بیسویں صدی کے نصف آخر کے افسانہ نگاروں میں قیصر تمکین
ایک اہم نام ہے۔قیصر تمکین کی پیدائش لکھنؤ میں ہوئی لیکن انھوں نے انگلستان ہجرت کرکے اسے اپنا مستقل ٹھکانا بنا لیا۔ قیصر
تمکین کے بیشتر افسانوں کا خام مواد ہندوستانی مسائل، فرقہ واریت، مشترکہ تہذیب کے
زوال اور روایت سے منحرف مسلمان بچوں کی نفسیات سے تیار ہوا ہے۔ قیصر تمکین کا عہد
تقسیم کے معاً بعد کا عہد ہے۔ یہی وہ دور ہے جب ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو
پامال کرنے کے لیے انتہا پسند طاقتوںکی سازشیں شروع ہوئیں۔ قیصر تمکین نے ان
سازشوں کو کامیاب ہوتے اور باہمی رواداری کومٹتے دیکھا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ان کے
افسانوں کے مرکزی موضوعات فرقہ واریت، قومی انتشار اور فسادات کے سبب رونما ہونے
والے منفی نتائج ہیں۔ فسادات کے متعلق ان کے افسانوں کا دائرہ ہندوستان تک محدود
نہیں بلکہ اسرائیل و فلسطین اور جرمن نازیوں کے مابین تنازعات تک پھیلا ہوا ہے۔ اس
نوعیت کے نمائندہ افسانوں میں یہودن، کفارہ، یروشلم یروشلم، درگاہ شریف، اللہ
اکبراور ایک کہانی گنگا جمنی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
قیصر تمکین بیشتر مقامات پر فرسودہ روایتوں کے خلاف علم
بغاوت بلند کرتے نظر آتے ہیں۔اس موضوع پر ان کا سب سے طویل اور عمدہ افسانہ ’ژینیت‘
ہے۔ فرسودہ اقدار کے خلاف بغاوت کا جذبہ اس افسانے میں کامیابی کے ساتھ ظاہر ہوا
ہے۔ ان کی ترقی پسندی انھیں مذہب، ملک اور قوم کے دائروں سے پرے ہو کر غور و فکر
کا موقع فراہم کرتی ہے۔ وہ جذباتیت اور انتہا پسندی کو نقصان دہ ثابت کرتے ہوئے
اسے فساد کی جڑ قرار دیتے ہیں۔یہ جذباتیت کس طرح بڑے بڑے نقصانات کو جنم دیتی ہے
اس کی ایک مثال افسانہ ’ایک کہانی گنگا جمنی‘ کے کردار’ مولوی حقی ‘ہیں۔ جنھوں نے
گلی کے ایک بندر پرانتقاماً لاٹھی چلا کرشرپسندوں کے لیے فرقہ وارانہ فساد برپا
کرنے کے لیے ایک بڑا موقع فراہم کر دیا تھا۔
قیصر تمکین کے افسانوں کے بیشتر کردار خیالی دنیا کے
بجائے آس پاس کے ماحول سے سروکار رکھتے ہیں۔ علامتی اور تجریدی افسانہ نگاری سے یقینا
انھوں نے اثر قبول کیا ہے لیکن یہ رنگ ان کے افسانوں پر حاوی نہیں ہونے پاتا۔ ان کی
یہ خواہش بھی نہیں تھی کہ انھیں ایک علامتی اور تجریدی افسانہ نگار کے طور پر یاد
کیا جائے۔البتہ انھوں نے اپنے افسانوں کو سپاٹ بیانیہ اور طے شدہ انجام پر ختم
ہونے سے بچانے کی کوشش ضرور کی ہے۔ یہ خوبی جدیدمعاشرے پر نظر رکھنے والے افسانہ
نگار کے یہاں ہی پیدا ہو سکتی تھی۔قیصر تمکین کے بقول’’ان کہانیوں میں کہیں کہیں یہ
کوشش مستور ہے کہ’’پھر کیا ہوا؟۔ یہ تجسس اس بات کی علامت ہے کہ کہانی کبھی ختم نہیں
ہو سکتی اور نہ ہی اس کا طے شدہ انجام ہوتا ہے۔ جس طرح زندگی مختلف جہتوں میں آگے
بڑھ جاتی ہے، اسی طرح کہانی بھی کہیں ختم ہو کر کہیں سے شروع ہو جاتی ہے۔
قیصر تمکین کے بعض افسانے قدیم ہندو دیو مالا، اساطیراور
ما بعد الطبیعاتی عناصر کی عکاسی بھی کرتے ہیں، لیکن ان کے کرداروں کی ارضیت،
موجودہ معاشرے کی تصویر کشی اور رہن سہن جلد ہی قاری کو ایک جانی پہچانی دنیا میں
داخل کر دیتے ہیں۔ان کے افسانو ں کا ابہام تفہیم کی سطح پر چیستاں نہیں بننے
پاتا۔البتہ قارئین کے لیے ذہنی آسودگی کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
جدید اسلوب میں ڈھلے ہونے کے باوجود ان کے افسانے ’کہانی پن ‘سے مزین ہیں۔
قیصر تمکین کی تخلیقات میں نو افسانوی مجموعے،دو
ناولٹ،ایک خود نوشت اور تین تنقیدی کتابیں شامل ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کے نمائندہ
افسانوں کا انتخاب ’’گومتی سے ٹیمز تک‘‘منظر عام پر آیاہے۔اس انتخاب میں اٹھارہ
افسانے شامل ہیں جس میں مختصر افسانوں کے ساتھ وہ افسانے بھی موجود ہیں جنھیں طویل
انداز نگارش کی مثال کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح علامتی اور دیومالائی طرز اسلوب کے
اہم افسانوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیاہے۔
افسانہ ’سواستکا‘ کی قرأت ایک علامتی افسانے کے طور پر
بھی ممکن ہے، لیکن افسانے میں موجود سریت سواستکا کو کسی مخصوص معنی کی علامت نہیں
بننے دیتی۔ یہ افسانہ راوی اور اجنبی شناسا کے مابین ایک کش مکش کو سامنے لاتا ہے۔
اس کش مکش کی بنیاد پرانی اقدار کی شکست اور تہذیب نو کی بلاخیزی ہے۔ یہ صلیب اور
سواستکا کے درمیان کا فرق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سواستکا والا شناسا اجنبی املی کے
درخت کے پاس صلیب جلنے پر فاتحانہ شان سے ہنستا ہوا باہر آتا ہے۔افسانے کا آخری
اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’آرام
دہ وی سی10 کے کیبن میں لیٹے لیٹے میں ملکوں ملکوں، شہروں شہروں ہوتا ہوا جب گھر
پہنچا تو آنگن میں املی کا وہ درخت کٹ چکا تھا جس کے سایے میں ہم جوان ہوئے تھے۔
وہاں پر ایک صلیب جل رہی تھی۔گھر میں کوئی نہ تھا۔صرف دھواں ہی دھواں پھیلا ہوا
تھا۔ایک خوفناک قہقہے نے میرا خیر مقدم کیا۔وہاں میرا منحوس شناسا،وہی پراسرار
اجنبی تھا۔جس کے چہرے پر فتح مندی کی چمک تھی۔‘‘
(گومتی
سے ٹیمز تک، مرتبہ احسن ایوبی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی،سنہ 2021، ص41)
یہاں املی کا درخت اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ راوی
اپنے وطن میں صلیب (جو کہ جرمن نازیوں کی خاص علامت ہے) کے خلاف بغاوت اور مخالفت
کی آگ جلتی ہوئی دیکھتا ہے۔ یہاں محض سواستکا کا لفظ علامت نہیں ہے، بلکہ صلیب
اور سواستکا دونوں دو مختلف تہذیبوں کی علامتیں ہیں۔ کہانی کا مبہم کردار (شناسا
اجنبی) ان پرانی اقدار کا واہمہ ہے جو انسان کے ذہن و دماغ سے کبھی محو نہیں ہوتیں
اور وقتاً فوقتاً اپنی روایت سے انحراف کا خوف پیدا کرتی رہتی ہیں۔
افسانہ ’باب الابواب‘ انسانی بے حسی اور سرد مہری کے
خلاف ایک بیانیہ ہے۔ افسانے کے مرکزی کردار ’نادر علی‘کی طرح بڑا پھاٹک اور اس کے
پیچھے بسنے والی مخلوق بھی پراسرار ہے۔ بظاہر یہ افسانہ قدیم لکھنوی تہذیب و ثقافت
کی عکاسی کرتا ہے لیکن کہانی میں موجود سریت اس کی معنوی پرت کو گہرا کر دیتی ہے۔یہ
سریت کبھی انسانی بے حسی کی طرف لے جاتی ہے اور کبھی روایت شکنی کی طرف۔ اس میں
عہد حاضر کی ترقیوں کے علائم بھی ہیں (مثلاًہیلی کاپٹر) اور عہد عتیق کی مضبوط
مثالیں (مثلاًمسیح) بھی۔
افسانہ ’مرحبا‘ Irony Based افسانہ ہے۔ یہ ان لوگوں
پر طنز ہے جو احساس برتری میں مبتلا ہو کر دوسروں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ لیکن جب وہی
صورت حال ان کے سامنے آتی ہے تو منافقانہ رویہ اپناتے ہوئے اپنا دامن بچا کر نکل
جاتے ہیں۔ ’دیدے‘ اور ’محمود ہومن‘دو مختلف زاویۂ نظر کے ترجمان ہیں۔ محمود ہومن
کے متعلق یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’محمود
ہومن جب پڑھے لکھوں میں بیٹھتا ہے تو اس کی طبیعت افسردہ ہو جاتی ہے۔جب وہ اچھے
لوگوں سے ملتا ہے تو شرمندہ سا ہو جاتا ہے۔جب کامیاب شخصیات کے قصے سنتا ہے تو کھسیانا
ہو جاتا ہے۔جب مسکراہٹوں اور قہقہوں کی سنہری چمکیلی دھوپ آس پاس بکھرتی ہے تو اس
کے وجود پر گہرے منحوس بادل چھا جاتے ہیں اور سب سے زیادہ رنجیدہ تو وہ اس وقت
ہوتا ہے جب وہ ننھے شرمگیں پودوں کی طرح لہلہاتی الہڑ اور البیلی لڑکیوں کو دیکھتا
ہے۔’’حسن ہم کو درد مند کیوں بنا دیتا ہے؟‘‘ یہ سوال وہ اپنے آپ سے کرتا ہے اور
کوئی جواب نہیں پاتا ہے۔ اس کا فرانسیسی دوست دیدے کہتا ہے:’’ محمود ہومن تم میڈیوکر
ہو۔‘‘(ایضاً، ص 48,49)
اس کے بالمقابل دیدے دوسری نوعیت کا فن کار ہے۔وہ کہتا
ہے:
’’تم
محمود ہومن شاعری اور حقیقت کی کھچڑی پکانے کی کوشش میں میڈیوکر بن جاتے ہو۔یہ کیوں
نہیں سمجھتے ہو کہ سراپا غم ہو کر مسکرانا ہی اصل فن ہے۔‘‘
لیکن بالآخر جب ’فریدہ‘سیاہ فام مرد کی طرف بڑھ جاتی
ہے اور اس کے دونوں پیر ٹخنوں تک خون کے حوض میں ڈوب جاتے ہیں تودونوں میں سے کوئی
آگے نہیں بڑھتا۔اس وقت ثقافت کا پرستار دیدے اور قنوطیت کا بیمار محمود ہومن
خاموش تماشائی بنے کھڑے رہتے ہیں۔ دیدے،جو بات بات پر محمود کو میڈیوکر بتاتاتھا،
بے شرمی سے قہقہہ لگاتا ہے اور یہ تسلیم کر لیتا ہے کہ ہم دونوں ہی میڈیوکر ہیں۔ یہ
سماجی خیرخواہوں کے کھوکھلے دعووں کی شکست ہے جو وقت آنے پر باطل طاقتوں کے سامنے
گھٹنا ٹیک دیتے ہیں۔قیصر تمکین نے یہاں تثلیث کا جو زاویہ قائم کیا ہے وہ دو خود
پرستوں کو بے نقاب کرتا دکھائی دیتا ہے۔ فریدہ کا کردار ایک آئینے کی صورت میں
ظاہر ہوا ہے،جو دیدے اور محمود کو ان کا اصلی چہرہ دکھانے کا کام کرتا ہے۔
’سیر
گل خوب نہ دیدیم‘، یہ افسانہ ہجرت کے کرب، اجنبیت اور خونی رشتوں سے دوری کو اپنا
موضوع بناتا ہے۔ کہانی کے تینوں مرکزی کردار، منظر، ناظر اور صائمہ کی زندگیاں اسی
انتشار کے سبب بے رنگ ہوجاتی ہیں۔ منظور صائمہ بجیا سے دوری برداشت نہیں کر پاتا۔ایک
لمحے کو یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ منظور کا صائمہ بجیا سے ناجائز رشتہ ہے، لیکن یہ
رشتہ ایک پاکباز رشتہ تھا۔یہاں حادثاتی طور پر ان دونوں کی علاحدگی فطرت سے کھلواڑ
کے مترادف ہے، جو کہ دونوں کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔قیصر تمکین نے ہجرت کو صرف ملک
اور جغرافیائی نقشے کی تقسیم نہ سمجھ کر اسے بہت سے رشتوں کی تقسیم کے طور پر بھی
دیکھا ہے۔ یہ رشتے فطرتی ہیں،جن میں تقسیم کے غیر فطری عمل کے سبب علاحدگی پیدا ہو
گئی اور دونوں کی تباہی کا سبب بنی۔
افسانہ ’خدا حافظ ابوالحسن‘ عقلیت پسند میڈیوکر ٹائپ
لوگوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ افسانے کا آغاز نہایت دلچسپ اور دیومالائی ہے۔ لیکن
کہانی میں ابوالحسن کی انٹری کے بعد افسانہ جنید اور ابوالحسن کے افکار و خیالات
کو لے کر آگے بڑھتا ہے۔ابوالحسن ایک عقلیت پسند مفکر ہے۔ اس نے اپنی پوری زندگی
عقلیت کی تبلیغ کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مرنے کے بعد جسم کی تدفین کا بھی قائل
نہیں تھا۔اتفاقاً اجنبی ملک میں ابوالحسن کی موت ہو جاتی ہے۔اب مسئلہ یہ سامنے
آتا ہے کہ ابوالحسن نے اپنی موت سے قبل وصیت کی تھی کہ اسے اس کے آبائی وطن میں دفن
کیا جائے۔’ جنید‘ جو کہ اس کا پرانا دوست ہے، اس وصیت کو لوگوں کی طرف سے گڑھی ہوئی
بات سمجھتا ہے۔ وہ رات میں رقص کے دوران خاموشی سے ابوالحسن اور فوٹوگرافر ’ڈیونیر‘
کے تابوتوں میں ہیرا پھیری کر دیتا ہے۔ جس کے سبب فوٹوگرافر دفن کر دیا جاتا ہے
اور ابوالحسن کی لاش جلائی جاتی ہے۔ جنید کا یہ رویہ عقلیت پسندی کے خلاف ایک تازیانہ
ہے۔ ساتھ ہی ابوالحسن کی بیجا عقلیت پسندی کا نتیجہ بھی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا
ہے کہ اگر ابوالحسن نے اپنی موت سے قبل واقعی اس طرح کی کوئی وصیت کی تھی تو اس کے
کیا اسباب تھے؟ یہاں افسانہ نگار خاموش ہے۔شاید اس لیے کہ عقلیت پسندوں کے منحرف
رویوں پر اسے بھی حیرانی ہے۔
افسانہ ’یروشلم یروشلم‘اس امر کا اثبات ہے کہ قدیم
عمارتیں اور پرانی یادیں ہماری زندگی کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ ان کے ضائع کرنے سے انسانی
تاریخ کا ایک بڑا حصہ حذف ہو جاتا ہے۔ افسانہ اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ کوئی
بھی شے اپنے وجود کے اعتبار سے نئی یا پرانی نہیں ہوتی، بلکہ لوگوں کی ترجیحات
بدلنے سے ان پر قدامت کا گمان گزرنے لگتا ہے۔ لیکن معیار بدل جانے سے حقیقت نہیں
بدلتی۔ اس افسانے کا موضوع قیصر تمکین کی ہندوستان دوستی اور ان کا عہد طفلی ہے۔
افسانہ نگار اپنے ماضی کا قدردان بھی ہے اور اس کے تحفظ کے لیے فکر مند بھی۔
افسانہ ’عہد گل ختم ہوا‘طالب علموں کی ہوسٹل لائف کے
علاوہ سماج میں بڑھتی عدم رواداری کو اپنا موضوع بناتا ہے۔ افسانے کے دو مرکزی
کردار ’رام سنگھ‘ اور ’معجز‘دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے کے باوجود ہم پیالہ وہ
مشرب والی زندگی گزار رہے ہیں۔ رام سنگھ کیمپس چھوڑنا نہیں چاہتا اور معجز کو سند
کی کوئی ضرورت نہیں۔ دونوں اپنے اپنے مقصد میں کامیاب ہیں۔ لیکن ان دونوں کی شراب
نوشی اور نتائج سے بے خبری پرانی قدروں کی شکست کی علامت کے طور پر ظاہر ہوئی ہے۔ یہ
افسانہ قومی منافرت کے دوستی پر اثرانداز ہونے کی مثال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم قوم
سے دشمنی کی خبریں سن کر رام سنگھ شرمندہ ہو کر خودکشی کر لیتا ہے۔ اس وقت
’معجز‘کو بھی مسلمانوں کی اپنی کوتاہیوں کا احساس ہوتا ہے۔ قیصر تمکین انتہا پسندی
کے خلاف ہیں اور یہاں انتہا پسندی کے نتیجے میںخراب ہوتے دوستانہ تعلقات کے ذریعے یہ
دکھانے کی کوشش کی ہے کہ حساس ذہن اور دردمند دل کبھی بھی انتہا پسندی کو قبول نہیں
کر سکتے۔رام سنگھ کی خودکشی قوم کے انتہا پسندرویے پر حد سے زیادہ شرمندگی اور
صدمے کی مثال ہے۔
افسانہ ’باز پرس‘اپنی مٹی سے وابستگی اور ایثار کو
سامنے لاتا ہے۔ یہ ان لوگوں پر گہرا طنز ہے جو ہجرت یا فرار کو راہ نجات سمجھتے ہیں۔
یہاں افسانہ نگار اپنی زمین سے وابستہ رہتے ہوئے شہید کر دیے جانے کو ہجرت پر ترجیح
دیتا ہے۔ اس کے اندر ایک احساس فتح مندی ہے۔ اور اسی احساس کے ساتھ عالم ارواح سے
وہ خط کے ذریعے ان لوگوں سے باز پرس کرتا ہے جو ہجرت کر گئے تھے یا ہجرت کے لیے بیتاب
تھے اور مارے گئے۔اس سلسلے میں وہ ادیبوں اور شاعروں پر بھی اظہار خیال کرتا ہے۔ ایک
خط ملاحظہ کیجیے:
’’رضوی
صاحب!
’’اصل
میں ادیب و فن کار اگر محض سماجی رتبوں کا پروردہ نہیں ہے تو ایک ایسا مسلک اپناتا
ہے جس میں ’مجنوں باشی‘ کی قدیم شرط اول ہی شرط آخر بھی ہوتی ہے۔ اسی بنا پر میرا خیال ہے کہ کوئی بھی شاعر اور
ادیب جو اپنے ملک، اپنے زمین و آسمان اور اپنے شہریوں اور ہمسایوں سے بھاگ کر
دوسرے ملکوں میں پناہ گزیں ہوتا ہے تو وہ سب کچھ تو ہو سکتا ہے مگر ایک مخلص ادیب
و دانشورنہیں قرار دیا جا سکتاہے۔ ڈاکو ہو سکتا ہے،سوویت یونین کا سولزے نتسن ہو
سکتا ہے، البانیہ کا اسماعیل قادری ہو سکتا ہے، اردو کا۔۔۔خیر چھوڑیے بھی۔ کہنا یہ
تھا کہ بھاگنے والا سقراط،مسیح اور منصور نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ اس راہ فرار کے
معنی ہی فقدان اخلاص کے ہیں۔ ‘‘ (ایضاً، ص ص141)
یہاں افسانہ نگار نے ایسے ادیبوں اور شاعروں کو نشانہ
بنایا ہے جو ملک سے ہجرت کر جانے کو ہی مسئلے کا حل سمجھتے ہیں۔حالاں کہ قیصر تمکین
خود بھی ایک مہاجر تھے،لیکن اس کے باوجود ان کا یہ خیال اہمیت ضرور رکھتا ہے۔ ان
کے مطابق ادیب کا اصل کام ہجرت کرنا نہیں بلکہ مسائل سے نبرد آزما ہونا اور ان پر
بے باکی سے اظہار خیال کرنا ہے۔ مکتوباتی انداز میں لکھا گیا یہ افسانہ یک طرفہ
ہونے کے باوجود کافی دلچسپ اور Attacking نوعیت کا ہے۔
افسانہ’سر مقتل‘ ضبط تولید کو زیر بحث لا کر آنے والی
نسلوں کے تئیں ایک تشویش کو اجاگر کرتا ہے۔ راوی کا یہ خوف کہ اب ایسی نئی نسل پیدا
ہی نہیں ہو سکتی جس کے لیے کوئی پیغام چھوڑا جائے، نسل نو کی اقدار دشمنی، اور رنگینیوں
کی طرف ان کے میلان کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے کچھ جملے ملاحظہ فرمائیں:
’’وہ
دن گئے جب دن دن بھر کتب خانوں میں صرف یہ معلوم کرنے کے لیے بیٹھے رہتے تھے کہ
اگلے وقتوں کے جانباز کس دھج سے سر مقتل گئے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ وہ نئی پیڑھی جس کا’میں‘ منتظر ہوں اور
’وہ‘ متوالا تھا،اب ہماری تہذیب کے بطن سے پیدا ہی نہیں ہو سکتی۔‘‘ (ایضاً، ص 171)
بغیر کوئی آخری پیغام دیے پھانسی کے پھندے پر جھول
جانے والا یہ شخص اصول پسند اور اپنی روایت کا امین ہے، جس کے بعد اس کا کوئی وارث
نہیں۔ وراثت کے تحفظ کا فقدان جو کہ ہمارے عہد کا بڑا المیہ ہے اس افسانے کا مرکزی
خیال بن کر ابھرا ہے۔
’نوجیون‘ایک
ایسا افسانہ ہے جو فسادات کے انسانی ذہن و دماغ پر پڑنے والے مہلک اثرات کی نشان
دہی کرتا ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار ’عنایت‘ ہے۔جو شر پسندوں کے ہاتھوں قتل کیے
جانے کی کئی واردات دیکھ چکا تھا۔وہ بالآخر اپنے آپ کو ایک مردہ تسلیم کرلیتا
ہے۔ اسی غیر انسانی رویے کے سبب وہ مذہب سے بھی بیزار ہو جاتا ہے۔ اس افسانے میں
بھی قیصر تمکین نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ انتہا پسندی کس طرح امن پسند ذہنیت
پر اثر انداز ہوتی ہے۔اور فسادات سے اس شخص پر کیسے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہاں
جو حالت ’عنایت‘کی ہے، بیشتر امن پسند اشخاص اسی صورت حال میں گرفتار نظر آتے ہیں،
اور یہی ہمارے سماج کیIrony ہے۔
’ژینیت‘
اس انتخاب میں شامل سب سے طویل کہانی ہے۔ اسے طویل انداز نگارش کی ایک مثال بھی
قرار دیا جا سکتا ہے۔ ’ژینیت‘ متعصب اور قدامت پرست مسلم گھرانوں سے اٹھنے والی
بغاوت اور احتجاج کی ان آوازوں کی کہانی ہے جو اپنے گھروں کے فرسودہ نظام کے خلاف
بلند ہوتی ہیں۔ کہانی کے مرکزی کردار ’ژینت‘ اور ’عدو‘ بھائی کی زندگیوں کے اتار
چڑھاؤ دوسروں کے لیے ایک تحریک اور ترغیب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک معمولی غریب لڑکی
ہونے کے باوجود ژینیت جس طرح بیرون ملک جاکر کامیاب آرٹسٹ بنتی ہے اور خوب پیسے
کماتی ہے، یہ اس کی بے باکی کی مثال ہے۔ ژینیت کا کردار شروع ہی سے اپنی بہادری کا
جلوہ دکھاتا نظر آتا ہے، جس کی پہلی نمائش احمد کے اسکول میں کچھ غنڈوں کی پٹائی
کے وقت سامنے آتی ہے۔ ژینیت نے یہ ثابت کردیا کہ دنیا میں اصل تقسیم صرف امیری
اور غریبی کے مابین ہے۔ اس تقسیم سے نہ کوئی رشتے دار محفوظ ہے اور نہ ہی مساوات
کا درس دینے والاکوئی فرد۔ ژینیت کا کردار لڑکیوں کی زندگی کے کئی پہلوؤں کو روشن
کرتا ہے۔ اسی طرح ’عدو ‘بھائی کا کردار متمول مسلم گھرانوں کے ان لڑکوں کی مثال ہے
جو کچھ دنوںتک روایتی نہج پر چلنے کے بعد اپنے شعور کو کام میں لاتے ہیں اور اس
نہج سے انحراف کی جسارت کر بیٹھتے ہیں۔ اس قسم کے کردار ماحولیاتی تبدیلی کو قبول
کرنے کے لیے اپنے ذہن و دماغ کو تیار رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ژینیت بھی جب عدو
سے ایک مدت کے بعد ملتی ہے تو اس کی فکر سے متاثر ہو کر اس سے قریب ہو جاتی ہے۔
عدو کی ماں اور دوسرے لوگوں کی ہزار کوششوں کے باوجود افسانے کے اخیر میں عدو اور
ژینیت کی ایک دوسرے سے جذباتی ہم آہنگی محض اتفاق نہیں، بلکہ ناسازگار ماحول میں
دو مثبت روحوں کے ملاپ کی علامت ہے۔
زبان و اسلوب کی سطح پر یہ اعتراف ضروری ہے کہ قیصر تمکین
کے افسانوں کی زبان بہت سلیس اور رواں ہے۔ وہ صحافی بھی ہیں اور انگلستان میں رہنے
کی وجہ سے وہاں کی زبان اور کلچر سے بخوبی واقف بھی۔ لیکن ان کی زبان نہ تو انگریزی
زدہ ہے اور نہ ہی ان کا بیانیہ صحافت کی شکل اختیار کرتا ہے۔ انھوں نے اسلوب کی
سطح پر کئی تجربے کیے ہیں لیکن کسی بھی عنصر کو اپنے آپ پر حاوی نہیں ہونے دیا
ہے۔ وہ ایک کہانی کار ہیں اور کہانی کار کی حیثیت سے علامت، دیومالا، ابہام اور
داستان سے بھی استفادہ کرتے نظر آتے ہیں۔
Faizanul Haque
F-11/18, Third Floor
Jogabai Extn, Near Nooh Masjid, Jamia Nagar
New Delhi - 110025
Mob.: 8800297878