17/6/22

مولانا مناظر احسن گیلانی کا نظریہ تعلیم اور اس کی عصری معنویت - مضمون نگار : وارث مظہری




ہندوستان کے علمی افق پرنمو دار ہونے والی جن شخصیات نے تعلیم کو فکر و قلم کا موضوع بنایا، ان میں مولانا مناظر احسن گیلانی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔مولانا کی شخصیت اس لحاظ سے ’جامع البحرین‘ تھی کہ انھوں نے روایتی اور عصری دونوں قسم کی دانش گاہوں کی علمی وفکری فضا سے کسب فیض کیا تھا۔ وہ غیر منقسم ہندوستان کے ان چند دانشوروں میں سے ایک تھے جو مسلمانوں کی تعلیمی تاریخ پر گہری نظر اور اس کا تجزیاتی شعور رکھتے تھے۔تعلیم کے حوالے سے انھوں نے خاص طور پر برصغیر ہند میں مسلمانوں کے نظام تعلیم وتربیت کواپنی تعلیمی فکر کا موضوع بنایا تھا۔ اپنی دیدہ وری اور محققانہ جستجو کی بنا پر وہ تعلیم کے میدان میں کیے جانے والے معاصر تجربات سے بھی بہت حد تک آشنا تھے۔ان کی کتاب ’ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت ‘ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔اس موضوع پر مختلف اصحاب علم نے قلم اٹھایا ہے جن میں مولانا سیدعبدالحی حسنی (الثقافۃ الاسلامیۃ فی الہند) اور شبیر احمد خاں غوری( اسلامی ہند میں علوم عقلیہ ودیگر کتابیں) وغیرہ شامل ہیں، لیکن دو جلدوں پر مشتمل مولانا گیلانی کی مذکورہ بالا کتاب جام جمشید کی حیثیت رکھتی ہے جس میں تمام ضروری مصادر سے استفادہ کرتے ہوئے اس موضوع کا ہر پہلوسے تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے۔

مولانا گیلانی تعلیم سے متعلق اپنی فکر میں شبلی سے متاثر نظر آتے ہیں۔ شبلی مشرقی نظام تعلیم کے شدید حامی تھے۔ان کا واضح نقطہ نظر تھا کہ مسلمانوں کا نظام مشرقی اور مغربی دونوں اجزا پر مشتمل ہونا چاہیے۔

(خطبات شبلی، دارالمصنّفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، ص 163)

مولانا گیلانی بھی شبلی کی طرح اجتہادی بصیرت کے حامل تھے اور انھی کی طرح وہ ہر اس فکر وخیال کو، جسے وہ اپنے ذاتی مطالعہ وتحقیق کی بنا پر حق سمجھتے تھے،پوری جرأت وبے باکی کے ساتھ اہل علم اور عوام کے سامنے پیش کر دیتے تھے۔  اپنے ایک مضمون میں وہ کھل کر ترکی کی تعلیمی اصلاحات کی اس طرح ستائش کرتے نظر آتے ہیں:

’’ہم ترکوں کو ملحد کہنے کے عادی ہیں لیکن بہرحال انھوں نے اتنا پورے یقین کے ساتھ سمجھ کر طے کرلیا ہے کہ اگر ہم کو زندہ رہنا ہے تو بامقصد قوم ہوکر زندہ رہنا ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنے سیاسی انقلاب کے ساتھ تعلیمی انقلاب کو ضروری سمجھا ہے۔‘‘ (معارف نمبر3، جلد32، 1/4)

مولانا گیلانی کے تصور تعلیم کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس حوالے سے قدیم صالح اور جدید نافع کو ایک ساتھ جمع کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ ایک طرف وہ جدید تعلیمی دھارے سے کٹ جانے اور قدیم روش پر جمے رہنے کو جمود وتقلید تصور کرتے ہوئے مسلمانوں کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں، تودوسری طرف قدیم نظام تعلیم کی بہت سی خوبیوں کے معترف نظرآتے ہیںاور اس بات پر زوردیتے ہیں کہ موجودہ نظام تعلیم میں قدیم نظام تعلیم کی بعض خصوصیات کو شامل کرنا ازبس ضروری ہے۔چنانچہ ان کی نظر میں جدید نظام تعلیم میں رسمیات  (Formalities) پر زیادہ زور ہے۔ قدیم نظام تعلیم میں جماعت بندی کے التزام کی موجودہ شکل نہیں پائی جاتی تھی جس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ طالب علم اپنی خواہش کے مطابق جس کتاب سے جب چاہتا تھا استفادہ کر لیتا تھا۔ جدید تعلیمی نظام کے نقص کا ایک پہلو ان کی نگاہ میں یہ ہے کہ کم زور طلبہ اور ذہین طلبہ سب ایک ہی جماعت میں ایک ہی سبق کو جو استاد پڑھاتا ہے پڑھنے کے پابند ہوتے ہیں۔

(ہندوستان میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت، ص 21)

 قدیم نظام تعلیم میں ذی استعداد اور کم زور طلبہ کو اپنی اپنی ذہنی استعداد اور محنت کے مطابق پڑھنے اور آگے بڑھنے کے مواقع حاصل رہتے تھے۔(ایضاً،ص 22)

اسی طرح وہ قدیم نظام تعلیم میں آموختہ کو ذہنی استعداد اور تعلیمی صلاحیت کے پروان چڑھانے میں بنیادی قدر کا حامل تصور کرتے ہیں۔ (ایضاً، ج1، ص 440)

ان کے تعلیمی نظریات کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے تعلیمی نظام میں جو ثنویت (Duality)  پیدا ہو گئی ہے وہ اسلامی تعلیمی وتدریسی روایت کے برعکس ہے۔ وہ ماضی کے مسلم علما ومفکرین کا یہ بڑا کارنامہ تصور کرتے ہیں کہ انہوں نے اس تعلیم کی دوعملی کو اور تقسیم کوشدت سے روکے رکھا۔ (ایضاً، ص343)

ماضی میں ایک ہی نظام تعلیم سے فلسفی بھی پیدا ہورہے تھے اور ریاضی داں، مہندس، طبیب،شاعر و ادیب اورصوفی بھی۔انھوں نے ابن رشد، رازی اور ابن سینا وغیر ہ کی مثال دی ہے کہ وہ دونوں طرح کے علوم کے جامع تھے۔اسلامی علمی روایت ایسی مثالوں سے پرہے۔ ہندستان میں انگریزی حکومت سے قبل یہ تقسیم نہیں پائی جاتی تھی۔ مسلم حکومتوں میں تعلیم گاہیں صرف ایک نوعیت کی ہوتی تھیں۔ ان میں دینی علوم بھی پڑھائے جاتے تھے اور وقت کے مروجہ علوم بھی۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اسی ایک تعلیمی دھارے سے مختلف صلاحیتوں کے لوگ پیدا ہوتے تھے اور ان سے انسانی سماج کی نوع بہ نوع ضرورتیں پوری ہوتی تھیں۔ تعلیم کودو حصوں میں تقسیم کردینے کا مطلب تھا: مذہبی نظریے کی بنیاد پرتعلیم کی تقسیم۔جو ان کی نظر میں بجائے خود اسلام کے عالمگیریت پسندانہ (Universal)  نظریۂ تعلیم کے خلاف عمل تھا۔ تعلیمی نظام کی اس دوعملی کی طرف  مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے بھی توجہ دلائی ہے۔ہوسکتا ہے مولانا ندوی پرمولانا گیلانی کی فکر کا اثر ہو۔لکھتے ہیں:

’’تعلیم کی موجودہ ثنویت یا دوئی غیر اسلامی اقتدار کے عہد کی ’بدعت ‘ہے۔ پہلے ہمارا نظام تعلیم وحدانی اور سا  لمیت پر مبنی تھا۔ ہمارا قدیم نصاب تعلیم جس کی درس نظامی نمائندگی کرتا ہے، مسلمانوں کے عہد حکومت میں ملک کا واحد نظام تعلیم و ثقافت اور ذہنی تربیت کا واحد ذریعہ تھا۔ یہ جہاں محدث، فقیہ اور مدرس تیار کرتا تھا، وہاں سول سروس کے عہدہ دار اور ارکان سلطنت بھی مہیا کرتا۔ اس درس کی پیداوار جس طرح ملا محب اللہ بہاری اور ملا عبدالحکیم سیالکوٹی تھے۔ اسی طرح علامہ سعد اللہ وزیر سلطنت بھی تھے۔ یہی حال دوسرے ملکوں میں بھی تھا۔‘‘

(عابد رضا بیدار ’ برقے کہ بخود پیچد میرد بسحاب اندر‘، در’ عربی اسلامی مدارس کا نظام تعلیم ‘(ج،1)، خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری(مرتب وناشر): پٹنہ: 1995، ص12

موجودہ تفریق کے ساتھ تعلیمی نظام کا چلن دینی حلقوں میں باضابطہ طور پر دارالعلوم دیوبندکی تاسیس (1866)  سے شروع ہوا۔ دارالعلوم دیوبند کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس اقدام اور رویے سے مسلمانوں کی تعلیم سے دلچسپی رکھنے والا ایک بڑا طبقہ مطمئن نہیں تھا۔ غالباً اس کے ذہن میں بھی وہی سوال تھا جو آج قائم کیا جارہا ہے کہ اس طرح تعلیم کی دوگانہ تقسیم اپنے دور رس فوائد ونتائج کے لحاظ سے کسی بھی طرح صحیح نہیں ہے۔اس کا جواب مولانا نانوتوی نے یہ دیا تھا کہ:

’’آج کل تعلیم علوم جدیدہ بوجہ کثرت مدارس سرکاری، ترقی پر ہے۔ ہاں علوم قدیمہ کا ایسا تنزل ہوا کہ کبھی نہ ہوا ہوگا۔ ایسے وقت میں رعایا کا مدارس علوم جدیدہ کا بنانا تحصیل حاصل نظر آیا اور صرف بجانب علوم نقلی اور نیزان علوم کی طرف جن سے استعداد علوم مروجہ واستعداد علوم جدیدہ یقینا حاصل ہوتی ہے، ضروری سمجھا گیا۔‘‘

(سید محبوب رضوی،تاریخ دارالعلوم دیوبند (ج1) ص268)

ان کا خیال تھا کہ دیوار کی جو اینٹ ابھی گری نہیں اس کی فکر بجزنادانی اور کیا ہے۔ مولانا نانوتوی کے یہ خیالات بظاہر اس وقت کے سیاسی حالات سے تاثر پذیری کا نتیجہ تھے۔ وہ اس وقت کے ماحول میں اسی نصاب اور منہج تعلیم وتدریس کے مطابق تعلیم کو زیادہ مفید اور بار آور تصور کرتے تھے لیکن دینی وعصری تعلیم کے درمیان تفریق کے موجودہ تصور سے ان کا ذہن قطعاً خالی تھا۔ اس بات کی تائید ان کے اس جملے سے ہوتی ہے کہ: ’’اس کے بعد (دارالعلوم دیوبندسے تحصیل علم کے بعد) طلبہ مدرسۂ ہذ ا مدارس سرکاری میں جاکر علوم جدیدہ کو حاصل کریں تو ان کے کمال میں یہ بات زیادہ مؤید ہوگی۔‘‘ (ایضاً، ص 208)

اس تقسیم کا نقصان مولانا کی نگاہ میںاس شکل میں سامنے آیا ہے کہ علما اور دانشوروں کے دونوں طبقوں کے درمیان ایک کشمکش کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔دونوں ہی ایک دوسرے کومطعون کرتے نظرآتے ہیں۔ (ایضاً، ج1، ص 343)

یہ صورت حال مسلم سماج کے لیے نقصان دہ ہے۔اس طرح وہ دولخت ہوکررہ جاتا ہے۔اس لیے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اس تعلق سے سماج کومزید خراب ہونے سے بچانے کی کوشش کی جائے جس کا طریقہ ان کی نظر میں یہ ہے کہ مسلم نظام تعلیم کووحدانی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے۔اس کے نظری خاکے کوانہوں نے ’نظریہ وحدت تعلیم‘ کا نام دیا ہے۔

انھوں نے اپنے نظریہ وحدت تعلیم کو تفصیل کے ساتھ اپنی مذکورہ کتاب میں پیش کیا ہے۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح پہلے مسلمانوں کی تعلیم میں دین کا عنصر ایک ضروری مضمون کی حیثیت رکھتا تھا، اس کو اس طور پر لازمی حیثیت دے دی جائے جس طرح  مدارس نظامیہ سے فارغ ہونے والے دین کا علم ان کتابوں کے معیار کے مطابق اپنے پاس رکھتے تھے۔ اس طرح بی اے کی تعلیم سے فارغ ہونے والے اس زمانے میں بھی اس حد تک مذہب کے عالم ہوکر نکلا کریں۔ اس کا نتیجہ مولانا کے لفظوں میں یہ نکلے گا کہ:

’’دینیات کے مدارس کے نام سے الگ عام مدرسوں کے قائم کرنے کی ضرورت مسلمانوں کو باقی نہ رہے گی۔ ہر عالم اس وقت گریجویٹ ہوگا اور ہر گریجویٹ عالم، ملا ہی مسٹر ہوں گے اور مسٹر ملا۔ عالم وتعلیم یافتہ کی تفریق کا قصہ ختم ہوجائے گا۔‘‘

(ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت (ج2)، ص 404)

اس خاکے پروارد ہونے والے سوالات واعتراضات کا بھی انھوں نے تفصیل کے ساتھ جواب دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ درس نظامی سے متعلق غلط طور پر لوگوں کے اندر یہ خیال پیدا ہوگیا کہ وہ صرف دینی تعلیم کا نظام تھا۔ اس میں اس عہد کی دفتری زبان فارسی میں نظم ونثر وانشا کی بیسیوں کتابیں، مزید برآں حساب اور خطاطی کی بھی کتابیں شامل تھیں۔ اس سلسلے میں سب سے قابل لحاظ بات یہ ہے کہ 15-16 سالہ مدت تعلیم میں درس نظامی کے فضلا دینیات کی محض تین کتابیں پڑھا کرتے تھے یعنی جلالین، مشکواۃ اور شرح وقایہ اور ہدایہ کو ملاکر دونوں کے منتخب ابواب۔ البتہ بعض جگہوں پر تفسیر بیضاوی کے بھی ڈھائی پارے پڑھائے جاتے تھے۔ ان کے علاوہ ساری کتابیں زبان، منطق، فلسفہ، ہیئت، اقلیدس، ادب عربی، علم کلام، اصول فقہ، معانی، بیان وغیرہ میں پڑھا ئی جاتی تھیں۔ ان کتابوں کا ختم کرنا ضروری تھا۔ ان میں صرف منطق وفلسفہ کی کتابوں کی تعداد اخیر زمانے میں 40-50  سے متجاوز تھی۔مولانا گیلانی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہندوستان کے قدیم نظام تعلیم میں منطق وفلسفے کوزیادہ اہمیت دے دی گئی تھی اور اس وجہ سے اس نصاب میں بے اعتدالی پائی جاتی تھی۔وہ یونانی فلسفے کے خاصے ناقد نظرآتے ہیں حالانکہ عہد وسطی کے اس ماحول میں یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی کہ شاہ ولی اللہ جیسی شخصیت بھی اسلامی فکر کی تشکیل وتوضیح میں اس فلسفے کی اسیر نظرآتی ہے؛تاہم جہاں تک دینی علوم کے نصاب کا معاملہ ہے وہ سمجھتے تھے کہ تعلیمی نصاب کوانہی کے لیے وقف کردینا مناسب نہیں ہے۔ان کا خیال بظاہر یہ نظرآتا ہے کہ دینی علوم کی تفصیلی تعلیم کوتخصص کی سطح پر رکھنا چاہیے۔جب کہ اس کے بنیادی اور اہم حصے کو’یونی ورسل‘ تعلیم کے ساتھ ضم کردینا چاہیے تاکہ عہد وسطی کی طرح تعلیم کا نظام دومتوازی حصوں میں منقسم نہ ہو۔

مولانا کی یہ بات سنجیدہ غور و فکر کی متقاضی ہے کہ:

 ’’دینیات کی عمومی تعلیم کے لیے جب تین یا زیادہ سے زیادہ چار کتابوں کا پڑھ لینا کافی خیال کیا گیا تھا اور زیادہ وقت’ غیر دینی علوم‘ کی تعلیم میں صرف ہوتا تھا تو آج بھی کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ غیر دینی علوم کے اس حصے کو جس کے اکثر نظریات ومسائل مسترد ہوچکے ہیں، کم از کم دنیا میں ان کی مانگ باقی نہیں رہی ہے، ان کو نکال کر عصر جدید کے مقبولہ علوم اور عہد حاضر کی دفتری زبان انگریزی کے نصاب کو قبول کرکے مذہب کی تعلیم کو انھی تین کتابوں کے معیار کے مطابق باقی رکھتے ہوئے دینی اور دنیاوی تعلیم کے مدارس کی اس تفریق کو ختم کردیا جائے‘‘ (ایضاً)

اس خاکے پرخود مولانا کی نگاہ میں یہ دو بنیادی اعتراضات پید اہوتے ہیں۔ایک یہ کہ کیا یہ عمومی دینی تعلیم حصول مقصد کے لیے کافی ہے؟ دوسرے یہ کہ عصری علوم کی تدریس کے تقاضوں کی گنجائش کس طرح اس نظام میں نکالی جاسکتی ہے؟ پہلے سوال کا جواب وہ یہ دیتے ہیںکہ آخر ماضی میںیہ کیوں کر ممکن ہوسکا؟دینی تعلیم کے اسی مختصر نصاب سے مذہبی علوم وافکار کی نمائندہ شخصیات پہلے پید اہوسکتی ہیں تواب کیوںنہیں ہوسکتیں؟ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ قدیم نصاب تعلیم کا جوحصہ فرسودہ اور ازکاررفتہ ہوگیا ہے اس کی جگہ عصری علوم کے کارآمدمضامین کودی جائے۔ (ایضاً، ج1، ص 404)

 اگر مسلمان عمومی سطح پر اور اہل مدارس خصوصی سطح پر مولاناگیلانیؒ کے مشورے پر جزوی طور پر بھی عمل کرنے کی کوشش کرتے تو آج ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال کا نقشہ شاید کچھ اور ہوتا۔ برصغیر اہم دینی و فکری حلقوں میں مدتوں سے یہ بحث جاری ہے۔ اگرچہ اس تعلق سے اب تک کوئی انقلابی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔البتہ بنگلہ دیش میں جدید وقدیم نظام تعلیم کے دونوں دھاروں کو ہم آمیز کرنے کے حوالے سے زیادہ ارتقائی رجحانات پائے جاتے ہیں۔ وہاں کی حکومت مدارس کے تعلیمی ڈھانچے پر کافی رقم خرچ کرتی ہے۔ سرکار سے منظور شدہ مدارس کے فارغین اہم سرکاری محکمہ جات میں پہنچ رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مسلم سماج کی طرف سے انھیں معتبریت بھی حاصل ہے۔ یہ ایک اچھا اور قابل قدر ماڈل ہے۔ ہندوستان میں ایسا ہی کوئی ماڈل سامنے آنا چاہیے۔ ایسا ماڈل جس کی بنیاد پر عالم و دانشور یا مولانا گیلانی کے لفظوں میں ’’ مسٹر وملّا‘‘ کی تفریق ختم کی جا سکے۔ اس تعلق سے بعض عرب ممالک کے تجربات کا بھی مطالعہ اور ان سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔

خلاصہ کلام یہ کہ مولانا گیلانی کا نظریہ تعلیم جس کا اہم نکتہ تعلیم کی ثنویت کے خاتمے اور نظام تعلیم کی وحدت کے خاکے پر مشتمل ہے؛ کئی حیثیتوں سے منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ضروری نہیں ہے کہ اسے من وعن منطبق کرنے کی کوشش کی جائے تاہم اس میں ضروری ترمیم واضافے کے ساتھ اس کو آزمانے کی کوشش کرنا چاہیے جس کی افادیت اور نتیجہ خیزی سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔


Waris Mazhari

Dept of Islamic Studies

Jamia Hamdard University

New Delhi - 110062

Mob.: 9990529353

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں