12/7/22

بھارت رتن لتا منگیشکر: میری آواز ہی پہچان ہے - مضمون نگار: ابرار رحمانی

 



بھارت رتن ہو،یا ہندوستاں کا لعل ، سبھی فانی ہیں۔ اس لیے سبھی کو ایک دن موت کا مزہ چکھنا ہے۔ سو ہماری دیدی بھی ہم سے رخصت ہوکر چلی گئیں۔ رب دی مرضی، رب ہی جانے، ہم آپ اس میں کیا کرسکتے ہیں۔ لیکن انھوں نے جتنا اور جس قدر نغموں کو اپنی آواز دی ہے وہ انھیں لا فانی بنانے کے لیے کافی ہیں۔ وہ آواز جو ان کی پہچان ہے وہ آواز جسے وہ خود بھی پہچانتی تھیں اور دنیا بھی۔ جتنی بلند ان کی آواز ہوتی تھی اس سے کہیں زیادہ اونچی ہماری سماعت ہوجاتی ہے۔ لتا دیدی کے ساتھ آنجہانی لکھتے ہوئے کلیجہ منھ کو آتا ہے۔ لیکن قدرت کا قانون اٹل ہے۔

خیر جب ہم فانی ٹھہرے اور اس حقیقت سے ہم سبھی بھلی بھانتی واقف ہیں تو شکایت کیسی بلکہ ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ ہم جن کی آواز اور انداز کو پسند کرتے ہیں اور جس آواز پر نہ صرف ہمارے کان متوجہ ہوجاتے ہیں بلکہ اکثرو بیشتر ان کی آواز پر ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ لتا دی جب دیس بھگتی کے گانے گاتی ہیں یا جنگ آزادی سے متعلق یا پھر عام انسانیت کے گانے ہوں ان گانوں کے جب سُربلند ہوتے ہیں تو اکثر ہم بے قرار اور بے خود ہوجاتے ہیں۔ ہماری آنکھیں خود بخود چھلک پڑتی ہیں۔ ہماری سنجیدگی ماحول کی سوگواری میں تبدیل ہونے لگتی ہے۔ مجروح سلطان پوری کہتے ہیں          ؎

ایک لمحے کو جو سن لیتے ہیں آواز تیری

پھر انھیں رہتی ہے جینے کی تمنا برسوں

وہ جب کوئی گیت گاتی تھیں اوراکثر وہ اردو کے ہی گیت و نغمہ گاتی تھیں۔ وہ اپنے گانوں کی زبان کو اردو ہی کہتی تھیں۔

سوگواری کے اس ماحول میں لوگ اپنے اپنے طور سے خراج عقیدت پیش کرتے رہے، کوئی پھول،تو کوئی گلدستہ پیش کرکے خراج عقیدت پیش کرتا رہا تو کوئی محض زبانی تحسینی کلمات کے ذریعے مرحومہ کے گھر والوں سے ، مرحومہ کی خوبیاں بیان کرکے ان کی مغفرت کی دعا کرتا ہے اور متعلقین کو صبر کی تلقین کرتا ہے۔

لیکن لتادی جیسی عظیم گلوکارہ کے تئیں جو خراج عقیدت مزمل حق نے جس طرح پیش کیا وہ دوسرے تمام شعبہ ہائے جات کے ارکان و افرادکے خراج عقیدت سے کہیں مختلف اور خوش نما اور قیمتی تھا۔ ان کے مرنے کے فوراً بعد لتا کے گانوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا جو اب تک جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔ یوں بھی جب ان کی زندگی میں ہی پچھلی چھ سات دہائیوں سے یہ گانے سنے جارہے ہیں اور سردھنے جارہے ہیںتو اب تو خراج تحسین اور خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یہ ایک بہترین ذریعہ ہے۔ لیکن آئی، ٹی، بی، پی کے ایک جوان مزمل حق کا خراج عقیدت پیش کرنے کا کچھ اور ہی انداز تھا۔ اس نے لتا دیدی کے گائے ہوئے مشہور گیت        ؎

اے میرے وطن کے لوگو، ذرا آنکھ میں بھرلوپانی

جو شہید ہوئے ہیں ان کی، ذرا یاد کرو قربانی

کو مزمل حق نے سیکسو فون پر اس انداز میں پیش کیا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہماری آنکھیں نم ہوگئیں اور آنسوچھلک پڑے۔ مزمل حق کا یہ ویڈیو دومنٹ 19 سکینڈکا تھا۔جسے فیس بک پر بڑے پیمانے پر پیش کیا گیا۔ اور بڑے شوق سے سنا گیا۔ مزمل کا یہ انداز لوگوں کو بہت پسند آیا۔ سوشل میڈیا کے تمام ایپس انسٹاگرام،ٹیوٹر،واٹس ایپ اور گوگل وغیرہ پر خود لتا منگیشکربھی عام طور پر اپنے مداحوں اور چاہنے والوں کو پیغام بھیجا کرتی تھیں۔ انھوں نے اپنے آخری پیغام میں یکم جنوری 2022کو اپنے مداحوں اور فینس کے نام نیک خواہشات کی تھی۔بلاشبہ لتاجی کے جانے سے فلم صنعت کے ایک زریں دور کا خاتمہ ہوگیا۔

لتا جی نے شادی نہیں کی۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ رہی کہ وہ فلمی دنیا میں بہت زیادہ مصروف رہیں۔ دوسرے یہ کہ شاید اوپر والے نے ان کی جوڑی ہی نہیں بنائی تھی۔ بچپن میں ہی پتاجی کے انتقال کے بعد پوری فیملی کی ذمے داری ان کے کاندھوں پر آگئی تھی۔ اور وہ اس ذمے داری کو نبھانے میں شاید بھول گئیں کہ زندگی گزارنے کے لیے ایک ساتھی کی بھی ضرورت ہوتی ہے، لیکن انھوں نے خود کو نغمہ و سرود میں کچھ اس قدر ڈبولیا تھا کہ انھیں یہ سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملی کہ زندگی کا ایک اہم مرحلہ، ایک انتہائی اہم موڑ شادی ہے۔ انھوں نے شادی کی لیکن اپنے پروفیشن سے، اپنے کام سے۔ وہ اپنے کام اپنے پروفیشن کے تئیں کچھ اتنی وفادار رہیں کہ انھیں انسانی خواہش، طلب اور ضرورت کی شدت کا احساس ہی نہیں رہا۔ ان کے لیے ان کاپروفیشن یعنی گلوکاری عبادت بھی تھی اور ریاضت بھی ، پوجا بھی اور سادھنا بھی۔ انھوں نے بے شمار فلموں کے لیے بے شمار شادی کے نغمے گائے ہوں گے اور شادیانے بجائے ہوں گے پھربھی انھیں اپنی شادی کی نہ تو کبھی یاد آئی اور نہ ہی اس کے لیے تگ و دوکی۔

یوں بھی شاعر نے سچ کہا ہے        ؎

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا

کہیں زمیں تو کہیں آسماں نہیں ملتا

انھوں نے کم و بیش اپنے 70 سالہ کیریئرمیں کتنی فلموں میں کام کیا کتنوں میں اداکاری کی اور کتنی فلموں کے لیے گانے گائے، شاید انھیں خود یاد نہیں تھا۔ انھیں صرف فلم فلم اور صرف فلم کی یاد رہ گئی تھی۔ البتہ انھوں نے اپنے بھائی بہنوں کا نہ صرف کیریئر سنوارابلکہ ان کی شادیاں بھی کرائیں۔ ان کے گھر میں بلکہ خاندان میں ان کی حیثیت ایک سرپرست اور ایک گارجین کی تھی۔ انھوں نے اسے اپنا فرض سمجھ کر بخوبی نبھایا۔

لتامنگیشکر کا جنم 28ستمبر1929کو اندورکے ایک معمولی کھاتے پیتے گھرانے میں ہوا۔گھر میں کسی قسم کی کوئی تنگی نہ تھی لیکن انھوں نے ابھی ٹھیک سے ہوش بھی نہیں سنبھالاتھا کہ ان پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ان کے پتاجی کاان کے بچپن میں ہی انتقال ہوگیااور ان کا خاندان تنگ دستی کا شکار ہوگیا۔ انھوں نے بچپن کے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے اپنی سوانح سُرگاتھا میں بتایا تھا کہ ہم پریشان حال تھے، ماں کے زیورات ایک ایک کرکے بک چکے تھے ناک میں صرف ایک کیل بچی تھی۔ چنانچہ لتاجی نے ان دنوں بہت جدو جہدکی اور جلد ہی ان کی محنت رنگ لائی ۔ ان کی بدحالی اور تنگی کے دن بیت گئے اور وہ خوش حالی کی طرف گامزن ہوگئیں۔ انھوں نے سب سے پہلے اپنی ماں کے تمام زیورات ایک ایک کرکے ٹھیک اسی قدر بنواکے ان کی خدمت میں پیش کردیا۔ اسے کہتے ہیں کوشش کرے انساں، تو کیا ہو نہیں سکتا اور جب 6فروری 2022 کوان کا انتقال ہوا تووہ فلم انڈسٹری کے چند مالدار ترین لوگوں میں سے ایک تھیں۔ اوپر والا کب کسی کو نواز دے یہ وہی جانتا ہے۔ انسان کا کام محنت کرنا ہے؛ ایمانداری شرط ہے۔ ایک انسان کے اندر کون سی صلاحیت پوشیدہ ہے اس کی شناخت وہ خود کرسکتا ہے، لیکن اس کے لیے سنجیدگی، شرافت اور اطاعت لازم ہے۔لتا جی کی انتر آتمانے اس بات کابخوبی احساس کرادیا تھا۔ پھرفلمی دنیا میں ان کے خیرخواہ اور چاہنے والوں نے بھی ان کی رہنمائی کی ۔لتا منگیشکر کی یہ سوانح حیات خود نوشت نہیں۔ بلکہ یہ یتیندر مشرا کی لتا منگیشکرسے ایک طویل ترین گفتگو پر مبنی ہے۔ چونکہ لتا منگیشکر کے پاس فرصت نہیں تھی لہٰذا ایک ہی نشست میں یہ گفتگو مکمل نہیں ہوسکتی تھی۔ لہٰذا انھوں نے یہ ترکیب نکالی کہ کیوں نہ روزانہ کچھ وقت اس موضوع پر گفتگو کے لیے مختص کریں۔سُرگاتھا کے نام سے یہ کتاب گوکہ لتا جی کی سوانح ہے لیکن اسے یتیندر مشرا نے اپنے الفاظ کا جامہ پہنایا ہے۔ اس کتاب میں ان کی زندگی کے شب و روز، دلچسپ واقعات اور موسیقی سے گہری واقفیت کی تفصیل ملتی ہے۔ کتاب کے مرتب ایک اچھے شاعر، ادیب، اور موسیقی کے رسیا یتیندرمشرا ہیں۔ ایک لمبے عرصے تک یتیندر مشرا لتا جی کے گھر جاکرتقریباً ایک گھنٹہ روز ان سے ان کی شخصیت اور فن کے بارے میں مختلف زاویوں سے گفتگو کرتے رہے  اور جب وافر مواد جمع ہوگیا تو اسے تحریر کی شکل دی گئی۔

 دلیپ کمار نے جب پہلی دفعہ ان کی آواز میں ایک گانا سنا تو بہت متاثر ہوئے لیکن لتادی کے لہجے میں بوجوہ سلاست اور روانی نہیں تھی در اصل وہ مراٹھی تھیں اور وہ گانا اس زبان کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔چنانچہ دلیپ کمار نے لتا منگیشکر کو اردو سیکھنے کی تلقین کی ۔ دلیپ کمار نے تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ گاتی بہت خوب ہیں لیکن آپ کے گانے میں صحیح تلفظ نہ ہونے کی وجہ سے کہیں کہیں دال بھات کی بو آتی ہے۔ 

اس وقت سے ہی لتانے دلیپ کمار کے اس ایک مشورے کو مان کر اس پر عمل پیرا ہونے کے سبب انھیں فلمی زندگی میں بے شمار کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ لتاجی نے پھر تو انھیں اپنابڑا بھائی اور دلیپ کمار نے لتا جی کو اپنی چھوٹی بہن مان لیا۔ لتا دیدی اپنے بڑے بھائی کو ہر سال پابندی سے راکھی باندھتی رہیں۔ کچھ اس تواتر، تسلسل اور پابندی سے ہر رکشا بندھن پر اس کا اہتمام کیا جاتا کہ لوگ دیکھتے رہ جائیں۔ فلم انڈسٹری کے لیے وہ ایک مثال بن گئے۔ مادیت پرستی کے آج کے اس دور میں ایسی مثالیں ملنا مشکل ہیں۔

دلیپ کمار کے بعد لتاجی کی پیشہ ورانہ زندگی میں جن دوسرے افراد نے کلیدی رول ادا کیا ان میںایک سب سے بڑا نام میوزک ڈائرکٹر غلام حیدر کا ہے۔ موسیقی کے شعبے میں انھوں نے جس طرح رہنمائی کی تھی وہ لتاجی کی کامیابی کی ضامن بن گئی۔ نوشاد علی جو تب سے اب تک فلمی دنیا کی موسیقی میں سدا بہار نام ہے، انھوں نے لتا منگیشکر کو اس جگہ پہنچایا جہاں آخر تک جمی رہیں۔ اپنے فن کے تئیں جس طرح نوشاد ایماندار اور وفاداربنے رہے اسی طرح لتا منگیشکر نے بھی اپنے فن کے لیے خود کو وقف کردیا۔

غلام حیدر اور نوشاد علی کی تربیت اور رہنمائی میں لتانے اپنی آواز کو آراستہ و پیراستہ کرکے گانا شروع کیا تو فلم جگت میں دھوم مچ گئی اور دھیرے دھیرے وہ پوری فلمی دنیا پر چھاگئیں۔ اس غیرت ناہید کی آواز کچھ اس تیزی سے بلندی کو چھونے لگی کہ پرانے چراغوں کی روشنی مدھم پڑنے لگی ۔ شاعر نے شاید ان کے لیے ہی یہ شعر کہا ہے        ؎

اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک

شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو

اردو کو صحیح تلفظ کے ساتھ جو بولنا چاہتا ہے ،وہ لتاجی کے گائے ہوئے نغموںکوسننے کی عادت ڈالے۔ بقول شخصے: پوری فلمی دنیا میں لتا منگیشکر سے اچھی اردو کسی اور کی نہیں۔ لتا جی کی زبان کی درستگی کا سہرا دلیپ کمار کو جاتا ہے، جو اس طرح کے کار خیر بہت کیا کرتے تھے۔

اردو سیکھنے کی تلقین پہلے پہل دلیپ کمار نے کی تھی جسے انھوں نے گرہ میں باندھ لیااور اردو سیکھنے پر خاص توجہ دی اور جب اردو سیکھ کر گانا شروع کیا تو رشید حسن خاں جیسے ثقہ ادیب نے بھی لتا کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ان کی تعریف کی۔ 1942 میں والد کے انتقال کے بعد گھر کی مالی حالت کے پیش نظرانھوں نے ہندی اور مراٹھی کی کچھ فلموں میں اداکاری کی تھی، لیکن ان کا اصل میدان گلوکاری ہی رہا۔ چنانچہ دوچارفلموںمیں اداکاری کے بعد نغموں کو اپنے سروں سے سجانے اور سنوارنے لگیں۔

عام طور پر کسی بھی انسان کے گزر جانے کے بعد ماحول سوگوار ہوجاتا ہے اور لوگ غم کے اظہار کے لیے ماتمی ماحول بنالیتے ہیں۔ مرنے والے کی خوبیاں بیان کی جاتی ہیں اور مرحوم کے اقربا اور احباب رولیتے ہیں۔ بعض سسکیوں سے کام چلالیتے ہیں اورکچھ حضرات اظہار افسوس کرتے نہیں تھکتے۔ لیکن لتا جی کے ساتھ کچھ ایسا ہے کہ وہ اپنی عمر طبعی کو پہنچ چکی تھیں۔ ایک انسان کی زندگی میں 88 برس کم نہیں ہوتے۔ اس عمر میں عام طورپر ضعف کا شکار ہونے کے نتیجے میں امراض کا مجسمہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اب اور جینے کا مطلب ہوتا کہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے بوجھ بن جاتی۔ لہٰذا مرحومہ کا گزرجانا نہ صرف ان کے حق میں بہتر تھا بلکہ اہل خانہ اور متعلقین کے لیے بھی باعث طمانیت رہا ۔   

لتاجی کی پیشہ ورانہ زندگی کا عرصہ خاصا طویل ہے۔ اس طوالت کے باوجودنہ تو انھوں نے کبھی اکتاہٹ کا اظہار کیا نہ تھکاوٹ کا ۔ان کے فن کا کمال یہ ہے کہ وہ جوں جوں آگے بڑھتی گئیں ان کا فن اسی طرح روز افزوں سنورتا اور نکھرتا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ جسمانی طور پر وہ بڑھتی عمر کے ساتھ جب ضعیفی اور بڑھاپے کی طرف بڑھنے لگیںتو ان کا فن اور جوان ہونے لگا ان کے پورے دور میں ان کے سامنے نئی نئی گلوکارہ کبھی ان کے سامنے ٹکتی نظر نہیں آتی۔ کمال یہ ہے کہ ایک سترہ اٹھارہ سال کی گلوکارہ جب گاتی تھی تو لگتا تھا کہ کوئی پچیس تیس سال کی لڑکی گارہی ہے جب کہ لتا جی اس کے برعکس جب گاتی تھیں تو ایسالگتا کہ کوئی پندرہ بیس سال کی نو عمر گلوکارہ کانوں میں رس گھول رہی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ لتادی اپنی اخیر عمر تک ایک نو عمر لڑکی کی طرح گاتی رہیں۔لیکن آخر کب تک اب جب کہ ان کے قویٰ مضمحل ہوگئے اور ان کی بڑھتی عمر نے لڑکھڑانے پر مجبور کردیا تو انھوں نے خود کوسمیٹنا شروع کردیا۔ پچھلے ایک سال سے انھوں نے گانا بندکردیا تھا۔اب ان کے بعد آنے والوں کے لیے موقع ہے کہ وہ محنت کریں اور ان سے آگے نکلنے کی کوشش کریں۔ ہندوستانی موسیقی اور سازوآواز کو لتا جی نے جس مقام پر پہنچایا تھا اس سے آگے جانے کی چنوتی آپ کے سامنے ہے۔ خدا کرے آپ اس میں کامیاب ہوں۔

 

 

Dr. Abrar Rahmani

Tazyeen Apts. 179/22, Zakir Nagar

New Delhi - 110025

Tel.: 9911455508

 

 

 


 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں