14/12/22

صحرائے جمالیات کا تنہا قیس شکیل الرحمن: انظر نبی ڈار



شکیل الرحمن کا نام اردو تنقید میں ایک کو کب درخشاں کی مانند ہے، جس کی تابانی و لمعانی نے اردو تنقید کے جمالیاتی افق کو منور و مجلیٰ کیا۔ جمالیات کی حکیمانہ اور فلسفیانہ وادی میں قدم رکھنا ہر گز آسان نہیںیہاں قدم قدم پر آبلہ پائی کا خطرہ ہے۔ شکیل الرحمٰن نے شکستہ پائی کی پروا کیے بغیر شاہراہ جمالیات پر قدم رکھا اور اس شاہراہ پر جمالیات کے نشان فرسخ کو قائم کیا۔ اردو میں جمالیاتی تنقید کا ایک مستحکم استعارہ شکیل الرحمن ہیں۔انھوں نے اپنی تنقیدی دراکی کی بدولت جمالیاتی تنقید میں وہ انفراد و امتیاز حاصل کیا کہ ’بابائے جمالیات‘کے نام سے معروف ہوئے۔اردو ادب میں شکیل الرحمٰن سے قبل جمالیاتی تنقید کی محدود صورتیں نظر آتی ہیں جہاں لفظوں کی نزاکت،معنی کی ندرت، صنائع بدائع کی آمیختہ گری اور تشبیہات و استعارات کی جلوہ گری کو ہی جمالیات کے زمرے میں شامل کیا جاتا رہا لیکن شکیل الرحمٰن نے اپنی باریک بیں اور نکتہ داں طبیعت سے جمالیات کی نئی اور انوکھی جہات کو متعارف کرایا۔ شکیل الرحمن کا تنقیدی مطاف خاصا کشادہ ہے جس میں جنسیات و نفسیات کی پر پیچ لکیریں، علم الاصنام یا علم الاساطیر کی رومان پرور کائنات، ہندوستان کی جمالیات کے دلآویز مرقعے،بدھ جمالیات سے جمالیات غالب کا وقوف، تصوف کی جمالیات اور دیگر کئی ایسے درمکنون موجود ہیں جو قاری کے قلب و نظر کو مسحور اور مبہوت کر دیتے ہیں۔ ان کی تنقیدی نگارشات کو پڑھنے کے بعد یہ شفاف تاثر قائم ہوتا ہے کہ انھوں نے ہر لفظ کو اپنا خون جگر دیا ہے اور اپنے عمیق مطالعے سے جمالیاتی تنقید کے دبستان کو مزین و مملو کیا ہے۔

شکیل الرحمٰن کا محبوب موضوع جمالیات ہے۔ اس موضوع پر انھوں نے اپنی ذہانت اور مہارت کا ثبوت دے کر گراں مایہ تصانیف چھوڑی ہیں، جن میں امیر خسرو، نظیر اکبر آبادی، مرزا غالب، اقبال، فیض، فراق، پریم چند اور منٹو کے جمالیاتی نکات انفراد و امتیاز کو سامنے لانے کی مستحکم کوشش کی ہے۔ شکیل الرحمٰن کی تنقیدی کائنات میں متنوع رنگوں کی جلوہ گری موجود ہے۔ ان رنگوں سے تشکیل پذیر خاکوں کا عرفان و اذعان حاصل کرنے کے لیے لازم ہے کہ قاری جمالیات کی مبادیات سے واقف ہو اور اُس سے حسن و جمال کا معنوی ادراک ہو۔ جمالیات کے ساتھ شکیل الرحمن کی ذہنی اور قلبی وابستگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اپنی تاریخ پیدائش کے ایک سوال سے متعلق یہ جواب مرحمت فرمایا کہ

 ’’میں کب پیدا ہوا؟ میں تو کبھی پیدا ہی نہیں ہوا بھائی i was never born اور میں کبھی مروں گا ہی نہیںAnd i will never die میں تو اس دنیا کے جلال و جمال کو دیکھنے آیا تھا چلا جائوں گا‘‘

)انشاء،کلکتہشکیل الرحمن نمبر،2010،ص8)

شکیل الرحمن نے اپنی عمر عزیز کا بیش تر حصہ جمالیاتی تفہیم میں صرف کیا اور جمالیات ان کے قلب و جگر میں یوں سرایت کر گیا کہ پھر جس طرف بھی نگاہ کی حسن و جمال سے بھر پورکائنات نظر آئی۔شکیل الرحمٰن کی تنقیدی بصیرت کا اعتراف اس طرح نہیں کیا گیا جس کے وہ حقدار تھے۔ ان کی بصیرت افروز تنقیدی نگارشات کی جانب کم توجہ منعطف کی گئی لیکن جن ناقدین نے شکیل الرحمن کے تنقیدی قلزم میں غوطہ زن ہونے کی جرأت مندانہ کوشش کی انھیں اس کی تہہ میں ادبی تفہیم کے قیمتی موتی ہاتھ آئے۔ اردو ادب کے بالیدہ نقاد حقانی القاسمی نے شکیل الرحمن کے تنقیدی اختصاص کو ان لفظوں میں خراج نیاز پیش کیا ہے وہ لکھتے ہیں

’’ویسے بھی اردو میں جمالیات کی حیثیت ایک وادی غیرذی ذرع کی سی تھی شکیل الرحمن نے اسے ایک سرسبز اور شاداب خطے میں تبدیل کردیا۔ اردو میں جمالیات کو جو جدت، وسعت،تازگی اور تحرک نصیب ہے وہ فیض ہے شکیل الرحمٰن کی ریاضت کاوہ جمالیات کے بحر بیکراں میں قدم نہ رکھتے تو بہتوں کو اس کی اوپری سطح کا بھی پتہ نہ چلتا...دشت جمالیات کے وہ تنہا قیس ہیں اور اس کوہ کے اکیلے فرہاد۔‘‘

(حقانی القاسمی،شکیل الرحمن کا جمالیاتی وجدان،کراچیزین پبلی کیشنز، 2011،ص29)

نقد شکیل کا ایک امتیازی وصف یہ ہے کہ ان کے یہاں تنقید اور تخلیق میں وصل اور وحدت کی آمیختہ گری نظر آتی ہے۔جس کے نتیجے میں ان کی تنقید کو تخلیقی تنقید سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تنقیدی فکر میں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ تنقید کو بھی فکشن کی طرح ساحرانہ کیفیات کا حامل ہونا چاہیے، جس کو پڑھتے ہوئے قاری کے ذہن پر فن کی طرح انوکھے قسم کے تاثر کاارتسام ہو۔ تنقید کو بھی جمالیاتی اہتزاز کا موجب ہونا چاہیے۔ ان کے تنقیدی اظہار میں جذب اور ادغام کی ایسی آمیزش ہے کہ ان کی تنقید پر بھی تخلیق کا گماں ہونے لگتا ہے۔چنانچہ وہ خود لکھتے ہیں ’’میں تخلیقی تنقید کو ’دیپک راگ‘ تصور کرتا ہوں۔’وہ دیپک راگ‘ کہ جس سے قاری کے دل و دماغ میں چراغاں کی سی کیفیت پیدا ہوجائے۔‘‘

(محمد صدیق نقوی،ترتیب و تہذیب،شکیل الرحمٰن اور مولانا رومی کی جمالیات، ادونی(اے پی)انڈیا صفدر پبلی کیشنز،2003،ص113)

شکیل الرحمن کے اسی امتیاز کا تذکرہ کرتے ہوئے کوثر مظہری رقمطراز ہیں:

’’شکیل الرحمن کی تنقیدی و تخلیقی قوت کے نمونے کم نہیں جن لوگوں نے انھیں پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ ان کی تحریروں میں ایک خاص طرح کی دلکشی اور جاذبیت ملتی ہے۔ نثر میں جو بہائو اور ایک طرح کی تخلیقیت ہے اس کے سبب ان کی تحریروں میں اکتاہٹ کے بجائے Readability  پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اوڑھی ہوئی نظریاتی تنقید سے الگ رہتے ہوئے انھوں نے ہمیشہ احساس کی آنکھوں سے فن پاروں کو پڑھا اور تجزیاتی و جمالیاتی نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘

(کوثر مظہری،ترتیب ومقدمہ،منٹو شناسی اور شکیل الرحمن،گڑگائوں: انجمن پبلی کیشنز،2008،ص7)

 شکیل الرحمٰن کا تنقیدی وصف انھیں اردو ادب کے جید ناقدین کی صف میںکھڑا کرتا ہے۔ انھوں نے اپنی تخلیقی تنقید کے اجتہادی طریقہ کارسے تنقید کے منفرد قرینے کی اختراع وابتدا کی۔شکیل الرحمٰن کے تنقیدی شعور سے مذہب،تاریخ، نفسیات، اساطیر، فنونِ لطیفہ اور فلسفے کا غیر مبہم تاثر ملتا ہے۔انھوں نے ہندوستان کے مختلف مذاہب اور تہذیب و ثقافت کا بڑی گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ ان تمام عناصر کا نمایاں اثر شکیل الرحمن کے تنقیدی وجود سے چھلکتا ہے۔ شکیل الرحمٰن نے قرآن مجید جمالیات کا سرچشمہ(مقدمہ) لکھ کر قرآن کو جمالیات کا منبع مانا ہے۔اس مقدمے کو پڑھ کر شکیل الرحمٰن کے محض تنقیدی اعماق کا اندازہ نہیں ہوتا بلکہ عارفانہ تنقید کے اکسیر نمونے سامنے آتے ہیں۔ قرآن مجید کے بحر ذخار میں جمالیاتی اسرار و غوامض کی تلاش آسان نہیںیہ کام کسی غبی اور کند ذہن کا نہیںاس کے لیے شکیل الرحمن جیسے پیرجمالیات کا ہونا ضروری ہے۔ ان کے نزدیک قرآن کائنات کے ہر ذرے میں پوشدہ توازن و اعتدال پر تدبروتفکر کی دعوت دیتا ہے، کائنات میں موجود اشیا کے اندر جمال وجلال کی جلوہ سامانیوںکا ادراک بخشاہے۔ انھوں نے اپنے مقدمے کا آغاز ہی ان لفظوں سے کیا ہے کہ :

’’قرآن حکیم جمالیات کا بھی ایک عظیم تر سرچشمہ ہے ! اللہ نور کائنات ہے۔ جلال و جمال کی اس کائنات کا خالق!قرآن نے اللہ کو نور کائنات بتایا ہے۔‘‘

(شکیل الرحمٰن،قرآن حکیم جمالیات کا سرچشمہ(مقدمہ)،گڈگائوں (ہریانہ)عرفی پبلی کیشنز،2000،ص5)

شکیل الرحمن نے اپنی بات کو مستحکم اور معتبر بنانے کے لیے قرآن حکیم سے اخذ و استفادہ کیا ہے انھوں نے قرآن حکیم سے یہ استدلال کیا ہے کہ اللہ نور کائنات ہے اور دنیا کی ہر شے اسی نور کی اثر پذیری سے حسین و جمیل ہیں۔ و ہ قرآن مقدس کی اس آیت کو بطور برہان پیش کرتے ہیں’’اللہ آسمانوں ور زمین کانور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ ہے اور چراغ ایک قندیل میں ہے اور قندیل ایسی صاف شفاف کہ گویا موتی کا سا چمکتا ہوا تارا ہے۔‘‘

(قرآن کریم،سورہ النور،آیت نمبر35)

شکیل الرحمن کائنات کی اشیا میں حسن کی بوقلمونی کے اس لیے قائل ہیں کہ ان میں حسن مطلق یا حسن حقیقی کا پرتو موجود ہے، اس اعتبار سے حسن کائنات کی علت حسن الوہی ہے۔ شکیل الرحمن کی عمیق نظر میں اس عالم طبیعی کی ہر چیز حسن و جاذبیت کا پیکر ہے اور اس کائنات کی ہر شے حسین و نظر افروز ہے۔

شکیل الرحمن نے اپنے تنقیدی وجدان کی بنیاد پر مولانا رومی جیسے نابغہ دوراںاور کہنہ مشق شاعر کو جمالیاتی انتقادپر پرکھنے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے کلام رومی کا مطالعہ جس دروں بینی اور عمیق نگاہی سے کیا ہے، یوں لگتا ہے کہ شکیل الرحمٰن کسی سالک کی طرح رومی کے کلام میں موجود اسرار ورموز کی پرسکوت لہروں کو محسوس کررہے ہیں اور ان لہروں کو اپنے وجود میں جذب کر کے جمالیاتی انبساط و اہتزاز حاصل کر رہے ہیں۔ انھوںنے رومی کے تخلیقی شہ پارے یعنی ’مثنوی مولوی معنوی ہست قرآن درزبان پہلوی، کے مصداق کلام میں عشق کے متنوع تجربات کو نمایاں کیاہے۔شکیل الرحمٰن کے نزدیک عشق کلام رومی کا بنیادی جوہر ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’مولانا رومی کے نزدیک عشق زندگی کا سرچشمہ ہے، یہ عشق ہی کا سفر ہے جو جاری ہے۔ اس طرح عشق ایک کائناتی اصول بن جاتا ہے کہ جس سے زندگی کی ابتدا ہوتی ہے زندگی کی وحدت ہو یا کائنات کے جلال و جمال کی وحدت اس کا شعور صرف عشق سے حاصل ہوتا ہے۔ کائنات میں جمالیاتی وحدت ہی مختلف جلوئوں میں جلوہ گر ہوتی ہے۔‘‘

(محمد صدیق نقوی،ترتیب و تہذیب،شکیل الرحمن اور مولانا رومی کی جمالیات،ادونی(اے پی)انڈیا صفدر پبلی کیشنز،2003،ص107)

 ’رومی کی جمالیات‘ شکیل الرحمن کی اردو زبان میں ایک اضافے کا درجہ رکھتی ہے اس کتاب میں شکیل الرحمٰن نے مولانا رومی کے دروں تک رسائی حاصل کی ہے انھوں نے مولانا رومی کی شاعری میں نہفتہ جمالیات کی پرت در پرت خوبیوں کو منور کیا ہے۔

شکیل الرحمن نے اردو ادب کے نامور اور قدآور فکشن نویس پریم چند کو بھی مدارتنقید بنایا ہے۔ پریم چند کی شخصیت اور ان کی تخلیقات کو کئی ناقدین نے تختہ مشق بناکر اپنے تنقیدی موقف کو پیش کیا ہے۔ یہ نقد شکیل کا اختصاص ہے کہ انھوں نے پریم چند کی تخلیقی کائنات کا مطالعہ کرنے کے بعد’ فکشن کے فنکار پریم چند‘لکھ کر اپنا منفرد تنقیدی نقطۂ نظر سامنے رکھا ہے۔ شکیل الرحمن کا پریم چند سے متعلق تنقیدی موقف یہ ہے کہ وہ بڑے افسانہ نگار تو ہیں بڑے ناول نگار نہیں، اسی تنقیدی موقف کو بنیاد بنا کر انھوں نے جس انداز سے پریم چند کے ناولوں کا تجزیہ کیا ہے اور فنی سقم کو واضح کیا ہے وہ نہایت حوصلہ مند انہ فعل ہے انھوں نے پریم چند کے ناولوں کا جس خاص زاویے سے مطالعہ کیا ہے وہ پریم چند کے ان ناقدین سے متعارض ہے جنھوں نے فقط ان کے ناولوں میں مقصدی نقطۂ نظر اور اصلاحی پہلو کو مطمح نظر بنا کر اظہار نقد کیا ہے۔ ’بازار حسن‘ کا مطالعہ کرتے وقت اکثر ناقدین نے سیاسی زندگی کا تجزیہ کیا ہے لیکن شکیل الرحمن کی تنقید ی حِس نے سمن کے نفسیاتی زیر وبم کو محسوس کیا ہے اور سمن کی بے قراری، خودداری، خودنمائی،خودبینی،عمل اور ردعمل کی آمیزش کو ہی ناول کا حسن قرار دیا ہے۔ شکیل الرحمٰن نے اپنی تنقیدی بصیرت سے پریم چند کے فکشن میں تیسرے آدمی کے کردار کو غیر معمولی اہمیت دی ہے۔ پریم چند کی کہانیوں میں تیسرے آدمی کی موجودگی سے جو اتار چڑھائو اور تصادم کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اس سے کہانی میں المیہ کے عناصر رونما ہوتے ہیں۔نقد شکیل کے تناظر میں یہی المیہ کے عناصر وعوامل قاری کو جمالیاتی آسودگی فراہم کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ خود رقمطراز ہیں:

’’شہر اور گائوں کی روز انہ زندگی میں ’تیسرے آدمی‘ سے اکثر ملاقات ہوتی رہتی ہے، یہ کارخانوں میں بھی ہے اور کھلیانوں میںبھی،سیاسی زندگی میں بھی تیسرا آدمی اپنا خاص مقام رکھتا ہے ...ہم اسے ہیروسمجھنا نہیں چاہتے۔ اس لیے بھی کہ ہیرو کے روایتی تصور کو ابھی تک عزیز رکھے ہوئے ہیں۔یہ ایک بڑی سچائی ہے کہ فکشن کا اصل ہیرو یہی ہوتا ہے۔‘‘

(شیخ عقیل احمد،مرتب،فکشن کے فن کارپریم چند اورشکیل الرحمن،نئی دہلینرالی پبلی کیشنز،2009،ص37-38)

شکیل الرحمن نے ادبی دنیا کے بے باک اور حساس تخلیق کار سعادت حسن منٹو کی جمالیاتی حِسیت کو اجاگر کیا ہے۔ منٹو کی تخلیقی دنیا کو جن ناقدین ادب نے اپنی تنقیدی بصیرت کانقطۂ ارتکاز بنایا ہے اور منٹو کی شخصیت کا پرسونا (Persona) پیش کیا ہے اُس میں منٹو کی شناخت جنس پرست،فحش نگار اور عریاںنگار کے بطور سامنے آتی ہے جس کے باعث منٹو کی حقیقی بصیرتوں اور فن کی حقیقی گہرایوں کا ادراک نہیں ہوسکا۔ شکیل الرحمن کی تنقیدی ذہانت قابل داد ہے کہ انھوں نے منٹو کی پیچیدہ اور پُراسرار شخصیت کی تفہیم نو کر کے منٹو شناسی کی جانب ایک کامیاب قدم بڑھایا ہے انھوں نے منٹو کی تخلیقی سائیکی کے دروں میں داخل ہو کر ان کے تخلیقی برتائو میں مستورجمالیاتی ابعاد کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔شکیل الرحمٰن کے نزدیک دنیا کی عظیم تخلیقی نگارشات معنی و مفہوم کی تہہ داری سے مملوہوتی ہیں جن کے مطالعے سے ہر دور میںمفاہیم کی انوکھی پرتیں کھلتی ہیں اور نئے جمالیاتی انکشافات  ہوتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو کی افسانہ نگاری میں بھی معنی و مفاہیم کا ایک انوکھا جہاں آباد ہے جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ اردو کے نامور ناقدین نے منٹو کی تخلیقیت کا تجزیہ کیا ہے اور اپنا تنقیدی زاویہ سامنے رکھا ہے۔شکیل الرحمٰن نے منٹو کے خامہ زر نگار سے نکلنے والے افسانوں کی از سر نو قرأت کی ہے اور جمالیاتی قضا یا کوطشت از بام کیا ہے انھوں نے منٹو کی کہانیوں میں موجود ٹریجڈی کے عناصر کی طرف اشارہ کرکے منٹو کو ٹریجڈی اور اس کی جمالیات کا عظیم تخلیقی فنکار مانا ہے۔منٹو کے افسانوں میں موجود ٹریجڈی کے اثرات سے قاری کے دل و دماغ میں ہلچل پیدا ہوتی ہے۔ احساس اور جذبے کو تحریک ملتی ہے جس کی بدولت قاری کو آہستہ آہستہ سکون ملتا ہے اور اس سے جمالیاتی انبساط و اہتزاز حاصل ہوتا ہے۔شکیل الرحمٰن نے منٹوکے باطن میںداخل ہو کر یہ راز منکشف کیا ہے کہ ’’میرا مطالعہ یہ ہے کہ ٹریجڈی منٹو کی تخلیقات کی روح ہے لہٰذا ٹریجڈی کی جمالیات ہی کے ذریعے منٹو کی بہتر دریافت ہوسکتی ہے۔‘‘

(کبیر مموریل لیکچر جواہر لال نہرو یونی ورسٹی،نئی دہلی،21 فروری، 2008،ص22)

شکیل الرحمٰن نے منٹو کی جن کہانیوں میں ٹریجڈی اور اس کی جمالیاتی خوبیوں کو نمایاں کیا ہے،  ان میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، سرمہ،ہتک، موذیل، ٹھنڈا گوشت، بابو گوپی ناتھ،خوشیا وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

شکیل الرحمن کے تنقیدی مزاج میں تدبر، تفکر، تحیر اور تعمق کی خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ان ہی تخصیصی جہات کی بنا پر وہ جمالیاتی تنقید کے نقیب مانے جاتے ہیں۔ ان کے تخلیقی چمن میںخوشبودار اور متنوع پھول موجود ہیں، جن کی مہک سے قاری کے مشام جاں میں انوکھے قسم کی پاکیزی کا احساس ہوتا ہے۔ ان کی تنقیدی نگارشات سے یہ ہویدا ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے گہرے مطالعے، دماغی زہد اور طبعی ریاض کی بدولت اردو میں ’بابائے جمالیات‘ کے لقب سے ملقب ہونے کا افتخار پایاہے۔ ان کی تنقیدی کاوشیں قاری کی بصیرت و بصارت میں اضافہ کرتی ہیں۔جمالیاتی ذوق کو بالیدگی بخشتی ہیں۔جمالیاتی تفہیم کے نئے دریچے واکرتی ہیں۔ اردو میں جمالیات اور شکیل الرحمن دونوں لازم و ملزوم ہوچکے ہیں۔ایک کا تذکرہ دوسرے کے ذکر کے بغیر تشنہ رہ جاتا ہے۔ نقد شکیل کی عظمت وسطوت پر یہ تجزیہ منطبق آتا ہے کہ ’’پروفیسر شکیل الرحمن کی کتابیں پڑھنے کے بعد جو تاثر میرے باطن پر ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ شخص ناظر جمالیات نہیں بلکہ باصرجمالیات ہے، حدرسائی اور حدنظر تک جہاں بھی جمال ہے وہاں پروفیسر شکیل الرحمٰن کی چشم باصر پہنچ جاتی ہے اور جمال کے باطن میںاتر جاتی ہے‘‘۔

(محمد صدیق نقوی،ترتیب و تہذیب،شکیل الرحمن اور مولانا رومی کی جمالیات،ادونی(اے پی)انڈیا صفدر پبلی کیشنز،2003،ص54)


Anzar Nabi Dar

Research Scholar, Dept of Urdu

Central University of Kashmir

Kashmir- 19120 (J & K)

Mob.: 9906820951

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں