12/7/22

متحدہ عرب امارات میں عربی فکشن کا ارتقا - مضمون نگار : صہیب عالم

 



متحدہ عرب امارات سات ریاستوں ابوظہبی، دبئی، شارقہ، ام القیوین، رأس الخیمہ، عجمان اور فجیرہ کا وفاق ہے،جس کا دار الحکومت ابوظہبی ہے۔ یہ جزیرہ عرب کے مشرقی ساحلی پٹی پر واقع ہے۔ امارات مدتوں یورپی جارحیت پسندوں اوربرطانوی استعمار کے ز یر نگیں تھا۔  البتہ بیسویں صدی کے اواخر میں اسے خودمختاری مل گئی۔خلیج سے برطانوی دستبرداری کے اعلان کے ساتھ ہی ابوظہبی، دبئی، شارقہ، عجمان، ام القیوین اور فجیرہ کے حکمرانوں کے مابین ایک معاہدے کے تحت 2 دسمبر 1971 کو متحدہ عرب امارات کے نام سے مشہور اتحادکا قیام عمل میں آیا۔ دستوری اعتبار سے یہ ایک وفاقی ریاست ہے، جس میں آئین امارات کے تمام شہریوں کو یکساں مواقع اور مساوی حقوق فراہم کرتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ مصر، شام، لبنان، فلسطین اور دیگر عرب ممالک کے مقابلے میں خلیج میں فکشن کے ساتھ ساتھ دوسری اصناف جیسے ڈرامہ، تھیٹر اور علمی مقالات کا سلسلہ قدرے تاخیر سے شروع ہوا۔ آزادی اور عرب قومی بیداری نے امارات کے نوجوانوں کو متاثر کیا اورانھیں اپنی ثقافت کو محفوظ کرنے پر مہمیز کیا۔لائبریریاں قائم ہوئیں۔ فکشن، ڈرامہ، تھیٹر اور لوک گیتوں کو رواج ملا۔ متحدہ عرب امارات میں افسانہ لکھنے کا سلسلہ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی سے شروع ہوا۔ اس کے اسباب کئی ہیں۔ سب سے اہم سبب خلیجی ممالک کے نوجوانوں کا مغربی ممالک میں تعلیم حاصل کرنا اور وہاں کی ثقافتی سرگرمیوں اور تحریکوں سے متاثر ہونا ہے، شاید یہی سبب تھا کہ وہاں سے آنے کے بعد ان نوجوانوں نے ادب اور تخلیق ادب کے ان تناظر کو برتنے کی کوشش کی،جس کا نتیجہ سامنے ہے۔

متحدہ عرب امارات کے ادیبوں کا اس بات پر تقریباً اتفاق ہے کہ سب سے پہلے جوافسانہ یہاں شائع ہوا  وہ شیخہ اناخی کا افسانہ ’الرحیل‘ (سفر) ہے۔اس کی اشاعت کا زمانہ  1970 مقرر کیا جاتا ہے، پھر1971میں حاج مظفر کا افسانہ ’ذکریات آمانی‘(خواہشات کی یادیں)، 1972میں علی عبد اللہ علی کا افسانہ ’ضحیۃ الطمع‘ (خواہش کا شکار)، عبد العزیز الخلیل کا افسانہ ’یومیات موظف صغیر‘ (چھوٹے افسر کا روزنامچہ)ہے، یہ تمام ہی افسانے متحدہ عرب امارات کے سماجی اور ثقافتی مسائل کونمایاں کرتے ہیں۔  عبداللہ صقر احمد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں  نے امارات میں افسانہ لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، ان کی بے شمار مختصر کہانیاں ہیں،جوبیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں مختلف رسالوں کی زینت بنیں۔ ان میں ’بے رحم دل‘ جو ’النصرـ‘ اسپورٹس میگزین میں شائع ہوئی۔ اس میگزین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے معاشرے کے جمود وتعطل کو ختم کیا۔ ان کہانیوں میں سماجی اور اخلاقی پہلووں کو جاگر کیا،کہیں کہیں نقد بھی کیا۔عبداللہ صقر آزاد شاعری کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں بلکہ کچھ لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ اس میدان میں بھی انھیں خاصا بلند مقام حاصل ہے۔وہ انھیں سنجیدہ اور باشعور تخلیق کاروں میں شمارکرتے ہیں۔ 1974 میں ’کھوئے ہوئے وقت میں جلاوطنی ـ‘کی اشاعت کے بعد ادبی حلقوں میں وہ گفتگو کاموضوع تھے۔ متحدہ عرب امارات میں افسانے کا ایک مختصر مجموعہ بعنوان ’الخشبہ‘ کے نام سے شائع ہوا جس میں انگریزوں کے جبرا ور ان کے ظلم کو اجاگر کیا گیا تھا۔ البتہ افسانوی مجموعے کے اعتبار سے پہلی کاوش کی سعادت عبد اللہ صقر کی کتاب ’الخشبہ‘ (لکڑی)کو حاصل ہے، جو دبئی سے 1974 میں شائع ہوئی۔ پھرتخلیقی ادب کا یہ سلسلہ چل نکلا۔کہانیوں اور افسانے لکھنے کا رواج فروغ پاتا رہا۔  1982میں عبد الحمید احمد کا پہلا افسانوی مجموعہ ’السباحۃ فی عینی خلیج یتوحش‘ (وحشتناک خلیج کی آنکھوں میںتیرنا) ہے جس میں متحدہ عرب امارات کے تاریخی مرحلے کو موضوع بحث بنایا ہے۔ 1982 ہی میں محمد ماجد السویدی، رضا السجوانی اور محمد المر کے افسانے ’حب من نوع آخر‘ (محبت کی ایک اور قسم) شائع ہوا، یہ تمام ہی افسانے عرب امارات کے مختلف جرائد اور مجلات جیسے ’الاہلی‘، ’الزمالک‘، ’الشباب‘ اور ’اخبار دبئی‘ میں شائع ہوئے

متحدہ عرب امارات میں ادبی اور تخلیقی روایت کو فروغ دینے میں جن شخصیات نے اہم کردار اداکیا،ان میں سر فہرست ظبیہ خمیس، ناصر جبران، ناصر الظاھری، مظر السیف، امینہ ابوشہاب، سارہ النواف، باسمہ یونس ہیں۔ فکشن کو روایتی کہانی کے فن میں محمد المر نے متعارف کرایا، اس کے علاوہ مریم جمعہ، فرجع، سعاد العریمی اور جمعہ  الفیر وزوغیرہ کے نام بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان افسانوں کے موضوعات میں متحدہ عرب امارات کے مقامی مسائل و معاملات شامل رہے ہیں مثلاانسان کا سمندر سے تعلق، اس کی شخصیت، کھجور کی اہمیت، ماحولیات سے لگاؤ اور پٹرول کی دریافت کے بعد سماجی تبدیلیوں، مزدوروں کی پریشانی، مہاجرین کا مسئلہ، مہاجرین سے شادی، زبان کا مسئلہ اور اس کے علاوہ بعض دوسرے سماجی موضوعات ان میں زیادہ نمایاں ہیں۔

افسانے لکھنے کی یہ تحریک دن بہ دن یونہی بڑھتی گئی اور اس میں نئے نئے نام شامل ہوتے گئے، جنہوں نے افسانوی ادب کے اسالیب اور نئے مضامین کا اضافہ کیا، اور متحدہ عرب امارات میں افسانے کے نہج کو بدلنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان میں نعیمہ المری، حسن الحسنی، نجیبہ الرفاعی، حسن عبد الرحیم، عائشہ الذعابی، فہد الفلاسی، عائشہ، عبد اللہ، محمد، فاطمہ عبد اللہ، دیا مہنا، محسن سلیمان، خالد الجابری، فرید الغیاث، مریم المروی، احمد امیری، فاطمہ الکعبی، صالح کرامہ، منی سالم السویدی، اسما محمد الکتبی، اسرائ المنہالی، غادہ کیلانی، علی احمد الحمیری ہیں۔ مردوں کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات کی عورتوں نے بھی اس ادبی صنف کو جلا بخشا اور اس کی آبیاری بھی کی ہے۔

بیشتر ابتدائی افسانہ نگار متحدہ عرب امارات کے روایتی اسلوب سے متاثر ہیں۔ان میں رومانیت پسندی کا رجحان بھی واضح ہے کیونکہ ان میں آنسو، اداسی، ندامت، محبت، رفاقت،مفارقت اوروصال کا ذکر ہے اور وہ جذباتیت سے لبریز ہیں۔لیکن بعد کے افسانے نئے مسائل، نئی روح، معاشرے میں رشتوں کی پیچیدگی اور تبدیلیوں کے خدوخال کو ظاہر کرنے لگے۔بعض افسانوں میں متحدہ عرب امارات کے موجودہ حالات پرنقد ہے۔ پٹرول سے پیدا ہوئے مسائل، اس کے منفی اور مثبت اثرات اور معاشرے میں تنازعہ کی بھی تصویر کشی کرنے لگے اور انسان کے بنیادی مسائل اور ان کی مجبوریوں پر بھی زور دینے لگے۔

عرب امارات کی جدید افسانہ نگاری قدیم فنی اشکال سے نکل کر جدید تناظر میں مسائل کو پیش کرنے کی جرأت کی۔اسے قدیم اسلوبیاتی، نظریاتی، لسانی ساخت کی رکاوٹوں سے خود کو آزاد کرنے کی کوشش کہا جاسکتا ہے۔ گویا عرب امارات کے افسانوں رومانیت پسندی سے نکل کر حقیقت پسندی کی راہ اختیار کی۔ اس تناظر میں بہت سی تخلیقات سامنے آئیں۔ جیسے محمد الحربی کا افسانوی مجموعہ ’الخروج علی وشم القبیلۃ‘ (قبیلہ کے اثر سے باہر نکلنا)، عبد الحمید احمد کا افسانوی مجموعہ ’السباحۃ فی عینی خلیج  یتوحش‘، عبد الرضاالسجوانی کا مجموعہ ’ذلک الزمان‘ (وہ زمانہ) اور ’زلۃ العذری‘ (دوشیزہ کی لغزش) محمد المر کے متعدد مجموعے جن میں ’حب من نوع آخر‘، ’الفرصۃ الأخیرۃ‘ (آخری موقعہ)  اور الصداقۃ  (دوستی)، لیلی احمد کا مجموعہ ’الفرصۃ، (موقعہ) المہرجان (میلہ)، الوطن‘ (وطن)وغیرہ۔

متحدہ عرب امارات کا پہلا ناول راشد عبد اللہ النعیمی کا ’شاھندہ ‘ہے جو 1971میں شائع ہوا۔ اس ناول میں متحدہ عرب امارات کے قدیمی سماجی اور ثقافتی پہلووںپر روشنی ڈالی گئی ہے۔  علی ابو الریش کا ناول ’الاعتراف‘ (اعتراف) ہے جو 1982میں شائع ہوا۔ یہ ناول رأس الخیمہ کے ایک نوجوان کے ارد گرد گھومتا ہے جو اپنے دوست کی بہن پر عاشق ہوگیاتھا۔ جو اس سے بدلہ لینے کے لیے اس کے باپ کے قاتل کی تلاش میں رہتا ہے۔ بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ یہی نوجوان اس کے باپ کا قاتل ہے۔ جس کااعتراف اس نے بستر مرگ پر کیا۔ اسے متحدہ عرب امارات کے بہترین ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔  میسون صقر القاسمی کا ناول ’ریحانۃ‘ ہے جو 2003 میں شائع ہوا۔ یہ ناول خلیجی ممالک میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا مظہرہے۔خلیجی ممالک میں تیل کی دریافت کے بعد کی زندگی،اس کے اثرات نیز سماجی مسائل کو واضح کرتا ہے۔ناول کم عمر لڑکیوں سے بڑوں کی شادی کے رواج اور دیگر نسوانی مسائل اور استحصال کا احاطہ کرتا ہے۔ فاطمہ الحمادی کا ناول ’روایۃ بین طرقات باریس‘ (پیرس کی گلیوں میں) ہے جو 2009 میں شائع ہوا۔ اس ناول میں روز مرہ کے مسائل اور مشرق اور مغرب کے تصادم کوپیش کیاگیا ہے۔  اماراتی مصنف ثانوی السویدی کا پہلا ناول ڈیزل ایک عیسی جیسی جینی اور تفریحی شخص کے بارے میں ایک غیر حقیقی کہانی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں کتاب کی اشاعت میں دشواری کی وجہ سے یہ ناول بیروت سے شائع ہوا۔ ڈیزل کو اماراتی ناقدین کے ذریعے وسیع پیمانے پر نقد کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن 2012 میں انگریزی میں ترجمہ ہونے کے بعد اس نے ادبی دنیا میں ایک گونج پیدا کردی۔ یہ ایک دل چسپ ناول ہے جس میں راوی عربی لوک داستانوں پر گفتگو کرتا ہے اور ایک تکلیف دہ بچپن، اماراتی معاشرے کا متغیر چہرہ، تفریح کا جادو اور روایت کا مقابلہ جدیدیت کے موضوع پر ہے۔  ہدی سرور کا ناول روایۃ الیاہ ہے جو 2013میں شائع ہوا۔ یہ ناول قاری کے اندر ایک نئی سوچ اور جدت کی تخلیق کو مہمیز کرتا ہے۔ یہ متحدہ عرب امارات کی قدیم اور جدید سماجی کشمکش اور رسم ورواج  پر روشنی ڈالتا ہے۔ اور تیل کی دریافت کے بعد زندگیوں پہ جو اثر پڑا اس کو اجاگر کرتا ہے۔ علی ابو الریش کا ناول ’’امرأہ استثنائیۃ‘‘ (غیر معمولی خاتون) ہے  جو 2013میں شائع ہوا۔ یہ ناول مرد اور عورت کے درمیان عدم مساوات کے مسائل اور معاشرے میں عورتوں کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔اسی طرح مانع سعید العتیبہ کا ناول ’کریمۃ‘، باسمہ یونس کا ناول ’لعلہ انت‘ (شاید آپ)، نورہ النومان کا ناول ’اجوان‘ اور سلطان العمیمی کا ناول ’غرفۃ واحدۃ لا تکفی‘ (ایک کمرہ کافی نہیں ہے) وغیرہ ہے۔

ان ناولوں اور افسانوں میں متحدہ عرب امارات کے مقامی ماحول، اس کے تباہ ہونے کے خدشات، روز مرہ کے مسائل اور ان میں تبدیلیاں ہونے کا بیانیہ ہے۔ سماجی اور معاشرتی تبدیلیوں اور ان کے متعلق اماراتی شخص کا نظریہ اور افراد پر ان کے مختلف اثرات، آبادیاتی ڈھانچہ اور اس کے درد اور عدم توازن اور کچھ لوگوں کے لیے بیگانگی کے احساسات، غیر ملکی مزدور اور اس کے مسائل، منفی سماجی مظاہر جیسے غیر ملکی عورتوں سے شادی، غیر ملکی خادمات، نوکر، ہائیبرڈ زبان جو ملک میں وجود پذیر ہوئی  اس کا اظہار، طلاق، ازدواجی زندگی سے بیزاری، اخلاقی بحران جو وہاں کے لوگوں کو متاثر کررہا ہے اس کا اظہار، پرانی قدروں کے ٹوٹنے کا نوحہ، نئی دنیا سے پیدا ہونے والا خوف اور اضطراب بھی ملتا ہے۔ کچھ کہانیاں ایسی بھی ہیں جسے ایشیائی مزدورں اور عرب تارکین وطن کے ساتھ ہمدردی اور ان کی روحانی تکلیف، آرزو اور پرانی یادوں کی عکاسی بھی کرتی ہے۔

شاید تیل کی دریافت اور زندگی کے مختلف شعبوں میں معاشی عروج کے مسائل کو حل کرنے پر ان چیزوں نے ناقدین کو امارات میں مختصر کہانی میں اس رجحان کی موجودگی اور اس میں ایک سماجی رجحان کے طور پر مطالعہ کرنے  لیے کتابیں تالیف کرنے پر مجبور کیا۔

خواتین کی کہانیوں میں عمومی سماجی اور انسانی فکر کے علاوہ، خواتین کے تحفظات، مایوسی، پرانی سماجی مجبوریوں کے ساتھ جدوجہد اور کشمکش، رسوم، روایت، خواتین پر ظلم،کم عمری کی شادی، ان سے بڑی عمر کی لڑکیوں کی شادی، شوہر یابھائی کا تسلط وغیرہ  کی عکاسی ملتی ہے۔ خواتین کے بیانیے کا متن زیادہ تر سماجی مسائل اور خواتین سے متعلق دوسرے مسائل کو اجاگر کرتا ہے۔جدید زندگی نے اپنے مسائل کو اسی حدتک پیدا کیا جس حد تک اس نے جدیدیت اور شہری کاری کو پیدا کیا ہے۔ان کی تخلیقات پر جدیدیت کا بھی کافی اثر ملتا ہے  خاص طور سے فاطمہ المزروعی، ابتسام المعلا، مریم السعدی، راودا البلوشی، لیلی سالم، اسمائ الکتبی، فاطمہ عبداللہ اور ان جیسے دوسرے تخلیق کار وںکی کہانیوں میں بھی نظر آتا ہے۔ یہ کہانیاں خواتین کی زندگیوں اور ان کی اذیت زدہ روحوں کو دلیری سے بیان کرتی ہیں۔ ان کی کہانیوں میں نئے تجربات بھی کیے جا رہے ہیں۔اس زمانے کی کہانیاں پچھلی دہائیوں کی کہانیوں سے کافی حد تک مختلف ہیں، جن میں نئے تجربات، اکثریت کے خیالات کو اقلیت پر مسلط کرنا اور غیر ملکی زبانوں کا عربی زبان میں در آنا وغیرہ ہیں۔

 اس عمل میں مشرقی اور مغربی ثقافتی روابط،یہاں کے باشندوں کا مغربی ممالک میں تعلیم کا حصول اور ان کے اندر نئے تخلیقی شعور کی تحریک شامل ہے۔ ان فکشن نگاروں نے اپنے تجربات کو امارات کے تہذیبی بیانیے کے طورپرپیش کیا ہے اور ان افسانوں اور ناولوں میں دوسری خلیجی جنگ کے نتیجے میںفکشن میں اقدار کی کمزوری، شناخت اور کچھ ان تلخ حقیقتوں کی عکاسی ملتی ہے جس نے اماراتی معاشرے کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ اس کے تلخ تجربے سے امارات کا معاشرہ گزر رہا تھا۔ اس پس منظر میں بے شمار سوالا ت کا جمع ہونا یقینی تھا، جس نے بے شمار نوجوانوں کو متاثر کیا اور یہ نوجوان انھیں جوابات کے متلاشی تھے۔ مختصر طور سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں فکشن کی نشو ونما کئی مراحل سے گذرکر یہاں تک پہنچی۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی ومعاشرتی ڈھانچہ نہ صرف مربوط ہے بلکہ ان ناولوں میں سماجی تغیرات اور ترقیات کی نمایاں جھلک ہے۔ متحدہ عرب امارات کے افسانوی ادب کوبنیادی طور سے چارمرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

پہلا مرحلہ: بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے آخر اور ساتویں دہائی کی ابتدا میں جو افسانے سامنے آئے اور ان میں سر فہرست عبداللہ صقر کے افسانے ہیں۔

دوسرا مرحلہ 1972-75کے درمیان کا ہے۔اس مرحلے میں بعض اہم نمایاں تخلیقات سامنے آئیں جن میں مظفر الحاج،علی عبید،محمد المری،عبد العزیز الخلیل،عبد الحمید احمد کی تخلیقات ہیں۔

تیسرا مرحلہ جو 1975-79 کے مابین کا ہے۔اس مرحلے میں کافی ثقافتی تبدیلیوں کا ظہور ہوا۔ اس عہد میں بہت ہی کم تخلیقات سامنے آئیں، ان میں سب سے اہم تخلیق علی الشرہان اورثانی السویدی کی ہیں۔

چوتھا مرحلہ جو 1979سے عصر حاضر تک ہے۔ اس مرحلے میں افسانوی تخلیق نے سابقہ روایتوں کے علی الرغم نئی اسلوبیاتی روایت میں موضوع کو پیش کیا، جس میں دنیا کی نئی تبدیلیوں، معاشرتی تصادم، پٹرول سے ہونے والے سماجی بدلاؤ، عرب میں مہاجرین اور عرب کے ثقافتی ٹکراو، زبان کا مسئلہ وغیرہ شامل ہے۔ اس مرحلے میں تمام طرح کی ادبی، ثقافتی اور سماجی تبدیلیوں کا تذکرہ ملتا ہے۔

عرب دنیا کا سب سے پروقار ادبی ایوراڈ جسے بوکر انعام کے طرز پرقائم کیا گیا وہ ’’الجائزہ العالمیہ للروایۃ العربیہ‘‘ (عربی ناول کا عالمی ایوارڈ) ہے۔ جو متحدہ عرب امارات کے دارالسلطنت ابوظہبی میں قائم کیا گیا۔اس کے اہداف اور مقاصد میں عربی کے تخلیقی ادب کی پذیرائی،اعلی ادبی ذوق کا فروغ،د یگر زبانوں کے افسانوی ادب کا ترجمہ اور باہمی ثقافت کا تبادلہ شامل ہے۔ 2009میں قائم اس ایوارڈ سے اب تک کئی ممالک کے افسانہ نگار وںاور ناول نگاروں کو نوازاجاچکا ہے۔

مراجع و مصادر

1       عبدالحمید احمد، توصیفات عامۃحول القصۃ والروایۃ فی دولۃ الامارات العربیہ المتحدۃ۔

2       ضیائ الصدیقی، القصۃ الاماراتیۃ القصیرہ: الواقعیۃ السحریۃ انموذجا۔

3       عثمان حسن، الروایۃ الاماراتیہ—حضور دائم لقضایا المجتمع، الخلیج۔

4       حسن محمد، الراویۃ الاماراتیہ—قفزات نوعیۃوغزارۃ فی الانتاج، العین۔

5       طرفہ ہانی، روایہ اماراتیہ۔



 

Dr. Suhaib Alam

Asst Prof. Dept of Arabic

Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025


 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں