22/6/22

فخر مالوہ: عمیق حنفی - مضمون نگار : غلام حسین


 


ہندوستانی تہذیب و ثقافت میں تین شاہکار، جمالیاتی فطرت کے مظہر ہیں۔ پہلا ’صبح بنارس‘ دوسرا ’شام اودھ‘ اور تیسرا ’شب ِمالوہ‘۔ تاریخ میں ارض ِمالوہ کی عظیم الشان روایت رہی ہے۔ قابلِ فخر آرائے سلطنت کاتعلق اس سرزمین سے رہا ہے۔اس خطۂ خاص میں علم و اد ب کی ایسی لازوال اور باکمال ہستیاں عالم وجود میں آئیں جن کی آفاقیت مُسلّم ہے۔شاعرِاعظم کالیداس اور بھرتر ہری کی نسبت اسی خاک زیرک(اُجین)سے ہے۔ یہاں امیر خسرو کے قیام کا ذکر ملتا ہے۔ ان کے پیر بھائی مولانا مغیث الدین موج کامستقراُجین تھا اور یہیںوہ سپردِ خاک ہوئے۔آج بھی ان کا مزارمرجع خاص و عام ہے۔ عہد سلطنت میں شادی آباد(مانڈو) اور دورِ ریاست میں گلشن آباد(جاؤرہ) اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے اہم مراکز تھے۔ دستورِ ہند کے معماروں میں کلیدی کردار ادا کرنے والی مایہ ناز ہستی ڈاکٹربھیم رائو امبیڈکر کی جائے پیدائش ہونے کا فخرمہو کو حاصل ہے۔ملک کے ایسے سپوت کی گرانقدر خدمات کے پیش نظر حکومت وقت نے اب ’مہو‘کا نام تبدیل کر ڈاکٹر امبیڈکر نگر کر دیا ہے۔

 جہاں تک اس علاقے میں اردو زبان کے ارتقائی سفر کا تعلق ہے تو ابتدائی اور تشکیلی دور  سے ہی جو صورت حال برصغیر میں تھی تقریباً انھیں عوامل کی کارفرمائی بھی یہاں نظر آتی ہے۔مغلیہ سلطنت کا شیرازہ منتشر ہونے کے بعد اس زبان کی خوشبو پورے ملک میں پھیلنے لگی۔ جنگ آزادی 1857 کے بعد اس عمل میں اور تیزی آگئی۔ نواحِ دہلی اور مغربی یوپی کے باشندے جن کی زبان اردو تھی وہ جب انگریزوں کے ظلم و جبر کا شکار ہوئے تواس کو جا ئے امن سمجھ کر یہاں آباد ہونے لگے اور اردو زبان و ادب کی شمع روشن کرنے لگے۔ یہاں کے والیان ِریاست کو بھی فارسی اور اردو زبان سے بڑا لگاؤ تھا۔ایسے سازگار ماحول میں اردو زبان کاا قبال بلند ہوا۔تدریس اوردفاتر میں اس زبان کی اہمیت کا اعتراف کیا گیا۔اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے قائم ہوئے۔مہو میں تعلیم کا معیار اس قدربلندتھا کہ یہاں کے پرائمری اسکولوںکا شمار ایشیا کے نمبر ایک کی تعلیم گاہوں میں ہوتا تھا۔ جہاں موقر اساتذہ کا تقرر ہوتا تھا۔بیسویں صدی کے اوائل میں حامد حسن قادری جیسی اردو کی نامور ہستی یہاں استاذ کے عہدے پر فائز تھی۔ آج بھی اس کے آثار باقی ہیں۔

 مہو کے بارے میںیہ کہا جاتا ہے کہ اندور سے متصل ایک غیر آباد ٹکڑا تھا جو جنگلوں سے گھرا ہوا تھا۔ انگریزوں نے غالباً1812 میں ایک معاہدہ کے تحت ہو لکرسے حاصل کیااور عسکری ضروریات کے لیے استعمال کیا۔ انگریزوں کا یہ دور اندیشانہ لائحہ عمل تھا۔انگریزوں نے اس کا نام مہو(MHW) رکھاجو مخفف Military Headquarters Of War. ہے برٹش حکومت میں اسے مرکزیت حاصل تھی۔1857 میں انگریزوں نے جنگ یہاں سے لڑی تھی۔اس کی اتنی اہمیت تھی کہ ایک بار یہاں ونسٹن چرچل بھی آئے تھے جبکہ وہ محض ایک رپورٹرتھے… یہ چھائونی اردو زبان کے لیے بڑی سود مند ثابت ہوئی۔اس لحاظ سے اگر اسے دورِ جدید کا ’اردو بازار ‘کہا جا ئے تو بے جا نہ ہوگا۔ سربرآئوردہ دانشور، ادیب و شاعر عمیق حنفی کی پیدائش اسی مہو میں 3 نومبر 1939  کو ہوئی جو ان کا  ننہیال  ہے۔یہیں ان کی تعلیم و تربیت ہوئی اور تخلیقی سفر کا یہیں سے آغازہوا۔ ان کا اصل نام محمدعبدالعزیزحنفی تھاجو دنیائے ادب میں عمیق  حنفی کے نام سے مشہور ہوئے۔ان کے والد کانام عبد البصیرتھا اور ان کے ماموں محمد یعقوب اپنے زمانے کے معروف وکیل تھے۔اردو،فارسی اورانگریزی زبانوں سے انھیں بڑی انسیت تھی۔انھیں کے زیر سایہ ان کی تربیت ہوئی۔ بسلسلۂ ملازمت ان کے والد کی اقامت دیواس میں تھی حسن اتفاق وہ موسیقی کے نامی گرامی استاد ر جب علی خان کے ہمسایہ تھے۔عمیق جب اپنے والد سے ملنے جاتے تو استاد کے گھربھی آنا جانا ہوتا۔اس وقت وہ کم سِن تھے۔ مگر اس چھوٹی سی عمر میں بھی وہ موسیقی کے استاد کی ریاضت اور مباحث سے ازحدمتاثر ہوئے او ر ایک موسیقار بننے کا خواب دیکھنے لگے۔ان کی اس دیوانگی پر والد ہ سخت برہم ہوئیں چنانچہ انھیں یہ سلسلہ ترک کرنا پڑا مگر ا نھوں نے مشق سخن جاری کیا توسُر،تال اور لَے کے ادراک سے انھیں  بڑی مدد ملی۔جب وہ اظہارِ خیال کرنے لگے تو سحر آفریں نغمگی سے ان کے الفاظ میں جان سی پڑ گئی۔

لکھنے پڑھنے کا شوق انھیں بچپن ہی سے تھا۔جب وہ مڈل اسکول میں زیرِ تعلیم تھے تبھی سے وہ اپنے خیالات کو قلم بند کرنے لگے تھے۔اسکول اور کالج کے زمانے میں ہی وہ ہندی میں کویتا لکھنے لگے تھے۔اخبار ورسائل میں ان کی کویتائیں چھپنے بھی لگی تھیں۔انھوں نے دو مضامین سیاست اور تاریخ میں ایم  اے کیا اس کے بعدوہ اردو میں بھی شعر کہنے لگے۔رسائل میں کلام کی اشاعت اور نشستوں کی شرکت سے ان میں دن بہ دن اعتماد پیدا ہوتا گیا۔تکمیلِ تعلیم کے بعد مہو کے ایک مشنری اسکول میں وہ بحیثیت استاذ کام کرنے لگے۔ اس وقت ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’سانسوں کا سنگیت (ہندی رسم الخط)میں شائع ہوا۔ انھیں اردو زبان و ادب سے بہت شغف تھا۔غرضیکہ اردو میں طبع آزمائی کی شروعات کی تو خوب سے خوب تر اندازمیں وہ آگے قدم بڑھاتے گئے اور ایک دن ان کا شمار صف اول کے فنکاروں اورقلم کاروں میں ہو نے لگا۔انھوں نے تعلیم وتعلّم، تحریر و تقریر،مطالعہ و مشاہدہ اور مناظرہ کو اپنا وظیفۂ حیات بنالیا۔انھوں نے اپنی ذہانت، فطانت اور گہری بصیرت سے اہلِ علم وہنر کو متاثر کیا۔ پروفیسر صادق ان کی تبحر علمی اور ہمہ دانی کا اعتراف کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :

’’وہ شعرو ادب کے علاوہ موسیقی،مصوری،رقص اور ڈراما و غیرہ سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ ہندوستانی ادب، فلسفہ،تاریخ اور جمالیات پر ان کی گہری نظرتھی۔ علم ِنجوم سے شغف رکھتے تھے۔ان کے عمیق مطالعہ اور گہری بصیرت کے مظہر وہ مضامین ہیں جو انھوں نے چھٹی دہائی میں مختلف موضوعات پر لکھے تھے۔مرحوم کو ہندی زبان و ادب پر بھی عبور تھا۔‘‘ (ادب کے سروکار، ص 18)

پروفیسرقمر رئیس نے ان کی ادبی شخصیت کا تذکرہ بجا طور پر اس انداز میں کیا ہے :

’’عمیق حنفی طبعاًبڑی جو شیلی،متحرک اور پہلودار شخصیت کے مالک تھے۔ان کی ذہنی اور وجدانی دنیا میں جس طرح کا جوش اور جیسی توانائی دیکھنے میں آتی تھی۔ اس طرح کی فعالیت اور تب و تاب ان کی تخلیقی زندگی میں بھی نمایا ں رہی۔‘‘

(ترقی پسند ادب۔پچاس سالہ سفر،مرتبہ قمر رئیس،عاشور کاظمی،ص 378)

عمیق حنفی نے اردو ادب کے میدان میں جس وقت قدم رکھا تو اس وقت بڑا سازگار ماحول تھا مگر فی زمانے کے تناظر میں اس صورت حال کا اندازہ لگایا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے   ع

بھڑکتا ہے چراغ صبح جب خاموش ہو تا ہے

جب وہ اندور ریڈیو اسٹیشن پر مامورتھے تو اس وقت اردو شعرو ادب کی ایک کہکشاں جلوہ گر تھی۔فخر مالوہ کرامت علی کرامت کے شاگردچراغ سخن جلائے ہوئے تھے۔ فخر مالوہ ثانی شاداں اندوری بقید حیات تھے۔ڈاکٹر عزیز اندوری،ڈاکٹر مختار شمیم،رشید اندوری اور ڈاکٹر راحت اندوری سے بزم آراستہ تھی۔اندور سے متصل اُجین میں ا شہرگوڑ،گویا قریشی،عطا الٰہی صدیقی،کاشف ا لہاشمی،  حسرت قریشی، محمودزکی، محمود احمد سحر، پروفیسر عبد الباقی، پروفیسراظہر راہی، پروفیسر وسیم الدین، پروفیسر خلیل احمدمشیر،پروفیسر آفاق حسین صدیقی جیسی ہستیاں محفل سخن کو بارونق بنا رہی تھیں۔ اس دور کی دو اور نامور ہستیاں پروفیسر صادق،پروفیسر عتیق اللہ تعلیم وتدریس کے ساتھ تخلیق کی طرف بھی قدم بڑھا رہے تھے گویا یہ حضرات اپنے وطن میں گمنام نہیں تھے اور غربت میں جا کے خوب چمکے۔اُجین سے اورنگ آباد کا ادبی سفرایک منزل تھی۔ وہاں سے دلی بہت قریب ہو گئی۔جہاں وہ اردو ادب کے مرکز نگاہ بن گئے۔مذکورہ حضرات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے احمد کمال پروازی،رشید امکان، پروفیسر واجد قریشی، ڈاکڑ مسیح الدین انصاری، ڈاکڑ شہناز قریشی، ڈاکٹر کشور سلطان،پروفیسر حدیث انصاری، ڈاکٹر مظہر محمود، پروفیسر فہمیدہ منصوری،ڈاکٹر ظفر محمود، ڈاکٹر عشرت ناہید وغیرہ اردو زبان کی آبیاری میں سربراہی فرما رہے ہیں۔ان میں سے کچھ حضرات اپنی ملازمت سے سبکدوش بھی ہو گئے ہیں۔

عمیق حنفی نے عملی زندگی کی شروعات تدریس سے کی مگر ان کی سیمابی اور متحرک طبیعت نے انھیں ایک جگہ ٹھہرنے نہیں دیا۔وہ زندگی بھر خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہے اور ستاروں پر کمند ڈالنے کی کاوش کرتے رہے۔ ان کے مزاج و معیار کے مطابق انھیں ریڈیو اسٹیشن کی افسری مل گئی تو ان کے خلاقانہ ذہن میں چار چاند لگ گیا۔ ا نھوں نے جدید ذرائع ترسیل سے بڑے کارآمد کام کیے۔  ان کی ذات سے اردو زبان کو بھی فائدہ پہنچاخصوصاً ریڈیائی ڈرامے کوانھوں نے ایک جہت دی۔ وہ خود بہترین ڈرامہ نامہ نگار تھے۔ ریڈیو پر ان کے پیش کردہ ڈرامے بہت مقبول ہوئے۔انھوں نے اپنی ذہانت اور بصیرت سے اپنے فرائض کو ہنر مندی اور سلیقے سے نبھایا، اس میدان میں ان کی صلاحیت خوب صیقل ہوئی اور ترقی کے منازل طے کرتے گئے۔ آل انڈیا ریڈیو بھوپال میں ایک اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے اپنے کریئر کا آغاز کیا۔ پروگرام ایگزیکٹیو ہوئے، آل انڈیاریڈیو امبیکا پور اور لکھنؤ میں اسٹیشن ڈائریکٹر  کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1984 میں ا سٹاف ٹریننگ کے ڈائیریکٹر منتخب ہوئے۔وہ بڑے ہردلعزیز ڈائیریکٹر تھے اور مرنجان مرنج شخصیت کے مالک تھے۔ 30 نومبر 1987کو اپنی ملازمت سے سبک دوش ہوئے۔ دوران ملازمت انھیں دل کا عارضہ ہوا۔ بائی پاس سرجری ہوئی مگر وہ مکمل طور پر صحت یاب نہ ہو سکے اور 3 اگست 1988 کو انھوں نے دہلی میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ وہیں بستی حضرت نظام الدین میں فخر مالوہ پیوندِ خاک ہوئے۔

عمیق حنفی کواپنے وطن مالوف مہو سے بڑی انسیت تھی۔  عزیر و اقارب اوردوست و احباب سے انھیں والہانہ لگائو تھا۔اب تو ان کے دور کے لوگ اجل رسیدہ ہو گئے۔فقط عبد الہادی صاحب بقید حیات ہیں۔اس وقت ان کی بھی عمر 80 برس سے تجاوز کر گئی ہے مگر ہوش و ہواس درست اور یادداشت ماشا اللہ،گوکہ عمیق  حنفی اور ہادی صاحب کی عمر میں بڑا تفاوت تھا مگر ہم مشرب،ہم مسلک اور ہم ذوق ہونے کی وجہ سے دونوں صاحبان ایک روح دو قالب تھے۔ آج بھی ہادی صاحب سے ملاقات ہوجاتی ہے توعمیق حنفی سے ان کی قربت کا اندازہ ہوتا ہے اور نصف الملاقات کا گمان ہو تا ہے۔مہو سے عمیق حنفی کو جذ باتی لگاؤ تھا۔وہ اپنے حین حیات میں کہیں بھی رہے مگر وہ مہو کی یاد میں محو رہے۔ اس کا ذکر ان کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔ایک نظم میں وہ مہو کو اس طرح یاد کرتے ہیں        ؎

پہاڑوں کے احاطے میں یہ ذرا سا شہر

حسین پیالے کے مانند جگمگاتا ہے

انڈیلتی ہے شب مالوہ یہاں مئے نور

   یہاں وہ لوگ جو اردو سکھائیں غیروں کو

یہاں وہ لوگ جو گونگوں کو بولنا سکھلائیں

عمیق  حنفی کی شخصیت کثیر الابعاد تھی۔انھیں اپنے دور کی تحریکات اور رجحانات سے غیرمشروط وابستگی تھی۔ وہ ترقی پسند بھی تھے اور’حلقہ ارباب ذوق‘کے ہمنوا بھی۔طرفہ تماشا یہ کہ وہ جدیدیت کے سرگرم رضا کار بھی تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ ایک روشن خیال دانشور تھے۔وہ اپنی راہ کے راہی بھی تھے اور رہبر بھی۔ جدیدیت کے آثار ان میں 1958 سے نمودارہونے لگے تھے۔جب ان کا پہلا شعری مجموعہ’سنگ پیرہن‘ منظرعام پر آیا تو ماہنامہ ’ادیب‘کے مدیر کو یہ خدشے لاحق ہوا کہ عمیق حنفی ترقی پسند فکر و شعور سے کہیں دور تو نہیں ہوگئے ہیں۔ اس کا ازالہ انھوں نے اپنے ایک مراسلہ میں کیا جو نومبر1958 کے ماہنامہ ادیب میں شائع ہوا اس سے ان کے زاویہ نظر کا اندازہ ہوتا ہے:

’’ میں نے ترقی پسندی کو اپنا ذہنی فکری مسئلہ اور جمالیاتی مذہب مانا ہے اگر مارکسی جمالیات کی صحیح تصویر سامنے رکھی جائے تو شاعری میں ادب کی ترقی پسندی کے درشن آپ کو ضرور ہوں گے ترقی پسند فکر میری شاعری کے رگ و ریشے میں سمائی ہوئی ہے۔‘‘

 اس  کے علاوہ یہ بھی حوالہ ملتا ہے کہ جب 1967 میں علی گڑھ یونیورسٹی نے جدیدیت کے عنوان پر ایک سیمینار منعقد کیا تو اس میں شرکت سے معذوری کا اظہارکر دیا۔اس وقت کے نامور ادیبوں نے ان کی ترقی پسندی کا اعتراف کیا ہے۔

روما نیت اور انانیت کی آمیزش سے متشکل عمیق حنفی کی تہہ دار شخصیت کی صراحت ایک مشکل امر ہے۔ ایک طرف وہ ترقی پسندی سے دست بردار نہیں تھے تو دوسری طرف اگر ہم ایک کوہ قامت ترقی پسند ادیب اور دانشور پروفیسر احتشام حسین سے ان کی محاربہ آرائی اور معرکہ آرائی کو پیش نظر رکھیں تو وہ جدیدیت کے سالار کارواں نظر آتے ہیں۔جدیدیت اور ترقی پسندی کے مابین مکالمہ کو مناقشہ بنانے میں ’سوغات ‘اور ’شب خون‘ کا بڑا ہاتھ رہا ہے، جس کی حمایت میں شمس الرحمن فاروقی اپنی کمک کے ساتھ میدان جنگ میں اتر آئے۔یہ بھی سچ ہے کہ فاروقی صاحب،عمیق  حنفی کے فکر و فلسفہ، دانشوری،علمیت اور تخلیقات کے قائل ہی نہیںبلکہ گرویدہ تھے۔ وہ توانھیں اپنا ’پیر و مرشد‘ گردانتے تھے۔لیکن 1983 میں ’شعر چیز دیگر است‘پر اردو اکیڈمی یو پی نے انھیں ڈیڑھ ہزار کا انعام دیا۔علی الرغم اس سے بڑاانعام شمس الرحمن فاروقی کو دیا گیا۔جس سے ا ن کی خود داری کو ٹھیس پہنچی اور انھوں نے وہ انعام ٹھکرا دیا۔یقینا اس وقت عمیق حنفی کا ادبی قد بہت بلند تھا مگر نہ جانے ارباب حل و عقدکس مصلحت کے شکار ہوئے۔ ان عوامل سے ان کے ادبی معیار کے شایان شان ان کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ان کی جائے پیدائش کے صوبہ مدھیہ پردیش کی اردواکادمی نے انھیں ایک حقیر سا انعام دے کر ٹرخا دیا۔عمیق حنفی کا الف ہو ناحق بجانب تھا۔ممکن ہے شدید قسم کی جدیدیت سے گریز کا یہ سبب بھی ہوا ہو۔ خیر کچھ بھی ہو اس مناظرے اور مذاکرے سے اردو ادب کو بڑا فائدہ پہنچا۔ افکار اور اظہار میں جمہور یت آئی۔علاوہ ازیں دو بلند قامت ادیبوں اور دانشوروں کے تبحرعلمی اور وزن و وقار کا اندازہ ا ہل علم کو ہوا۔اس بحث کو سمجھنے کے لیے قارئین کو’شب خون‘ میں شائع شدہ خطوط کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

اردو ادب میں عمیق حنفی کی شعر گوئی کی ابتدا   1952 میں ہو ئی۔اس میدان نے انھوں نے بڑے طمطراق سے قدم رکھا۔چھ سال کی مدت میں ہی ان کا پہلا شعری مجموعہ ’سنگ پیرہن‘1958میں منظر عام پر آیا۔انھوں نے اپنی بات میں جو اظہار خیال کیا اس سے ا ن کی شاعری کی سمت ورفتار،میلانات،رجحانات اور ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے:

’’ میری شاعری میں آپ کو ہندستانی بالخصوص مالوے کی فضا ملے گی بعض ایسے الفاظ تشبیہات و تلمیحات ملیں گے جنھیں ہندی یا ہندوی کہاجاسکتا ہے۔میں اپنی شاعری کی آفاقیت کو برقرار رکھتے ہوئے بھی اپنے دیس کے آب وگل سے رنگ و روغن حاصل کر کے اس کی اجنبیت ختم کر نا چاہتا ہوں۔ میرے کلام میں آپ کو کہیں کلاسیکی اور کہیں رومانی کہیں ا نقلابی کہیں تجرباتی عناصر نظر آئیں گے لیکن ایک اور بات نظر آئے گی کہ میرا ذہنی مسلک ترقی پسندانہ ہے۔‘‘

 عمیق حنفی کا دوسرا شعری مجموعہ’ شب گشت‘ 1969  میں شائع ہوا۔اس میں کئی نظمیں مختلف موضوعات پر بدلے ہوئے رویے کے ساتھ ملتی ہیں۔ اس میں اشکال اور ایہام نہیں ہے۔سائنسی اور مشینی دور کے شوروشرابے سے عاجز آکروہ ماضی کی طرف لوٹ جانے کے متمنی ہیں۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں         ؎

اپنے کھنڈر چھوڑ کر آؤچلو میدان میں

اس طرف وہ جھاڑیوں کاجھنڈ ہے حجلہ نما

آئو اس میں چل کر ہم ایک دوسرے کو دیکھ لیں

اور دیکھیں پتھروں کے یگ میں کیسا پیار تھا

 عمیق حنفی کا تیسرا مجموعہ کلام ’شجرصدا‘1975 میں شائع ہوا۔ان کے شعری مجموعوں میں نظموں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ طویل نظموں میں سند باد، شہرزاد، سیارگان، شب گشت، کیوپیڈیا،صورت ناقوس، ویت نام،  سبز آگ، صلصلۃالجرس ہیں۔

  صلصلۃ الجرس، عمیق حنفی کی ایک معرکتہ الآرا طویل نظم ہے۔اس نظم میں رسول ؐ کی سیرت کو مو ضوع بنایاگیا ہے۔کتابی شکل میں پہلی بار یہ نظم 1971 میں نیشنل فائن پرنٹنگ پریس چار کمان،حیدر آباد سے شائع ہوئی اور مقبول خاص و عام ہو ئی۔یہ روایت ہے کہ حارث بن ہشا م نے حضورؐ اکرم سے یہ استفسار کیا کہ وحی کیسے آتی ہے تو رسول ؐ نے فرمایا کہ مثل صلصلتہ الجرس (گھنٹی کی خوبصورت آواز) اسی عنوان کا شاعر نے انتخاب کیا ہے۔ اس میں درجنوں ذیلی نظمیں ہیں۔یہ نظم 1433مصارع پر مشتمل ہے۔ اس رعایت سے کہ 1390 ہجری میں جب یہ نظم پایۂ تکمیل کو پہنچی تو قمری حساب سے 1443میلادی چل رہا تھا۔اس نظم کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جب چودھویں صدی کی تقریب منائی جا رہی تھی تو دارالعلوم دیوبند کے مہتمم قاری طیب صاحب نے انھیں اپنے ادارے میں مدعو اور ان کا پر تپاک خیرمقدم کیا تھا۔جس وقت وہ ’صلصلۃ الجرس‘ لکھ رہے تھے تو اس وقت انھیں تصوف سے گہرا شغف ہو گیا تھا اوران پر ایک مجذوبیت کی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔ وہ ’’بارہویں،تیرہویں صدی کا صوفیا کاطریقۂ تبلیغ و ترسیل‘‘ پر مقالہ تحریر کر رہے تھے۔ عہد حاضر میں اس کتاب کی بڑی اہمیت ہے۔اس میں اتنی وسعت اور بصیرت ہے کہ اسے مد و جزر عالم کہا جا سکتا ہے۔

عمیق حنفی کے یہاں غزل کی حیثیت تنگ نائے ظرف کی ہے۔پھر بھی ان کے مجموعوں میں غزل کے اچھے اشعار مل جاتے ہیں مثلا             ؎

دیکھا تھا ہم نے جس کو سر شام راہ میں

چہر ہ وہ ساری رات نظر میں پھرا کیے

محفل میں اپنی بات پہ ناراض ہی سہی

تنہائی میں وہ اپنا کہا مانتے تو ہیں

عمیق چھیڑ غزل،غم کی انتہا کب ہے

یہ مالوے کی جنوں خیز چودھویں شب ہے

کبھی حرم میں ہے کا فر،تو دہر میں مومن

نہ جانے کہاں د ل دیوانہ تیرا مذہب ہے

رکھے ہیں داغ بھی اشعار کی جبینوں پر

کرم یہ کم نہ کیا اپنے نکتہ چینوں پر

 بہر کیف عمیق حنفی کا شمار عہد حاضر کے صفِ اول کے شاعروں میں ہو تا ہے۔وہ اپنی شاعری میں مقامی احساس و جذبات کی عکاسی ہنر مندی سے کر تے ہیں اور اس میں آفاقیت کا رنگ بھر دیتے ہیں۔وہ اپنے فن میں یگانہ ٔ روزگارہیں۔دانشوروں اور ناقدوں نے ان کی شاعری کو کسوٹی پر پرکھا ہے اور انھیں ایک مستحسن شاعر قرار دیا ہے۔ معروف نا قد پروفیسر شمیم حنفی ان کے ہم دم وراز داں تھے اور ان کے کلام کے مداح بھی۔انھوں نے ان کی حیات و شاعری کا مطالعہ و مشاہدہ بہت قریب سے کیا تھا۔ان کی شاعری کے متعلق انھوں نے اپنی رائے کا اظہار بڑے ہی مدلل و متوازن انداز میں کیا ہے جو ان کی شخصیت اور شاعری کا سرنامہ ہے:

ـ’’عمیق  حنفی کے یہاں ایک غیر معمولی صلاحیت خود کو گردوپیش کی دنیا میں جذب کر دینے کی تھی۔ان کی شخصیت اور شاعری کا حصار کبھی ٹوٹا نہیں۔عمیق حنفی نے زندگی کو اپنی شرطوں پر گزاری اور شاعری میں ہمیشہ ان تقاضوں کے پابند رہے جو ان کی سرشت کا حصہ تھے۔یہ شاعری زندگی کے ایک مخصوص اسلوب سے بندھی ہوئی تھی اورزندگی کااسلوب ہمیشہ فکر وجذبے کے ایک مخصوص اسلوب کی تحلیل میں رہا.... ایک وصف جو ہماشما سے الگ صرف غیر معمولی انسانوں میں پایا جاتا ہے۔ایک طرح کے درویشانہ استغراق اور جستجو کے انہماک کا عمیق اس سے بھی متصف تھے۔‘‘ (پیش لفظ، انتخاب اردو اکادمی دہلی )   

شاعری کے ساتھ ساتھ انھیں نثر نگاری میں بھی یکساں قدرت حاصل تھی۔خصوصاًتنقید کے میدان میں انھیں بڑی مہارت حاصل تھی۔ان کا شمار ممتاز ترین ناقدین میں ہوتا ہے۔مشرقی شعریات پر ان کی گرفت مضبوط تھی۔ و ہ شعرو ادب کی روایات اور رجحانات سے کما حقہ واقف تھے۔جب وہ شاعری کے موضوع پر اظہار خیال کر تے ہیں تو ابتدائے آفرینش کے تذکرے سے قاری کو مبہوت کر دیتے ہیں۔شعر کے وجودسے پہلے قدرتی مناظر آلات و حربات کی آواز سے موسیقی کیسے پیدا ہوئی ؟او ر اس سے سُر و تال کی ترتیب کس طرح ہوئی آگے چل کر الفاظ شعری قالب میں کیسے ڈھلنے لگے؟ان سب منبع و مخرج کو بڑے نکتہ رس انداز اور گہری بصیرت کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ان کے لفظ دانائی کے آب دار موتی بن جاتے ہیں اور جملوں میں تاریخ و تہذیب اور شعرو ادب کے عرفان وادراک کا دریا موجزن ہوجاتا ہے۔

1965 کے آس پاس عمیق  حنفی بڑے دھماکہ خیز انداز میں تنقید کے میدان میں وارد ہو ئے۔انھوں نے اپنے وسیع مطالعے اور تنقیدی بصیرت سے اربابِ علم و ادب کو متحیر کر دیا۔اس دوران ترقی پسندی اور جدیدیت کے مابین معرکہ آرائی شروع ہو گئی تھی اور شعرو ادب کا نیا منظر نامہ ترتیب و تشکیل پا رہا تھا۔جدید شاعری کی حمایت میں ان کے عالمانہ بصیرت افروز مباحث کی بڑی پذیرائی ہوئی۔ مگر وہ اپنی اس طرز فکر کی وجہ سے جدیدیت کی علامت پرستی کے جال سے بہت جلد نکل آئے اور صلاح الدین پرویز کی نظم ’ژاژ‘کے متعلق انھوں نے یہ فرمایہ کہ ’’یہ ہمارے معاشرہ میں کسی دوسرے سیارے سے آئی اڑن طشتری کے مانند ہے جو معاشرہ کے آدمی سے رابطہ قائم نہیں کر تی۔‘‘انھوں نے علامت پرستی کے متعلق کہا ’’میں علامت پرست نہیں میرا خیال ہے کہ علامت پرستی بت پرستی پیدا کرتی ہے۔وہ اردو تنقید کی بے راہ روی سے نا خوش نظر آتے ہیں اور تنقید کی موجودہ صورت حا ل پر وہ اس طرح طنز کر تے ہیں :

’’اردو میں بھی تنقید کے مزے آگئے۔نقاد نے کہنے اور لکھنے والے اور سننے اور پڑھنے والے کے درمیان مفاہمت کا پُل تعمیر کر تے کرتے ٹرافک کے سپاہی کا رول ادا کرنا شروع کر دیا اور اردو کا نقاد شعرو ادب کے راہ گیروں کا خضر راہ بن بیٹھا۔‘‘

عمیق حنفی نظریہ ساز نہیں بلکہ نظر ساز نقاد ہیں۔و ہ ’’اے روشنی طبع کہ برمن بلا شدی‘‘ کے  مصدا ق زندگی بھر بنے رہے۔دراصل ان کی تخلیق اور تنقید ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ان کی شاعری میں جو روایت سے بغاوت اور نئے تجربات کی جسارت ہے وہی تنقید میں بھی جلوہ گر ہے۔وہ نعرے بازی اور نقالی کے سخت مخالف ہیں۔وہ ناقدینِ اردو کے اس رویے سے نالاں ہیں کہ بات بات پر مغرب کے بڑے بڑے نقادوں کے قول کو ترپ کے پتوں کی طرح استعمال کر تے ہیں جبکہ اپنی زمین کی شاندار روایت مو جود ہے۔ان کی تنقید مشرقی شعریات پر مبنی ہے وہ شعر کی تخلیق میں مو سیقی،رقص،رس،دھون کو معاون سمجھتے ہیں۔وہ شعریات کو نئے زمانے کے تقاضے کے تحت ڈھالنے کے خواہاں ہیں۔انھیں مروجہ عروض وبحر کی تبدیلی میں بھی آر نہیں۔تنقید کے باب میں ’’شعر چیز ے دیگر است ‘‘اور ’’شعلے کی شناخت ‘‘بڑی اہمیت کی حامل ہے۔اردو کے اس شعلہ ٔ جوالہ کونا وقت مو ت نے شعلۂ مستعجل بنا دیا وگرنہ اس انقلاب آفریں شخصیت سے اردو تنقیدمیں مثبت تبدیلی متوقع تھی۔

           فی الجملہ اردو شعرو ادب میں عمیق حنفی کو امتیازی اور انفرادی حیثیت حاصل ہے۔انھوں نے اپنے زریں خیالات وسحر آفریں تخلیقات سے ادب کے اثاثے میں اہم اضافہ کیا ہے جسے اہل ہنر نے نظر استحسان سے دیکھا ہے۔وہ اپنے اعلیٰ و ارفع ادبی و شعری اکتشافات،کمالات و فتوحات کے پیش نظر نہ صرف ’فخرِ مالوہ ‘ہیں بلکہ دنیائے اردو ادب میں بھی باعث افتخارہیں۔ 


Dr. Ghulam Husain

Head, Dept. of Urdu

Govt of Madho College

Ujjain - (MP)

Mob.: 9893853183

 

 

 

 


 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں