13/12/22

بر صغیر ہندکی اولین خانقاہ اور اس کے کتبہ کی تاریخی اہمیت:محمد مظفور الحق




 اسلامی ہند کی سلطنت عہد کے مشہور وقائع نگاراور مورخ منہاج الدین سراج، جس نے سلطان ناصر الدین محمود (1206/1198 تا  1246)کے دربار سے وابستہ ہونے کے باعث اپنی تصنیف ’طبقات ناصری‘ کو اسی بادشاہ کے نام سے منسوب کیا ہے، ’اولین فاتح‘ بنگال اختیار الدین محمد بن بختیار خلجی (فتح بنگال اغلب 1204)  کے حالات میں یہ بھی لکھا ہے کہ نگر دیپ (ندیا) کو فتح اور لکھنوتی کو پایۂ تخت قرار دینے کے بعد اس کی او ر اس کے امرا کی قابل ستائش کوششوں سے مفتوحہ ملک کے اطراف و جوانب میں مسجدوں، مدرسوں اور خانقاہوں کا قیام عمل میں آیا۔1

افسوس ہے کہ ان مسلم تعمیرات خصوصاً خانقاہوں کے تاریخی آثار اب محفوظ نہیں ہیںکہ ان کی ہیئت ترکیبی کا مطالعہ کیا جا سکے مگر اپنے زمانے کے مسلم معاشرے پر ان کے اثرات اور اس کے ایک طبقے یعنی صوفیا کی اقامتی اور عبادتی ضروریات کا ان کے ذریعے پورا ہونے کا مورخین کو آج بھی اعتراف ہے۔ 2

آئندہ سطور میں ’سیان(بولپور)‘ میں حال ہی میں دریافت ہونے والی ہندوستان کی ایک ایسی ہی خانقاہ کے کتبے کی عبارت اور اس کے تاریخی مضمرات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی جسے خیر سے بر صغیر کی اولین خانقاہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہو رہا ہے۔

1206 عیسوی کے اوائل میں بختیار خلجی کی وفات کے بعد اس کے امرا  میں حصول اقتدار کی کش مکش شروع ہوئی جو علی مردان خلجی،محمد شیران خلجی اور حسام الدین عوض خلجی سے ہوتی ہوئی دوبارہ علی مردان خلجی تک پہنچی جو سلطان علاء الدین کے لقب سے تخت نشین ہوا مگر اپنی بے اعتدالیوں کے باعث جلد ہی اپنے امرا کے ہاتھوں قتل ہوکر حسام الدین عوض خلجی کے سلطان غیاث الدین عوض خلجی  (610 ھ تا  624 ھ مطابق 1213تا 1227) کے لقب سے سریر آرائے سلطنت ہونے کا باعث بنا۔3

سلطان غیاث الدین عوض خلجی ایک عقل مند اور با تدبیر بادشاہ تھا۔ اس نے سلطنت کی بقا و استحکام کے لیے بہت سی تدابیر اختیار کیں۔علما،سادات اور مشائخ کے لیے انعام و وظیفے جاری کیے۔بنگال کے دریاؤں سے گھرا ہونے کے باعث بحریہ کو منظم کیا اور اسے سیلابوں سے بچانے کے لیے دریاؤں پر پشتے بنوائے۔ 4

منہاج سراج کے بیان کے مطابق عوض خلجی نے اپنی سلطنت کوانتظامیہ کی سہولت کی خاطردو صوبوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ دریائے گنگا کے جنوب میں رال پارادھا صوبہ تھااور شمال میں بارند یا ورندراصوبہ۔ دونوں صوبے عوض کی بنوائی ہوئی شاہراہوں کے ذریعے دارالخلافہ لکھنوتی سے جڑے ہوئے تھے۔ صوبوں کی یہ تقسیم علاقوں کو طغیانی کے سالانہ معمول سے بچانے اور عوام و فوج کو نقل و حمل کی سہولیات بہم پہنچانے کے لیے تھیں۔ 5

سلطنت کے سیاسی و معاشی استحکام کے باعث بیرونی ممالک سے بھی مسلمانوں نے بنگال میں آکر بسنا اوریہاں کی سماجی زندگی میں حصہ لینا شروع کیاجیسا کہ آگے کے حالات سے معلوم ہوگا۔

دریائے گنگا کے جنوب میں واقع رال پا رادھا صوبہ عوض خلجی کے لڑکے علی شیر کے زیرانتظام تھا۔اسی صوبے اور موجودہ ہندوستان کے صوبۂ مغربی بنگال کے ضلع بیر بھوم کی بولپور کوتوالی کے ایک گاؤں ’سیان‘ میں حال ہی میں وہ خانقاہ اور اس کا کتبہ دریافت ہوا ہے جس کی زبردست تاریخی اہمیت ہمارا موضوع بیان ہے۔ دریافت شدہ کتبے کے مطابق یہ خانقاہ موجودہ ایران کے عین شمال میں واقع آذر بائیجان کے ایک قصبہ مراغا کے باشندہ ’محمد‘ کے گنہ گار صوفی منش (فقیر الخاطی) لڑکے نے تعمیر کرائی اور اس کی کفالت کے لیے جائداد بھی وقف کی۔محمد المراغی کا یہ لڑکا شاید تاجریا سلطنت کے صاحب حیثیت امرا میں تھا۔ افسوس ہے کہ کتبے کی شکستگی اور کچھ حصے ضائع ہونے کے سبب اس کا نام محفوظ نہیں رہ سکا ہے اور اس کا تذکرہ صرف ابن محمد المراغی(یعنی المراغی کے لڑکے) کے طور پر ملتا ہے۔6

یہ کتبہ ایک اسکول ٹیچر اور قدیمی نوادرات کے شائق بابو سدھیشور مکھو پادھیائے کی کوششوں سے’سیان‘ میں ایک غیر معروف بزرگ مخدوم شاہ کی درگاہ میں ملا ہے اور اس کی خواندگی و ترتیب کا سہرا ماہر کتبات  اور مورخ ڈاکٹر ضیاء الدین احمد ڈیسائی کے سر ہے جنھوں نے اپنی گرافیا انڈیکا (عربک۔پرشین سپلیمنٹ) کے مجلہ مجریہ (1975)میں اس پرایک محققانہ مضمون لکھ کر دنیاکو اس سے روشناس کرایا۔ 7

وہ سنگی تختی جس پر یہ کتبہ کندہ ہے شکستہ حالت میں ہے۔اس کی شکستگی کی وجہ تو معلوم نہیں مگر اس کی وجہ سے یہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے اور ایک حصے میں اوپر دائیں طرف سے بائیں طرف تک ایک ترچھا بال آگیا ہے اور کچھ حصے ضائع ہو گئے ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تختی کتبہ در اصل ایک ہندو عمارت سے وابستہ تھی اور اس کے دوسری طرف ایک سنسکرت عبارت کندہ ہے جس کا تعلق بنگال کے پال راجانیا پال (اغلباً 1035تا1050) کے عہد سے ہے اور جس پر قدیم تاریخ ہند اور ثقافت کے ایک مشہور محقق پروفیسر ڈی۔سی۔سرکار نے بنگلہ دیش کی تیسری تاریخی کانگریس منعقدہ 1973بہ مقام ڈھاکہ اپنا مضمون پیش کیا تھا۔ 8

کتبے کی زبان عربی ہے اور خوش خط طغریٰ میں بخط نسخ پتھر پر کھدی ہوئی ہے۔ہر چند کہ اس میں بر صغیر ہند کے مشرقی حصے میں بعد کے لکھے جانے والے طغرائی انداز کی دل کشی اور آرائشی اوصاف نہیں ہیں مگر بحیثیت  مجموعی یہ اپنی موجودہ شکستہ حالت میں بھی کافی اچھی ہے۔ 9

 کتبے پر ڈاکٹر ڈیسائی کے مضمون کے علاوہ،اینول رپورٹ ان انڈین ایپی گرافی نمبر ۱  مجریہ (1972 اور 1973)، انڈین آرکیالوجی (1972 اور1973)اے ریویومجریہ 1978نئی دہلی،کارپس آف دی عربک اینڈ پرشین انسکرپشن آف بنگال از پروفیسر عبدالکریم اور ’بنگال میں مسلم حکمرانی کا ابتدائی عہد‘ از پروفیسر سکھ مایا مکھو پادھیائے آف شانتی نکیتن یونیورسٹی (بنگلہ)میں بھی تعارفی مضامین شامل ہیں۔

یہ کتبہ چھے سطروں پر مشتمل ہے۔پہلی دو سطریں اور تیسری سطر کے کچھ الفاظ قرآن شریف کی چوبیسویں سورۃ سورۂ نورکی 36ویں اور 37 ویںآیتوں پر مشتمل ہیں۔ تیسری سطر کے بقیہ الفاظ ایک مختصر حدیث شریف پر مشتمل ہیں۔ چوتھی اور پانچویں سطر کے آدھے حصے میں اس خانقاہ کا ’اہل صفہ‘ کے لیے وقف ہونے کا ذکر ہے۔ پانچویں سطر کا بقیہ حصہ اور چھٹی سطر اس حکمراں کا نام مع لقب اور تاریخ تعمیر مع سنہ بیان کرتی ہے جس کے عہد میں یہ خانقاہ بنوائی گئی ہے۔

 کتبے سے متعلق خانقاہ کی اصل جائے وقوع تو معلوم نہیں ہو سکی ہے مگر ڈاکٹر ڈیسائی کے مطابق اس کا تعلق ’سیان‘ ہی سے معلوم ہوتا ہے۔     10

کتبے کا متن اور ترجمہ ڈاکٹر زیڈ۔اے۔ ڈیسائی کی خواندگی کے مطابق حسب ذیل ہے

  •         سطراول:   بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔  بُیُوتٍ اذن اللّٰہُ ان تُرۡفع ویُذۡکر فیہا اسۡمُہُ یُسبّحُ لہُ فیہا بالۡغُدُوّ والۡآصال۔(سورۃ النور36)
’’شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جنھیں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔‘‘
  •       سطردوم:  رجالٌ لّا تُلۡہیہمۡ تجارۃٌ ولا بیۡـعٌ عن ذکۡر اللّٰہ وإقام الصّلاۃ وإیتاء الزّکاۃ  یـخافُون  یوۡمًا  تتـقلّبُ فیـہ الۡقُـلُوبُ والۡابۡـصارُ۔   (سورۃ النور37)
’’ ایسے لوگ جنھیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔  ‘‘ 11
  •    سطر سوم: القلوب و الابصار عن رسول اللّٰہ فی الصحیح الناس فی مساجد ھم واللّٰہ فی یوبھم
’’انسان کے مسجدوں میں مصروف ہونے کے باوجود اللہ ان کی ضروریات کی خبر گیری کر رہا ہے۔‘‘
  •         سطر چہارم: وقف ھذہ الخانقاہ الفقیر الخاطی الذی یرجون رحمتہ ربہ... محمد المراغی لاھل الصفہ الذی یلزمون تحصرۃ۔

’’یہ خانقاہ جو تعمیر کی گئی اور وقف کی گئی ایک گنہ گار فقیر محمد المراغی کے لڑکے کی طرف سے،جو اپنے رب کی رحمت کا خواست گار ہے، اہل صُفہّ 12کے لیے جو ہمہ وقت لازم رکھتے ہیں (اپنے اوپر) اللہ تعالیٰ کی حضوری

  • 5        سطر پنجم اللّٰہ تعالیٰ و یشغلون بذکرہ اللہ تعالیٰ فی ایام الدولت غیاث الاسلام والمسلمین، صدر الملوک و السلاطین الخصوص

’’اور مشغول رہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ذکر میں۔ زیرسایہ حکومت اسلام اور بادشاہوں اور سلطانوں کے امیر کے جو خاص کر نوازا گیا ہے۔‘‘

6        سطر ششم  یولایت العہدفی العلمین علی شیر بن عوض برھان امیرالمومنین فی یوم؟ السابع من جماد الآخر ستۃ ثمان عشر ولتحایۃ

’’راکب ایام کی طرف سے یعنی عہد ولایت علی شیربن عوض جو مومنین کے امیر کی نشانی ہے (مورخہ 7جمادی الثانی618ھ مطابق29؍ جولائی1221)13

  یہ کتبہ تاریخی نقطۂ نظر سے مختلف وجوہات کے سبب بہت اہم ہے۔

  1.         پروفیسر عبد الکریم کے بیان کے مطابق بنگال کے مسلم سلاطین کے تا حال دریافت شدہ کتبوں میں یہ سب سے قدیمی ہے۔اس کی دریافت سے پہلے مغربی بنگال کے ضلع مغربی دیناج پور میں ’گنگا رام پور‘کے مقام پر پایا جانے والا جلال الدین مسعود جانی (644تا648ھ) مطابق (1247تا1250)کا کتبہ اولین مانا جاتا تھامگر اب اس کی یہ حیثیت جاتی رہی ہے۔14
  2. 2        یہ پہلا کتبہ ہے جو مسجدوں اور مدرسوں کے علاوہ ایک دوسری قسم کی مذہبی عمارت یعنی خانقاہ کی تعمیر اور اس کی کفالت کے لیے وقف کی جانے والی جائداد کو ریکارڈ کرتا ہے۔  15
  3.  3       یہ بنگلہ دیش کے ضلع راج شاہی کے محکمہ نو گاؤں کے قریہ ’سیتلمٹ‘ میں پائے جانے والے بنگال کے تیسرے سب سے پرانے کتبے اور صوفیانہ ریاضت کے لیے دوسری مخصوص عمارت سے بھی،جو مغیث الدین یاذبک (648تا655ھ) مطابق (1250تا1255ھ) کے عہد میں احمد بن مسعود کے ذریعے (652ھ مطابق 1254تا1255)میں تعمیر کی گئی ہے،  16 چونتیس برس پرانا ہے اور اس پر بایں معنی فوقیت رکھتا ہے کہ اس میں ’اہل صفّہ‘ کے الفاظ کا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔  17 اور شاید یہی وجہ ہے کہ سیتلمٹ کتبہ کے مرتب،مشہور مورخ ڈاکٹر اے بی ایم حبیب اللہ نے اسے چلہ خانہ(بجائے خانقاہ) میں شمار کیا ہے۔ پروفیسرکریم کے مطابق دونوں کتبوں یعنی سیان اور سیتلمٹ کے کتبوں کو سامنے رکھنے سے یہ بات موثر طور پر ثابت ہوتی ہے کہ بنگال کی فتح کے بعد صوفیا اچھی خاصی تعداد میں یہاں وارد  ہوئے ورنہ اس طرح کی صوفیانہ عمارتوں کی تعمیر کوئی معنی نہیں رکھتی۔  18
  4.         ڈاکٹر زیڈاے ڈیسائی نے اس کتبے کی اہمیت اور غایت الغایات پر تاریخی انداز میں یوں روشنی ڈالی ہے: ’’زیر مطالعہ کتبہ کو تحریری مآخذ کی اس بات کی تصدیق کے لیے لیا (یعنی استعمال کیا) جا سکتا ہے کہ فتح بنگال اغلباً (1204) کے معاً بعد خانقاہوں کی تعمیر شروع ہو گئی تھی اور لہٰذایہ اس حقیقت کی بالواسطہ شہادت دیتا ہے کہ بہت سے ان عوامل میں،جنھوں نے بنگال میں اسلام کی ترویج میں معتد بہ کردار ادا کیا ہے، صوفیا کا کردار کچھ کم اہم نہیں ہے۔یہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ اس خطے میں جو اصل بنگال کے مغربی علاقوں پر مشتمل ہے صوفیانہ تنصیبات  19  اس عہد میں اپنا کام شروع کر چکی تھی یا اس سے بھی پہلے کے وقتوں سے  20 اس کتبہ کی پائے جانے والی جگہ خاص کر سیان ہی سے تعلق رکھتی ہے جیسا کہ سنسکرت ریکارڈ سے ظاہر ہے (اشارہ ہے کتبہ کے دوسری طرف کندہ سنسکرت عبارت کی طرف) اور یہ اس نظریے کو بھی تقویت دیتا ہے کہ ملک کی دوسری جگہوں کے بر خلاف، اسلام ملک کے اس حصے (یعنی بنگال کے مغربی علاقوں میں) گاؤں ہی میں (یعنی دیہی علاقوں میں) پھیلا۔‘‘  21
  5.        اس کتبہ کی قدامت مسلم ہے اور اس سلسلے میں ڈاکٹر ڈیسائی کا کہنا ہے: ’’در حقیقت یہ واحد ریکارڈ ہے جو اغلباً بنگال میں بصراحت کسی خانقاہ کے لیے پایا گیا ہے۔ہم لوگوں کو ملک کے دوسرے حصوں سے تقریباً دو درجن خانقاہوں کے ریکارڈ ملے ہیں مگران میں سے کوئی بھی اس سے پہلے کی تاریخ (تعمیر) کا نہیں ہے۔پروفیسر کریم نے بھی مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں کتبہ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ’سیان‘ کی خانقاہ کو بر صغیر ہند کی اولین خانقاہ مانا ہے۔   22
  6.       اس کتبہ کی دریافت نے دو مورخین اور ماہرین کتبات کے درمیان ایک دل چسپ تاریخی بحث کو بھی جنم دیا ہے۔ڈاکٹر ڈیسائی کے نزدیک علی شیر کے نام سے پہلے ’’غیاث الاسلام و المسلمین صدر الملوک والسلاطین المخصوص بولایت العہدفی العالمین‘‘ اور اس کے نام کے بعد ’برہان امیر المومنین‘وغیرہ جیسے الفاظ کا اس کے لیے استعمال اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ علی شیر در اصل صوبہ دار نہیں ہے بلکہ خود مختار بادشاہ تھا۔ کیونکہ بنگال کے از منہء وسطیٰ کے کتبات،سکوں اور تاریخی کتابوں میں اس طرح کے القاب کا استعمال صرف سلاطین اور بادشاہوں کے لیے مخصوص ہے اور اس طرح یہ کتبہ بنگال کے مسلم سلاطین کے نام کی فہرست میں ایک نام کے اضافے کا بھی باعث بنتا ہے جو ایک بہت ہی اہم بات ہے اور بایں وجہ ڈاکٹر ڈیسائی کو مورخین سے شکایت ہے کہ ان لوگوں نے اس کتبے کو شایان شان اہمیت نہیں دی ہے۔پروفیسر کریم ڈاکٹر ڈیسائی کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ان کے نزدیک کتبہ میں علی شیر کے لیے ’سلطان‘ نہیں بلکہ’علی شیر بن عوض‘ لکھا گیا ہے جو اس کے صوبہ دار ہونے کی دلیل ہے۔اس کے علاوہ بنگال کے دیگر کتبات میں بھی صوبے داروں کے لیے اس طرح کے القاب استعمال کیے گئے ہیں۔جیسے کہ:
  7.         عزل الدین طغرل خاں کی بڑی درگاہ (بہار شریف) کے کتبہ میں صوبے دار طغرل خاں کو ’’غیاث الاسلام والمسلمین مغیث الملک و السلاطین‘‘
  8.       جلال الدین مسعود جانی کے گنگا رام پور کے کتبہ میں صوبے دار مسعود جانی کو ’’ملک ملوک الشرق برہان امیر المومنین‘‘ اور
  9.         ابو الفتح پازبک کے سیتلمٹ کے کتبے میں صوبے دار ابو الفتح پاز بک کو ’’مغیث الاسلام و المسلمین ناصر امیر المومنین‘‘ کے القاب سے یاد کیا گیا ہے۔لہٰذا وہ واحد لقب جو بنگال کے کسی دوسرے سلطا ن کے لیے استعمال نہیںہوا ہے اور اس کتبے میں پایا جا تا ہے ’’صدر الملوک و السلاطین‘‘ ہے۔ان کے مطابق اس طرح کا لقب یعنی ’’صدر الملت والدین‘‘ صرف جلال الدین محمد شاہ (818تا 836ھ مطابق 1415تا 1433) کے ایک کتبہ میں استعمال ہوا ہے ۔  23مگر باوثوق طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ صوبے دار کا نام ہے یا لقب اور یہ لقب علی شیر کے لیے استعمال ہونے والے لقب سے مختلف بھی ہے۔ لہٰذا واحد لقب کے استعمال کی بنا پر علی شیر کے لیے خود مختار بادشاہ ہونے کا دعویٰ کرنا صحیح نہیں ہے۔پروفیسر کریم نے ڈاکٹر ڈیسائی کے کتبے میں استعمال شدہ  الفاظ ’’ولایت العہد‘‘کی اہمیت کو نظر انداز کرنے کے لیے بھی نکتہ چینی کی ہے اور ایف۔اسٹنگاس کی ’’فارسی انگریزی لغت جامع‘‘ (1480،نقش چہارم، لندن 1957) کے حوالے سے ان کے معنی ’عظمت ولی عہد‘ بتاتے ہوئے علی شیر کو صوبے دار ہی مانا ہے۔   24


حواشی

  1.  طبقات ناصری،ترجمہ از ایچ جی رائو یر ٹی(انگریزی) ،ص 560
  2.  یہاں بنگال کے از منہء  اُوسطیٰ کی تہذیبی اور سکہ جاتی تاریخوں کے مشہور ماہر پروفیسر عبد الکریم کا یہ بیان مدنظر رکھیے کہ ’’خانقاہ کا قیام اس بات کا غماز ہے کہ اس مقام پر صوفیا کی ایک تعداد رہتی تھی جن کے لیے یہ تعمیر کی گئی تھی۔‘‘ 
  3. (کنٹمپریری ریلیونس آف صوفی ازم،انگریزی، ص  104)
  4. اسلام ان بنگلہ دیش تھرو ایجز (انگریزی)  ص 37
  5. ایضاً، ص  37تا 38
  6. طبقات ناصری، ص  580تا 586
  7. کارپس آف دی عربک اینڈ پرشین انسکرپشنز آف بنگال، پروفیسر عبد الکریم،انگریزی، ص  18
  8. ایضاً، ص  17      
  9. ایضاً، ص  17
  10. ایضاً،ص  18
  11. ایضاً،ص  20
  12. القرآن،سور نور، آیات36  اور 37
  13. اشارہ ہے صحابیوں کی اس جماعت کی طرف جو حضور نبی کریم ؐ کے ساتھ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئی اور صاحب حیثیت وثروت نہ ہونے کے باعث دنیا سے کنارہ کش ہوکر مسجد نبوی میں مقیم ہوئی اور ہمہ وقت یاد الٰہی میں مشغول رہتی تھی۔تصوف اور صوفیا کی ابتدا اسی جماعت سے مانی جاتی ہے۔
  14. کارپس آف دی عربک اینڈ پرشین انسکرپشنز آف بنگال، پروفیسر عبد الکریم،انگریزی،ص  18تا19
  15. ایضاً ص  19
  16. ایضاً ص  20۔ اور کنٹمپریری ریلیونس۔ص106
  17. ایضاً  ص  35
  18. کنٹمپریریری ریلیونس، ص 107
  19. ایضاً ص 107-108
  20. ڈاکٹر ڈیسائی کا اشارہ ہے صوفیوںکے ورود،خانقاہوں کے قیام،سلاسل کے اجرا اور ان میں عقیدت مندوں کی بیعت کی طرف۔
  21. اس تاریخی نکتے کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ہندوستان میں اسلامی معاشرت و ثقافت کے مشہور محقق پروفیسر عزیز احمد کا یہ بیان ذہن میں رکھیے کہ ’’ہندوستان میں غیر مسلموں کے درمیان اسلام کی ترویج و اشاعت کو تقریباًتمام صوفیا اور سلاسل صوفیا نے اپنی زندگی کے کسی نہ کسی دور میں اپنے اولین مقاصد میں شمار کیا ہے۔‘‘ اسٹدیز ان اسلامک کلچر ان انڈین انوارنمنٹ، انگریزی،ص 84۔
  22. کارپس آف دی عربک اینڈ پرشین انسکرپشنز آف بنگال، پروفیسر عبد الکریم،انگریزی،ص 20
  23. کنٹمپریری ریلیونس،ص 106
  24. اشارہ ہے ضلع راج شاہی کی کوتوالی گودا گری کے قریہ ’سلطان گنج‘  میں پائے جانے والے جلال الدین محمد شاہ کے کتبے کی طرف۔
  25. کارپس آف دی عربک اینڈ پرشین انسکرپشنز آف بنگال، پروفیسر عبد الکریم،انگریزی،ص 21-22


Mohd Mazfoorul Haq Ansari

Darakhshan Manzil

Q- 480/1, Santosh Pur Road

Matia Burg- 700024 (West Bengal)

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں