8/6/22

2021 کا فکشن اور فکشن تنقید ایک مختصر عالمی جائزہ - مضمون نگار : اسلم جمشیدپوری

 



2021 میں فکشن میں کیا کیا لکھا گیا۔کون سے ناول مشہور ہوئے،کن افسانوی مجمو عوں نے شہرت حاصل کی۔ فکشن تنقید کی کن کتابوں نے قاری کو متاثر کیا۔ اس کا ایک مختصر عالمی جائزہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

2021 کے اہم ناول

عبد الصمد کا شمار ہمارے ان فکشن نگاروں میں ہو تا ہے جنھوں نے اردو ادب کو مستقل ادبی فن پارے عطا کیے ہیں۔ عبد الصمد کا پہلا ناول ’دو گز زمین‘ پر انھیں ساہتیہ اکا دمی ایوارڈ ملا تھا تب سے اب تک ان کے نصف درجن ناول سامنے آ چکے ہیں۔ ان کا تازہ ترین ناول’ کشکول‘ پچھلے سال منظر عام پر آ یا۔ جو کورونا کے مہلک اثرات کے بطن سے پیدا صورت حال پر فقیروں کی کہانی پر مشتمل ہے۔ ناول میں کورونا جیسی بیماری کے شکار افراد کی اچھی منظر کشی کی گئی ہے۔ پورا ناول فقیروں کی زندگی پر ہے جنہیں ایک بازار کے فٹ پاتھ سے اٹھا کر شہر انتظامیہ قبرستان میں جگہ دیتی ہے۔ ناول میں فقیروں کی زندگی، آپسی چپقلش، انتظامیہ سے ٹکرائو، کھانے کی دیگوں پر ٹوٹ پڑنا اور آپس میں لڑا ئی جھگڑے کرنا، انتظامیہ کے لیے سر درد بن جانا جیسے فقیروں کے اور شہری زندگی کے مختلف مسائل کو عبد الصمد نے’ کشکول‘ میں سمیٹنے اور اٹھا نے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ایسا لگتاہے کہ کورو نا میں پوری دنیا ایک’ کشکول‘ بن گئی ہے اور زندگی کسی فقیر کے کشکول میں پڑے سکے کی مانند ہو گئی ہے۔

جرمنی کے معروف فکشن نگارسر ور غزالی کا تازہ ترین ناول ’شب ہجراں‘ ہے۔ یہ نا ول بھی ان کے پچھلے ناول کی طرح ہجرت کے مسائل کا عمدہ بیان ہے۔ اس ناول میں بنگلہ دیش سے پا کستان اور پھر یو روپ کی طرف ہجرت کے مسائل کی عکاسی موجود ہے۔ ناول کے کردار عظیم، سلیمہ، اور عالینہ ناول میں اہم رول ادا کرتے ہیں اور آخر میں عظیم اور عا لینہ کے در میان ایک مستقل ہجر کا معاملہ پیدا ہو جاتا ہے جس سے ناول کے عنوان کی مناسبت بنتی ہے۔ ناول یوں تو رو مانی ہے لیکن بنگلہ دیش، پاکستان اور یو روپ کے بہت سے مسائل کو سامنے لاتا ہے۔کورو نا کے مضر اثرات کا بیان ناول میں درج ہے جو خاصا تکلیف دہ ہے۔

نذیر فتح پو ری کی تقریباً100 کے آس پاس مختلف اصناف میں کتابیں موجود ہیں۔ ’یہ میں ہوں‘ نذیر فتح پوری کا تازہ اور نیا ناول ہے جو2021 میں ’اسباق‘ پبلی کیشن پونا سے شا ئع ہوا ہے۔

یہ میں ہوں‘ ناول میں ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو زمانے کے ظلم و ستم سے پریشان ہے اور اپنے پاکیزہ اور مقدس پیار کی قربانی دیتی ہے۔ پو را ناول رو مانی انداز میں لکھا گیا ہے جس میں آ فتاب اور شبنم دو مرکزی کردار ہیں۔ یہ ناول ہندوستانی عورت کی داستان ہے۔اس کا نام شبنم کی جگہ شکیلہ، شیبا یا شریفہ ہو سکتا ہے۔یعنی عورت اپنے گھر سے لے کر معاشرے تک میں اپنے شو ہر کے بغیر محفوظ نہیں ہے۔ اسی بات کو نذیر فتح پوری نے عمدگی سے ناول کیا ہے۔

منزل منزل‘ احمد حسنین کا ناول’ منزل منزل‘ میں علو زہ مرکزی کردار کے طور پر ہے جو عوا می فلا ح و بہبود کے کام کرتی ہے۔ ہر وقت گائوں والوں کی مدد کے لیے تیار رہتی ہے۔گائوں میں پانی کے مسئلے کو تا لاب کھدوا کر حل کرتی ہے۔فرقہ وارانہ رنگ کی واردا توں کو حتی المقدور حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔علوزہ ایک مثا لی کردار کے طور پر ناول میں آ تی ہے جو اپنے کزن سلمان نامی نو جوان سے محبت کیا کرتی تھی لیکن سلمان کے کمپیوٹر اور موبائل میں گھسے رہنے کو وہ پسند نہیں کرتی اور اپنے پیار کو مختلف لوگوں میں تلاش کرتی ہے۔اس کی تلاش عظیم نامی نوجوان پر ختم ہو تی ہے جو دبئی میں ملازمت کرتا ہے۔

مرحلے محبت کے‘ ڈاکٹر عاکف سنبھلی کا پہلا ناول ہے۔ یہ ایک رو مانی ناول ہے جس کی کہانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور مراد آ باد کے درمیان ہچکولے کھاتی رہتی ہے۔ ناول کے انجام کا گو کہ قاری کو پہلے ہی پتہ چل جاتا ہے، ہیرو ہیروئین کے ملن پر ہوتا ہے۔ ناول کی خو بی یہ ہے کہ ناول صاف ستھرا ہے کہیں جنس کا شائبہ تک نہیں ہے۔ بڑی ہی پاکیزہ اور مقدس محبت کو دکھایا گیا ہے۔ ناول میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا تنقیدی ذکر اور مختلف شعبہ ہائے علم و ادب موجود ہیں۔ بڑے اچھے،ہرے بھرے لان، کینٹین، لائبریری، اور چائے خانوں کاذکر ہے۔

دھوپ چھاؤں‘ سہیل عظیم آبادی کا ایک غیر مطبوعہ ناول ہے جو پروفیسر ارتضیٰ کریم کی تحقیق و تدوین میں منظر عام پر آ یا ہے۔ ناول آج سے تقریباً چالیس پچاس سال قبل کا ہے لیکن ناول میں آج کے مسائل اور آج کی زندگی کو عمدگی سے پیش کیا گیا ہے۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے بڑی محنت اور لگن کے بعد اس کے کئی نسخوں کا پتہ لگا کر اسے شائع کیا ہے۔ ناول کے موضو عات کے تعلق سے پروفیسر ارتضیٰ کریم لکھتے ہیں:

’’اس ناول دھوپ چھا ؤں میں جن مو ضوعات کو چھو نے کی کوشش کی گئی ہے اسے دور رسی اور دوربینی سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے اور اس سے یہ بھی اندازہ ہو تا ہے کہ سہیل عظیم آبادی ایک مصنف ہونے کے با وصف اپنے عہد کے شب و روز اور ان کے مسائل پر گہری نظر رکھتے تھے۔ ورنہ اس ناول میں دہشت گردی، جنسی بے راہ روی، بین المذاہب شادی، نفسیاتی کشمکش، ضعیف الاعتقادی، کمیونزم، لادینیت، آزادانہ خیالات اور مذہب بے زاری جیسے موضو عات در نہیں آتے۔‘‘ 

(دھوپ چھاؤں،سہیل عظیم آبادی،ص 38)

در یا ہے چشم گریہ ناک‘  شفق سو پوری کا ایک اہم ناول ہے۔

کشمیر کے پس منظر میں لکھا گیا ایک اچھا ناول ہے۔ ناول میں شفق سو پوری نے کشمیر میں زمیندارانہ نظام اور مظلوم طبقے کی کہانی کو عمدگی سے پیش کیا ہے۔

خود کشی نامہ‘ محترم رضوان الحق کا پہلا ناول ہے۔ یہ ناول اپنے ہم عصر ناولوں سے بہت مختلف و منفرد ہے۔ اس میں رضوان الحق نے زندگی میں جب پریشانیاں بہت آجائیں تو ایک ہی راستہ خود کشی بچتا ہے،کو اپنے بیان اور فلسفے سے سچ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے ناول کے ذریعے رضوان الحق نے خودکشی کی بڑی حمایت کی ہے۔ ناول کا مرکزی کردار طالب اپنے آس پاس کے لوگوں کے ذریعے خود کشی کرنے پر نہ صرف حیران رہتا ہے بلکہ اس کے اسباب و علل جاننے کی بھی کوشش کرتا ہے۔خود اس کے حالات بھی ایسے ہو جاتے ہیں کہ وہ خود کشی کرنے پر تیار ہو جاتا ہے، اس کے پیار کے قصے بھی خود کشی پر جاکر ختم ہو تے ہیں۔

رحمن عباس کا ناول ’زندیق‘ گذشتہ برس شائع ہونے والا ایک مقبول ناول ہے۔

ناول میں زندگی کے مختلف رنگ ہجر و وصال، دہشت گردی، سماجی انقلاب، پس ماندہ طبقات کے مسائل،  دوڑتی بھاگتی زندگی، انسانی نفسیات، شناخت کا مسئلہ وغیرہ اس ناول میں ملتے ہیں لیکن پورے ناول پر جنسی رنگ کچھ زیادہ ہی نظر آ تا ہے۔ویسے بھی یہ رنگ رحمن عباس کے ناولوں کا خاصہ ہے۔

ان ناولوں کے علاوہ دیدار ِدوست (فہیمہ الیاس)،جانِ عالم(عرفانہ تزئین شبنم)،ایک خنجر پانی میں(خالد جاوید)،صالحہ صالحہ(صدیق عالم)گمشدہ علامت(مترجم یعقوب یاور)مشک پوری کی ملکہ(محمد عاطف علیم)،تکون کی چوتھی جہت(اقبال خورشید)، لاک تھری سکسٹی(اختر آزاد)رقص نامہ(جیم عباسی)،نولکھی کوٹھی (علی اکبر ناطق)، دائرہ( محمد عاصم بٹ)،میں تمثال ہوں (عارفہ شہزاد)،نوحہ گر(نسترن احسن فتیحی)، محصور پرندوںکا آسمان (حمیرہ عالیہ)وغیرہ جیسے ناول بھی آسمان ادب پر خوب چمکے لیکن تنگیِ وقت کے سبب تفصیلی گفتگوسے معذرت۔

افسانوی مجمو عے

بھور بھئی جاگو‘ نور الحسنین کا تازہ افسانوی مجمو عہ ہے۔

بھور بھئی جاگو‘ میں بھی کئی افسانے یہ عشق نہیں آ ساں،یہ تیرے پر اسرار بندے، گڑھی سے ابھرتا سورج، بھور بھئی جاگو،پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا اور سبزہ نو رستہ کا نو حہ بے مثل افسانے ہیں۔ ان کو پڑھتے پڑھتے قاری ان میں کھو جاتا ہے۔

آج میں کل تو‘ ڈاکٹر مشتاق احمد وانی کا چھٹا افسا نوی مجمو عہ ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ افسانے کشمیر کی فضا کو عام طور پر پیش کرتے ہیں۔یوں بھی ڈا کٹر مشتاق احمد وانی کے افسانے مذہبی اور اصلاحی رنگ لیے ہوتے ہیں یا پھر جنس کا استعمال ان کے یہاں بخوبی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس مجموعے میں تین چار افسا نچے بھی شامل ہیں کل ملا کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان افسانوں میں علا قائیت، مذہبیت،کشمیریت اور جنسیت جیسے مختلف رنگ ملتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کورونا جیسی مہلک بیما ری پر بھی کئی افسانوں پر اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔

حرف حرف تیرے نام‘ ندیم راعی مرادآبادی کے افسانوں کا تازہ مجمو عہ ہے۔  ندیم راعی کے افسانوں میں ایک خوبی یہ پائی جاتی ہے کہ وہ بڑے نڈر اور بے باک ہو کر افسانے لکھتے ہیں۔ وہ اپنے افسانوں میں سیاسی شخصیات کا صحیح نام استعمال کرنے سے بھی پرہیز نہیں کرتے۔ ان کے زیادہ تر افسانے سیاست اور سماج کو بے نقاب کرتے ہیں۔

نقش فریادی‘ راجہ یوسف کا دوسرا افسا نوی مجمو عہ ہے۔ ’نقش فر یادی ‘میں را جہ یو سف کے 33؍ افسانے اور27افسانچے شامل ہیں۔ راجہ یوسف کے افسانے اختصار  کے وصف سے متصف ہوتے ہیں۔ان کے افسانوں میں راست بیانیہ کے ساتھ ساتھ علا متی بیانیہ بھی ملتا ہے۔ وہ قاری کو چونکا تے بھی ہیں اور غور و فکر کی دعوت بھی دیتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں شناخت کا مسئلہ، دہشت گردی، کشمیری عوام کا دکھ درد، ڈر،خوف، فو جی دہشت گردی، سیاسی اور سماجی نشیب و فراز، دم توڑتی انسانیت، قدروں کا زوال، رشتوں کی پامالی اور عدم تحفظ جیسے موضوعات ملتے ہیں۔ ان کے افسانے مکڑی، نقش فریادی،  گورکن، کن فیکون، نالائق،، جنگل راج، بے وفا، حصار، ببول، لاک ڈاؤن،مانگے کا اجالا،بند گھڑی کا کرب کا شمار ایسے افسانوں میں ہونا چاہیے جو قاری کو متاثر کرتے ہیں۔ بطور افسانچہ نگار بھی راجہ یو سف نے الگ شناخت قائم کی ہے۔

جگ ہنسائی‘ قیصر تمکین،برمنگھم کے افسانوں کا مجمو عہ ہے جسے ان کی موت کے بعد حسن ایوبی نے اپنے طور پر ترتیب دے کر شا ئع کیا ہے۔ قیصر تمکین ہما رے عہد کے معروف افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں کو دو بارہ شائع کر کے قیصر تمکین شناسی میں ایک بڑا کردار ادا کیا ہے۔ مذکورہ مجمو عے میں قیصر تمکین کے پندرہ افسانوں کو شامل کیا گیا ہے۔

پرستش برق کی‘ سہیل وحید کے افسا نوی مجمو عے کا تیسرا ایڈیشن پچھلے دنوں منظر عام پر آ یا۔  مجمو عے میں کل تیرہ افسانے موجود ہیں جو سہیل وحید کے تجربے اور مشاہدے کے شاہد ہیں۔ ان کے افسانوں میں عام انسان کا دکھ درد، پیار محبت، سماج کے نشیب و فراز کے ساتھ ساتھ ان کا اسلوب بھی خاصا متاثر کن ہو تا ہے۔

مانسون اسٹور‘ رخشندہ رو حی مہدی کے تازہ افسانوں کا مجمو عہ ہے۔ رخشندہ رو حی کا یہ اردو کا دوسرا افسا نوی مجمو عہ ہے جس میں سو لہ افسانے شامل ہیں۔ رخشندہ رو حی کے یہ افسانے اپنی پہچان آپ ہیں۔ ان افسانوں میں خلیجی اور مغربی مما لک کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے اعلیٰ طبقات یعنی طبقا ت اشرافیہ کے گھروں اور معاشرے کی کہانیاں شامل ہیں۔ اس مجمو عے میں پسماندہ طبقات کی کہانیاں بھی ہیں۔ رخشندہ روحی کی کہانیو ں میں حسن و عشق کی ایسی داستان ملتی ہیں جو ہمیں کبھی رلاتی ہیں تو کبھی جذ باتی بنا دیتی ہیں۔ ان افسانوں میں درد و کرب کی ایسی زیریں لہریں اٹھتی ہیں جو قاری کو کہانی میں شامل کر لیتی ہیں۔

لاوا‘ ارشد منیم کا تیسرا افسا نوی مجمو عہ ہے۔  ارشد منیم افسانے کے ساتھ ساتھ افسانچے بھی قلم بند کرتے رہے ہیں۔

ڈوبتی نسلیں‘محترمہ رینو بہل کا تازہ افسانوی مجموعہ ہے جس میں ان کے اکیس افسانے شامل ہیں۔ آپ کے افسانوں کی خوبی یہ ہے کہ ان میں پنجاب کی نوجوان نسل کو بہتر طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ افسانہ’ ڈوبتی نسلیں‘ میں بھی پنجاب کی نئی نسل کو نشے کے دریا میں ڈوب کر بر باد ہوتے ہو ئے دکھایا گیا ہے۔ مجمو عے کے کئی افسانے پنجاب کی نئی نسل کی تباہ و برباد ہو تی زندگی کو عمدگی سے پیش کرتے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ پسماندہ طبقات اور اعلیٰ ذات کے درمیان کی خلیج کو بھی افسانوں میں جگہ دی گئی ہے۔آپ کے اسلوب میں پنجابی کی آ میزش اسے اور پر اثر بنا دیتی ہے۔

مجھے بھی‘ غزالہ قمر اعجاز کا دوسرا افسا نوی مجمو عہ ہے۔غزا لہ قمر اعجاز کے افسانوں اور ناولوں میں عورت پرور اساس سماج کے ظلموں کی کہانیاں زیادہ ملتی ہیں لیکن ان کے افسانوں کی عورت پہلے تو مجبو ر و لاچار نظر آ تی ہے لیکن بعد میں وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کا حوصلہ بھی  دکھاتی ہے۔’مجھے بھی‘ غزا لہ قمر کا نیا افسا نوی مجمو عہ ہے جس میں تقریباً دودرجن سے زائد افسانے شامل ہیں۔ ان کی کردار نگاری کرداروں کے اندر اتر کر ان کے خا رج اور باطن کو جاننے کا عمل اور پھر ان کو افسانوں میں پیش کرنا غزا لہ قمر اعجاز کا خاصہ ہے۔

ڈیجیٹل جنگل‘ ایم۔ مبین کے ذریعے تحریر کردہ بچوں کی کہا نیوں کا مجمو عہ ہے۔ ایم۔ مبین بچوں کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں اور بدلتے ہوئے زمانے کی رفتار سے ہم آ ہنگ ہونا بھی جانتے ہیں۔ اسی لیے ان کی کہانیاں بچوں کو بہت پسند آ تی ہیں۔ ’ڈیجیٹل جنگل‘ کی زیادہ تر کہانیوں میں انھوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال پر زیادہ زور دیا ہے اور بچوں کی تربیت کے لیے عمدہ کہانیاں تحریر کی ہیں۔

عجیب و غریب سچے افسانے‘ حمید ادیبی ناندوری کا پہلا افسانوی مجمو عہ ہے۔ افسانوی مجمو عے کے زیادہ تر افسانے سچے واقعات پر مبنی ہیں۔ ان کا اسلوب نہایت سادہ اور سلیس ہے۔لیکن یہ معاشرے کی گندگی اور برائیوں کو بے نقاب کر نے کا کام کرتے ہیں۔

ڈینگی ڈریکولا‘ محترمہ فاکہہ قمر کی تازہ ترین کتاب ہے جو بچوں کے لیے ناول کی شکل میں تحریر کی گئی ہے۔ اسے تحریک برائے بچوں کا ادب نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب میں فا کہہ قمر نے بچوں کے لیے بڑی دلچسپ کہانی بیان کی ہے۔ یہ بات ہم سب کے لیے انتہائی اطمینان کی ہے کہ اردو میں بچو ں کا ادب مستقل لکھا جارہا ہے۔

مینڈک کی وفاداری‘ رونق جمال کی تازہ ترین کتاب ہے جسے انھوں نے خود شائع کیاہے۔ یہ کتاب بچوں کے لیے انتہائی مفید اور کار آ مد ہے۔رونق جمال بڑوں کے لیے افسانے اور افسانچے لکھتے رہے ہیں ساتھ ہی انھوں نے بچکانچہ نام سے بہت سارے افسانچے بچوں کے لیے لکھے ہیں۔

ہم قدم‘محترم فریدہ نثار احمد انصاری کے تازہ افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ’ہم قدم‘ میں محترمہ فریدہ نثار احمد انصاری کے بہت سے خوبصورت افسانے شامل ہیںان افسانوں میں محترمہ نے اپنے آس پاس کی زندگی خصوصاً سعودی عرب کے حالات اور وہاں کی زندگی کو پیش کیا ہے۔ ان کے متعدد افسانے جس میں جدائی کا کرب، ایک حسین عہد و پیما، عکس زندگی، ہم قدم وغیرہ اچھے افسانے ہیں۔

انوکل اور دیگر کہانیاں‘ستیہ جیت رے کی منتخب کہانیاں ہیں جس کا انتخاب اور اردو ترجمہ قیصر نذیر خاور نے کیا ہے،اور اس کتاب کو میٹر لنک پبلشر لکھنؤ نے شائع کیا ہے۔

 اس کتاب میں ستیہ جیت رے کی 18؍ معروف اور نمائندہ کہانیوں کو شامل کیا گیا ہے یہ سبھی کہانیاں اپنے عہد کے مسائل کو پیش کرتی ہیں ساتھ ہی آج کے بہت سارے مسائل کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں۔ کتاب میں ستیہ جیت رے کے بنائے ہوئے خاکے اور اسکیچز کو بھی خوبصورتی سے شائع کیا گیاہے۔

ڈاکٹر عشرت ناہید کا پہلا افسانوی مجمو عہ ’منزل بے نشاں‘ ہے۔  ’منزل بے نشاں‘ میں تقریباًدیڑھ در جن افسانے اور دو افسانچے شامل ہیں۔ آپ کے افسانوں میں علامت نگاری کااچھااستعمال ملتا ہے۔ ایک ڈری سہمی مشرقی عورت دکھائی دیتی ہے جومرد اساس سماج  کے ظلم وستم کی ماری ہوئی ہے لیکن اپنے پیروں پرکھڑا ہونا جانتی ہے۔ یوں توآپ کے سبھی افسانے قابل مطالعہ ہیں لیکن سنگ تراش،منزل بے نشاں، ذرا اعتبار پالیں،آج کی حوا، جاند گرہن، کسک، کتاب چہرہ،فیصلے دل کے ایسے افسانے ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

عظیم اللہ ہاشمی کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’دوسرا وش پان‘ ہے جس میں تقریباً ڈیڑھ درجن افسانے شامل ہیں۔ ان افسانوں میں لاک ڈاؤن، دوسرا وش پان، نیلا سیارہ، شب غم کا چاند، جنازہ گھر، ہونٹ چلتے ہیں مسکرانے سے وغیرہ کا شمار اچھے افسانوں میں کیا جانا چاہیے۔ ان کے افسانے عصری حسیت اور فن پر دسترس سے مملو ہوتے ہیں۔ وہ آس پاس پر نظر رکھتے ہوئے ایسے کردار تراشتے ہیں جو ہمارے سماج کے اہم حصہ ہیں۔

قوس قزح‘ محترمہ عارفہ خالد شیخ کے افسا نچوں کا پہلا مجمو عہ ہے۔مجمو عے میں تقریباً سو افسانچے شامل ہیں۔عارفہ خالد شیخ صاحبہ افسانے اور افسانہچ تخلیق کر نے کے ساتھ ساتھ تنقید بھی کرتی رہی ہیں۔ افسانچوں پر آپ کی خاصی گرفت ہے۔’’ قوس قزح‘‘ میں آپ نے بعض بہت اچھے افسانچے تخلیق کیے ہیں۔ جن میں مستی،بچپن، رہبری، نقاب، کایا پلٹ، مادر من،دل لگی، دوکتے، یاد حسین، مہمان نوازی، خود سپردگی، پرا ئی خوشی، تنگ دل وغیرہ اچھے افسا نچے ہیں۔

دکھتی رگ‘ خالد بشیر تلگامی کے ذریعے لکھے گئے افسا نچوں کا مجمو عہ ہے۔ تقریباً110 صفحات پر افسانچے شا ئع ہوئے ہیں۔ افسانچوں کو خوبصورتی کے ساتھ باکس میں شائع کیا گیا ہے۔ خالد بشیر کے کئی افسا نچے ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ رو بوٹ، معصوم سوال،سبق، شارٹ کٹ، باپ بیٹا، بٹوارہ، دیوار، ناسور، مصروفیت، بھول،نجات وغیرہ اچھے افسانچے ہیں جو قاری کو متاثر بھی کرتے ہیں۔

’100لفظوں کی کہا نیاں‘ ریحان کوثر کے تازہ ترین افسا نچوں کا مجمو عہ ہے۔

اس مجموعے میں تقریباً پانچ درجن افسانچے شامل ہیں۔ مصنف کے دعوے کے مطابق انتساب سے لے کر شکریے تک100لفظوں میں تحریر ہوا ہے۔ ان افسانچوں میں دھو بی کا کتا، بستر کا کونا، ہیڈ لائن، چھپا ہوا سسٹم، رام بان،منو رنجن،درد کی گولیاں، شہر کا ماحول،روہن اور گاندھی،بھا رت مہان، وضو وغیرہ اچھے افسانچے ہیں۔ عجیب بات لگتی ہے۔

یہ کیسا رشتہ‘ دیپک بدکی کے افسانچوں کا نیا مجموعہ ہے۔ اس میں تقریباً چھیا سی افسا نچے شا مل ہیں۔ ان افسانچوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ موجو دہ عہد کے مختلف معا ملات پر گہرا طنز لیے ہوئے ہیں۔ ان میں کئی خو بصورت افسانچے ہیں جو قاری کو بہت متاثر کرتے ہیں۔ مثلاً نطفہ، یہ کیسا رشتہ، شتر مرغ، ایمان کی قیمت، بہرو پیا، ایکس ٹینشن، تجا وز،اندھی گلی، چور کے گھر مور، گھریلو تشدد، فرماں برداری،جنت اور جہنم،ٹی، آر۔پی وغیرہ ایسے افسانچے ہیں جو ہمیں  غورو فکر کی دعوت دیتے ہیں۔

2021 کی فکشن تنقید

اردو میں دلت افسانہ1980کے بعد‘ ڈاکٹر احمد صغیر کی ضخیم کتاب ہے۔ اس میں احمد صغیر نے اردو کے لیے تمام افسانوں کو ایک جگہ جمع کر نے کی کوشش کی ہے جو یاتو دلت مسائل پر لکھے گئے ہیں یا دلت زندگی کو پیش کرتے ہیں یا کسی نہ کسی طور دلت کو ٹچ کرتے ہیں۔انھوں نے 1980 کے بعد لکھے جانے والے تقریبا چار درجن افسانوں کو اپنی کتاب میں شامل کیا ہے۔اپنے مقدمے میں احمد صغیر نے سماجی تقسیم کے ساتھ ساتھ دلت افسانے کے نقوش کا ذکر کیا ہے وہ بھی پریم چند کو اردو میں دلت افسانوں کا بابا آدم مانتے ہیں اور ان کے کئی افسانوں کو بطور مثال پیش کرتے ہیں۔

باقیات سہیل عظیم آبادی‘ پروفیسر ارتضیٰ کریم کی نئی تحقیقی کتاب ہے جس میں انھوں نے سہیل عظیم آبادی کی ایسی تخلیقات کو جمع کیا ہے جو یاتو اس سے قبل شائع نہیں ہوئی یا پھر محدود حلقے میں اشاعت پذیر ہوئی ہے۔

مذکورہ کتاب میں سہیل عظیم آبادی کے فیچر، ڈرامے،  مضامین،تراجم اورانگریزی ہندی میں مضامین کو یکجا کیا گیا ہے۔

نوکِ قلم‘ بشیر مالیر کوٹلوی کے تنقیدی مضا مین کا مجموعہ ہے۔ ’ نوک قلم‘ میں آپ نے منٹو، بیدی، انجم عثمانی، اشتیاق سعید، اسرار گاندھی، محمد علیم اسماعیل افسانہ نگاری پر خاطر خواہ لکھا ہے۔ ساتھ ہی نیا سماج، نیا افسانہ، احتجاج اور عصری افسانہ، افسانے کے لازمی اجزا افسانچے اور عصری ادب افسانچہ اور اس کی تعریف،ی میک اردو افسانے جیسے موضو عات کو بھی بشیر مالیر کوٹلوی نے’نوک قلم‘ میں شامل کیا ہے۔

محمد علیم اسماعیل کی کتاب’افسانچہ کا فن‘ نے کافی شہرت حاصل کی۔  ’افسانچہ کا فن‘ کتاب کے ذریعے افسانچے کی تعریف،تاریخ اور رفتار کو بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کتاب میں افسانچے کے فن کے تعلق سے محمد علیم اسماعیل کے علاوہ متعدد ناقدین، افسانہ نگار اور افسانچہ نگاروں کے مضامین اور آ را کو شامل کیا گیا ہے۔ کتاب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں منتخب افسانچہ نگاروں کے افسانچے بھی شامل کیے گئے ہیں جس کے مطالعے سے افسانچے کی موجودہ صورت حال اور امکانات کا پتہ چلتا ہے۔

اشتیاق سعید کے افسانے اور اہل قلم کے تجزیے‘ زرینہ الماس کی مرتب کردہ کتاب ہے۔ کتاب میں اشتیاق سعید کے تقریباً15افسانوں کے تجزیے شا مل ہیں جن میں محمد بشیر ما لیر کوٹلوی، ڈاکٹر عشرت بے تاب، ڈا کٹر عظیم را ہی، ڈا کٹر اجے مالوی، ڈا کٹر فرقا ن سنبھلی،ڈاکٹر ارشاد سیانوی، ڈا کٹر غضنفر اقبال جیسے اہم ناقدین کے تجزیے کتاب کا حصہ ہیں۔

نعیم کو ثر کی افسا نوی کائنات‘ کتاب اقبال مسعود کی مرتب کردہ ہے۔اقبال مسعود نے نعیم کو ثر کے فن اور شخصیت پر بہت سارے مضامین شا ئع کیے ہیں۔ کتاب میں مضامین کے علاوہ نعیم کو ثر کے کئی افسا نوی مجمو عوں پر تبصرہ و تجزیہ بھی شا مل ہے۔

نعیم کو ثر اردو کے ایک منفرد افسانہ نگار ہیں۔ آپ کا رجحان ترقی پسند ہے لیکن آپ نے جدیدیت کے عہد میں جب لکھنا شروع کیا تو ان کے افسانوں میں کہیں کہیں علا مت نگاری کا استعمال بھی نظر آ تا ہے۔ ویسے وہ والد کو ثر چاندپوری کی روا یت کو عمدگی سے اپنے افسانوں میں نبھا رہے ہیں۔ ان کے افسانے ہمارے سماج کا نو حہ ہیں اور مٹتی ہوئی تہذیب، ختم ہوتی انسانیت اور دن بہ دن بڑھتی علا قائیت کو بہترین ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں۔

ترنم ریاض کی ناولٹ نگاری‘ ڈاکٹر رقیہ نبی کی تنقیدی کاوش ہے۔ ڈاکٹر رقیہ نبی کی یہ پہلی تحقیقی و تنقیدی کا وش ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر رقیہ نبی نے ترنم ریاض کی ناولٹ نگاری پر سیر حاصل بحث کی ہے۔

ترنم ریاض ہما رے عہد کی معروف فکشن نگار ہیں جنھوں نے اپنے افسانوں اور ناولوں سے عام انسانی زندگی خصوصاً کشمیری زندگی اور وہاں کے مسائل کو عالمی سطح پر اپنی تحریروں میں اٹھایا ہے۔

رومی کے افسانے‘ اسلم جمشید پوری کی مرتب کردہ کتاب ہے۔ اس کتاب میں پاکستان کی مشہور و معروف افسانہ نگار رو مانہ رو می کے افسانوںکا انتخاب اور افسانوں پر تقریباً پچاس صفحوں کا ایک مقدمہ پروفیسر اسلم جمشید پوری نے تحریر کیاہے۔ اس کتاب میں رو مانہ رو می کے تقریبا ً بیس افسانے شامل ہیں جن میں سے کرارا نوٹ، برانڈیڈ شرٹ،طوائف کون؟آٹھواں دروازہ،بالکونی میں کھڑی عورت، وغیرہ ایسے افسانے شامل ہیں جن میں جدید تانیثیت کے ساتھ ساتھ عورتوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف زبردست قسم کااحتجاج ملتا ہے۔

نور الحسنین کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ‘ ڈاکٹر قمر النسائ کی مرتب کردہ کتاب ہے۔  اس کتاب میں نور الحسنین کے تقریباً سو لہ افسانوں کے تجزیے شامل ہیں۔ یہ سبھی تجزیے مختلف افسانہ نگاروں،ناقدین اور اسکالرز کے ہیں۔ کتاب کی خوبی یہ ہے کہ تجزیے کے ساتھ افسانے بھی اصل شکل میں شائع کیے گئے ہیں۔ ڈا کٹر قمر النسائ نے نہ صرف افسانے اور تجزیے تلاش کر کے جمع کیے ہیں بلکہ ایک مضبوط نوٹ بھی نور الحسنین کی افسانہ نگاری پر تحریر کیا ہے۔

شین مظفر پوری :حیات و خدمات‘ ڈاکٹر صوفیہ شیریں کی تازہ ترین کتاب ہے۔  اس تحقیقی مقالے میں شین مظفر پوری کی زندگی اور ان کے فن کے حوا لے سے سیر حاصل گفتگو ملتی ہے۔

ڈاکٹر صوفیہ شیریں نے اس کتاب کو دوحصوں میں منقسم کیا ہے۔پہلے حصے کے تحت سوانحی کوا ئف، شخصیت اور شجرہ تحریر کیا ہے۔ جب کہ دوسرے حصے میں ان کی ادبی اور صحافتی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے افسانے، ناول،ڈرا مے، خاکے، طنز و مزاح،انشائیہ، یادداشت، ریڈیو کے لیے تحریریں اور صحا فتی مضا مین پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ مذکورہ کتاب شین مظفر پوری کی شناخت کے تعلق سے اہمیت کی حامل ہے۔

فکشن کی تعبیر‘ مقصود دانش کی تازہ تنقیدی کتاب ہے۔جس میںمقصود دانش نے ناول اور افسانے کے فن، اسلوب اور موضوع پر سیر حال بحث کی ہے۔افسانے کے زمرے میں انھوں نے معاصر افسانہ نگاروںکا تخلیقی رویہ، معاصر خواتین افسانہ نگاروں کا تخلیقی رویہ، افسانے میں موضوع اور اسلوب پر کھل کر بحث کی ہے۔لیکن مقصود دانش نے زیادہ تر انہی لوگوں کاتذکرہ اکیسویں صدی کے افسانہ نگاروں میں کیاہے جن کی شناخت گذشتہ صدی میں مضبوط و مستحکم ہوچکی تھی۔ناول کے زمرے میں شمس الرحمن فاروقی، جوگندر پال، مصطفی کریم، حبیب حق، سیدمحمد اشرف،صدیق عالم، خالد جاوید، شموئل احمد اور شبیر احمد کے ناول اور ناول نگاری پر اچھے مضا مین شامل کیے ہیں۔مقصوددانش خود بھی ایک اچھے افسانہ نگار ہیں اور فکشن کی باریکیوں سے واقف بھی ہیں اسی لیے انھوں نے فکشن کے حوا لے سے مختلف بحث کی ہے۔

ترقی پسند افسانہ اور ’چند اہم افسانہ نگار‘پروفیسر اسلم جمشید پوری کی کتاب کا ترمیم و اضافہ شدہ ایڈیشن ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے ترقی پسند تحریک کے اسباب و علل، اغراض و مقاصد اور بعض ترقی پسند افسانہ نگاروں کی افسانہ نگاری پر سیر حاصل مضا مین قلم بندکیے ہیں۔

نئی صدی کی دو دہائیوں کااردو فکشن‘ یہ کتاب پروفیسر اسلم جمشید پوری اور ڈاکٹرارشاد سیانوی کی مشترکہ کاوش ہے۔ اس کتاب میں نئی صدی کی دو دہائیوں میں لکھے گئے افسانے،ناول،ناولٹ، افسانچہ اور مائیکرو فکشن سے متعلق مضا مین اور نمونے شامل کیے گئے ہیں۔ اس کتاب میں پو ری اردو دنیاکی نمائندگی شامل ہے۔

اسلم جمشید پوری فن اور فنکار‘ ڈا کٹرارشاد سیانوی کی نئی تنقیدی کتاب ہے۔  اس کتاب میں اسلم جمشید پوری کے فن اور شخصیت پر لکھے گئے تقریباً تین درجن سے زائد مضا مین شامل ہیں۔ ساتھ ہی سا تھ اسلم جمشید پوری کے منتخب افسانے و افسانچے بھی شائع کیے گئے ہیں۔ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے کتاب پر ایک طویل مقدمہ بھی تحریر کیاہے۔

عصمت شناسی افسانوں کے تناظر میں‘ ڈاکٹروصیہ عرفانہ کاتحقیقی مقالہ ہے۔اس مقالے پرمو صوفہ کو پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری بھی تفویض ہوچکی ہے۔

نیا ناول نیا تناظر(اکیسویں صدی میں)‘ پروفیسر کوثر مظہری اور ڈا کٹر امتیاز احمد علیمی کی مرتب کردہ کتاب ہے۔ کتاب میں اکیسویں صدی کے اہم ناولوں پر مختلف اسکالرز کے مضا مین جمع کیے گئے ہیں۔

اس سال مزید تنقیدی کتابیں منٹو اور عصمت کے افسانوں میں عورت کا تصور (ڈاکٹر پرویز شہر یار)،اردو افسانوں میںاخلاقی قدریں (انوری بیگم)، اردو افسانہ فنی و تکنیکی مطالعہ (محمد فاروق قادری)، افسانچوں کی الف لیلیٰ( انور مرزا اور ریحان کو ثر)، من شاہِ جہاں نم، نورالحسنین، فکشن کلامیہ (مشتاق صدف، تاجکستان) رتن سنگھ کے منتخب افسانے(ڈاکٹر شمس اقبال)،قرۃ العین حیدر: ایک منفرد افسانہ نگار(ڈاکٹرنازیہ بیگم جافو خان، ماریشس)، وحشی سعید اور فن افسانہ نگاری(شارق ادیب)بھی شائع ہوئی ہیں۔لیکن صفحات کی کمی کی وجہ سے ان کی تفصیل شامل کرنے سے قاصر ہیں۔

گذشتہ برس ہمارے بہت سے فکشن نگار ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے،ان میں سے زیادہ تر کو کو رو نا جیسی عالمی وبا نے اپنے دامن میں سمو لیا۔ معروف ناول نگار مشرف عالم ذوقی(دہلی) محترمہ تبسم فاطمہ (دہلی) معروف افسانچہ نگار ایم اے حق( رانچی) معروف ترقی پسند فکشن نگار رتن سنگھ (نوئیڈا)، معروف ڈرا مہ نگار اور ناقد پروفیسر شمیم حنفی( دہلی)،معروف افسانہ نگار و ناول نگار حسین الحق( گیا)، انوکھے افسانہ نگار بیگ احساس (حیدر آ باد)، معروف ڈرامہ نگار اظہر عالم (کلکتہ) انامیت پسندی کے حامی افسانہ نگار شوکت حیات( پٹنہ)، اختصار پسندی کے بڑے فن کار انجم عثمانی( دہلی)۔اردو ادب میں کشمیر کی خوشبو بکھیرنے وا لی فکشن نگار ترنم ریاض (دہلی)اردو میں سب سے زیادہ کتابیں لکھنے والے فکشن نگار، ناقد، شاعر پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی (بھاگلپور)، حسینہ معین ڈراما نگار(کراچی)،بچوں کے ڈراما نگار احمد مشکور(لکھنؤ)، افسانہ نگار،صحافی مسعود اشعر (لاہور)، افسانہ نگار منظر احتشام (بھوپال )، ناول نگار،صحافی انیس مرزا(فرخ آباد)، معروف افسانہ نگار سیف الرحمن عباد (غازی پور)،افسانہ نگار رفیق شاہین(علی گڑھ)، معروف افسانہ نگار سلطان سبحانی( مالیگائوں)،کلیم عرفی (الہ آباد)، ساگر سرحدی(ممبئی)،ندیم انصاری (شاہجہاں پور)، ڈراما نگار انیس جاوید(ممبئی)،مہارا شٹر سے تعلق رکھنے والے احمد عثمانی( مدیر:بے باک)، احمد کلیم فیض پوری اور نئی نسل کے افسانہ نگار فرقان سنبھلی (علی گڑھ) ہمیشہ کے لیے ہم سے رخصت ہوگئے۔لیکن ان کا تحریر کردہ فکشن ہمارے ساتھ رہے گا۔

معروف رسائل دربھنگہ ٹائمز، زبان و ادب، کاوش، عالمی ادبستان، آج کل وغیرہ نے فکشن نگاروں کی رحلت پر مضامین اور گوشے شائع کرکے خراج عقیدت پیش کیا۔

اس سال سوشل میڈیا پر بھی اردو فکشن کی کا فی دھوم مچی رہی۔ عالمی اردو افسانہ، عالمی اردو فکشن،وولر فکشن گروپ کے ایونٹ فیس بک پر ہوتے رہے اور فیس بک کے قارئین کو نئے نئے افسانے ملتے رہے۔ بزم افسانہ کی روزانہ منعقد ہونے وا لی افسانہ نشستوں میں روز ایک نیا افسانہ پیش کیا جاتا اور اس پر مثبت و منفی رائے کھل کر سا منے آ تی۔ بزم افسانہ نے مختلف موضو عات کے تحت افسانوی نشستیں منعقد کیں۔ وہاٹس ایپ پر قمر صدیقی کا گروپ اردو چینل سال بھر چھایا رہا۔ اس گروپ نے یوں تو سال بھر ادب کی مختلف اصناف کی بہترین کتب کو رو زانہ اپلوڈ کیا۔لیکن فکشن کے تعلق سے بھی اس گروپ میں مختلف کتابیں اپلوڈ ہوئیں۔پورے سال تقریباً70سے زائد فکشن نگاروں کی کتابیںاور افسانے اپلوڈ کیے گئے۔

افسانچے کے فروغ کے لیے بھی مختلف گروپس وہاٹس ایپ پر سال بھر افسانچوں کی بدو لت چھائے رہے۔ ان میں گلشن افسانچہ، افسانہ و افسانچہ گروپ، بزم نثار، کردارآرٹ گروپ،افسانچہ گروپ کے علاوہ یو ٹیوب پر دنیائے افسانچہ نے کمال کردکھایا۔ سال بھر مختلف افسانچوں کے آڈیوز ویڈیوز جاری کیے گئے۔ ساتھ ہی پرویز بلگرا می نے اپنی آواز میں مختلف افسانچے پیش کیے

سہ ماہی چشمۂ اردو،چھتیس گڑھ اردو اکادمی کے رسالے نے اردو افسا نچے پر ایک خاص شمارہ شائع کیا ہے جو جولائی تا ستمبر2021میں شائع ہوا ہے۔اس عالمی افسانچہ نمبر کی خو بی یہ ہے کہ اس میں افسا نچے کی روایت اور فروغ کے تعلق سے مضامین شائع ہوئے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ اس شمارے میں تقریباً پانچ درجن سے زائد افسانچہ نگاروں کے افسانچے بھی شامل ہیں۔بعض افسانچہ نگاروں کے ایک سے زائد افسانچے بھی شامل ہیں۔ اس عالمی افسانچہ نمبر کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ افسانچہ کے فروغ میں اس رسالے کا اہم کردار ہے۔اس رسالے کے مرتب معروف افسانچہ نگار رونق جمال ہیں۔

شعبۂ اردو، چو دھری چرن سنگھ یو نیورسٹی،میرٹھ نے اپنے جرنل ہماری آ واز کا ایک خاص شمارہ’نئی صدی کی دو دہائیوں کا فکشن نمبر‘ جاری کیا۔جس میں پوری اردو دنیا میں نئی صدی میں لکھے گئے ناول، افسانے، افسانچے اور مائیکرو فکشن کے تعلق سے مضامین اور تخلیقات کو یکجا کیا گیا۔ اس خاص شمارے کی ادارت پروفیسر اسلم جمشید پوری اور ڈا کٹر ارشاد سیانوی نے کی۔

چہار سو نامی ادبی رسالے نے نور الحسنین، محمد حمید شاہد اور پرویز شہر یار پر گوشے شائع کیے۔ نور الحسنین اور حمید شاہد موجودہ وقت کے فکشن کے ستون مانے جاتے ہیں۔ ان سے متعلق گوشوں میں ان کے انٹر ویوز، تخلیقا ت اور ان پر تنقیدی مضا مین کی اشاعت سے ان کے فکشن کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ پرویز شہریار کا شمار نئی نسل کے اہم افسانہ نگاروں میں ہو تا ہے۔ ان  پر شا ئع گو شے سے پرویز شہر یار کے ساتھ ساتھ نئے افسانے کو بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

رسالہ پھول، نے معروف فکشن نگار مرتضیٰ ساحل تسلیمی پر ایک شمارہ شائع کیا ہے۔پھول میں مرتضیٰ  ساحل تسلیمی کے تعلق سے مضامین،ان کی منتخب کہانیاں اور نظموں کو شائع کر کے انھیں سچاخراج پیش کیاہے۔

 

Prof. Aslam Jamshedpuri

HOD, Urdu CCS Unevwersity

Meerut- 250004 (UP)

aslamjamshedpuri@gmail.com

Mob.: 9456259850, 8279907070

 

 

 

 

 


 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں