چار ابواب پر مشتمل ہے۔پہلا باب ’جائزہ تاریخ ِزبانِ اردو‘ دوسرا  سی پی کے قدیم شعرائے اردو جو ان قدیم شعرائے اردوکو قابلِ فخر امتیازی حیثیت سے پہلی بار اجتماعی طور پر متعارف کراتا ہے جو عہد فرنگ کے استبدادی دور میں گمنامی کی غار میں چھپے رہے تھے۔ اس کے بعد کا باب پچّیس سالہ ارتقائی عہدِ زریں پیش کرتاہے جس میں گونڈوانے کی سنگلاخ زمین نے سدا بہار پھولوں سے ادب کی سونی سیج کو گلستاں بنادیا۔ صدافسوس کہ برسوں کے مطالعے اورکاوشوں سے تیارکی گئی یہ تصنیف اشاعت سے محروم رہی ورنہ ودربھ کی ادبی تاریخ کے بہت سے پوشیدہ پہلو نمایاں ہو جاتے۔

ودربھ ہمیشہ سے  پرنٹنگ پریسوں سے محروم رہا یہ اس کی بد نصیبی رہی۔کتابت و طباعت کے مسائل کے سبب بھی یہاں کا بیشتر ادبی اثاثہ ضائع ہواہے۔ ہاں یہ ہے کہ ناگپوراور آکولہ سے چند اچھی کتابیں شائع ہوگئیں۔ ان مطبوعات میں مختلف انجمنوں کے مجّلوں اور شعری مجموعوں کی تعداد زیادہ رہی۔ اس وجہ سے کم از کم عصری تخلیقات کے تحفّظ کا سامان ہو گیا۔ ودربھ میں کاتبوں کی کمی کی شکایت کو رفع کرنے کی غرض سے مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکادمی نے ناگپور جیسے شہروں میں مرکز ِکتابت قائم کروا دیے، لیکن ناگپور کے چند ہی پریس پورے علاقے کی طباعت کا بوجھ نہیں اٹھا سکے جبکہ امراؤتی، بلڈانہ، ایوت محل،بھنڈارہ،چندر پوراور وردھا میں اردو طباعت کا کوئی معقول انتطام ہی نہیں تھا۔  

ودربھ کے اضلاع میں آکولہ اور ناگپور اردو آبادی کے تناسب سے بڑے شہر وں میں شمار ہوتے ہیں، اردو پرائمری، ثانوی اور اعلیٰ درجات کی درس گاہوں کی تعداد بھی ان ہی شہروں میں زیادہ ہے۔ امراؤتی جو عہدِ قدیم سے نازِ برار کی حیثیت رکھتا تھا، اب اپنی امتیازی شان کھو چلا ہے اگر چہ یہاں بھی اردو تعلیم و تدریس کا معقول انتظام ہے اوراعلیٰ تعلیم  کے لیے ودربھ مہا ودیالیہ جیسا عظیم الشان گورنمنٹ کالج اور ٹیچرس ٹریننگ گورنمنٹ اسکول بھی یہاں موجود ہے۔ پھر بھی امراؤتی اردو تخلیق، تحقیق، صحافت اور تعلیم کے میدان میں آکولہ اور ناگپور کی ہمسری نہیں کرپایا۔

ودربھ میں ناگپور کے اضلاع بھنڈارہ، چندر پور اور وردھا کی بہ نسبت امراؤتی کے سبھی اضلاع میں اردو مدارس کا جال بچھا ہوا ہے۔چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں اردو پرائمری، ثانوی اوراعلیٰ تعلیم و تدریس کا انتظام موجود ہے۔

ناگپورڈویژن کا بھنڈارہ ضلع اردو میں تعلیمی لحاظ سے بہت ہی مفلس ہے۔ایک زمانہ تھا کہ اس شہر کے غیر مسلم بھی اردو کے صاحبِ دیوان شاعر ہوا کرتے تھے۔اور زمانہ حال کا عالم یہ ہے کہ مسلمانوں کو بھی اپنی مادری زبان اور تہذیبی میراث کے تحفظ کا کوئی خیال نہیں ہے۔ اس کے باوجود بھنڈارہ میں ہندو اور مسلمانوں کا اشتراک اور باہمی میل جول بے مثل ہے۔

سادھوںسنتوں، درویشوں، فقیروں اور ولیوں  سے سر زمین ودربھ ہمیشہ لسانی لحاظ سے کثرت میں وحدت کی جلوہ گاہ بنا رہا ہے۔ شاہ دولہا رحمٰن غازی کا عرس  اور میلے،بہرم کی جاترا، رام ٹیک ، پنڈر پور، لونار، اور ریتھ پور کی جاترائیں، مہاہور کا نوراتری اُتسو، تاج باغ ناگپور، سیلانی اور مور پھاٹا  وغیرہ مقامات ، گاڑگے مہاراج، گجانن مہاراج، سائیں بانا اوردیگر سنتوں کے مراکز، قومی تقریبات، نیز دیوالی، عیدین،ہولی، گنیش اْتسو، محرم، دسہرا، پولا اور دیگر تہواروں  کے میلوں ٹھیلوں میں  ہر مذہب اور ذات کے لوگوں کے باہمی میل جول کا شاندار نمونہ علاقہ ودربھ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی اتحاد کے باعث ودربھ میں مراٹھی اور اردو زبانیں ایک دوسرے کی رفیق ہیںاورایک دوسرے کو متاثر کرتی ہیں۔ یہاں مراٹھی طبقے میں اردو غزلوں کی بے پناہ مقبولیت ہے۔ اسی کے مدِ نظر ناگپور میں دونوں زبانوں کے جانکاروں نے مل جل کر ایک ’ غزل ڈکشنری‘ تیار کی ہیں جس میں روایتی، ترقی پسند اور جدید اردو غزل کی مخصوص اصطلاحیں، علائم ، استعارات، مذہبی اشاریے اور تلمیحات  کی تعبیر و توضیح مراٹھی اور انگریزی زبانوں میں کی ہیں۔

اسی طرح یہاں مراٹھی کے تخلیق کار، نقاد اور محققوں نے بھی اردو ادب کو اپنی زبان میں منتقل کرنے کا کام کیا ہے ، ستیو مادھو راؤ پاگڑی، ودّ یا دھر گوکھلے، شری پاد جوشی مراٹھی کے بلند پایہ صحافی اور ادیب ہیں  جنھوں نے اردو کے کلاسیکی ادب کو مراٹھی زبان میں منتقل کرنے کا کام کیا ہے۔نو جوان ادیبوں نے بھی اردو تخلیقات کا مراٹھی میں اورمراٹھی تخلیقات کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اندو متی شیوڑے نامی اسکالر نے غالب کی زندگی پر  dFkk ,d 'kk;jh کے عنوان سے ایک شاندار ناول تحریر کیا ہے جس کی پذیرائی مہاراشٹر اردو اکادمی نے بھی کی۔ علاقہ ودربھ میں جس طرح مراٹھی میں اردو تخلیقات کے ترجمے ہوئے ہیں اسی طرح اردو داں طبقے نے بھی اپنا فرض ادا کیا ہے بدیع الزماں خاورنامی اردو کے شاعر و ادیب نے مراٹھی شاعری کی کلاسک کو اردو منظوم ترجمے کا  خوبصورت جامہ پہنایا۔ نور پرکار نے مراٹھی افسانوں کے تراجم کی ابتداکی اور یونس اگاسکر نے ’ مراٹھی ادب کا مطالعہ‘  نّیر صادق نے ’نئی مراٹھی شاعری‘  جیسی کتابیں پیش کیں۔

   اردو اور مراٹھی زبانوں کا یہ میل جول آج کا نہیں زمانہ قدیم سے ہی اہلِ ودربھ (برار) کے خمیر میں شامل ہے۔ پیشواؤں کے زمانے میں مراٹھی زبان نے درباری زبان فارسی کے اثرات سے بہت سی اصطلاحات اپنے اندر سمولیں اور روز مرّہ کی بول چال میں بے شمار فارسی الفاظ کا استعمال روا رکھا لیکن جیسے جیسے لسانی جانب داری بیدار ہوتی گئی  اور لسانی  بنیادوں پر ریاستوں کی شناخت قائم ہونے لگی تو مراٹھی بھی ذرا سہم   گئی، یعنی ہندی کی طرح مراٹھی میں بھی بدیسی  یا غیر لفظیات سے پرہیز کیا جانے لگا۔ لیکن اہلِ زبان اس بات سے واقف ہیں اور یہ لسانیات کا اصول ہے کہ  ہر زندہ زبان دوسری زبانوں سے متاثر ہوتی ہے اور اپنے ذخیرہ الفاظ میں برابر اضافہ کرتی رہتی ہے۔ اسی طرح مراٹھی نے بھی ایک زندہ زبان ہونے کا ثبوت دیا۔ بعد کو مراٹھی میں اردو یا فارسی کی لفظیات کا دخل زیادہ نہیں رہا لیکن مراٹھی زبان ہمیشہ اردو ادب کی عظمتوں کا اعتراف کرتی رہی۔ مراٹھی نے بڑی فراخ دلی کے ساتھ اردو ادب کے بیشتر سرمائے کو اپنے اندر سمیٹ لیا۔یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ جن تحریکات و رجحانات سے اردو ادب متاثر ہوا، ان تحریکات و رجحانات کی گو نج مراٹھی ادب میں بھی سنائی دیتی ہے۔ مراٹھی کا اردو غزل کو اس کے اپنے فارم میں قبول کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ مراٹھی اور اردو ایک دوسرے کے مدِ مقابل نہیں بلکہ دوست ہیں۔

جس طرح مہاراشٹر کے دیگر علاقوں میں خصوصاً ممبئی اور مراٹھواڑہ کی آبادیوں میں اردو داں طبقے کی زبان پر مراٹھی کے اثرات نمایاں ہیں، یہی اثر امراؤتی اور ناگپور ڈیویژن کی  اردو آبادی کی عام بول چال پر بھی صاف نظر آتا ہے۔

ودربھ کی اردو پر دکنی رنگ غالب ہے اور تعلیم یافتہ طبقہ شمالی ہند کے اثرات سے رچا ہوا ہے۔ ودربھ کی اردو زبان پر یہ دو طرفہ اثرات اس لیے مرتب ہوئے جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے، کہ عہدِ قدیم میں ودربھ کے اضلاع امراؤتی،  آکولہ، بلڈانہ، ایوت محل اور واشم دکنی عمل داری سے منسلک رہے اور برار کا علاقہ دہلی اور دکن کے مابین گزرگاہ بنا رہا۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد جنوب کے بہت سے مسلمانوں کی ہجرت نے بھی یہاں کی بول چال کو متاثر کیا۔ اسی طرح 1857کی تباہی میں شمالی ہند کے خاندانوں کی آمدسے ناگپور ڈیویژن کے شہروں کی بول چال متاثر ہوئی۔ ودربھ کے ہر شہر میں جنوبی اور شمالی ہند کی زبانوں کے اثرات سے ایک نئی بول چال کی زبان پیدا ہوئی جس کی جھلک آج بھی یہاں کے بعض شہروں کی عوامی بولی اور عام اردو زبان میں نمایاں ہے۔ اسے مہاتما گاندھی کی ’ ہندوستانی زبان ‘ کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔

مطلب یہ کہ ودربھ مختلف انقلابات کے تحت اپنی اردو زبان کو عوامی رابطہ کے لیے آسان اورمؤثر بناتا چلا گیا اور یہی وجہ ہے کہ ریاستی زبان  مراٹھی کے بعد مہاراشٹر میں رابطہ کی دوسری بڑی اہم زبان اردو ہی قرار پاتی ہے۔

ودربھ کے قلمی نسخے، مخطو طات اور مطبوعات کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس علاقے میں تاریخ نویسی، تذکرہ نگاری اور شعروشاعری سب سے آگے رہی۔ اصنافِ نثر میں ناول نویسی اور افسانہ نگاری کی طرف بہت کم توجہ دی گئی۔اسی طرح ڈاکٹر سید صفدر  کے علاوہ ودربھ کی سر زمین سے کوئی قابلِ ذکر نقادبھی نہیں۔

آزادیِ ہند سے پہلے تک ودربھ کا پورا علاقہ روایتی ادب کا اسیر رہااور روایتی اردو ادب کے طے شدہ خطوط پر سرگرمِ سفر رہا۔  غزلیہ شاعری اور مذہبی شاعری کے باب میں یہاں کے بزرگ شاعروں نے اپنی فکرِ سخن اور زورِ قلم کو پابند کر رکھا تھا۔ مضامین شعر میں وہی احتیاط اور وہی حصار دکھائی دیتا ہے جو کلاسیکی اردوشاعری کی بنیاد ہیں۔

ودربھ کی شاعری اور اکثر نثری تحریریں بین المذاہب اتحاد و اتفاق جگاتی نظر آتی ہیں۔ انسانی قدروں، اخلاقی ضابطوں، بھائی چارہ، اخوت،مساوات، ہم آہنگی، خلوص، دوستی، رفاقت اورایسے ہی دوسرے اوصافِ حمیدہ کی بازیافت کے لیے ودربھ کے شاعروں نے قلم اٹھایا۔ یہی وجہ ہے کہ ودربھ کے شاعر اپنی ہندوستانیت اور حب الوطنی کا ثبوت پیش کرتے رہے۔

ودربھ میں اردو زبان کی قدیم تخلیقات و تصنیفات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو قلم کار ہمیشہ قومی دھارے کے ساتھ رہے ہیں۔اس مقصدی ادب کے باعث ودربھ کا اردو ادب،ادبی اقدار کے معیار ومیزان کے تقاضوں کو پورا نہیں کر پایا لیکن چند ایسے فنکار بھی اس سرزمین  میں موجود ہیں جن کی ادبی حیثیت سے انکار ناممکن ہے۔

ودربھ کے قدیم ادیبوں کا تذکرہ کیا جائے تو مولانا سیدابوالحسن ناطق گلاؤٹھوی کی اکیلی شخصیت ہی ودربھ کے  وقار کی ضمانت کے لیے کافی ہوگی۔ان کے کچھ ہم عصروں کے بھی ادبی کارنامے لائق ستائش ہیں۔ لیکن صدافسوس کہ نشرواشاعت کی محرومی، نقادوں کی بے مہری اور کچھ کمتری کے احساس نے یہاں کے قلم کاروں کو گمنام رکھا۔ اس بات کا اندازہ یہاں سیپاکستان جانے والے قلمکاروں کی ادبی حیثیت کو دیکھ کر بھی کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان صاحب کی تنقیدی بصیرت، منظورحسین شور، خورشید بیگم خورشید، اور نگار صہبائی کی شعری قدر و منزلت اور شائستہ اکرام کی افسانہ نویسی نے وہاں جو مقام و مرتبہ حاصل کیا وہ ودربھ میں رہ کر ممکن نہ ہوتا۔

زمانہ حال میں مدحت الاختر، شاہد کبیر، سید صفدر سید یونس اور دوسرے جدید شاعروں کووہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہوا جس کے وہ مستحق ہیں۔ افسانہ نگاری میں م۔ناگ کے افسانے باقاعدہ شائع ہو کر ودربھ کی افسانہ نگاری کی خلاکو پر کرسکتے ہیں۔

ڈاکٹر زرینہ  ثانی نے اپنی تنقیدی و تحقیقی تصانیف سے اپنی پہچان خود بنائی ہے۔ڈاکٹر ضیاء الدین دیسائی صاحب کے علمی مضامین اور تصانیف نے انھیں علمی حلقوں میں ممتازمقام دلایاہے۔ڈاکٹر دیسائی قدیم کتبات و مخطوطات خوانی میں ملکہ رکھتے ہیں آثارِ قدیمہ سے متعلق ان کی کتب اورمضامین نے انھیں اپنے شعبہ علم میں لا ثانی بنا دیا۔ ان کی حسبِ ذیل تصانیف ہیں:

1        Life and Works of Faidi 1961

2        Mosques of India, 1967 &71، ہندوستان کی مسجدیں (مترجم: مالک رام)

3        Indo-Islamic Architecture, 1971

4        Center of Islamic Learning in India, 1979

5        Published Muslim Inscriptions of Rajasthan, 1979

6        آثارِ قدیمہ ہند۔ وغیرہ

ڈاکٹر منشاء الرحمن خان منشا کئی شعری مجموعوں کے خالق ہیں۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے میر ممنون کا دیوان ایک مبسوط مقدمے کے ساتھ تر تیب دیا۔اس کے علاوہ وہ ایک بلند پایا شاعربھی ہیں وہ جس نوع کی شاعری کرتے ہیں اس رنگ کے بہترین شاعروں میں ان کا شمار ہوتا ہے اور ان کے اْسی شاعرانہ مرتبے کے باعث  انھیں حکومتِ دہلی کی جانب سے لال قلعے پر منعقدہونے والے سالانہ مشاعرے کے لیے مدعو کیا جا چکا ہے۔

ودربھ کے بہت سے ادیب، شاعر و فنکار ایسے ہیں جنھوں نے ادبی دنیا سے اپنا لوہا منوالیا ہے۔ جب کہ بہت سے فنکار گمنامی کے اندھیرے میں گم ہوگئے۔ 1960کے بعد نئی حسیت سے رچے ہوئے شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں نے ادبی حلقوں کو کافی متاثر کیا۔شاہد کبیر، مدحت الاختر اور عبدالرحیم نشتر کے اشتراک سے جدید اردو غزل کا انتخاب1968میں ’چاروں اْور‘  کے نام سے شائع ہوا۔ہند و پاک میں یہ پہلا مجموعہ ٹھہرا جس نے نئی اردو غزل کے مزاج اور تخلیقی رچاؤ کی شناخت قائم کی۔ ودربھ سے ہندوپاک کی نئی غزل کا دوسرا انتخاب ’ارتکاز‘ کے نام سے عبد الرحیم نشتر نے شائع کیا۔ ودربھ کے جدید طرزِ فکر کے شاعروں میں سب سے پہلا مجموعۂ کلام ’اعراف‘ کے نام سے ماہنامہ تحریک دہلی کے اشاعتی ادارے کی طرف سے ستمبر 1972میں شائع ہوا۔ ودربھ میں افسانوی رپورتاژ کی پہلی کتاب ’بھوپال ایک خواب‘ کے عنوان سے دسمبر 1977میں شائع  ہوئی۔  ودربھ کے اردو افسانے کی پچاس سالہ تاریخ کا جائزہ اور نوجوان افسانہ نگاروں کی مِنی کہانیوں کا اولین تنقیدی مطالعہ و انتخاب ’ نور نژاد۔ودربھ میں اردو افسانہ‘ کے عنوان سے دسمبر1980میں شائع ہوا۔ یہ تمام تصانیف عبدالرحیم نشتر کی تھیں۔

1970سے 1981کے دوران کچھ قابلِ ذکر کتب جیسے مٹی کا مکان، ثبات، منافقوں کے روز و شب،سیماب کی نظمیہ شاعری، دیوان ناطق، بیان میرٹھی( حیا ت وشاعری)، مطالعہ میر ممنون، نصف النہار، سوکھے پیڑ کا درد،  انشاکا ترکی روز نامچہ، گوبھی کے پھول( ناگپور میں مزاحیہ شاعری کا پہلا مجموعہ کلام)، 'ایلچپور کے چند قدیم شعرا، بلا عنوان( ودربھ میں مزاحیہ مضامین اور افسانوں کا پہلا مجموعہ)، طلسمِ غزل، بوڑھا درخت، صفدرآہ۔بحیثیت شاعر، نئی اردو شاعری، رہنمائے اردو تعلیم، طلسمِ الفاظ، کفِ افسوس،  اوراقِ مصور جیسی اہم مطبوعات منظرعام پر آئیں۔ اس دوران اردو صحافت میں ایجو کیشنل ٹائمز،رقیب، نقوش، دھوپ چھاؤں، زیر و زبر وغیرہ اخبار و رسائل کا دور دورہ رہا مگر یہ  اخبارات و رسائل کوئی کمال نہیں کر پائے۔

آزادیِ ہند کے بعد علاقہ ودربھ (برار)سے کئی اعلیٰ کتابیں شائع ہوئیں لیکن اکثر کتابیں دیمک کی نذر ہوگئیں۔ اس بات کا عین ثبوت یہ ہے کہ مولانا ناطق کا دیوان  ہو یا حضرت شاطر حکیمی  کامٹوی کا اولین مجموعہ کلام ’موت و حیات‘ یا قادر نیازی کے افسانے’باغی انسانی نگار‘۔ یہ صورتِ حال روایتی شعر وادب کے دلدادوں کی ہی نہیں بلکہ بعض نئے فنکار بھی اس مسئلے سے دو چار ہوئے ہیں۔ ہاں یہ ضرورہے کہ مہاراشٹراردو اکادمی کے مالی تعاون سے اچھی کتابیں منظر عام پر آگئیں۔

 ودربھ میں اردو کی معیاری تصانیف کا سلسلہ زمانہ قدیم سے موجود ہے لیکن اس کی پذیرائی نہیں ہو سکی۔ یہ اب بھی ممکن ہوسکتا ہے گرچہ ودربھ کااردو داں  طبقہ اس طرف متوجہ ہو اور اپنے علاقائی ادب کی اشاعت و ترویج میں خودحصہ لے، ورنہ ودربھ میں اردو کی معیاری تصانیف۔ سوز و گداز، گلستانِ معرفت، موت وحیات، سمن زار، حرفِ خاموش، طور رخشاں، پہلی کرن، نصف النہار،  اور دیوانِ ناطق  کی طرح  گرد و غبار میں دب کر رہ جائیں گی یا پھر تاریخ برار، سی پی کے موتی، دیوانِ عادل، دیوانِ ظفر، کلامِ پاگل، دیوانِ غازی  اور اسی طرح برار کے قابل فنکاروں کے کارنامے قلمی نسخوں اور مخطوطوں میں قید رہ جائیں گے۔

ودربھ کے کچھ جدید کار شاعروادیب خوش بخت ہیں کہ ان کے انتخابِ کلام اور تنقیدی مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض تصانیف نے اکیڈمیوں کے انعامات بھی حاصل کیے۔  ان میں ڈاکٹرمنشاء الرحمن منشا،  عبدالستار فاروقی، طرفہ قریشی بھنڈاروی، ڈاکٹر زرینہ ثانی، محمد عبدالحلیم، شاہد کبیر، محبوب راہی، ڈاکٹر شرف الدین ساحل، مدحت الاختراور ظفر کلیم وغیر شامل ہیں۔ ودربھ کے ان تمام شاعروں اور ادیبوں کی جولانی طبع،فنکارانہ چابکدستی،شاعرانہ کمال، حسنِ بیان اور ندرتِ فکر نے  ودربھ کے اردو ادب میں مایہ ناز تصانیف کا اضافہ کیا اورسرکاری انعامات سے بھی سرفرازی حاصل کی۔ غرض یہ کہ ودربھ کے بیشتر شاعروں،  مزاح نگاروں، افسانہ نویسوں کی تخلیقات اور تحقیقی  تنقیدی تصانیف کے علاوہ بے شمار قلمی نسخے اور مخطوطات بھی محفوظ ہیں، جن کی اشاعت سے ودربھ (برار) کی لسانی،علمی و ادبی تاریخ  روشن ہوسکتی ہے۔

 ودربھ کے تقریباً تمام ہی  اضلاع کا ماضی اردو زبان و ادب سے روشن رہا ہے اسے اردو زبان و ادب کے سنہرے دورسے تعبیر کرنا کوئی قباحت نہیں۔آج اس بات کی سخت ضرو رت ہے کہ ماضی کے گم شدہ ادبی خزانوں کی تلاش کی جائیں،اوراب تک جن قلمی نسخوں اورمخطوطوں کا علم ہو چکا ہے۔ ودربھ کے دانشوروں کو ان کی اشاعت کی صورت نکال کر انھیں شائع کرنا چاہیے۔ کیونکہ ودربھ کے آج بھی چند شہروں میں ایسے اساتذہ، ادیب و شاعر حضرات موجودہیں جو قدیم و جدید ادب کا ذوق رکھتے ہیں اس کام سے یقیناََ اردو زبان و ادب کی تاریخ کا تاریک پہلو روشن ہو سکتا ہے۔ 

 

Dr. Shakeel Ahmad Khan

Dept of Urdu

Government Vidarbha Institute of

Science & Humanities

Amravati-444604 (MS)

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

جمال گیاوی: شخص و شاعر، مضمون نگار: آفتاب عالم

اردو دنیا، دسمبر 2024 شعری اصناف میں غزل کے بعد نظم مقبول عام ہے۔ نظم میں ایک موضوع کی اتنی وضاحت ہوتی ہے کہ شاعر اور سامع دونوں سیر ہوجاتے ...