9/12/22

حنیف نقوی کی تذکرہ شناسی کے نمایاں پہلو: عائشہ ضیا

اس بات میں شک کی گنجائش نہیں کہ تذکرے ہماری ادبی اور تنقیدی روایت کا بیش قیمت حصہ اور اثاثہ ہیں۔ تذکروں کے بغیر نہ توہم ادب کی تخلیق اور شعر کی تعمیر میں کارفرما شعریاتی نظام تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی ادبی روایت میں تسلسل کی تلاش کو حقیقت میں بدلنے پر قادر ہوسکتے ہیں۔ یہ تذکرے ہی ہیں جو ہمیں ہماری شاعری کو اس کی اپنی ایجاد کردہ اصطلاحات اور شعری تصورات کی روشنی میں سمجھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ مغربی پیمانوں کے مقابلے میں ہمارے مشرقی پیمانے کیا ہیں؟جنھیں ہم شعر اور سخن کی پرکھ اور جانچ پڑتال کے لیے استعمال کریں۔ ہمارے یہاں کلاسیکی ادبی اصناف کو خلق کرنے والے ان اصناف سے کون سے ادبی کام نکال رہے تھے؟ یا پھر کس تصور کے پیش نظر وہ لکھ رہے تھے؟ ان تمام باتوں کا علم ہمیں تذکروں سے ہی حاصل ہوتاہے۔

تذکروں کا ایک اور اہم پہلو ہے، جو ادبی تاریخ سے متعلق ہے۔ادبی تاریخ کو قائم کرنے اور نئے پیمانوں پر اس کی بنیاد اٹھانے کا کام بھی تذکروں ہی سے انجام پاتاہے۔ تذکرے ہی کلاسیکی ادبی روایت کا اولین سراغ ہیں۔ مختلف علاقوں اور زمانوں میں لکھے گئے تذکرے ہمیں ادبی تاریخ کا ایک تسلسل فراہم کرتے ہیں۔ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ہر عہد کے تذکروں میں کون سے ایسے شعرا ہیں جو تواتر کے ساتھ مذکور ہوتے آئے ہیں۔ کس شاعر کا رنگِ شاعری کیا تھا؟ یا پھر وہ کس رنگ کے لیے معروف تھا؟ یہ سارے پہلو ہمیں تذکروں سے ہی معلوم ہوتے ہیں۔

تحقیق وتدوین کے سلسلے میں بھی تذکرے کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ وہ کسی شاعر کا زمانہ متعین کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ تذکروں میں نمونے کے طور پر درج اشعار کسی متن کی ترتیب وتدوین کے وقت تقابل کے کام آتے ہیں۔ مختلف تذکروں اور مخطوطوں کے تقابل سے ہمیں الحاقی یا اضافی کلام کی شہادتیں بھی حاصل ہوجاتی ہیں۔

ادبی تذکروں کی اہمیت وافادیت کا درست اندازہ کرنے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر ان تذکروں سے تہی دامن ہوتے تو ہم اپنے کلاسیکی ادب کو تسلسل میں کس طرح دریافت کرتے۔ ظاہر ہے ادبی تاریخ کے بہت سے پہلو، شاعروں کے حالات اور ان کے تخلیقی خصائص سے ہم محروم ہوتے۔ حنیف نقوی لکھتے ہیں:

’’تذکروں نے ایسے بے شمار فنکاروں کو بے نام ونشان ہونے سے بچالیا ہے جن کے کارنامے یاتوکسی وجہ سے مدون نہ ہوسکے یامدون ہونے کے بعد ضائع ہوگئے۔ فنکاروں کے اس زمرے میں سخنوروں کے پہلو بہ پہلو جن کے کلام کی فنی سطح زیادہ بلند نہیں، بعض ایسے اساتذہ بھی شامل ہیں جنھوں نے انتہائی نازک مرحلوں میں کاروان شعر وسخن کی قیادت کی ہے اور اپنی کوششوں سے ایک نئے عہد کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ اردو ادب کی تاریخ سے یہاں بطور مثال مصطفی خاں یکرنگ، خان آرزو، مرزا مظہر جان جاناں کے نام پیش کیے جاسکتے ہیں۔ ان اساتذہ کے کلام سے جو معدودے چند نمونے دست برد زمانہ سے محفوظ رہ کر ہم تک پہنچے ہیں وہ تذکروں ہی کے واسطے سے حاصل ہوئے ہیں۔‘‘

)حنیف نقوی،شعرائے اردو کے تذکرے’نکات الشعرا سے گلشن بے خار تک‘، اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ 1998،ص35(

تذکروں کی روایت ادبی تاریخ اور شاعری سے نہ صرف واقفیت کا بڑا ذریعہ ہے۔ بلکہ اس نے ہماری شاعری کی تاریخ کو بہت سے الحاقات اور گڑھی ہوئی باتوں سے محفوظ رکھنے میں مدد دی ہے۔ بیاضیں اور کشکولیں جو اہل علم کے ذاتی شوق سے وجود میں آئیں۔ ان کے اندراجات نے اختصار کے باوجود حقائق کو سامنے لانے اور روشن کرنے میں بڑی مدد کی۔ تذکرے نے اس معیارکواور زیادہ اونچا کیا۔ وہاں احوال وکوائف قدرے تفصیل سے ہاتھ آنے لگے اور اس کے علاوہ جو اہم چیز تذکروں کے توسط سے ہاتھ آئی، وہ ہمارا مشرقی تنقیدی شعور ہے۔ کسی فنکار کے فن پاروں کے مجموعی کیف وکم کو چند جملوں میں سمیٹنے کی روش ہے۔ اس روش نے ایک مستقل تنقیدی نظام اور فن پاروں کی معیار بندی کا تصور ہمیں فراہم کیا۔

تذکروں کا مطالعہ کیوں ضروری ہے؟ تذکروں میں موجود حقائق اور معلومات کی چھان بین بھی ایک ضروری امرہے۔ کسی واقعے یا شخص کی ادبی زندگی کے بارے میں محض جاننا کافی نہیں بلکہ دستیاب معلومات کے پایہ ثبوت کی جانچ اور آزمائش کرنا بھی ضروری ہے۔ کسی تذکرے میں دی گئی معلومات کس حد تک درست ہیں۔ اس کے اندر بطورمتن شامل کیا گیا تخلیق کاروں اور شاعروں کا تخلیقی سرمایہ صحت متن کے اعتبار سے کس حد تک قابل قبول ہے۔ تذکرے میں شامل اشخاص اور چھوڑ دیے جانے والے شاعروں کے درمیان تذکرہ نگار کی ترجیح اور عدم ترجیح کے اسباب کیا ہو سکتے ہیں۔؟ بسااوقات تذکرہ نگار کی ترجیحات اور آرا علمی وتحقیقی نہ ہوکر ذاتی اور شخصی ہوا کرتی ہیں۔ تذکروں کی تحقیق وتنقید ان تمام پہلوؤں کو سامنے لاتی ہے۔

حنیف نقوی کی تذکرہ شناسی پر نظر کرتے ہیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے تذکروں کے مطالعے میں اپنے عہد کی عام روش سے ہٹ کر الگ طریقے پر تحقیق کی ہے۔ ہمارے یہاں جدید تنقید کے نام نہاد غلغلے سے تذکروں کی طرف علمی حلقے کا التفات خاطرخواہ نہ رہا۔ اسے گراں قدر سرمایہ خیال کرنے کے بجائے معلومات کا ذخیرہ اور تنقیدی بصیرت سے خالی توصیفی جملوں کا مجموعہ خیال کیا جاتا رہا۔ تذکروں کے بارے میں بہت سی رائیں ایسی ظاہر اور عام کی گئیں جن سے تذکروں کی واقعی اہمیت اور افادیت کاپہلو بے توجہی کا شکار ہوتا رہا اور تذکرے کم وقعت یا بے وقعت بھی خیال کیے جاتے رہے۔ حنیف نقوی نے تذکروں کے بارے میں اس زاویہ نظر کو نہ صرف غلط ثابت کیا بلکہ تذکروں کے ٹھوس مطالعے سے ادبی تاریخ کے لیے ان کی ناگزیریت، اہمیت،  مقامی وہندستانی تنقیدی شعور سے آگہی کے لیے ان کی لازمیت کو روشن کیا۔

حنیف نقوی نے اپنی بیش قیمت تالیف ’شعرائے اردو کے تذکرے نکات الشعرا سے گلشن بے خار تک‘ کے پہلے باب میں بہت ہی جامع انداز میں تذکرہ نگاری کے لغوی مفہوم، اصطلاحی معنی وغیرہ پربحث کرتے ہوئے بیاض اور تذکرے کے فرق کے ساتھ ساتھ ادبی تاریخ اور تذکرے کے امتیازات کو نشان زد کیا ہے۔ تذکرے کیوں لکھے جانے شروع ہوئے؟ تذکرہ نگاری کے پیچھے کون سے محرکات کارفرماہوئے؟اس نوع کے سوالات سے بحث کرتے ہوئے مصنف نے تذکروں کی معنویت اور انفرادیت کو نشان زد کیا ہے۔اسی طرح تذکروں کی نوعیت، گروہی تقسیم وغیرہ پر تحقیقی وتنقیدی انداز میں گفتگو کی گئی ہے۔

 حنیف نقوی نے تذکرے کے لغوی اور اصطلاحی مفہوم کی تعبیر اور تفسیر کے لیے مختلف مستندلغات، قرآن کی مختلف آیات، عربی، فارسی اور اردو کے مختلف علما اور دانشوروں کے اقوال کو استعمال کیا ہے۔تذکرہ کا لفظ کئی معنوں میں مستعمل رہا ہے۔ حنیف نقوی نے فی زمانہ لفظ تذکرہ کے اطلاق اور اس کے مدلول کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ تذکرے کااطلاق اس کتاب پر ہوگا جس میں شعراکے مختصر حالات اور ان کا منتخب کلام درج کیا گیا ہو۔ تذکرے، بیاض اور تاریخ کے درمیان امتیاز پایا جاتا ہے اوران کی اپنی الگ الگ انفرادیت ہے۔ حنیف نقوی نے انفرادیت کو واضح کیا۔

تذکرہ اور تاریخ ہم رشتہ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔حنیف نقوی نے تذکرے اور ادبی تاریخ کے فرق کو بھی بہت ہی خوبی اور باریک بینی سے واضح کیا ہے۔ حنیف نقوی نے تذکرہ نگار یامورخ کے شعار، طریق کار، ان کی طرف سے اختیار کیے جانے والے اصول وضوابط، ان کی تحدیدات وغیرہ کو منفرد انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ نتیجے کے طورپر انھوں نے یہ بتایا ہے کہ تذکرے ادبی تاریخ کا جز بھی ہیں اور ان کی علاحدہ منفرد بنیاد بھی ہے۔

فی زمانہ تذکرہ نگاری کا سلسلہ منتہی ہوچکا اور اب اس کی جگہ ادبی تاریخ نے لے لی ہے۔ لیکن سلسلے کے منتہی ہوجانے سے تذکروں کی قدر وقیمت اور اہمیت کم نہیں ہوتی بلکہ وہ ادب کی تاریخ کو سمجھنے اور جاننے کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں۔ان کے بغیر ادبی تاریخ اسلاف کے کارناموں اور علمی وشعری سرمائے سے واقفیت بہم کرنے کا دوسرا راستہ تلاش نہیں کرسکتی۔ آج بھی ہمارابیشتر کلاسیکی سرمایہ اپنے متعلق تصریحات اور معلومات کا دفتر تذکروں ہی میں بند رکھتا ہے۔ یہ سرمایہ بیاضوں، نسخوں، دستاویزات اور مختلف اہم مآخذ کی مدد سے تذکروں میں یکجا کرکے محفوظ کیا گیا۔ بہت سارے کلاسیکی شاعروں کا وجود ہماری ادبی تاریخ میں تذکروں کا رہین منت ہے، اگر تذکرے نہ ہوتے تو بہت ممکن تھا کہ کئی کلاسیکی شعرا آج گوشہ گمنامی میں ہوتے۔

تذکرہ نگاروں کے یہاں ایک ترتیب اور تنظیم کا بھی اہتمام ملتا ہے۔ اس ترتیب اور تنظیم سے مختلف تذکروں کے درمیان ہمیں فرق اور تفاوت بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس اختلاف نے تذکروں میں ایک طرح کاتنوع اور رنگارنگی بھی پیداکی ہے،جس سے مختلف شاعروں کے احوال کے تقابل کی صورت بھی پیدا ہوئی ہے۔ کئی محققین نے تذکروں کو گروہ میں تقسیم کیا ہے، حنیف نقوی نے اس روش سے انحراف کرتے ہوئے دوسرا طریقہ اختیار کیا اور سید عبداللہ، محی الدین قادری زور اور دوسرے ناقدین سے انحراف کرتے ہوئے اردو تذکروں کی تقسیم اغراض ومقاصد کے اعتبار سے کی۔انھوں نے تذکروں کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ پہلے حصے میں انھوں نے تعارفی تذکرے رکھے یعنی جن کے لکھنے والوں کے پیش نظر یہ بات تھی کہ وہ اساطین شاعروں کومتعارف کرائیں۔ دوسری قسم ایسے تذکروں کی ہے جو جوابی اور انتخابی نوعیت کے ہیں،یعنی ابتدائی تذکروں کے وجود میں آنے کے بعد کچھ تذکرے ان کے جواب میں لکھے گئے اور کچھ منتخب شعرا کو پیش نظر رکھ کر لکھے گئے۔ حنیف نقوی نے تعارفی تذکرے کو بھی دو حصوں میں منقسم کیا ہے۔ حنیف نقوی کی یہ تقسیم اتنی سائنٹفک اور جامع ہے کہ تقریبا تمام تذکرے اس تقسیم یادرجہ بندی کے تحت آجاتے ہیں۔

دوسرے باب میں مصنف نے عربی فارسی تذکرہ نگاری سے بحث کی ہے۔ اس باب میں تذکرہ نگاری کی روایت، فارسی میں تذکرہ نگاری کی ابتدا اور ہندستان کے فارسی تذکرے کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ تذکرے کی روایت کاآغاز عربی سے ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد ایران میں فارسی تذکرے لکھے جاتے ہیں۔ فارسی ترسیل کی عالمی زبان ہونے کی حیثیت سے زیادہ ترسیلی امکانات رکھتی تھی اس لیے فارسی میں کئی ملکوں میں تذکرہ نویسی کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہندستان میں بھی باضابطہ فارسی تذکرہ نگاری کی ایک روایت قائم ہوئی۔ اردو شاعروں کے اولین تذکرے بھی اسی زبان میں لکھے گئے۔اسی سیاق میں تذکرہ نگاری کی روایت کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے حنیف نقوی  نے عربی، فارسی اور ہندستانی روایت کو اپنے پیش نظر رکھا اور نہایت تحقیق اورتدقیق سے اردو شاعروں کے تذکروں کے پیچھے موجود سیاق اور پس منظر کوواضح کیا۔

حنیف نقوی نے باب سوم کا عنوان ’اردو تذکرہ نگاری-آغازسے شیفتہ تک‘ رکھا۔ اس باب میں انھوں نے اردو تذکروں کا تفصیلی اور تحقیقی مطالعہ پیش کیا۔ساتھ ہی انھوں نے کچھ ذیلی عنوانات بھی قائم کیے جیسے      ؎

پس منظر اور محرکات

شعرائے اردو کااولین تذکرہ

ماحول اور ترقی کی منزلیں

ابتدائی تذکرے

تذکرہ نگاری کے مختلف مراکز

ذکا اور مصحفی کادور

حنیف نقوی نے تذکرہ نگاری کے پس منظر اور محرکات کو نشان زد کرتے ہوئے ہندستان کی سیاسی، سماجی اور تاریخی وتہذیبی فضا کو تذکروں کی اہمیت اور تشکیلی نوعیت کو واضح کرنے کے لیے شامل بحث کیا ہے۔ دکن اور شمالی ہند میں اردو زبان وادب کی ابتدا، فروغ اور ارتقا پر گفتگو کرتے ہوئے حنیف نقوی نے مختلف اصناف کی فنی خوبیوں کو دائرہ تحریر میں لانے کی کوشش کی ہے۔ ان تفصیلات سے مصنف کی سماجی بصیرت، علمی وسعت اور تہذیبی شعور وآگہی کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔

تذکرے کسی ایک مقام پر ہی نہیں لکھے گئے۔ فاصلہ زمانی کے ساتھ ساتھ تذکروں کے مراکز تبدیل ہوتے رہے۔ شعراء اور سخن فہموں کی وابستگیاں احوال سیاسیہ کے بدلنے سے تبدیل ہوتی رہیں۔ دکن کا خطہ الگ احوال کا مالک تھا۔ دہلی کی دنیا الگ تھی۔ لکھنؤ کی تہذیب اور زبان کا طور کچھ اور ہوا۔ اس کے علاوہ بھی دیگر مراکز تھے جو ان مقامات سے نسبتاً چھوٹے تھے لیکن ادب پروری اور شاعروںوعالموں کی قدردانی کا وہاں بھی کوئی نہ کوئی سلسلہ رہا جیسے رام پور،حنیف نقوی نے ان سارے مرا کز کا ان کے زمانی، سیاسی، سماجی اور تہذیبی سیاق میں جائزہ لیا ہے۔

ذکا اور مصحفی کادور‘اس عنوان کے تحت اس عہد کے سماجی، سیاسی او رتاریخی پس منظر کا نقشہ کھینچنے کے ساتھ ساتھ اس عہد کے علمی وادبی ماحول، شعر وشاعری کی محفلوں اور ادبی معرکہ آرائیوں کا بحسن وخوبی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس جائزے کو پڑھ کر ہم مصنف کے مطالعے کی گہرائی اور گیرائی تک پہنچ جاتے ہیں اور اس کے تبحر علم اورتنقیدی وتحقیقی نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس عہد کو تذکرہ نگاری کا عہدزریں کہا جاتا ہے۔ اس عہد میں زیادہ تر تذکرے دہلی اور اس کے قرب وجوار میں لکھے گئے۔اس عہد کے تذکروں میں عیارالشعرا کو سب سے قدیم بتایا جاتا ہے۔ یہ تذکرہ شاہ نصیر کے شاگرد لالہ خوب چند ذکا نے شاہ نصیر کی فرمائش پر تحریر کیا۔حنیف نقوی نے اس تذکرے کی اہم خصوصیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’اس سے اردو تذکرہ نویسی کی تاریخ میں ہمہ گیری اور جامعیت کے رجحان کاآغاز ہوتاہے۔ اس سے قبل جتنے تذکرے لکھے گئے ہیں ان میں شعراکی شمولیت ان کے کارناموں کے ادبی مرتبے یاپھر سہل الحصول معلومات کی پابند ہے۔‘‘(ص 88(

ذکا کے تذکرے کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں سابقہ تذکروں کی عام روش سے صرف نظر کرکے ایک اصول کی پیروی کی گئی۔ اس تذکرے میں ان شعرا کو شامل کیا گیا جنھوں نے اپنی موزونی طبع کی بناپر شعر نظم کیے۔اس طرح جوابی تذکروں نے ایک نیک فضا پیدا کی اور چھوٹ جانے والے اہم شعرا کی طرف توجہ دی جانے لگی۔ ایسے شاعر جن کے احوال بآسانی دستیاب نہ تھے ان کے احوال کو بہ مشقت حاصل کرنے کی روش بھی سامنے آئی۔ذکا کا تذکرہ ایک مؤثر تذکرہ ثابت ہوا۔ اسی کے اثر میں میر محمد خاں سرور کا تذکرہ عمدہ منتخبہ اور حکیم قدرت اللہ قاسم کا مجموعہ نغز تالیف ہوا۔ اس کے بعد تو دھیرے دھیرے تذکرے منظر عام پر آنے لگے۔ حنیف نقوی نے تذکروں کے اچھے پہلوؤں تک ہی خود کو محدود نہیں کیا بلکہ ان کے اسقام اور معائب کی طرف بھی انھوں نے نظر کی۔ انھوں نے تذکروں کی دستیابی کے مقامات اور تذکروں کی موجودہ حالت پر بھی گفتگو کی۔

گروہ بندی اور معرکہ آرائی کے ساتھ مرکزی کشمکش تذکرہ نویسی کے اہم محرکات اور اسباب ہیں۔ اس عہد کو ہم مصحفی اور انشا کی ادبی سرگرمیوں پر محیط عہد بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس عہد کو سماجی و ثقافتی تغیرات،اقتصادی ومعاشی تبدیلیوں اور ادبی و علمی سرگرمیوں اور انقلابات کے لحاظ سے خاص اہمیت حاصل ہے۔ تذکرہ نویسی کے لیے اس صورت حال نے اسباب پیداکیے اور یہ فضا تذکرہ نویسی کے لیے بارآورثابت ہوئی۔مصحفی نے اس عہد میں اپنا پہلا تذکرہ عقدثریا تالیف کیا۔اس عہدمیں اس تذکرے کو اولیت وسبقت حاصل ہے۔اس کے علاوہ ریاض الفصحا اور تذکرہ ہندی بھی اسی زمانے میں تحریر کیے گئے نقوی صاحب نے مصحفی کے تذکروں کی خوبیوں اور امتیازات کو بہ طریق احسن اجاگر کیا ہے۔شیخ امام بخش کاشمیری،احد علی خاں یکتا لکھنوی اور بہادر سنگھ دہلوی جیسے تذکرہ نویسوں کا ذکر بھی حنیف نقوی نے کیا ہے۔اس عہد میں دوسرے مراکز میں جو تذکرے لکھے گئے ان کا ذکر بھی ضمنی طورپر کیا ہے۔

باب چہارم کا عنوان ہے ’نکات الشعرا اور دوسرے ابتدائی تذکرے‘ یہاں نکات الشعرا زیر بحث آیاہے اس کے علاوہ دوسرے تذکرے بھی زیر بحث آئے ہیں۔ گلشن گفتار، گلشن راز یا تذکرہ ریختہ گویاں، ریاض حسنی اور مخزن نکات جیسے معروف تذکروں کے مشمولات کا محاکمہ اور جائزہ شامل باب ہے۔نکات الشعرا کی خوبی یہ ہے کہ اس میں شاعروں کے فنی محاسن اور معائب کی جانب واضح اشارے ملتے ہیں۔ اور جا بجا ملتے ہیں۔ میر نے اس سلسلے میں بعض لسانی وفنی تصورات کی پیروی کی ہے۔ان کے تنقیدی زاویوں میں جامعیت،معقولیت،اور تنقیدی بصیرت کا حسین امتزاج موجود ہے۔ حنیف نقوی نے اس پہلو کا بہت ہی باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

گلشن گفتار حمید اورنگ آبادی کا تذکرہ ہے۔ زمانی لحاظ سے یہ میر کے تذکرے کا ہم عصر وہم زمانہ ہے۔ مصنف کتاب نے اس تذکرے کاجائزہ لیتے ہوئے اس کی داخلی خوبیوں خامیوں کی تلاش پر محنت صرف کی۔ مختلف شاعروں کے بارے میں حمید کے اندراجات کا جائزہ لیا۔ ان شہادتوں کی روشنی میں یہ رائے قائم کی کہ تذکرہ نگار نے جو طور اختیار کیا ہے وہ اس کی سہل پسندی اور تن آسانی سے زیادہ اس کی لاعلمی اور بے خبری پر دلالت کرتا ہے۔کچھ تفصیلات اور تصریحات واقعات کے ذیل میں اس تذکرے سے ضرور حاصل ہوجاتی ہیں جو اتفاق اور خصوصی تعلق ودلچسپی کی رہین منت ہیں۔حنیف نقوی لکھتے ہیں:

’’گلشن گفتار کی ترکیب کسی سنجیدہ محرک کے بجائے محض تفریح طبع اور وقت گزاری کے خیال سے عمل میں آئی تھی۔ اس لیے عام حالات میں مؤلف سے اہم واقعاتِ زندگی کے انضباط نیز شخصیت اور شاعری کی تنقید کے سلسلے میں کسی خاص تحقیق وتلاش اور غور وفکر کی توقع رکھنا مناسب بھی نہیں۔ درحقیقت یہ تذکرہ ایک ایسی بیاض کی ترقی یافتہ شکل ہے جس میں ارباب ذوق اپنا منتخب اور پسندیدہ کلام یا مختلف شاعروں کی مشہور غزلیں یانظمیں جمع کرلیتے ہیں۔ہماری اس رائے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے حمید نے بالعموم مکمل غزلیں یا ہم عصر شعرا کا ہم طرح کلام نقل کیا ہے۔‘‘

)حنیف نقوی، شعرائے اردو کے تذکرے ’نکات الشعرا سے گلشن بے خار تک‘، اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ 1998، ص213(

حنیف نقوی نے گلشن راز یا تذکرہ ریختہ گویاں کا بھی مفصل جائزہ لے کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اوسط درجے کا تذکرہ دوسروں کی خوشہ چینی اور استفادے کا رہین منت ہے۔  فتوت کے تذکرے ریاض حسنی کے بارے میں بھی ان کی رائے یہی ہے کہ یہ معیار سے فروتر ہے۔مخزن نکات میں نقوی بعض اقسام کی نشان دہی مثلا غیر ضروری اختصار، تفصیلات سے بالکل صرف نظر، کہیں کہیں صرف شاعر کے تخلص پر انحصار کے ساتھ اسے ایک اہم ادبی دستاویز تسلیم کیا ہے اور اسے اردو شاعری کے مدارج کو سمجھنے سمجھانے کے لیے سودمند ہی نہیں ناگزیر قرار دیا ہے۔

پانچویں باب میں بھی اہم تذکرہ نگاروں کے تذکرے زیر بحث آئے ہیں۔ چمنستان شعرا، طبقات الشعرا، تذکرہ شعرائے اردو،تذکرہ شورش، مسرت افزا، گل عجائب، گلزار ابراہیم اور گلشن سخن جیسے معروف تذکروں کو یہاں زیر بحث لایا گیا ہے۔علامہ آزاد بلگرامی کے شاگرد لچھمی نرائن شفیق کے تذکرے چمنستان شعرا کو حسن ترتیب، جامعیت، اور ادبی معیار کے لحاظ سے دکنی تذکروں میں سرفہرست شامل کیا ہے۔ شفیق کو تذکرہ نویسوں میں پہلا شخص قرار دیا ہے جو تاریخ وفات کا تعین واضح الفاظ میں کرنے کا اہتمام کرتاہے۔ شفیق کے بارے میں یہ بھی بتایا کہ وہ ذاتی مسائل تک پہنچنے کے لیے غور وفکر کی عادت رکھتے تھے۔اس تذکرے کا نقص اس کے اسلوب کو قرار دیا ہے کہ یہ پرتکلف اور صناعانہ زبان میں لکھا گیا ہے۔ نقوی اس تذکرے کے بارے میں اپنی مجموعی رائے ظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں

’’متذکرہ بالا لسانی وبیانی نقائص اور واقعاتی خامیوں کے باوجود ’چمنستان شعرا ‘ ایک اہم اور قابل قدر تذکرہ ہے جو اردو شاعری کے ابتدائی دور سے متعلق تحقیق وتلاش کے سلسلے میں ایک معتبر مآخذ اور مستند ذریعہ معلومات کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘

)حنیف نقوی،شعرائے اردو کے تذکرے نکات الشعرا سے گلشن بے خار تک،اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ1998، ص293(

علی ابراہیم خان خلیل کے تذکرے گلزار ابراہیم کو مصنف نے اس لیے اہم تسلیم کیا ہے کہ بارہویں صدی ہجری تک کی اردو شاعری کی روداد ادبی دستاویز کی صورت میں اپنے حجم میں محفوظ کیے ہوئے ہے۔ عظیم آباد اور مرشد آباد کے دبستان کو روشن کرنے والا یہ اہم تذکرہ ہے۔

چھٹا باب تذکرہ ہندی، ریاض الفصحا، اور معاصر تذکروں مثلاًگلشن ہند،تذکرہ عشقی، طبقات سخن اور تذکرہ بے جگر وغیرہ کے تحقیقی و تنقیدی مطالعے پرمحیط ہے۔ حنیف نقوی نے ان تذکروں کا تفصیلی جائزہ سال تالیف و ترتیب کے مطابق پیش کیا ہے۔

ساتویں باب میں ’طویل اور جامع تذکرے‘  کے تحت عیار الشعرا، عمدہ منتخبہ، مجموعہ نغز، گلشن بے خار جیسے مفصل اور مرتب تذکروں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔یہ تذکرے 1208ھ مطابق 1730 عیسوی تا 1250ھ مطابق 1835 کے درمیان ترتیب دیے گئے۔ یہاں بھی حسب سابق حنیف نقوی نے ان تذکروں کی نمایاں امتیازی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں استدلالی اور منطقی انداز میں بحث کی ہے۔ انھوں نے عیارالشعرا کو اردو ادب کے جمہوری کردار کی وضاحت کے نقطہ نظر سے اہمیت کا حامل بتایا۔

حنیف نقوی نے اپنی کتاب میں نکات الشعرا سے لے کر گلشن بے خار تک کے تذکروں کے طویل سلسلے کا جائزہ لیا ہے۔ اس جائزے میں وہ تذکروں کی تاریخی اہمیت کو ثابت کرتے ہیں۔ ہمارے متقدمین شعرا کے بارے میں تذکرے جو ناگزیر مواد فراہم کرتے ہیں۔ وہ اس کے بارے میں بتاتے ہیں کہ اگر تذکروں کا سرا ہمارے ہاتھ میں نہ ہوتا تو وہ معلومات ہمارے ہاتھ نہ آتیں۔ وہ تذکرے کو نہ تاریخ کابدل قرار دیتے ہیں نہ ہی اسے سوانح مانتے ہیں بلکہ اسے آزاد صنف کے طورپر قبول کرتے ہیں۔ وہ تذکروں کو کمیوں خامیوں سے مبرا نہیں قرار دیتے، نہ ہی یہ باور کراتے ہیں کہ تذکرے ہماری تمام ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ معلومات کے نقص اور غلط بیانیوں کے عوائق پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ وہ تمام تذکروں کے مجموعی تقابلی مطالعے سے حاصل ہونے والے قدیم تاریخ ادب کے شعور کے بارے میں یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ صرف تذکروں سے حاصل ہوسکتاہے۔ وہ شعرائے اردو کے بعض تذکروں کو لسانی وادبی شعور کے ساتھ قدیم کلاسیکی شاعری کی تاریخ کے لیے اہم قرار دیتے ہیں۔ وہ رقم طراز ہیں

’’مختصر یہ کہ تذکرے اپنی بہت سی خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود ہماری علمی وراثت کے امین، ہمارے ادبی ذوق کے ترجمان، ہماری تہذیبی سرگرمیوں کے عکاس اور ہماری مجلسی زندگی کے آئینہ دار ہیں۔ ان کے اوراق خودشناسی و خود گری کے اس جذبہ صادق کے گواہ ہیں جس نے اہل ہند کے سامنے ایران کی لسانی محکومیت سے آزادی کا تصور پیش کیا، عوام کو باہمی رابطے کے لیے ایک مہذب اور شائستہ زبان عطا کی، ملک کے مختلف طبقوں کے درمیان ذہنی وفکری ہم آہنگی ویک جہتی کے ایک نئے دور کی بنیاد رکھی اور ایک ہمہ گیر وہمہ رنگ، لالہ کار وسدا بہار تہذیب کو جنم دیا۔ تہذیبی شناخت کی صورت گری کے اس حوالے سے اردو کی توسیع وترقی کے لیے کی گئی کوششوں کی روداد جب بھی قلم بند کی جائے گی، تذکروں سے دامن بچاکر گزرنا ممکن نہ ہوگا۔‘‘

)حنیف نقوی،شعرائے اردو کے تذکرے نکات الشعرا سے گلشن بے خار تک،اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ 1998،ص 727(

متذکرہ بالا اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ حنیف نقوی تذکروں کو محض ادبی تاریخ کے لیے ہی مفید خیال نہ کرتے تھے، وہ ان کی لسانی تہذیبی معنویت کا گہرا احساس وادراک رکھتے تھے۔ وہ ایران کی لسانی اجارہ داری سے آزادی کا زینہ تصور کرتے تھے کہ تذکروں نے اپنی مقامی روایت کو روشن کرکے ہمیں اپنی مقامی زبان پر اعتبار واعتماد کرنے کا سلیقہ سکھایا تھا۔ اس طرح سے تہذیبی ہم آہنگی اور مختلف طبقات کے ارتباط باہم کی ذہنی وفکری بنیاد مستحکم ہوئی، یک جہتی کا صاف چہرہ سامنے آیا۔ تذکروں نے تنقید کا بھی ایک تصور دیا۔ زبان کا ایک معیار بنایا۔ اچھی شاعری کے لوازم کے بارے میں ایک نظریہ دیا۔ سوانحی اور تاریخی عناصر بھی تذکروں سے حاصل ہوئے۔ تذکرے جس زمانے میں لکھے گئے، اس زمانے کے آداب مجلسی اور اخلاقی معیار واقدار پر بھی تذکروں نے روشنی ڈالی۔ ایک طرح ہم دیکھیں تو ادبی تاریخ اور لسانی تہذیب کو قلم بند کرنے کے لیے مطلوب مختلف عناصر کی فراہمی میں تذکروں نے اہم کردار ادا کیا۔ تذکروں کی ان تمام خوبیوں کو واضح کرنے اور ان کی تحقیقی قدروقیمت کا تعین کرنے کے لحاظ سے یہ نہ صرف وقیع بلکہ نادر تحقیق کا درجہ رکھتا ہے۔

 

Aisha Zia

Room No.: 57, Shipra Hostel

JNU (New Campus)

New Delhi - 110067

Mob.: 7011422975

Email.: aishaziajnu@gmail.com 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں