15/12/22

شمس الرحمن فاروقی کی سفارشات لغات وروزمرہ کے حوالے سے: محمد نسیم

شمس الرحمن فاروقی نے اپنے دیگر ادبی کارناموں کی طرح لغت نویسی میں بھی منفرد و اعلیٰ کارنامہ انجام دیا ہے۔ان کی لغت، ’لغات روز مرہ ‘نہ صرف سابقہ اردو لغات سے ممیز ہے بلکہ آئندہ کی تحقیقی لغت نگاری کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ لغت کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے عربی، فارسی، انگریزی، لغات کے ماسوا نوادرالالفاظ، دافع الاغلاط، نوراللغات، فرہنگ آصفیہ، امیر اللغات اور اردو لغت۔ تاریخی اصول پر، جیسی لغات کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔اس لغت میں انھوں نے مذکورہ لغات کے جا بہ جا حوالے بھی دیے ہیں۔یہ حوالے استناد کے طور پرتو ہیں ہی لیکن کہیں کہیں ان سے اختلاف بھی کیا ہے۔اختلاف کی صورت میں وہ دیگر لغات کے معانی بھی بطور موازنہ درج کرتے ہیں اس کے بعد استدلال کے ساتھ یہ بتاتے ہیں کہ فلاں لفظ کا صحیح ترین معنیٰ فلاں ہوگا۔ ’لغات روز مرہ ‘سے قبل لغت نویسی کا عمومی طریقہ یہ رہا ہے کہ الفاظ کے معانی،اس کے مترادفات،زبان،تذکیر و تانیث اور اعراب کی نشاندہی کردی جاتی تھی یا زیادہ سے زیادہ لفظ کے معانی کے اثبات میں مستند شعرا کے کلام درج کر دیے جاتے تھے۔ لغت نویسی کی تاریخ میں ایک اہم اضافہ پا کستان کے لغت بورڈ نے کیا۔انھوں نے منصوبہ بند طریقے سے تقریباً باون سال کی طویل مدت میں ایک لغت بنام ’اردو لغت۔تاریخی اصول پر‘ مرتب کرایا۔اس کی پہلی جلد 1960 اور آخری جلد 2010 میں شائع ہوئی۔ جملہ بائیس جلدیں ہیں جن میں دو لاکھ چوسٹھ ہزار الفاظ درج ہیں۔ اس جدید لغت کا حیرت انگیز کارنامہ یہ ہے کہ معانی کے اثبات کے طور پر شعرا کے کلام اور نثر کے اقتباسات و مقولے کے ساتھ ساتھ اس کے سنین بھی درج کر دیے گئے ہیں جس سے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ یہ لفظ کب اور کس معنی میں استعمال ہوا تھا۔گومعانی کے زمانی ارتقا و تبدیلی پر کوئی خاص بحث نہیں ہے پھر بھی تھوڑا تھوڑا ذکر مل ہی جاتا ہے۔شمس الرحمن فاروقی  اردو کے جن چند لغات کو مستند مانتے ہیں یا یہ کہ جن لغات کے حوالے انھوں نے سب سے زیادہ دیے ہیں ان میں ’اردو لغت- تاریخی اصول پر‘ بھی شامل ہے۔انھوں نے اس لغت سے نہ صرف استفادہ کیاہے بلکہ اس میں جدید تحقیق کی جو روش اختیار کی گئی ہے اسے شمس الرحمن فاروقی نے درجہء کمال کو پہنچا دیا ہے۔

’ لغات روز مرہ‘ جیسا کہ عنوان سے ہی ظاہر ہے کہ اس میں جو الفاظ درج کیے گئے ہیں وہ ادبی کتابوں سے مستخرج نہیں ہیںبلکہ اس کے تمام تر الفاظ وہ ہیں جو خواص و عوام میں زبان کے طور پر مستعمل ہیں۔اس لغت کے سب سے نمایاں پہلواس کے تنقیدی و تحقیقی مباحث ہیں جو اردو کی دوسری لغات میں خال خال ہی ملتے ہیں۔ ایک ایک لفظ پر کئی کئی زاویے سے بحث کی گئی ہے جیسے کہ وہ لفظ ارود کا ہی ہے یا دخیل ہے،اگر دخیل ہے تو اسے کس قاعدے کی رو سے اردو بنایا گیاہے،اس لفظ کے معانی دیگر لغات میں کیا ہیں،اور کون سا معنیٰ بہتر ہے،وہ لفظ کس علاقے میں کس معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے،موجودہ وقت میں اس کا طریقہ استعمال کیا ہونا چاہیے،شمس الرحمٰن فاروقی نے ان تمام پہلوئوں پر تحقیقی استدلال کے ساتھ بحث کی ہے اور یہی تحقیقی استدلال وہ وصف ہے جواسے معاصر لغات میں امتیاز ی حیثیت عطا کرتاہے۔و ہ الفاظ و معانی کی تشریحات کے ساتھ ساتھ حسب ضرورت اپنی سفارشات بھی پیش کرتے رہتے ہیں کہ کن الفاظ کا استعمال جاری رہنا چاہیے اور کسے ترک کردینا چاہیے۔ ذیل میں ایسے ہی کچھ الفاظ درج کیے جارہے ہیں جنھیں وہ ترک کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔

ادب نواز  اور  اردو نواز: عام طور پر یہ فقرے کسی ایسے سیاسی قائد کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں جو اردو محفلوں    میں شریک ہوتا ہو یا کسی ایسے شخص کے لیے کر دیا جاتا ہے جسے اردو زبان و ادب سے محبت ہو یا یہ کہ زبان و ادب کے نام پر کبھی کبھار مالی تعاون دیتا ہو۔فاروقی صاحب اس لفظ کے استعمال پر برہم ہیں۔ان کے نزدیک ’’ادب کوئی یتیم بچہ یا بے سہارا شخص ‘‘ نہیں ہے جو کسی کے نوازے جانے کا  محتاج ہو۔ان کا مطالبہ ہے کہ’ ادب نواز‘ اور’ اردو نواز‘ جیسے فقرے ترک ہونے چاہیے بلکہ وہ اسے واجب الترک قرار دیتے ہیں اوراس کی جگہ وہ اردو دوست یا خادم اردو جیسے فقروں کے استعمال کا تقاضا کرتے ہیں۔ انھیں کے الفاظ میں ملاحظہ کریں

’’ یہ زبان کی نوازش ہے کہ وہ ہمارا وسیلہء اظہار بنتی ہے۔ ہم بہت سے بہت اردو دوست ہو سکتے ہیں۔ورنہ ہمارا صحیح مقام ’خادم اردو‘ کا ہے۔ ادب نواز،ادب پرور، اردو نواز جیسے فقروں کو مکمل طور پر ترک ہو جانا چاہیے۔‘‘

(لغات روز مرہ، شمس الرحمن فاروقی،آج کی کتابیں، کراچی، 2012، ص  59)

ابھر کر سامنے آنا: اس فقرے کو ہم نمایاں ہونا،یا توجہ کا مرکز بننے کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔شمس الرحمٰن فاروقی کو اس فقرے کے استعمال پر اعتراض یہ ہے کہ’ ابھرنا‘ اور ’سامنے آنا‘ دونوں ہم معنیٰ الفاظ ہیں۔اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ ’’جو چیز ابھرے گی وہ سامنے ہی تو آئے گی‘‘ اس لیے ابھرنے کے ساتھ سامنے آنا جیسے الفاظ کا استعمال غیر ضروری طور پر تکرار پیدا کر رہاہے۔ و ہ اس فقرے کو جملوںمیں استعمال کرکے مثالوں کے ذریعہ بتاتے ہیں کہ کون سے جملے درست ہیں اور کون سے درست نہیں ہیں۔

مثال نمبر 1  گزشتہ چند برسوں میں جو شعرا ابھر کر سامنے آئے ہیں۔

مثال نمبر 2  رپورٹ کو پڑھنے سے جو نکتہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔

شمس الرحمن فاروقی ان دونوں جملوں کو قبیح اور نامناسب کہتے ہیں۔ان کا اصرار یہ ہے کہ ’ابھرنا ‘اور ’سامنے آنا ‘میں سے کسی ایک کو ہی استعمال کیا جائے اور مذکورہ جملوںکو یوں لکھا جائے۔

مثال نمبر1  گزشتہ چند برسوں میں جو شعرا نمایاں ہوئے ہیں۔

مثال نمبر 2  رپورٹ کو پڑھنے سے جو نکتہ خاص طور سے متوجہ کرتا ہے۔

پیش  فرمانا:   فاروقی صاحب اس فقرے کا استعمال درست نہیں سمجھتے ہیں۔اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ اس میں     ’اجتماع ضدین‘ہے۔یعنی لفظ ’پیش ‘ میں خود ہی عاجزی کا پہلو مضمر ہے اس لیے اس کے ساتھ عاجزی کے اظہار کے لیے ہی ’فرمانا‘ کا استعمال جائز نہیں ہے۔یہ فقرہ عام طور پر کسی چھوٹے کی جانب سے کسی بڑے یا زیادہ لائق احترام شخص کے لیے کیا جاتا ہے۔ہم جب زیادہ تکلف یا عجز و انکسار کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو اس فقرے کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن شمس الرحمن فاروقی اسے قبیح قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ پیش فرمانا ‘کی جگہ ’ارشاد فرمانا ‘ کا فقرہ  استعمال کیا جائے اور یہی مناسب اور فصیح ہے۔

سنجیدگی سے لینا: اس کے تعلق سے شمس الرحمن فاروقی کا کہنا ہے کہ اسے

’’ انگریزی روز مرہ to take seriously کی مت بگاڑ کر اب ہم لوگ کسی معاملے/بات/واقعے وغیرہ کو ’ سنجیدگی سے لینا‘ بولنے لگے ہیں۔اردو میں یہ محاورہ معنیٰ دینے کا نہیں،آپ ہزار کوشش کرلیں۔یہ بھونڈا اور احمقانہ الگ ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 215)

اس تعلق سے انھوں نے کچھ مثالیں بھی پیش کی ہیں جن کے دو جملے یہاں نقل کیے جا رہے ہیں۔

’’میں آپ کی ہر بات کوبہت سنجیدگی سے لیتا ہوں‘‘  فاروقی صاحب اس جملے کو غلط اور واجب الترک قرار دیتے ہیںاور اس کی جگہ وہ اس جملے کو صحیح و مستحسن سمجھتے ہیں کہ’’میں آپ کی ہر بات کو بہت باوزن یا اہم یا قرار واقعی سمجھتاہوں‘‘

کاش! فاروقی صاحب اس معترضہ محاورے کو ’’بھونڈا اور احمقانہ‘‘ یا واجب الترک سمجھنے کی کوئی ایک وجہ بھی بتادیتے توقاری کو تشنگی کا احساس نہ ہوتا۔کیا ہم بھونڈا صرف اس لیے مان لیں کہ یہ انگریزی فقرے کا ترجمہ ہے۔ظاہر ہے فاروقی صاحب خود اسے کوئی معقول دلیل نہیں سمجھیں گے۔ورنہ اردو کا ہر وہ لفظ او رفقرہ مشتبہ قرار دے دیاجائے گا جو دوسری زبانوں سے ماخوذیا مترجمہ ہے۔البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اسے اردو زبان کے مزاج کے خلاف سمجھتے ہوں۔لیکن راقم الحروف یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہے کہ’’ سنجیدگی سے لینا‘‘ میں اردوکے خلاف مزاج کون سے پہلو ہیں۔

سے ہونا:  مثلاً اگر جملے میں یوں بولا جائے کہ ’’آپ کہاں سے ہیں ؟‘‘ یا ’’ آپ کہاں سے آتے ہیں؟‘‘  توایسے تمام جملے غلط اور قبیح ہوں گے۔ کیونکہ یہ اردو کے مزاج کے خلاف ہیں۔’’سے ہونا‘‘کے بجائے ’’کے ہونا ‘‘بولا جائے۔ جیسے کہ آپ کہاں کے ہیں؟  کہاں کے رہنے والے ہیں؟

صاحب زادہ:    بقول شمس الرحمن فاروقی اس فقرے کو صرف دوسرے کے بیٹے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ خود کے بیٹے کے لیے ہرگز نہ کریں۔اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ’’میرے صاحب زادے ان دنوں یہاں نہیں ہیں‘‘  تو ایسا جملہ نہایت قبیح ہوگا۔ہاں اگر یہ کہا جائے کہ’’ میرا بیٹا ان دنوں یہاں نہیں ہے‘‘ تودرست اور احسن ہوگا۔

ظاہر سی بات:    ’’لغات روز مرہ ‘‘کے مطابق لفظ ’ظاہر‘‘ کے بعد ’’ سی بات‘‘ کا اضافہ غیر ضروری ہے۔اس لیے کہ’’ کوئی چیز یا تو ظاہر ہوگی یا ظاہر نہ ہوگی۔’’ سی بات‘‘ کا اضافہ لفظ ظاہر پر کوئی معنوی اثر نہیں ڈال رہا ہے۔اس لیے مناسب یہ ہے کہ اسے ترک کردیا جائے۔جیسے کہ

’’ ظاہر ہے پہاڑوں پرمیدان سے زیادہ ٹھنڈک ہوتی ہے۔‘‘ اسی کو عام طورپر لوگ اس طرح بولتے ہیں کہ ’’ ظاہر سی بات ہے کہ پہاڑوں پر میدان سے زیادہ ٹھنڈک ہوتی ہے‘‘جب کہ آخر الذکر جملہ فاروقی صاحب کے الفاظ میں’’ نا مناسب اور قبیح ہے‘‘۔

کار روائی چلانا: یہ عام طور پرکسی جلسہ یا سمینار کی نظامت کے متبادل کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔فاروقی صاحب کے نزدیک اسے بھی ترک ہونا چاہیے اور اس کی جگہ ’’جلسے کی نظامت کرنا‘‘ہی جاری رہنا چاہیے۔اقتباس ملاحظہ کریں۔

’’کسی جلسے یا محفل کی نظامت کرنے کو اب بعض لوگ ’’ کا رروائی چلانا‘‘ کہنے لگے ہیں گویا کارروائی کوئی گاڑی ہو جسے کوئی چلاتا ہے۔اس بے معنی اور غیر ضروری فقرے کاترک اولیٰ اور انسب ہے۔’’ جلسے کی نظامت کرنا‘‘نہایت عمدہ فقرہ ہے اور ’’ کار روائی چلانا‘‘کی جگہ اسی کو استعمال کرنا چاہیے۔‘‘  (ایضاً، ص 258)

کچھ اس طرح:  اس فقر ے کا استعمال عام طور پر یوں ہوتا ہے کہ’’ جو لوگ اس محفل میں شریک تھے ان کی فہرست کچھ اس طر ح ہے۔‘‘ گویا یہاں ’’کچھ اس طرح‘‘  ’حسب ذیل‘  یا محض ’ یوں‘ کے معنیٰ میں استعمال کیا گیا ہے۔شمس الرحمٰن فاروقی اسے غلط اور قبیح قرار دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’’ کچھ اس طرح‘‘ سے معنیٰ یہ پیدا ہو تا ہے کہ جو فہرست پیش کی جا رہی ہے وہ اصل فہرست کے مماثل کوئی فہرست ہے جب کہ قائل کا مقصد حقیقی یا اصلی فہرست پیش کرنا ہوتا ہے۔اس لیے یہاں لفظ ’کچھ‘ کے استعمال سے احتراز کیا جائے اور ’’ کچھ اس طرح‘‘ کے بجائے صرف ’اس طرح، حسب ذیل، یا ’یوں‘ جیسے الفاظ استعمال کیے جائیں۔

رہائش:      اسی طرح وہ لفظ ’رہائش ‘  اور ’ رہائش گاہ‘ کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ

 ’’ یہ غلط توہیں ہی،بھونڈے بھی ہیں،اور ان سے کوئی مقصد ایسا حاصل نہیں ہوتا جو مکان،گھر،قیام گاہ، مستقر، جائے قیام، دولت کدہ وغیرہ سے نہ حاصل ہو سکتا ہو۔‘‘(ایضاً، ص،  203)

 اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ جس طرح خواہش، آرائش،فہمائش اور زیبائش جیسے الفاظ فارسی مصدروں کے حاصل مصدر کے طرز پر اردو بنا لیے گئے ہیں اس طرز پر ’رہائش ‘ کو نہیں بنایا گیا ہے۔فارسی میں حاصل مصدر بنانے کا طریقہ یہ کہ مصدر سے مضارع بناتے ہیں پھر مضارع کے آخری حرف کو ہٹا کر وہاں ’ ش‘  لگا دیتے ہیں۔ اب اس سے جو اسم حاصل ہوتا ہے اسے حاصل مصدر کہتے ہیں۔شمس الرحمن فاروقی جب فارسی کے اس قاعدے کے اصول پر ’رہائش ‘ کو جانچتے ہیں تو وہ پورا نہیں اترتا ہے۔انہی کے الفاظ ملاحظہ کریں

’’ اگر رہنا سے حاصل مصدر بقاعدئہ فارسی بنے گا تو ’رہش‘  ہوگا نہ کہ رہائش۔اور رہش یا رہائش میں جگہ کے معنیٰ شامل ہیں۔ اس لیے رہائش گاہ تو بالکل ہی فضول ہے۔‘‘(ایضاً،  ص،  203)

 شمس الرحمن فاروقی نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ فارسی قاعدے کے مطابق یہ رہائش نہیں ’رہش ‘ ہوگا۔ بعینہٖ یہی حال زیبائش و فہمائش کا بھی ہے۔یہ بھی فارسی قاعدے کی رو سے’ زیبش‘ و ’  فہمش‘ ہوں گے۔لیکن ان دونوں الفاظ کے استعمال پرشاید انہیں اعتراض اس لیے نہیں ہے کہ یہ اردو الفا ظ کے طور پر رائج ہوگئے ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں ’رہائش ‘  ذراکم استعمال میں ہے۔ ورنہ اگر فارسی قواعد کی رو سے رہائش کو مسترد کیا جا رہا ہے تو زیبائش و فہمائش کو بھی مسترد کردینا چاہیے تھا۔اسی لغت میں فاروقی صاحب کا یہ نظریہ بھی موجود ہے کہ ہماری زبان میں دخیل الفاظ جیسے بھی رائج ہیں ہم انہیں اردو کا مان کر ویسے ہی پڑھیں گے اور بولیں گے اگرچہ وہ اصل زبان کے لحاظ سے غلط ہوں۔جیسے کہ ’’استفادہ حاصل کرنا‘‘ عربی قواعد کی رو سے غلط ہے۔ اس لیے کہ لفظ استفادہ میں’ حاصل‘ کا معنیٰ پہلے سے موجود ہے۔ اس لیے اس کے ساتھ لفظ ’ حاصل ‘ کا اضافہ غیر ضروری ہے۔فاروقی صاحب کہتے ہیں کہ چونکہ اردو والے استفادہ سے صرف فائدہ مراد لیتے ہیں اس لیے یہی جاری رہنا چاہیے اگرچہ وہ عربی قاعدے کے مطابق غلط ہے۔راقم الحروف کا عریضہ یہ ہے کہ کیا اس نظریے کا اطلاق ’رہائش‘ اور ’رہائش گاہ ‘ پر نہیں ہو سکتا ہے۔جبکہ ہم ’رہائش ‘ سے قیام اور ’رہائش گاہ ‘ سے قیام گاہ مراد لیتے ہیں۔

اس طرح جن الفاظ کے ترک کرنے پر وہ زور دیتے ہیںان کی طویل فہرست ہے۔ظاہر ہے ان سبھی الفاظ کو اس مختصر سے مضمون میں نہ شامل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان پر بحث کی جا سکتی ہے۔پھر بھی کچھ الفاظ مزید درج کیے جارہے ہیںتاکہ تشنگی کا احساس کم سے کم رہے۔

 شمس الرحمن فاروقی لفظ ’ آگ زنی‘ کی جگہ’ آتش زنی‘ کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی طرح ’ آنر کلنگ‘ کی جگہ ’ناموسی قتل‘کو بہتر مانتے ہیں۔ ’آنجہانی‘کو بھی وہ واجب الترک قرار دیتے ہیں اور اس کی جگہ لفظ ’ مرحوم‘ کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔ان کی یہ بھی سفارش ہے کہ ’مرحوم ‘ ہر کسی کے لیے استعمال کیا جائے خواہ مرنے والا ہندو ہو یا مسلم۔ اسی طرح وہ ’آس پڑوس ‘کی جگہ’ پاس پڑوس ‘ کو بہتر مانتے ہیں۔وہ ’ تقرری‘ میں حرف ’ ی ‘ کو فاضل محض کہتے ہیں اور صرف ’تقرر‘ کے استعمال کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ اردو میں حرف تعمیم نہیں ہے اس لیے انگریزی کے ’ A‘ کا ترجمہ ہر جگہ ’ایک‘ کرنا مناسب نہیں ہے۔ انھوں نے مثال یہ پیش کی کہ ’John a good man ‘ اس کا ترجمہ یہ کرنا کہ ’’جان ایک اچھا آدمی ہے‘ ‘صحیح نہیں ہے۔اس لیے کہ انگریزی جملے میں ’A‘ حرف تعمیم کے طور پر ہے جس کا ترجمہ ’ایک ‘ کرنا اردو کے مزاج کے خلاف ہے۔اسی طرح وہ ’ لا پرواہی ‘ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’بے پروائی‘   اور ’  لا پروائی ‘ کے ہوتے ہوئے ’ لاپرواہی ‘  غیر ضروری اور غلط ہے‘‘۔ اسی طرح ’ مارے گئے‘کووہ ممنوع قرار دیتے ہیں۔یعنی اگر جملے میں یوں بولا جائے کہ ’’ حادثے میں بارہ آدمی مارے گئے‘‘یا  پھر اسے صیغۂ حال میں بولا جائے کہ ’’ روزانہ تین بچے مارے جاتے ہیں‘‘  تو ایسے تمام جملوںکو وہ غلط قرار دیتے ہیں۔ اور اس کی جگہ’’بارہ آدمی مرے‘ یا حادثے کا شکارہوئے،اور زمانہ حال کی صورت میں ’’روزانہ تین بچے مرتے ہیں‘‘ جیسے فقروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی دلیل وہ دیتے ہیںکہ معترضہ جملوں میں فاعل مذکور نہیں ہے اور ’حادثہ‘  فاعل کی جگہ نہیں لے سکتا ہے اس لیے’ مارے گئے ‘یا ’مارے جاتے ہیں‘ جیسے فقرے بے معنیٰ ہوں گے۔اسی طرح وہ لفظ ’یکسانیت ‘ کے تعلق سے کہتے ہیں کہ اگر یہ ’مشابہ‘ کے معنیٰ میں استعمال ہو رہا ہے تو نہ کیا جائے۔اس لیے کہ ہمارے پاس پہلے سے لفظ ’یکسانی‘ موجود ہے۔البتہ بعض لوگ ’یکسانیت‘ کو ’عدم تنوع‘کے معنیٰ میں استعمال کرتے ہیں جیسے کہ ’’ ان کے اشعار میں یکسانیت بہت ہے‘‘تو ایسی صورت میں قابل قبول ہے۔

پوری لغت میں ہمیں اس طرح کی بحث جا بہ جا نظر آتی ہے۔وجہ یہ ہے کہ فاروقی صاحب نے انہی الفاظ، فقروںاور لسانی اخترعات کو شامل کیا ہے جو اعراب و تلفظ اور تذکیر و تانیث میں مختلف فیہ ہیں یا یہ کہ ایسے چنندہ الفاظ شامل ہیں جن پر وہ گفتگو ضروری سمجھتے ہیں۔اسی لیے یہ لغت مروجہ لغات سے قطعی مختلف ہے،اسے ’ فیروز اللغات ‘ کے قبیل کی لغت نہیںسمجھنا چاہیے جس میں صرف معانی،مترادفات اور تذکیر و تانیث کا اندراج ہوتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کی منشا صرف معانی درج کرنا نہیں بلکہ معانی کے ساتھ اس لفظ سے متعلق ممکنہ مباحث پر روشنی ڈالنا ہے۔ کئی ایسے الفاظ بھی ہیں جن پر اہل علم اعتراض کرتے رہتے ہیں۔فاروقی صاحب نے ان معترضہ الفاظ پر اچھی گفتگو کی ہے اور معترضین کے اعتراض کا جواب بہ استدلال دے کر یہ بتایا ہے کہ کون سا اعتراض بجا ہے اورکون سا بے جا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ انہوںنے اس لغت میں صرف انہیں الفاظ کو شامل کیا ہے جن پر دوسرے اہل علم کو اعتراض ہے یا یہ کہ جنھیں خود شمس الرحمٰن فاروقی لائق ترک سمجھتے ہیں۔اصل میں معترضہ اور مختلف فیہ الفاظ کے ساتھ ساتھ ایسے مروجہ الفاظ بھی کثرت سے مندرج ہیں جن کی وہ تائید کرتے ہیں حتی کہ ان الفاظ کے ہو بہو استعمال پر زور دیتے ہوئے صاف طور پر کہتے ہیں کہ اسے ہی رائج رہنا چاہیے۔البتہ بعض الفاظ کے ترک کرنے کی سفارش بھی کرتے ہیں جس کا مختصر سا حصہ میں نے پچھلے صفحات میںپیش کردیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شمس الرحمن فاروقی کی ان سفارشات پر غور کیا جائے اور ان کے معقول اور مدلل وجوہات کو تسلیم کرتے ہوئے ان الفاظ کے استعمال سے بچا جائے جن کو وہ لائق ترک قرار دے چکے ہیں اوراس کی جگہ مجوزہ الفاظ کواستعمال کیا جائے۔تاکہ یہ الفاظ مقبول خاص و عام ہوسکیں۔

 

Mohd Naseem

Ph.D. Research Scholar, Dept. of Urdu

University of Hyderabad

CR Rao Raod, Gachibowli

Hyderabad - 500046 (Telangana)

Mob.: 9618474155

Email: naseemmanuu@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں