15/12/22

بچوں کے شفیع الدین نیر: محمد ارشد انصاری


شفیع الدین نیر (1903-1978)کا شمار  ان ادبا و  شعرا   میں  ہوتا ہے  جنھوں نے اپنی پوری زندگی  بچوں کے ادب کے لیے وقف کر دی۔ انھو ں نے صرف بچوں کے  ادب کو  اپنا مطمح نظر جانا اور زندگی کی آخری سانس تک  ادب ِاطفال کی  خدمت کرتے رہے۔ انھوں نے اس سے ہٹ کر  بڑوں  کے لیے لکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ انھوں نے   بچوں کے لیے جو کچھ بھی لکھا   وہ یہ سوچ کر لکھا کہ ایک مقدس قومی اور انسانی فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ وہ بچوں کی نفسیات، رجحانات، پسندو نا پسند اور جذبات سے بخوبی واقف تھے۔ وہ حالی،  اسماعیل میرٹھی اور اقبال کی قائم کردہ روایت کو بہت آگے  لے گئے۔ آج وہ بچوں کے عظیم  شاعر  کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔

بچوں سے  ایسے لب و  لہجے میں بات کرنا  جو دل نشیں اور خاطر نشان ہو  آسان بات نہیں ہے۔  اس کے  لیے طبیعت میں خلوص، دل میں محبت اور ذہن میں  معصوم شوخی  اور شگفتگی  ضروری ہے۔  بچوں کی نفسیات  اور  دلچسپیوں  کے بارے  میں غور و فکر کرنا   اور ان کی امنگوں کو سمجھنا آسان کام نہیں،  اس  کے لیے خود بچہ بننا پڑتا ہے،   ان کی فطرت کو سمجھنا  ہوتا ہے اور ان سے انھیں کی زبان میں بات کرنی ہوتی ہے۔ نیر صاحب اس بات کو اچھی  طرح جانتے ہیں اور ہلکی پھلکی زبان، سیدھے سادے  لہجے اور چھوٹے  چھوٹے جملوں میں  وہ بچوں کے لیے  ایسی دلچسپ کہانیاں، خوب صورت نظمیں  اور مزیدار چٹکلے لکھتے رہے ہیں کہ بچے یہ سمجھتے ہیں کہ  جیسے یہ  انھیں کی بات ہے،   انھیں کے دماغ نے اسے سوچا ہے اور انھیں  کے دل سے  یہ نکلی ہے۔  پروفیسر  رشید احمد صدیقی نے  لکھا ہے۔ ’’بچوں کے لیے لکھنے میں خود اپنے اندر  سوئے ہوئے بچے کو  جگانا پڑتا ہے  اور اسے اپنے آپ سے  مانوس بھی کرنا پڑتا ہے‘‘

(محمد شفیع الدین نیر اطہر پرویز، مکتبہ پیام تعلیم، جامعہ نگر، نئی دہلی، ص 36)

نیر صاحب کے یہاں یہ بچہ کبھی  نہیں سویا۔ انھوں نے اس بچے  سے صرف اپنی شاعری  اور کہانیوں  ہی میں  کام نہیں لیا بلکہ زندگی بھر  اس کے  کہے پر عمل  بھی کیا۔

شفیع الدین نیر کے تخلیقی سفر کا آغاز اس وقت سے ہوا  جب  وہ  دہلی کے ماڈرن اسکول   میں استاد کی حیثیت سے پڑھانے لگے۔ انھیں  احساس ہوا کہ  اردو میں ننھے منے  بچوں کے لیے  ایسی نظمیں  نہیں ہیں جیسی انگریزی زبان میں موجود ہیں اور اسی وقت سے وہ  بچوں کے لیے  لکھنے لگے۔    نیرصاحب نے تقریباً 19 سال  تک  وہاں  کام کیا اور اسی اسکول نے   مولوی شفیع الدین کو نیر  بنایا۔ اس کے بعد نیر صاحب  جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مدرسہ ثانوی میں اردو کے معلم ہوئے۔ وہ بچوں کو پڑھاتے اور ان سے اپنی تخلیقات کے لیے مواد حاصل کرتے تھے۔  یہیں  ان کے تخلیقی  جوہر کو نکھرنے کا   موقع ملا۔

شفیع الدین نیر کے بارے میں  ڈاکٹر ذاکر حسین اپنے مضمون ’اعتراف حق‘ میں اپنے خیالات کا اظہار  کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’ان میں بچوں کے ذہن کو سمجھنے اور ان سے محبت کرنے کی وہ صفت ہے جو  پیدائشی معلم کا جوہر ہوتی ہے۔  نیز  ذوق ادب اور ذوق جمال کی سمت بچوں کی رہنمائی کے  لیے  جس صلاحیت کی ضرورت،  ہے وہ ان میں بدرجہ اتم  موجود ہے‘‘(نیر، 1977جیسا کہ  زیدی، 1989میں حوالہ دیا گیا ہے)۔ بچوں کے لیے جو نظمیں انھوں نے لکھی ہیں وہ ایک پیش رو کی حیثیت سے ان کا نہایت ہی بیش قیمت کار نامہ ہے۔ انھوں نے وہ میدان سر کیا ہے، جسے سر کرنے کی بہت ہی کم اصحاب نے جرأت کی ہے۔ ان کی نظموں نے تعلیم کے خشک کام کو خوشگوار بنا دیا ہے۔ ان بچوں میں بھی ادبی دلچسپی پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جو دوسرے مضمونوں کی طرح مادری زبان کی تحصیل کو غیر دلچسپ سمجھتے تھے۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ نیر صاحب بچوں کی نفسیات  کو پوری طرح  سمجھتے تھے بلکہ ان  تغیرات کا بھی پورا شعور رکھتے تھے جو عمروں کے تفاوت  سے لازمی طور پر  بچوں کے  جذبات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ وہ بچوں کے ذہن،  ماحول  اور نشیب و فراز کو سمجھنے میں بھی  مہارت رکھتے تھے۔  ان کی شعری اور  نثری تخلیقات  میں  بچوں کی عمر،  نفسیات اور ذہنی استعداد کا شعور  ہر جگہ کار فرما نظر  آتا ہے۔ انھوں نے بچوں کی تفریح ، ان کی اخلاقی تعلیم  اور ذہنی نشوونما کے لیے کثیر تعداد میں نظمیں، کہانیاں اور معلوماتی  مضامیں لکھے ہیں،  جن کی زبان ہلکی پھلکی اور عام  فہم ہے۔ ان کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ  ان کے یہاں ہر عمر کے بچوں کی پسند کی نظمیں مل جاتی ہیں۔ ان نظموں میں آسانی سے یاد ہو جانے کی خصوصیت بھی موجود ہے۔ ان کی تحریروں میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی اخلاقی پیام ہوتا ہے جسے وہ بچوں کی ہی زبان میں پیش کرتے ہیں۔ بچوں کو ان کی بات سمجھنے میں دشواری محسوس نہیں ہوتی۔ ان کی نظموں میں نغمگی کے ساتھ شگفتگی اور روانی ہے۔ نظموں کے موضوعات  زندگی سے متعلق ہیں اور ان میں تنوع  کی کمی کا مطلق احساس نہیں ہوتا۔  ان کی نظموں کے موضوعات  بچوں کو  اخلاقی تعلیم دینے  کا وسیلہ  ہیں۔ ان کی تخلیقات بچوں کو اخلاقیات اور انسانیت کا درس دینے کے ساتھ  انھیں اپنی ذہنی اور عملی قوتوں کو  انسان کی فلاح و بہبود  کے لیے  وقف کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔  وہ چاہتے تھے کہ بچے نیک، صلح کن، صداقت شعار، مودب و مہذب، محنتی، سمجھدار، عبادت گزار، انسان دوست اور محب ملک و قوم بنیں۔ وہ بچوں کے  ذہنوں کو   علم کی روشنی سے منور کرنا چاہتے تھے۔ بچوں کا تحفہ، وطنی نظمیں،  اسلامی نظمیں، اخلاقی نظمیں، منّی کے گیت، منّی کا تحفہ، ہماری زندگی  اور بچوں کا کھلونا ،ان کی نظموں کے اہم مجموعے ہیں۔ 

شفیع الدین نیر کی تعلیمی نظموں  کا مجموعہ ’بچوں کا تحفہ‘ بہت مقبول ہوا۔ یہ  دو حصوں  پر مشتمل  ہے، حصہ اول میں چھبیس اور  حصہ دوم میں  چوبیس نظمیں  ہیں۔ ان نظموں کے ذریعے بچوں کو  اپنے گرد و پیش کی زندگی  کا مشاہدہ  کرنے کی طر ف  مائل کیا گیا ہے۔ ’بچوں کا تحفہ‘کی نظموں  کی فنی  خصوصیات کے بارے میں شفیع الدین نیر خود یوں رقمطراز ہیں ’’ان نظموں کا مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ  میں نے  ان نظموں کے ذریعے  بچوں کو گردو پیش کی چیزوں  سے دلچسپی لینے اور ان کا بغور مشاہدہ کرنے کی طرف  مائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ضرورت تھی کہ زبان سلیس، عام فہم اور  با محاورہ ہو،  خیالات سادہ  ہوں،  عام اور مفید معلومات فراہم کی جائے۔ تعمیر نصیحت کا  پیرایہ اختیار  کیے ہوئے اخلاقی تعلیم کا  پورا لحاظ  رکھا جائے، نظموں میں روانی اور اختصار ہو، عنوانات میں تنوع ہو، بحریں قابلِ ترنم ہوں۔ ‘‘(وطنی نظمیں (اشاعت سوم) شفیع الدین، نیر کتاب گھر، جامعہ نگر، نئی دہلی، 1968، ص 7) نیر صاحب نے  اپنی تمام نظموں میں   ان  خصوصیات  کا  پورا  لحاظ رکھا  ہے۔

’بچوں کا تحفہ‘ حصہ اول میں صبح، شام، باغ کی سیر، موٹر، گرمی، بلی کا بچہ، عید کا چاند، بہار کا موسم، ہوا، صفائی وغیرہ نظمیں شامل ہیں۔ نظم ’ شام ‘کا ایک بند ملاحظہ ہو        ؎

ہوئی شام سونے کا وقت آگیا

اندھیرا  سا چاروں طرف چھا گیا

گیا ڈوب پچّھم میں اب آفتاب

اُفق پر چمکنے لگا ماہتاب

پرند آشیانے میں جانے لگے

مویشی بھی جنگل سے آنے لگے

فلک پر ستارے چمکنے لگے

جواہر کی صورت دمکنے لگے

ہیں سب صاف صاف اور نکھرے ہوئے

ہر اک  سمت موتی سے بکھرے ہوئے

(بچوں کا تحفہ شفیع الدین نیر، حصہ اوّل، محبوب المطابع دہلی، 1955، ص 17)

منی  کے گیت‘ میں  آؤ چندا مامو آؤ، منی کی بکری، منی کی لوری، دیوالی آئی، منی کی موٹر، منی کی بلی وغیرہ نظمیں شامل ہیں۔ نظم ’منی کی بلی ‘ کا ایک بند ملاحظہ ہو     ؎

منی نے ایک بلی پالی

بلی پالی کالی کالی

آنکھیں اس کی نیلی پیلی

   نیلی پیلی اور چمکیلی

دن بھر موج اڑاتی تھی وہ

دودھ ملائی کھاتی تھی وہ

چہیا کو وہ دیکھ جو پاتی

مار کے اس کو چٹ کر جاتی

(منی کے گیت: شفیع الدین نیر، نیر کتاب گھر، جامعہ نگر، نئی دہلی، 1962، ص 26)

نظموں پر مشتمل  ان کے دوسرے مجموعے ’وطنی نظمیں ‘ میں ہندوستانی بچوں کا گیت، صبح وطن، ہمارا پیارا وطن، وطن کی محبت، دریائے گنگا،  ہماری زبان، ہمالیہ پہاڑ اور قومی ترانہ وغیرہ نظمیں ہیں۔ نظم’وطن کی محبت ‘   کا ایک بند ملاحظہ ہو     ؎

وہ چڑیا وہ طوطا وہ مینا وہ مور

وہ کوئل وہ بلبل وہ قمری، چکور

وہ جھیلوں کی لہریں وہ دریا کا زور

وہ جھرنوں کا گرنا، وہ پانی کا شور

وہ  سر سبز اس کے پہاڑ اور بن

یہ میرا وطن ہے یہ میرا وطن

(وطنی نظمیں شفیع الدین، ص35)

نظموں کے علاوہ  نیر صاحب نے  بچوں کے لیے  بے شمار کہانیاں  بھی لکھی ہیں۔ اس ضمن میں ان کی کوشش رہی ہے کہ بچوں میں کہانی کے وسیلے سے مطالعے کی عادت پڑے اور عمر کے ساتھ  ساتھ ان کے ذخیرۂ الفاظ میں بھی اضافہ ہو۔  تارہ کا ڈنڈا، پرستان کی سیر،  ریڈیو کا بھوت، بونے کا انصاف، مکھن کا ڈبّہ، ڈھول کا پول،  بدّھو کی بیوی،   میاں مٹھو، طلسمی دنیا، ہماری زندگی، آٹے کا پتلا، عید کے کھلونے، گھر جاؤں تو کیسے وغیرہ ان کی  کہانیوں کے مشہور اور مقبول  مجموعے ہیں۔شفیع الدین نیر نے بچوں کی عمر کے مختلف ادوار اور ان کی نفسیاتی استعداد کے اعتبار سے تمام کہانیاں قلم بند کی ہیں۔ بہ اعتبار  مدارج تین سے پانچ برس،  چھ سے آٹھ برس اور نو سے  بارہ برس تک کے بچوں کے لیے  زبان و بیان کا خیال رکھا اور کوشش کی کہ عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ  ان کے ذخیرۂ الفاظ   اور معلومات میں بھی  مناسب اضافہ ہوتا   رہے اور  بچوں میں کہانی کے وسیلے سے  مطالعے کی عادت پڑے۔ نیر صاحب نے اپنی کہانیوں کو  ایسی فنکارانہ مہارت سے پیش کیا ہے کہ چھوٹے بچے بے ساختہ ان کتابوں پر لپکتے ہیں۔ ’شیر خاں کے معرکے‘  کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو

’’کرتے بھی کیا چند روز رو دھو کر  بیٹھ رہے۔ باپ کے بعد بھی  پڑھنے میں دل سے لگے رہے۔ ماں سے پہلے ہی محبت تھی،  اب وہ اور بھی بڑھ گئی۔ ان کی خوشی اور  آسائش  اب ماں  ہی کے دم سے تھی۔ ہر وقت پروانے کی طرح  اپنی ماں  پر فدا  رہتے تھے۔  ماں  کے پسینے کی جگہ خون بہا دینے کو معمولی بات سمجھتے۔ میاں کی جدائی کا صدمہ ان کی ماں کو  اندر ہی اندر گھلا رہا تھا مگر  وہ با ہمت بی بی  اپنے صدمے کو  چھپائے  رکھتی۔ بچوں کے کڑھنے اور غمگین ہونے کے خیال  سے کبھی ظاہر نہ ہونے دیتی۔ اس صدمے نے آہستہ آہستہ ایک مہلک بیماری کی شکل  اختیار کر لی ‘‘(نیر، 1979جیسا کہ  زیدی، 1993میں حوالہ دیا گیا ہے)۔

اس عبارت سے   واضح ہوتا   ہے  نیر صاحب  بچوں کو بہلانے میں ماہر تھے اور بچوں میں  بچوں کی طرح  گھل مل   جانے کا گر انھیں   خوب  یاد تھا۔  اس اقتباس  میں  ماں بیٹے کی محبت  اور ایک دوسرے کی  غمگساری  کے جذبات کو عام  فہم اور آسان زبان میں  بڑی خوب صورتی  کے ساتھ  ادا کیا گیا ہے۔

1947 تک شفیع الدین نیر کامرتبہ بچوں کے ایک اہم اور معتبر قلم کار کی حیثیت سے مستحکم اور مستند ہو چکا تھا۔  آزادی کے بعد بھی  ان کا تخلیقی سفر مسلسل  جاری رہا۔  اس اثنا  میں  انھوں  نے نظمیں،  لوریاں،  نعت، قوالی، پہیلیاں، کہانی اور ڈرامے  ہر صنف پر طبع آزمائی  جاری رکھی۔ اس  کے علاوہ شفیع الدین  نیر نے بچوں کے لیے درسی، معلوماتی اور اخلاقی  مضامین بھی لکھے ہیں۔  یو این او، تعلیمی میلے کی دھوم، تعلیمی میلہ، ایک پہیلی، باپو کی یاد، ان کے قابل ذکر مضامین ہیں۔ نیر صاحب نے بچوں کے لیے دیگر زبانوں  سے بھی  کتابیں  ترجمہ کی ہیں  جو نہرو بال  پستکالیہ    دہلی کے زیر اہتمام منظر عام پر آئیں۔ ایسی کتابوں میں پرندوں کی دنیا اور خالہ بلی کا خاندان خصوصی توجہ کے مستحق  ہیں۔ ان تخلیقات  سے شفیع الدین نیر کو  غیر معمولی شہرت ملی۔   موضوعات کے تنوع اور زبان کے  استعمال کی بنا پر شفیع الدین نیر کو   بچوں کا نظیر اکبر آبادی کہا جائے  تو بے جا نہ ہوگا۔

شفیع الدین نیر نے  اپنی تخلیقات میں تعقل، کشادہ نظری  اور انسان دوستی کا  ایک ایسا نظریۂ حیات پیش کیا  جو بچوں کو اس دور ترقی میں خود اعتمادی کے ساتھ زندہ رہنے کا  سلیقہ سکھاتا ہے۔ شفیع الدین  نیر کی ادبی خدمات کے اعتراف میں  پیام تعلیم (دہلی) نے دو حصوں میں  ان پر  خاص نمبر شائع کیا ۔ جن میں  ڈاکٹر مسعود حسین خاں، خشونت سنگھ، ظہیر احمد صدیقی، رشید احمد صدیقی،  ڈاکٹر قمر رئیس  اور احمد جمال پاشا جیسے اہل قلم  نے شفیع الدین   نیر کی  زندگی میں ہی ان کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے  خراج عقیدت پیش کیا۔

 (اردو میں بچوں کا ادب خوش حال زیدی، ادارہ بزم خضر راہ، کانپور، اترپردیش، ص 215)

شفیع الدین نیر کا نام بچوں کے عظیم شاعر کی حیثیت  سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔

n

Md. Arsad Ansari

Assistant Professor in Education

IASE, Jamia Millia Islamia

New Delhi-110025

Mob.: 9911543984

 

 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں