7/7/22

اردو کا پہلا خاکہ اور خاکہ نگار - مضمون نگار: ارشاد آفاقی

 



  عموعی طور پر اردو کے محققین اور ناقدین اس بات پر ر طب اللسان ہیںکہ اردو کا پہلا خاکہ ’نذیر احمد کی کہانی - کچھ میری اورکچھ اُن کی زبانی‘ ازفرحت اللہ بیگ ہے۔ یہ طویل اور دلچسپ خاکہ، پہلی بار انجمن ترقی اردو(ہند) کے رسالے ’اردو‘ کے شمارہ جولائی 1927 میں چھپا تھا۔ غالباً یہ پہلی تحریر ہے جو فرحت اللہ بیگ کے نام سے شائع ہوئی تھی، ورنہ اس سے قبل وہ عموماً ’مرزاالم نشرح‘ کے قلمی نام سے لکھا کرتے تھے۔ یہ لازول و بے مثال خاکہ ، صاحب خاکہ اور خاکہ نگار دونوں کے لیے شہرتِ عام اور بقائے دوام کا سبب بنا اور اب تک اسے اردو کاپہلا خاکہ اور فرحت اللہ بیگ کو پہلے خاکہ نگار کا منصب حاصل ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر شمیم حنفی، ڈاکٹر بشیر سیفی، خلیق انجم، مبین مرزا، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی اور یحییٰ امجد وغیرہ متفق الرائے ہیں کہ اردو میں خاکہ نگاری کا باقاعدہ آغاز فرحت اللہ بیگ کے تحریر کردہ خاکے ’نذیر احمد کی کہانی -کچھ میری اورکچھ اُن کی زبانی‘سے ہوتا ہے۔ اگرچہ مذکورہ بالاتمام ناقدانِ فن کے اقوال نقل کیے جاسکتے ہیں مگر طوالت سے بچنے کے لیے درج ذیل چند اقتباس بطورِ سند پیش کرنے پر اکتفا کروں گا۔بقول پروفیسر شمیم حنفی:

’’ اصطلاحی معنوں میں اردو خاکہ نگاری کا آغاز مرزا فرحت اللہ بیگ سے ہوتا ہے۔ڈپٹی نذیر احمداور وحید الدین کی جیسی بے مثال تصویریں مزرافرحت اللہ بیگ نے لفظوں میں اتاری ہیں۔ انھیںآج بھی اردو خاکہ نگاری کی روایت کا روشن ترین نقش کہا جا سکتا ہے‘‘  1

اس حوالے سے دوسرا قول خلیق انجم کا ملاحظہ فرمائیں:

’’خاکہ نگاری کو باقاعدہ فن کے طور پر غالباً مرزا فرحت اللہ بیگ نے اپنا یا۔انھوں نے ڈپٹی نذیر احمدکا جو خاکہ لکھا ہے،وہ اردو خاکہ نگاری کی تاریخ میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔یہ اردو کا پہلا طویل اور مکمل خاکہ ہے اور سیکڑوں صفحات پر مشتمل سوانح سے زیادہ بھاری ہے۔‘‘   2

اس سلسلے میں جو آخری بیان نقل کرنا چاہتا ہوں،وہ مبین مزرا کا ہے۔بقول ان کے:

’’ مولانامحمد حسین آزاد کے بعد مرزا فرحت اللہ بیگ کا ایک ایسا مضمون ہمیں ملتا ہے جسے فنی قواعد کے پیشِ نظررکھتے ہوئے باضابط طور پر اردو کا پہلا خاکہ قرار دیا جاسکتا ہے اور وہ ہے’ڈاکٹرنذیر احمد کی کہانی -کچھ میری  اورکچھ اُن کی زبانی۔‘اس مضمون میں فرحت اللہ بیگ نے نذیر احمد کے حوالے سے شخصی یادوں اور معاشرتی حوالوں کو بیان کی سادگی،اسلوب کی شگفتگی اور تخیل کی پرکاری کے ساتھ اس خوبی سے گو ندھا ہے کہ یہ مضمون اردوکا پہلا ہی نہیں بلکہ اب تک لکھا جانے والا بہترین خاکہ قرار پاتا ہے۔  ایک نئی صنفِ ادب کے حق میں یہ مضمون  بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا کہ آگے چل کر خاکہ نگاری نے ادب میں بذاتہ ایک صنف کی حیثیت حاصل کی اوراپنی الگ عمارت تعمیر کی تو اس عمارت کی بنیاد کا پتھر یہی  مرزا فرحت اللہ بیگ کا لکھا ہوا خاکہ قرار پایا۔‘‘3

مذکورہ بالاناقدین مرزا فرحت بیگ کو اردو کا پہلا خاکہ نگار اوران کے تحریر کردہ خاکے بعنوان ’نذیر احمد کی کہانی -کچھ میری اورکچھ اُن کی زبانی‘ کو پہلا خاکہ تسلیم کرتے ہیں۔مگر تحقیق میں کوئی بات حرف آخر کا درجہ نہیں رکھتی۔ تاریخی اعتبار سے اردو کا پہلا خاکہ ’حسرت موہانی (ایک قدر دان کی نظر سے)‘ از خافی خان ہے۔یہ خاکہ پہلی بار رسالہ ’زمانہ‘کانپور دسمبر 1908 میں شائع ہوا۔اس سلسلے میںڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی اپنی تصنیف ’یہ لوگ بھی غضب تھے‘  میں رقمطراز ہیں:

’’ ہمارے محققین مرزا فرحت اللہ بیگ کے مضمون ’نذیر احمدکی کہانی …کچھ ان کی،کچھ میری زبانی‘ کو اردو کا پہلا باضابط خاکہ قرار دیتے ہیں…سید سجاد حیدر یلدرم اس سے پہلے حسرت موہانی کا خاکہ خافی خان کے نام سے لکھ چکے تھے جو دسمبر 1908 کے رسالہ’زمانہ‘ کانپور میں شائع ہوا تھا۔‘‘4

ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی نے مذکورہ کتاب کے پیش لفظ بعنوان ’چہرہ نما‘ میں یہ بیان 16  اپریل 1988  میں تسوید کیاہے۔جس کی طرف بعد میں نہ تو خود ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی اور نہ ہی دوسرے ناقدین ومحققین نے اس جانب بھرپوردھیان دیا ہے۔بلکہ یہ تحقیقی معاملہ ہنوزجوں کا توں ہے۔البتہ انیس سال بیت جانے کے بعد یعنی 2007  میں قدرت اللہ شہزاد نے اپنی تصنیف ’اردو کے چند خاکہ نگار‘ میں ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی کی اسی بات کو درج ذیل لفظوں میں دُہرایاہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کی اردو کے پہلے خاکہ نگار مر زا رحت اللہ بیگ ہیںجنھوں نے ڈپٹی نذیر احمدکا لازوال خاکہ لکھ کر شہرت دوام پائی۔لیکن ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی پہلے خاکہ نگار کے طور پر سجاد حیدر یلدرم  کا کھوج لگاتے ہیں جنھوں  نے فرحت اللہ بیگ سے کہیں پہلے دسمبر 1908 میں حسرت موہانی کا خاکہ ’خافی خان‘ کے نام سے لکھا جو’زمانہ‘ کانپورمیں شائع ہوا۔‘‘5

ماسوائے مذکورہ بیانات،بقیہ تفصیل ندارد،شاید انھیں اس خاکے کا متن دستیاب نہ ہو سکا۔کیونکہ یہ خاکہ متحدہ ہندوستان میں ایک صدی قبل شائع ہو چکا تھا۔اس لیے تنقیدی اور فنی زاویہ نظر سے اس پر کلام کرنے سے قاصر رہے۔حالانکہ فنی لوازم ہی حتمی رائے قائم کرنے کی بنیاد ٹھہریں گے۔ اس حوالے سے میں نے تلاش وجستجو جاری رکھی اور میں نے رسالہ ’زمانہ‘ کانپور کی فائیلیں کھنگالنی شروع کیں، جس کے بعد مجھے ’حسرت موہانی (ایک قدر دان کی نظر سے)‘از خافی خان دسمبر 1908، 6  کے  شمارے میں ملا۔ایک طرف خاکہ ملنے کے ساتھ ہی میری تحقیق مکمل ہوئی۔مگر دوسری جانب تحقیق کا ایک اور باب وا ہو گیا،کیونکہ یہاں مصنف کا نام ’خافی خان‘ لکھا ہوا ہے۔اس لیے اس بات کی تہہ تک جانا میرے لیے لازمی بن گیا کہ آیا ’خافی خان‘ سید سجاد حیدریلدرم ہی ہے یاکوئی اور۔ اگر چہ ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی  (1932-2008) کے اقتباس سے اس بات کااشارہ ضرور ملا اور چند رسائل مثلاً ’نگار‘ لکھنو جنوری 1963 اور ’پگڈنڈی‘ امرتسر (سید سجاد حیدریلدرم نمبر) اپریل 1961  پر کسی نے قلم سے لکھا کہ ’خافی خان‘ سیدسجاد حیدر یلدرم ہی ہیں۔پھر بھی میں نے اپنی کوشش جاری رکھی اور مجھے اس حوالے سے جو معلومات حاصل ہوئی۔وہ اس طرح ہیں۔ بقول عابد رضاصاحب بیدار:

’’خافی خان کے نام سے زمانہ دسمبر 1908  میں ایک مضمون ’حسرت موہانی‘ شائع  ہوا تھا۔… خافی خان،  والا مضمون سجاد حیدر یلدرم  کا لکھا ہوا ہے۔یہ مجھے ابوالخیر کشفی صاحب نے بتایا اور خود انھیں حسرت نے بتایا تھا۔‘‘   7

مندر جہ بالا حوالے سے یہ بات پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے کہ حسرت  موہانی پر تحریر کردہ خاکہ بعنوان ’حسرت موہانی(ایک قدر دان کی نظر سے)‘ سید سجاد حیدر یلدرم  (1880-1943) نے لکھا ہے۔جو اپنے زمانے کے مشہور ومعروف رسالہ ’زمانہ‘ کانپور میں دسمبر 1908 میں شائع ہوا۔ اس سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ ہمارے یہاں خاکہ نگاری کی ایک صدی 2008  میں مکمل ہو چکی لیکن میرے ذہن میں ایک اور سوال نے جنم لیاکہ سیدسجاد حیدر یلدرم  نے اپنے اصلی یا قلمی نام سے یہ خاکہ کیوں نہیں لکھا یا شائع کیا۔بجائے اس کے انھوں نے فرضی نام کا سہارا لے کر اپنے قریبی دوست کا خاکہ لکھا۔اس کی کیا وجہ ہے۔ اس سلسلے میں پہلا مستندحوالہ یلدرم کی صاحبزادی اور اردو کی نامور ادیبہ قرۃالعین حیدر کا نقل کرتا ہوں۔وہ لکھتی ہیں:

’’1908  اردو ئے معلٰی علی گڑھ کے ایک شمارے میں مصر میں برطانوی پالیسی پر نکتہ چینی کی گئی۔ مولانا حسرت موہانی  پر مقدمہ چلا جو ہندوستان کا پہلا مقدمہ تھا۔ دو سال قید سخت کی سزا ہوئی۔یلدرم  نے ان کے متعلق ایک مضمون لکھا۔…… سجاد حیدر نے جو سابق امیر کابل کی نگرانی پر دہرہ دون میں تعینات تھے اور افغانستان میں برطانوی پالیسی کے خلاف ایک لفظ نہ کہہ سکتے تھے خافی خان کے فرضی نام سے لکھا۔‘‘  8

اس حوالے سے دوسرامعتبرقول جناب عتیق صدیقی کا ہے۔وہ لکھتے ہیں:

’’ یلدرم،جو علی گڑھ میں حسرت کے ہم عصر ہی نہیں ان کے گہرے دوست بھی تھے اور ان کے ذہنی ارتقائ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔انھوں نے عارف ہنسوی  9  سے دس سال پہلے حسرت پر ایک طو یل مقالہ  1908  میں لکھا تھا۔ حسرت پر لکھا جانے والا یہی پہلامقالہ تھا، جوجرمِ بغاوت میں حسرت کے سزایاب ہونے کے فوراً بعد لکھاگیاتھا،اور ’خافی خان‘ کے فرضی نام سے شائع ہوا تھا۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یلدرم نے یہ مقالہ لکھ کر حسرت کے ساتھ دوستی کا حق ادا کیا تھا۔یہ اور بات ہے کہ وقت کے تقاضے سے مجبور ہو کر اپنے قلم کے چہرے پر انھوں نے ’خافی خان‘ کے نام کی نقاب ڈال لی تھی اس وقت حکومت اور خداوندانِ کالج دونوں حسرت کو جس غضب آلود نظروں سے دیکھ رہے تھے، اس کے پیش ِ نظر حسرت کے ساتھ علانیہ ہمدردی کا اظہارکرنا آسان نہ تھا۔‘‘10

تحقیقی اورتاریخی نقطۂ نگاہ کے بعد تنقیدی اور فنی اعتبار سے جب اس خاکے کا بغور اور بغائر مطالعہ کرتے ہیں کہ آیا خاکہ نگاری جن فنی لوازمات اور صنفی خصوصیات کا مطالبہ اور تقاضا کرتی ہیں یہ خاکہ ان کو پوراکرتا ہے اور ان پر کھرابھی اترتا ہے یا نہیں۔ میرے خیال میں یہ خاکہ، خاکہ نگاری کے موجودہ معیارات اور جدید ضابطوں کے لحاظ سے ایک مکمل خاکہ ہے کیونکہ خاکہ نگاری کا بنیادی  وظیفہ فرد کی صورت گری ہے نہ کہ فرد کی حسبی ونسبی خصوصیات کو ضبطِ تحریر میں لانا ہے۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو یلدرم کا لکھا ہوا خاکہ ’حسرت موہانی(ایک قدر دان کی نظر سے)‘ ایک جیتا جاگتا اور جاندار مرقع ہے جس میں حسرت اور ان کی شخصیت اپنی تمام تر خوبیوں اور بشری کمزوریوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے اور یہی خاکہ کی کامیابی کا راز ہے۔دراصل یہ خاکہ اردو کے مشہور انشا پرداز، جدت پسند شاعر، دل کش قصہ نویس، مترجم، زرخیز ذہن اورتوانا قلم کار نے لکھا۔جس کا مطالعہ عمیق تھا اور جس کی نگاہ وسیع تھی نیز جس کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔وہ حسرت  کے نہ صرف قریب تھے بلکہ ہم جماعت وہم مکتب بھی تھے۔ اس لیے وہ حسرت کے حالات و واقعات، خلوت وجلوت، مزاج ومنہاج، کردار وگفتار، علم وادب، زبان وبیان، خلوص وسچائی، اپثار وہمدردی، ایمان وایقان، عادات واطوار،شکل وشمائل،خصائل ومعاملات اورمذہبی خیالات و سیاسی نظریات سے واقف تھے جس کا برملا اظہار اورعمدہ تصویر کشی یلدرم  نے اس خاکے میں کی۔اس طرح اس خاکے میں حسرت کی جیتی جاگتی، چلتی پھرتی، بولتی چالتی اور ہنستی کھیلتی تصویر آنکھوں کے سامنے گھومتی ہے۔  

حسرت علی گڑھ میں بہ لحاظ شکل وشباہت اور شکل وشمائل کے اس قدر دلچسپ تھے کہ ہر ایک نے مذاق میں ’خالہ اماں‘ کا نام دیا تھا۔اس حوالے سے سید سجاد یلدرم کا درج ذیل اقتباس ملاحظ فرمائیں: 

’’اُ نیسویں صدی کے آخری برس اور اس سے ایک سال پیشتر جو لوگ علی گڈھ میں تھے ان کو یاد ہوگا کہ ان ایام کے نووارداں میں سے کوئی شخص بلحاظ شکل وشباہت، وضع قطع اور چال ڈھال کے اس قدر دلچسپ نہ تھا جس قدر نواح لکھنؤکا ایک طالب علم جسے محبت اور مذاق نے  ’خالہ اماں‘ کا نام دیا تھا۔

چھوٹا قد،لاغر بدن،گندمی رنگ پر چیچک کے مٹے ہوئے داغ،عمر کا خیال کرتے ہوئے داڈھی کسی قدر نیچی، فراخ پیشانی اورچہرے کی مسکراہٹ قیافے کو ناگوار نہ ہونے دیتی تھی۔اس پر کلا بتونی ٹوپی،پُرانی وضع کے چار خانے کا انگر کھا،مشروع کا تنگ پاجامہ جس کے پانچے ٹخنون سے اونچے،عینک اورچھڑی اضافہ کیجیے تو’خالہ اماں‘  یا دوسرے لفظوں میں سید فضل الحسن حسرت موہانی کی صورت چشم تصور کے سامنے پھرنے لگے گی۔‘‘ 11

یہ اقتباس جہاں ایک طرف حسرت کی اُس وضع قطع، چہرے مہرے اور ظاہری شکل وصورت کوواضح کرتا ہے جس سے حسرت علی گڈھ پہنچے تھے، وہیں دوسری جانب اودھ کے اس دور کے قصباتی کلچر یا جاگیرانہ تہذیب کی ہلکی سی تصویر بھی پیش کرتا ہے۔

حسرت موہانی بحیثیت طالبِ علم جس ہیئت کذائی یا قدیم وضع قطع کے ساتھ علی گڑھ کے ماحول میں داخل ہوئے۔ لوگوں نے مذاق کیا،پھبتیاں کسیں، نہ جانے کیاکیا القاب سے نوازا۔ وہ آج تک زبان زدہے،لیکن حسرت موہانی اپنے مخصوص ذہنی رحجانی کیفیات پر اٹل رہے اور اپنی جرات، ذہانت اور صداقت میں ایسے کھرے ثابت ہوئے کہ پہلے اپنے ساتھیوں اور رفتہ رفتہ پورے ملک کی آنکھ کا تارا بن گئے۔اس لیے یلدرم اس بات کا اعتراف کرنے کے لیے مجبور ہوئے کہ :

’’غرض ان اوصاف کا نتیجہ سمجھویا ان کی خوش نصیبی کا کہ پورا سال بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ ’خالہ اماں‘ نے عدم کی راہ لی اور اس کے بجائے ’مولانا‘ بچے سے لے کر بوڑھے تک کی زبان پر جاری ہوگیا۔ کالج کی تاریخ القاب بخشی میں یہ ایسا واقعہ ہے جس کی نظیر نہیں۔‘‘  12

 حسرت موہانی سچے انسان اور پکے دین دار تھے اس کے باوجود ان کا شیوہ شدت پسندی کے بجائے وسیع المشربی اور تعصب کے بجائے فراخدلی تھا۔ دراصل گھر کے مذہبی ماحول اور ان کے اساتذہ کی تربیت نے حسرت کو لڑ کپن سے صوم وصلٰوۃ کا پابند بنا دیا تھا۔ وہ بڑے خوددار، خداشناس اور خداترس انسان تھے۔حسرت نے اسلامی تعلیمات کو صرف کلمہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے فرائض تک ہی محدود نہیں رکھا تھابلکہ اسلام کو اس کے ہمہ گیر اور وسیع معنوں میں سمجھا تھا۔جس کا مطالبہ قرآن و حدیث کی تعلیمات ایک مومن سے کرتی ہیں اور آخر ی دم تک اسی پر ثابت قدم رہے۔یلدرم ان کی پابندی صلوۃ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’ فضل الحسن ایک خوش عقیدہ مسلمان تھا۔ ایسا کہ پُرانی وضع کے مسلمان اس کے کسی قول وفعل پر گرفت نہ کر سکتے تھے۔ صوم وصلوٰۃ کی پابندی اس کی زندگی کا جزو ضروری تھا مگر برخلاف عوام کے اس سے اس کی شیرینی طبع میں فتور نہیںآنے پایا تھا۔بارہا دیکھا گیا کہ بے تکلفی کا جلسہ گرم ہے اور نماز کا وقت بن بلائے مہمان کی طرح آپہنچا،فضلل مسکراتے ہوئے اُٹھے۔معذر ت بھی کرتے جاتے ہیں اور وضو بھی۔یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہو کر پھر آبیٹھے۔مگرایسی حالتوں میں نماز بہت جلد جلد پڑھتے تھے،بلکہ ان کے دوستوں کا خیال ہے کہ کلام مجید کی سورتوں کے بجائے ان کے اعداد بحساب ابجد پڑھ لیا کرتے تھے۔‘‘  13

حسرت موہانی کے یہاں جتنی بے باکی اور بے خوفی تھی اتنی ہی سادگی اور صداقت بھی تھی۔اس کا تعلق ان کے ایمان اور ایقان ِحق سے ہے۔حق بات ہمیشہ اُن کی زبان پر بے ساختہ آتی تھی جس کے لیے انھیں اگرچہ سخت سے سخت اور بڑی سے بڑی مصیبت کا مقابلہ کرنا پڑا،  وہ ڈٹ کے مقابلہ کرتے تھے اور اپنے ارادے پر اٹل رہتے تھے۔آگے بڑھ کر پیچھے ہٹنا تو جانتے ہی نہ تھے اس لیے انھیں ہمیشہ اپنے مقاصد میں کامیابی نصیب ہوئی تھی۔ وقتی طور انھیں کالج انتظامیہ نے بہت تنگ اور پریشان کیا تھا۔ کیونکہ ہر ہنگامے اور ہر فتنے کے پیچھے انھیں حسرت کا ہی ہاتھ لگتا تھا اور وہ ہر یلغار کا سپہ سالار مولانا حسرت کو قر ار دیتے تھے۔ دراصل ان کاپہچاننا اوروں کی نسبت آسان تھا اور ہربار ان کو کچھ نہ کچھ نقصان ضرور پہنچا۔اس نوع کے کئی واقعات یلدرم نے اس خاکے میں درج کیے تھے۔صرف ایک واقعے کو میں بطور حوالہ پیش کرنے پر اکتفا کروں گا۔بقول یلدرم:  

’’شملے میںعلی گڈھ کرکٹ ٹیم نے کسی انگریزی کلب سے بازی لی۔علی گڈھ کالج کے بنی اسرائیل اس پر آپے سے باہر ہوگئے۔ایک گروہ کثیر تمام آلات موسیقی جو کالج میں دستیاب ہو سکتے تھے۔یعنی تھالیا، لوٹے، گلاس، کھانے کی سیٹیاں بجابجاکر رات کی تاریکی میں شورمحشر برپا کرتا پھرتا تھا فضل الحسن جنھوں نے اپنی عمر میں نہ کبھی بیٹ چُھوا تھانہ گیند پھینکا تھا۔یہ شور سنتے ہی ایک شکستہ حال کنستر لیے ہوئے کمرے سے برآمد ہوئے اور تیل کو حوالہ خاک کرکے سب سے آگے آگے اپنا کوس بجاتے ہوئے پروفیسروں حتیٰ کہ نواب محسن الملک مرحوم کی کوٹھی تک جاپہنچے۔نتیجہ یہ ہوا کہ فردسیاہ میں جو پرنسپل کے دفتر کی میز کے داہنے خانے میں بند رہتی ہے ان کا نام لکھ لیا گیا۔‘‘ 14

حسرت موہانی فطرتاً مشکل پسند تھے اس لیے دشواریوں کا سامنا کرنے میں انھیں بڑالطف آتا تھا۔ زمانہ طالب علمی سے لے کر ہندوستان کی کامل آزادی تک انھیں کتنی مصیبتیں جھیلنی پڑی تھیں اور انھیں کتنی بار جیل جانا پڑا۔ انھوں نے یہ سب برداشت کیا مگر اپنے ضمیر کا سودا کبھی نہیں کیا۔ ان حالات وواقعات سے وہ اکثر پریشان رہے لیکن خودداری، ایمانداری،سچائی اور غیرت کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیا۔انھوں نے اپنی آزادی کی دھن میں کبھی کسی کی مخالفت کی پروا نہیں کی بلکہ سچائی اور خلوص کے ساتھ اپنے کاموں میں لگے رہے جس کا جابجا اعتراف یلدرم نے اس خاکے میں کیا ہے:

       حسرت موہانی بڑے ذہین اور طباع تھے۔گھر کے ادبی ماحول نے ان کے لیے اردو شاعری سے دلچسپی کی راہیں پہلے ہی ہموار کر رکھی تھیں اور علی گڑھ کے ادبی ماحول نے اسے اور جلابخشی۔ان کے ساتھیوں میں سید سجاد حیدر یلدرم نے 15 مئی 1900 میں ’انجمن اردو ئے معلیٰ‘ کی بنیاد ڈالی۔حسرت اس انجمن کے بانی ممبران میں تھے۔ یلدرم کے بعد انجمن کا سکریٹری حسرت کوہی بنایا گیا۔ اس انجمن کے پرچم تلے ہر ہفتے ایک ادبی نشست منعقد ہوتی تھی جس میں نظم ونثر کے پھول نذر کیے جاتے تھے۔ حسرت بھی اس انجمن کی اکثر نشستوں میں اپنی تخلیقات نثرونظم پیش کرتے تھے۔واقعی حسرت نے اس انجمن کی ترقی وترویج میں جس فراخدلی،جاں فشانی اور ذمے داری سے حصہ لیاوہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس حوالے سے یلدرم لکھتے ہیں: 

’’ ایسی انجمن کی ترقی کے لیے مولانا سے بہتر رُکن کون ہو سکتا تھا۔چنانچہ تھوڑے ہی عرصے میں اردوئے معلٰی اور مولاناایسے لازم ملزوم ہوگئے کہ ایک کا خیال دوسرے کے بغیر ممکن ہی نہ معلوم ہوتا تھا۔ مولانا کی غزلیں مشاعرے کی جان اور ان کے مضامین مشاعرے کی روح رواں خیال کیے جانے لگے۔‘‘ 15

حسرت موہانی کو نہ انگریزی زبان کے ساتھ لگائو تھا اور نہ ہی ریاضی وسائنس پڑھنے میں دلچسپی تھی۔’’ وہ بلا کے ذہین اور طباع تھے۔درس کی کوئی انگریزی کتاب شاید انھوں نے دوسری مرتبہ نہیں پڑھی اور اس بارے میں مخالفین تعلیم انگریزی میں اور ان میں بس اتنا ہی فرق تھا کہ جہاں وہ قطعاً انگریزی پڑھنے کو کفر سمجھے تھے یہ کسی صحیفہ فرنگ پر دوسری مرتبہ نظر ڈالنا گناہ جانتے تھے۔اسی لیے ان کو کبھی انگریزی لکھنا یا بولنا نہ آیا۔حقیقت میں ان کا میلان طبع اردو اور فارسی کی طرف تھا۔سائنس وغیرہ علوم سے بھی ان کی طبیعت کو بیگانگی سی تھی اور گو ایک امر اتفاقی سے مجبور ہو کر انھوں نے بی۔اے میں ریاضی پڑھی۔‘‘16

دراصل وہ اردو اور فارسی کے عاشق اور دلدادہ تھے اور آزادی ہند کے سچے متوالے تھے۔اس لیے بی اے پاس کرنے کے بعد سرکاری ملازمت کے بجائے انھوں نے اپنے آپ کو ملک وقوم کی خدمت وفلاح اور شعرو ادب کے فروغ کے لیے وقف کردیا۔اپنے حصولِ مقصد کے لیے انھوں نے جولائی 1903  میں علی گڑھ سے اپنا مایہ ناز ادبی رسالہ’اردوئے معلی‘ جاری کیا۔جس میں ادبی پھولوں کے ساتھ سیاست کے چبھتے ہوئے کانٹے بھی تھے۔اس رسالے نے اردو صحافت کو زبان دی،آداب واخلاق سکھائے،شائستگی کے اصولوں سے ہمکنار کیا،شعر وادب کے نکات سے آشنا کیا،سیاست کو وسعتِ ذہن اور بلند نگاہی عطا کی۔مگر شومیِ قسمت اپریل 1908  میں یہ رسالہ اس وقت بند ہواجب اس میں اعظم گڑھ کے مشہور شاعر اوروکیل  جناب اقبال سہیل کاایک مضمون بعنوان ’مصر میں انگریزوں کی حکمت عملی‘ شائع ہوا۔ اس مضمون پر اس کے مصنف کا نام ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔حکومت حسرت سے معلوم کرنا چاہتی تھی کہ یہ مضمون کس کا لکھا ہوا ہے لیکن حسرت کی حمیت،غیرت اور دلیری نے اجازت نہ دی کہ مضمون نگار کا نام ظاہر کریں۔ برعکس اس کے انھوں نے اس واقعے کی ساری اور پوری ذمے داری اپنے سر لے لی۔ اس پر گورنمنٹ کی طرف سے مقدمہ چلا اور تقریباً دوسال کی قید بامشقت ہوئی۔ قید خانے میں حسرت نے وہ شعر کہا جو بے حد مقبول ہوا        ؎

ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

الغرض حسرت کا خاکہ اتنا جاندار اور معلومات افزاہے کہ اس کے ذریعے ان کی شخصیت بھر پور انداز میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ اس خاکے میں یلدرم نے ان کے عادات، اطوار، مشاغل،معمولات اور افکار کے ساتھ ان کے مزاج کی سادگی، حوصلے کی بلندی، یقین کی استواری، حق پسندی، حق شعاری، جرأت، صداقت، خلوص، تقویٰ، ایثار، ہمدردی اور بے باکانہ اظہارِ رائے جیسی خوبیوں اور پہلوئوں پربھی اظہارِ خیال کرکے خاکے کو توانا بنادیا ہے۔ نیز ہمدردانہ لہجے میں بشری کمزوریوں کے بیان نے خاکے کو متوازن بنایا ہے۔ان تمام خوبیوں اور کمزوریوں کو مدنظر رکھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کی حسرت اپنے اعمال، افکار، خیالات، نظریات، کردار، گفتاراورمعاملات سے انسان تھے۔فرشتہ نہیں۔

حواشی وحوالہ جات

1       آزادی کے بعد دہلی میں اردو خاکہ‘ مرتب پروفیسر شمیم حنفی، ص16،ناشر: اردو اکادمی،دہلی

2       ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی...کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی مرتب رشید حسن خان،ص 7،2009، ناشر:انجمن ترقی اردو (ہند)، نئی دلی

3       اردو کے بہترین شخصی خاکے (جلد اول) مرتب مبین مرزا ص13، جون 2005، ناشر: کتابی دنیا،دہلی

4       یہ لوگ بھی غضب تھے ‘ (خاکے اور شخصی مطالعے) از ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی، ص9،1989، ناشر: فیروز سنز(پرائیویٹ) لمیٹڈ لاہور، راولپنڈی،کراچی

5       اردو کے چند خاکہ نگار از قدرت اللہ شہزاد،ص9، 2007، ناشر: مکتبہ الہام،ماڈل ٹاون اے بہاول پور

6       یہ خاکہ رسالہ ’زمانہ‘کانپور مرتب دیا نرائن نگم

7       بحوالہ رسالہ ماہنامہ’برہان‘دہلی مرتب سعید احمد اکبر آبادی، ستمبر 1962، ص177

8       کارِ جہاں دراز ہے‘ (سوانحی ناول) از  قرۃ العین حیدر، ص129، فصل سوم،  جلداول،2003، ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوٗس،دہلی

9       مولانا محمد عارف ہنسوی نے سب سے پہلے مولانا حسرت موہانی پر ایک کتاب بعنوان ’حالات ِ حسرت‘ 1918میں لکھی۔ اس میں حسرت موہانی کی سوانح عمری اور مکمل حالاتِ اسیری درج ہیں۔ یہ کتاب صدر دفتر انجمن اعانت نظر بندانِ اسلام،دہلی سے شائع ہوئی۔لیکن اس سے دس سال قبل یلدرم نے حسرت پر خاکہ لکھا تھا۔ جو حسرت اور ان کی شخصیت پرنہ صرف پہلا خاکہ ہے بلکہ ان  پر لکھی جانے والی پہلی تحریر بھی۔

10     حسرت کے عہد کا پس منظر از عتیق صدیقی مشمولہ سہ ماہی ’اردو ادب ‘ نئی دہلی (حسرت نمبر) اڈیٹر: خلیق انجم،ص 32-34،شمارہ 1تا4،ناشر:انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دہلی۔

11     شعر یلدرم از سید مبارزالدین رفعت، مشمولہ ماہنامہ ’پگڈنڈی‘ امرتسر (سید سجادحیدر یلدرم  نمبر) جلد 9، شمارہ5، مدیر امریکآنند، ناشر: ادارئہ ادبستان اردو ہال بازار امرتسر،مرتب:سید مبارزالدین رفعت۔

12     حسرت موہانی( ایک قدر دان کی نظر سے) از خافی خان  (سید سجاد حیدر یلدرم)  مشمولہ ماہنامہ ’زمانہ ‘ کانپورمرتب دیا نرائن نگم، جلد11،  دسمبر 1908،ص 292

13     ایضاً  ص 292-293

14     ایضاً، ص 293

15     ایضاً، ص 293

16     ایضاً، ص 296

17     ایضاً، ص 297

18     ایضاً، ص 294

19     ایضاً، ص 293



Irshad Afaqui

Assistant Professor, Department of Urdu

Govt.Degree College Ajas Bandipora

Kashmir- 193502 (J&K)

Cell.: 7780911279

Email:iafaqui80@gmail.com





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں