16/12/22

نذیر بنارسی کی شاعری میں ذکرگاندھی: تمنا شاہین


 مہاتما گاندھی کا شمار ہندوستان کے ان عظیم دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے جنھوں نے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ دراصل موہن داس کرم چند گاندھی غلام ہندوستان میں پیدا ہوئے انھوں نے انگریزوں کے مظالم اور جبرو استبداد کو بڑے قریب سے دیکھا۔ہر لمحہ دم توڑتی انسانیت اور معصوم ہندوستانیوں کی شکست نے ان کے حساس دل ودماغ کو بری طرح متاثر کیا۔ایسے ناگفتہ بہ حالات میں انھوں عجلت پسندی سے کام نہ لے کر ہندوستانیوں کی ابتری کا بہ غور جائزہ لیااور اپنے افکار و نظریات کی وسعت وہمہ گیریت کی بدولت ہندوستانی عوام کو ایسے انقلاب کی دعوت دی جس کی بنیاد سچائی اور اہنسا پر رکھی گئی تھی۔وہ ایک دور اندیش شخص تھے اور اس بات سے بہ خوبی واقف تھے کہ انقلابی مہم کے ابتدائی دور میں انھیں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گالیکن انھیں اپنی ہمت اور حوصلے پر یقین کامل تھا اسی لیے لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔ انھوں نے معاشرے میں پھیلی نا برابری اور نا انصافی کے تدارک کے لیے جو طریقے اختیار کیے ان سے متاثر ہوکر بڑی تعداد میں لوگ ان کی جماعت میں شامل ہو گئے۔ان کی رہنمائی میں جو تحریکیں چلیں ان میں لاکھوں انسان قید ہوئے اور سیکڑوں نے اپنی جانیں بھی قربان کیں لیکن اپنے قدم پیچھے نہ کیے کیونکہ انھیں گاندھی جی کے طریقۂ کار سے کوئی اختلاف نہیں تھا بلکہ انھیں پختہ یقین تھا کہ وہ جلد ہی اپنے عظیم مقصد میں کامیابی حاصل کریں گے۔ یو۔ آر۔راؤ۔ نے اپنی کتا ب ’ایسے تھے گاندھی‘ میں ان کے طریقۂ کار پر کچھ یوں روشنی ڈالی ہے:

’’باپو نے ملک کو آزادی دلانے کے لیے ستیہ گرہ کا طریقہ اپنایا۔مختلف اوقات میں البتہ اس کی صورت مختلف رہی1920-21میں برطانوی سرکار اور اس کے مختلف اداروں سے عدم تعاون،  1930-32 میں نمک ستیہ گرہ یا نمک سے متعلق قوانین کی سول نافرمانی،  1940-42میں جنگ کے خلاف انفرادی ستیہ گرہ  اور ہندوستان چھوڑ دو  جو برطانوی راج کے خاتمے کے لیے ملک بھر میں چلائی گئی،  ’ کرو یا مرو ‘  کی پُر امن تحریک شاید اس سلسلے کی آخری کڑی ہوتی لیکن 19 اگست 1942 کو گاندھی جی کو گرفتار کر لیا گیا۔جب باپوجیل میں نظر بند نہ ہوتے یا جب وہ ستیہ گرہ کی تحریکوں میں سرگرمی سے شریک نہ ہوتے تب وہ اپنی ساری توجہ اپنے تعمیری پروگرام پر صرف کیا کرتے تھے۔ان کے تعمیری پروگرام میں سودیشی کا چلن،  چھوت چھات کا خاتمہ،  ہریجنوں کا سدھار،  فرقہ ورانہ ہم آہنگی، نشہ بندی، بنیادی تعلیم، دیہی صنعتوں کی تجدیداور گرام سوراج جیسی اصلاحیںاور اہم سرگرمیاں شامل رہتی تھیں۔‘‘

( ایسے تھے گاندھی: یو آرراؤ،  پبلی کیشنز ڈویشن وزارت اطلاعات و نشریات حکومت ہند 1969، ص3-4)

مہاتما گاندھی نے قیدوبند کی صعوبتوں کے علاوہ بے شمار اذیتیں بھی برداشت کیں لیکن انھیں غلامی کی موت گوارانہ تھی۔اس لیے انھوں نے آزادی کی جدوجہد میں اپنی ساری زندگی وقف کر دی۔ان کی زندگی میں بعض ایسے مواقع بھی آئے جب ان کی خودداری، غیرت و حمیت اور عزت نفس کو پامال کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ اس وقت بھی انھوں نے ستیہ گرہ اور اہنسا کا راستہ نہ چھوڑا، بلکہ نفرت، بے رحمی اور خوںریزی کا جواب دوستی، صلح اور امن وامان سے دیا۔وہ ہمیشہ ملک و قوم کی فکر میں مبتلا رہے۔انھوں نے اپنی دور اندیشی سے ہندوستانی عوام کو نہ صرف آنے والے خطرات سے آگاہ کیا بلکہ ان سے نبرد آزمائی کے طریقے بھی بتائے۔حقوق انسانی کی پاسداری، طبقاتی کشمکش مٹانے اور بے اختیار لوگوں کو بااختیار بنانے کے لیے انھوں نے زبانی دعوے کرنے کے بجائے عملی اقدام اٹھائے۔پس ماندہ طبقے کے لوگوں کے درمیان بیٹھ کر معاشرے میں ان کو عزت دلائی۔ان کا یہ خیال تھاکہ سماج میں تبدیلی لانے کے لیے پہلے خود کو بدلناہوگا۔اسی لیے انھوںنے اپنی سادگی، شرافت، سچائی اور منکسرالمزاجی سے اپنے طور پر لوگوں کو بیدار کرنا شروع کیا۔

مہاتما گاندھی نے عوام وخواص کے ساتھ ہندوستانی شاعروں اور ادیبوں پر بھی اپنی شخصیت کی گہری چھاپ چھوڑی ہے۔بعض قلم کاروں نے ان کی زندگی میں ہی ان کی عظمت کا اعتراف کیا۔ان کی صداقت، رحم دلی، عاجزی وانکساری کے ساتھ ہمت، بہادری اور جواں مردی کے نغمے گائے۔جب کہ بعضوں نے ان کی وفات کے بعد اپنی تخلیقات کے وسیلے سے ان کو خراج عقیدت پیش کیا۔دراصل مہاتما گاندھی کا قتل ہندوستانی تاریخ کا ایسا سانحہ ہے جس نے ہندوستانی عوام میں لرزہ طاری کر دیا۔اپنے محسن، مشفق اور سچے رہنما کی موت ان کے لیے ناقابل یقین تھی۔ان کے سانحۂ ارتحال پر ہندوستان کی تمام ادبیات میں ان کی شخصیت اور کارناموں پر متواتر تحریریں منظر عام پر آنے لگیں۔اردو شعرا نے بھی ان کی شخصیت کے منظوم خاکے تحریر کیے جن میں مجاز،جگر، آنند نرائن ملّا، بسمل الہ آبادی، نشور واحدی، شمیم کرہانی، نازش پرتاپ گڑھی اور نذیر بنارسی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

نذیر بنارسی قومی یکجہتی اور وطن دوستی کے شاعر تھے۔ہندوستان کی مٹی سے ان کو گہری محبت تھی جس کا والہانہ اظہار انھوں نے اپنی شاعری میں کیاہے۔انھوں نے ہندوستانی تہذیب وثقافت، تیج تہوار، میلے ٹھیلے، رسم ورواج اور آپسی بھائی چارے کی عمدہ تصویر کشی کی ہے۔ پیارا ہندوستان،پیام وطن، عید، ہولی، دیوالی، بسنت پنچمی، رام نومی، جنم اشٹمی، 15اگست اور 26 جنوری جیسی نظموں میں مادر وطن سے ا ن کی عقیدت و محبت واضح طور پر نظر آتی ہے۔ان کی نظموں کا غالب حصہ قومی مسائل سے متعلق ہے۔’کلیات نذیر ‘کا بہ غور مطالعہ کرنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی شاعری حب الوطنی کے سطحی اظہار سے بلند ہے کیونکہ ان کی بیشتر نظمیںان کے جذبات واحساسات اور اس عقیدت واحترام کا ثبوت فراہم کرتی ہیں جو ان کو ہندوستان کی مشترکہ تہذیب سے تھا۔ نذیر بنارسی کو مجاہدین آزادی سے خاص رغبت وانسیت تھی ان کی قربانیوں کو انھوںنے  فنی جمالیات کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے گاندھی جی کی شان میں کئی نظمیںلکھی ہیں۔ ان کو مہاتما گاندھی سے قلبی لگاؤ تھا۔ وہ ان کے نظریے کی تائید کرتے تھے نذیر کو معلوم تھا کہ جو کام جذبات و احساسات کی بدولت ہو سکتا ہے وہ تلوار کبھی نہیں کر سکتی اس لیے وہ گاندھی جی کو اپنا رہبر و رہنما تسلیم کرتے تھے۔انھیں یقین تھا کہ مہاتما گاندھی کی قیادت میں جلد ہی ہندوستانیوں کو ان کا کھویا ہواوقار واپس مل جائے گا اور وہ آزاد فضا میں سانس لے سکیں گے۔گاندھی جی کی موت نے ان کے بے شمار مداحوں کی طرح نذیر کو بھی اشک بار کیا۔ان کے انتقال کی خبر سنتے ہی نذیر پر رقت کی کیفیت طاری ہوگئی اور ایک قلم برداشتہ نظم ’آہ گاندھی‘وجودمیں آئی۔نظم کے درج ذیل بند سے نذیر کی عقیدت ومحبت، افسوس اور رنج وغم کی ملی جلی کیفیت کا اندازہ بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے    ؎

ترے ماتم میں شامل ہیں زمین و آسماں والے

 اہنسا کے پجاری سوگ میں ہیں دو جہاں والے

اسی کو مار ڈالا جس نے سر اونچا کیا سب کا

نہ کیوں غیرت سے سر نیچا کریں ہندوستاں والے

مرے گاندھی زمیں والوں نے تیری قدر جب کم کی

اٹھا کر لے گئے تجھ کو زمیں سے آسماں والے

سنے گا اے نذیر اب کون مظلوموں کی فریادیں

فغاں لے کر کہاں جائیں گے اب آہ و فغاں والے

(کلیات نذیر بنارسی مرتب ناظر حسین،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی2014، ص39)

نذیر بنارسی نے مہاتما گاندھی کی حق پرستی، سچائی، امن و آشتی اور ہندوستانیوں کے لیے ان کی جاں نثاری کی عمدہ تصویر کشی کی ہے انھوں نے عشق گاندھی کے جذبے سے لبریز ہوکر ان کو مختلف تشبیہات واستعارات کے ذریعے الگ الگ خطاب دیے ہیںان کی عقیدت، خلوص اور محبت کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے گاندھی جی کو ’امن کا دیوتا‘ بنا دیا۔اس نظم سے ایک بند ملاحظہ کیجیے         ؎

روشنی دے کے ہمیں روشنی والا نہ رہا

شانتی کیسے ملے شانتی والا نہ رہا

چلتا پھرتا وہ محبت کا شوالا نہ رہا

وہی گوکل ہے مگر بانسری والا نہ رہا

اب نہیں پوری ملاقات تو آدھی ہی سہی

آج باپو نہیںباپو کی سمادھی ہی  سہی

( ایضاً ص53)

نذیر کی نظروںمیں مہاتما گاندھی امن کے دیوتا بھی تھے اور اہنسا کے پجاری بھی۔سچائی کے علم بردار بھی تھے اور خلوص ومحبت کے پیروکار بھی۔ان کا یہ ماننا تھا کہ مہاتما گاندھی ایک باغبان کی طرح ملک و قوم کے تحفظ اور بقا کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔جس طرح مالی اپنے باغ کو خون جگر سے سینچتا ہے، اسے اپنے تمام پھولوں اور پتیوں سے بے انتہا لگاؤ ہوتا ہے اسی طرح مہاتماگاندھی کو بھی اپنے وطن کے نو نہالوں، نوجوانوں اور بزرگوں سے اٹوٹ محبت تھی وہ جب تک زندہ رہے،قوم کی فلاح وبہبود کے لیے کوشاں رہے۔انھوں نے ہندوستانی عوام کو ان کے مسائل ومصائب،مایوسی،ناکامی و نامرادی سے نکال کر خوداعتمادی  اور جرأت بخشی۔ان کی وفات کے بعد ان کے چاہنے والے ان کی تحریروں سے استفادہ کرکے اپنے مسائل حل کرتے ہیں۔ مہاتما گاندھی بھلے ہی ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کی باتیں، ان کی تحریریں آج بھی ان ہندوستانیوں کے لیے مشعل راہ ہیںجو محنت، ایمان داری، نیکی، سچائی اور امن  و آشتی کے بل بوتے کامیاب ہوکر اپنی شناخت قائم کرنا چاہتے ہیں۔دراصل نذیر بنارسی کی نظموں میں اتنی وسعت اور اثر آفرینی ہے کہ وہ نئی نسل کو مطالعۂ گاندھی پر مجبور کرتی ہیں۔ان کی مشہور نظم’ بوڑھا مالی‘سے دو بند ملاحظہ کیجیے جس میں نذیر نے مہاتما گاندھی کی عظمت ورفعت،ہمدردی و رحم دلی اوروسیع انظری  و روشن خیالی کی طرف توجہ دلائی ہے       ؎

وہ پھول تھے لیکن پھول ایسے اب تک ہے جگت میں جس کی مہک

دیپک تھے مگر اک گھر کے نہیں دنیا کے اندھیرے کے دیپک

ہیرا تھے مگر ایسا ہیرا ہر دیش میں پہنچی جس کی  چمک

اس دیش کی سوندھی ماٹی کی سنسار میں پھیلی ان سے گمک

انسان کے قد میں آئی تھی اونچائی ہمالہ پربت کی

وہ پردۂ دنیا پر تنہا تصویر تھے پورے بھارت کی

سینے سے لگایا کرتے تھے ہر غم کو سمجھ کراپنا  غم

غم گین کوئی جب ہوتا تھاہو جاتی تھیں ان کی آنکھیں نم

بیوہ کے، یتیموں کے ہمدم،مظلوموں کے زخموں کے مرحم

گو روشنی آنکھوںکی مدھم، روشن مگر ان پر اک عالم

ابھری ہوئی ہر نس باپو کی اک موج رواں تھی جمنا کی

سوکھے ہوے تن کی ہر جھری اک لہر تھی بہتی گنگا کی 

( ایضاً ص212)

جنگ آزادی میں ہندوستان کی ایک بڑی جماعت شہید ہوئی۔انگریزوں کی ٹکر سے ہندوستانیوں کا شیرازہ بکھرنے لگا لیکن ہندوستانیوں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ اس وقت تک ڈٹے رہے جب تک کامیاب نہ ہوئے۔ آزادی کی اس لڑائی میں مسلم،ہندو، سکھ، عیسائی سب نے قربانیاں دیںہر شخص خود کو مجاہدتصور کرتا تھا اور واقعی ہر وہ شخص مجاہد آزادی تھا جس نے ملک وقوم کو غلامی کی زنجیر سے نجات دلانے میں تعاون کیا۔نذیر کے نزدیک گاندھی جی ان تمام مجاہدین کے ایسے لیڈر تھے جن کی ہنمائی میں پدرانہ شفقت موجود تھی جنھوں نے اپنے معتقدین کو کبھی مایوس نہیں کیااور ایک سرپرست کی طرح ہر نشیب و فراز میں ان کا ساتھ دیا۔نذیر نے اپنی نظم ’عقیدت کے پھول‘ میںمہاتما گاندھی کے ساتھ تمام شہیدان وطن کو اجتماعی خراج عقیدت پیش کیا ہے۔نظم کا درج ذیل بند دیکھیے       ؎

گولیاں سینے پہ کھائیں تو مگر آن کے ساتھ

شان والے تھے مرے بھی تو بڑی شان کے ساتھ

مر کے باپو بھی مرے ہو گئے  سنتان  کے ساتھ

کچھ کمی اب تو نہیں تم کو دلیران وطن

تم پہ ہم پھو ل چڑھاتے ہیں شہیدان وطن

(ایضاً ص33)

نذیر بنارسی ایک حساس شاعر تھے۔ ملک و قوم پر قربان ہونے کا جذبہ ان کے اندر بھی موجود تھا۔انھوں نے اپنی شاعری کے وسیلے سے نہ صرف مہاتما گاندھی کی حمایت کی بلکہ ان کی وفات کے بعد ان کے پیغام کو بھی عام کیا۔گاندھی جی کو ہندوستانی عوام کے د ل ودماغ میں زندہ ر کھا۔وہ آنے والی نسلوں کو مہاتما گاندھی کے پیغام سے روشناس کرانا چاہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ تنگ نظری باہمی اختلاف کو جنم دیتی ہے جو معاشی او رمعاشرتی دونوں اعتبار سے تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔موجوہ دو رمیں ہندوستانی عوام جس نا اتفاقی اور تفرقے کی شکار ہے اس سے نکلنے کے لیے نئی نسل کوگاندھی جی کے پیغام سے روشناس کرانا بے حد ضروری ہے۔آج ہندوستان کو گاندھی جی کے ہم نواؤں کی شدید ضرورت ہے۔ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے تحفظ کی ذمے داری ہر اس شخص پر ہے جو ملک میں امن وسکون کا ماحول دیکھنا چاہتا ہے۔ قول و فعل میں تضاد رکھ کر ہم گاندھی جی کی پیروی کا دعویٰ نہیں کر سکتے اس کے لیے ضروری ہے گاندھی جی کے نظریے کی تائید کرتے ہوئے ان کے اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔ذات پات اور فرقہ پرستی کی آڑ میں کسی کو اذیت نہ پہنچائی جائے جیسا کہ نذیر نے تمام عمر کرنے کی سعی کی اور اپنی شاعری کے ذریعے بار بارعوام کو بھی یہی پیغام دیا

ہندو،مسلم،سکھ، عیسائی آپس میں ہیں بھائی بھائی

گوندھا ہے جو بوڑھے مالی نے وہ ہار نہ ٹوٹے اے ساتھی

پرچار محبت کا جیسے کرتا ہے برابر کرتا چل

کچھ ٹوٹے نہ ٹوٹے باپو کی تلوار نہ ٹوٹے اے ساتھی

(ایضاً ص48-49)


Dr. Tamanna Shaheen

Guest Faculty DAVPG College

Dayanand Marg, Narharpura, Ausanganj

Varanasi - 221001 (UP)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں