14/7/22

اردو کے فروغ میں متھلانچل کے غیرمسلم ادبا و شعرا کا حصہ - امام اعظم

 



سرزمین متھلا علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ اسی لیے یہاں میتھلی اور ہندی کے ساتھ اردو زبان کا بول بالا دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ متھلا کا علاقہ سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی رویوں سے آشنا رہا ہے۔اردو کسی ایک قوم کی زبان نہیں ہے اسی لیے اس میں ایک نسل اور ایک طبقے کا کارنامہ نہیں ملتا بلکہ متحدہ کاوشوں کا ثمرہ دیکھنے کو ملتا ہے جو نسلاً بعد نسلاً بڑھتا رہا ہے۔ اگر بیشتر اصنافِ سخن کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا جائے تو اجتماعی شعور کی سانسیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اجتماعی پرتو کا ماحول تابناک نظر آتا ہے جس سے دل آویز رجحان کا پتہ چلتا ہے۔اس شہر کو شمالی بہار میں مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ دربھنگہ کا ماضی اور حال تاریخی اور جغرافیائی انفرادیت کے سبب درخشاں رہا ہے۔ جس طرح یہاں کئی مذاہب کے ماننے والے ہم آہنگی اور بھائی چارے کے جذبے کے ساتھ زندگی گزارتے آئے ہیں، اسی طرح یہاں ہندی، اردو اور میتھلی کے بولنے والے بھی اپنی اپنی زبانوں کے ساتھ فخریہ طور پر زندگی کے ہر میدان میں پیش قدمی کر رہے ہیں۔

غیر مسلم اردو داں نے اردو کے فروغ کے لیے بیش بہا خدمات انجام دی ہیں۔ حالاں کہ ان کی خوشہ چینی تخلیقی حیثیت سے کم رہی ہے لیکن دائرۂ عمل اور مواد کی نشان دہی سے نظریاتی ترجیحات سامنے آتی ہیں، جن میں تخلیقی جست تو ہے ہی فعال عناصر بھی ملتے ہیں جس سے صورت حال واضح ہوتی ہے اور معنیٰ و مطالب کا باہمی ربط ملتا ہے۔ ایسی عکاسی سے بولتی ہوئی متحرک پرکیف تصویریں سامنے آتی ہیں جو فن کار کی شخصیت اور ان کی تخلیق سے سروکار رکھتی ہیں۔ اردو کے فروغ میں متھلانچل کے غیر مسلم ادبا و شعرا کا بھی خاصا حصہ رہا ہے۔ اگر شاعروں کو لیں تو ان کے کلام سے محاسن شعری نہایت مدلل اور منطقی انداز سے سامنے آتے ہیں۔  انھوں نے جو کچھ محسوس کیا اور اساتذہ سے جو کچھ اکتساب کیا اسے Rational انداز سے اعتماد کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ایسے بیشتر غیر مسلم شاعروں کی شعری صلاحیت، تخلیقی قوت اور فنی استقامت کو ان کے فکر کے آئینے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اردو کے فروغ میں یہ زنجیر کی کڑیاں ہیں جن کا تاثر ہرعہد میں انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔ معروف محقق، ادیب اور صحافی ڈاکٹر مشتاق احمد اپنے مضمون میں لکھتے ہیں  :

’’اٹھارہویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے آغاز میں اردو نہ صرف میتھلی زبان پر اثرانداز ہوتی ہے بلکہ متھلانچل کے لسانی معاشرے کو بھی اپنی جادوئی گرفت میں لے لیتی ہے۔ متھلانچل کے غیر اردو داں ادبا اور شعرا اردو کو تخلیقی ذریعۂ اظہار بنانے لگتے ہیں۔ بالخصوص اردو میں نہ صرف شاعری کو فروغ دیتے ہیں بلکہ کئی ادبا اور شعرا صاحبِ دیوان اور صاحبِ تصانیف کھڑے نظر آتے ہیں۔ ‘‘

(مضمون ’میتھلی زبان و ادب پر اردو کے اثرات‘ مشمولہ ’فکر و تحقیق ‘  جنوری تا مارچ 2021،ص42)

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ متھلانچل کے غیر مسلم شعرا و ادبا میں منشی آسا رام ذوق محلہ بھگوان داس، دربھنگہ کے رہنے والے تھے۔ راجہ رام نرائن موزوں کے زمانے میں فوجدار کے عہدے پر فائز رہے۔ مختلف تذکروں میں انھیں عظیم آباد، کلکتہ، الٰہ آباد اور غازی پور کا باشندہ بتایا گیا ہے لیکن ’نوادراتِ سروش‘ کے حوالے سے محمد الیاس رحمانی مرحوم نے ثابت کیا ہے کہ منشی آسارام ذوق دربھنگہ کے ساکن تھے۔ ان کا حسن بیان، حسن زبان اور حسن خیال دیکھیے       ؎

ذوق کے مرنے کا افسوس نہیں کچھ اس کو

غم کہاں شمع کے دل میں کسی پروانے کا

دل تو کہے ہے آنکھوں نے مجھ کو کیا خراب

آنکھیں کہے ہیں دل ہی نے ہم کو ڈوبا دیا

مت نکل اشک مرے دیدۂ تر سے باہر

طفل آوارہ، قدم رکھے ہے گھر سے باہر

باتوں سے تسلی نہیں ہونے کی ہماری

مرجائیں گے پر منت پیغام نہ لیں گے

دیوان جیون رام تحقیق (وطن موضع سیودھا، مظفر پور) مہاراجہ مادھو سنگھ، دربھنگہ کے دربار میں دیوان کے عہدے پر فائز تھے۔ انھیں دربھنگہ کے پرگنہ بھروارہ میں موضع ہری ہر پور مہاراجہ مادھو سنگھ نے عطا کیا تھا۔ یہ عربی و فارسی کے زبان داں تھے۔فارسی اور اردو میں شاعری کرتے تھے اور مرزا فدوی کے شاگرد تھے۔ اپنے دور کے معروف شاعروں میں شمار کیے جاتے تھے لیکن ان کا اردو کلام دستیاب نہیں ہے۔ محمد الیاس رحمانی کو غلام سرور سروش کی قلمی بیاض سے علم ہوا کہ وہ اردو میں بھی طبع آزمائی کرتے تھے۔ تذکرہ نگاروں نے ان کے اردو مجموعے کا نام ’بحرِ طویل ‘ بتایا ہے۔ 1805 میں ان کا انتقال جگن ناتھ پوری میں ہوا۔ اردو کا ایک شعر یوں ہے       ؎

مئے مصفا جام سے، مئے سے مصفا جام ہے

فرقِ بینائی کرتے کیوں کر ایاغِ دوستی

منشی شمبھو دت رفعتی موضع موسیٰ پور، پرگنہ سریسا، ضلع مظفر پور کے رہنے والے تھے۔ مہاراج دربھنگہ چھتر سنگھ کے دربار سے وابستہ تھے۔ فارسی و اردو میں شاعری کرتے تھے۔ مولوی فصیح الدین بلخی نے اپنی کتاب ’تذکرہ ہندو شعرائے بہار‘ میں ذکر کیا ہے۔

امبیکا پرشاد شمس (ولادت 11نومبر 1838) دربھنگہ کے مشہور وکیل بابو رام کندل پرساد کے فرزند تھے۔ دربھنگہ میں وکالت کرتے تھے۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ کلام صاف، رواں دواں اور اثر انگیز ہوتا تھا۔27فروری 1889 میں انتقال ہوا۔

منشی اجودھیا پرساد بہار کا آبائی وطن منیر شریف، ضلع پٹنہ تھا۔ والد گوپال لال مظفر پور میں داروغہ ہوئے تو یہیں سکونت اختیار کرلی۔ منشی اجودھیا پرساد بہار، بابو متھرا پرساد، منشی مہادیو پرساد منظر اور بابو لچھمی پرساد چاروں بھائی عربی، فارسی،ا ردو، ہندی اور مہاجنی زبانوں پر دسترس رکھتے تھے۔ خوش نویسی میں مہارت اور آئین دانی میں بڑے ہوشیار اور کارگذار مشہور ہوئے۔ منشی اجودھیا پرساد 1861 سے 1864 تک مہاراجہ دربھنگہ کے دربار سے وابستہ رہے۔ اس کے بعد آخری دم تک اخبار ’اخبار الاخبار‘ مظفر پور کے ایڈیٹر رہے۔ 1868 میں ’گلزارِ بہار‘المعروف بہ ’ریاضِ ترہت‘ تصنیف کی۔ اردو، فارسی دونوں زبانوں میں خوب شاعری کرتے تھے۔ فارسی کلام کا نمونہ ’ریاضِ ترہت‘ اور اردو کلام کا نمونہ ’آئینۂ ترہت‘ میں موجود ہے۔ بہار کے چند اردو اشعار ملاحظہ فرمائیں          ؎

ہر اک رنگ میں جلوہ گر ماہِ رو ہے

اسی کا یہ جلوہ، اسی کی یہ بو ہے

عبث ملول فضا میں ہوئی ہے اے بلبل

خزاں کے بعد پھر آئے گی کیا بہار نہیں

منشی مہادیو پرساد منظر اپنے بڑے بھائی اجودھیا پرساد بہار سے مشورۂ سخن کرتے تھے۔ ان ہی کے ساتھ چند برسوں تک مہاراجہ دربھنگہ کے دربار سے وابستہ رہے۔ پھر دربھنگہ میں ہی وکالت کرنے لگے اور خاصی شہرت پائی۔ اردو، فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے اور صاحبِ دیوان تھے۔

لالہ سدا نند مصر ٹولہ، دربھنگہ کے باشندہ تھے۔ دربار مہاراجہ سے جڑے تھے۔ اردو فارسی میں شعر کہا کرتے۔ نند تخلص کرتے اور استاد شاعر مرشد حسن کامل سے شرفِ تلمذ رکھتے تھے۔

منشی بھوانی پرساد حسرت دربھنگہ کے ممتاز کائستھ گھرانے سے تھے۔ اردو،فارسی دونوں زبانوں میں برجستہ شعر کہتے تھے۔ دبستانِ کامل کے خوشہ چیں تھے۔ 1891 میں ان کا انتقال ہوا۔ ’ریاضِ ترہت‘ میں ان کا ایک شعر اور قطعہ ملتا ہے۔ باقی کلام دستیاب نہیں۔ اردو شعر دیکھیں      ؎

سحر سے دوپہر شب تک ذرا فرصت نہیں ملتی

رہا ہوں جب سے کورٹ میں حواس اپنا ہے چکر میں

منشی بہاری لال فطرت عربی و فارسی پر دسترس رکھتے تھے۔ 1856 میں انھوں نے وکالت کا امتحان پاس کیا تھا۔ 1876 میں آنریری مجسٹریٹ، 1877 میں عدالت منصفی دربھنگہ میں سرکاری وکیل مقرر ہوئے۔ 1879 میں میونسپل کمشنر منتخب ہوئے۔ 1899 میں ان کا انتقال ہوا۔ 1883 میں ’آئینہ ترہت‘ جیسی تاریخی کتاب لکھی تھی۔ شاعری کی بیشتر اصناف میں انھوں نے طبع آزمائی کی ہے۔ وہ رموزِ فن اور نکات شعری سے واقف تھے۔ ان کے یہاں حسن زبان پر زیادہ توجہ ملتی ہے         ؎

طبیعت پہ ہو ناز کیوں کر نہ فطرت

جو شعر اس غزل میں ہے وہ بے بدل ہے

کیا بھروسہ ان کی الفت کا

چار دن کی یہ آشنائی ہے

بولنا تھا نہ تجھے وصل کی شب میں ہرگز

یہ گلہ تجھ سے ہم اے مرغِ سحر کرتے ہیں

گوہر کی طرح نکلے باہر تو آبرو ہو

ہوتی نہیں ہے عزت انسان کی وطن میں

مٹالو حسرتِ دیدار چل کے اے فطرت

سنا ہے آج کل دیدارِ عام ہوتا ہے

فطرت چونکہ مہاراجہ دربھنگہ تک رسائی رکھتے تھے اسی لیے لچھمیشور سنگھ بہادر کی مدح میں انہوں نے ایک قصیدہ بھی لکھا تھا جس میں ان کا اپنا ایک خاص رنگ دیکھا جاسکتا ہے۔ اس میں ذرہ نوازی اور تازہ فکر کی جلوہ نمائی ملتی ہے۔ خلوص، محبت اور شخصیت نوازی کی رسم و راہ سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔ رفاقت کی خوش ادائی اور علاقائی ادبی یاد کا قیمتی اثاثہ بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔

قصیدہ در مدح مہاراجہ لچھمیشور سنگھ بہادر ریاست دربھنگہ

جمالِ گل ترقی پر ہے بلبل ہے مسرت میں

چمن میں فیض بہار باغ سے ہے جوش نزہت میں

ادا سے نوجوانان چمن جھک جھک کے ملتے ہیں

خوشی سے پھول پھولے ہیں، عنادل ہیں مسرت میں

نسیم اٹکھیلیوں سے چل رہی ہے باغِ عالم میں

دہانِ غنچۂ گل ہنس رہے ہیں جوشِ فرحت میں

بہارِ باغ نازاں ہے جمالِ ہر گلِ تر پر

عروسانِ بہاری ہیں شرابور اپنی رنگت میں

مزا لیتی ہے بلبل دیدِ حسنِ گل کا ہر ساعت

چٹکتی ہے کلی ہر پھول کی نرگس ہے حیرت میں

بہارِ باغ پر کرتا ہے صدقے پھول زر اپنا

صبا جاروب دے جاتی ہے صحنِ باغ و خلوت میں

لگے ہیں شاخِ نخلِ گل میں جھولے غنچۂ تر کے

لگاتی ہے صبا پینگ اور عنادل ہیں مسرت میں

محبت کی نظر سے دیکھتی ہے گل کو ہر بلبل

رچی ہیں شادیاں گلزار میں گل چیں ہیں عشرت میں

لگاوٹ کرتی ہے بادِ صبا نسریں سے شبو سے

وہاں غنچۂ گل بھیرویں گاتا ہے دُھرپت میں

اِدھر سبزے پہ طوطی ہے لہالہوٹ اور اُدھر بلبل

تڑپتی ہے جمالِ ہر گلِ تر کی محبت میں

بہارِ باغ سے اپنا جو دل مسرور ہے فطرتــ

تو کہیے اور کچھ اشعارِ تر اب خاص مدحت میں

رعیت پروری، مسکیں نوازی ہے طبیعت میں

طبیبِ درد منداں ذاتِ والا ہے حقیقت میں

رحیم ایسے کہ جب حاضر ہوا دشمن تواضع سے

مثالِ دوست اس کو لے لیا دامانِ شفقت میں

رئیس ایسے کہ مجرم پر بھی غصہ تک نہیں آتا

اگر آتا ہے رہ جاتا ہے آغوشِ مروت میں

نہیں کا لفظ بھولے سے بھی ہونٹوں پر نہیں آتا

طلب جس نے کیا جو کچھ دیا جوشِ سخاوت میں

نظیر و مثل اپنا وہ نہیں رکھتے ہیں دنیا میں

ریاست میں مروت میں سخاوت میں شجاعت میں

بلندی کا جو ہے مضموں کہیں پایا نہیں جاتا

مگر افلاک میں اور آپ کے بامِ عمارت میں

ہزاروں آدمی کی پرورش ہے ذاتِ بالا سے

بسر کرتے ہیں لاکھوں آپ کے ظلِ حمایت میں

نظیر اپنا نہیں رکھتے ہیں مشرق میں نہ مغرب میں

مثالِ ماہِ یکتا آپ ہیں بُرجِ شرافت میں

یہ عالم آپ کے نورِ ریاست سے منور ہے

کہ مثلِ مہرِ روشن آپ ہیں چرخِ ریاست میں

اذیت ایک چیونٹی کی روا رکھتے نہیں ہر گز

ہمیشہ فکر کرتے رہتے ہیں انساں کی راحت میں

الٰہی تا رہے گرمیٔ بازارِ سخن قائم

رہے شعروں کا سودا شاعروں کی طبیعت میں

محبت ہے گلِ رعنا کی جب تک دل میں بلبل کے

اثر ہے سرو کی الفت کا تا قمری کی طینت میں

الٰہی روز افزوں ہووے قدر و رتبۂ دولت

ترقی ہو ہمیشہ عمر میں دولت میں حشمت میں

اب اپنا یہ قصیدہ آج فطرت ختم کرتا ہے

زہے قسمت اگر مقبول ہو بزم کرامت میں

مذکورہ بالا قصیدہ فنِ قصیدہ کے لوازمات پر کھرا اترتا ہے کیوں کہ فطرت نے اس میں قصیدے کے تمام اجزائے ترکیبی یعنی تشبیب، گریز، مدح، مدعا / حسنِ طلب اور دعا کا بھرپور خیال رکھا ہے جو کاملینِ فن نے مقرر کیے ہیں۔قصیدے کے اشعار میں روانی اور غنائیت بھی بھرپور موجود ہے۔ تشبیب کے اشعار میں جہاں غزلوں کا پس منظر ملتا ہے وہیں مدح میں مداح و ممدوح کا تعلق بھی کھل کر سامنے آتا ہے۔

منشی کیول پرساد فقیر مظفر پور کے رہنے والے تھے۔ اردو، فارسی، عربی اور سنسکرت زبانوں میں مہارت رکھتے تھے۔ خوش نویسی میں ممتاز تھے۔ ان کا فارسی دیوان خانقاہ فردوسیہ بلخیہ، فتوحہ کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔ اردو میں بھی خوب شعر کہتے تھے۔

بابو اودھ بہاری سنگھ بیدل موضع بترا،ضلع سیتا مڑھی کے رہنے والے تھے۔ لنگٹ سنگھ کالج، مظفر پور میں عربی و فارسی کے استاد تھے۔ شجر لکھنوی سے شرفِ تلمذ رکھتے تھے۔ اردو، فارسی دونوںزبانوں میں شعر کہتے تھے۔ 1930میں انتقال ہوا۔

منشی بدری ناتھ شبنم دربھنگوی بھی فارسی اور اردو میں دسترس رکھتے تھے۔ وہ علم رمل سے بھی واقف تھے۔ وہ مرشد حسن کامل دھرم پوری کے شاگرد تھے۔ ان کا انتقال 1910 میں ہوا تھا۔ وہ حقیقت آشنا شاعر تھے۔ مواد، موضوع، لفظیات اور طرز فکر و احساس کے اعتبار سے دل پر گزرنے والی اور روح میں اترنے والی کیفیت کو بیان کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔ اظہار غم کی جلوہ آرائی اور اظہار ذات کی شکستہ پائی ان کے کلام میں دیکھی جاسکتی ہے       ؎

گھیرے ہے ہمیں درد و غم و رنج و مصیبت

مجمع یہی رہتا ہے ہمیشہ مرے گھر پر

ہوجائے وصال اپنا کہ ہوجائیں سبکدوش

بارِ غمِ فرقت تو اٹھایا نہیں جاتا

چلے تھے خانۂ کعبہ کو جا پہنچے کلیسا میں

کدھر نشہ میں الفت کے چلے تھے ہم کدھر ٹھہرے

لیکن غم آلود احساس کے ساتھ ان کے کلام میں دیگر نقش گری بھی ملتی ہے:

برابر ہوں کب پا یہ انسان کے

کہ انگلی ہے چھوٹی بڑی ہاتھ میں

قصور ہے شبنم جو مضمون کا

قلم رہتا ہے ہر گھڑی ہاتھ میں

بابو اودھ بہاری سنگھ بیدل (ولادت : 1868)، موضع بترا،ضلع سیتا مڑھی کے رہنے والے تھے۔ معزز بھومی ہار برہمن خاندان میں پیدا ہوئے۔ لنگٹ سنگھ کالج، مظفر پور میں عربی و فارسی کے استاد تھے۔ شجر لکھنوی سے شرفِ تلمذ رکھتے تھے۔ اردو، فارسی دونوںزبانوں میں شعر کہتے تھے۔ انھیں تصوف میں بھی خاصی دلچسپی تھی۔ 1930 میں انتقال ہوا۔ مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی سے عربی، فارسی، اردو اور طب کی تعلیم حاصل کی۔

منشی مہاراج سنگھ مطلب دربھنگوی منشی درباری لال کے بیٹے تھے۔ اپنے دور کے معروف شاعر منشی بدری ناتھ شبنم دربھنگوی کے شاگردوں میں شامل تھے اور اردو و فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ غزلوں کے علاوہ ان کی کہہ مکرنیاں بھی دستیاب ہوئی ہیں۔ غزل کے دو اشعار ملاحظہ کریں          ؎

ہمیشہ ٹیڑھے وہ رہتے ہیں ہم سے

گھمنڈ ان کو ہے اپنے بانکپن کا

دہن میٹھا ہوا اپنا بھی مطلب

کیا جب وصف اس شیریں دہن کا

متھلانچل کے دیگر غیر مسلم ادبا و شعرا میں منشی راجندر سہائے عشرت دربھنگوی، بابو پنجاب رائے طاہر دربھنگوی، اٹل بہاری لال اسیر دربھنگوی، جنگ بہادر جنگ، پرتھی چند لال صبا، گلاب چند گلاب، پدما نند افسر، بھگوتی پرشاد ہمراز، بابو مہیشور پرشاد جوش، بھولا ناتھ مائل مدھے پوروی، مہابیر ببر، رام پرشاد کھوسلہ ناشاد، پنڈت بندریشوری بسمل سیوانی وغیرہ شامل ہیں، جنہوں نے اردو میں لکھا اور محسوساتی و جذباتی عناصر کو بنیاد بناکر اردو کے فروغ میں حصہ لیا ہے۔

مضمون کا اختتام اپنے اس قطعہ سے کرتا ہوں         ؎

ہے عالموں کی، صوفیوں، سنتوں کی سرزمیں

علم و ادب کا نام بھی روشن ہوا یہیں

اب بھی زبانِ اردو کے خدام ہیں یہاں

اس واسطے زمین ہے متھلا کی دلنشیں

یوں تو زبانِ میتھلی چلتی گلی گلی

لیکن زبان زد رہی اردو کی شاعری

تہذیبیں ہوگئیں یہاں مدغم کچھ اس طرح

پائی ہے میتھلی نے بھی اردو سے روشنی

 

Dr. Imam Azam

Regional Director (MANUU) Kolkata Regional Centre

1-A/1, Chatu Babu Lane (Mosin Hall), Third Floor

Kolkata - 14 (West Bengal)

Mob.: 8902496545

Email.: imamazam96@gmail.com

 

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں