8/12/22

نفسیاتی تنقید ردوقبول کی میزان پر: نصرت جہاں


نفس ہے وہم و گمان اور یقین

نفس ہے انسان کی فطرت کا امین

نفس نہ ہو تو مقدر ہے شکست

نفس کی قید میں ہے فتح مبین

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ادیب یا فن کار بظاہر ایک فرد ہوتا ہے لیکن بہ باطن کائنات کا سر چشمہ ہے یعنی جب وہ خود کو اپنے فن یا تخلیق کے سانچے میں ڈھال لیتا ہے تو اس کی حیثیت فرد کی نہیں رہ جاتی۔ سماجی و معاشی محرکات اور لا شعور بہ یک وقت اس میں مد غم ہو کر ایک وسیع دنیا آباد کرلیتے ہیں جہاں تخیل کی کار فرمائی شامل حال رہتی ہے ممکن ہے اس کی یہ ذہنی اپج اس کے لا شعور کی دین ہو۔ لیکن نہ تو شعور کی منزل کو نظر انداز کیاجا سکتا ہے اور نہ ہی جذبات شدت یا جمالیات کی طرف اس کے جھکاؤ کو تحلیل نفسی کی بنیاد مانا جا سکتا ہے۔ یہ نکتہ ادب کی ہر صنف پر لاگو ہوتا ہے اور تنقید بھی اس سے مبرا نہیں ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ادب کو زندگی سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ زندگی سے براہ راست وابستگی نے ادب کو ایک مقام عطا کیاہے۔ ادب جہاں زندگی کے مختلف پہلوؤں کی ترجمانی کرتاہے وہیں اس کا تجزیہ اور پرکھ جو ایک معروضی عمل ہے تنقید کی بنیاد بنتا ہے۔ اسی لیے تنقید کو ادب کا ایک جز قرار دیا گیا ہے۔ ادب در اصل افکار و خیالات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ جسے فنی دراکی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اس عمل میں حیات و کائنات کی پیچیدگیوں کا  فن کارانہ اظہار ہی تنقید کے وجود کا احساس دلاتا ہے۔ لیکن ہمیں اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ فن کار یا ادیب بذات خود نقاد ہوتا ہے جو اپنی تخلیق کوفنی نقطہ نظر کی روشنی میں اور تخیل کی بنیاد پر اسے جذبات کی کسوٹی پر پر کھتا ہے۔ تخلیق کے اس عمل میں اسے بارہا شعور و لا شعور کی تکرار سے بھی گزر نا پڑتا ہے اور تب تخلیق وجود میں آتی ہے۔ لہٰذا ادب یا فن انسان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی نہ صرف ترجمانی کرتا ہے بلکہ اس کی تخلیق جذبات تاثرات، فکرکی منتقلی کے ساتھ اس کی شعوری نیم شعوری اور لا شعوری ذہنی پیچیدگیوں کے ساتھ ہوتی ہے وہیں تجزیہ جو ایک معروضی عمل ہے تنقید کی بنیاد بنتا ہے اور پھر تنقید نگار تخلیق کی پرکھ اپنے نظریے کی روشنی میں کرتا ہے اور اسے مختلف زاویوں سے جانچتا ہے ادب اور فن اگر تنقید کی منازل سے نہ گزریں تو ان کی ارتقائی صورت منجمد ہوتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ادب اور فن کے ساتھ ساتھ تنقید کا وجود بھی مسلم ہے۔ بہ الفاظ دیگر فن تنقید کے مراحل سے گزر کر اپنی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور اس کی اہمیت سے انکار مشکل ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ تنقید کا کام ادب و فن کی قدر کو متعین کرنا ہے جب کہ تنقیدی نظریات فن پاروں کی روشنی میں مرتب ہوتے ہیں اس لیے ان کی راہ نمائی اس بات کو طے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کون سی تخلیق فن پارہ ہے اور کون سی تخلیق فن پارہ نہیں۔

 تنقیدی نظریات اس وقت ادب و تنقید سے وابستہ ہوئے جب مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں نے مختلف نظریات کی حمایت و مخالفت میں اپنے دلائل پیش کیے اور اسے ان نظریات پر حامل فن کی کسوٹی پرپرکھا۔ ایسی صورت میں تنقید کے نظریات فن تنقید کے پیرایۂ بیان بنے۔ ایسے میں تنقید نگار کی ذمے داری بھی بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ وسعت نظری سے فن تنقید کے تقاضے نئی توانائی اور نئی توقعات کے طلب گار بن جاتے ہیں اب یہ تنقید نگارپر منحصر ہے کہ وہ معروضیت سے کام لیتے ہوئے فن پارے کا جائزہ لے اور غیر جانب داری برتتے ہوئے اس پر اظہار خیال کرے۔

مختلف اد وار میں مختلف تحریکات اور نظریات نے جہاں تخلیقات اور تخلیق کاروں کو نئے زاویہ نگاہ فراہم کیے وہیں فن تنقید کو نئے رخ عطا کیے۔ عالمی سطح پر یونانی مفکر ارسطو کی ’بو طیقا‘تنقید کی پہلی کتاب قرار پاتی ہے اور اردو میں حالی کی’مقدمہ شعر و شاعری‘ کو اردو کی پہلی تنقیدی کتاب قرار دیاجاتا ہے۔ دونوں جگہ ہی فن کے اصول متعین کیے گئے ہیں اور نظریات سے بحث کی گئی ہے۔ تنقید کے مختلف نظریات میں ایک اہم نظریہ نفسیاتی تنقید کا ہے۔ نفسیاتی تنقید کے بنیاد گزاروں نے نفسیاتی تنقید کے تعلق سے اپنے اپنے طور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ افلا طون نے اخلاقی نظریہ عام کیا۔ جب کہ اس کے شاگرد ارسطو نے المیہ پر تو جہ صرف کی او رپھر اس کے نظریات کی مختلف شاخیں پھوٹنے لگیں۔ کولرج نے رومانیت پر زور دیا اور تخیل کو ادب میں کلیدی حیثیت گر دانا۔ اس کا خیال ہے کہ تخیل کا سر چشمہ لا شعور سے پھوٹتا ہے۔ فرائڈ اور یونگ نے تحلیل نفسی اور آر کی ٹائپ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ شعور، لا شعور اور تحت الشعور کے نظریے کو ادب سے جوڑنے کا عمل فرائڈ اور یونگ سے شروع ہوا جن کا سارا زور انسانی نفسیات پر تھا اور یہی نظریے نفسیاتی تنقید کی بنیاد ٹھہرے۔ ادب میں نفسیاتی تنقید کا عمل ان ہی کے نظریات کی روشنی میں دیکھے گئے۔

 ادب میں ذات اور کائنات میں شعور کا اظہار ہوتا ہے اور اظہار میں نفسیاتی تحرک کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ موضوع کی مناسبت سے اس بات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ تخلیق کار ہو یا تنقید نگار، خیالات کے اظہار میں اپنی ان نفسیات سے ضرور کام لیتا ہے جو اس کے شعور، تحت الشعور یا پھر لا شعور میں موجود رہتی ہے۔ تخلیق کار تخلیقی عمل کے دوران اپنی نفسیات کو بروئے کار لاتا ہے اور نقاد فن پارے میں موجود فن کار یا تخلیق کار کے نفسیاتی پہلوؤں کو منکشف کرتا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ تنقید میں انداز ِ فکر اور اندازِ نظر دونوں کی اہمیت ہوتی ہے اور یہی فکر و نظر فن پارے کے متضاد پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے۔ یہ نقاد کی عمیق نگہی پر منحصر ہے کہ وہ جس مکتبہ فکر کا داعی ہوگا اسی تناظر میں اس فن کو آنکے گا۔نقاد تخلیق کے بطن میں داخل ہو کر اسے سمجھنے کی سعی کرتا ہے جہاں فن کار کے شعورو آگہی کی قوت یعنی شعور و لا شعور کا امتزاج، تجربات و مشاہدات اضطراری عمل اظہار کا درجہ پاتے ہیں یہ ایک غیر متوقع عمل ہے جہاں نفسیات کی تہیں خارجی تجربات اور باطنی تغیرات سے ہم آہنگ ہوتی ہیں، جس میں دماغ کی لاکھوں خلیوں کی کڑیاں جڑی رہتی ہیں۔ اگر ان کا توازن بگڑ جائے تو بغاوت سر ابھارتی ہے اور اس طرح یہ تعمیری عمل بھی اعصابی خلل قرار پاتا ہے اور رد عمل اور ذہنی کشا کشی اس عمل میں نفسیات کا بڑا دخل ہوتا ہے جہاں نفسیاتی الجھنیں اور ذہنی محرکات جذبات کے اظہار میں رکاوٹ بنتے ہیں اور جہاں سے فراریت کی راہ نجات نظر نہیں آتی۔ فن پارے کو جذبات سے مبرا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نقاد پر بھی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ فن کار کے جذبات کا ایماندارانہ تجزیہ کرے۔ ڈیوٹ ڈیشر (David Daiches) نے جذبات کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے لکھا ہے

’’جذبات اور ان کی پرداخت انسان کے لیے متبدل نہیں کیونکہ ہمارے یہ جذبات متبدل نہیں بلکہ حصول علم کے لیے ایک ذریعہ ہیں۔‘‘

یہی جذبات رومانیت کی اساس قرار پائے جس نے رومانی تنقید کو راہ دی۔جرمن رومانیت نہ صرف یورپ کی پہلی رومانی تحریک ہے بلکہ اس میں وہ انتہا پسندی ذرا کم ہے جو فرانس اور بعد میں انگریزی رومانیت Great movement of Phlosopher eitchenمیں نمایاں ہوئی۔ جرمن میں (Fichye Sechiller) فیشے شیلر، شیلنگ، شلیگل اور ہیگل، فرانس میں Rosseav، Voltaine ڈی ڈیرو اورانگلستان میں ورڈزورتھ، کولرج اور کرافٹ کے نام نمایاں ہیں۔ ان تینوں جگہوں پر رومانی تنقید تین الگ الگ نظریات کی نمائندگی کرتی ہے۔ جرمن میں فلسفیانہ، فرانس میں سیاسی اور انگلستان میں سماجی عوامل بر سر پیکار رہے۔ ان تمام بحث کا مطلب یہ ہے کہ نفسیاتی رجحانات کا عمل دخل رومانی شاعری و رومانی تنقید پر سب سے زیادہ رہا۔ جہاں مسرت، حسن اور جذبات رومانیت کی اساس قرارپائے اور اسی نے نفسیاتی تنقید کو جلا دی۔

نفسیاتی پہلو ہر قسم کے افکار میں خواہ وہ شخصی ہو یاذاتی رجحانات، جذبات اور احساسات کا تجزیہ بن کر یا تخلیقی پیرایہ بیان کا عنصر بن کر داخل ہوجاتے ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ احساس ایک خارجی امر ہے اور اپنے وجود کے لیے اعصاب کا محتاج ہے یہ احساس تحت الشعور میں بہت سی پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے جسے ہم جذبے کے انتشار کی صورتوں کا نام دیتے ہیں۔ شاعری میں شعر کی مدد سے شاعر کی نفسیات کا تجزیہ یا ڈرامے میں کر دار کی نفسیاتی الجھنوں کو خود ڈراما نگار کی ذاتیات سے جوڑ کر فیصلہ کرنا ناجائز  نہیں۔ شیکسپیئر کے ڈرامہ ہیملٹ(Hemlet) کے کر دار کے سلسلے میں کہا جاتا رہا ہے کہ شیکسپیئر خود ایڈپیس کا شکار تھا لیکن بعد کے نقادوں نے اسے غلط قرار دیا۔

 نفسیاتی تنقید کی در اصل کئی منزلیں ہیں۔ بعض اوقات تنقیدنگار مصنف کی سوانح عمری کی روشنی میں اس کی تخلیقات کو پرکھتا ہے اور زماں و مکاں کی قید اس کی شخصیت اور تخلیق کی جلوہ گری کا سبب گر دانتا ہے اورکبھی شعور، لا شعور و تحلیل نفسی کی پیچیدگیوں میں اس تخلیق کا جواز تلاش کرتا ہے یا پھر سماجی محرکات اور اجتماعی لا شعور کی روشنی میں اس کی تخلیق کا پیمانہ طے کرتا ہے لیکن مظاہر فطرت و سائنسی تجربات کو ایک ہی پیمانے میں نہیں تولا جا سکتا اور یہی تنقید کا اصول بھی ہے۔ تنقید نگار اپنی پرکھ کو ادب کے جس پیمانے میں تولتا ہے اس میں اس کے شعور کی کار فرمائیاں شامل رہتی ہیں۔ نفسیاتی رجحانات کا عمل دخل رومانی شاعری و رومانی تنقید پر سب سے زیادہ رہا۔ جہاں مسرت، حسن اور جذبات، رومانیت کی اساس قرار پائے اور انہیں کی موجودگی میں نفسیاتی تنقید اپنا تجزیاتی عمل قائم رکھنے میں کامیاب رہی۔

 نفسیات والوں کے پیش نظر سب سے بڑا مسئلہ ’اندر‘ کی وہ سلوٹیں ہیں جنھیں اگر دور نہ کیا جائے تو انسان نفسیاتی بحران کی شدت سے بعض اوقات پاگل پن کی زد پر آجاتا ہے۔ ان سلوٹوں کو ہموار کرنے کے لیے نفسیات والوں نے دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ تخلیقی عمل کو بھی بہت اہمیت بخشی۔جہاں تک نفسیاتی بصیرت کا سوال ہے اس کا تعلق کسی عہد، طبقے یا فرد سے نہیں بلکہ یہ وہ ذہنی کیفیت ہے جس کا تعلق تخیل اور تخلیق سے ہے خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو۔ ایک مصور اپنی نفسیاتی بصیرت کا اظہار آڑی ترچھی لکیروں سے کرتا ہے۔ جب کہ ایک ادیب یا شاعر تحریروں کے ذریعے اپنی نفسیاتی بصیرت کا اظہار کرتا ہے۔

جدید نفسیات سے کہیں پہلے کولرج نے نفسیاتی ادبی مباحث کی بنیاد ڈالی تھی۔ گرچہ کولرج رومانی تنقید کا علمبر دار تھا لیکن کولرج کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس نے پہلی دفعہ ادبی تنقید کو محض فن پاروں کے اچھائی وبرائی کے نقطہ نظر سے بلند ہو کر اس کی فلسفیانہ گہرائی کو مد نظر رکھا۔ اس کے مطابق شاعری کی طرح تنقید کا سر چشمہ بھی روحانی قوت اور الہام ہے۔ تنقید در اصل فن پارے میں شاعر کے تخیل کی کار فرمائیوں کی منفرد صورتوں کا جائزہ پیش کرنا ہے اور یہی نقاد کا اصل منصب ہے۔ دونوں کا بنیادی فرق یہ ہے کہ شاعر تخلیق کرتا ہے جو ایک نزاع کا امتزاج ہے جب کہ نقاد تنقید کرتاہے جو ایک طرح کی تحلیل ہے، کولرج، ورڈز ورتھ اور شیلے تینوںہی نے حسن، مسرت، اور جذبات پر زور دیا ہے۔Lionell trilling  نے اپنی کتاب Liberal Imagination  میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ انیسویں صدی میں جب رومانی ادب اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا اس کی ایک انتہائی صورت تحلیل نفسی تھی۔ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں تحلیل نفسی کو فروغ حاصل ہوا۔ تحلیل نفسی نے نفسیات کو نئی وسعت اور گہرائی دی چنانچہ زندگی اور فن کی دیگر صورتوں کی مانند ادبی تنقید بھی اس سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکی، لیکن کوئی خاص رہنمائی بھی نہ ہو سکی۔ تحلیل نفسی کے ذریعہ اس بات کی کوشش کی گئی کہ ادب میں فرد کی شخصیت، سماجی اورعمرانی حقائق کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی جائے۔

 سماج میں انتشار او رتشویش کا پہلو ہر جگہ یکساں نہیں ہوتا۔ یہ وہاں کے حالات، مخصوص سماجی نظام اور فلسفیانہ نظام فکر پر منحصر ہے لیکن اس کا اثر نوع انسانی پر یکساں پڑتا ہے۔ فرائڈ کے نظریات بھی انھیں نکات پر مبنی ہیں۔ دراصل فرائڈ نے انیسویں صدی کے وسط(1856) میں آسٹریا میں آنکھیں کھولیں۔ یہ وہ دور تھا جب یورپ میں سرمایہ داری نظام زوال پذیر تھا اور اس کے اثرات عام لوگوں کی زندگی پر پڑ رہے تھے۔ انتشار کے اس ماحول میں ذہنی نا آسودگی اور جذباتی تسکین دونوں ہی موضوع بحث تھے۔ اس کے پیش نظر فراڈ شخصیت کو تین حصوں ID، Ego اورSuper Ego  میں تقسیم کرتا ہے۔ID کو وہ شدت پسندی کی اس رو سے تعبیر کرتا ہے  جو سماجی زندگی میں نا پسندیدہ اور غیر مہذب قرار دی جاتی ہیں۔ ’اڈ‘(ID) فرد کی نمائندہ ہے۔ EgoاورSuper Ego  کو وہ سماجی زندگی سے تعلق رکھنے والے مہذب رشتے سے تعبیر کرتا ہے۔

جہاں ایک بچہ اپنی جائز و ناجائز خواہشوں کو بظاہر والدین کی پھٹکار سمجھ کر قبول کرلیتا ہے لیکن ’انا‘ کی یہ جنگ اسےSuperEgo  کی سمت لے جاتی ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں فرائڈ انسان کی دو فطری جبلتوں کا ذکر کرتا ہے، یعنی جبلت حیات اور جبلت موت۔ ’انا‘ کی فتح، ذہنی آسودگی اور خواہشات کی تسکین اسے جبلت حیات کی طرف لے جاتی ہے اس کے بر خلاف پیداشدہ صورت حال اسے جبر و تشدد، ایذا رسانی اور خود اپنی ذات کو اذیت دے کر لذت کرنا جبلت موت کی ترغیب دیتی ہے کیونکہ زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے پورا ہونے کے عمل میں رکاوٹ، رد عمل کے طور پر جارحانہ رجحان کو فروغ دیتی ہے۔ فرائڈ کا بنیادی خیال یہ ہے کہ 

’’ ہر شعور ی فعل کی تہہ میں لا شعور کی کار فرمائی ہوتی ہے، یہ لا شعور جبلی زندگی کا سر چشمہ اور نسلی ورثہ کا گودام ہے۔‘‘

 جنسیات کو فرائڈ نے ایک مبہم اصطلاح کے طور پر استعمال کیا ہے، جو بچپن سے سن بلوغ تک پہنچنے کے دوران وقوع پذیر ہوتی ہیں اور جب ہماری شعوری زندگی کے معیار سے ٹکراتی ہیں تو اظہار میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ فرائڈ نے ذہنی اور جنسی ہیجان کے تشفی بخش اور غیر تشفی بخش ہونے کا سبب جنسی عدم مساوات کو مانا ہے اور کہتا ہے کہ اسی بنا پر سماج میں عورتوں کو ثانوی درجہ حاصل ہے۔ سماج میں عورت کی نابرابری ایک الگ موضوع بحث ہے جس کے کئی جواز ہیں۔ سائنسی نقطہ نظر، مذہبی نقطۂ نظر اور سماجی نقطہ نظر۔ یہی وجہ ہے کہ فرائڈ کا نظریہ لا شعور اور تحلیل نفسی کا نظریہ اب بھی متنازعہ فیہ ہے۔

یہاں ایک بات بتاتی چلوں کہ فرائڈ اور ایڈ لیرو یونگ کے نظریے کا بنیادی فرق یہ ہے کہ فرائڈ خواب کو لا شعور میں پوشیدہ خواہشات کے مظاہر مانتا ہے جب کہ یونگ اسے ابدیت سے تعبیر کرتا ہے اور خواب میں گزرے ہوئے واقعات، علامات اور اشارات کو Archetype  کہتا ہے جو نسل در نسل قوم کا ورثہ بن جاتے ہیں اور جسے وہ اجتماعی لا شعور کا نام دیتا ہے اور یہ بھی کہ ہر قسم کے تنقیدی افکار میں خواہ وہ شخصی ہوں یا ذاتی، نفسیاتی پہلو ذاتی رجحانات اور جذبات و احساسات کا تجزیہ بن کر یا تخلیقی پیرایہ ٔ بیان کا عنصر بن کر داخل ہوجاتے ہیں۔ خاص کر اظہار جذبات میں نفسیاتی بصیرت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ موضوع کی مناسبت سے اس بات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ تخلیق کار ہو یا تنقید نگار خیالات کے اظہار میں اپنی ان نفسیات سے ضرور کام لیتا ہے جو اس کے شعور تحت الشعور یا پھر لا شعور میں موجود رہتی ہیں۔ تخلیق کار اپنے فن کی وجودیت کے لیے اس کو بروئے کار لاتا ہے۔ جب کہ نقاد شخصیت کی ارتقا کے لیے اس کا سہارا لیتا ہے۔

اردو ادب میں جدیدیت کے ابتدائی دور میں جن نقادوں نے مغربی اثرات قبول کیے اور اسے مشرقی افکار و نظریات کے امتزاج سے اپنی تنقید کا حصہ بنایا اور بعض نئے تصورات و خیالات پیش کیے حتیٰ کہ ادب کی قدر و قیمت متعین کی۔ ان میں آزاد، حالی اور شبلی کا نام نمایاں ہے۔ گرچہ ان کے تذکرے اور تحریریں نظریاتی تنقید کا نمونہ پیش کرتی ہیں، لیکن اظہار خیال میں نفسیاتی بصیرت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ غیر شعوری طور پر ہی سہی لیکن ان کی تحریر وں میں نفسیاتی تنقید کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ وحید الدین سلیم اور مرزا رسوا کی تحریریں بھی نفسیاتی تنقید سے متاثر نظر آتی ہیں۔ دونوں حضرات نے اس نظریے سے متاثر ہو کر چند مضامین لکھے جو مختلف رسالوں میں شائع ہوتے رہے یہاں تک کہ وہ ترقی پسند نقاد جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک خاص نظریے کے حامی اور سماجی، معاشی، تاریخی و فلسفیانہ پہلوؤں سے ادب کا مطالعہ کرتے ہیں ان کے یہاں بھی سماجی بے ضابطی، داخلی کشمکش اور طبقاتی فرق کی تلاش، فرد کی نفسیات میں ہی نظر آتی ہیں۔

اس بات سے انکار نہیں کہ اردو میں نفسیاتی تنقید کا باقاعدہ ارتقا عہد جدید میں ہوا جس میں مغربی افکار ونظریات شامل رہے۔ نفسیاتی تنقید کو باضابطہ طور پر متعارف کرانے کا سہرا میراجی کے سر ہے۔ نفسیاتی الجھنیں میرا جی کی نظموں کا خاص موضوع ہیں۔ میرا جی نے مغربی اثرات سے متاثر ہو کر آزاد نظم نگاری کے ساتھ جنسی اور لا شعوری علامتوں کے استعمال سے اردو شاعری میں ایک نئی تحریک کو جنم دیا۔ میرا جی نے ساری زندگی ذہنی کشمکش اور نفسیاتی الجھنوں میں بسر کی۔ غم حیات، عشق میں ناکامی، جنسی نا آسودگی ان کی شاعری میں صاف نظر آتی ہے۔ ان کے مضامین میں ’’مشرق و مغرب کے نغمے‘‘ نفسیاتی تنقید پر مبنی ہیں۔ میرا جی کے بعد نفسیاتی تنقید  نگاروں میں حسن عسکری، رفیع الزماں، ریاض احمد، سلیم احمد، سید شبیہ الحسن، ڈاکٹر محمود الحسن رضوی، شکیل الرحمٰن وغیرہ کے نام آتے ہیں۔ جو فرائڈ کے نظریہ تحلیل نفسی کے حامی ہیں۔ جب کہ وزیر آغا یونگ کے اجتماعی لا شعور کے نظریے سے زیادہ قریب نظر آتے ہیں۔ اس کی بنیاد وہ ثقافتی جڑوں کی تلاش کو مانتے ہیں جو تقسیم وطن کی پیدا کر دہ ہیں۔ تقسیم وطن اور فسادات کے بعد بہت سے عوارض پھیلے جن کی عکاسی اس زمانے کے ادب میں کی گئی۔ احتشام حسین کے اس اقتباس کو پیش کرتے ہوئے میں نفسیاتی تنقید کی اہمیت کو مزید  واضح کرنا چاہتی ہوں۔

’’اعلیٰ ادب ادیب کی شعوری قوت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اسے اس کے معمولی اور وقتی ہیجان کا نتیجہ قرار دے کر نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہو سکتا۔ اچھا ادب وقت کی چیز ہوتے ہوئے بھی ہر وقت کی چیز ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں انسانی شخصیت کی جو بالیدگیاں اور امکانات چھپے ہوئے ہیں انھیں بھی دیکھنا چاہیے اور ان حالات کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے بلکہ زندگی اور انسانی فطرت کو اس کی تمام پیچیدگیوں کے ساتھ سمجھنا چاہیے۔ روایت اور تغیر کاتاریخی احساس رکھنا چاہیے اور رائے دینا چاہیے کہ کسی مصنف یا ادیب نے کہاں تک زندگی کو مسرتوں سے معمور کیا ہے۔‘‘

)اصول نقد کا تعین، پروفیسر احتشام حسین، نگار، فروری - مارچ 1946، صف29(

اس اقتباس کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ فن پارہ اور فن کار کی صلاحیت کی حقیقت اور اصلیت کو نفسیاتی تنقید کی میزان پر نہیں تولا جا سکتا۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ تعین قدر کا مسئلہ نقطۂ نظر پر موقوف ہوتا ہے۔ نہ کہ نقطۂ صفات پر نقاد کا بنیادی کام تعین قدر ہے۔ جب تک نقاد کا نقطۂ نظر واضح نہیں ہوگا فن پارے کی قدر و قیمت کا تعین ممکن نہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اردو میں نفسیاتی تنقید نے نفسِ انسانی کی تصویر کشی کے ساتھ ساتھ فن کار کی شخصیت اور اس کے کر دار کے مختلف پہلوؤں اور ادبی رجحانات کو اجاگر کیا ہے لیکن اس کی یہ کوشش تشریح و تعبیر تک محدود رہی۔ لیکن نفسیاتی تنقید نے فن پارے کی روشنی میں فن کار کی نفسیاتی کشمکش اور ذہنی پیچیدگیوں کو سامنے لانے میں اہم رول تو ضرور ادا کیا لیکن انہی فنی بندشوں کے سبب قدر و قیمت اور اصول وضع کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوئی اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی نفسیاتی تنقید کو جدید اردو تنقید میں خاص مقام دینے میں پس و پیش ہے۔ 

Dr. Nusrat Jahan

75, Phears Lane

Kolkata - 700073 (West Bengal)

Mob.: 9433108905


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں