7/7/22

فورٹ ولیم کالج کی تاریخی تصنیفات کا مختصر تعارف - مضمون نگار : حنا کوثر

 



اردو زبان و ادب کے فروغ میں مختلف دبستانوں، اداروں، کالجوں اور تحریکوں نے نمایاں اور بے پایاں کردار ادا کیا ہے۔ان کالجوںمیں سے ایک اہم کالج فورٹ ولیم کالج (1800) تھا جوزبان و ادب کی تاریخ کی نشوونما اور فروغ میں نمایاں حیثیت کا حامل رہا۔فورٹ ولیم کالج محتاج تعارف نہیں لیکن اس کے قیام و استحکام کے متعلق مختصراً ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کالج کے قیام اور اس کے استحکام کا سہرا گورنر جنرل لارڈ ویلزلی کے سر جاتا ہے۔ 1798 میں وہ گورنر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے اور 1805 تک اسی عہدے پر قائم رہے۔ ڈاکٹر عبیدہ بیگم اپنی کتا ب میں فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات اور اس کالج کے قیام کا پس منظر کچھ یوں پیش کرتی ہیں:

’’گورنر ویلزلی کا عہد آتے آتے مغلیہ سلطنت کے انحطاط کے ساتھ ساتھ فارسی کا بھی زوال ہورہا تھا۔ ویلزلی نے ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی مقامی حکمرانوں کو مغلوب کرنے کی تدبیریں شروع کر دیں۔ خوش قسمتی سے اسے ہر سیاسی محاذ پر فتح حاصل ہوتی گئی اور یوں جنوبی ہند سے لے کر شمالی ہند میں لکھنؤ کے نواب و وزیر تک کو اس نے اپنی پالیسیوں کے دام میں اسیر کر لیا… سول ملازمین کو مذکورہ دونوں زبانوں سے واقف کرانے کے لیے ویلزلی نے باقاعدہ تعلیمی سلسلہ شروع کیا تاکہ نظامِ سلطنت عمدہ طور سے چلایا جا سکے اور برٹش حکومت کو مستحکم کیاجا سکے اس خیال کے پیش نظر اس نے جو پہلا قدم اٹھایا وہ اور ینٹل سمیناری  تھا… ویلزلی کو اس زمانے کے انگریزوں میں گل کرسٹ ہندوستانی زبان کا ماہر نظر آیا چنانچہ اسی کی رائے سے یکم جنوری 1799 میں کلکتہ میں اورینٹل سمینری قائم کی گئی۔فروری 1799 میں جو نیئر سول ملا زمین کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ’اورینٹل سمینری‘ میں ہی تعلیم حاصل کریں،چنانچہ نووارد جونیئر سول ملازمین یہاں ایک سال تک تعلیم حاصل کرتے تھے۔اس ادارے کے دیگر مراحل اس کے قیام سے قبل ہی طے کرلیے گئے تھے۔ بحیثیت استاد گل کرسٹ کا تقرر 25 دسمبر 1798 میں ہوا۔ فروری 1799 سے باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوگیا۔فورٹ ولیم کے قیام کے بعد اس ادارے کو ختم کر دیا گیا۔‘‘1

اس ملک میں انگریزی حکومت کے قیام کے بعد سب سے بڑا مسئلہ در پیش آیا کہ اگر  ملک میں حکومت کو مستحکم بنانا ہے تو یہاں کے عوام و خواص کی بولی اور رسم ورواج کا علم ہونا بہت ضروری ہے۔گورنر ویلزلی کو یہ محسوس ہونے لگا کہ حکومت کا انتظام ہندوستانیوں کو ساتھ لیے بغیر ممکن ہی نہیں تو ان کے لیے اعلیٰ تعلیم کا انتظام شروع کیا جائے۔ 1781میں وارن ہنیگیز (Warren Hinged)نے کلکتہ میں مدرسہ عالیہ قائم کیا، جہاں مسلمانوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کا بندوبست کیا گیا۔اسی کے ساتھ ساتھ بنارس میں 1791 میں سنسکرت کالج کا قیام عمل میں آیا۔ان دو اداروں کے قیام کے بعد 1800 میں فورٹ ولیم کالج کی بنیاد لارڈ ویلزلی نے ڈالی جس کا اصل مقصدایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز ملازموں کو تعلیم دینا تھاتاکہ وہ ہندوستان میں بہتر خدمات انجام دے سکیں۔ ہندوستانی ادب و زبان کو کالج نے اس معیار تک پہنچایا جس کی اہمیت آج تک قائم و دائم ہے۔ ڈاکٹر جان گلکرسٹ جو ہر لحاظ سے ہندوستانی زبان کے حامی تھے انھیں اس کا لج کا پرنسپل مقرر کیاگیا، گرچہ اس کالج کے قیام کامقصد انگریز آفسروں کو ایک تربیت گاہ فراہم کرنا تھا اس کے نتیجے میں ایک ایسی موثر تحریک وجود میں آگئی جس نے اردو ادب کو زیادہ متاثر کیا۔

فورٹ ولیم کالج میں یونانی،لاطینی اور یورپ کی جدیدزبانوںاور انگریزی ادب کے علاوہ عربی،فارسی، ہندی،سنسکرت،بنگالی،مراٹھی اور تامل زبانوں کی تعلیم کا انتظام کیا گیا تھا لیکن مشرقی زبانوں بالخصوص اردو اور فارسی خاص توجہ کی حامل تھی کیونکہ مغلیہ سلطنت میں سرکاری زبان فارسی تھی۔ہندوستانی حکومت کے اختتام کے ساتھ ساتھ فارسی کا زوال قریب تر تھا اور اس کی جگہ ہندوستان کی عام بول چال کی زبان یعنی اردو عروج پر ہی تھی۔ اس ادارے کے قیام کے وقت اس زبان کا سرمایہ نہ کے برابر تھا صرف کچھ داستانوں اور مذہبی تحریروں کی شکل میں موجود تھا جو تعلیمی مقاصد کے لحاظ سے مختصر تھااور اس ادارے کے منتظمین یہ ارادہ رکھتے تھے کہ وہ اپنے طالب علموں کو ایسی زبان میں تعلیم دیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم وقت میں لائق اور عالم بن جائیں۔ اسی مقصد کے لیے کالج نے ملک کے مختلف حصوں سے ادیبوں کو جمع کرنا شروع کیا اور ان سے عام فہم اور سادہ و سلیس زبان میں ایسی کتابیں ترجمہ وتصنیف کروائیں جن سے ہندوستان کے رہن سہن، رسم و رواج، عقائد، عادات و اطوار اورعوامی زندگی کے اہم پہلوؤں سے واقفیت ہو سکے۔نورالحسن نقوی اپنی کتاب ’تاریخ ادب اردو‘ میں گلکرسٹ سے متعلق رقمطراز ہیں:

’’گلکرسٹ نے فورٹ ولیم کالج میں ر ہ کر اردو زبان کی زبردست خدمت کی۔ انہی کی کوشش سے کالج کے ساتھ ساتھ ایک بڑا کتب خانہ اور پریس بھی قائم کیا گیا تھا جس میں نستعلیق ٹائپ سے کتابیں چھاپی جاتی تھیں۔‘‘2

فورٹ ولیم کالج کے ابتدائی دور میں مختلف قسم کی پریشانی کے ساتھ ساتھ جب اردو کی تعلیم دینے کی شروعات ہوئی تو گلکرسٹ کی تحقیق کے مطابق اردو ہی ایک ایسی زبان تھی جس کو ہندوستانی عام بول چال کی زبان کہا جاتا تھا اس کو گر ی پڑی بولی کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ اس زبان میں کوئی خاص موادموجود نہیں تھاجو طلبا کے علم میں اضافہ کرسکے کتابوں اور مواد کی فراہمی کے لیے وہاں کے منتظمین نے اہل قلم کی تلاش میں اشتہار جاری کیا۔گلکرسٹ کی اس کوشش کی بنا پر کلکتہ میں سارے ملک کے دانشور و اہل قلم جمع ہونے لگے جو مختلف موضوعات اور زبانوںکے ماہر تھے۔اردو زبان و ادب اور تاریخ نگاری کے خاص مصنفین میں میر امن،میر شیر علی افسوس، میر زا علی لطف،میر بہادر علی حسینی،میر حیدربخش حیدری، کاظم علی جوان، نہال چند لاہوری، للّو لال جی، مظہر علی خاں ولا، خلیل علی خاں اشک،سید بخشش علی فیض آبادی اور بینی نراین وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔ گلکرسٹ کی کوششوں کے بارے میںڈاکٹر عبیدہ بیگم نے اپنی کتاب میں اس طرح لکھا ہے۔

’’گلکرسٹ کل چار سال شعبہ ہندوستانی سے وابستہ رہے۔ …… گل کرسٹ کی صدارت میں ہی ہندوستانی شعبے نے تصنیف اور تالیف کے میدان میں ایسے کارنامے انجام دیے جو ہمارے لیے باعث افتخار ہیں۔ انھوں نے فاضل منشیوں اور پنڈتوں کو ملازم رکھ کر ان سے نہ صرف درس وتدریس کا کام لیا بلکہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی بروے کار لائے۔‘‘3

فورٹ ولیم کالج کے زیر نگرانی ترجمہ نگاری،تاریخ نگاری، مولف اورتالیف کی گئی کتابوں کے مطالعے سے یہ علم ہوتا ہے کہ اس ادارے میں عوامی دلچسپی کو نظر میں رکھتے ہوئے داستانوی ادب کی طرف زیادہ توجہ دی گئی۔ان داستانوں اور کہانیوں میں فارسی، سنسکرت اور ہندی زبان کے قصوں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھال کر طالب علموں کی دلچسپی کا سامان مہیا کیا گیا جس سے داستان گوئی کے فن کو فروغ ملا انھیں داستانوی ادب سے ہندوستانی تہذیب و معاشرت کے اہم پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔داستانوی ادب کے علاوہ اردو زبان و قواعد پر بھی اچھی خاصی کتب سامنے آتی ہیں۔

اردوادب میں تاریخ نگاری کی روایت کا آغاز اٹھارہویں صدی عیسویں کے آخر میں ہوا، جو کسی حد تک ترجموں اور دوسری روایتوں کی مرہون منت رہیں کیونکہ ترجمے ہی اردو میں تاریخ نگاری کی ابتدائی روایت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ فورٹ ولیم کالج نے بڑی تعداد میں اردو میں تاریخ نگاری کے موضوع پر کتابیں ترجمہ و تالیف کی ہیں۔تاریخ نگاری کے سلسلے میں ڈاکٹر شہناز بیگم نے اپنی کتا ب میں اس طرح ذکر کیا ہے:

’’اردو تاریخ نگاری کی روایت کا آغازاٹھارویں صدی  عیسویں کے آخر میں ہوا… اس سلسلے میں فورٹ ولیم نے نمایاں کارنامہ انجام دیا کیونکہ اردو نثر کی تصنیف و تالیف نیز تراجم کا باقاعدہ آغاز فورٹ ولیم کالج کے تحت شروع ہوا۔ فارسی کی چند تاریخ کے موضوع سے متعلق کتابوں کو بھی اردو میں ترجمہ کرنے کی کوشش ہوئی لیکن فورٹ ولیم کالج سے قبل چند اردو میں تاریخیں مل جاتی ہیں۔ان میں ’قصّہ و احوال روہیلہ‘ہے جسے محققین نے اردو میں تاریخ کے موضوع پر پہلی کتاب مانا ہے۔

فورٹ ولیم کی ان خدمات سے مابعد کے مصنّفین میں تحریک پیدا ہوئی اور انھوں نے ابتدائی کوششوں کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ اردو تاریخ نگاری کے تصنیفی رجحان کو بھی فروغ دیا…‘‘4

تاریخ نگاری سے متعلق فورٹ ولیم کالج میں جو بھی ترجمہ نگاری یا تصنیف و تالیف عمل میں آئی اُن میں یہ مصنّفین خاص طور پر اہمت کے حامل ہیں۔جیسے بہادر علی حسینی،میر شیر علی افسوس، سید بخشش علی فیض آبادی، حیدر بخش حیدری،مظہر علی خاں ولا، مرزا کاظم علی جوان اور خلیل علی خاں اشک وغیرہ۔ان مصنّفین کی تاریخی کتابوں کا مختصرتعارف پیش کیا جاتا ہے۔

تاریخ آشام:  ولی احمد شہاب الدین تائش کی فارسی تاریخ کا ترجمہ’ تاریخ آشام ‘کے نام سے بہادر علی حسینی نے 1805 میں مکمل کیاتھا۔ یہ ایک تاریخی واقعے پر محیط ہے جو کہ آسام کی طرف کوچ کا ہے جس میں اورنگ زیب عالم گیر بادشاہ کی سلطنت میں نواب عمدۃ الملک سیر محمد سعید جو کہ آشام (آسام)کی مہم تھی اسی پر پورا واقعہ بیان کیا اس مہم میں کیا کیا واقعات پیش آئے کیونکہ اس مہم کے سفر میں ولی محمد شہاب الدین نواب کے ہمراہ تھے جن کی وجہ سے تمام سفر کے حالات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ اس کتاب کا نام’فتحیہ عبرت‘ تھا۔ اس کتاب میں دو سفر کے واقعات ہیں پہلابہار اور دوسرا آسام۔آسام کی فتح کے لیے لشکر کے کوچ سے لے کر اُس مہم میں آنے والی تمام دشواریوںجیسے راستے کی آب وہوا کی ناواقفیت کا ذکر بھی ہے۔ ’ تاریخ آشام ‘میں مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے فتح تک کے حالات کا ذکر ملتا ہے۔

تاریخ آشام‘ صرف ایک تاریخی کتاب ہی نہیں بلکہ اُس وقت کے آسام کے سیاسی، سماجی،فکری،معاشی حالات پر ایک مکمل دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔

اس کتاب میں بہادر علی حسینی نے جو زبان استعمال کی ہے وہ صاف،سادہ،رواں اور بامحاورہ ہے لیکن بعض جملوںمیں بڑی بے کیفی اور الجھاؤ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اس کے ترجمے میں انہوں نے کہیں کہیں مقامی زبان اور ہندی کے الفاظ کا استعمال کیا ہے جو بوجھل پن کا احساس دلاتا ہے جس سے روانی میں کمی محسوس ہوتی ہے۔

آرائش محفل:  میر شیر علی افسوس نے کتاب ’خلاصۃ التواریخ‘ کے ایک حصے کا ترجمہ’آرائش محفل‘کے نام سے مسٹر ہارنگٹن اور کالج کونسل کی فرمائش پر کیا جو تقریباً 1805  میں مکمل ہوا۔ ’خلاصتہ التواریخ‘ منشی سبحان رائے بھنڈاری کی تاریخی کتاب ہے جس میں انھوں نے اٹھارہ صوبوں کے احوال اور مسلم سلاطین کے مختصر تذکرے بھی شامل کیے ہیں۔

افسوس نے اصل ماخذ کے مطابق ’آرائش محفل‘ میں حذف و اضافے کا سہارا لیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب کی ابتدا میں ہندوستان کی تعریف و توصیف ذکر کرتے ہوئے اپنے ملک کی آب و ہوااور جغرافیائی حالات کا ذکر کیا ہے۔اپنے ملک کے اختصاص کا ذکر کرتے ہوئے پھل، پھولوں، میوؤں، جانوروں، علم و کمال،رسم ورواج، تجارت، فقیری وغیرہ کاذکر کیا ہے۔ افسوس نے’ آرائش محفل‘ میں 22 صوبوں کے علاوہ کچھ ایسے مقامات کا ذکر بھی کیا ہے جو اصل کتاب میں موجود نہیں۔جیسے ناول، مرزاپور، مرشدآباد، ہوگل، بندر ہوگل، کلکتہ  اور چندن نگر وغیرہ۔

راجاؤں اور سلاطین کے ذکر میں افسوس نے راجہ جدہشٹر سے لے کر پرتھوی راج (پتھورا)تک کا احوال شامل کیا۔ ترجمے میں انھوں نے حرف بہ حرف اور لفظ بہ لفظ کی پیروی کی ہے اور بعض جگہ پر صرف مفہوم ہی کو ادا کیا ہے۔

آرائش محفل‘ تاریخی لحاظ سے بے حد اہم کتاب ہے اور جو زبان و بیان کے اعتبار سے بھی اہمیت کی حامل ہے۔ افسوس نے تاریخی بیا نات کو بے حد دلکش انداز میں اور شہروں کے بیان میں وجہ تسمیہ کا خیال بھی رکھا ہے۔

کلی طورپر جب ہم ’آرائش محفل‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تویہ کتاب زبان و بیان کا ایسا نمونہ لگتی ہے کہ جس سے اس دور کی نثری کاوش کا گمان ہوتا ہے۔

اقبال نامہ:  ’اقبال نامہ‘ جو کہ منشی غلام حسین کی کتاب فارسی تاریخ’سیر المتاخرین‘ کے ایک حصے کا ترجمہ ہے۔ سید بخشش علی نے ولیم ٹیلر اور مارٹن کی فرمائش پر اس کا ترجمہ کیا تھا۔اس کتاب میں مترجم نے انگریزوں کی ابتدائی حکومت،شجاعت وبہادری اور عدل وانصاف کا ذکر بحسبِ ضرورت تفصیل و مبالغہ آرائی سے کیا ہے۔اس کتاب کی تکمیل کی تاریخ نہیںملتی لیکن جب یہ فورٹ ولیم کالج تبصرے کے لیے پہنچی وہ سنہ 1825  تھا۔

اقبال نامہ‘ انگریزوںپرمدحیہ کلمات کی کتا ب ہے۔ جو سراج الدولہ کے جنگی واقعات کے ذکر سے شروع ہوتی ہے۔بخشش علی نے اس کتاب میں سراج الدولہ کا کلکتہ پر حملہ اور انگریزوں کی حکمت عملی،ان کی فہم و فراست،غور وفکر کی تعریف کرتے ہوئے سراج الدولہ کی جنگ میں شکست ہونا، قید ہونااور قتل کیے جانے کا ہولناک منظر پیش کیا ہے جو روح کو جھنجھوڑدیتا ہے۔

اقبال نامہ‘ میں ہندوستانی حکومت کے آخری دور کی تاریخ بیان کی گئی ہے جس میں نوابین یا امرا کے جنگی حالات اور ان کا انگریزوں سے شکست یا صلح کرنا ان تمام حوالوں کا ذکر کیا گیا ہے جو تاریخی اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔اس تاریخی کتاب میں تاریخی تسلسل پایا جاتا ہے۔خاص تاریخی ہستیوں کے علا وہ ان کے درمیان جو بھی معمولی معاملات ہوئے ان کا ذکر بھی ملتا ہے۔ خاص طور سے بنگال کی تاریخ کے حوالے سے یہ کتاب ایک آسان اور عمدہ دستاویز بھی ثابت ہوئی۔

بخشش علی نے ’اقبال نامہ‘ کی زبان و انداز بیان کو بہت ہی دلچسپ اور عام فہم گفتگو کے انداز میں لکھا ہے جس کی وجہ سے اس کے بیان میں لطف محسوس ہوتا ہے۔

تاریخ نادری:  ’تاریخ نادری ‘نادر شاہ منشی محمد مہدی کی فارسی تصنیف ہے۔جس کتاب کا ترجمہ حیدر بخش حیدری نے 1809 میں دلیم ٹیلرکے کہنے پر ’تاریخ نادری ‘کے نام سے کیا۔اس تاریخی کتا ب میں نادر شاہ کے حالاتِ زندگی اور ایران کی بہت مفصل تصویر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس میں نادر شاہ کی پیدائش، عقد، اولاد، تخت نشینی، مہموں اور عادات و اطوار وغیرہ کا تفصیلی ذکر ملتا ہے۔ اس کتاب میں تقریباً ایک سو تیرہ تاریخی واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر عبیدہ بیگم نے اس کتاب کے متعلق جو بیان کیا ہے وہ ملاحظہ فرمائیں:

’’تاریخ نادری سے اس زمانے کے ایران کی جو تصویر سامنے آتی ہے اس سے علم ہوتا ہے کہ ایران میں سکون و اطمینان کا فقدان تھا۔ حکومت اور اقتدار کے لیے سیاسی کشمکش عروج پر تھی۔ارباب حل و عقد سازشوں اور طرح طرح کی ریشہ دوانیوں میں مصروف تھے..... منشی محمد مہدی نے نادر شاہ کی بے انتہا تعریف و توصیف کی ہے جس سے جانب داری کی بو آتی ہے۔نادر شاہ ظالم و جابر اور مطلق العنان حکمراں تھا لیکن مصنف نے بادشاہ کی کمزوریوں اور خامیوں پر پردہ ڈالنے یا اس کے بہیمانہ سلوک کے اثرکو کم کرنے کے لیے طرح طرح کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘5

اس تاریخی کتاب میں سید حیدر بخش حیدری نے زبان و بیان پر زیادہ توجہ مرکوز نہیں کی بلکہ انہوں نے اصل کی طرح ہو بہ ہو ترجمہ کر دیا جس وجہ سے بعض جگہوں پر پڑھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اس کی اصل فارسی ہے یا اردو جبکہ ایسی عبارتیں کم ہی ہیں۔اس ترجمہ میں قابل دید چیز ترکی الفاظ کی مختصر فرہنگ ہے جو اہمیت کی حامل ہے۔

تاریخ شیر شاہی :  مظہر علی خاں ولا کی ایک اہم تاریخی کتاب ’تاریخ شیر شاہی‘ہے جو ناقابل فراموش ہے۔ فارسی کی تاریخی کتاب ’تاریخ تحفۂ اکبر شاہی‘ کے تیسرے طبقے کا ترجمہ ’تاریخ شیر شاہی‘ کے نام سے مظہر علی خاں نے کیپ ماونت کی فرمائش پر کیا۔ یہ کتاب 1805 میں مکمل ہوئی جس کا ذکر ڈاکٹر عبیدہ بیگم نے اپنی کتاب میں اصل متن کے حوالے سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے ملاحظہ فرمائیں:

’’ترجمہ شیر شاہی کا پانچویں تاریخ جمادی الاول بعد از نماز جمعہ سنہ بارہ سے بیس ہجری مطابق دوسری ماہ اگست سنہ اٹھارہ سو پانچ عیسوی میں سر انجام ہوا۔‘‘6

تاریخ شیرشاہی‘ اصل میں شیر شاہ سوری کے عہد حکومت کی تفصیلی تاریخ ہے، جس کی  ابتداسلطان بہلول لودی کی دہلی پر تخت نشینی سے ہوئی۔اس کتاب میں پٹھانوں کا ذکر بھی ملتا ہے اورزیادہ تر شیر شا ہ کے متعلق ہی تفصیلی بیان ملتا ہے جیسے ان کی پیدائش،زندگی کے حالات تحصیل علم، سیاسی میدان میں کس طرح قدم رکھا وغیرہ  اس کے علاوہ شیر شاہ صرف سلطنت کے حصول و فروغ ہی میں کوشاں نہیں تھے بلکہ وہ بہترین منتظم بھی تھے ان کی حکومت میں ہر خاص و عام محفوظ و مطمئن تھا۔

مظہر علی خاں نے اس کتاب میں اس بات کا خصوصی خیال رکھاہے کہ کوئی تاریخی واقعہ نہ چھوٹنے پائے جس کے بنا پر لفظ بہ لفظ ترجمہ کرنے کی کوشش کی اور روانی، سادگی اور سلاست و اندازِ بیان کا لحاظ بھی رکھا ہے۔  اس کتاب کے ترجمے میں فارسی کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔

جہاں گیر شاہی:  مظہر علی خاں ولا کی ایک اور نادر تاریخی کتاب ’جہاں گیر شاہی‘ جو فارسی تاریخی کتاب ’اقبال نامۂ جہاں گیری‘کا مفصل ترجمہ ہے جس کو مظہر علی ولا نے 1809 میں مکمل کیا۔ اس کتاب میں بادشاہ جہاں گیر کے عروج کی تاریخ رقم کی گئی ہے۔ اس تاریخی کتاب کی ابتدا شاہجہاں گیر کی تخت نشینی،ارکان حکومت اور دیگر دوسرے امرا  و روسا کے عہدوں کی تقسیم و ترقی کے ذکر سے ہوتی ہے۔

  ترجمہ نگار نے اس کتاب میں خاص واقعات پر زیادہ توجہ مرکو ز کی ہے۔جیسے بادشاہ شاہ پرویز کے ذریعے رانا کا استقبال، دوسرے چھوٹے چھوٹے تاریخی واقعات کا ذکر پیش کیا ہے  جس کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ترجمہ نگار نے اس کتاب کے ذریعے اُس دور کی سماجی  معاشی ثقافتی، معاشرتی حالات،سیاسی حالات پر تفصیلی معلومات پیش کی ہے۔یہ کتاب شاہجہاں کی 22 سالہ حکومت پر محیط ہے جو فتوحات،جنگ وجدال، عادات واطوار، شجاعت،دریادلی کے بیانات سے پُر ہے جس میں بادشاہ کے کردار کی خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیاہے۔اس  ترجمے کو اصل کا عکس کہا جاتا ہے کیونکہ حرف بہ حرف یکساں ہے۔بادشاہ کی حکومت کا صرف ایک پہلو ہی نظر آتا ہے جبکہ اصل میں دوسرا کچھ اور ہی ہے۔

مظہر علی خاں ولا نے اس کتاب کے ترجمے میں بہت ہی صاف، سادہ سلیس، آسان و دلکش زبان کا استعمال کیا ہے۔ ولا کے اندازِ بیان میں شگفتگی بھی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔

انتخاب سلطانیہ:  مسٹر مارونٹ رکٹس کے کہنے پر خلیل علی خاں اشک نے 1805 میں ’انتخاب سلطانیہ‘ کو تالیف کیا۔اشک نے اس کا تاریخی نام دیا ہے جو کہ اسی کتاب کے دیباچے میں شامل ہے جس کا ذکروہ کچھ اس انداز میں کرتے ہیں کہ اس کتاب میں شاہ عالم کے شہر کے مختلف بادشاہوں کے احوال مذکور ہیں اس لیے اس کتاب کا نام ’انتخاب سلطانیہ‘ رکھا ہے۔یہ کتاب ابھی بھی غیر مطبوعہ ہے جو کہ ایشاٹک سوسائٹی آف بنگال میں موجود ہے۔

اس تاریخی کتاب کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ یہ کسی خاص کتاب کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ متعدد کتابوں سے اخذ کرکے اپنے الفاظ میں لکھی گئی ہے۔اس میں دلی سلطنت کی بنیاد سے شاہ عالم بادشاہ تک تمام شاہوں کا حال اختصار سے بیان کیا گیا ہے۔اس کی تاریخ اس طرح شروع ہوتی ہے کہ معراج الدین شام کا ہندوستان میں داخل ہونا،فتح و کامرانی، نظم و نسق اور غلام قطب الدین ایبک کو اپنا قائم مقام مقرر کرنااور اس کی واپسی کاذکر ہے۔ اس کے بعد قطب الدین ایبک،غلام بادشاہ، خلجی، تغلق، لودھی، پٹھان اور مغل بادشاہوں کے مختصر اور جامع تاریخی حالات اور واقعات کا ذکر ملتا ہے۔اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بادشاہوں کا مختصر، جامع تاریخ اور اجمالاً اہم واقعات درج کیے گئے ہیں۔

انتخاب سلطانیہ‘ اشک کی تاریخی کتاب کے ساتھ ساتھ مولف کے حالات زندگی کی تفصیل کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اس کتاب میں اشک نے صاف،سلیس اور سادہ زبان استعمال کیا ہے جبکہ اس کے اسلوب میں پیچیدگی نظر آتی ہے کیونکہ اس میں اشک نے مقامی الفاظ کا استعمال بھی کیا ہے۔

حواشی

1 فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات: عبیدہ بیگم، نصرت پبلشرز لکھنؤ1893، ص 28-30،

2       تاریخ ادب اردو،نورالحسن نقوی،ایجوکیشنل بُک ہاؤس شمشاد مارکٹ علی گڑھ2010، ص264

3       فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات: عبیدہ بیگم، ص 89

4       اردو میں تاریخ نگاری کی تاریخ: ابتدا اور ارتقا (اٹھارہویںصدی سے لے کر1947  تک) ڈاکٹر شہناز بیگم، جے۔کے آفسیٹ پرنٹرز، دہلی2008، ص 357

5       فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات۔عبیدہ بیگم، ص 527

6       ایضاً، ص 530

 

Dr. Hina Kausar

Nai Aabadi, Berola, Jafrabad

Aligarh - 202002 (UP)

Mob.: 9319215561

 

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں