6/7/22

خواجہ جاوید اختر کا شعری و ادبی تخیل - مضمون نگار : شاہد علی

 



شعرا و ادبا  کے ہجوم میں پہچان رکھنے والوں میں ایک نمایاں نام خواجہ جاوید اختر کا ہے جو محض ایک شاعر کا حساس دل ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ شیشے کی مانند چمکنا بھی جانتے تھے       ؎

اِس بھیڑ میں پہچان مری سب سے جدا ہے

شیشہ ہوں مگر آئینہ خانے کا نہیں میں

  خواجہ جاوید اختر خوبصورت آواز کے مالک تھے جنھیں آج بھی مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ انھیں صاحبِ اسلوب غزل گو شاعر کی شناخت حاصل رہی ہے۔ 2010 میں ان کا شعری مجموعہ "نیند شرط نہیں" شائع ہو کر برصغیر کے ادبی حلقوں میں داد و تحسین وصول کر چکا ہے۔ ’نیند شرط نہیں‘ پر خواجہ جاوید کو صوبہ بہار، اتر پردیش اور مغربی بنگال کی اردو اکادمیوں نے  انعامات و اعزازات سے بھی نوازا تھا۔

ذہین شاعر و ادیب خواجہ جاوید اختر اپنی کتاب کے ’عرض حال‘ میں لکھتے ہیں کہ ان کے استاذ محترم پروفیسر ابوالکلام قاسمی (اے ایم یو) صاحب نے  ’شب خون‘  میں  اپنے شاگرد کی غزل دیکھ کر کہا تھا  ’’ اب تمہاری غزل کو Recognition ملا ہے۔‘‘  (نیند شرط نہیں، ص:26) 

بعدازاں وہ تواتر سے شب خون میں محض چھپتے ہی نہیں رہے بلکہ شب خون کے 40 سالہ انتخاب میں بھی ان کی غزل کو شامل کیا گیا۔ عالمی شہرت یافتہ ناقد و ادیب پدم شری شمس الرحمن فاروقی صاحب نے اپنی کتاب ’معرفتِ شعرِ نو‘ میں ایک مضمون بعنوان  ’خواجہ جاوید اختر: الہ باد کا نیا غزل گو‘  بھی شاملِ کتاب کیا۔ متذکرہ باتیں کسی بھی نوعمر اور نوَ وارد شعر و ادب کے لیے اعزاز کی حامل ہو سکتی ہیں تو خواجہ بھائی کے لیے باعثِ اعزاز و ناز کیونکر نہ ہو؟

سہل ممتنع کو شاعری کا جھومر کہا گیا ہے اور اسے شاعر کی قادر الکلامی کی دلیل کے طور پر پیش کیاجاتا ہے۔ سہل ممتنع میں بلیغ باتیں کہنا بہت مشکل کام ہے لیکن خواجہ جاوید کو اس میں دسترس حاصل تھی۔ اس معاملے میں میر تقی میر کو سب سے بالا مقام دیا جاتا ہے۔ جن شاعروں کے یہاں سہل ممتنع کا عنصر کافی ملتا ہے، ان میں ایک قابلِ ذکر نام خواجہ جاوید اختر کا بھی ہے۔ دلیل کے طور پر اردو کے عظیم نقاد، ناول نگار، افسانہ نگار، شاعر، مترجم اور ماہر لسانیات شمس الرحمن فاروقی (مرحوم) خواجہ جاوید کی کتاب ’نیند شرط نہیں‘ کی تقریظ میں رقمطراز ہیں ’’خواجہ جاوید اختر کی شاعری کا انداز سہل ممتنع اور عام بول چال کا سا ہے۔ اس انداز کو مزید تقویت اس بات سے ہوتی ہے کہ انھوں نے زیادہ تر شعر چھوٹی بحروں میں کہے ہیں۔‘‘ (نیند شرط نہیں، خواجہ جاوید اختر کی غزل، ص:17) مثال کے طور پر سہل ممتنع اور چھوٹی بحروں میں خواجہ جاوید اختر کے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے         ؎

بے پردہ ہیں لیلائیں

اور مجنوں محمل میں ہیں

مٹھی میں الفاظ کرو 

پھر لکھنا آغاز کرو

صدیوں کا آثار گرایا 

کس نے یہ مینار گرایا

جنھیں بدنام کرنا چاہتے ہو

وہی مشہور ہوتے جا رہے ہیں

بڑھی ہے روشنی تہذیبِ نَو کی

مکاں بے نور ہوتے جا رہے ہیں

 مختصر الفاظ میں گہری اور بھرپور بات کہنا بہت مشکل امر ہے اور یہ کٹھن کاز ماہرینِ فن ہی کر سکتے ہیں۔ موصوف اس فن سے خوب آشنا تھے۔ خواجہ جاوید کی شاعری میں سادگی اور سلاست بھی بلا کی ہے۔ سادہ اور چھوٹی بحر کے شعر میں بلیغ باتیں وہ آسانی سے یوں کہہ جاتے تھے      ؎

تاریکی سے خوف نہ کھاؤ

رات ڈھلے گی دن نکلے گا

پہلے سوتی تھی چین سے دنیا

اب کوئی بے خبر نہیں سوتا

روشنی بانٹنے کی چاہت میں

اک دِیا رات بھر نہیں سوتا

تنگ پڑتی ہے زمیں لاکھ  تو پڑنے دیجیے

آسماں دیکھیے تا حدِ نظر میرا ہے

وہ دیکھنے میں بظاھر تو پھول ایسا ہے

چبھے گا چھو کے تو دیکھو ببول ایسا ہے

خواجہ جاوید اختر باظرف ادبی شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی شرافت، خوش مزاجی اور خوش گفتاری کا زمانہ قائل رہا ہے۔ موصوف ایک زندہ دل شخص، زندہ دل دوست اور زندہ دل شاعر تھے جن کے پاس اپنے محبوب کے لیے دھڑکتا ہوا ایک حساس دل کا نرم گوشہ بھی تھا۔ لہذا ان کی شاعری میں عشقیہ رنگ کی موجودگی کم ہی سہی لیکن کم زور یا عنقا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر زیر نظر اشعار دیکھیں       ؎

وہ چلمن سے اپنی تو کم دیکھتے ہیں

وہی جن کو حسرت سے ہم دیکھتے ہیں

لگاتے ہیں چکر ہم ان کی گلی کا

کبھی شام ڈھلتے کبھی خوب تڑکے

جان نہ دیتا تو کیا کرتا

اور نہیں تھا چارہ کچھ

لمحوں میں کرسکتا تھا

میرا ایک اشارہ کچھ

کچھ تو ہے بے قراری مجھ کو

اور اس کو بھی بے کلی کچھ ہے

ایک دل کو سکوں نہیں ملتا

ورنہ کہنے کو یوں سبھی کچھ ہے

خواجہ جاوید اختر جہاں دوستوں کے دوست تھے وہیں محفلوں کی جان بھی تھے۔ اکثر و بیشتر بزم کو زعفران زار کر گزرنے میں اہم جزو ثابت ہوتے۔ انھیں تعلقات کو بنانے اور نباہنے کے ہنر میں مانندِ ید طولیٰ مہارت حاصل تھی۔ اپنی خوش اخلاقی، دوست نوازی اور جذبۂ  ایثار کی بِنا پر وہ متضاد ادبی خیموں میں یکساں معتبر و مقبول تھے۔  وہ بڑوں کو  Respect  اور  چھوٹوں کو Accept کرنا بھی خوب جانتے تھے۔ متذکرہ رنگ اور آہنگ میں بھی ان کے اشعار جا بجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ حسب ذیل اشعار سے محظوظ ہوں        ؎

زمانہ تھا کہ ہم اک دوسرے پر جان دیتے تھے

کہاں کوئی کسی پر آج کل قربان ہوتا ہے

نبھانا کس قدر مشکل ہے اب رسمِ محبت بھی

زباں سے یوں تو کہہ دینا بہت آسان ہوتا ہے

ہمیں دیکھتی ہے حقارت سے دنیا

محبت سے دنیا کو ہم دیکھتے ہیں

جو مختلف تھے ساتھ ہیں میرے 

کچھ کشش ہے میری زبان میں کیا

 خواجہ جاوید اختر کے اسلوب کا کیا کہنا۔ انھوں نے اپنی شاعری میں لاجواب صنعتیں استعمال کیں اور تکرارِ لفظی سے قابلِ رشک کام لیا۔ ان کی شاعری میں فکری عنصر بھی بہتر و بیشتر ملتا ہے۔ ان کے بعض اشعار اس کی تمثیل ہیں۔  ملاحظہ کریں        ؎

تجھے چھونا کسی صورت مرے بس میں نہیں

تری صورت تصور کو ترے چھوکر بناؤں گا

سلیقے سے ہم بات کر تے ہیں ان سے

جنھیں گفتگو کا سلیقہ نہیں ہے

نازک خیالی، ندرت اظہار اور معنی آفرینی کی خصوصیت جو ان کی شاعری میں ہے اس عمر میں دوسروں کے یہاں بہت کم پائی جاتی ہیں۔ بعض شعراکا ایک شعر یا ایک ہی مصرع اسے زندہ رکھنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں خواجہ جاوید اختر کا زیر نظر شعر دیکھیں            ؎

بھروسا بہت ہے مجھے زندگی پر

مگر زندگی کا بھروسا نہیں ہے

لفظوں کو سلیقے سے برتنا ایک فن ہے۔ اس فن میں مہارت مسلسل ریاضت سے ہی ممکن ہے۔ خواجہ جاوید کی شاعری میں یہ فن بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ عظیم ناقد، محقق، شاعر اور ادیب شمس الرحمن فاروقی صاحب نے خواجہ جاوید اختر کی کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے ’’وہ باتوں باتوں میں چبھتی ہوئی بات کہہ جاتے ہیں جو عقل مندی سے بھرپور ہوتی ہے، کم عمری کے باوجود ان کے انداز گفتگو میں تجربہ کار بوڑھوں جیسی کیفیت ہے۔‘‘(نیند شرط نہیں، خواجہ جاوید اختر کی غزل، ص:14)مثال کے طور پر زیر نظر شعر ملاحظہ فرمائیں:

آبرو سلامت ہے جھک کے چلنے والوں کی

آسماں نظر اپنی ٹوپیاں سنبھالے ہیں

سر اٹھائے ہوئے جو شجر ہے میاں

اس پہ آندھی کی گہری نظر ہے میاں

اتنا اکڑ کے چلتے ہو پھر کیوں زمین پر 

تم سیدھے آسماں سے اتارے نہیں گئے

ہم بھی کسی کی زلف گرہ گیر کی طرح

الجھے ہیں اس قدر کہ سنوارے نہیں گئے

 خواجہ جاوید اختر کلکتہ کے مضافاتی علاقہ کانکی نارہ (مغربی بنگال) میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ کی گداز علمی وادبی فضا میں ہائرایجوکیشن کی حصولیابی کے بعد الہ آباد کے ہو کر رہ گئے۔ یہاں انھیں قدآور ادیب و شاعر اور محقق شمس الرحمن فاروقی صاحب کی صحبت نصیب ہوئی، اس سے جاوید بھائی کی ادبی فہم و فراست کو کافی تقویت اور جلا ملی۔ موصوف اپنی متحرک و فعال ہستی و طرزِ زندگانی کی ترجمانی ذیل کے شعر میں کچھ یوں کرتے ہیں           ؎

ٹوٹنا اور بکھرنا الگ بات ہے

کچھ ستارے مسلسل سفر میں رہے

ہمارے ساتھ اٹھنا بیٹھنا یوں ہی رہا تو پھر

تمھیں ہم آدمی سے ایک دن انسان کر دیں گے

تعلق ہے ہمارا مغربی بنگال سے جاوید

مگر ہم اک مدت سے الٰہ آباد رہتے ہیں

 اس شعر کے خالق خواجہ جاوید اختر اب اس دارِفانی میں نہیں ہیں لیکن آج بھی ارباب سخن کے دلوں میں زندہ و جاوید ہیں۔ خواجہ جاوید اختر ماہ صیام کے عین تیسرے روز بتاریخ 13 جولائی 2013 کی شام پانچ بجے روزے کی حالت میں دفعتا اپنے چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے گئے۔ مگر وہ اخلاقی، ادبی اور اسپورٹس کی سرگرمیوں کے باعث مانند ِ تثلیث بیک وقت الہ آباد، کانکی نارہ اور علی گڑھ؛ میں مقبول تھے۔ نتیجتاً ان کی یادیں لوگوں کے دلوں میں ہنوز تازہ ہیں۔ خواجہ جاوید کہتے ہیں         ؎

رہتی ہے خبر سارے زمانے کی ہمیں بھی

پھیلا ہے بہت دور تک جال ہمارا

ممکن ہے کہ بن جائیں شہنشاہ غزل ہم

ویسے تو ارادہ نہیں فی الحال ہمارا

خواجہ جاوید کی تخلیقات برصغیر کے چھوٹے بڑے معیاری رسائل میں شائع ہوا کرتی تھیں۔ علاوہ ازیں وہ نیشنل اور انٹرنیشنل مشاعروں میں شرکت بھی کرتے تھے۔ ان کا پہلا مشاعرہ 1986 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا یومِ جمہوریہ کا مشاعرہ تھا۔قابل ذکر بات ہے کہ 2010 میں غالب اکیڈمی کے زیرِ اہتمام دہلی میں منعقد عالمی مشاعرے میں بحیثیت شاعر خواجہ جاوید کی بھی شرکت ہوئی تھی۔

 ان کی شاعری بیک وقت ادب اور مشاعرہ دونوں جگہ مشترکہ تھی مگر انھوں نے معیارِ شاعری سے کبھی سودا یا کھلواڑ نہیں کیا۔ مشاعروں میں بھی ادب پیش کرنے والوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ اپنی مترنم آواز میں غزل و گیت پڑھ کر ایک مدہوشی کا سماں باندھ دیتے تھے۔ ان کا ایک گیت جو بہت مقبول ہوا تھا، اس کے بول یہ ہیں         ؎

میری گوری تو ذرا سا میرا کہنا تو مان

کئی برسوں کے بعد تیرا آیا مہمان

 ان کا آخری مشاعرہ کلکتہ ( بیلگچھیا ) کا آل انڈیا مشاعرہ تھا جو ’روح ادب‘ کے مدیر اعلیٰ عبداللہ سنجر کی صدارت اور جاوید بھائی (مرحوم) کے اعزاز میں تھا۔ اس مشاعرے میں ان کے ساتھ بحیثیت شاعر ان کے برادر کبیر خواجہ احمد حسین، احمد منیر اور پروفیسر معید رشیدی بھی مدعو تھے۔ بقول خواجہ جاوید:

ہم اپنے وقت کے بالا بلند سورج تھے

غروب ہوگئے کس طرح درمیان سے ہم

سمجھ سکا نہ آج تک کہ کیا ہوں میں

ہوا کے دوش پہ جلتا ہوا دیا ہوں میں

کبھی جب ہاتھ میں ہم میر کا دیوان لیتے ہیں

تو پھر اوقات اپنی خود بخود پہچان لیتے ہیں

یہ غزل کے وہ اشعار ہیں جس سے خواجہ جاوید اختر کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کی زبان و بیان میں سادگی و سلاست ہے۔ موضوع زبان وبیان، ایجاز و اختصار، کثرت وعلامات، تشبیہات و استعارات کے ذریعے خواجہ جاوید اختر نے اپنی شاعری کو خوب نکھارا ہے۔ کل 113 غزلوں پہ مشتمل ان کی اکلوتی تصنیف ’نیند شرط نہیں ‘ پڑھنے کے بعد میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ اچھی شاعری کے ان میں کا فی روشن امکانات تھے لیکن وقت نے انھیں ہم سے چھین لیا۔

 خواجہ جاوید اختر کو شعر و ادب کے کسی مخصوص خانے میں مقید کرنا مناسب نہیں۔ لیکن ذیل کے اس شعر کے حوالے سے موصوف خود ہی اپنی شناخت جدید شعرا کی فہرست میں کروانے کے متمنی نظر آتے ہیں۔ ان مصرعوں میں ذرا سا تعلّی کا رنگ بھی  ابھر کر سامنے آ رہا ہے        ؎

فاروقی کو دیکھو تو

علم کا ایک سمندر ہے

عادل اور علوی کے بعد

 خواجہ جاوید اختر ہے

چل کے ذرا دیکھیں تو کیا ہے

آخر اس منظر کے پیچھے

نئی نسل کے سارے شاعر

ہیں جاوید اختر کے پیچھے

 خواجہ جاوید کی کم عمری میں اچانک رحلت سے ادبی دنیا نڈھال ہوئی۔ مرحوم کی شعری و ادبی خدمات نیز فن و شخصیت کے مدنظر ڈاکٹر نعیم انیس (صدر شعبہ اردو، کلکتہ مسلم گرلز کالج) نے ان کے فن و شخصیت پر ایک ضخیم کتاب’خواجہ جاوید اختر: خواب اور خواب گر‘ مرتب کی ہے نیز اپنی ادارت میں دی مسلم انسٹیٹیوٹ کا ترجمان جریدہ ’پرواز‘ کے 12ویں شمارے کو خصوصی طور پر خواجہ جاوید اختر سے منسوب کیا۔ مزید ڈاکٹر خورشید اقبال نے اولین آن لائن اردو میگزین ’کائنات‘ میں خواجہ جاوید اختر پر ایک ڈیجیٹل گوشہ شاملِ شمارہ کیا تھا۔ الہ آباد کے صحافی و شاعر بشارت خان عاقل نے اپنے ہندی ماہنامہ رسالہ ’پروانچل پتِھک‘ کے اگست2013 کے خصوصی شمارے کو مرحوم خواجہ جاوید کے نام ’’آہ! میرا بھائی: خواجہ جاوید اختر‘‘کے عنوان سے منسوب کیا۔ خواجہ جاوید کہتے ہیں         ؎

جانے کب آ کے وہ دروازے پہ دستک دے دے 

زندگی موت کی آہٹ سے ڈری رہتی ہے

جو فرصت ہو تو ہم سے بھی ملا کر دیکھ لے نظریں 

تری آنکھیں چرالیں گے تجھے حیران کر دیں گے

امید قوی ہے کہ خواجہ جاوید اختر کا انتخابِ لفظیات، فکریات اور ادبی و شعری تخیل ناقدان ادب کو ضرور متوجہ کریں گے نیز موصوف کی تخلیقات اور ان کے فن پارے کو اہل نظر، اہل سخن اور اہل علم و ادب اپنی تنقید و تحقیق کا موضوع بنائیں گے۔

 

Shahid Ali

H.No.: 387/1/203, West Purwasa, Sthirpara Road

Near Poorbasha Masjid E Bilal

Po.: Kankinara

Distt.: North 24, Parganas- 743126 (W.B)

Mob.: 8820239345

 

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں