12/7/22

دوران تدریس بچوں کے نفسیاتی مسائل اور ان کے حل - مضمون نگار : حنا آفریں

 



علم نفسیات یعنی Psychology کی اصطلاح یونانی زبان سے ماخوذ ہے۔ یہ دو الفاظ Psyche  یعنی روح اور Logos یعنی علم سے مرکب ہے۔اس طرح سائیکولوجی کے معنی ہوئے روح کا مطالعہ۔ جدید دور کے ماہرینِ نفسیات نے اسے’ مطالعۂ انسانی کردار ‘ کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ نفسیات ایک ایسی سائنس ہے جو انسانی کردار کے تمام پہلوؤں کا مطالعہ کرتی ہے۔ اس کے دائرے میں انسانی کردار کی ظاہری اور باطنی، شعوری اور غیر شعوری تمام حالتیں شامل ہو تی ہیں۔ غرض نفسیات کے دائرے میں وہ تمام مسائل آ جاتے ہیں جن کا تعلق انسانی شخصیت، کردار اور انسانی زندگی سے ہے۔نفسیات کی اہم ذیلی شاخیں درج ذیل ہیں:

*         نفسیاتِ اطفال Child Psychology 

*       سماجی نفسیات  Social Psychology

*       نفسیاتِ اختلال   Abnormal Psychology

*       طبی نفسیات Clinical Psychology

*       صنعتی نفسیات Industrial Psychology

*       تعلیمی نفسیات Educational Psychology

(تعلیمی نفسیات کے نئے زاویے۔ مسرت زمانی، ابنِ فرید، ص 24تا25)

جن میں تعلیمی نفسیات ایک اہم شاخ ہے۔ درس و تدریس میں ایک معلم اس شاخ کے مطالعے کے ذریعے اپنی تدریس کو موثر اور دلچسپ بناتا ہے۔

تعلم کے حصول کے لیے سیکھنے اور سکھانے والے دونوں ایک ہی سکہ کے دو رُخ ہیں۔ایک اچھا استاد کمرۂ جماعت میں اپنے بچوں کو تبھی علم سکھا سکتا ہے جب وہ ان کی نفسیات سے بخوبی واقف ہو۔مثلاً کوئی طالب علم درجے میں شرارت کرتا ہو یا خاموش رہتا ہو یا سوال جواب میں حصہ نہ لیتا ہو تو ایسے طالب علم کی نفسیات کا مطالعہ کرکے استاد اس کو سکھانے کا عمل کرتا ہے۔کوئی بھی دو طالب علم ایک جیسے نہیں ہوتے بلکہ مختلف صفات کے مالک ہوتے ہیں۔کچھ طالب علم دوسرے طالب علموں کے بجائے زیادہ ذہین ہوتے ہیں جس کے سبب انھیں خصوصی تربیت اور تحریک کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب کہ کچھ بچے کند ذہن ہوتے ہیں انھیں عام بچوں کی سطح تک پہنچنے کے لیے خصوصی توجہ اور تربیت در پیش رہتی ہے۔

ذہانت کی طرح طلبہ کی شخصیت میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔کچھ بچے سیماب صفت ہوتے ہیں جو ایک جگہ آرام سے نہیں بیٹھ سکتے اور نہ ہی ایک کام پر زیادہ وقت اور توجہ دے سکتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ بچے خاموش طبع یا شرمیلی طبیعت کے ہوتے ہیںجو درجے میں ہونے والی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیتے۔ایسے بچوں کو دلچسپ اور تحریک پیدا کرنے والی سرگرمیوںمیں رکھا جائے تو وہ اپنے خول سے نکل کر دوسرے طلبہ کے ساتھ گھل مل سکتے ہیں۔ جب کہ سیماب صفت بچوں کو مختلف سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے تو وہ درجے میں شرارت نہ کرکے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔

اسکولی سطح پر تدریس میں نفسیات کے علم کی اس لیے زیادہ اہمیت ہے کہ معلم کو نا پختہ ذہن کے بچوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ تعلیمی عمل کے دوران معلم کو جو بھی امور اور مسائل پیش آتے ہیں ان کے حل میں نفسیات کا علم مددگار ثابت ہوتا ہے۔تعلم کا عمل اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک استاد کو بچوں کی نشو ونما کے متعلق معلومات حاصل نہ ہوں۔ معلم کو بچوں کی بالیدگی، نشو و نما اور اس کے مختلف درجوں میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں اور بچے کی خصوصیات کا علم بے حد ضروری ہے۔کیوں کہ بچے میں تبدیلیاں ایک دم رونما نہیں ہوتیں بلکہ جسمانی، ذہنی،جذباتی اور معاشرتی تبدیلیاں عمر کے مختلف حصوں میں متنوع رفتار سے آہستہ آہستہ ہوتی ہیں اور یہ سلسلہ مخصوص عرصے تک جاری رہتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات نے اس حقیقت کے پیشِ نظر انسانی بالیدگی اور نشو ونما کے مختلف مدارج مقرر کیے ہیں:

1       استقرار حمل اور قبل از پیدائش کا دور

2       عہدِ طفلی یا ابتدائی بچپن کا دور ( پیدائش تا 5,6سال )

3       بچپن کا دور (6,7تا 12,13 سال)

4       بلوغت یا عنفوانِ شباب کا دور (13 تا24،25سال)

5       جوانی کا دور (25 تا 45 سال )

6         بڑھاپے کا دور (45 تا موت )

(تعلیمی نفسیات اور نصاب:ملک محمد موسیٰ، شازیہ رشید، ص 53 تا 54)

غرض تعلیم کے لیے بچہ کس حالت میں تیار ہوتا ہے؟ اس میں مدد دینے والے عوامل سے کیسے کام لیا جا سکتا ہے؟ ان سب سوالات کے جوابات معلم تعلیمی نفسیات کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ اس لیے معلم کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام اصولوں کا فہم و ادراک رکھتا ہو۔ 

ذہانت کا تعلم سے گہرا رشتہ ہے۔ تجربات اور مشاہدات سے معلوم ہوتا ہے کہ ذہین طلبہ صحت مند معیاری سوچ رکھتے ہیں۔ استاد کی بات فوراً سمجھتے ہیں اور اپنے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ذہانت کے لحاظ سے بچوں کو تین بڑے درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

(1) ذہین بچے  (2) متوسط ذہن کے بچے (3) کند ذہن بچے

بچوں کے انفرادی اختلافات کے سبب ان کے رجحانات مختلف ہوتے ہیں۔ ہر بچہ اپنا ایک الگ مزاج اور شخصیت رکھتا ہے۔ ہر ایک کے میلانات منفرد ہوتے ہیں۔ انفرادی اختلافات کی مندرجہ ذیل وجوہات اور عوامل قابلِ غور ہیں:

.1      توارُث کے تعلق سے انفرادی اختلافات

.2      بالیدگی کے حوالے سے انفرادی اختلافات

.3      ماحول کے تعلق سے انفرادی اختلافات

.4      طبعی عمر کے لحاظ سے انفرادی اختلافات

.5      قدرتی صلاحیتوں کے حوالے سے انفرادی اختلافات

.6      ذہن کے تعلق سے انٖفرادی اختلافات

.7      جسمانی مہارتوں کے حوالے سے انفرادی اختلافات

.8      جنس کے لحاظ سے انفرادی اختلافات

.9      نسل کے لحاظ سے انفردای اختلافات

.10    طبقاتی لحاظ سے ا نفرادی اختلافات

(ایضاً، ص 175)

انفرادی اختلافات کے اسباب میں توارُث اور ماحول کا اہم رول ہوتا ہے۔توارث سے مراد ایسے عوامل ہیں جو بچے میں جبلی اور خلقی طور پر اس کی پیدائش کے وقت موجود ہوتے ہیں۔ جب کہ ماحول سے مراد وہ خارجی اسباب ہیں جن سے انسان کسی نہ کسی طور سے اثر انداز ہوتا ہے۔کمرۂ جماعت میں بچے رنگ و خو، شکل و صورت، قد و قامت اور خدو خال میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔موروثی صفات کی بنیاد پر بچے اپنے ماحول سے کچھ اثرات قبول کرتے ہیں جو ان کی شخصیت کا ضروری حصہ بن جاتے ہیں۔بچوں میں بعض بیماریاں موروثی ہوتی ہیں جو ان کی تعلیم و تربیت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ بعض نقائص مثلاً بصارت یا سماعت کی کمی بھی بچوں کے نفسیاتی اعمال پر برا اثر ڈالتے ہیں۔

بچوں میں بالیدگی کے حوالے سے بھی انفرادی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ بالیدگی کا عمل مختلف افراد میں مختلف رفتار سے ہوتا ہے۔بعض بچوں میں بالیدگی کا عمل تیز ہوتا ہے تو بعض بچوں میں سست۔ یہی وجہ ہے کہ اسکول میں ان کے رویے اور تدریس کے عمل میں اختلاف نظر آئے گا۔ جس سے استاد کو تدریس کے دوران دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بیشتر بچے اپنے والدین اور آبا و اجداد سے صفات حاصل کرتے ہیںمگر ان کی نشو ونما میں ماحول کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ کیونکہ بچے اپنے آس پاس کے ماحول سے کافی کچھ سیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مناسب ماحول میں ہی بچوں کی فطری صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔بچوں کی تعلیم و تربیت کا دارومدار ان کے معاشرتی ماحول کے علاوہ گھر کے ماحول پر بھی منحصرہے جو معاشرتی ماحول سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں میں شمولیت، ان کی انفرادی دلچسپیاں، تعاون کی عادت، مطالعہ کرنے کی عادت اوراسکول کے بارے میں ان کا رویہ وغیرہ سب گھر کے ماحول کی عکاسی کرتے ہیں۔ چونکہ طلبہ مختلف معاشرتی ماحول سے اسکول میں آتے ہیں اس لیے ان کی دلچسپیاں، پسند اور نا پسند ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں جو دورانِ تدریس استاد کے لیے مسائل پیدا کرتی ہیں۔

جب بچہ 5 یا 6 سال کی عمر میں اسکول میں داخل کیا جاتا ہے تو یہ توقع کی جاتی ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ اس کی تعلیمی رفتار بھی بڑھتی رہے گی۔ ایک ہی عمر کے بچوں کو ایک جماعت میں رکھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بچے ذہنی، جسمانی، معاشرتی اور جذباتی پختگی میں ایک جیسے ہوں گے۔ لہٰذا ایک طرح کے تعلیمی پروگرام سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔اگر ایک بچہ تعلیمی اعتبار سے کمزور ہے تواس سے ظاہر ہوا کہ اس کی نشوو نما میں کہیں خامی رہ گئی ہے جو وہ دوسرے بچوں کے ساتھ کام نہیں کر پا رہا ہے۔ لیکن ایسی صورتحال کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ اس طرح کی صورتحال سے بھی استاد کو کمرۂ جماعت میں تدریس کے دوران دشواری کا سامنا کرنا پرتا ہے۔

قدرتی صلاحیتوں کے حوالے سے بھی بچوں میں انفرادی اختلافات پائے جاتے ہیں جو کمرۂ جماعت میںتدریس کے دوران مسئلہ پیدا کرتے ہیں۔ کسی ایک وصف میں ایک فرد کادوسرے سے اختلاف ہو سکتاہے اور ایک فرد میں کئی اوصاف کا بھی اختلاف ہو سکتا ہے۔

 ذہنی اختلاف کی بنیاد پر مشہور ماہرینِ نفسیات ٹرمن اور بینے نے بچوں کی عام ذہانت کی پیمائش کے بعد ان کو کئی گروہوں میں تقسیم کیا ہے۔جو بچے عام بچوں سے ذہنی اعتبار سے کم ہوتے ہیںان کے لیے مخصوص اسکول یا ادارے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جن بچوں کا مقیاس ذہانت 80 اور 90 کے درمیان ہوتا ہے وہ عام نوعیت کے تدریسی کام سمجھ تو لیتے ہیں مگرذہین بچوں کے ساتھ ان کا پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جن کا مقیاس ذہانت 90 اور 110 تک ہوتا ہے۔ اگر انھیں سازگار ماحول ملے تو وہ ترقی کر سکتے ہیںمگر ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔جن بچوں کا مقیاس ذہانت 120 سے اوپر ہوتاہے ان کے ترقی کرنے کے واضح امکانات ہوتے ہیں مگر غیر معمولی ذہانت کے سبب انھیں کم ذہین بچوں کے ساتھ پڑھانا ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔

عام طور پر بچوں میں جسمانی مہارتوں میں کسی کام کو انجام دینے کی صلاحیت عمر کے ساتھ تبدیل ہوتی ہے۔ کسی کام پر توجہ مرکوز کرنے کی قوت، مختلف اعضا کے کام کرنے کی صلاحیت،ضبط اور استقامت وغیرہ ساری کیفیات میں تبدیلی عمر کے ساتھ واقع ہوتی ہے۔لہٰذا بچے جسمانی قابلیت کے لحاظ سے بھی ایک د وسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔

جنس کے حوالے سے بھی انفرادی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ لڑکیاں یادداشت میں لڑکوں سے بہتر ہوتی ہیں۔لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں اسکول کا کا م خوب کرتی ہیںاور ذاتی باتوں میں دلچسپی لیتی ہیں۔ جب کہ لڑکے اس کے بر عکس حساب میں زیادہ اچھے ہوتے ہیں اور وہ کھیلوں اور دوسری سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بھی کمرۂ جماعت میں تدریس کے دوران مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

نسلو ں کے اعتبار سے بھی فرد میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔یہ خصوصیات انھیں اپنے آبا و اجداد سے ملتی ہیں۔یہ اختلافات جسمانی، ذہنی اورمعاشرتی کسی بھی قسم کے ہو سکتے ہیں۔

طبقاتی لحاظ سے بھی انفرادی اختلافات پائے جاتے ہیں۔معاشرے کو تین طبقوں یعنی اعلیٰ، متوسط اور پسماندہ کے خانوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔طلبہ کا جس طبقے سے تعلق ہوتا ہے وہ اسی کے مطابق اپنی گھریلو زندگی، معاشرتی سرگرمیاں، لبا س و خوراک، عادات و اطوار اختیار کرتے ہیں۔ہر طبقے کی اپنی معاشرتی اقدار اور خاص ذہنی معیار ہوتا ہے جس کے سبب کمرۂ جماعت میں تدریس کے دوران معلم کے نزدیک مسائل درپیش ہوتے ہیں۔

معاشی حالات بھی بچوں کی نفسیات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مضبوط مالی حالات رکھنے والے بچوں کی تمام تر ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے۔ علم حاصل کرنے کی راہ میں انھیں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔جب کہ غریب طالب علم معمولی لباس پہن کر اور معمولی غذا استعمال کرکے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔جن طلبہ کو ٹرانسپورٹ کی آسانیاں ہیں وہ وقت سے تعلیمی اداروں میں آجاتے ہیں۔جنھیں یہ سہولت حاصل نہیں ہے وہ ہزار دقتیں اٹھا کر تعلیمی اداروں تک پہنچتے ہیں تو انھیں تعلیم کی طرف توجہ دینے کے لیے بڑی محنت اور کوشش کرنا پڑتی ہے۔اس کے علاوہ جب یہ بچے گھر واپس جاتے ہیں تو انھیں گھر کے کمزور حالات کی بنا پر محنت مزدوری کرنا پڑتی ہے۔ ظاہر ہے ایسے طلبہ تعلیم کے لیے پورا وقت نہیں دے سکتے۔ان کے خراب اقتصادی حالات انھیں ذہنی الجھنوں اور پریشانیوں میں مبتلا رکھتے ہیں جو اُن کی جذباتی اور جسمانی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔ اس طرح بچوں کے یہ نفسیاتی مسائل تعلیم پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔

جذباتی اختلافات کے سبب کچھ بچے جذباتی طور پر متوازن نہیں رہتے۔ بہت جلد مشتعل ہو جاتے ہیں یا پھر ہر وقت افسردہ اور خاموش رہتے ہیں۔ ان کے یہ جذبات حصولِ علم میں رکاوٹ بنتے ہیں۔معمولی ناکامی یا پھر استاد کی معمولی سرزنش سے مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جن بچوں کو گھر میں مناسب پیار اور محبت نہیں ملتی وہ بھی جذباتی الجھن کا شکار ہوکر یا تو سب سے الگ رہنا چاہتے ہیں یا پھر اپنی شرار توں یا غصہ سے اسکول کے نظم و ضبط اور اساتذہ کے لیے مسا ئل پیدا کرتے ہیں۔

جسمانی نقائص کی وجہ سے بھی بعض بچے احساسِ کمتری کا شکار ہوکر تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور اس طرح وہ استاد کے لیے مسئلہ پیدا کرتے ہیں۔ ایک استاد اگر بچوں میں پائے جانے والے اختلافات سے آگاہ ہوتا ہے اور وہ بچوں کو ان کے انفرادی اختلافات کی بنیاد پر تعلیم دیتا ہے تو اس کی تدریس کامیاب ہوتی ہے ورنہ نہیں۔

 بچوں کے یہ انفرادی اختلافات یقیناً اپنا وجود رکھتے ہیںاورانھیں کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کے لیے ایسے اقدامات اٹھانے چاہیے جن کی بنیاد پر تعلیم کو ان کے لیے فائدہ مند بنایا جا سکے۔

جسمانی صحت اور ذہنی معیار کو ملحوظ رکھتے ہوئے طلبہ کو گروپ میں تعلیم دینا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مختلف درجے کی ذہنی صلاحیت رکھنے والے بچوں کو ایک گروپ میں شامل کرنے سے بہت سے مسائل سامنے آتے ہیں۔ بوریت کے سبب اعلیٰ درجے کی ذہانت والے طلبہ کی نشو ونما رک جاتی ہے اور کمزور طلبہ تھکان اور احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔طلبہ کے گروپ کی تشکیل کسی خاص مضمون یا سر گرمی کے لیے کی جائے توہر مضمون اور سر گرمی میں طلبہ اپنی قابلیت اور دلچسپی کے تحت گروپ میں شامل ہو سکیں گے۔ کم از کم نصابی اور ہم نصابی سر گرمیوں کے لیے گروپ بنائے جائیں۔

کسی گروپ کی تشکیل میں مناسب معیار کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا جائے۔ کسی ایک ہی طریقہ اور معیار کو پیش نظر رکھنے سے اس کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ 

طلبہ کے گروپ بناتے وقت ان کی معاشرتی اور جذباتی پختگی کو بھی ملحوظ رکھا جائے۔ اساتذہ کو ہر گروپ کی تدریس کے لیے علیٰحدہ علیٰحدہ منصوبے بنانے چاہیے تاکہ وہ ہر گروپ کی اہلیت اور ضرورت پورا کر سکیں۔گروپ کی تشکیل سے اساتذہ کو بچوں کی انفرادی تعلیم اور توجہ سے متعلق مسئلہ حل کرنے کا موقع ملے گا۔

بچوں کے گروپ جلدی جلدی تبدیل نہیں کرنے چاہیے ورنہ اس کے لیے ان میں اجنبیت پیدا ہوگی اور ا س  طرح ان کی مشکلات بڑھیںگی۔اساتذہ کو ہر گروپ کی تدریس کے لیے الگ الگ منصوبہ جات تحریر کرنی ہوں گی تاکہ وہ گروپ کی اہلیت اور تقا ضوں کو پورا کر سکیں۔

طلبہ کو آپس میں گروپ میں تقسیم کرتے وقت ان گروپ کے لیے الگ الگ شناختی نشان اس طرح استعمال کرنا چاہیے کہ ان کی کسی کمزوری کا بیان ظاہر نہ ہو سکے۔ مختلف گروپ کے طلبہ کی موجودگی میں معلم کسی گروپ کے کمتر ہونے کی بات نہ کرے۔

ذہین و فطین طلبہ کے لیے ایسا نصابی پروگرام، اضافی مشق کے طور پر تیار کیا جائے کہ جس سے ان کی معلومات، حقائق سے تعلق اور ذہانت کی نشو و نما بڑھ سکے۔ نصاب میں یہ اضافہ طلبہ پر بوجھ کے بجائے ان کی مسرت اور اعتماد کو بڑھاتا ہے۔ ذہین و فطین طلبہ کو خصوصی سرگرمیوں میں مشغول رکھا جائے۔

ذہنی طور پر پسماندہ طلبہ کے لیے ایسا نصاب یا مضامین ترتیب دینا ہوں گے کہ جو ان کے لیے کار آمد اور مفید ثابت ہوں۔مضامین یا سرگرمیوں کا انتخاب کرتے وقت ان کی جسمانی نشو ونما اور صلاحیت کو مد نظر رکھا جائے تو ان کی بہتر رہنمائی ہو سکتی ہے۔ ایسے طلبہ کے لیے کردارسازی، شخصیت کی نشو ونما اور معاشرتی ماحول کے ساتھ بہتر مطابقت پیدا کرنے والی سر گرمیوں کو اولیت دی جائے۔ ذہنی طور پر پسماندہ بچوں کے بارے میں معلم کے لیے ضروری ہے کہ وہ مکمل معلومات رکھتا ہو۔ صحیح معلومات کے ادراک کے بغیر ان کی تعلیم و تربیت کا کامیاب ہونا ممکن نہیں۔  

غرض بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ ان کو موزوں طریقہ ہائے تدریس سے تعلیم دی جائے تاکہ ان کی انفرادی صلاحیتوں کی نشو ونما کا موقع ملے، وہ با اعتماد اور باوقار شہری کی حیثیت سے زندگی گزار سکیں۔

 


Dr. Hina Afreen

Asst. Professor

Academy of Professional Development of

Urdu Medium Teachers

Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں