’تانیثی
تنقید‘ کا باقاعدہ آغاز بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے بعد کے دور کو مانا جاتاہے۔عالمی
سطح پر بیسویں صدی کے وسط سے ’تانیثیت کی تحریک‘کا فروغ ہونے لگاتھااور تحریک کے اثرات
سماجی نظام کے مختلف شعبوں میں نظرآنے لگے تھے۔اس تحریک سے وابستہ مفکرین نے تمام
شعبہ ہائے حیات میں ’نسائی فکر و احساس‘کی عدم موجودگی اور خواتین کے تجربات اور ان
کے فکری کارناموں پر عدم توجہ کی نشان دہی کی نیز علم وادب اور تعلیم و تحقیق کے شعبوں
میں نسائی فکر و احساس کی عدم شمولیت پر سخت تنقیدیں کیں۔ ان کی شمولیت پر کافی زور
دیا۔بلکہ نسائی نقطہ نظر سے،تاریخی سیاسی، سماجی، ثقافتی اور ادبی سیاق کے مطالعے کو
سماج کے لیے ناگزیر قرار دیا۔
اردو میں تانیثی تنقید بھی دیگر جدید تنقیدی نظر یات کی
طرح مغربی افکار کی دین ہے اگرچہ مغربی زبانوں کے ادب میں تانیثی نظریات یا نقد ادب
کے سلسلے میں تانیثی نقطہ نظر کی شروعات کو عرصہ ہو گیاتاہم اردو میں ’تانیثی تنقید‘
کے باقاعدہ آغاز کو دیکھیں تو وہ ہمیں پچھلے تقریباً تین دہوں پر محیط نظر آتا ہے۔اردو
میں تانیثی تنقید کے رجحان کو مابعد جدیدیت کے دور میں فروغ ملا۔مابعد جدیدیت کے دور
میں وسائل و فکر کے حوالے سے ’مرکزیت‘ کے تصور کو ختم کیا گیاجس کے نتیجے میں سماج
میں حاشیائی حیثیت کے حامل افراد کی طرف توجہ مبذول ہوئی اور ان کے علمی،عملی وفکری
کارناموں کو منظرِ عام پر لانے کی کوششیں تیزہونے لگیں۔چنانچہ کسی حد تک خواتین کے
ادب پر بھی توجہ دی جانے لگی اور ادب کو تانیثی نقطہ نظر سے جانچنے کے رجحان کی ابتدا
ہوئی۔
اردو زبان کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو ہندوستان میں
’تانیثی تنقید‘ پر کوئی باقاعدہ کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ ابھی نظر نہیں آتا ہے۔البتہ
پاکستان میں اس نظریہ تنقید پر بے حد اہم کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ ’’فیمنزم اورہم، خاموشی
کی آواز،ادب کی نسائی رد تشکیل، عورت خواب اور خاک کے درمیان، عورت زندگی کا زنداں
وغیرہ چند ایک قابل ذکر نام ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اردو ادب میں آج بھی تانیثی تنقید کو شجر
ممنوعہ سمجھنے کا رجحان غالب ہے۔یہی وجہ ہے کہ اردو میں تانیثی تنقید اب تک آزادی
سے پھل پھول نہ سکی۔ مستقبل میںتانیثی تنقید کی سمت و رفتار کیا ہوگی اور منظر نامہ
کس نوعیت سے تبدیل ہوگایہ کہناابھی مشکل ہے۔ تاہم اس ضمن میں چند وسیع النظر افراد
کی تحریروں کے پیش نظر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ادب کے حوالے سے عورت کو انسان کی
حیثیت سے قبول کرنے اور اس کے اظہار ذات کی پیچیدگیوںکو سمجھنے کی کوششیں امید افزا
ہیں۔ یقینا آئندہ یہ رجحان اردو میں ایک جدید نظر یہ تنقید کی حیثیت سے اپنا گہرا
رشتہ بنا لے گا۔
تانیثیت اور تانیثی تنقید کی انفرادیت تب متعین ہوئی جب
اس نے اپنے عہد کے،سماجی،سیاسی، لسانی اور تھیوری کے متعلق فلسفوںسے روشنی حاصل کرنی
شروع کی۔ مثلاً مارکسی تھیوری، ساختیات، پس ساختیات،فلسفہ لسان، نفسیات، سماجی،سائنسی،تحلیل
نفسی،تاریخ وغیرہ کے علوم سے تانیثیت پسندوں
نے استفادہ کیا اور یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ ان علو م میں عورت کو کس طرح پیش کیا گیا
ہے یا انھیں جہاں بھی نظر انداز کیا گیا ہے تو کیوں؟ The second sex(1949)میں ہی پہلی مرتبہ بین العلومی طریق کاروں سے مصنفہ نے کام لیا تھا۔
1960میں ہیلن سسکوس اور جولیا کرسٹوا نے تانیثی تنقید کا ایجنڈا بنایا۔ ہیلن کے مطابق
زبان کے اندر موجود جوڑے دار ضدین جو پدرانہ نظام پر مبنی ہیں ایک خاص طرح کے معنی
کی تشکیل کرتے ہیںاور اس مرد معاشرے نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت عورت کو معروف کے
بجائے مجہول قرار دے دیا ہے۔
اردو میں تانیثی تنقید کا ایک اہم سنگ میل 2000 میں شعبہ
اردو دہلی یونیورسٹی میں منعقدہ سمینار ہے۔اس سمینارکا عنوان ’بیسویں صدی میں خواتین
اردو ادب‘ تھا۔ سمینار کا انعقاد پروفیسر عتیق اللہ کی کوششوں سے عمل میں آیا تھا۔
پیش کیے گئے تمام مقالات کوکتابی شکل میں 2000
میں شائع کیا گیا، جن میں تانیثی ڈسکورس پر مکمل بحث کی گئی۔ اس میں تانیثی
نظریہ تنقید کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ مغربی زبانوں کے مفکرین کے ’تانیثی تنقید‘ سے
متعلق خیالات کو اردو میںمتعارف کرانے والے نقادوں میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کو اولیت
حاصل ہے۔ جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے مباحث کے ساتھ ساتھ انھوں نے مغرب کے حوالے سے
اردو تانیثی تنقید کو بھی بحث کا موضوع بنایا ہے۔ ’بیسویں صدی میں خواتین اردو ادب‘
میں تینتیس مقالے شامل کتاب ہیں جس میں زیادہ تر مرد ادیبوں اورناقدین کے مقالے ہیں۔
چند خواتین کے مقالے بھی شامل ہیں۔اس باب میں ہم
بر صغیر کے چند اہم مرد ادیبوں کی تنقید میں تانیثی رجحان کا جائزہ لیں گے۔ یوں تو اردو میں بہت سے ادیبوں کی تنقید میں تانیثی
رجحان موجود ہے۔ اردو کے جن ادیبوں کی تنقید میں تانیثی رجحان ملتا ہے ان میں شمس الرحمن
فاروقی، گوپی چند نارنگ، عتیق اللہ،سید عقیل احمد، دیوندر اسّر، ابولکلام قاسمی، قاضی
افضال حسین، نظام صدیقی، محمود شیخ،یو سف سرمست، ظہیر الدین،عقیل احمد صدیقی،خالد اشرف،علی
احمد فاطمی، سلیم شہزاد،حقانی القاسمی،مشتاق احمد وانی،ناصر عباس نیر، اکرم کنجاہی،ریاض
صدیقی،انیس ناگی، وارث میر، نعیم صدیقی، منیر احمد،امین حسن،یاسر جواد،ضمیر علی بدایونی
عبدالعزیز ہاشمی، ڈاکٹر مولا بخش اور ڈاکٹرندیم احمد، وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
شمس الرحمن فاروقی کا شمار اردو زبان کے قد آور ناقد ین
میں ہوتاہے۔تنقید کے میدان میں انھوں نے جو کچھ لکھا بے باک لکھا۔مختلف اصناف کی تنقید
پر ان کی تقریباًآدھا درجن سے زیادہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں جسے اردو تنقید میں قابل
قدر اضافہ کہا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اسلوبیاتی، لسانیاتی اور صوتیاتی نظریے کو پیش
نظر رکھا جس سے ادب کی تفہیم میں مدد مل سکے۔وہ تنقیدی افکار کسی سے مستعار نہیں لیتے
بلکہ اپنے افکار خود قائم کرتے ہیں۔
تانیثیت کی تفہیم کے حوالے سے شمس الرحمن فاروقی کا ماننا
ہے کہ تانیثیت کے دو بنیادی تصورات ہیں۔پہلا بنی نوع انسان، دو طبقے مرد اور عورت میں بنٹا ہوا
ہے۔ دونوںاپنے اپنے طبقے میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی کرتے چلے آرہے ہیں۔مرد
وعورت دونوں طبقے کے باہمی تعلقات کی آویزش کا مطالعہ جنس (Gender) کے اصطلاحی لفظ کے تحت
ہوتا ہے۔جنس اور صنف یعنی Gender اورSex دونوں کے تصور مختلف ہیں۔ا س کی تفصیل کے بارے میں
شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں
’’عورت
اور مرد کے درمیان صنفی اختلاف کی بنیادپرکسی طبقے کو کم تر یا بہتر نہیں قرار دیا
جا سکتا۔یعنی یہ کہنا غلط ہے کہ عورت بطور صنف نازک مرد کے مقابلے میں کمزور یا کم
عقل ہے۔یہ بھی کہنا غلط ہے کہ بعض خصوصیات مثلاً نازک دلی، رقیق القلبی، شرم و حیا،ضد
وغیرہ عورتوں میں مردوں سے زیادہ ہوتی ہے۔دوسرے الفاظ میں عورتوں کے بارے میں تصورات
معاشرے میں رائج ہیں وہ اصلاً اور اصولاً معاشرہ کے وضع کردہ ہیںحقیقی نہیں‘‘
(تانیثیت کی تفہیم،شمس الرحمن فاروقی، مشمولہ کسوٹی
جدید نسائی ادب نمبرص13)
شمس الرحمن فاروقی نے تانیثیت کے چند اصول بیان کیے ہیںجو
کہ اوپر بیان کیے اصولوںکی روشنی میں متعین ہوتے ہیں۔
1 متن کی قرأت کے دو طریقے ہو سکتے ہیں ایک
مردوں کا دوسرا عورتوں کا اور دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے۔
2 مردو ں کے تخلیق کردہ متن میں عورتوں کے خلاف
شعوری یا غیر شعوری تعصب ضرور ہو گا۔
3 ادب کی تاریخ پر بلکہ تمام تاریخ پر ہمیشہ
سے مردوں کا غلبہ رہا ہے اس لیے ادب کی دنیا سے تانیثی نقطہ نظر اور ادبی متون کی فہرست
سے عورتوں کے متون کا شعوری یا غیر شعوری طور پر اخراج کیا جاتا رہا ہے۔
4 نام نہاد زنانہ جذبات کا اظہار تانیثی ادب
کا حق ادا نہیں کر سکتے۔تانیثیت اس کی نفی کرتی ہے لیکن اس بات کی تو ثیق بھی کرتی
ہے کہ عورت کی اپنی شخصیت ہے اور اسے الگ سے پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
5 مارکسی اور سرمایہ داری تصور کی روشنی میں
طبقات کی جو سماجی اور معاشی تقسیم کی جاتی ہے تانیثیت اس سے انکار کرتی ہے۔کیونکہ
ایسا بھی ممکن ہے کہ مارکسی نظریے کی رو سے مجبور یامحکوم مرد بھی عورت کے معاملے میں
اتنا ہی ظالم جابر ہو سکتا ہے جتنا کوئی ظالم مالک اپنے نوکر یا مزدور کے ساتھ ہوتا
ہے۔ اس لیے شمس الرحمن فاروقی کی نظر میں تانیثی طبقاتی شعور ہی اصل طبقاتی شعور ہے۔
6 تانیثی تنقید،ادب میں عورت کو نہ صرف اس کا
صحیح مقام دلانا چاہتی ہے بلکہ گزشتہ اور موجودہ ادب میں عورت کے نقطہ نظر کے اظہار
کی کمی کی تلافی بھی کرنا چاہتی ہے۔تانیثیت کا یہ دعویٰ ہے کہ عورت کے بنائے ہوئے متن
کو مرد پوری طرح سمجھ نہیں سکتے۔
ان اصولوں کی روشنی میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ تانیثیت کو
نسائیت یا زنانہ پن کہنا تانیثیت کے تمام اصولوں کی نفی کرتا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی کے یہاں تانیثیت
مارکسی نظریہ و فکر کو نہیں مانتی کیونکہ مارکسی فکر عورت کے الگ وجود کو طبقاتی تقسیم
میں جگہ نہیں دیتی ہے۔تانیثیت اور تحلیل نفسی فکر میں بھی کوئی خاص ہم آہنگی نہیں
ہے کیونکہ فرائڈ کی فکر تمام انسانی معاملات و تعلقات کو مرد کی جنسیت سے جوڑ دیتی
ہے۔بعض ناقدین نے تانیثیت، مارکسیت اور تحلیل نفسی کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس
پر شمس الرحمن فاروقی نے بہت ہی اہم سوال اٹھائے ہیں کہ کیا کوئی فکر اس اجتماع سے
پیدا ہو سکتی ہے ؟یا نہیں۔
اردو میں ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات
کے اہم بنیاد گزاروںمیں گوپی چند نارنگ کا نام آتا ہے۔گوپی چند نارنگ نے جدیدیت اور
ما بعد جدیدیت سے وابستہ تصورات کی جو تشریح کی ہے یا نظریات پیش کیے ہیںاس نے کئی
دہائیوں تک مختلف نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ان کا مطالعاتی دائرہ شاعری، فکشن، نظری تنقید،
لسانی مباحث، اسلوبیات، ہیئتی نظریات اور تہذیبی مطالعات تک پھیلا ہے۔کلاسیکیت سے ان
کی فطری وابستگی ہے۔
گوپی چند نارنگ کو مغربی مفکرین کے خیالات جو تانیثی تنقید
سے متعلق ہیں۔ اردو میں متعارف کرانے والے نقادوں میں اولیت حاصل ہے۔جدیدیت، مابعد
جدیدیت کے مباحث کے ساتھ ساتھ انھوں نے مغربی ناقدین ایلن شووالٹر،ژاک دریدہ،جولیا
کرسٹیوا وغیرہ کے تانیثی افکار کو موضوع بحث بنایاہے۔اردومیں تانیثی تنقید جو بہت پیچھے
ہے اس بارے میں وہ اظہار افسوس کرتے ہیں
’’ہم
ابھی بیدار ہو رہے ہیںاس ضمن میں کنّڑ زبان اور اس کا ادب سب سے آگے ہے۔ملیالم جہاں
صوفی صد خواندگی ہے وہ بھی اس سے بہت آگے ہے۔ بنگالی، ہندی، گجراتی، پنجابی، مراٹھی
وغیرہ زبانوں میں نیا ڈسکورس Femnism کے نام سے شروع ہو چکا ہے۔ ترقی پسندوں کی ایک باقیات
الصالحات یہ بھی تھی کہ عورتوں کا ادب مردوں سے الگ نہیںاس بات پر زاہدہ زیدی اور ساجدہ
زیدی بھی اصرار کرتی ہیں۔جیلانی بانونے تو ہلکا سا اشارہ کیا کہ اگر عورت کا ادب علیحدہ
ہے تو ایک سمینار مردوں کے ادب پر بھی ہونا چاہیے۔‘‘
(بیسویں
صدی میں خواتین اردو ادب،عتیق اللہ،ص27)
مغربی تنقید اور عالمی سطح پر جو کچھ بھی لکھا گیا ہے اس
کا بہت وسیع مطالعہ رکھنے والوں میں ایک اہم نام پروفیسر عتیق اللہ کا ہے البتہ یہ
ضرور ہے کہ بنیادی طور پر نظری تنقید ان کا میدان ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے کچھ نئے
تجربے بھی کیے ہیںجیسے ماحولیاتی تنقید کا ہمارے یہاں کوئی رجحان نہیں تھا۔عتیق اللہ
نے اس میدان میں قدم رکھااور اسے اردو میں متعارف بھی کروایاہے۔ اردو میں نظر ی مباحث
کے حوالے سے عتیق اللہ کانام بہت نمایاں ہے۔خاص طور پر تانیثی تنقید کے تمام نظریوں
کو وہ پیش نظر رکھتے ہیں۔
’’تانیثی
تنقید اپنی اکثر صورتوں میں ایسے ہر مطالعے کے رد کا نام ہے جس کا اصرار مرد وزن جیسے
کرداروں کی علاحدہ علاحدہ متعصبانہ تخصیص پر ہے۔ بشریات کی تاریخ کی روشنی میں یہ تو
مطالعہ کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے کہ کسی خاص دور میںیا ماضی میں نسوانی کرداروں
کا مطالعہ کسی حد تک صحیح یا غلط ہوا؟اس کی وجوہ کیا تھیں؟ تنقید نگاری کی قدر شناسی
کی کسوٹی کیا تھی؟ گذشتہ تصورات ہی کی اس نے توثیق یا توسیع کی ہے یا اپنی بصیرت کا
بھی استعمال کیا ہے؟ وہ کون سے تعصبات ہیں جو صحیح قدر شناسی کی راہ میں پہلے بھی حائل
تھے اور اب بھی ہیں؟ ‘‘
(بیسویں
صدی میں خواتین اردو ادب،عتیق اللہ،ص27)
تانیثیت پر ان کے دیگر مضامین موجود ہیں جن کے مطالعے سے
ان کی تنقیدی بصیرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تانیثیت اور تانیثی تنقید پر ان کے
اہم مضامین میں تانیثیت ایک تنقیدی تھیوری، خواتین کی نظموں میں فکر کے اسالیب، تانیثی
جمالیات کا تعینشہادت و امکانات، تانیثیت
ایک مطالعہ و غیرہ قابل ذکر ہیں۔تانیثی تنقید پر ان کے مضامین رسالوں کی زینت بنتے
رہتے ہیں۔ تانیثی جمالیات کے تعین میں عتیق اللہ لکھتے ہیں
’’تانیثیت
ایک سماجی سیاسی اور اقتصادی سیاق ہے۔ دوسرا وہ تناظر ہے جس کا تعلق ادب سے ہے۔ بیسویں
صدی کے اوائل ہی میں تانیثیت نے ایک مزاحمتی کردار کے طور پر فرانس اور امریکہ کی حدود
سے نکل کر یورپ کے کسی دیگر ممالک میںایک تحریک کی شکل اختیار کر لی تھی۔سماجی طور
پر تانیثی تحریک نے اس پدرانہ تفّوق کو نسوانی انا کی آزادہ روی، ذات کی من مانی نفسیاتی
تشکیل اور اقتصادی آزادی کی راہ میں انسانی فطرت کے خلاف گردانا جو اخلاقی اور تہذیبی
اصول سازی اور قوانین سازی میں ہمیشہ مرد اساس رہا ہے۔‘‘
(تانیثیت
ایک مطالعہ،عتیق اللہ، مشمولہ کسوٹی جدید نسائی ادب نمبر 2014 ص24)
ابو الکلام قاسمی کاشمارعصر حاضر کے ایسے نقادوں میں ہو
تا ہے جن کی تنقید نگاری میں توازن اور انفرادیت جھلکتی ہے۔تنقیدی اصول و نظریات پر
انھوں نے جو بھی گفتگو کی ہے اس میں کہیں بھی الجھائو یا ابہام نہیں ملتا ہے بلکہ موضوع
و موقف پر ایسا ارتکاز ملتا ہے کہ بعض اوقات ان کے موقف سے اختلاف کے باوجودقاری ان
کی سلیقہ مندی کا قائل ہو جاتا ہے۔’تانیثی ادب کی شناخت اور تعین قدر‘ قرۃ العین حیدر
اور نسائی حسیت کا رجحان‘ وغیرہ ان کے ایسے مضامین ہیں جن کے مطالعے سے یہ ثابت ہوتا
ہے کہ ان موضوعات پر ابو الکلام قاسمی نے اس وقت قلم اٹھایاجب بہت کم ادیبوں نے ان
کی طرف توجہ دیااور نو آباد یاتی فکر کواردو کی ادبی و شعری نظریہ سازی سے ہم آہنگ
کرنے نیز تانیثی ادب کی اطلاقی صورتوں کو نمایاں کرنے کی کو شش کی ہے۔وہ لکھتے ہیں
کہ
’’تانیثی
ادب کی شناخت قائم کرنے کی کوشش کی جائے تو،مغرب کی زبانوں کے مقابلے میںاردو کا معاملہ
زیادہ افراط و تفریط کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ہمارے معاشرتی نظام کے زیر اثرادب میںبھی
پدری نظام کی بالادستی شعوری سے کہیں زیادہ تحت الشعوری گہرائیوں میں پیوست ہے،کہ خودعورتیں
بھی عموماًجنسی تفریق پر قائم اپنے ادبی سرمائے پر قانع ہیںاور ان کے رویے اپنی محکومیت
کے رجحان کوتقویت دینے میںکچھ کم معاون نہیں۔‘‘
(تانیثی
ادب کی شناخت اور تعین قدر،ابوالکلام قاسمی،بیسویں صدی میں خواتین اردو ادب،عتیق اللہ،ص62)
قاضی افضال حسین کو مابعد جدید ناقدین میں ممتاز مقام حاصل
ہے۔ بطور خاص تانیثیت، مابعد نوآبادیاتی تنقید کے علاوہ تازہ ترین عالمی رجحانات ادب
پر ان کی نظر ہے۔
قاضی افضال کا مضمون ’متن کی تانیثی
قرأت‘ ان کی گہری بصیرت اور شعور کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ یہ مقالہ 2000میں دہلی
یونیورسٹی میں منعقد ہ سمینار ’بیسویں صدی میں خواتین اردو ادب‘میں پیش کیا گیا تھا۔
اس مقالے میں قاضی افضال نے متن کی تانیثی قرأت پرمدلل بحث کی ہے اور اسے مثالوںکے
ساتھ سمجھانے کی کوشش بھی کی ہے۔ عورت کے استحصال
کی تمام صورتوں کو واضح طور پر بیان کیا ہے قاضی افضال حسین لکھتے ہیں
’’مبادلے
کی اس روایت میںعورت کے استحصال کی تمام شکلیں شامل ہیں۔ چنانچہ بہ قول Gayle
Rubin عورت شادی میں دان کی جاتی ہے،جنگ میں جیتی جاتی ہے، بدلے میں پیش کی جاتی
ہے۔اپنا کام نکالنے کے لیے بطور رشوت دی جاتی ہے اور انھیں خریدا اور بیچا جاتا ہے۔Rubin مزید کہتی ہے کہ خریدے اور بیچے تو غلام بھی جاتے
ہیں بلکہ شاعر، موسیقار،مصور اور کھلاڑیوں کے مبادلے کی بھی متعدد شکلیں ہیںلیکن ان
کی تجارت ان کے اوصاف اور مخصوص صلاحیتوں کی بنیاد پر ہوتی ہے جب کہ عورت صرف عورت
ہونے کے سبب مال تجارتی بن جاتی ہے۔‘‘
(متن
کی تانیثی قرأت، قاضی افضال حسین، مشمولہ کسوٹی جدید نسائی ادب نمبرص32 )
عورت کے مبادلے کی مختلف صورتوں کو قاضی افضال نے مثالوں
کے ساتھ بہترین انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔جیسے کہ ناول امرائوجان میں امرائو
جان کی داستان اگرچہ صیغہ واحد حاضر میں بیان کی گئی ہے۔جس کا تقاضا تو یہ ہے کہ تمام
واقعات کو امرائو جان ایک عورت کے نقطہ نظر سے بیان کرتی ہیں لیکن چونکہ نسائی تشخص
ضرور ناول میں شامل ہے لیکن ناول لکھنے والا تو ایک مرد ہی ہے اسی لیے نسائی تشخص کے
باوجود بھی راوی انھیں اقدار کا حامل ہے جو اصلاً مرد اساس ہیں۔
علی احمد فاطمی کی نظریاتی وابستگی بہت صاف طور پر مارکسزم،
اشتراکیت، کمیونزم اور ترقی پسندی سے ہے۔ تانیثیت کو وہ مارکسزم سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔تانیثی
نقطہ نظر سے ان کا مضمون ’ممتاز شیریں... اپنی
نگریاسے میگھ ملھار تک‘ اہمیت کاحامل ہے جس میں انھوں نے تانیثیت کے مختلف پہلوئوں
کا عملی جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ تحریک نسواں اور سر سید تحریک اور ترقی پسند تحریک
کے حوالے سے تانیثیت پر بحث کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ممتاز شیریں کی تخلیقات کو تانیثیت
اور ترقی پسندی سے جوڑکر دیکھنے کی سعی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر محمود شیخ تانیثی تنقید کے ساتھ ساتھ نفسیاتی تنقید،
جدید تنقید کے حوالے سے ایک معتبر نام ہے۔ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے وہ جدیدتانیثیت
کے خلاف ہیں وہ مدلل انداز میں اس کی پر جوش مخالفت بھی کرتے ہیں۔ان کے مضامین ادبی
تانیثیت چند معروضات، نئی ادبی تاریخیت، نثری ادب میں خواتین کی زبان وغیرہ اہمیت کے
حامل ہیں۔ ان مضامین کے مطالعے سے محمود شیخ کے ادبی اور تنقیدی رویے کی گہرائی کا
بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ شاعری میں جو جدید تانیثی رجحان ملتا ہے محمود اس کے خلاف
ہیں۔ وہ فہمیدہ ریاض اور ترنم ریاض کی شاعری جو تانیثیت کے حوالے سے ہیں اسے نام نہاد
قرار دیتے ہیں اور اس پر سخت تنقید بھی کرتے ہیں۔کشور ناہید کی بھی بعض تحریروں کو
محمود شیخ نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اس نام نہاد جدید تانیثیت کی پول اپنے
مدلل انداز سے کھولتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان کی تنقید میں ہمیشہ توازن بر قرار رہتا
ہے۔اسی طرح ترنم ریاض کی تانیثیت کے زیر اثر لکھی گئی نظم کو بھی انھوں نے نشانہ بنایا
ہے۔
جدید تانیثی شاعری میں جنسی اور مادی نا آسودگی پر مبنی
خیالات کو محمود شیخ نے سخت نا پسند کیا ہے۔ اسی طرح انھوں نے افسانے اور ناولوں کو
بھی اپنی تنقید کا موضوع بنایا ہے۔
مشتاق احمد وانی نے تانیثی ادب کا نہایت گہرائی و گیرائی
سے مطالعہ کیا ہے۔ تانیثیت کے حوالے سے ان کی تصنیف ’اردوادب میں تانیثیت‘ہے۔ جس میں
تانیثیت سے متعلق مختلف موضوعات و نو عیت کے مضامین شامل ہیں۔پوری کتاب سات ابواب پر
مشتمل ہے۔پہلے باب میں تانیثیت کی مکمل وضاحت کی گئی ہے۔ یہ بات واضح کرنے کوشش بھی
کی گئی ہے کہ تانیثیت نہ صرف عورتوں کے حقوق اور برابری کے لیے ہی آواز اٹھاتی ہے
بلکہ رشتے میں پائداری اور استحکام بھی چاہتی ہے اورخودی و عرفان ذات کے اظہار کا مطالبہ
بھی کرتی ہے۔اسی باب کے ذیلی عنوانات میںعورت سے متعلق قدیم نظریات اور مذہب و قانون
کے رویے پر بھی بحث کی گئی ہے۔ ہندوستانی سماج میں عورت کا کیا مقام ہے اور موجودہ
صورت حال میں اس کے سامنے کیا کچھ مسائل ہیں؟ ان سبھی سوالوں کے جواب تاریخی، سیاسی
اور سماجی پس منظر میں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔تانیثی تحریک چونکہ مردوںکی بالا
دستی عورتوں کی حق تلفیوں اور استحصال کے خلاف ایک شدید ردعمل ہے جو مغربی ممالک امریکہ،
بر طانیہ، جرمنی اور فرانس جیسے مغربی ممالک میں ابھری اور اس نے عورتوں کے تحفظ کے قوانین پر زور دیا۔
ڈاکٹر مشتاق احمد وانی کی یہ کتاب اردو میں تانیثی تنقید
میں سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔یوں تو اردو میں تانیثی تنقید پر بہت سے مضامین، رسائل
و جرائد میں مل جاتے ہیں یا پھر ترتیب دی گئی کتابوں دیگر ادیبوں کے مضامین مل جاتے
ہیں۔ لیکن تانیثی تنقید پر باقاعدہ کوئی تحقیقی و تنقیدی کتاب نہیں ملتی ہے۔اردو ادب
میں تانیثیت مشتاق احمد وانی کی تحقیقی و تنقیدی کتاب ہے جو تانیثی تنقید میں ایک روشن
باب کا اضافہ کرتی ہے۔
Dr. Ghazala Fatima
Mob.: 7530972798
Email.: ghazalaamuu@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں