16/12/22

بھارتی ڈاک ٹکٹ اور اردو قلم کار: اسماعیل وفا


محکمۂ ڈاک میں رقم کی ادائیگی کی رسید کے طور پر سب سے پہلے انگلستان میں ڈاک ٹکٹ کی ابتدا  ہوئی۔ Penny Black نام  سے مشہور پہلا ڈاک ٹکٹ 1840 میں انگلستان میں استعمال کیا گیا تھا۔ اس ڈاک ٹکٹ پر ملکۂ برطانیہ ’وکٹوریہ‘ کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ انگلستان کی ہی نوآبادیات ہونے کی وجہ سے بھارت میں محکمۂ ڈاک اور ٹیلی گراف کی شروعات ہوگئی تھی۔ 1931 میں بھارت میں ڈاک ٹکٹ کی اشاعت کی شروعات ہوئی۔ اس وقت بادشاہوں اور شہزادوں کی تصاویر کو ڈاک ٹکٹ پر جگہ ملی۔ آزادی کے بعد بھارت کی تہذیب اور ہمارے قومی مزاج کے مطابق اس میں تبدیلی آئی۔

ڈاک ٹکٹ جمع کرنے کا شوقPhilately کہلاتا ہے۔ کسی بھی ملک کی طرح بھارت کے بھی ڈاک ٹکٹ، ملک کی تاریخ، ثقافت، قدرتی مناظر، تاریخی واقعات، جنگلاتی دولت، ملک کی ترقی کے مناظر، پنج سالہ منصوبے اور دیگر حکومتی اسکیموں کی کامیابیاں، مفکرین، مجاہدینِ آزادی اور ملک کے لیے جان دینے والے بہادروں کی کامیابیاں وغیرہ پیش کرتے ہیں۔ ڈاک ٹکٹ پر کسی شخص کی تصویر شائع ہونا اپنے آپ میں ایک بڑا اعزاز ہے۔ اس تناظر میں اردو زبان و ادب سے وابستہ افراد کی فہرست غالب سے کرشن چندر تک محیط ہے۔

مرزا غالب(27دسمبر 1797تا  15فروری 1869)

غالب اردو کے مشہور اور مقبول شاعر تو ہیں ہی، لیکن بھارت کی تہذیب اور زبان کو انھوں نے جس انداز میں پیش کیا ہے، لاجواب ہے۔یکم اکتوبر 1952کو  Saints of India سیریز میں سنت کبیر، تلسی داس اور میرا بائی،  سورداس اور رابندر ناتھ ٹیگور کے ساتھ مرزا اسد اللہ خان غالب کی بھی تصویر پر مبنی ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا، اس ٹکٹ کی قیمت ساڑھے چار آنہ تھی اور اس پر غالب کی پینٹنگ کو شامل کیا گیا تھا جو مروج تصاویر سے تھوڑا مختلف ہے۔ 1952کی مذکورہ بالا سیریز کے علاوہ غالب کی صدسالہ برسی کی تقریبات میں سر کاری طور پر اہتمام کے ضمن میں اس برس 17فروری 1969کو ایک اور ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا اس کی قیمت 20 پیسے تھی۔ غالب پر نہ صرف انڈیا بلکہ پاکستان میں بھی ڈاک ٹکٹ جاری ہوئے۔ 15فروری 1969کو پاکستان سے جاری ہونے والے دو ڈاک ٹکٹوں پر غالب کے  الگ الگ شعر لکھے گئے۔ اول ٹکٹ پر تحریر تھا        ؎

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب

ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

دوسرے ڈاک ٹکٹ پر دوسرا شعر شامل کیا گیا تھا       ؎

منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے

عرش سے پرے ہوتا کاش کہ مکاں اپنا

غالب کی شخصیت اور شاعری پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں۔ ان کے کلام کی تشریحات  اور شخصیت کے مختلف پہلوئوں کو پیش کیا گیا۔ ان کی حیات پر مبنی فلم ’مرزا غالب‘ (ڈائرکٹر سہراب مودی 1954) اور سیریل ’مرزا غالب (ڈائرکٹر گلزار،1988) کے علاوہ بھارت کی پارلیمنٹ کے مختلف برسوں کی بجٹ تقریروں میں غالب کے مختلف اشعار کے برجستہ اور چست استعمال سے غالب کی اہمیت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ مزیر برآںمشہور مورخ رام چندر گوہا کی شاہکار  India After Gandhiکی  شروعات غالب کی مثنوی ’چراغِ دیر‘ کے ترجمے اور تشریح سے ہونے سے جدید زمانے میں غالب کی معنویت کی تفہیم کی جاسکتی ہے۔  حتیٰ کہ مائکروسافٹ CEOستیہ نڈیلا نے اپنی تقریر میں غالب کا مندرجہ ذیل شعر استعمال کیا تھا       ؎

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم  نکلے

مولانا ابوالکلام آزاد (11نومبر1888تا 22فروری 1958)

مولانا آزاد نے کریئر کی شروعات صحافی اور مدیر کے طور پر کی تھی۔ درجنوں اخبارات سے وابستہ رہے اور کئی کتابیں تصنیف کیں۔ ان کی تین کتابیں شاہکار سمجھی جاسکتی ہیں۔ تذکرہ، غبارِ خاطر اور ترجمان القرآن۔ تذکرہ، سوانحی کتاب ہے جس میں خاندانی بزرگوں کا تذکرہ شامل ہے۔ ’غبارِ خاطر‘ مضمون کے طرز پر لکھے خطوط ہیں جو انھوں نے قلعۂ احمد نگر میں دورانِ اسیری اپنے دوست حبیب الرحمن خان شیروانی کو لکھے تھے۔ ’ترجمان القرآن‘، تفسیرِ قرآن ہے جو بلاشبہ مولانا آزاد کی شاہکار کتابوں میں بھی اولیت کی حامل ہے۔ اس کی ہر سطر سے صاحبِ تفسیر کی ذہانت، وسعتِ نظر و فکر اور علمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

مولانا آزاد نے متحدہ قومیت پر اس وقت بھروسہ کیا جب مذہب و سیاست سے وابستہ ایک بڑا طبقہ پاکستان کو کلمۂ حق کے ذریعے ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا۔ وقت نے ثابت کردیا کہ ان لوگوں کا نعرہ غلط تھا اور مولانا کا استدلال درست۔ خواہ سو برس گذر جائیں یا دو سو برس، غلط تقسیم کو صحیح ثابت نہیں کرسکتے۔ مولانا آزاد کی یاد میں11نومبر  1966 کو ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا تھا اس ٹکٹ کی قیمت 15پیسے تھی۔ 11نومبر 1988 کو جاری ڈاک ٹکٹ کی قیمت 60پیسے تھی جبکہ 2015 میں ڈاک ٹکٹ کی قیمت 5روپئے تھی۔ المختصر ان کی شخصیت پر تین ڈاک ٹکٹ جاری ہوئے۔

ڈاکٹر ذاکر حسین (8فروری 1897 تا 3مئی 1969)

ڈاکٹر ذاکر حسین ماہرِ تعلیم تھے۔ انھوں نے خونِ جگر سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی آبیاری کی اور کڑے وقت میں مادرِ علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی خدمت کی۔ جامعہ ہو یا علی گڑھ، انھوں نے طلبہ کی ترقی  اور ان کے مستقبل کو مقدم رکھا۔ نوجوانوں کی تربیت اور ان میں صالح اقدار پیدا کرنے کے لیے ہی انہوں نے ’پیامِ تعلیم‘ رسالہ اور معیاری کتابوں کی اشاعت کے لیے مکتبہ جامعہ لمٹیڈ قائم کیا۔ انھوں نے تعلیمی مصروفیات کے باوجود بچوں کے لیے کہانیاں لکھیں جو تعداد میں کم ہونے کے باوجود ہر دور کے بچوں کے لیے تفریح طبع کے ساتھ صالح اقدار کی جانب رہنما ہے۔

ذاکر صاحب راجیہ سبھا کے رکن اور بہار کے گورنر بننے کے بعد نائب صدر جمہوریہ منتخب ہوئے۔ 1967 میں انھیں  صدر جمہوریۂ ہند کے طور پر منتخب کیا گیاتھا۔ وہ 3مئی 1969 کو سفرِ آخرت پر روانہ ہوئے۔ اسی سال 11جون 1969کو ان کا یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا اس کی قیمت 20پیسے تھی۔  3مئی 1998کو دوبارہ ان کے اعزاز میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا اس کی قیمت 2روپئے تھی۔

منشی نول کشور (3جنوری 1836 تا 19فروری 1895)

صحافی کے طور پر کریئر کی شروعات کرنے والے منشی نول کشور نے1858میں لکھنؤ میں چھاپہ خانہ ’مطبع نول کشور‘ قائم کیا۔ انھوں نے نایاب کتابوں ، قلمی نسخوں  اور ادبی شہ پاروں کو پتھروں کی سِلوں سے گزار کر کاغذ پر اس طرح نقش کردیا کہ بلاشبہ انھیں مشرقی علوم کا محافظ کہا جاسکتا ہے۔1859 میں ان کے جاری کردہ اخبار ’اودھ اخبار‘ کو اس قدر مقبولیت ملی کہ تعداد اشاعت10 سے12ہزار تک پہنچ گئی تھی۔

ادبی شہ پاروں  کے ضمن میں ’داستانِ امیر حمزہ‘ ، شاہنامۂ فردوسی (بڑی سائز میں تین حصے) پیرہن یوسفی منظوم کا اردو ترجمہ، چھ جلدوں میں، جواہر الاسرار تین جلدوں میں، کلیات شمس تبریز، کلیاتِ عارفی اور کلیاتِ غالب وغیرہ اسی پریس سے شائع ہوئیں۔ غالب کے الفاظ میں، ’اس چھاپہ خانے میں جس کا بھی دیوان چھپا، اس کو زمین سے آسمان تک پہنچا دیا‘۔ منشی جی کا چھاپہ خانہ اس معنوں میں بے حد مشہور اور مقبول تھا کہ اس میں کلام پاک کی کتابت کرنے والے خوش نویسوں اور خطاطوں کو سخت ہدایت تھی کہ کبھی بھی بلاوضو کتابت نہیں کریں گے۔ گویا اسلامی تصنیفات کے سلسلے میں طہارت و پاکیزگی کا پورا خیال رکھا جاتا تھا۔ یہاں سے جو مذہبی نسخے شائع ہوتے تھے وہ دنیا بھر میں جاتے تھے۔

سماج کے تئیں خدمات کے پیش نظر برطانوی حکومت نے1877 میں انہیں قیصرِ ہند تفویض کیا۔ ان کی75ویں یومِ وفات 19فروری 1970کو محکمۂ ڈاک نے ان کا یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ اس ٹکٹ کی قیمت 20پیسے تھی۔

سرسید احمد خان (17اکتوبر 1817 تا 27مارچ 1898)

سرسید احمد خان کے قائم کردہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج، علی گڑھ نے برصغیر کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا۔  ان کی بدولت اردو نثر میں سادگی اور پرکاری در آئی۔ انھوں نے نثر کو عشق و عاشقی کے دائرہ سے نکال کر سائنسی فکر اور ملکی، سیاسی، اخلاقی و تاریخی مضامین سے آشنا کیا۔ تہذیب الاخلاق، نامی پرچے کی تحریروں کے ذریعے انھوں نے انشا پردازی کو درجۂ کمال تک پہنچا دیا۔ ’آثارالصنادید‘، اسبابِ بغاوتِ ہند، مضامینِ سرسید وغیرہ ان کی مشہور تصانیف ہیں۔

حکومتِ ہند نے سرسید کی یاد میںسرسید ڈے 17 اکتوبر 1973کو  ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا، اس ٹکٹ کی قیمت 20پیسے تھی۔27مارچ 1998کو ان کی صد سالہ برسی کے موقع پر بھی ڈاک ٹکٹ جاری کیا اس ٹکٹ کی قیمت 200پیسے یعنی 2روپئے تھی۔

میر انیس (1803تا 10دسمبر 1874)

بے مثل مرثیہ نویس اور مرثیہ خواں  میر انیس نے اردو غزل کے گیسو سنوارنے کی بجائے دین و آخرت کی کامیابی کو مقدم رکھا اور والدِ محترم کی نصیحت کی پاسداری کرتے ہوئے مرثیہ گوئی اختیار کی۔ انھوں نے اپنے اجداد کی مرثیہ گوئی کی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے لکھا      ؎

عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں

پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں

منظر نگاری، فارسی ترکیبات کی دل نشینی، بیان کی سادگی، خیالات کی نفاست نزاکت اور آلِ بیت کے مراتب کا لحاظ، پیمبرِ سخن میر انیس کے کلام کی خصوصیات تسلیم کی جاتی ہیں۔ ان کے کلام کی طرح  ان کا پڑھنا بھی بے مثل تھا یہی وجہ تھی کہ اس زمانے کے رئوسا اور امرا  ان کی مجلس میں شمولیت کو باعثِ افتخار سمجھتے تھے۔

غمِ حسین منانے کی بدولت انھیں نہ صرف عزت و شرف حاصل ہوا بلکہ ان کی وفات کے بعد بھی ان کی تکریم کا سلسلہ جاری رہا۔4ستمبر1975کو محکمۂ ڈاک نے ان کا یادگاری ٹکٹ جاری کیا۔ اس ٹکٹ کی قیمت 25پیسے تھی۔

امیر خسرو (1253تا اکتوبر 1325)

امیر خسرو نہ صرف اردو بلکہ ہندی کے بھی بنیاد گذار شاعر تھے۔ ایک ہی وقت میں آپ مفکر بھی تھے اور باعمل انسان بھی۔ صوفی بھی تھے اور دربار سے وابستہ معزز فرد بھی۔ وہ بھار ت کی روایت اور ماحول سے حد درجہ متاثر رہے۔ انھوں نے زندگی کی رنگینیوں اور عوامی جذبات کے ساتھ بھارتی تہذیب، ثقافت، رہن سہن، موسم اور ماحول کو اس طرح شاعری میں سمودیا کہ متحدہ قومیت کا وجود ہوا۔ امیر خسرو کی خدمات کے اعتراف میںان کے 700سالہ یومِ پیدائش کے جشن کے طور پر 24اکتوبر 1975کو حکومتِ ہند نے ڈاک ٹکٹ جاری کیا، اس ٹکٹ کی قیمت 50 پیسے تھی۔ اسی دن یعنی 24اکتوبر 1975 کو ہی پاکستان سے دو ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئے ایک ٹکٹ کی قیمت 20پیسہ اور دوسرے کی 2.25روپئے درج تھی۔  ساتھ ہی اس پر تحریر تھا ’طوطیِ شکرمقال‘۔  ساتھ ہی پس منظر میں طبلہ اور ستار بنائے گئے تھے۔

بہادر شاہ ظفر (24اکتوبر 1775تا 7نومبر 1862)

آخری مغل تاجدار محمد سراج الدین مرزا ابوظفر بہادر شاہ ثانی کو اردو، فارسی اور عربی پر دسترس حاصل تھی۔ قرآن کی تعلیم کے علاوہ سپاہیانہ فنون میں بھی مہارت حاصل کی۔ موصوف موسیقی، خوش نویسی اور شاعری میں نہ صرف حصہ لیتے بلکہ ان کی سرپرستی بھی فرماتے تھے۔ شاعری میں شیخ محمد ابراہیم ذوق سے اور بعد میں غالب سے اصلاح لیتے رہے اور ظفر تخلص اختیار کیا۔

1875کے خونیں معرکے میں حصہ لینے کی پاداش میں برطانوی حکومت نے انھیں مجرم قرار دیتے ہوئے رنگون (موجودہ برما) میں جلاوطن کردیا۔ انھوں نے شاعری بھی کی اور راہِ سلوک سے بھی وابستہ رہے۔ ان کا مجموعۂ کلام بھی شائع ہوچکاہے۔ ان کے بہت سارے اشعار اور غزلیں لوگوں میں عام ہیں۔ اسی بنا پر24 اکتوبر  1975کو  ان کی یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا تو ان کی تصویر کی بجائے درج ذیل چار مصرعے شائع کیے گئے     ؎

لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں

کس کی بنی ہے عالم نا پائیدار میں

کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں  اور جابسیں

اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں

محمد علی جوہر (10دسمبر 1878تا4جنوری 1931)

جنگِ بلقان اور پہلی جنگِ عظیم کے بعد بھارت میں جاری خلافت تحریک کے سرخیل، مولانا محمد علی جوہر بنیادی طور پر بہترین صحافی اور پرجوش شاعر تھے۔ ترکی میں خلافت کی بقاکے لیے انگریزوں پر دباؤ پیدا کرنے کے مقصد کے تحت ہی دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی رکھنے والے ملک بھارت میں خلافت تحریک شروع کی گئی تھی۔ 1924میں ترکی میں خلافت کے خاتمے کے بعد بھارت کی یہ تحریک اپنی موت آپ مر گئی۔

محمد علی جوہر بہترین خطیب اور پرجوش شاعر تھے۔ ان کے چند مشہور اشعار حسبِ ذیل ہیں       ؎

قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

ساری دنیا یہ سمجھتی ہے کہ سودائی ہے

اب مرا ہوش میں آنا تیری رسوائی ہے

توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے

یہ بندہ زمانے سے خفا میرے لیے ہے

10دسمبر 1978کو مولانا محمد علی جوہر کی 100ویں یومِ پیدائش کے موقع پربھارت نے ڈاک ٹکٹ جاری کیاجس کی قیمت 25پیسے تھی۔

پروفیسر سید محمد ضامن علی ضامن

(25جون 1880تا25اپریل 1955)

مشرق کے آکسفورڈکہلائے جانے والے تعلیمی ادارہ ’الٰہ آباد یونیورسٹی‘ میں اولین صدر شعبۂ اردو اور اردو کے پہلے پروفیسر، سید ضامن علی ضامن تھے۔ شمالی ہند میں یہ عروج کسی اور اردو استاد کو نصیب نہیں ہوا حتیٰ کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی پروفیسر کی جگہ بعد میں قائم ہوئی تھی۔

ضامن صاحب کا تقرر 1924 میں اردو کے استادِ اول کے طور پر ہوا تھا۔ وہ بڑی محنت سے طلبہ کو پڑھاتے اور ادب کی باریکیوں سے واقف کراتے تھے۔ ان ہی کی محنت کا ثمرہ تھا کہ شعبۂ اردو نے نہایت ترقی کی۔ طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے شعبۂ اردو کا میگزین رسالہ ’نیساں ‘1934 میں جاری کیا۔ صدر شعبۂ اردو کے طور پرآپ اس رسالے کے مدیر رہے جبکہ نائب مدیران میں سید حامد حسین بلگرامی، سید طالب علی طالب، سید رفیق حسین رفیق اور سید احتشام حسین رضوی شامل تھے۔ اس ٹیم میں سید اعجاز حسین کو ناظم و معتمد کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔ شعبے کی دفتری ذمے داریوں کی بدولت آپ تصنیف و تالیف کی جانب توجہ نہ دے سکے۔ لیکن اردو کے تئیں  ان کی خدمات کی بدولت نہ صرف انھیں بلکہ شعبۂ اردو کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

پروفیسر ضامن کی 100ویں یومِ پیدائش یعنی 25جون 1980میں ان کی یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا۔ اس ٹکٹ کی قیمت 30پیسے تھی۔

منشی پریم چند (31جولائی 1880تا 8اکتوبر 1936)

منشی پریم چند اردو کے عظیم افسانہ نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے اردو افسانے کو رومانوی، طلسماتی اور داستانی فضا سے باہر نکال کر حقیقت سے بہرہ ور کیا۔ انھوں نے مروج اسلوب سے اعراض کرتے ہوئے سادہ زبان میں ہندوستانی سماج اور مشترکہ تہذیب اس طرح پیش کی کہ ان افسانوں میں روحِ عصر کی موجودگی نے انھیں انسانیت اور درد مندی کا مرقع بنادیا۔

1905 میں ان کا افسانوی مجموعہ ’سوزِ وطن‘ شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے کی وجہ سے ان پر بغاوت کو ہوا دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے مقدمہ چلایا گیا اور کاپیاں ضبط کرلی گئیں۔ ان کے بہت سارے ناول اور تخلیقات دونوں زبانوں اردو اور ہندی میں شائع ہوئے۔ پریم چند کا افسانہ ’کفن‘ ان کا اہم ترین افسانہ کہا جاسکتا ہے، جو غربت کے سماجی اور نفسیاتی اثرات کو محیط کرتا ہوا ایسا شاہکار ہے جس کا اردو ہی نہیں دیگر کسی بھارتی زبان میں بھی کوئی جواب نہیں۔

پریم چند کو حکومتی سطح پر بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ 31جولائی 1980کو ان کے 100ویں یومِ ولادت کے موقعے پر ان کی شخصیت پر مبنی ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا  اس ٹکٹ کی قیمت 30پیسے تھی۔ ان کے مشہور ناول ’گئو دان‘ سے منسوب ایک ریل ’گئو دان ایکسپریس‘2001 میں شروع کی گئی جو لوکمانیہ تلک ٹرمنس (ممبئی) سے اعظم گڑھ (اتر پردیش) کے درمیان سفر کرتی ہے۔ 2005 میں ان کی رہائش گاہ (لَمہی گائوں، وارانسی)کو سرکاری سطح پر اسمارک کا درجہ دیا گیا۔

حکیم اجمل خان  (11فروری 1868 تا20دسمبر 1927 )

حکیم اجمل خان بے مثل طبیب اور نڈر مجاہدِ آزادی تھے۔ انھوں نے نہ صرف جذباتی اور جسمانی طور پر ملک کی آزادی کی کوشش کی بلکہ مالی طور پر تحریکِ عدم تعاون کو استحکام بخشا۔ انھوں نے خاندان شریفی سے تعلق اور طبابت میں مہارت کی بدولت جو دولت کمائی قومی تعلیم کے مقصد کے تحت کام کرنے والے ادارے کے لیے خرچ کردی جہاں کے وہ چانسلر تھے۔

حکیم صاحب اپنے زمانے کے با رسوخ اور معزز ترین افراد میں شمار کیے جاتے تھے یہی وجہ تھی کہ تحریک ترک موالات کے دوران آپ کا حکومتی اعزاز واپس کرنا ایک اہم واقعہ تھا۔ حکیم صاحب نے طبابت کا پیشہ تو اپنایا لیکن آپ دامنِ سخن سے بھی وابستہ رہے اور ’شیدا‘ تخلص اختیار کیا۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے جرمنی میں قیام کے دوران آپ کے مجموعۂ کلام کی اشاعت بھی کروائی تھی گو کہ 13فروری 1987 کو آپ کی یاد میں ڈاک ٹکٹ (قیمت 60پیسے) مجاہدِ آزادی کے طور پر آپ کی خدمات کا اعتراف تھا لیکن اردو ادب سے آپ کی وابستگی، دیوان کی موجودگی میں نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔

ڈاکٹر محمد اقبال (9نومبر 1877 تا21اپریل 1938)

ڈاکٹر محمد اقبال اردو اور فارسی کے اہم ترین شاعر  اور برصغیر کی با اثر ترین شخصیات میں شمار کیے جاتے ہیں۔ آپ کی شاعری میں اول وطنی موضوع شامل رہے بعدہٗ فلسفیانہ انداز، مشرقیت اور اسلامی موضوعات در آئے۔ انھوں نے یورپ کی مادّیت کے جواب میں مشرق کی روحانیت سامنے کردی۔

1938 میں اقبال سفر آخرت پر روانہ ہوئے تو 50ہزار سے زائد نفوس نے جلوسِ جنازہ میں شرکت کی۔ انھیں لاہور کی بادشاہی مسجد کے مینار کے سائے تلے دفن کیا گیا۔ ان کی شخصیت اور شاعری کو نہ صرف بھارت اور پاکستان بلکہ برصغیر اور عالمِ اسلام کی میراث سمجھا گیا۔ اسی لیے بھارتی حکومت نے  21اپریل1988 کو ان کی یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ جس کی قیمت 60پیسے تھی اور اس پر ان کا مصرع درج تھا   ع

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

جبکہ حکومت  پاکستان نے 1967،1974، 1977، 1988اور 2017میں ڈاک ٹکٹ جاری کیے۔  اس کے علاوہ ترکی (1977) اور ایران (1997) سے بھی ان کا یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا۔

11مئی 1989 کو آصف علی کی شخصیت پر مبنی ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا۔ اس ٹکٹ کی قیمت 60پیسے تھی۔

امام احمد رضا خان بریلوی (14جون1856تا 28اکتوبر 1921)

امام احمد رضا خان صاحب بہ یک وقت عالمِ دین، عاشقِ رسول، نعت گو شاعر، اعلیٰ پائے کے مصنف، فتویٰ نویس اور مفکر تھے۔ ان کی بہت ساری تصانیف اور علمی سرمایے میں دو شاہکار خاصے مشہور ہیں۔ فتاویٰ رضویہ (12جلدیں) اور قرآن مجید کا ترجمہ ’کنز الایمان‘۔ ان کا نعتیہ دیوان ’حدائقِ بخشش‘ بھی مقبول  عام ہے۔

31دسمبر 1995کو  حکومتِ ہند نے آپ کے اعزاز میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ اس ٹکٹ کی قیمت 100 پیسے یعنی ایک روپیہ تھی۔

فراق گورکھپوری (28اگست 1869تا 3مارچ1982)

رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری الٰہ آباد یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر تھے۔ انھوں نے اردو زبان و ادب کے حوالے سے بے حد مقبولیت اور شہرت حاصل کی تھی۔ بقولِ محمد حسن عسکری، ’’فراق صاحب اردو شاعری میں ایک نئی آواز نیا لب و لہجہ، نیاز طرزِ احساس، ایک نئی قوت بلکہ ایک نئی زبان لے کر آئے۔‘‘

ان کی شاعری کے بہت سارے انتخابات شائع ہوئے۔ 1960 میں انھیں ’گلِ نغمہ‘ کے لیے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملا۔ 1969 میں ادب کے لیے دیا جانے والا سب سے بڑا ایوارڈ گیان پیٹھ ایوارڈ تفویض کیا گیا۔ انھیں حکومتِ ہند کی جانب سے تیسرا سب سے بڑا شہری انعام پدم بھوشن (1968) بھی تفویض کیا گیا تھا۔

فراق کی شخصیت اور شاعری کے اعتراف میں 28اگست 1997 کو حکومتِ ہند نے ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ اس ٹکٹ کی قیمت 200پیسے یعنی 2روپئے تھی۔

اسرار الحق مجاز (19اکتوبر 1911 تا 5دسمبر 1952)

اسرار الحق مجاز نے کم ہی عرصے میں بے پناہ مقبولیت اور شہرت حاصل کرلی تھی۔ ان کی غزلوں سے زیادہ ان کی نظمیں مشہور ہوئیں جن میں ’نوجوان خاتون‘، ’آوارہ‘ اور ’رات اور ریل‘ وغیرہ شمار کی جاسکتی ہیں۔ گوکہ ان کی نظموں کو فلموں میں بھی استعمال کیا گیا لیکن گیت کار کے طور پر وہ فلم نگری میں کامیاب نہ ہوسکے۔ انھوں نے ’نیا ادب‘ اور ’پرچم‘ کی ادارت بھی کی۔ ان کا شعری سرمایہ ’آہنگ‘ کے نام سے ترتیب دے کر شائع کیا گیا تھا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ترانہ تحریر کرنے والے اس البیلے شاعر پر28مارچ  2008 کو ڈاک ٹکٹ جاری ہوا (قیمت 500پیسے یعنی 5روپئے) تو اس پر ان کی تصویر کے ساتھ ان کا شعر درج تھا      ؎  

بخشی ہیں ہم کو عشق نے وہ جرأتیں مجاز

ڈرتے نہیں سیاستِ اہلِ جہاں سے ہم

مینا کماری (1اگست 1933 تا31مارچ  1972)

میناکماری پردۂ سیمیں پر بے حد کامیاب اداکارہ تھیں۔ بے مثل اداکاری کے لیے انھیں فلم فیئر ایوارڈ 1954 میں فلم ’بیجو باورا‘ کے لیے ،1955 میں فلم ’پری نیتا‘ کے لیے اور 1963 میں  فلم ’صاحب بی بی اور غلام‘ کے لیے تفویض کیا گیا تھا۔ نیز ان کی اداکاری سے سجی فلمیں 36ویں  اور41ویں اکیڈمی ایوارڈ کی غیر ملکی زمرہ کے لیے بھارت کی جانب سے بھیجی گئی تھیں۔ یہ فلمیں  بالترتیب ’صاحب بی بی اور غلام‘ اور ’منجھلی دیدی‘ تھیں۔

شوہر کی توجہ نہ ملنے کے سبب میناکماری کی نجی زندگی ناکام رہی۔ انھوں نے ’ناز‘ تخلص اختیار کیا۔ ان کی موت کے بعد 1972 میں گلزار نے ان کی شاعری کو مرتب کیا جسے شمع گروپ نے اہتمام سے شائع کیا تھا جس میں لکھا تھا ’’خونِ دل سے لکھی ہوئی نظمیں‘ آہوں اور سسکیوں سے ترتیب دی ہوئیں غزلیں، کاجل بھرے آنسوئوں کی روشنی سے بنی ہوئی تصویروں کے ساتھ شائع کی گئی ہیں۔‘‘

میناکماری ناز کی یاد میں13فروری  2011 میں محکمۂ ڈاک نے ڈاک ٹکٹ جاری کیا، اس ٹکٹ کی قیمت  500پیسے یعنی 5روپئے تھی۔

مولانا حسین احمد مدنی (6اکتوبر  1879تا5دسمبر  1954)

مولانا حسین احمد مدنی دارالعلوم دیوبند سے وابستہ مشہور عالمِ دین اور مجاہدِ آزادی تھے۔ انھوں نے تحریکِ ریشمی رومال میں شرکت کی تھی اور اس کی پاداش میں مالٹا میں انگریزی حکومت کی قید کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ انھوں نے جمعیۃ العلماکے صدر کے طور پر خدمات انجام دینے کے علاوہ تقسیمِ ہند کے نازک موڑ پر متحدہ قومیت کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے وہ تنقید کا نشانہ بھی رہے۔

مولانا حسین احمد مدنی نے بہت ساری کتابیں تصنیف کیں۔ یہ کتابیں مذہبی نوعیت کی حامل ہیں۔ ان کی خود نوشت سوانح حیات ’نقشِ حیات‘ بھی شائع ہوچکی ہے۔ 1954 میں حکومتِ ہند نے انھیں شہری اعزاز پدم بھوشن تفویض کیا تھا لیکن انھوں نے قبول کرنے سے معذرت کرلی کہ بزرگوں کی روش کے خلاف ہے۔ 29 اگست  2012 کو ان کی شخصیت پر مبنی ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا،  اس ٹکٹ کی قیمت 500پیسے یعنی 5روپئے تھی۔

مجروح سلطانپوری  (1اکتوبر 1919 تا 24مئی 2000)

اسرار الحسن خان المعروف مجروح سلطانپوری نے درس نظامی کی بھی تکمیل کی اور طبِ یونانی سے بھی وابستہ رہے لیکن دامنِ سخن سے وابستگی کی بدولت انھیں کامیابی اور شہرت نصیب ہوئی۔ انھوں نے 300 سے زائد فلموں کے لیے ہزار ہا گیت تحریر کیے۔ مقبول گیت کار ہونے کے باوجود ادب کے وقار اورتہذیب کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ انھوں نے غزل کو اس وقت سینے سے لگایا جب اسے دوسری اصناف پر فوقیت دی جارہی تھی۔ ان کا اولین مجموعۂ کلام ’غزل1956‘ میں شائع ہوا 1999  میں اس مجموعے کو ترتیب و اضافے کے ساتھ ’مشعلِ جاں‘ نام سے پیش کیا گیا۔

فلم نگری اور اردو شاعری دونوں جگہ انھیں اعزاز و اکرام نصیب ہوا۔ ادبی خدمات کے لیے جہاں ان کی خدمات میں ’اقبال سمان‘ پیش کیا گیا وہیں فلم نگری میں سب سے بڑا اعزاز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ (1993) سے سرفراز ہونے والے اولین گیت کار ہونے کا شرف انہیں حاصل ہوا۔ 3مئی2013کو  مجروح سلطانپوری پر ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا، اس ٹکٹ کی قیمت 500پیسے یعنی 5روپئے تھی۔

شکیل بدایونی (3اگست 1916 تا20اپریل 1970)

شکیل بدایونی شاعر بھی تھے اور گیت کار بھی۔ ان کے فلمی گیتوں کی مقبولیت کے سبب ہی ’گیت کار اعظم‘ پکارے گئے۔ فلم فیئر ایوارڈ برائے نغمہ نگاری مسلسل تین برس پانے والے شکیل اکلوتے شاعر ہیں۔ انھیں1961 میں فلم ’چودھویں کا چاند‘ کا نغمہ ’چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو...‘ کے لیے، 1962میں فلم ’گھرانہ‘ کے نغمہ ’حسن والے تیرا جواب نہیں‘ کے لیے اور 1963میں فلم ’20سال بعد‘ کے گیت ’کہیں دیپ جلے کہیں دل‘  کے لیے فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔  ان کے پانچ عدد شعری مجموعے  غم فردوس، صنم و حرم، رعنائیاں، رنگینیاں اور ’شبستاں‘ شائع ہوئے۔

3مئی 2013کو شکیل بدایونی کی  یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا۔ اس ٹکٹ کی قیمت 500پیسے یعنی 5 روپئے تھی۔

ساحر لدھیانوی (8مارچ 1921 تا25اکتوبر 1980)

ساحر کے مجموعۂ کلام ’تلخیاں‘ نے جہاں  بے مثل کامیابی حاصل کی وہیں پردۂ سیمیں کے لیے لکھے ان کے گیت، فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے۔ رعنائی خیال، حسنِ بیان اور اجنبی تشبیہوں اور استعاروں سے گریز کی بدولت ان کے فن کو اردو ادب میں ممتاز مقام حاصل ہوا۔ الفاظ کے بیش قیمتی موتیوں سے ساحر نے دولت بھی کمائی اور دنیا کو خواب بھی دکھائے  لیکن عمر بھر ماضی سے گریزاں، حال سے ناآسودہ اور مستقبل سے ہراساں سے رہے۔

8مارچ2013 کو ساحرکی یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا، اس ٹکٹ کی قیمت 500پیسے یعنی 5روپئے تھی۔

مولانا حسرت موہانی (1875تا 13مئی1951)

سید فضل الحسن حسرت موہانی سیاسی رہنما، رومانوی شاعر اور راہِ سلوک سے وابستہ، شریعت کے پیروکار باعمل مسلمان تھے۔ انھوں نے اردوئے معلیٰ کی ادارت بھی کی اور احمد آباد کانگریس اجلاس میں مکمل آزادی کی وکالت بھی۔ وہ کمیونسٹ پارٹی سے بھی وابستہ رہے اور دستور ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ مختار مسعود کے مطابق، ’ان کی ذات کی تقسیم یوں ہوئی کہ دماغ سیاست کو ملا، دل شاعری کو بخشا گیا اور پیشانی عبادت کے لیے وقف ہوگئی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حسرت نے جسم کے ہر حصے کو تین خانوں میں تقسیم کررکھا ہو۔ کہنے کو دل ایک تھا مگر محض سیاست، سلوک اور شاعری سے بھی سنگ و خشت۔ کبھی گداز و نرم اور کبھی شوخ و گستاخ۔ حسرت کا کمال ہے کہ بیک وقت تین راہوں پر مختلف سمتوں میں چلتے رہے۔ نہ کوئی راہ گم کی اور نہ کسی منزل سے محروم رہے۔ ان کے یہاں سیاست، سلوک اور شاعری خلط ملط نہیں ہوتے۔ وہ باغیانہ تقریریں کرتے ہیں مگر باغیانہ اشعار سے پرہیز کرتے ہیں۔ شعر میں کھل کر معاملہ کے مضامین باندھے اور زندگی میں سختی سے آداب و اخلاق کی پابندی روا رکھی۔ ان میں شاعر جتنا نرم خو چھپا ہوا تھا۔ لیڈر اتنا ہی تند خو تھا۔ ان کے شعر حریر و پرنیاں تھے، ذات خشک و درشت اور صفات منبر و محراب۔  (مختار مسعود، آوازِ دوست، 1972، ص104-05)

کرشن چندر (23نومبر 1914تا8مارچ 1977)کرشن چندر ایشیاکے مقبول ترین مصنّفین میں شمار کیے جاتے تھے۔  ان کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی تھیں۔ ان کے تحریر کردہ افسانے اور ناول علاقائی زبانوں کے علاوہ بین الاقوامی زبانوں میں ترجمے کیے گئے۔ ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا گیا۔ روسی زبان میں کتابوں کے ترجمے کے علاوہ روس کے مختلف ثقافتی دوروں میں انھیں یاد رکھا گیا۔

افسانے اور ناول کے علاوہ انھوں نے فلموں  کے لیے مکالمے بھی لکھے۔50سے زائد فلموں میں خصوصاً ممتا، شرافت، دوچور، منچلی، ہمراہی،  چمبل کی رانی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

n

Ismail Wafa

S. No 114/1-4, Near Pawarwadi Police Station

Pawarwadi, Malegaon

Distt.: Nasik - 423203 (Maharashtra)

Mob.: 8857959406

 

 

 

 

 

 

 

 

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں