9/6/22

املا، ہجا، ہکاری، مصمتے اور تشدید کا عمل - مضمون نگار: سید یحییٰ نشیط




انسان حیوان ناطق ہے۔ اپنی قوت گویائی کو عملاً برتنے کے لیے اس نے زبان ایجاد کی تاکہ وہ اپنے مافی الضمیرکا اظہار کر سکے۔تبادلۂ خیالات کر سکے۔ابتدائً وہ اپنے خیال کی ترسیل کے لیے جسمانی حرکات (اشارات) اور منہ سے نکالی ہوئی مختلف قسم کی آوازوں کا استعمال کرتا تھا۔رفتہ رفتہ وہ فطری آوازیں بولیوں میں تبدیل ہوئیں، لیکن ان بولیوں کو ثبات حاصل نہیں تھا۔اس لیے انسان نے اپنے اطراف میں فطرت کے ذریعے بولیوں کے الفاظ کو متشکل کیا۔یہی ابتدائی تصویری تحریر تھی۔عرصے بعد یہ تصویری تحریروں نے ترقی کرتے کرتے رسم الخط کی صورت اختیار کر لی اور جغرافیائی و تمدنی حالات کے مطابق مختلف زبانوں کی مختلف تحریریں وجود میں آئیں۔ چنانچہ تقریباً 1800 ق۔ م میں شام،فلسطین،کنعان اور سینا میں آباد سامی قوم نے رسم خط ایجاد کیا۔یہ ابتدائی رسم الخط قدیم زمانے کے مٹّی کی ٹھکریوں،برتنوں اور سنگی تختیوں پر پا یا گیا لیکن رسم الخط کے ان حروف کے تلفظ اورا ن کے ہجوں سے ہم تا حال بے خبر ہیں۔اسی سامی رسم الخط سے عرصے بعد عبرانی، یونانی، آرامی فنیقی، لاطینی پہلوی، عربی وغیرہ رسم الخط وجود میں آئے۔ ادھر ہندوستان میں سنسکرت زبان کے رسم الخط برہمی، دیوناگری، موڑی، کیتھی، مہاجنی وغیرہ کو فروغ حاصل ہوا اگرچہ کہ دیوناگری ہی کا عام چلن رہا۔ مگر  ہمارے لیے بڑا مسئلہ ا ن کی قرأت یا ان کے نظام ہجّا کا ہے۔ اس بحث سے تو ہم اس نتیجے پر پہنچ ہی چکے ہیں کہ رسم الخط اور تلفظ میں باہم ربط ہے۔قدیم رسمِ الخط حروفِ ہجا پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ ان حروف کو جوڑ نے کے عمل سے الفاظ بنے اور ان کے صحیح تلفظ کے لیے اعراب یا حرکات پر غور کیا گیا اور ان کی شکلیں متعین کی گئیں۔حرکات کے سہارے تلفظ بیانی علم ہجا کہلائی اور حروف کے صحیح جوڑ کی تکنیک کو املا کہا جانے لگا۔اس طرح صحیح زبان دانی کے لیے املا،ہجا اور اعراب کی اہمیت تسلیم کی گئی۔بالخصوص مبتدیوں کے لیے ان کا سیکھنا ضروری قرار دیا گیا۔چنانچہ زبان سکھانے و الے  مدرسین طلبا کی مؤثر تدریس، ان کی تفہیمی صلاحیت کو پروان چڑھانے اور تسہیل کاری کے عمل کو بڑھانے کے لیے ا ملا اور ہجّوں پرخصوصی توجہ دینے لگے۔

ہر زبان کی لفظ سازی کے لیے حروف تہجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ حروف اعضائے نطق سے نکلی ہوئی آوازوں کی علامت ہیں۔ ہر زبان کی اپنی علاحدہ حروف تہجی ہوتی ہے۔ لفظ کی تشکیل سازی میں اعراب( حرکات و سکنات) کی مدد سے لفظ کے تلفظ کو متعین کیا جاتا ہے عربی،فارسی اور اردو میں یہ اعراب زبریا فتح (۔َ) زیر یا کسرہ (۔ِ)اور پیش یا ضمہ (۔ُ)کہلاتے ہیں۔قدرت نے انسان کو جو اعضائے نطق ( حلق، صوتالہ یا حنجرہ، لہات، زبان، تالو، ناک، دانت، ہونٹ ) بخشے ہیں، انھیں تلفظ کی صحیح ادائیگی کے لیے یہ اعراب ہی حرکت دیتے ہیں۔گویا  ہر زبان کا نظا مِ تہجی اعراب ہی کے تابع ہوتا ہے۔ اس نظام تہجی کے دائرے میں جب زبان کے تکلمی عمل پر غور کیا جاتا ہے تو ا  سے ’ علمِ ہجا‘ کہتے ہیں اور جب الفاظ کو اعراب کے مطابق ضبطِ تحریر میں لایا جاتا ہے تو ’املا‘ کہلاتا ہے۔ حرکات و سکنات کی ان تین قسموں کے علاوہ  مد(  ٓ ) تشدید (  ّ  )تنوین (  ً ) بھی ہیں۔ تنوین کی علامتیں دو زبر، دوزیر یا دو پیش ( ۔ً،۔ٍ،۔ُۡ ) ہوتی ہیں اور جزم(   ۡ  ) بھی ایک علامت ہے۔

ابتدائً اردو کے کل 37  حروف تہجی تسلیم کیے گئے تھے۔

  ا ب پ ت ٹ ث     ج چ ح خ     د ڈ ذ    ر ڑ زژ     س ش ص ض      

   ط ظ  ع غ   ف ق ک گ    ل م ن و   ہ(ھ) ئ ی ے      (کل میزان 37

ان کے علاوہ ہندی کی بعض آوازوں کو بھی اردو حروف تہجی میں شامل کر لیا گیا ہے۔انھیں دوچشمی  ھ والے مخلوط حروف کہا جاتا رہا ہے۔ یہ حسب ذیل ہیں :

بھ  پھ  تھ  ٹھ  جھ  چھ  دھ  ڈھ  رھ  ڑھ  کھ  گھ  لھ  مھ  نھ  وھ  اور  یھ  (کل میزان۱۷)

بعد میں ماہرین لسانیات نے ان ہندی الاصل آزاد ہکاری بندیشیوں کو آزاد صوتیوں کے طور پر قبول کر لیا یعنی اب وہ مخلوط نہیں سالم آوازیں ہیں۔اس کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ پہلے جسے ب ھ (بھ)اور پ ھ( پھ) پڑھا جاتا تھا اب صرف بھ،پھ کہا جائے گا۔ اس تبدیلی کی وجہ سے اردو حروف تہجی کے ’ب‘ اور ’بھ‘، ’ت‘ اور ’تھ‘  ’چ‘ اور ’چھ‘  اپنی جگہ علاحدہ علاحدہ مصمتے شمار کیے گئے۔اردو املا کے تعلق سے یہ تمام سفا رشا ت کمپیوٹر کی ایجاد سے پہلے کی ہیں بعد میں جب تحریر کے لیے کمپیوٹر کا استعمال ہونے لگا اور اردو    KeyBoard  بنانے کی نوبت آئی تو ’ن ‘ اور ’ں‘ نونِ غنہ دو الگ الگ حروف تسلیم کیے گئے۔اس طرح مقتدرہ قومی زبان کے اجلاس 2004 میںکمپیوٹر، کتابت اور اشاریہ سازی کا خیال رکھتے ہوئے  ڈاکٹر عطش درانی کے ایما پر اردو حروف تہجی کی کل تعداد  58  تسلیم کی گئی اور علامات میں زبر زیر پیش، کھڑا زبر، کھڑا زیر،مداور تنوین کو شامل کیا گیا لیکن ان میں تشدید کا کہیں ذکر نہیں۔حالانکہ یہی وہ علامت ہے جو ہکار آوازوں کو آزاد مصمتے سمجھنے کی حالت میں تشدید کے استعمال سے ہجوں کے عمل میں مسئلہ پیدا کر دیتی ہے اور اس مسئلے کا حل سوائے ا ن ہندی الاصل حروف کومخلوط حروف سمجھنے کے کچھ بھی نہیں۔

الفاظ کا اعراب یا حرکات کی مدد سے تلفظ کرنے کے عمل کو  ’ہجّے کرنا‘کہا جاتا ہے۔ ابتدائی جماعتوں میں زبان کی تدریس کا یہ مؤثر عمل مانا گیا ہے۔عربی مدارس میں ابتدائی قاعدے (کتابیں) اسی نہج پر پڑھائی جاتی ہیں،حتیٰ کہ دیوناگری کا نظام ہجا کو جسے عرف عام میں ’بارہ کھڑی ‘ کہا جاتا ہے اسے بھی ’کانا‘، ’ماترا ‘،’ایکار‘، ’اوکار‘ (علامتوں) کی مدد ہی سے پڑھایا جاتا ہے۔ بہرحال! تحریر کی اسی صورت گری کے لیے املاOrthography  اور  ہجے Spelling  نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر  املا اور ہجا درست نہ ہوں تو عبارت غیر معتبر اور عیب دار ہوگی۔اس لیے علم ہجا اور املا کے قواعدکا افہام ضروری ہے۔

جب سے ماہرینِ لسانیات نے اردو میں ہکاری مخلوط آوازوں کو آزاد مصمتوں کی حیثیت سے قبول کر لیا،تب سے ان کے جوڑ سے بننے والے مشدد الفاظ کے ہجے کرنا دشوار ہی نہیں ناممکن سا ہوگیا ہے۔ذیل میں عمل تشدید کی اس غیر یقینی صورت حال کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔تشدید کے متعلق رشید حسن خاں فرماتے ہیں :

’’تشدید حرف کی تکرار کو ظاہر کرتی ہے۔(چونکہ) تشدید بھی ایک حرف کی نمائندگی کرتی ہے  اور اس لحاظ سے اصلاً وہ بھی لازماً جزوِ املا کی حیثیت رکھتی ہے، مگر شروع سے کچھ ایسی صورت رہی ہے کہ ایسے اکثر لفظ،جن میں حرفِ مشدّد موجود ہوں،تشدید کے بغیر ہی لکھے جاتے ہیں۔۔۔اب صورت یہ ہے کہ اصولاً تو تشدید شاملِ املا  ہے مگر عملاً وہ شاملِ کتابت کم ہوتی ہے۔‘‘ ( رشید حسن خاں : ’اردو املا‘ ترقی اردو بیورو دہلی 1974،ص520)

جب سے اردو املا کی اشاعت عمل میں آئی اردو املا پر کئی بار غور خوض کیا گیا۔ادھر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی نے اردو سافٹ ویٔراور کمپیوٹراردو کتابت میں بھی پہل کی ہے۔ ان کوششوں سے اردو تحریر و طباعت کے بہت سے مسائل حل ہونے میں مدد ضرور ملی لیکن اردو املا میں تشدید کے عمل میں پیش آنے والی دشواری پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ 

  اس سمت میں ڈاکٹر عصمت جاوید بھی اپنی کتاب ’نئی اردو قواعد‘ میں سرسری طور پر آگے بڑھ گئے ہیں۔ انھوں نے صرف تشدید کی تعریف پر اکتفا کر لیا۔وہ کہتے ہیں :             

’’کسی لفظ میں ایک مصمتہ متصل شکل میں آئے تو تحریر میں اسے علامت ِ تشدید(  ّ  ) سے ظاہر کرتے ہیں اور وہ لفظ مشدّد کہلاتا ہے۔‘‘                      

(ڈاکٹر عصمت جاوید’نئی اردو قواعد‘، ترقی اردو بیورو دہلی 1985، ص273)

مولوی سید احمد دہلوی فرہنگ آصفیہ میں ’تشدید‘ کی اس طرح تعریف کرتے ہیں۔

’’حروف کو مشدّد کرنا،ایک جنس کے دو حروف کو ایک لکھنا اور پڑھنا،جیسے ’ تکلّف‘ کا ’لام‘ اور ’توقّف‘ کا قاف۔‘‘ 

سلیم شہزاد نے فرہنگ ادبیات میں تشدید کی تعریف اس طرح کی ہے :

’’ تشدیدحرف کی صوتی تکرار کو ظاہر کرنے کے لیے حرف کے اوپر لگائی جاتی ہے۔اس صوتی تکرار میں پہلی صوت ساکن اور دوسری پر زبر،زیر،پیش میں سے کوئی طویل،مختصر یا مجہول،معروف حرکت ہوتی ہے جو سکون کے بعدآنے والے مصوتے پر منحصر ہے۔‘‘                    

ڈاکٹر عصمت جاوید نے تشدید کے عمل کو صرف مصمتے ہی پر موقوف رکھا ہے جبکہ مصوتوں پر بھی تشدید کا عمل ہوتا ہے۔غالب نے تفتہ کو لکھے اپنے خط میں اس صرفی قاعدے کی وضاحت کی ہے۔وہ لکھتے ہیں :

’’اس قاعدے کے ذیل میں ایک اور ضروری بات یہ ہے کہ وہ لفظ جن کے آخر میں یاے معروف ہوتی ہے  اضافت کی صورت میں،ایسے لفظ یاے مشدّد کے ساتھ بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔یہ استعمال شاعری میں عام ہیں۔جیسے ذاق کا مصرع : سردیِّ حنا پہنچے ہے عاشق کے جگر تک  یا جیسے یہ مصرع : زندگیِّ بے وفا تجھ سے محبت کیا کریں۔‘‘ ( بحوالہ،اردو املا  ص403-4

رشید حسن خاں نے مصوتہ یاے معروف  پر تشدید کے عمل کی بہت ساری مثالیں اردو شاعری سے دی ہیں  جیسے    ؎

 ع     ہے عرق ریزیِّ خجلت جوششِ طوفانِ عجز 

  ع     ہے ہوس محمل بہ دوشِ شوخیِ ساقیّ ِ مست 

   ع     سرخیِّ رنگ ِ رخ سے چمک اور بڑھ گئی 

ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ تشدید کا عمل صرف مصمتوں(حروف صحیح) ہی پر نہیں یاے معروف(حرفِ علت) پر بھی ہوتا ہے۔لیکن ’الف ‘اور ’واو‘اگرحروف علت کی بجائے حروف صحیح کے مقام پر ہوں تو ان پر تشدید کا عمل نہیں ہوتا۔

تشدید کے عمل کی ان ساری وضاحتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ’’تشدید‘  ایک جنس کے دو حرف کو ایک بار لکھ کر ان کی تکرار کو ظاہر کرنے کے لیے یہ علامت لگا دی جاتی ہے۔یہ علامت مشدّد حرف کا دوبار تلفظ کرنے کا اشارہ ہے۔ امّاں=ام۔ماں، ابّو=اب۔بو،بچّہ= بچ۔ چہ، رسّا = رس۔سا وغیرہ۔ بایں صورت مشدد حرف کی پہلی آواز ساکن اور دوسری متحرک ہو جاتی ہے۔کھڑی بولی میں ساکن آواز سے مراد مصوۃ الآخر مصوتے کو ساقط کرنا ہے۔ہندی میں جتنے بھی مصمتے یعنی حروفِ صحیح ہیں ان کے آخر میں الف (اَ )کی آواز شامل ہوتی ہے۔ساقط کر کے دو ہم آوازیں جوڑ دی جاتی ہیں اسے ہندی میں ’سنیوگ دویتو‘ کہتے ہیں۔ اس عمل سے حروف کو جوڑ کر لکھا جاتا ہے جیسے مچچھر، کچچا، کاننھا، سچچا، رسسی،بتتی وغیرہ۔ لیکن تشدید کا یہی عمل اگر ہندی الاصل الفاظ کا املا اردو رسم الخط میں لکھا جائے تو اس کے ہجے Spelling کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ہندی میں چونکہ ’ک ‘  مصمتہ ہے تو’کھ‘  ہکاری حرف ہے۔اسی طرح ’گ‘  کے ساتھ گھ،’چ‘ کے ساتھ چھ،’ج‘ کے ساتھ جھ،’ٹ‘ کے ساتھ ٹھ،’ڈ‘ کے ساتھ ڈھ،’ت‘ کے ساتھ تھ،’د‘ کے ساتھ دھ،’پ‘ کے ساتھ پھ،’ب‘ کے ساتھ بھ آزاد مصمتے ہیں اردو میں ان کی شکل جڑواں ہے یعنی متعلقہ مصمتے کے ساتھ دوچشمی ھ کو جوڑا جاتا ہے۔اس لیے ہندی کے ’سنیوگ دویتو ‘ والے الفاظ کو اردو میں تشدید کے دائرے میں نہیں لیا جا سکتا کیونکہ ان الفاظ کے ہجے ہم کر ہی نہیں سکتے۔مثلا لفظ:

   پتھّر:

پتّھر‘ کے ہجے ہم پَ تۡ زبر پَتۡ،تھَ رۡ زبر تھرکیوں کر کر سکتے ہیں جبکہ تشدید اگر’ تھ‘ پر دی گئی ہے تو حرف ’ت‘ کدھر گیا اور تشدید کے عمل سے کون سا حرف مشدد اور کون سا ساکن ہوا   اس لیے یہاں لفظ ’پتھر کے ہجے  دشوار ہی نہیں ناممکن ہو جاتے ہیں۔ہاں البتہ لفظ پتھر سے بنیں صفات میں پہلا ’ت‘ زائل ہوجاتا ہے اور اس کی آواز مدغم ہوجاتی ہے اس لیے ان الفاظ میں تشدید کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔جیسے پتّھر سے پتھریلا ؍ پتھریلی یا محاورہ ’آنکھیں پتھرا جانا ‘ میں لفظ ’پتھرا ‘ وغیرہ۔

  ہتّھا ؍ نہتّھا :

یہ دونوں الفاظ آصفیہ اور نور اللغات میں بغیر دو چشمی ھ کے اور ھ کے ساتھ بھی لکھے گئے ہیں۔دوچشمی ھ کے ساتھ پہلے لفظ کے ہجّے کچھ اس طرح ہوں گے :  

ہَ تۡ=  ہَتۡ،تھ ا  =  تھا  = ہتھاویسا ہی ’نہتھا‘ کابھی معاملہ ہے۔

    ڈبھّر،بھبھّڑ،بھٹھّی اور ٹھٹھّا :

 ڈبّھریہ دیہی اردو لفظ ہے جو گارے مٹی اور پتھر کا کام کرنے والے معمار دیوار کی بنیاد بھرنے کے لیے بیڈول اور اوبڑ ڈھوبڑ پتھروں کا استعمال کرتے ہیں انھیں ڈبھّر کہا جاتا ہے۔اس کے ہجے کرنے میں بھی وہی دشواری پیش آتی ہے جو اوپر کے الفاظ میں آئی تھی۔یعنی ڈبھر کے پہلے ساکن ’ب‘ کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔

بھبھڑ شور و غل کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ نور اللغات  میںبھٹھی،  ٹ پر تشدید کے ساتھ بھی ہے اور ٹھ کے ساتھ بھی۔اس کے معنی لوہاروں کا آتش دان ہے۔ ٹھٹھا بھی اسی قبیل کا لفظ ہے۔

   خچرّ اور مچّھر :       یہاں پہلے لفظ ’خچر‘ کے ہجے کرتے ہوئے تشدید کے عمل کے مطابق حرف ’چ‘ کی صوتی تکرار تو کی جا سکتی ہے،مگر دوسرے لفظ ’مچھر‘ میں ’’چ‘‘ کی صوتی تکرار کس طرح کریں گے ؟کیونکہ یہاں تشدید مچھر کے حرف ’چھ‘ پر ہے یعنی حرف چھ مشدد ہے تو تکرار اسی حرف کی ہوگی۔جبکہ مچھر کا تلفظ ’’مَچۡ  چھَرۡ ہے۔اس کے برخلاف ’خچّر کے ’چ‘ پر تشدید ہونے کی وجہ سے ’چ‘ کو بالتکرار پڑھا جا سکتا ہے۔

  اچھّا اور سچّا  :   خچر اور مچھر کی طرح اچھا اور سچا کے ہجے کا بھی وہی مسٗلہ ہے۔ یعنی یہاں بھی سچا کی ’چ‘ مشدد ہوکر دو بار پڑھی جائے گی۔

 مکہّ اورمکّھی :   یہاں ’مکہ‘ کی کاف مشدد ہے لیکن مکھی کی ’کھ‘ مشدد سمجھی جائے تو مکھی کا تلفظ ’کھ‘‘ دوبار ادا کرناپڑے گا۔ 

 بگّھی،گھگھّیانااور لکڑبگھّا:

ان تینوں الفاظ میں حرف ’گھ‘ پر تشدید ہے۔بگّھی کے معنی نور اللغات نے گھوڑا گاڑی لکھے ہیں جس کے اوپر چھت ہوتی ہے لیکن آصفیہ نے اس کے معنی گھوڑوں کو دق کرنے والی بڑی مکھی کے بتائے ہیں۔ ۔ گھگھیانا کے معنی مارے خوف کے حلق سے آواز کا رک رک کر نکلنا ہوتے ہیں۔لکڑ بگھا  مردار خور جنگلی جانور جو کتّے کے مشابہ ہوتا ہے۔

ھجوں کا مسئلہ بھی اسی طرح باقی ہے جس طرح ان سے قبل الفاظ کے ہجوں میں آیا ہے۔ بھدّا، مدّھم، ننّھا،ن نّھیال، ملّھار، کُلّھڑ، کلھاڑی، مُلٹّھی، گڑھا، تمھارا، گیا رھواں،تیرھواں، انھیں، جھجھر(شہر؍ علاقے کا نام) کھُکّھل، پھوپّھی، پھوپّھا، بھنبھوڑھنا، جانگھّیا وغیرہ کئی الفاظ ا یسے ہیں جن کے ہجوں میں رکاوٹ آتی ہے۔ان ہندی الاصل ’ھ‘ سے مخلوط حروف میں ’رھ،ڑھ،لھ،مھ،نھ،وھ ‘ایسے مصمتے ہیں جو ہندی دیو ناگری رسم الخط میںجڑواں حروف سے مل کر ہی بنے ہیں۔ ان کے لیے الگ سے کوئی آزاد حرف نہیں۔لفظ میں استعمال ہونے والی ان مخلوط آوازوں کے لیے جڑواں حروف ہی استعمال کیے گئے ہیں لیکن ہندی والوں کے یہاں ان حروف کے لیے جڑواں حروف یا آزاد مصمتوں کی بحث نہیں ہوتی۔وہاں یہ تمام حروف جوڑ حرفوں کے ذریعے لکھے جاتے ہیں بلکہ بعض ہندی کے مخلوط الصوت الفاظ جن کو اردو میں جڑواں حروف میں لکھا جاتا ہے ہندی میں وہ علاحدہ علاحدہ لکھے جا تے ہیں۔جیسے ہمارے یہاں بارھواں لکھنے پر اصرار ہے تو ہندی میں اسے بارہواں لکھا جاتا ہے وہاں تیرھواں کو تیرہواں اور سولھواں کو سولہواں ہی لکھا جاتا ہے۔ہندی میں ایسی مخلوط آوازوں کو لکھنے کے لیے ’سنیوگ دویتو‘ یعنی مصمتے کے آخر کی (اَ ) کی آواز کو ساقط کر دیا جاتا ہے۔یہ عمل ہمارے یہاں تشدید کے ذریعے تو کیا جاتا ہے مگر جب ایک مصمتہ سادہ اور اس کے ساتھ دوسرا مصمتہ دوچشمی ’ھ‘  والا آجائے جیسا کہ اوپر مثالیں دی گئی ہیں توان پر تشدید کا عمل ناممکن ہوتا ہے۔اس لیے ان آوازوں کو ہم ب ھ زبر بھ، پ ھ زبر پھ،ک ھ زبر کھ،ت ھ زبر تھ  و قس علیٰ ھذااعراب کے ساتھ پڑھیں تو  مخلوط الحروف میں تشدید کے ساتھ ہجوں کا مسئلہ حل ہو سکے گا۔   

 

 

Dr. Syed Yahya Nasheet

24, Kashana  KALGAON

Dist. Yavatmal 445203 (MS)

 

 

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں