24/6/22

افسانہ نگار ناقد: اختر اورینوی - مضمون نگار : محمد حسنین رضا

 



اختر اورینوی ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے۔ جنھوں نے ادبی کارناموں کا ایک یادگار زخیرہ چھوڑا ہے۔ اختر اورینوی شاعر، افسانہ نگار، ڈراما نگار، ناول نگار، محقق اورناقد بھی تھے۔ ادب کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جہاں انھوں نے تصنیف و تالیف کی صورت میں خوبصورت موتی نہ بکھیرے ہوں۔ ہر صنف ادب میں انھوںنے قلم کا زور دکھایاہے۔

اختر اورینوی کا اصل نام سید اختر احمد تھا۔ اختر تخلص کرتے تھے۔عرف عام میں اختر اورینوی کے نام سے مشہور ہوئے اور ادبی دنیا میں بھی اسی نام سے شہرت ملی۔

اختر اورینوی کے والد کا نام سید وزارت حسین اور والدہ ماجدہ کا نام بی بی خدیجہ تھا۔آپ کی پیدائش 19 اگست 1910 کو ضلع گیا میں ہوئی تھی۔اختر اورینوی کی شادی مشہور ومعروف خاتون افسانہ نگار شکیلہ اختر (شکیلہ بانو) سے ہوئی۔  وہ ایک خوش حال اور ذی علم خاندان کے فرد تھے۔ ننھیال اور ددھیال دونوں جہت سے عزت دار اور پروقار۔ وہ خوب صورت تھے اور خوش خلق وخوش پوش بھی۔نرم مزاجی اور نیک دلی اختر اورینوی کی سرشت تھی اور غم گساری ومنکسرالمزاجی ان کا شعار تھا۔ وہ تعصب اور تنگ نظری سے کوسوں دور تھے۔انسانی ہمدردی سے لبریز وہ ہر کسی سے لطف و اخلاق سے پیش آتے تھے۔حتیٰ کہ اپنے مخالفین سے بھی وہ خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔

اختر اورینوی ایک پیدائشی ادیب تھے اور تخلیق کاری ان کی وہبی استعداد تھی۔ انھوں نے لکھا اور خوب لکھا اور ہر میدان میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ وہ شاعر بھی اعلیٰ مقام کے تھے اور افسانہ نگار بھی منفرد تھے۔ ناول نگار ی اور ڈراما نگاری میں بھی ان کی شخصیت قابل ستائش تھی اور بحیثیت ناقد و محقق بھی بلند پایہ تھے۔ ’انجمن آرزو‘ اور ’یک چمن گل‘ ان کے شعری مجموعے ہیں۔ جہاں تک ڈراما اور ناول کا تعلق ہے ان کا ناول ’حسرت تعمیر‘ اوردو ڈرامے ’شہنشاہ حبشہ‘ اور’زوال کینٹین‘ فکری و فنی اعتبار سے کامیاب اور معیاری ہیں۔ ’ بہارمیں اردو ادب کا ارتقا‘ ان کا معرکتہ الآرا کارنامہ ہے۔ جس میں انھوں نے لسانیات سے متعلق اپنی مدلل رائے پیش کی اور تحقیق کا حق ادا کیا۔ علاوہ ازیں ان کی کئی تنقیدی تصانیف بھی منظر عام پر آکر داد وتحسین حاصل کر چکی ہیں۔ جس میں تحقیق و تنقید، نئی تنقید، سراج ومنہاج اور بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا کو ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ملی۔اختر اورینوی نے اپنے تنقیدی مضامین و تصانیف میں تنقید کے بنیادی مسائل کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرائی۔

شاعری اور کہانیوں سے اختر اورینوی کی دلچسپیوں کا سلسلہ دور طفولیت اور آغاز نوجوانی سے شروع ہو جاتا ہے۔اختر اورینوی اپنی اس دلچسپی کا اظہار یوں کرتے ہیں:

’’ بچپن میں کہانیاں سننے کا بڑا شوق تھا۔ گھر کی بڑی بوڑھیوں کی خوشامدیں کیا کرتا تھا اور خوب کہانیاں سنا کرتا۔ دادی اماں مذہبی قصے سناتی تھیں اور دوسرے لوگ دنیا بھر کی حکایتیں اور داستانیں سناتے تھے۔ بیمار بہت پڑتا تھااور کہانیوں سے میری بیماریاں بہلائی جاتی تھیں۔ مجھے میٹھی چیزوں اور کہانیوں کا بڑا شوق رہا۔آج بھی ناولوں اور داستانوں پر اور حلووں پر جان دیتا ہوں۔‘‘

(بحوالہ :ہندوستانی ادب کے معمار،اختر اورینوی، ساہتیہ اکادمی، 2004، ص68)

کہانی سننے کا یہ شوق رفتہ رفتہ سنانے کی خلش بن گیا اور وہ ایک عظیم افسانہ نگار بن گئے جنہوں نے صوبۂ بہار کانام افسانوی ادب میں روشن کیا۔ ان کا شمار بہار کے ممتاز ترین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ اختر اورینوی صوبہ بہار کے وہ لعل ہیں جن کے قلم سخن نے بیسیوں افسانے کو وجود بخشااور افسانوں کا ایک ذخیرہ تیار کیا۔

اختر اورینوی نے اپنے افسانوی سفر کا آغاز 1927 میں کیا۔ اختر اورینوی اپنے ایک مقالہ’میرا نظریۂ فن‘ میں خودلکھتے ہیں کہ:

’’ مجھے یاد ہے کہ میں نے 1927 سے چھوٹے چھوٹے ادب لطیف کے نمونے پیش کرنے شروع کر دیے تھے اور غزلیں لکھنی شروع کر دی تھیں۔ عنفوان شباب کا خاص تعلق ادب لطیف اور غزل سے بھی ہے۔ تخلیق سے ذوق وشوق کی تسکین ہوتی تھی اور بس! ادب ونظریہ کے تصور سے بھی واقف نہ تھا۔ یہ کیفیت 1936 تک رہی اور اس لمبے عرصے میں میں نے رومانی رنگ کی تخلیقات بھی کیں۔ حقیقت پسندانہ بھی اور مقصدی ادب بھی پیش کیا۔‘‘ (اختر اورینوی:فنکار وناقد، ص15)

اختراورینوی کی افسانوی تخلیقات میں ’رتنا‘جسے انھوں نے 1927 میں لکھا، ان کی اہلیہ شکیلہ اختر کے مطابق کہیں شائع نہ ہوسکی۔ان کا پہلا افسانہ جو ادبی پرچہ میں شائع ہو ا وہ’بدگمانی‘ ہے۔ اس کے بعد تو وہ مسلسل ومتواتر لکھتے رہے۔  ان کے چھ افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے۔جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے: منظر وپس منظر، کلیاں اور کانٹے،  انارکلی اور بھول بھلیاں،   سمینٹ اور ڈائنامیٹ، کیچلیاں اور بال جبریل،  سپنوں کے دیس میں۔  ان کے چھ افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے جن میں  تقریباً سو افسانے شامل ہیں۔ ’ بدگمانی‘سے لے کر ’ایک درخت کا قتل‘ تک ان کا طویل افسانوی سفر ہے جو 1927 سے 1977 تک پھیلا ہوا ہے۔جو مکمل آدھی صدی پر مشتمل ہے۔ اس میں اختر اورینوی نے اپنے تجربوں اور مشاہدوں، افسانوی صلاحیتوں اور فنی بصیرتوں کو بروئے کار لا کر افسانوں کی خوبصورت دنیا آباد کی ہے، جس کا کینوس فن، ہیئت اور موضوع کے اعتبار سے وسیع اور متنوع ہے۔مظہر امام اپنی بیش قیمت رائے کا اظہار کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

’’اورینوی کے افسانے فن اور موضوع دونوں اعتبار سے نادیدہ جہانوںکے تلاش وجستجو کا پتہ دیتے ہیں۔ ان کے افسانوں کی دنیا اپنے موضوعات کے لحاظ سے بڑی وسیع اور متنوع ہے۔ یہ افسانے کسی مقید فضا میں سانس نہیں لیتے۔ ان کا خمیر زندگی سے اٹھا ہے اور زندگی کہیں دور خلا کے اندھیروں میں پرواز نہیں کرتی۔ وہ انسان کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں ہنستی اور مایوسیوں میں آنسو بہاتی ہے۔ اورینوی کے زندگی آمیز اور زندگی آموز افسانوں پر ایک ہمہ جہت اور پروقار شخصیت کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے۔ ‘‘ (ایضاً، ص26)

اختر اورینوی نے مذکورہ بالا مجموعوں کے مختلف افسانوں میں مختلف النوع موضوع، اسلوب اورتحریکات کو سمونے کی عمدہ سعی کی ہے۔ ان کے ابتدائی دور کے افسانوں میں رومانویت کا عنصر نمایاں ہے۔چنانچہ اس تعلق سے وہ خود ایک جگہ اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے سب سے پہلے رومانی افسانہ نگار نیاز فتحپوری سے اثر قبول کیااور علامہ اقبال سے بھی متاثر ہوئے جو ان کی تخلیقات میں دکھائی دیتا ہے۔ گھر کے مذہبی ماحول نے ان کو حالی، اقبال، شبلی اور شرر کا گرویدہ بنا دیا۔ وہیں وہ میر، غالب، نیاز، یلدرم اور اختر شیرانی سے مستفیض ہوئے اورترقی پسندی کا بھی خاص اثر قبول کیا۔ بقول اختر اورینوی:

’’ میں نے اہل زندگی میںسب سے پہلے نیاز فتحپوری سے اثر لیا اور ساتھ ہی ساتھ یا اس کے کچھ بعد اقبال سے اثر پزیر ہوا۔ نیاز اور اقبال کے دو متضاد نظریہ ہائے فن ہیں۔ آج میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں نظریے ایک دوسرے کی تشکیل کا باعث ہیں۔ اردو ادب کی روایت میں ترقی پسندی بھی ملتی ہے اور عیش کوشی بھی۔ ان دونوں کا تصادم بھی ملتا ہے اور رجعت پسندی بھی۔ میرے گھر کی مذہبی فضا نے مجھے حالی، اقبال، شبلی اور شررکا گرویدہ بنا دیا لیکن میرے مزاج کی جذبات پروری اور رومانیت نے مجھے میر، غالب، نیاز فتحپوری، یلدرم اور اختر شیرانی کی طرف بھی مائل کیا۔ درمیانی دور میں اشتراکیت سے بھی بہت متاثرہوا ہوں۔ اسی بنا پر ترقی پسند مصنفین کی انجمن اور ترقی پسند تحریک سے گہرا اثر قبول کیا۔ اب غور کرتا ہوں تو میں کسی ایک میلان کا کبھی نہیں رہا اور ایک دھارے میں کبھی نہیں بہا۔‘‘(ایضاً، ص27)

یہی وجہ ہے کہ اختر اورینوی کے یہاں ایک میلان نہیں ملتا ہے۔ وہ اپنی کہانیوں میں مختلف النوع موضوعات کو پیش کرنے میں کامیاب ہیں۔اسی مضمون میں اختر اورینوی اپنے نظریۂ فن کو مزید وضاحت وصراحت کے ساتھ اس طرح پیش کرتے ہیں:

’’ میرا نظریہ یہ ہے کہ فن کی ساری قسمیں تجربات زندگی سے خام مواد حاصل کرتی ہیں اور ترتیب فن کی اندرونی شخصیت سے نئی ترتیب تازگی، زندگی، روح سوز وساز، تعمیر ومعنویت حاصل کرتی ہیںاور پھر پیش کش کی منزل میں فنکاری کی ہنرمندی سے ترتیب وتناسب ربط وہم آہنگی، تراش وخراش، وضع وقطع، اسلوب وادا، تنظیم وتعمیر پاتی ہیں۔ غرض یہ کہ فن، فطرت اور معاشرہ زندگی اور کائنات کی محض ترجمانی کا نام نہیں بلکہ تخلیق جدید کا نام ہے۔‘‘

(اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک ـ : خلیل الرحمٰن اعظمی، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی 2007، ص197)

پروفیسر عبدالمغنی نے اختر اورینوی کی افسانہ نگاری کے ابتدائی مرحلے کی نشاندہی کرتے ہوئے اس دور کے حالات و کیفیات پر مفصل روشنی ڈالی ہے:

’’جس وقت اختر اورینوی نے افسانہ نگاری شروع کی، پریم چند زندہ تھے اور ان کے پیروئوں کی ایک پوری نسل بروئے کار آچکی تھی۔ سدرشن، اعظم کریوی اور علی عباس حسینی ابھر چکے تھے۔ اس کے ساتھ نیاز فتحپوری کا جمالستان اور سجاد حیدر یلدرم کا خیالستان سج چکے تھے۔ مجنوں گورکھپوری کا بیان بھی آ چکا تھا۔ حجاب امتیاز علی کا کوہِ قاف نمودار ہو رہا تھا، سعادت حسن منٹو نے ابھی لکھنا شروع کیا تھا پھر اختر اورینوی کے لکھنا شروع کرنے کے دوتین برسوں بعد کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی اور چند سال اور بعد عصمت چغتائی بھی میدان میں آ گئیں۔‘‘(نیا افسانہ، ص 175)

اختر اورینوی کے افسانے کی نمایاں خصوصیت اور انفرادیت یہ ہے کہ انھوں نے پریم چند کی طرح بہار کی دیہی زندگی اور وہاں کے مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اختر صاحب نے خود کو بہار کے دیہاتوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان کے موضوعات میں تنوع اور رنگارنگی ہے۔اختراورینوی کے افسانوں میں سماج کے مظالم اورسرمایہ دارانہ نظام پر طنزو تنقید بھی ہے۔ان کو سماج کے متوسط طبقے سے ہمدردی ہے۔وہ موضوعات بھی متوسط طبقے سے لیتے ہیں مثلاً جونیئر وکیل، ٹائپسٹ، بوڑھی ماما، سینی ٹوریم کا فقیر، پندرہ منٹ اور ’درخت کا قتل‘ ان کے شاہکار افسانے ہیں۔

اختر اورینوی کے تمام افسانوں میں اختر اورینوی نے اپنے عہد کی بصیرت کو بڑی احتیاط، سنجیدگی اور انسان دوستی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ انھوں نے طبقاتی کشمکش اور متوسط طبقے اور نچلے طبقے کی اقتصادی الجھنوں اور محرومیوں کو نہایت عمدگی سے بروئے کار لایا ہے۔خلیل الرحمٰن اعظمی اختر اورینوی کے افسانوں کے موضوعات پر روشنی ڈالتے ہیں:

’’ اختر اورینوی نے بعض پیچیدہ مسائل کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ نچلے طبقے کی معاشی مشکلات، انسانی قدروں اور بھوک کا تصادم،قرض اور سود، لڑائی اور جھگڑے اورمقدمہ بازی، خاندانی مناقشات، زمیندار اور کاشتکار، قلی، نانبائی، رکشہ کھینچنے والے اور بھٹی جھونکنے والے سب کا مطالعہ اختر اورینوی نے قریب سے کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی متوسط طبقے کی ناکامیاں ونامرادیاں بھی ان کا موضوع رہی ہیں۔‘‘(ساغر نو: اختر اورینوی نمبر، 1965، ص 412)

اختر اورینوی نے سماجی بصیرت اور حقیقت کے امتزاج سے ایک ایسا اسلوب ایجاد کیاکہ اس سے زندگی کی ترجمانی میں جان پڑ گئی۔ انھوں نے دیہات کی عوامی زندگی اور ساتھ شہری زندگی کے مسائل کو واقعیت اور حقیقت شعاری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ بقول وقار عظیم:

’’ شہری زندگی کی بھیڑ بھاڑ میں سے اختر اورینوی نے بہت سی چیزیں چنی ہیں اور انھیں بہت سی چیزوںسے ان کے افسانوں کی تشکیل ہوئی ہے۔ اسی بھیڑ بھاڑ کی دنیا میں نچلے طبقے کے لوگ ہیں جیسے یکہ والے، موٹر ڈرائیور، نانبائی، چھوٹے بڑے مختلف طرح کے مزدور جو شہر میں رہ کر بھی بے سروسامان ہیں اور بے سروسامانی کبھی ان کی قوت بازو اور جذبہ خودداری کا مضحکہ اڑاتی ہوئی انھیں بھیک کے پنجوں میں لا پھنساتی ہے۔‘‘(جادۂ اعتدال، ص 160)

اختر اورینوی کے افسانوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے افسانوں میں وہی خوبیاں موجود ہیں جو عام طور پر معاشرتی اور سماجی مسائل کے پیچ وخم ہیں۔ وہ ایک بالغ النظر فن کار کی طرح ہندوستان کی پوری زندگی پر چھا گئے۔ ایک طرف بہار کی مخصوص فضا اور حالات میں رہنے والے کسانوں کے مصائب، خشک سالی، بھوک، غربت، سودہیں تودوسری جانب شہر کی بے بسی اور بے حسی کے درمیان پھنسا انسانی ہجوم اور مختلف طبقات میں بٹی ہوئی ان کی زندگی۔ ان کے افسانوی مجموعوںمنظر وپس منظر، سمینٹ ڈائنا مائٹ، کیچلیاں اور’بال جبریل‘ کے افسانوں میں وہی سسکتی زندگیاں ہیں جو سماج اور زمانے کے دوپاٹوں کے درمیان پسے جا رہے ہیں۔ زمیندار اور سرمایہ دار کے ذریعہ استحصال کا شکار ہو رہے ہیں۔ اکتاہٹ، شادی کے تحفے،  کلیاں اور’کانٹے‘ جیسے افسانوں سے اختر اورینوی کا شمار اردو ادب کے ان باکمال افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جن میں بیدی، کرشن چندر، خواجہ احمد عباس اور حسن عسکری نظر آتے ہیں۔ان کے افسانوں میں سماجی زندگی، حقیقت کے ساتھ رومان سے قریب نظر آتی ہے جو قاری کے دل پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔نینی، شاکرہ اورراشدہ کا کردار بحیثیت نسوانی کردار ان کے افسانوں کے مرکزی کردار ہیں۔ یہ وہ کردار ہیں جو مسلم اور کرشچن، باعزت مڈل کلاس کے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ سادہ لوح، خاموش اور محبت کی مٹی سے گندھے ہوئے ہیں۔ اختر اورینوی کا مطالعہ و مشاہدہ اس تناظر میں بھی کم نہیں۔ان کرداروں پراختر اورینوی کی نظر موضوع سے زیادہ قریب ہوتی ہے اور وہ ان کرداروں کی گہری جذباتی ہیجان کو نہایت قریب سے پیش کرنے میں بہت ہی ماہرانہ چابکدستی سے کام لیتے ہیں۔ بحیثیت افسانہ نگار ان کا قد بلند دکھائی دیتا ہے۔ان کے افسانوں میں زندگی کا گہرا مطالعہ اور اس کے معنی خیز پہلوؤں کا احساس بھی پایاجاتاہے۔ وہ کہانی میں کردار، پلاٹ اور ہیئت کو اس سلیقہ مندی سے پیش کرتے ہیں کہ کہیں بھی تاثر کم نہیں ہوتا۔ زبان میں تاثیر اور کیفیت ہے۔ ان کے افسانے ہمیں گرد وپیش کے متعلق ایک بصیرت عطا کرتے ہیںاور ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ وہ ان افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں جو زندگی کی تصویر کشی میں نفسیات کے مطالعہ سے کام لیتے ہیں۔ انھیں انسانیت کی بنیادی قدروں کا بھی عرفان ہے اور وہ زندگی کے کائناتی نظام سے بھی واقفیت ہے۔

بلا شبہ اختر اورینوی کی ادبی شخصیت ہمہ گیر تھی۔ ان کے جادو نگار قلم کی جولانیاں مختلف اصناف ادب میں نظر آتی ہیں۔ اختر اورینوی اردو ادب کے اعلیٰ ادیب وشاعر ہیں۔ شاعری ہو کہ افسانہ، ناول ہو کہ ڈراما، تاریخ ہوکہ صحافت اور تحقیق ہو یا تنقیدہر جگہ ان کی جلوہ سامانی موجود ہے اوروہ اتنی آہستگی اورشائستگی کے ساتھ یہ کارنامہ انجام دیتے ہیںکہ ہر سو ان کے فن کا ڈنکا بجنے لگتا ہے۔اختر اورینوی کی غیرمعمولی کاوشوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔

Md Hasnain Raza

D-4, Second Floor, Okhla Vihar,

Jamia Nagar, Okhla

New Delhi-110025

Mob.: 9891675442

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں