7/6/22

مخدوم کی شاعری میں تصور عشق کی حقیقت - مضمون نگار: اسلم آزاد

 



ترقی پسند تحریک کے حوالے سے اردو کے جن چند شعرا نے اپنی نمایاں شناخت قائم کی ان میں ایک نام مخدوم محی الدین کابھی ہے۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ مخدوم عشق ورومان کے شاعر ہیں اور انقلابی شاعر بھی۔ ان کی شاعری صحت مند رومانیت کی عمدہ مثال کہی جاسکتی ہے۔ گرچہ بعض ناقدین نے مخدوم کی شاعری کوفنی اعتبار سے کوئی آئیڈیل تصور نہیں کیاہے لیکن باوجود اس کے مخدوم کی شاعری آج بھی ہم میں اتنی ہی مقبول ہے جتنی کل تھی۔ آخر اس کی وجہ کیاہوسکتی ہے؟

اس نکتے کی طرف سب سے پہلے عابد علی خاں اور سبط حسن نے اشارہ کیاتھا لیکن وہ صرف اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے کہ:

 ’’بڑے شاعر کا نصب العین بلند ہوتاہے اور طرز اظہار مقبول‘‘

(دیباچہ: بساط رقص، استقبالیہ کمیٹی جشن مخدوم)

لیکن انھوں نے ’نصب العین‘ اور ’طرز اظہار‘ کی وضاحت نہیں کی۔ واقعہ یہ ہے کہ اسی ’نصب العین ‘ اور ’طرز اظہار‘ کی توضیح جب ہم مخدوم کی شاعری میں تلاش کرتے ہیں تو ان کی شاعری کی مقبولیت کا راز بلاچون و چرا واضح ہوجاتاہے۔ مخدوم محی الدین نے اپنا نصب العین یہ تیار کیاکہ ہم اپنی شاعری کے ذریعے وطنیت کے دھارے کو وسیع بنیادوں پر استوار کریں گے۔ اسے مذہب وملت کی بندشوں اور سماجی اونچ نیچ کی پابندیوں سے یکسر آزاد کر کے عوام کارشتہ محنت کش طبقے سے جوڑیں گے لیکن آپ کہیں گے کہ یہ نصب العین تو دیگر ترقی پسند شاعروں کابھی تھا۔ ہاں ضرور تھا لیکن اس نصب العین میں عشق اور رومان کا جو اسلوب انھوں نے اختیار کیا اس نے مخدوم کی شاعری میں جان ڈال دی۔ دیگر شعرا مثلاً فیض اور مجاز نے بھی اس پیرائے کو اختیا رکیا لیکن فیض چند مسافت کے بعد دامن جھٹکنے لگے اور یہاں تک کہہ گئے       ؎

اوربھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

 راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

مجازلکھنوی نے بس دور سے یہ تمنا کی کہ       ؎

ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

توا س آنچل سے اک پرچم بنالیتی تو اچھا تھا

لیکن مخدوم نے اپنی شاعری میں عشق، زندگی کاتصور اورسماجی کشاکش کے شعور کو ہم آمیز کرکے اسے صحت مند سمت عطاکی۔ لہٰذا ان ہی حقائق کے پیش نظر سبط حسن نے ’بساط رقص‘ کے پیش لفظ میں لکھاہے کہ:

’’مجھے اکثر نوجوان شاعروں سے یہ شکایت ہے کہ وہ محبت کے عجیب وغریب معیار قائم کیے ہوئے ہیں۔ ان کے خیال میں اس انقلابی دو رمیں ہمارے لیے مناسب نہیں کہ عورتوں کی محبت کے خیال میں پھنسیں، یہ عمل کاوقت ہے۔ ہاں انقلاب کرنے کے بعد جب فرصت ہوگی تودیکھاجائے گا۔ اس لیے بعض شاعر اپنی محبوبۂ دلنواز کو بڑے پندار اور پدرانہ شفقت سے نصیحت کرتے ہیں کہ تم گھر لوٹ جائو، کیونکہ تم میں مجھ جیسے انقلابی کے پہلو بہ پہلو چلنے کی طاقت نہیں ہے۔‘‘

شاعروں کے ایسے خیالات کو پختگی سے تعبیر نہیں کیاجاسکتا، کیوں کہ اس کائنات کی اشرف المخلوقات میں صرف مرد ہی نہیں بلکہ عورت بھی ہے جنھیں عقل وخرد اور طاقت وہمت سے نوازاگیاہے۔ زندگی کے کسی بھی موڑ پر کسی ایک جزو کو نظر انداز کرکے کوئی معرکہ سر نہیں کیاجاسکتا۔ نہ کوئی لائحہ عمل تیار کیاجاسکتااور نہ ہی ترقی کی منزل پائی جاسکتی ہے۔ تبھی تو مخدوم نے یہ کہا         ؎

حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو

چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

مخدوم نے اپنی شاعری کے بیشتر حصے میں اس حقیقت کالحاظ رکھاہے۔ لیکن انھوں نے جہاں کہیں اس نکتے کو فراموش کیاہے فنی سطح پر ٹھوکر کھائی ہے۔مخدوم کا مزاج بنیادی طو رپر رومان پسند تھا۔ ان کادل عشق اور تصور عشق سے لبریزتھا۔ ان کا عشق ہنگامہ خیز یا برانگیختہ قسم کانہیں تھا بلکہ ان میں ایک منضبط طریقے کی سنجیدگی تھی جو چھن کر ان کی شاعری میں پیوست ہوتی رہی۔ مخدوم نے اس حقیقت کا اعتراف ’گل تر‘ کے مقدمے میں کیاہے:

’’شاعر اپنے دل میں چھپی ہوئی روش اور تاریکی کی آویزش کو اور رومانی کرب و اضطراب کی علامتوں کو اجاگر کرتا ہے اور شعر میں ڈھالتا ہے۔ اس عمل میں تضادات تحلیل ہوکر تسکین وطمانیت کے مرکب میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ شاعر بحیثیت ایک فرد معاشرہ حقیقتوں سے متصادم اور متاثر ہوتاہے۔ پھر وہ دل کی جذباتی دنیا کی خلوتوں میں چلاجاتاہے۔ رومانی کرب واضطراب کی بھٹی میں تپتا ہے۔ شعر کی تخلیق کرتاہے اور داخلی عالم سے نکل کر عالم خارج میں واپس آتا ہے تاکہ نوع انسانی سے قریب ترہوکر ہم کلام ہو۔‘‘

 مخدوم کا مزاج رومان پرور تھا لیکن چھیڑ چھاڑ، تکلیف دہ فقرہ بازی ان کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ ا قبال نے جس طرح’دین و  سیاست کا تصور دیا ٹھیک اسی طرح مخدوم نے’ محبت اور سیاست‘ کا پیغام اپنی شاعری کے ذریعہ عوام تک پہنچایا۔ چنانچہ جب ان کا پہلا مجموعہ کلام’سرخ سویرا‘ 1944میںمنظر عام پر آیا تو اس کا انتساب ہی’محبت اور محنت‘ کے نام کیا۔ اس کی پہلی نظم ’طور‘کا ایک بند ملاحظہ کیجیے          ؎

دلوںمیں ازدحام آرزو لب بند رہتے تھے

نظر سے گفتگو ہوتی تھی دم الفت کابھرتے تھے

نہ ماتھے پرشکن ہوتی نہ جب تیور بدلتے تھے

خدا بھی مسکرادیتاتھا جب ہم پیار کرتے تھے

یہیں کھیتوںمیں پانی کے کنارے یادہے اب بھی

 جس پیار میں ذرہ برابر بھی کھوٹ اور لوچ ہوکیا خدا کے سامنے ایسی جرأت کرسکتاہے اور کیا خودا س کے پیار پراپنی مسکراہٹ بکھیر سکتاہے؟ اس حوالے سے خلیل الرحمن اعظمی نے اپنی کتاب ’اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک‘ میں قاضی عبدالغفار کا یہ فقرہ نقل کیاہے:

’’خدا اس نئی پود کو پروان چڑھائے جو خداکے سامنے پیار کرنے سے نہیں جھجکتی اور جس کا خدابھی اتنا مشفق و مہربان ہے کہ محبت کے اس مظاہرے پرخوش ہوتاہے۔‘‘

مخدوم کی شاعری میں تصور عشق کی حقیقت کا انکشاف ان کے مزاج اور فکری وعملی اور ذاتی زندگی کے مطالعے اور مشاہدے سے کیاجاسکتاہے۔  مخدوم کی ذاتی زندگی کی ناقدین ومحققین نے بڑی حد تک وضاحت کی ہے اور سبھوں نے بالاتفاق رائے دی ہے کہ مخدوم گرچہ رومان پسند مزاج لے کر پیداہوئے تھے لیکن اس رومان پسندی نے اپنے پاس کبھی بھی پھوہڑ پن کوپھٹکنے نہیں دیا۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ مخدوم کا گھرانہ’’ حضرت کا گھر‘‘ کہلاتاتھا جس کا سلسلہ ٔ نسب حضرت خواجہ ابوسعید خدریؓ جو حضور پاکؐ کے ایک صحابی تھے، سے جاملتاہے۔ دینی ماحول میں پرورش پانے کے سبب بچپن سے ہی مزاج میں بزرگانہ ہاؤ بھاؤ پیداہوگیاتھا۔ اورگھر کے بزرگ انھیں ’بابا‘ کی عرفیت سے پکارتے تھے۔ (بحوالہ مخدوم محی الدین حیات اور کارنامے۔ شاذتمکنت) گرچہ بچپن میں ہی مخدوم کے والد کاانتقال ہوگیا۔ ماں نے انھیں بے سہارا چھوڑ کر دوسری شادی کرلی لیکن باوجود اس کے، ان کی طبیعت میں قناعت اور آسودگی دیدنی ہے۔ شاذ تمکنت لکھتے ہیں:

’’وہ (مخدوم) لمحہ نقد کوخوشی کے ٹکسال میں بھنانے کے فن سے واقف تھے۔ وہ زندگی سے آخر تک کبھی شاکی نہیں رہے۔ ان کی نجی پریشانیاں کچھ کم نہ تھیں لیکن وہ ان سے رنجیدہ نہیں تھے بلکہ خوش اس بات پر رہتے تھے کہ خلقی طو رپر انھیں خوش رہنے کی توفیق عطا ہوئی تھی۔‘‘

(مخدوم محی الدین :حیات اور کارنامے، ص23)

’’جمعہ کادن تھا کوئی دن کے ایک بجے گیسٹ ہاؤس کے کمرے میں بستر پرلیٹے لیٹے مجھ سے کہا کھانا کھالینا چاہیے۔ بہت بھوک لگی ہے، یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں بھی ہمراہ تھا۔ جب کمرہ کوتالا لگا چکے تو امتیاز کے بارے میں پوچھا کہ کہاں ہے؟ میں نے کہا وہ جمعہ کی نماز کے لیے مسجد حضرت بل گیاہے وہ آکر کھاناکھالے گا۔ مخدوم نے جیب سے چابی نکالی اور کمرے کا دروازہ کھول دیا۔ میں نے لاکھ کہا کہ وہاں شیخ عبداللہ کا وعظ بھی ہوگا، اس طرح دیر ہوجائے گی، چلیے کھالیں۔مخدوم پھر بستر پر دراز ہوئے اور اپنے مخصوص انداز میں فرمایا کہ عبادت گزاروں کا انتظار بھی عبادت ہے۔‘‘

(مخدوم محی الدین حیات اور کارنامے)

مخدوم کا عشق کسی ایک نکتے پر ساکت نہیں بلکہ حرکی تھا جو کائنات کی حقیقت اور فطرت کا مشاہدہ کرتارہتاتھا۔ وہ مذہب کو مسجد، مندر، گرودوارہ اور گرجا سے ماورا دیکھنے کے قائل تھے۔ دراصل انھیں سچائی، نیکی،انسانیت اور مساوات کی تلاش تھی۔ یہ اوصاف برندایت کے عناصر ترکیبی ہوتے ہیں۔ چنانچہ وہ ہر مذہب کا احترام کرتے تھے۔ وہ اس حقیقت سے واقف تھے کہ اہل وطن جب ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کریں اور ایک دوسرے کی تہذیب سے پیار کریں تب ہی ہرایک کوترقی کے مواقع مل سکتے ہیں۔ یہی ہماری مشترکہ تہذیب کی پہچان ہے اور اس میں ترقی، خوشحالی اور خیرسگالی کاراز پنہاں ہے۔ بقول شاعر            ؎

جس زمیں سے ارتقا کے انبیا پیداہوئے

جس زمیں سے علم وحکمت کے خدا پیداہوئے

رام ولچھمن کی زمیں کرشن کی گوتم کی زمیں

وہ محمدؐ کی زمیں وہ ابن مریم کی زمیں

مخدوم بچپن سے ہی موزوں طبع اور شعر و شاعری کے دلدادہ تھے۔ ان کے بڑے بھائی مولوی محمد نظام الدین کے مطابق ان کی پہلی نظم’بچے‘ ہے جو دستیاب نہیں لیکن بہتوں نے ’پیلا دوشالہ‘ کوان کی پہلی نظم تصور کیا ہے جسے مخدوم نے ہنسی ہنسی میں 1933 میں لکھی تھی۔دائود اشرف نے اس کا سنہ اشاعت 1929 بتایاہے۔

مخدوم چونکہ ابتدا سے ہی رومان پسند مزاج رکھتے تھے اس لیے انھوں نے اپنے عشق کے ساتھ انقلاب اور آزادی کی طرف قدم بڑھایا تو عام سچے شاعر کی طرح جب دیوار دبستان پر لام الف لکھنا شروع کیا تو ان کے بطن سے مفہوم عشق ہی برآمد ہوا۔ مخدوم نے کھیتوںمیں پانی کے کنارے سے محبت کے سبق کی ابتدا کی تھی۔ان کی رومانی نظموں کے حسن و قبح پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے پیش رو دونہایت اہم شاعر جوش ملیح آبادی اور اختر شیرانی سے تحریک حاصل کی۔ جوش سے انقلاب اور اختر شیرانی سے والہانہ پن قبول کیا۔

مخدوم کوئی بہت حسین آدمی نہ تھے لیکن ان میں ایسی دلکشی تھی کہ جو مخدوم سے ملتا ان کاگرویدہ ہوجاتا۔ خاص طو رپر خواتین کا بڑا طبقہ ان کا مداح تھا۔ 1940 کے آس پاس کا واقعہ ہے کہ محبوبیہ گرلز اسکول کی طالبات نے ایک’ مخدوم کا رنر‘ بنارکھاتھا جہاں وہ مخدوم کی نظمیں’طور‘، ’وہ‘، ’چارہ گر‘ اور’ انتظار ‘گاتی   تھیں۔ مخدوم کے مزاج میں بذلہ سنجی اور حاضر جوابی خوب تھی۔ فقرہ ایسا کہ محفل زعفران زار بن جائے۔ یہاں ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا:

وہاب حیدر ایک صحافی اور کارٹونسٹ تھے۔ انھیں مخدوم سے بے حد عقیدت ومحبت تھی۔ جس طرح ’دیوان حافظ‘ سے فال نکالی جاتی رہی ہے اور نام رکھے جاتے رہے ہیں۔اسی طرح وہاب حیدر نے اپنے بچے کے لیے’سرخ سویرا‘ سے فال نکالی اوراس کانام ’حیات نو‘ رکھ دیا۔ سلیمان اریب نے کہا یہ کیا نام ہوا فال دوبارہ دیکھیے۔ مخدوم نے فوراً کہا:’بس بس یہی نام بہتر ہے۔نظموں میں ’ماروکژدم،‘ ’گدھ‘، ’سوسمار‘، ’اخفازیر ’موذی ‘ اور ’عزازیل‘ جیسے خطرناک الفاظ بھی ہیں۔ یہی بذلہ سنجی اور خوش مزاجی جیسی اداؤں پر شاردا نامی طوائف مخدوم پر مرمٹی تھی۔ مخدوم بھی وہاں رقص و سرود سے لطف لینے جایاکرتے تھے لیکن کوئی غیر معقول حرکت احباب نے نہ کبھی دیکھی اور نہ سنی۔ محلہ محبوب کی مہندی میں کوچۂ نشاط تھا جہاں مخدوم نہایت مقبول تھے۔ ایسے میں پطرس بخاری کاوہ فقرہ کہ لڑکی کتنی ہی آوارہ مزاج کیوں نہ ہوپارسائی پر جان دے دیتی ہے‘‘ کوتسلیم کرنے میں ہمیں کوئی تامل نہیں ہوسکتا۔

مخدوم نے اپنی زندگی میں واقعی اگر کسی لڑکی کو ٹوٹ کرچاہا تو وہ بانو نام کی خاتون تھیں۔ مخدوم ان کے یہاں جاتے تو ان کی خوب عزت ہوتی اور مے وجام سے خاطر تواضع کے بعدان کی غزلیں سناتی تھیں اور کہاجاتاہے کہ اگریہ خاتون نہ ہوتیں تو مخدوم غزل کی طرف کبھی نہ آتے۔’ گل تر‘ کی عشقیہ شاعری کے کم وبیش تمام تر حصے کاسہر اانہی کے سرجاتا۔مخدوم کی حیات معاشقہ جس حد تک میرا اندازہ ہے اور جس کے گواہ مخدوم کے قریبی احباب بھی رہے ہیں وہ صرف ’ جمال ہم نشیں‘ کے ذوق سے عبارت ہے۔ اس میں ’وصال ہم نشیں‘ کاکوئی واضح ثبوت نہیں ملتا۔ یقینا انھیں عورتوں کی قربت حاصل تھی۔ مثلاً انھوں نے شکیلہ بانو بھوپالی کی فرمائش پر غزلیں کہیں جو بربنائے دوستی تھیں بنام عشق نہیں۔ جسم ولمس سے زیادہ دید و نظارہ ان کا شیوہ تھا۔ وہ  Beauty is to see but not to touch قائل تھے۔ وہ اوباش نہیں تھے۔ حسن پرست تھے، گریباں چاک نہیں تھے، دل چاک ہے        ؎

دو بدن

اوس میں بھیگتے، چاندی میں نہاتے ہوئے

جیسے دوتازہ رو، تازہ دم پھول پچھلے پہر

ٹھنڈی ٹھنڈی سبک روچمن کی ہوا

صرف ماتم ہوئی...

یہ بتاچارہ گر تیری زنبیل میں

نسخۂ کیمیائے محبت بھی ہے؟

کچھ علاج ومداوائے الفت بھی ہے؟

(چارہ گر)

رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے

سانس کی طرح سے آپ آتے رہے جاتے رہے

پتیاں کھڑکیں تو سمجھا کہ لو آپ آہی گئے

سجدے مسرور کہ مسجود کو ہم پاہی گئے

(انتظار)

ان کامزاج فطرتاً شوخ اور بے باک ہے، لیکن ان کے عہد طفلی کے حالات نے ان سے ان کا بچپن ہی چھین لیاہے اور ان کی زندگی مایوسی اور نامرادی، ناکامی اور ناامیدی کی آماجگاہ بن گئی ہے۔ ان حالات میں حساس طبع انسان اکثر اپنی محدو ددنیا خلق کرلیتاہے اورخارجی کی بجائے داخلی دنیا کو پناہ گاہ بنالیتاہے۔ مخدوم نے بھی ایسا ہی کیاہے۔ انھوں نے رومانی اور عشقیہ طرز اظہار کو اپنی شاعری کا وسیلہ بنالیاہے، لیکن ان کی رومانی اور عشقیہ شاعری میں سطحیت اور لذتیت نہیں ہے۔پاکیزگی، سادگی اور معصومیت ہے، قنوطیت نہیں رجائیت ہے، حزنیت اور غنائیت ہے، Rythmاور موسیقیت ہے اور یہی ان کی شاعری کی ناگزیر شناخت ہے۔

مخدوم کی عاشقانہ شاعری میں جو لہک او رفتح مندی ہے وہاں واسوخت کاتصو ربھی مشکل سے بارپاتا ہے۔ محبوب سے بیزاری کا اظہار اورشکوہ وشکایت کے عنوانات سے مخدوم کی شاعری کاکوئی علاقہ نہیں رہاہے۔ تیکھا اور چبھتا ہوا لہجہ مخدوم کامخصوص رنگ سخن نہیں ہے۔ ’چہرہ ٹوٹا ہوا آئینہ‘ جی تری باتوں سے کیابات ہے گھبرانے لگا‘‘ اور دل کے تہہ خانوں میں بارود کا بچھنا، شاعر کے مزاج کی کھلی تفسیر ہے۔اس کے علاوہ آج کی رات نہ جا، سے لے کر’جز تری آنکھوں کے‘ تک سے شاعر کے اعتماد و فا اور اعتبار محبت کااندازہ کیاجاسکتاہے۔ خلیل الرحمن اعظمی نے بالکل صحیح لکھاہے کہ:

 ’’ وہ انقلاب کاانتظار بھی اسی طرح کرتاہے جیسے کوئی کسی خوش جمال محبوب کا انتظار کرتاہے۔‘‘

دراصل یہی مخدوم کی شاعری کابنیادی اسلوب ہے جس کے سبب عوام و خواص میں اس کی شاعری مقبول رہی ہے اور رہے گی۔

مخدوم محی الدین شاعر مشرق علامہ اقبال سے بھی متاثر رہے ہیں۔اقبال کے سلسلے میں لکھی گئی مخدوم کی دونوں نظمیں اس بات کی شاہد ہیں۔ ان کی انقلابی اور سیاسی شاعری پر اقبال  اور جوش کے اثرات نمایاں ہیں۔ آزادیِ وطن، ’حبشہ پر مسولینی کاحملہ‘ اور’جنگ‘ اس کی مثال ہیں۔

ان نظموںکی بلند آہنگی، گھن گرج اور شعلہ افشانی جوش کی یاد دلاتی ہے۔ مخدوم نے ذہنی اور فکری سطح پر اقبال کے اثرات قبول کیے ہیں۔ لیکن ان کا انداز فکر و نظر بالکل مختلف ہے۔ بلکہ ان کی شاعری میں اقبال کی شاعری کی توسیع کا احساس ہوتا ہے۔ یہ نکتہ ہمارے پیش نظررہنا چاہیے کہ اقبال کے یہاں اشتراکیت کا صرف عکس ملتاہے جب کہ مخدوم نظریاتی طو رپر بالکل اشتراکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں جابہ جا شعلگی کی آنچ بے حد تیز ہوجاتی ہے۔ ’مشرق‘، آزادی وطن، جہان نو، اور ’موت کا گیت‘ میں وہ صرف ایک اشتراکی شاعر نظر آتے ہیں۔ یہی اشتراکی شدت ان کے فن شاعری کو مجروح کردیتی ہے۔ ان نظموں میں جذباتیت ہی نہیں سطحیت بھی ہے۔ وقتی طورپر ان کی نظمیں متاثر کرتی ہیں لیکن یہ مخدوم کی شاعری کا اختصاص نہیں۔

لطف الرحمان اس سلسلے میں رقم طرا زہیں:

’’فیض اور مخدوم دونوں ہی درمیانی لب ولہجے کے شاعر ہیں جنہوں نے اقبال کی روایات فکر وفن کو نئی سمت وجہت دی ہے اور ترقی پسند شعری روایت کو اعتبار و احترام سے ہم کنار کیاہے۔ بحیثیت مجموعی اقبال کے بعد فیض اردو کے سب سے ممتاز شاعر ہیں۔ ترقی پسند بڑی روایت میں فیض کے بعد مخدوم ہی کو امتیاز و انفرادیت حاصل ہے۔‘‘

( تعبیر وتقدیر: لطف الرحمان، ص61)

ترقی پسندہونے کے باوجود مخدوم روایات اور اقدار سے یکسر بغاوت نہیں کرتے بلکہ ان کے یہاں روایت اور جدت کا امتزاج اور کلاسیکی لوازمات اور نئے میلانات کا دوآتشہ ملتاہے۔ ان کی شاعری میں جمال اور جلال و رومان و انقلاب کا آمیزہ تو ملتاہے لیکن ان کا لب ولہجہ بلند بانگ ہوتاتو ہے لیکن ان کے آہنگ و انداز میں حلاوت بھی ہوتی ہے اور دھیما پن بھی۔ رومان سے انقلاب تک کا سفر انھوں نے ایک جست میں طے نہیں کیا۔ ان کے یہاں داخلی اور خارجی عناصر بھی ملتے ہیں اوران کا امتزاج بھی۔ترقی پسند نظریات اور تصورات کے باوجود وہ روایت کے پاسدار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہم عصر ترقی پسند شعرا مثلاً فیض احمد فیض، مجاز لکھنوی، سردار جعفری اور پرویزشاہدی سے مختلف ہیں۔

پھر تڑپنے لگا دل مضطر   

پھر بدلنے لگا ہے دیدۂ تر

یاد آئیں  وہ چاندنی راتیں

 وہ ہنسی چھیڑ، دل لگی باتیں

تیرے دیوانے تری چشم ونظر سے پہلے

 وار سے گزرے تری راہ گزر سے پہلے

سناتی پھرتی ہیں آنکھیں کہانیاں کیاکیا

اب ا ور کیا کہیں کس کس کو سوگوار کریں

چاند اترا کہ اتر آئے ستارے دل میں

 خواب میں ہونٹوں پہ آیا تیر انام آہستہ

مخدوم نے کبھی بھی دل پر دماغ کو حاوی نہیں ہونے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا محبوب کوئی تخیلی اور تصوراتی نہیں بلکہ ان کے گرد وپیش کاانسان ہے جو ان کی زندگی کابھی حصہ ہے اور شاعری کابھی۔


 

Prof. Aslam Azaad

Emeritus Fellow

2, Professor's Bungalow

Patna-800006

M. 09431063199

 




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو کے تین جگر، مضمون نگار: مختار ٹونکی

  اردو دنیا، دسمبر 2024 راقم التحریر کے زیرمطالعہ جگر تخلص والے تین نامور شعرا رہے ہیں اور تینوں ہی اپنی فکر رسا اور طرز ادا کے اعتبار سے من...