7/7/22

ہندوستان میں فارسی تاریخ نگاری کا آغاز و ارتقا - مضمون نگار: شہناز بیگم

 



ایرانی تاریخ نگاری کاآغاز شاہناموںسے ہوتا ہے۔ ایرانی تہذیب کے تحت لکھی گئی تاریخوں کا موضوع سیاسی تھا۔شخصی حکومت ہونے کی وجہ سے پورے عہد کی تاریخ نہ لکھ کر بادشاہوں کی تاریخ لکھی جانے لگی۔

پروفیسر خلیق احمدنظامی کے مطابق:

’’ایران کے تاریخی نظریات تخت وتاج کے گرد گھومتے تھے۔شاہ نامہ تاریخی فکر کا مرکز ومحور تھا۔ وہاں صرف شاہی خاندانوں کی تاریخ لکھی جاتی تھی، عوامی زندگی سے مؤرخ کوکوئی سروکار نہ تھا چنانچہ ایرانی طرز پر لکھی ہوئی تاریخیں امرا اور سلاطین کی رزم وبزم کی داستانیں ہیں اور ان کے ہی نام سے انتساب ہے۔‘‘1

چونکہ شخصی حکومت میں ایرانی مؤرخ اپنے مربی حکمرانوں کے تنخواہ دار ملازم ہوتے تھے اور انھیں کی فرمائش پر تاریخیں لکھتے تھے۔ لہٰذا خوشامد اور چاپلوسی کی راہ سے مبالغہ آرائی داخل ہوئی اور تاریخ نگاری قصیدہ گوئی تک محدود ہوگئی چونکہ قصیدہ گوئی آسان اور سیدھی سادی عبارت میں ممکن نہیں ہے۔لہٰذا عبارت آرائی اور لفاظی تاریخ نگاری کا لازمی جز قرار پایا اور چند واقعات کے لیے کئی کئی صفحات لکھے جاتے تھے۔اس طرح ایرانی تاریخ نگاری میں ابتدا ہی سے مقفیٰ و مسجع عبارت کو استعمال کیاگیا اور واقعات کو سادگی سے بیان کرنے کے بجائے عبارت آرائی کو اختیار کرکے پیچیدہ اور علامتوں وتشبیہات کے ذریعے اظہارِبیان کواپنایاگیا۔

بقول پروفیسر اقتدار حسین صدیقی :

’’ایرانی تاریخی کتابوں میں قدم قدم پر حقیقت اور افسانویت کی آمیزش ہوجاتی ہے۔‘‘2

اسلامی دور کے ایرانیوں نے تاریخ لکھنے کے لیے سب سے پہلے عربی زبان کا سہارا لیا۔اس کے نتیجے میں محمد بن ابی جعفر جریر ا لطبری کی کتاب ـ تاریخ الرسل والملوک وجود میں آ ئی جو تاریخ بلعمی کے نام سے بھی مشہور ہے۔یہ تاریخ کی سب سے پہلی کتاب ہے جو ایران میں ظہورِ اسلام کے بعد لکھی گئی ہے۔ہندوستان میں فارسی تاریخ نگاری کے آغازسے پہلے ایران میں لامحدود فارسی تاریخیں لکھی گئیں۔

 ہندوستان میں فارسی تاریخ نگاری کی روایت

مسلم تاریخ نگاری اپنی بدلتی ہوئی شکل میں جس میں ایرانی اور عربی دونوں اجزا شامل تھے ہندوستان میں داخل ہوئی۔ یہاں جو تاریخیں لکھی گئیں وہ فارسی زبان میں ایرانی طرز پر ہی لکھی گئیں۔ہندوستان میں فارسی تاریخ نگاری کو حسبِ ذیل عہد میں بانٹا جا سکتا ہے:

(i)      عہد سلطنت میں فارسی تاریخ نگاری

(ii)    مغل عہد میں فارسی تاریخ نگاری

(iii)آخری مغل عہد میں فارسی تاریخ نگاری

(i)      عہد سلطنت میں فارسی تاریخ نگاری : عہد سلطنت میں تاریخ نگاری کی جو روایت ہندوستا ن میں قائم ہوئی اس میں اسلامی اور ایرانی روایتوں کے اجزا موجود تھے۔ اس عہد میں مختلف اقسام کی تاریخیں لکھی گئیں ان میں سے اہم ترین انواع یہ ہیں: تاریخ عمومی، تاریخ خصوصی، منظوم تاریخیں اور علاقائی تاریخیں، تاریخ کی یہ اقسام جو اس عہد میں ایران میں رائج تھیں، ہندوستان میں بھی اسی عہد میں رائج ہو گئیں۔ عہدسلطنت میں تاریخ کے موضوع سے متعلق کتابیںعربی روایت کی بہ نسبت فارسی روایت سے ز یادہ متاثر نظر آتی ہیں۔ یعنی جو طرز تاریخ نگاری میں اختیا ر کی وہ ایرانی تھی۔اس کا اندازہ اس عہد کی ابتدائی تاریخوں جیسے صدرالدین حسن نظامی نیشاپوری کی تاج الماثر 3منہاج الدین بن سراج الدین کی ــطبقات ناصری 4 سے لگایا جاسکتاہے۔ یہ مؤرخین ہر اعتبار سے ایرانی تاریخ نگاری کی دیرینہ روایت کے علمبردار تھے۔لیکن امیر خسرومؤلف تاریخ علائی،ضیا الدین برنی مؤلف ’تاریخ فیروز شاہی‘5اور شمس سراج عفیف مؤلف ’تاریخ فیروز شاہی‘ جیسے مؤرخین کے ظہور پذیر ہونے کے ساتھ اس عہد کی فارسی تاریخ نگاری نے بتدریج مستقل بالذات ہوکر ایک حد تک اپنا علیحدہ رنگ اختیا ر کیا۔

سلطنت عہد کے مؤرخین نے تاریخ کی  تر جمانی کے لیے مذہب اور اخلاق کو پس منظر کے طور پر اپنانے کی کوشش کی اس طرح تاریخ کاجو تصور امیر خسرو، عصامی مؤلف ’فتوح السلاطین‘شمس سراج عفیف،ضیائ الدین برنی اور یحییٰ بن احمد سرہندی مؤلف تاریخ مبارک شاہی 6 کے یہاں ملتا ہے۔ان میں بڑے بڑے آدمیوں، شہزادوں اور سلاطین کا ذکر بھی شامل ہے۔ وہ عام طور پر تاریخ کو خدائی حکم یا خدائی فعل سمجھتے تھے جس میں انسان محض ایک کارکن کادرجہ رکھتا ہو۔اس عہد کی تاریخ میںنا صحانہ عنصر پائے جاتے تھے۔

عہدِ سلاطین کی تاریخ کا اہم موضوع صوفیا  اور ان کا کردار ہے چونکہ عہد سلاطین میں صوفیا کی معاشرے میں اہم حیثیت تھی لہٰذا اس پورے عہد کی تاریخ نگاری میں صوفیا کو دشمن سے دفاع کرنے،جنگ میں فتح دلانے، اور معاشرے میں خوش حالی قائم کرتے ہو ئے دکھایا گیا ہے۔  مثا ل کے طور پر ضیائ الدین برنی کی تاریخ میں نظام الدین اولیا  اگر ایک طرف منگولو ں کے حملے سے دہلی کا دفاع کرتے نظر آتے ہیںتو دوسری طرف ان کی شخصیت کی وجہ سے ملک میں خوش حالی کا دور دورہ ہے۔سلطان اور صوفی کی شخصیتوں کے درمیان عوام کاکوئی کردار تاریخ نگاری میں اُبھر کر نہیں آتا۔عوام خاموش، ساکت منجمد، بے عمل اور بے کار افراد کا جم غفیر ہے۔ جنھیں سلطان اور صوفی کی شخصیتیں ہدایت دیتی ہیں۔احکامات جاری کرتی ہیں اور انھیں ہر مصیبت سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ سلطان  اور صوفی کے بعد تاریخ میں علما اور امرا کا تذکرہ ہے۔ وہ امرا جو سلطنت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے اورحکو مت کے اداروں میں با عمل تھے۔یہ رعیت اور سلطان کے درمیان بطور رابطہ قائم کرتے تھے۔ علما و فقہا  سلطنت کے امور میںبطور قاضی، صدر، شیخ الا سلام اور مفتی کے شرکت کرتے تھے۔اس لیے تاریخ نگاری سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ تاریخی عمل شخصیتوں کی وجہ سے حرکت کرتا ہے اور یہی واقعات وحالات کی تشکیل کے ذمے دار ہیں حالات کے پس منظر میں سماجی و معاشی اور سیاسی قوتوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔

اس تاریخ نگاری سے مؤرخو ں کے اپنے مفادات ظاہر ہوتے ہیں کیونکہ  ان میں سے اکثر کا تعلق اعلیٰ طبقے سے تھا اس لیے ان کی ہمدردیاں اسی طبقے سے تھیں اور تاریخ نگاری کے ذریعے و ہ حکومتی ڈھانچے کو اسی حالت میں برقر ار رکھنا چاہتے تھے۔ حکومت و سلطنت کے خلاف بغاوت ان کے نزدیک سخت جرم تھا۔ اس لیے انھوں نے باغیوں کے لیے سخت الفاظ استعمال کیے ہیں۔اور ان کی بغاوت کے پس منظر یا ان کے مطالبات کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔پندرہویں صدی میں علاقائی سلطنتوں کے قیام کے ساتھ وہا ں کے حکمراں طبقے نے تاریخ نگاری کی روایت کو جاری رکھا۔گجرات، مالوہ، جونپور،اور بنگال میں پندرہویں اور سولہویں صدی میں مختلف کتابیں تحریر ہوئیں۔

(ii)  مغل عہد میں فارسی تاریخ نگاری :مغل عہد کے تاریخی ادب پر روشنی ڈالی جائے تو ایک واضح تبدیلی کا احساس ہوتا ہے۔اس دور میں تاریخ روایت کی پابند یا مذہب سے زیادہ وابستہ نہیں تھی۔ناصحانہ عنصر کی جگہ اسباب،واقعات نگاری اور غیر جانبداری پر توجہ دی جانے لگی۔ اس کے علاوہ اس عہد کے مؤرخوں نے غیر مذہبی انداز اختیا ر کیا۔ اس دور میں ایسے بہت سے سرکاری،غیر سرکاری مؤرخین، سوانح نگار اور توزک نگار ملتے ہیں جنھوں نے عصری تاریخیں لکھیں۔انھوں نے قابل اعتماد واقعات کو ترجیح دی۔اس عہد کی تاریخ کافی حد تک سیاسی تاریخ ہے لیکن اس کے باوجود واقعات میں شہادت استدلال اور غیر جانبداری کو اہمیت دی گئی ہے۔

مغل تاریخ نگاری کی اہم ترین خصوصیت مغل امپریل ازم کی حمایت ہے۔اس عہد کی تاریخ نگاری میں صوفیا کا کردار گھٹ گیا اور تاریخی عمل میں ان کی شرکت کم ہو گئی۔جس طرح وہ عہد سلاطین میں حکمرانوں پر حاوی تھے اور فتح و شکست کے ذمے دار تھے،عہد مغلیہ میں ان کی وہ حیثیت نہیں رہی اور وہ ایک محدود دائرے میں مصروف عمل رہے۔ ا س عہد کی تاریخ نگاری میں امرا کی بہادری، شجاعت، فیاضی اور سخاوت کے تذکرے ملتے ہیں ان امرا کے تذکرے علیحد ہ بھی لکھے گئے جیسے ذخیرۃالخوانین، تذکرۃ الامرااور’مآثر الا مرا‘ یا ان کے خاندانوں پر علیحدہ سے تاریخیں لکھی گئیں۔ جیسے عبدالباقی نہاوندی نے عبدالرحیم خاںخاناں کے خاندان پر’مآثر رحیمی‘ لکھی۔

مغل عہد کی ابتدائی کتاب ظہیر الدین محمد بابر کی خودنوشت سوانح عمری ’توزک ِبابری‘ ہے۔ جوترکی زبان میںلکھی گئی۔اس کا فارسی میں ترجمہ اکبر کے حکم سے عبدالرحیم خانخاناں نے کیا۔ہمایوں کے عہد میں اس کی بہن گلبدن بیگم کا ’ہمایوں نامہ‘ اور ’جوہر آفتابچی کی تذکرۃ الواقعات‘‘ تحر یر ہوا۔

اکبر کے عہد کے لیے ابوالفضل کا ’اکبرنامہ‘ اہم ترین مستندتاریخ ہے۔یہ تین جلدوں پر مبنی ہے۔ جلد اوّل کے دو حصے ہیں۔ اول حصّے میں دیباچہ اور اکبر کے آبا و اجداد کے حالات درج ہیں۔ یہ حصّہ ہمایوں بادشاہ کی وفات پر ختم ہوتا ہے۔ حصّہ دوم میں اکبر کی تخت نشینی تک حالات ہیں۔جلد دوم میں  18 عیسوی جلوس سے  46 جلوس تک کے واقعات نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ جلد سوم آئین اکبری کے نام سے مشہور ہے۔ یہ جلد اکبر کے عہد حکومت کے امورِ انتظامی کا مرقع ہے۔ رشید مولوی عنایت اللہ عرف محمد صالح کا تکملہ اکبر نامہ، ملا عبدالقادر بدایونی کی ’منتخب التواریخ‘،نظام الدین احمد کی  طبقات اکبری  وغیرہ تاریخیں اکبرکے عہدکی اہم ترین تاریخیں ہیں۔

اکبری دور کی تاریخ نگاری میں سیکولر رجحانات نظرآتے ہیں۔ان رجحانات کی نمائندگی ابوالفضل نے بڑی عمدگی کے ساتھ کی ہے۔ اس کے یہاں انسانی برادری کانقطۂ نظر ہے کہ جس میں ہندو اور مسلما ن دونوں ثقافتی رشتوں میں منسلک ہیں اور مذہبی اختلاف کے باوجود معاشرتی یکجہتی اور ہم آہنگی میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ا س کی تاریخ میں ہندواور مسلمان تصادم نہیں،بلکہ انتشار اور استحکام کے درمیان ایک کشمکش ہے۔مغل حکومت استحکام کی علامت ہے جبکہ اس کے مخالفین انتشار کے، اس لیے اس نے مغل فوجیوں کے لیے ’مجاہدین اقبال‘ اور ’غازیان دولت‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور انھیں غازیان اسلام یا مجاہدین اسلام نہیں کہا۔

ابوالفضل اپنے  پیش رو مؤرخوں کی طرح صرف مسلمان بادشاہوں کے کارنامے بیان نہیں کرتا بلکہ ہندوستان کی تاریخ کے تسلسل کوسمجھنے کے لیے وہ قدیم ہندوستان کی تاریخ اور ان کے فلسفے کو جاننا انتہائی ضروری سمجھتا ہے۔ابوالفضل کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ وہ ہم عصر تاریخ لکھتے وقت سرکاری دستاویزات اور کاغذات کے ساتھ ساتھ زبانی تاریخ سے بھی استفادہ کرتا ہے۔اس نے تاریخ کے دائرے کو وسعت دی اور سیاست کے ساتھ سماجی، انتظامی،ثقافتی اورمعاشی پہلوئوں پر بھی لکھا ہے۔ تاریخ نگاری کی ایک اہم تبدیلی نظام الدین کی ’طبقاتِ اکبری‘ ہے۔ نظام الدین احمد نے صرف ہندوستان کی تاریخ لکھی اور اپنے پچھلے مؤرخین کی پیروی نہیں کی جو اسلامی تاریخ کو نقل کردیتے تھے۔

طبقاتِ اکبری‘ مقدمہ، خاتمہ اورنو طبقات پر مشتمل ہے، مقدمہ میں شاہان غزنوی کے حالات امیر سبکتگین سے لے کر ملک خسرو کے قتل تک درج ہیں۔ طبقہ اوّل میںہندوستان کے حالات شہاب الدین محمد غوری سے شروع ہو کر اکبر کے38 ویں سنہ جلوس پر ختم ہو جاتے ہیں اس کے آخر میں منصب داروں، امیروں اور شاعروں وغیرہ کا ذکر ہے۔ دوسرے طبقے میں شاہان دکن کے حالات درج ہیں۔ چوتھے طبقے میں شاہان مالوہ کے حالات درج ہیں۔ پانچواں طبقہ شاہان بنگال کے حالات پرمشتمل ہے۔ چھٹے طبقے میں جون پور کے بادشاہوں کے حالات درج ہیں۔ ساتویں طبقے میں کشمیر کے بادشاہوں کے حالات درج ہیں۔آٹھویں طبقے میں سندھ کے حالات درج ہیں۔ نویں طبقے میں تاریخ ملتان بیان کی گئی ہے۔محمد بن قاسم کے حملے سے شروع ہو کر ملتان کے الحاق تک کے حالات مذکور ہیں۔ خاتمہ میں مؤلف نے ہندوستان کا مکمل جغرافیہ تحریر کیا ہے۔

تاریخ الفی‘ اکبرکے عہد کی اہم ترین تاریخوں میں شمار کی جاتی ہے۔جو اکبر بادشاہ کے حکم سے مرتب کی گئی۔اس کتاب کی تین جلدیں ہیں اور ہر جلد کا مصنف بھی جداگانہ ہے۔جلد اوّل کے منشی نظام الدین احمد،جلد دوم کے ملا عبدالقادر بدایونی اور جلد سوم کے مصنف حکیم ہمایوں تھے مگر یہ تاریخ تکمیل کو نہیں پہنچ سکی اور ادھوری تصور کی جاتی ہے۔

جہانگیر اور شاہجہاں کے عہد میں تاریخ نگاری ایک بار پھر روایتی بنیا دوں پر آگئی۔اس دور کی اکثر تاریخیں درباری مؤرخوں نے لکھیں۔ جہانگیری عہد کی خود اس کی سوانح’ توزکِ جہانگیری‘ اور معتمد خاں کی ’اقبال نامہ جہانگیری‘ اہم ترین تالیفات ہیں۔

شاہجہاں کے عہد سے متعلق تاریخوں میںبادشاہ نامہ،محمد صالح کنبوہ کی تاریخ’عمل صالح‘، محمد صادق کی تالیف’ صبح صادق‘ وغیرہ مستند مآخذ ہیں۔بادشاہ نامہ چار جلدوں پر مشتمل ہے۔ ہر جلد کا مصنف جداگانہ ہے۔ جلد اوّل میں اوائل عمر سے تخت نشینی تک کے حالات درج ہیں۔ یہ جلد 1590  تک کے حالات پر مبنی ہے۔ اس حصّے کا مصنف معتمد خاں ہے۔ جلد دوم تین دفتروں میں منقسم ہے۔ یہ جلد عبدالحمید لاہوری کی مرتب کی ہوئی ہے۔جلد سوم محمد وارث نے تصنیف کی۔ محمد صالح کمبودہ نے جلد چہارم کو ترتیب دیا۔

صبح صادق‘ ابتدائی اسلام سے 1048ھ /1639  تک کے تاریخی واقعات کا مجموعہ ہے۔یہ چار حصّوں پرمشتمل ہے۔ہرحصّے کی تقسیم مطلوں میں کی گئی ہے۔ ’عمل صالح‘ دو حصوں میں منقسم ہے  پہلے حصے میں شاہ جہاں کے بزرگوں کے حالات تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ یہ حصہ نویں سنہ جلوس کے واقعات پر ختم ہوجاتا ہے۔ دوسرا حصّہ دسویں سال سنہ جلوس سے شروع ہوکر بادشاہ کی نظربندی کے حالات پر ختم ہوجاتا ہے۔شاہ جہاں کی علالت اور مابعد کے تفصیلی حالات کے علاوہ اس جلد میں مشاہیر زمانہ سادات مشائخ،جراح،سوانح نگار، مشہور شاعروں اور حکیموں کے حالا ت کابھی تذکرہ ہے۔ شہزادوں اور منصب داروں کی فہرست دی گئی ہے۔

اورنگ زیب عالمگیر کے عہد سے متعلق تاریخوں میں محمدکاظم شیرازی کا عالمگیر نامہ7،پنڈت ایشور داس ناگر کی ’فتوحات ِعالمگیری‘، ساقی مستعید خاں کی ’مآثر عالمگیری‘،نعمت خاںعالی کی ’وقائع عالمگیر ی‘،جنگ نامہ عالمگیری نیز بھیم سین کی’ نسخٔہ دلکشا‘ کے نام سے اس عہد کے بہت سے،بالخصوص مہم دکن سے متعلق واقعات درج ہیں۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ درباری قسم کی تاریخ نویسی کاسلسلہ معظم بہادر شاہ اوّل کے عہد تک برابرجاری رہا اور ایک حد تک اس کے جانشینوں کے زمانے تک بھی۔ اس عہد کی تاریخ نگاری کی یہ خصوصیت رہی کہ مؤرخوں نے انتہائی مشکل ادق اور پیچیدہ زبان کواستعمال کیاہے اور واقعات کو صاف لکھنے کے بجا ئے، علامتوں،تشبیہات واستعارات کے ذریعے بیان کیا گیاہے۔زبان محاورے اور عبارت آرائی پر زیادہ زور دیا ہے۔جس نے عبارت کومشکل بناکر بعض اوقات بے معنی کردیا ہے۔خصوصیت سے ابوالفضل کی زبان و عبارت انتہائی پیچیدہ ہے۔بعد کے مؤرخین نے اس کی پیروی اور تاریخ نگاری کو مشکل بنادیا۔ان تاریخوں میں محض واقعات کو بیان کیاگیا ہے۔ ان کاتجزیہ نہیں کیا۔ معاشرے کے ثقافتی و سماجی پہلوئوں پر کم توجہ دی زیادہ تر سیاست پر لکھا اور اس میں تاریخی عمل کو متحرک رکھنے میں شخصیتیں باعمل ہیں۔عوام محض خاموش تماشائی ہے۔

(iii) آخری مغل عہد میں فارسی تاریخ نگاری : آخر ی مغل عہد میں فارسی تاریخ نگاری میں انتہائی اہم تبدیلیاں آئیں کیونکہ اس دور میں مغل دربار کی طاقت و اہمیت کمزور ہوچکی تھی۔ اس عہد کی تاریخ نگاری میںآخری عہد مغلیہ کا انتشار سیاسی بے چینی، عدم استحکام،تحفظ کافقدان اور لاقانونیت نظر آتی ہے۔بقول پروفیسر اقتدار حسین صدیقی:

’’ہندوستان میں تاریخ نگاری مغلیہ سلطنت کے سیاسی زوال سے بری طرح متاثر ہوئی۔ مغل بادشاہ محمد شاہ (م،1747) اور ا س کے جانشینوں کے عہد میں جو تاریخ پر کتابیں لکھی گئیں ان میں باشاہوں کی بے بسی دربار سے منسلک امرا کی باہمی رقابت اور گروہ بندی ایک گروہ کی دوسرے گروہ کے خلاف سازشیں،باغیوں کے خلاف فوجی مہموں کی ناکامی کی داستان اور آشوب زمانہ کی شکایت ملتی ہے۔‘‘8

اس عہد میں مؤرخین نے ایسی کتابیں تصنیف کیں جن میں مختلف حکومتوں کے سلسلہ وار احوال بیان کیے گئے ہیںاور مغل حکومت کے زوال کے ا سباب تلاش کیے گئے ہیں،اس کی تباہی پر افسوس ظاہر کیاگیا ہے۔اس عہد کی تاریخیں اس زمانے کے ان سیاسی حالات وواقعات سے متاثر ہوکر لکھی گئیں جو پے در پے نمودار ہوتے رہے۔ علاوہ ازیں اس عہد کی تاریخوں میں ا س دور کے بحران اور مستقبل کے بارے میں سوالات ملتے ہیں۔ان تاریخوں میں بادشاہ کی مظلومیت،امرا کی سازشیں، قدیم و جدید امرا کے درمیان کشمکش اور حکومت کی بے بسی کو بڑے مؤثر انداز میں بیان کیاگیا ہے۔ ان کے یہاں تاریخ ایک المیہ بن جاتی ہے اور بادشاہ وشاہی خاندان کے افراد مظلومیت کا پیکر بن کر ابھر تے ہیں۔لیکن ان میں مؤرخ مغل سلطنت کے زوال،اور معاشرے کی پست حالت کا تجزیہ نہیں کرسکا۔ اس کے یہاں مایوسی،عبرت اور مظلومیت کا احساس ہے جسے وہ وقت کے ساتھ منسوب کردیتا ہے اور قدرت کی جانب سے پیش ہونے والے حادثات کہہ کر ان کا تجزیہ کیے بغیر خاموش ہوجاتا ہے۔

اس دورکے مؤرخین کی فہرست کافی طویل ہے، چند اہم مؤرخوں میںخافی خاں،اعتماد علی خاںبن اعتماد خاںعالمگیر ی،ارادت خاں،یحییٰ خاں،محمد آشوب پوری، رستم علی خاں اور محمد بخش آشوب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔دور حاضر کے مؤرخ ظہیر الدین ملک کا اٹھارہویں صدی کے مؤرخین کے بارے میںکہنا ہے۔

’’ان کے نزدیک قفل تاریخ کی کنجی ان افراد کے عروج و زوال میں پوشیدہ تھی جنھوں نے سیاسی معاملات کی راہ متعین کرنے میں ایک واضح کردار ادا کیا تھا۔ بادشاہ  یا  امیر سارے واقعات کا مرکز اور سر چشمہ تھا۔سماج کے مختلف طبقے وقت کے اندھیرے میں پھینک دیے گئے تھے حالانکہ یہ محققین مغل تمدن کی مادی بنیاد سے خوب اچھی طرح واقف تھے۔ پھر بھی یہ ان اقتصادی اور سماجی عنصروں کا تجزیہ نہ کرسکے جو مغل انحطاط کے اسباب میں شامل تھے۔‘‘9

اس دور کی تاریخ نگاری میں اسلوب اور انداز بیان پر کوئی خاص تو جہ نہیں دی گئی ہے۔جب کہ مغل حکومت کے زمانۂ عروج میں جو تاریخیں لکھی گئیں ان کی زبان انتہائی مرصّع ہے اور حقیقی سے زیادہ مصنوعی عنصر اندازِ بیان پر غالب ہے۔چونکہ اٹھارہویں صدی سیاسی اور معاشی انتشار کا زمانہ تھا۔لہٰذا اس دور کے مؤرخوں کے انداز بھی بدل گئے۔مؤرخین حسن بیان سے زیادہ واقعات کی صحت پر توجہ دینے لگے۔ یہی اس دور کی فنِ تاریخ نگاری کا خاصہ ہے۔ اس کے علاوہ اٹھارہویں صدی میں لکھی جانے والی تاریخوں میں سابقہ تاریخوں کے مقابلے میں جامعیت کی کمی اور بالعموم مرکز یت کا فقدان تھا۔ ابتدائی دور میں ہندوستان میں جو تاریخیںلکھی گئیں وہ ایک حد تک حبیب السیر اور روضتہ الصفاکے مقابلے کی تھیں اور ایک معنی میں انھیںعالمی تاریخیں کہا جا سکتا ہے۔ان تاریخوں میں ابھی تک قدیم واقعہ نگاری کارنگ جھلکتاہے۔مؤرخ کی حیثیت درباری وقائع نویس کی سی ہے اور اس کی تصنیف کردہ تاریخ کا مرکز بادشاہ کی ذات ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ رجحان کم ہوتا گیا۔جس کی بڑی وجہ مرکز ی حکومت کی بتدریج کمزوری اور سلطنت کے مختلف صوبوں کی  آزادی و خود مختاری تھی۔اس دور میں بہت سی ایسی تاریخیں لکھی گئیں جن کے موضوع ِبحث کا دائرہ کسی صوبے یا صوبے کے حکمراں بلکہ بعض اوقات ایک حاکم کے حالات زندگی تک محدود ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف توتاریخی کتابو ں میںکافی تنوع پیداہوگیا اور دوسری جانب ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔

چونکہ اس عہد میں مؤرخوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا اس لیے انھوں نے تاریخ کے روایتی خاکے کو بدل ڈالا۔مثلاًوہ تاریخ کی ابتدا قدیم ہندوستان سے کرتے اور پھر اسے تسلسل کے ساتھ عربوں اور ترکو ںکی ہندوستان کی فتح سے ملا دیتے جیسے سبحان رائے کی ’خلاصتہ التواریخ‘ ہے کہ جس میں ہندوستان کی مکمل تاریخ بیان کی گئی ہے۔اس عہد کی تاریخ نگاری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں متوسط طبقے کے لوگوں نے تاریخ لکھنی شروع کی جیسے کھتری،صراف اور منشی،اس وجہ سے اب تک تاریخ پر جو اعلیٰ طبقے کا قبضہ تھاوہ ٹوٹ گیااورمتوسط طبقے نے اپنے نقطۂ نظرسے تاریخ کوجانچنا اور پرکھنا شروع کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ نویسی کی زبان سادہ ہوگئی عبارت آرائی اور پیچیدگی جو پہلے کے مؤرخوں کی خصوصیات تھیں وہ ختم ہوگئیں۔اس عہدمیں مؤرخوںکی تعداد میںبھی اضافہ ہوا۔کیونکہ زوال کے دور میں دلوں پر جو مایوسی طاری تھی اور معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ سے جس سے لوگ متاثر ہورہے تھے۔ اس وجہ سے لوگ تاریخ نگاری کے ذریعے اپنے جذبات کااظہار کرناچاہتے تھے اور اس مقصد کے لیے انھوں نے مختلف موضوعات کو اپنایا چونکہ ان کی اکثریت دربار سے وابستہ نہیں تھی اس لیے ان کی تحریر میں آزادی،تنقید اور بیباکی ہے۔ وہ صاف اور واضح الفاظ میںاپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں۔     

مغل سلطنت کے زوال کے ساتھ مرہٹہ، جاٹ، سکھ اور راجپوت اقوام قومی جذبے کے ساتھ اُبھریں اور انھوں نے اپنی اپنی قوموں کی قدیم اورہم عصر تاریخ  کی تشکیل کی طرف توجہ دی جس کے نتیجے میں تاریخ نگاری میں ایک اہم تبدیلی آئی اور اس میں قومی جذبہ و فخر کاعنصر شامل ہوگیا۔اس زمرے میں خودمختار ریاستیں بھی آجاتی ہیں جیسے اودھ،رامپور،میسور وغیرہ ریاستیں جن کے نوابوں اور راجائو ں نے اپنی  ریاستوں کی تاریخ اپنی سر پرستی میں لکھوائی۔

اس طرح اورنگ زیب کے بعد کازمانہ ہندوستان میں اسلامی سلطنت کے تاریخی زوال،تخت نشینی کے لیے جنگ  و جدال اور نتیجہً علوم وفنون سے ایک گونہ بے رخی کا دور تھا۔علاوہ ازیں مغل سلطنت کے زوال کے ساتھ اگر ایک طرف فارسی زبان زوال پذیر تھی تو دوسری طرف اردو  نثر ترقی کی راہ پر گامزن تھی اور اردو کی تخلیق کی وجہ سے فارسی زبان کی طرف کم توجہ ہوتی گئی اور تاریخ سے متعلق کتابیں فارسی کے بجائے اُردو زبان میں لکھی جانے لگیں۔

حواشی

1       مولانا شبلی بہ حیثیت مؤرخ: پروفیسر خلیق احمد نظامی، معارف، مارچ 1986، 189

1       عہد وسطیٰ کے ہندوستان میں تاریخ نگاری، پروفیسر اقتدار حسین صدیقی، تحقیقات اسلامی، 1989، ص63

2       در حقیقت یہ کتاب دہلی سلطنت کی سب سے پہلی تاریخ ہے۔ اس میں سلطان شہاب الدین محمد غوری،قطب الدین ایبک اور التمش کے حالات و واقعات اس میں درج ہیں حسن نظامی ان سلاطین کے عہد میں موجود تھا اس کو اصل واقعات حاصل کرنے کے ذرائع میسر تھے، اس لیے یہ کتاب معتبر سمجھی جاتی ہے۔ مگر یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں تاریخی مواد کم اور سلاطین کی مدح سرائی زیادہ ہے۔

3       بقول پروفیسر اقتدار حسین صدیقی ’طبقات ناصری خاص طور پر بارہویں صدی عیسوی سے وسط ایشیا، ایران اور ہندوستان میں مسلم حکمرانی پر تاریخ کا بہت اہم ماخذ ہے (تحقیقات اسلامی 1989، ص50)  ہیئت کے اعتبار سے یہ تاریخ عمومی تاریخ ہے طبقات ناصری اسلامی حکومت کی ایک بلند پایہ تاریخ ہے یہ کتاب 23 طبقات پر مشتمل ہے۔ اس کا اسلوب اپنی ہمعصر تاریخوں جیسے تاریخ یمینی اور راحتہ الصدور کے برعکس سادہ اور سلیس ہے۔

4       اس کو طبقات ناصری کاتمتمہ کہا جا سکتا ہے۔ جس جگہ سے سراج نے طبقات ناصری لکھنا ختم کیا اسی جگہ سے ضیائ الدین برنی نے تاریخ فیروز شاہی کا آغاز کیا،  یعنی غیاث الدین بلبن کے عہد سے فیروزشاہ تغلق کے چھ سال کے عہد تک کے حالات درج ہیں۔

5       یہ کتاب بنیادی طور پر تاریخ عمومی عا لم اسلامی کے ضمن میںآتی ہے۔ جو مغزالدین محمد بن سام کے عہد حکومت سے شروع ہو کر مبارک شاہ کے حالات پر ختم ہو جاتی ہے۔ مبارک شاہ کے عہدکی یہ تاریخ ایک مفصل تاریخ ہے۔

6       اس میں صرف دس سال کے واقعات درج ہیں جب دس سال کے واقعات مرتب ہو چکے تو شاہی حکم سے اس کتاب کی ترتیب کا کام بند کر دیا گیا۔

7       اُردو زبان میں تاریخ نگاری کی ابتدا، اقتدار حسین صدیقی، سہ ماہی تحقیقات اسلامی، اکتوبرتادسمبر 1998، ص، 46

8   اٹھارہویں صدی کے دوران ہندوستان میں فن تاریخ نگاری، ظہیرالدین ملک، ہندوستانی دور وسطیٰ کے مورخین، محب الحسن، ص، 253

 

Dr. Shahnaz Begum

3234, Kucha Pandit, Lal Kuan

Delhi - 110006

Mob.: 9899730241

Email.: shahnaz.history@gmail.com





 





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں