6/7/22

عارف خورشید: نورنگ خاکہ نگار - مضمون نگار: قاضی نوید

 



 

عارف خورشید اورنگ آباد کے وہ قلم کار ہیں جنھوں نے اردو ادب کی متعدد اصناف پر طبع آزمائی کی ہے۔ شعری اصناف میں غزل، نظم اور ثلاثیاں لکھیں۔ نثری اصناف میں افسانہ، ناولٹ اور افسانچے تحریر کیے۔ غیر افسانوی صنف میں انھوں نے صنف خاکہ پر اپنی طبع آزمائی کی۔ کثیر تعداد میں خاکے تحریر کیے۔ میں ان کے خاکوں کے متعلق بات کروں گا۔

بقول ڈپٹی نذیر احمد دنیا میں مطالعے کے لیے بہت سی چیزیں ہیں لیکن سب سے بہترین مطالعہ انسان کی زندگی کا مطالعہ ہے۔بقول مولوی عبدالحق ’’انسان کا بہترین مطالعہ انسان ہے۔‘‘ انسان کے مطالعے کے لیے خاکہ ایک بہترین صنف ہے۔خاکہ ادب کی ایک اہم شاخ ہے۔ یہ صنف بظاہر بہت ہی آسان اور سادہ نظر آتی ہے۔ لیکن یہ ایک مشکل ترین فن ہے یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر خلیق انجم نے اسے غزل کا فن کہا ہے۔ ڈاکٹر صابرہ سعید اسے اشاروں کا آرٹ اور اسلوب احمد انصاری اسے چاول پر قُل ہُوَ اللّٰہ لکھنے کا فن کہتے ہیں۔ اس لیے اس پر دسترس اور قدرت حاصل کرنا آسان نہیں۔خاکہ اس تحریر کو کہتے ہیں جس میں نہایت اختصار سے اشارے ،کنایے میں کسی شخصیت کا ناک نقشہ،  خدو خال، عادات واطوار ، اخلاق و کردار بغیر کسی مبالغے کے اس طرح پیش کردیے جائیں کہ اس شخصیت کی جیتی جاگتی تصویر آنکھوں میں گھوم جائے اور اگر شخصیت کے افکار و خیالات پوری نفسیات کے ساتھ ابھر کر سامنے آجائیں تو یہ ایک کامیاب خاکہ کہلائے گا۔ عارف خورشید کے بیشتر خاکوں میں یہ خصوصیات نظر آئیں گی۔

 ان کا پہلا خاکوں کا مجموعہ ’تنظیم کثیر رنگی‘ کے نام سے 1922 میں نوائے دکن پبلی کیشن سے شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے میںکل 12 خاکے شامل ہیں۔ رنگ امتزاج میں 7خاکے ہیں۔ ان کی ایک اور کتاب ’ وقت کے چاک پر‘ میں بھی 4خاکے ملتے ہیں۔ انھوں نے جو خاکہ جے۔ پی۔ سعید پر لکھا وہ میری مرتب کردہ کتاب ’نیرنگ خیال‘ میں شامل ہے۔اس کے علاوہ میں نے ان کی زبانی ’لطیف قریشی‘ پر لکھا خاکہ سنا ہے۔ اس طرح تقریبا 25  خاکے میری نظر سے گزرے ہیں۔

خاکہ نگار کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ جس شخصیت پر خاکہ لکھ رہا ہے اس شخص سے اس طرح واقف ہو۔ اس کی پسند ناپسند اس کے روز و شب اس کی عادات و اطوار چال چلن حتیٰ کہ اس کی نفسیات سے بھی واقفیت انتہائی ضروری ہے۔عارف خورشید نے ان ہی اشخاص پر خاکے تحریر کیے ہیں جن سے وہ بخوبی واقف تھے۔ ایک انور خان سے قطع نظر باقی ماندہ تمام شخصیات کا تعلق اورنگ آباد سے ہے۔ان میں محمود شکیل، بشر نواز، جاوید ناصر، یوسف عثمانی،  ارتکاز افضل،  زاہد حسن خان، قاضی رئیس، مولانا رشید ندوی مدنی، محمود صدیقی،  وجاہت قریشی،  سید غلام غوث شطاری ، اختر حسین کے خاکے تنظیم کثیر رنگی میں شامل ہیں۔ جبکہ شاہ حسین نہری ، خان شمیم ، انور خاں ، ڈاکٹر الطاف قریشی ، محمد حسن ، اختر الزماں ناصر اور رفعت سعید قریشی پر خاکے رنگ امتزاج میں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں قاضی سلیم ، حمید سہروردی ، جاوید ناصر اور رشید انوار پر خاکے ’وقت کے چاک پر ‘ میں شامل کیے گئے ہیں۔ ان تمام اشخاص سے عارف خورشید کے گہرے مراسم تھے۔وہ ان تمام کی پوری شخصیت سے کما حقہ واقفیت رکھتے تھے۔ ان میں سے بعض سے وہ بہت زیادہ بے تکلف بھی تھے۔

ان خاکوں کا مطالعہ کرتے وقت ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم اسی فضا میں سانس لے رہے ہیں جس فضا و ماحول سے ان شخصیات کا تعلق تھا۔ یہ خاکے کی ایک اہم خوبی ہے جو عارف خورشید میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ان کے فن میں وقت کے ساتھ پختگی اور نکھار پیدا ہوا ہے۔ رنگ امتزاج میں موجود خاکے تنظیم کثیر رنگی کے خاکوں کی بہ نسبت زیادہ دلچسپ اور فنی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں۔

صنف خاکہ میں عنوان کی بڑی اہمیت ہے۔ عنوان سے ہی صاحب خاکہ کی شخصیت کا اندازہ ہو جانا چاہیے۔ عارف خورشید نے ہر خاکے کا عنوان ایسا رکھا ہے کہ صاحب خاکہ کے کسی پہلو ، مزاج ، طینت اور کردار کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہوجاتا ہے۔انھوں نے اپنے خاکوں کے عنوانات صاحب خاکہ کی شخصیت سے مناسبت رکھنے والے رنگوں کے نام سے رکھا ہے اوراپنے خاکوں کے مجموعے کا نام ’رنگ امتزاج ‘ رکھا ہے۔انھوںنے صنف خاکہ میں کچھ تجربات کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ الگ الگ اشخاص کے خاکے کو الگ الگ طرز میں لکھنے کی سعی کی ہے۔علاوہ ازیں مختلف تکنیک اور اسالیب کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ مثلا شاہ حسین نہری کا خاکہ انھیں موجودہ دور کے تناظرمیں ’مرحوم‘ فرض کر کے افسانوی تکنیک میں سپرد قلم کیا گیا ہے۔ جب کہ اخترالزماں ناصر مرحوم کا خاکہ صیغئہ حاضر کے استعمال کے ساتھ کولاژ کی تکنیک میں ہے۔ان تمام تکنیک کے ساتھ ہی ان کے خاکوں میں افسانوی رنگ غالب ہے۔

خاکہ نگار کا مشاہدہ گہرا ہونا چاہیے عارف خورشید عمیق مشاہد ہ رکھتے تھے۔ انھوں نے شخصیات کو ہوبہو پیش کیا ہے۔ خاکے میں لطیف مزاح اور نگتہ آفرینی بھی ضروری ہوتی ہے ساتھ ہی اس میں چھوٹے چھوٹے لطائف سے دلچسپی پیدا کی جا سکتی ہے۔عارف خورشید کا یہ اقتباس دیکھیے:

’’جشن بشر نواز کے سلسلے میں ہم بمبئی گئے۔ ابوبکر رہبر،میَں اور انور خان آر۔ایم۔ بھٹ ہاسٹل کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے کہ خان صاحب نے پلٹ کر مجھ سے پوچھا ’’کل کہاں تھے ؟ میںنے کہا ’’دن بھر بھٹکتے پھرے۔‘‘ انھوں نے برجستہ کہا ’’رہبر کے ساتھ ‘‘۔

 عارف خورشید کے خاکوں میں لطیف مزاح یا زیریں مزاح کی کمی نظر آتی ہے اس لیے کہ وہ ایک سنجیدہ اورمتین انسان تھے لیکن انھوں نے واقعات کے ذریعے مزاح پیدا کیا ہے۔ Situation comedyکو اعلٰی درجے کا مزاح سمجھا جاتا ہے۔ عارف خورشیدنے Situation comedy کو بروئے کار لاکر اپنے خاکوں میں لطف پید ا کیا ہے۔ جے۔ پی۔ سعید کے خاکے کا یہ واقعہ ملاحظہ ہو:

’’گرمیوں کے دن تھے۔ میں سفید ٹی شرٹ پہنا کلاس لے رہا تھا۔ صدر مدرس کا روؤنڈ ہوا۔ گھنٹہ ختم ہونے کے بعد چپراسی آیا کہ صاب بلا رہے ہیں۔ میں اجلاس پر پہنچا تو کمرے میں صدر مدرس کی آواز گونجی آپ مدرس ہیں ، یہ کیا پہن رکھا ہے۔ بنیان صاف دکھائی دے رہی ہے۔(میں اس زمانے میں مسرت باربل کلب کا ممبر تھا جسم کے پور ے کٹس نمایاں تھے ) آپ ایک معتبر پیشے سے وابستہ ہیں۔ لونڈے پٹّے یا گلی کے دادا نہیں ہیں اپنے مرتبے کا خیال رکھیے۔ جائیے۔‘‘ میں باہر نکلا تو غلام مصطفی پر نظر پڑی وہ ململ کا کرتا پہنے ہوئے تھے۔ بنیان چھوٹی ہونے کی وجہ سے ازار بند نظر آرہا تھا۔ میں نے ان سے کہا : صاحب بلارہے ہیں۔ وہ میرے ساتھ آفس میں داخل ہوئے میں نے استادِ محترم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا سریہ دیکھیے ان کا جسم بھی نظر آرہا ہے اور یہ (ناڑا) ازار بند۔ وہ مسکرادیے اور میں تیزی سے باہر نکل گیا۔‘‘

(نیرنگ خیال مرتب ڈاکٹر قاضی نوید: الگ ہے راہ میر: عارف خورشید ص102-3)

 اس طرح کے کئی واقعات سے انھوں نے اپنے خاکوں میں مزاح پیدا کیا ہے۔

صنف خاکہ کے لیے سراپا نگاری یاحلیے کی پیش کش میں بھی خاکہ نگار کو مہارت حاصل ہونی چاہیے۔عارف خورشیدڈرائینگ کے فن سے بخوبی واقف تھے۔اس لیے ان کو سراپا نگاری پر بھی مہارت تھی انھوں نے جو خاکے لکھے ہیں تقریبا اشخاص کا حلیہ اور ناک نقشہ بھی پیش کیا ہے۔ جس سے اس شخص کا پورٹریٹ قاری کی نظروں میں گھوم جاتا ہے۔شاہ حسین نہری، مولانا رشید مدنی، ڈاکٹر ارتکاز افضل، لطیف قریشی کے خاکوں میں پیش کیے گئے حلیے کسی پورٹریٹ کی مانند نظر آتے ہیں۔

عارف خورشید نے بیشتر شخصیات پر بھر پور خاکے تحریر کیے ہیں۔ جن کے مطالعے سے اس شخص کی جیتی جاگتی، ہنستی بولتی، چلتی بھرتی تصویر یں ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔ مثال کے طورپر شاہ حسین نہری کا خاکہ لے لیجیے اس میں ان کا حلیہ ، لباس، گفتگو کا انداز ، عقائد ، اخلاق و آداب ،عادات و اطوار ، پسند نا پسند یہ سارے نقوش پوری انفرادیت کے ساتھ ابھرتے ہیں اور شاہ حسین نہری کی شخصیت کو ہماری آنکھوں کے سامنے لاکھڑا کردیتے ہیں۔بیٹر میں شاہ حسین نہری مستقل طور پر ایک مسجد میں نماز ادا کرتے تھے جو ان کے گھر سے قریب تھی ایک دن انھوں نے دیکھا کہ مسجد میں لائٹ چوری سے لی گئی ہے تو اس مسجد میں نماز پڑھنی چھوڑ دی۔ ایک اورواقعہ دیکھیے۔

’’Invigilation کے دوران طلبہ نقل کررہے تھے انھوں نے اپنی آواز کی طاقت سے روکنے کی کوشش کی ، طلبہ باز نہیں آئے کیوں کہ اس زمانے میں نقل کا عام چلن تھا وہ اپنے دل میں برا سمجھ کر خاموش ہو رہے کہ یہ ایمان کا آخری درجہ ہے۔ پرچے کا وقت ختم ہونے کے بعد انھوں نے طلبہ سے کہا تھا’’میری طرح  کے Invigilator ہوں گے تو قومیں تباہ ہوجائیں گی۔ میں نے آپ کے ساتھ دشمنی کی ہے ’’پھر شرمندہ و افسردہ ہال سے ایسے نکلے تھے جیسے نقل کرنے کا گناہ انہی سے سرزد ہوا ہو۔‘‘

(رنگ امتزاج عارف خورشید ص 71)

اس اقتباس سے شاہ صاحب کی شخصیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ڈپلومیسی اور مصلحت پسندی خاکہ نگار کے لیے سمِ قاتل ہوتی ہے۔ عارف خورشید ایک بیباک ، نڈر اوربے لاگ ادیب تھے اس لیے صنف خاکہ نگاری ان کے مزاج سے پور طرح میل کھاتی ہے۔ وہ ان باتوں کا بھی بے خوف ذکر کرتے ہیں جن کو پوشیدہ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ گفتی نہ گفتن کمال گویائی است ‘‘ مگر عارف خورشید کے لیے نہ گفتی گفتن کمال ِگویائی تھا۔

شمیم خان اورنگ آباد کے معروف شاعر ہیں۔کسی کی ہجو لکھنا ان کا مشغلہ ہے۔ انھوں نے اورنگ آباد کے بہت سارے شاعروں اور ادیبوں کی ہجویات نہ صرف لکھیں بلکہ صاحب ہجو کے نام سے اس کے مکان کے پتے پر بھی پوسٹ کی ہیں۔ایک مرتبہ شمیم خان نے ایک شاعر کی ہجو لکھی اور اس کے مکان کے پتے پر بھیج دی۔کچھ دن بعد اس شاعر کا گذر اس گلی  سے ہوا جہاں شمیم خان اپنے دوستوں کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے۔جیسے ہی اس شاعر کی نظر شمیم خان پر پڑی اس نے شمیم خان کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا’’میں نے مکان بدل دیا،مجھے خط نہیں ملا۔

 خاکے میں اگر شخصیت کی انفرادیت کو نظر انداز کر دیا جائے تو وہ اسیکچ نہیں رہ جاتا۔ م ناگ نے کیا خوب کہا ہے:

’’خاکہ ایک عمارت کا کھلا دروازہ ہے مگر اس میں کئی چور دروازے بھی ہوتے ہیں جن میں جھانک کر دیکھنا بہت مشکل ہے کیونکہ بظاہر یہ ہوتے نہیں بنانے پڑتے ہیں۔ اصل کام یہ ہے کہ آدمی کے اندر کے آدمی کو باہر لایا جائے۔ اسے کھینج کھانچ کر باہر لانا نقادوں کا کام ہے بہلا پھسلا کر لانا خاکہ نگار کا وصف ہے۔‘‘

(م۔ ناگ۔ روزنامہ اردو ٹائمز ممبئی 2،3 مارچ 1996)

عارف خورشید نے اپنے خاکوں میں شخصیت کو اس کی پوری انفرادیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اورنگ آباد میں بیک وقت چار مشہور اشخاص کا نام ’شمیم‘ تھا۔اس لیے قمر اقبال نے شمیم خان کو ان تینوں سے ممتاز کرنے کے لیے ان کے نام کے ساتھ لفظ ’’دھوکہ لگا دیا۔یعنی ’شمیم دھوکہ‘ اور شمیم خان ’دھوکہ ‘ کے نام سے مشہور ہوگئے۔عارف خورشید نے شمیم خان کو اسی نام سے دعوت نامہ دیا۔جس پر شمیم خان کی رگ شرارت پھڑپھڑائی اور انھوں نے امارت شرعیہ کی طرز پر شہرمیں قائم امارت غیر شرعیہ کے صدر کو شکایتی مکتوب تحریر کر دیا۔اس مکتوب کوعارف خورشید نے خاکے میں شامل کیا ہے۔جس سے شمیم خان کے مزاج کی شرارت اپنی پوری انفرادیت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے۔ نیز شمیم خان کی رگوں میں سرایت کردہ ادبیت اور بے ادبی میں بھی ادبیت صاف جھلکتی ہے۔درخواست ملاحظہ ہو:

بخدمت شریف جناب صدر صاحب مدظلّہ،  امارت غیر شرعیہ ، لوٹا کارنجہ ، اورنگ آباد

مقدمہ : ایک شریف انسان کا نام بگاڑنے کے سلسلے میں۔

حوالہ :عارف خورشید کا وہ رقعہ جو انھوں نے اپنے بچوں کے عقیقے کے لیے طبع کروایا تھا۔ منسلک ہے

عالی جاہ! ادباً گذارش ہے کہ عارف خورشید (ناکام شاعر) نے اپنے بچوں کی تقریب عقیقہ کے لیے معصوم کو مدعو کیا اور نام کے آگے لفظ ’دھوکا ‘ سبزسیاہی میں لکھا۔ چونکہ میں ایک مستند شریف شہری ہوں اور موصوف کی اس رکیک حرکت سے ذہنی طور پر مفلوج ہو چکا ہوں۔

عالی جاہ کے حضور دست بدعاہوں کہ ایسے شخص ناہنجار، شاعر ناتمام ، مدرس نما بیوپاری ، چرواہے عارف خورشید کو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ اورروں کو عبرت حاصل ہو۔

امید کہ عالی جاہ اس مسئلے پر بطور خاص نظر فرماکر مجرم عارف خورشید، مدرس مولانا آزاد ہائی اسکول کو سخت سے سخت سزا تجویز فرماکر معصوم حقیر فقیر خان شمیم خان پر کرم فرمائیں گے۔

شرح دستخط: شمیم   گواہان 1) محمد حسن 2) عفیف شطاری

خاکہ دراصل خاکہ نگار کے خلوص نیت اور جس پر خاکہ لکھا جارہا ہے اس کی فراخ دلی کا طالب ہوا کرتا ہے رؤف خیر نے اپنے مضمون میں اورنگ آباد کے ادیبوں اور شاعروں کی تعریف کی ہے جو تنقید کو برداشت کرتے ہیں۔

خاکے میں طنز نہیںہونا چاہیے۔ جہاں اس میں طنز در آیا وہیں سے یہ ہجو کی سرحد میں داخل ہوگیا   خاکے کو ہجو نہیں ہونا چاہیے نہ ہی مدح۔ عارف خورشید شاہ حسین نہری کے خاکے میں لکھتے ہیں :

’’میں پہلی ہی ملاقت میں سمجھ گیا کہ آدمی ’مذہبی ‘ دکھائی دینے کے باوجود نیک ہیں ‘‘ کسی نے کہا ہے کہ پارسا لوگوں پر خاکہ لکھا جائے تو وہ کامیاب خاکہ نہیں ہوتا۔ پارسا لوگوں پر سوانح لکھی جانی چاہیے۔عارف خورشید نے پارسا لوگوں پر بھی اچھے خاکے لکھے ہیں۔ عارف خورشید زبان پر عبور رکھتے تھے۔ان کی زبان سادہ، سلیس اور ررواں ہے اور کیوں نہ ہو ان کی زبان، زبان اورنگ آبادی جو ہے۔

 

Dr. Quazi Naweed Ahmed Siddiqui

Head, Dept of Urdu

Maulana Azad College of Arts, Science & Commerce, Dr. Rafiq Zakaria Campus

Rauza Baugh

Aurangabad - 431001 (MS)

Mob.: 9860839355

 

 

 


 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں