7/12/22

بیسویں صدی میں اردو کے اہم سفرنامے: محمد معظم الدین


  ہماری زندگی کا ناگزیر عمل بن چکا ہے۔ زندگی کے مختلف اوقات میں ہم مختلف طرح کا سفر کرتے ہیں۔ کبھی یہ مختصر ہوتا ہے اور کبھی طویل۔ اس میں طرح طرح کے تجربے اور مختلف مشاہدات سے ہم دوچار ہوتے ہیں۔ یہی مشاہدے اور تجربے جب اس لائق ہوجاتے ہیں کہ ان میں دوسروں کو بھی شریک کیا جائے تو اسے ہمیں تحریر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح سفر کو ایک د ستاویزی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور دوسروں کی د لچسپی اور ضرورت کا سامان بن جاتا ہے۔

سفر نامہ سراسر بیانیہ نثری صنف ہے۔ اس کے خدوخال ابھی تک متعین نہیں ہو سکے ہیں۔ یہی اس کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ اس میں اسی قدر تنوع دیکھنے کو ملتا ہے جتنا سفرنامہ نگار میں ہوتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ سفر کرنے والے کی اکتسابی صلاحیت، تجربات، مشاہدے، ذاتی محسوسات، وسعتِ معلومات، زبان پر گرفت اور اندازِ پیش کش پر منحصر ہوتا ہے۔ یعنی کامیاب سفر نامے کا انحصار اس بات پر ہے کہ سفرنامہ نگار نے ان عناصر سے کام لے کر اسے کس قدر د ل چسپ بنایا ہے۔

سفرنامہ قوموں اور ملکوں کی جغرافیائی صورتِ حال، تہذیب و ثقافت، رہن سہن، آدابِ معاشرت، رسم و رواج اور اخلاق و عادات کا مرقع ہوتا ہے۔ ان سب باتوں کو جتنی خوبی،وسعت اور ذمے داری کے ساتھ جگہ دی جاتی ہے وہ سفرنامہ اتنا ہی کامیاب ہوتاہے۔ ایک کامیاب سفرنامہ تاریخ کی سر حد میں داخل ہو جاتا ہے اور اس کی حوالہ جاتی حیثیت ہو جاتی ہے۔

سفرنامے میں سفرنامہ نگار کے لیے لازم ہے کہ جو کچھ اس کے مشاہدے میں آئے اسے مِن و عن پیش کرنے کی سعی کرے۔ اس میں اس کی ذاتی پسند و ناپسند کا دخل تو ہوسکتا ہے لیکن اسے ضرورت سے زیادہ اہمیت دینا مناسب نہیں ہے۔ یہاں سب سے اہم چیز پیش کش ہے یعنی جو کچھ نظروں سے گزرا ہے وہ کس قدر ہمارے شعور کا حصہ بنا ہے اور  صفحۂ قرطاس پر کس قدر اس کی ترجمانی ہوسکی ہے۔ سفرنامہ نگار کا مقصد قارئین کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہے یعنی انھیں اپنے شعور کا حصہ بنانا ہے۔ وہ سارے مناظر، واقعات، مقامات جو اس کی نظر سے گزرے ہیں، ہو بہ ہو  اس کی تصویر قاری کے سامنے آجائے۔ سفرنامہ نگار اپنے تاثرات، نظریات، تجربات سے اسے دلچسپ بنا سکتا ہے لیکن یہاں لفاظی، تخلیقی اندازِ بیان، بے جا قیاس اور مبالغہ آرائی کی گنجائش نہیں ہے۔ ان سے سفرنامے کا فن مجروح ہو سکتا ہے۔ سفر نامہ نگار کے لیے اس صداقت کا بھی احساس ضروری ہے کہ ناول، افسانہ اور رپورتاژ وغیرہ انفرادی شناخت رکھتے ہیں۔

انیسویں صدی کے پانچویں عشرے کے اواخر میں اردو سفرنامے کی جو ابتدا یوسف خاں کمبل پوش کے سفرنامے’تاریخِ یوسفی‘ معروف بہ ’عجائباتِ فرنگ‘ سے ہوئی تھی اس نے انیسویں صدی کے اختتام تک ایک مستحکم روایت قائم کر لی تھی۔ تقریباً اس نصف صدی میں جو اہم سفرنامے منظرِ عام پر آئے ان میں نواب کریم خاں کا سیاحت نامہ، فدا حسین کا تاریخِ افغانستان، مرزا ابو طالب خاں اصفہان کا سفرِفرنگ، مولوی مسیح الدین علوی کا تاریخِ انگلستان (سفرنامۂ لندن )، سر سید کا مسافرانِ لندن اور سفرنامۂ پنجاب، مرزا نثار علی بیگ کا سفر نامۂ یو رپ، رامپور کے نواب محمد حامد علی خاںکا سیرِ حامدی، نواب محمد عمر خاں کے چھوٹے بڑے سات سفرنامے زادِ سفر، زادِ غریب، آئینۂ فرنگ، سفرنامۂ رئیس، نیرنگِ رنگون، نیرنگ ِ چین، فرہنگ فرنگ اور قند مغربی، ڈاکٹر شاہ علی سبزواری کا خوف ناک دنیا، شبلی نعمانی کا سفرنامہ ٔ روم و مصرو شام، محمد حسین آزاد کا سیرِا یران اور وسط ایشیا، محمد جعفر تھانیسری کا کالاپانی، مولوی عبدالرحمان امرتسری کا سفرنامۂ بلادِ اسلامیہ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

یہ سبھی سفرنامے نہ صرف مختلف ملکوں اور قوموں کے جغرافیائی، تاریخی، سیاسی، سماجی، تہذیبی، ثقافتی، اقتصادی تنوع کو ظاہر کر رہے ہیںبلکہ ان سے سفرنامہ نگار کے تجربات، مشاہدات، تاثرات، احساسات، نظریات، وسعتِ معلومات اور اندازِ پیش کش اور ان کے اسالیب کے تنوع کا بھی پتاچلتا ہے۔

سفرنامے کا سفر جس طرح آگے بڑھتا رہا اس کے مواد، اسلوب اور زبان و بیا ن میں بھی جاذبیت پیدا ہوتی گئی۔ لہٰذا قاری سے اس کا رشتہ دن بہ دن استوار ہوتا گیا۔ جغرافیائی اور تاریخی معلومات کی فراہمی، غیر جانب داری، سادہ اندازِ بیان، قوموں اور ملکوں کی سیاسی، سماجی، اقتصادی، ثقافتی صورتِ حال وغیرہ کی معلومات اس دور کے سفرناموں کی اہم خصوصیات ہیں۔ واقعات کو صحیح تناظر میں دیکھنے اور بیانیہ اندازِ بیا ن سے یہ سفر نامے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان سفرناموں میں سفرنامہ نگار نے اپنی ذات سے کم اور  واقعات و حقائق سے زیادہ سروکار رکھا ہے۔

یہ سبھی سفرنامے کسی نہ کسی مقصد کے تحت لکھے گئے ہیں۔ یہ مقاصد زیادہ تر علمی اور اصلاحی تھے۔ ان سے قوم و ملک کی حالتِ زار کو بہتر بنانے اور نئی نئی سائنسی ایجادات سے اہلِ ملک کو واقف کرانا تھا تاکہ وہ تیز رفتار بدلتے ہوئے معاشرے کو مثبت غور و فکر عطا کر کے ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔ کچھ سفرنامے سیر و تفریح کی غر ض سے بھی لکھے گئے ہیں جو نئے ملک کی چکاچوند روشنی اور احساسِ مرعوبیت سے گراں بار ہیں۔

اردو سفر نامے کے اس پس منظر کے ساتھ جب ہم بیسویں صدی میں قدم رکھتے ہیں تو اس کی رفتار یہاں کچھ زیاہ تیز دکھائی دیتی ہے۔ یہ صدی جہاں ایک طرف تاریخ، سوانح، تنقید، ناول، افسانہ، خطوط اور انشائیہ وغیرہ کے لیے ساز گار تھی وہیں اردو سفرنامے کا سفر بھی پوری توانائی سے جار ی تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ مالی آسودگی، سفر کے ذرائع میں بہتری، مختلف علوم کی ترقی، شو قِ سفر و ذوقِ جستجو میں اضافے نے اسے مزید مہمیز کیا۔ لہٰذا اس صدی میں سفرناموں کی تعداد سو سے تجاوز دکھائی دیتی ہے یعنی اوسطاً سال میں ایک۔ تقسیم ِہند سے پہلے لکھے گئے سفرناموں کی تعداد تقریباً چالیس ہے اور تقسیم کے بعد اس سے زیادہ۔ ظاہر ہے مختصر مقالے میں سب پر گفتگو ممکن نہیں ہے۔ لہذا چنندہ سفرناموں کو ہی موضوع بحث بنایا گیا ہے۔

بیسویں صدی کی ابتدا میں ’ پیسہ ‘ اخبار لاہو ر کے مدیر منشی محبوب عالم کے دو سفرنامے ’ سفرنامۂ یورپ‘ اور ’سفرنامۂ بغداد‘ د ستیاب ہیں۔ اول الذکر میں انھوں نے فرانس، انگلستان، روم، شام اور مصر کی سیاحت کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے ان ممالک کے اسفار ایک مصلح کی حیثیت سے کیے تھے۔  سرسید کی طرح انھوں نے بھی ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کو بہتر بنانے کا خواب دیکھا تھا۔ان کے نزدیک سفر وسیلہ ٔ  ظفر تھا۔ وہ دیگر ممالک کی علمی ترقیوں سے اپنے وطن کی سماجی اور معاشی زندگی کو بہتر بنانے کے خواہش مند تھے۔ لہٰذا انھوں نے اپنے تجربے اور مشاہدے میں دوسروں کو شریک کرنا ضروری خیال کیا اور اپنی سیاحتی فتوحات کو خطو ط اور ڈائری کی مدد سے مرتب کرکے عوام کے سامنے پیش کیا۔

سفر نامۂ یورپ‘ معلومات کا ایک بیش بہا خزانہ ہے جس میں پورپ کی سماجی، ثقافتی، معاشرتی اور علمی و ادبی احوال و کوائف کو جملہ خصوصیات اور جزئیات کے ساتھ قلم بند کیا گیا ہے۔ اس میں ’ مشرق سے ہو بے زار نہ مغرب سے حذر کر ‘ کے اصول کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ انھوں نے ایک غیر جانب دار سیاح کی طرح حالات اور واقعات کو قرطاس پر منتقل کردیا ہے۔ پروفیسر خالدمحمود اس کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’... اس سفرنامے میں ہر چیز کو اس کی تمام باریکیوں کے ساتھ سمجھنے اور سمجھانے کی ایسی کوشش کی گئی ہے جو اس سے قبل لکھے گئے سفرناموں میں خال خال نظر آتی ہے۔ یہی خوبی ’ سفرنامہ ٔ یورپ ‘ کی انفرادیت اور اس کے مطالعے کا سب سے بڑا جواز ہے۔‘‘ 

)اردو سفرناموں کا تنقیدی مطالعہ،  خالد محمود، ص162)

سرسید کے رفیقِ کار نواب محسن الملک نے اس سفرنامے سے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار اس طرح کیا ہے

’’ سر سید احمد خاں کے سفرِ یورپ کے بعد کبھی اس قدر دلچسپی سے میں نے یورپ اور بلادِ اسلامیہ کی کیفیت نہیں پڑھی تھی۔‘‘ 

)مقدمہ سفرنامۂ یورپ، ص3،  بحوالہ اردو سفرناموں کا تنقیدی مطالعہ، خالد محمود، ص163(

منشی محبوب عالم کا دوسرا سفرنامہ ’سفرنامہ ٔ بغداد‘ ہے۔ اس سفرکا نادر موقع اس وقت ہاتھ آیا جب حکومتِ وقت نے انھیں انڈین پریس ڈیپوٹیشن کا ایک معزز رکن منتخب  کر کے عراق و عرب کو عالمی جنگ کے خطرات سے باخبر کرنے اور وہاں کے سیاسی و سماجی حالات کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا تھا۔ اس میں بھی تقریباً اول الذکر سفرنامے جیسی خوبیاں موجود ہیں اور سفرنامہ نگار کا وہی جذبہ کار فرما ہے جو پہلے سفرنامے کا طرّہ ٔ امتیاز ہے۔ اس میں عراق و عرب کی تہذیب و تمدن کے ساتھ ساتھ تاریخ اور جغرافیہ کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ دونوں سفرناموں کی زبان سادہ اور دل چسپ ہے۔ اندازِ بیان میں بے تکلفی اور حیرت و استعجاب کی فضا برقرار ہے۔

خواجہ غلام الثقلین نے اپنے سفر نامے ’روز نامچۂ سیاحت‘ میں روس، قسطنطنیہ، عراق، ایران، عرب( مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ ) وغیرہ ممالک کے سفر کا حال بیان کیا ہے۔ سماجی علو م پر خواجہ صاحب کی گہری نظر تھی اور اپنے اسفار میں انھوں نے ممالک کو اسی نقطۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ مظاہرِ فطرت کو قلم بند کرتے وقت انھوں نے تاریخی شعور اور جغرافیائی مطالعے سے بڑی مددلی ہے۔ انھوں نے معمولی اور چھوٹے واقعات کی تصویر کشی اس طرح کی ہے کہ دلچسپی کا عنصر خود بہ خود پیدا ہو گیا ہے اور قاری اسے اپنی زندگی سے بہت قریب پاتا ہے۔

خواجہ حسن نظامی کو مصورِ فطرت کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ ایک بے باک صحافی، بے مثل ادیب اور صاحبِ طرز انشا پرداز ہونے کے ساتھ ساتھ صوفیِ با صفا اور وسیع القلب انسان تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں کئی سفرکیے اورہر سفر کی روئداد تاریخ وار روز نامچے کی صورت میں محفوظ کر تے گئے۔ بعدمیں اسے سفرناموں کی شکل میں مرتب کر کے عوام کے سامنے پیش کر دیا۔ اس طریقۂ کار سے واقعات کی صداقت، پس منظر اور زمان و مکان کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔چنانچہ انھوںنے بے جا قیاس آرائی اورتخیل آفرینی سے اپنے فن کو مجروح ہونے سے بچالیا ہے۔

خواجہ حسن نظامی کے چار سفرناموں سفرنامۂ ہندوستان،  سیرِ دہلی، سفرنامۂ مصرو فلسطین و شا م وحجاز اور سفرنامۂ افغانستان میں مؤخر الذکر دو خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ ’سفرنامۂ مصرو فلسطین و شام و حجاز‘ سے ان کے صوفیانہ مزاج اور ادیبانہ شان دونوں کی ترجمانی ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنے سفرنامے میں مزارات اور مرقدوں سے متعلق تفصیلات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی و سماجی حالات، آداب ِ معاشرت، تعلیم و تربیت، اخلاق و عادات اور رسم و رواج پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ حسبِ ضرورت ان کا موازنہ اور تجزیہ بھی کرتے گئے ہیں۔ حج بیت اللہ سے شرف یابی کے دوران جب مدینۂ منورہ میں حضور پاکؐ کے روضۂ اقدس کی زیارت کا شرف حاصل ہوا تو اپنی دلی کیفیت کا بیان اس طرح کیا ہے۔

’’خوش نصیب ہیں یہ آنکھیں جو آپؐ کے روضۂ اطہر کو دیکھ رہی ہیں۔ نصیب والا ہے یہ ہاتھ جو اس نورانی جالی کو تھامے ہوئے ہے اور زبان کی عزت پر تو جس قدررشک کیا جائے کم ہے کہ وہ اس زندہ اورزندہ کرنے والے کے وجود سے کلام کر رہی ہے جس کے آگے سارے جہان کی زبانیں گنگ ہیں۔‘‘ 

(سفر نامہ مصر و فلسطین و شام و حجاز،ص7،بحوالہ اردو سفرناموں کا تنقیدی مطالعہ، خالد محمود،ص171)

خواجہ حسن نظامی کا دوسرا قابلِ ذکر سفرنامہ ’سفرنامۂ افغانستان ‘ ہے جس میں ستر دنوں کے احوال کو قلم بند کیا گیا ہے۔ اس میں افغانستان کی تاریخ، جغرافیہ، معاشرت، اقتصادیات، عقائد اور خاص طور پر روحانی تاریخ کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔خواجہ صاحب کے نزدیک اس سفر کا خاص مقصد بزرگوں کے مزارات پر حاضری تھا۔ خواجہ صاحب نے اس میں شاہ افغانستان غازی محمد نادر شاہ کے سفر نامے کے اردو ترجمے کی تلخیص بھی شامل کرلی ہے جس سے اس کی افادیت دو چند ہو گئی ہے۔ اس سفرنامے میں خواجہ صاحب نے افغانی قوم کے مزاج، عادات و اطوار، اخلاق و معاملات اور عقائد و مسالک کو اپنے مخصوص انداز میں پیش کیا ہے اور بے لاگ تبصرہ بھی شامل کیا ہے۔

مولوی محمد علی قصوری کا ’مشاہداتِ کابل و یاغستان‘ آپ بیتی کے انداز میںلکھا ہوا سفرنامہ ہے۔ انھوںنے یہ سفر والیِ افغانستان امیر حبیب اللہ خاں کے دورِ حکومت میں حکیم اجمل خاں، مولانا آزاد اور مولانا عبید اللہ سندھی کے مشورے پر کیا تھا۔ یہ ایک سیاسی نوعیت کا سفر تھا جو امیر حبیب اللہ خاں کو انگریزوں کی ریشہ دوانیوں سے آگاہ کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس سفرنامے میں افغانستان کے سیاسی، سماجی، معاشی، تعلیمی اور اقتصادی معاملات نیز رسم و رواج پر بڑے موثر انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ بادشاہِ وقت کے ذاتی مشاغل کی شمولیت سے یہ سفر نامہ اور بھی دل چسپ ہو گیا ہے۔ اگرچہ مولوی محمد قصوری کا یہ سفرناکام رہا لیکن انھوں نے جملہ حالات اور واقعات کو ایک غیر جانب دار سیاح کی نظر سے دیکھا ہے جو اس وقت کے افغان قبائیلوں کے اخلاق و عادات اور رہن سہن سے حقیقی واقفیت حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ معروضی انداز میں لکھے گئے اس سفرنامے کی زبان سادہ، رواں اور دل چسپ ہے۔ بقول خالد محمود ’’ اس سفرنامے میں حرکت کم اور حرارت زیادہ ہے۔‘‘ 

(اردو سفرناموں کا تنقیدی مطالعہ،  خالد محمود، ص(181)

کابل میں سات سال‘ مولانا عبیدا للہ سندھی کا تحریر کردہ ایک مشہور سفرنامہ ہے۔ یہ سفر بھی خالص سیاسی نوعیت کا تھا جسے مولانا عبیداللہ سندھی نے شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے بار بار اصرار کر نے پر کیا تھا۔ شیخ الہند کی خواہش تھی کہ کابل کی حکومت ہندوستان سے انگریزی اقتدار کو بے دخل کرنے میں معاونت کر ے اور خود افغانستان ایک مضبوط اسلامی حکومت کے طور پر قائدانہ کر دار ادا کرے۔ چنانچہ یہی جذبہ لے کر وہ افغانستان کے سفر پر آمادہ ہوگئے۔انھوں نے اپنی خداداد صلاحیت، سیاسی بصیرت اور مومنانہ فراست سے بہت جلد اکابرین ِ سلطنت کا اعتماد حاصل کر لیا اور انھیں بہترین مشوروں سے نوازا۔ اس ملک میں ان کے لیے پریشانیاں بھی کم نہیں تھیں۔ انگریزوں کی سازشوں سے بچنے کے لیے وہ پہلے روس گئے۔ وہاں سے بلادِ اسلامیہ کا سفر کرتے ہوئے حجاز مقدس آگئے اور یہاں کچھ عرصے قیام کے بعد ہندوستان واپس آگئے۔

مولانا سندھی نے اپنے وسیع تجربات، گہرے مشاہدات، بلند خیالات اور دل چسپ تاثرات سے اس سفر نامے کو وقار عطا کیا ہے۔ وہ اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کی تکمیل میں اس قدر کوشاں رہے کہ افغانستان کو غیر سیاسی نقطۂ نظر سے دیکھنے کا موقع نہیں مل سکا۔چنانچہ اس سفر نامے میں افغانستان کی تہذیب و معاشرت اور تاریخ و جغرافیہ جیسے موضوعات پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ مجموعی طور پر اس سفرنامے کو ایک سیاسی ڈائری سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جس کا انداز بیان خود نوشت سوانح عمری جیسا ہے۔

مولانا حسرت موہانی کی بیگم نشا ط النسا صاحبہ مولانا کے ہر دکھ درد میں برابر کی شریک رہی ہیں۔ مولانا کے ساتھ انھیں بھی حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی اور عراق کا بھی سفر کیا۔ ان دونوں اسفار کے احوال و کوائف کوا نھوں نے ’ سفر نامۂ حجاز‘ اور ’سفر نامۂ عراق‘ کے نا م سے مرتب کیا ہے۔ اول الذکر سفرنامہ حجِ بیت اللہ شریف سے متعلق ہے اور ان کی عقیدت و ارادت کے اظہار کی بہترین مثال ہے۔ مؤخرالذکر میں انھوں نے عراق کی تہذیب و معاشرت بالخصوص خواتین کے شوق، رہن سہن، طور طریق، آرائش و زیبائش اور تعلیم و تربیت کو عورت کی نفسیات اور جذبات کے نقطۂ نظر سے سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ بیگم حسرت موہانی نے عراق کی معاشرت کو حقیقت پسندانہ انداز میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ زبان کی سادگی، نسوانی لب و لہجہ اور بے ساختہ اندازِ بیان ان کے سفرناموں کی امتیازی خصوصیات ہیں۔

شیخ الہند حضرت مولانا محمودالحسن کا ’سفرنامۂ شیخ الہند‘ ایک اہم سفرنامہ ہے جس میں ان کے رفیقِ سفر مولانا حسین احمد مدنی نے ان تمام حالات و واقعات کو ایک سچے اور چشم دید گواہ کی حیثیت سے قلم بند کر دیا ہے جن سے وہ دورانِ سفر و اسیری دوچار ہوئے تھے۔ اس میں سیاسی اور تاریخی کوائف کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن کو بھی سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ سفر ممبئی سے شروع ہو کر جدہ، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہوتا ہوامصرو مالٹا میں اسیری اور رہائی پر ختم ہوتاہے۔ اس میں جزئیات کی فراوانی کے ساتھ حالات اور واقعات کا تجزیہ اور موازنہ بھی شامل ہے۔ یہ سفر نامہ روئداد ِسفر بھی ہے اور اپنے عہد کے سیاسی نشیب و فراز کی داستان بھی۔

طوفان سے ساحل تک‘ ایک نو مسلم محمد اسد کا بے مثل سفرنامہ ہے جس میں بقول پروفیسر خالد محمود ’’سفرنامہ نگارنے جسمانی اور ذہنی دونوں سطحوں پر سفر کیا ہے اور ذہنی سطح کا سفر جسمانی سطح سے کہیں زیادہ حیرت انگیز ہے۔‘‘

(اردو سفرناموں کا تنقیدی مطالعہ،  خالد محمود، ص215)

محمد اسد ایک ایسے یہودی گھرانے کے چشم و چراغ تھے جو عالموں، پادریوں اور مذہبی رہنماؤں کا معزز خاندان تھا۔ ان کا پرانا نام لیوپولڈویس (Leopoldwes) تھا۔  فلسفہ، تاریخ، منطق اور ادبیات کا وسیع اور گہرا مطالعہ کرنے نیز عالمی سیاست اور فنون لطیفہ سے شغف رکھنے کے باوصف راہِ حق کی تلاش میں برابر سر گرداں رہے۔ بالآخر مذاہبِ عالم کے مطالعے نے انھیں اسلام کی طرف راغب کیا اور وہ مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ یہ نعمت خداوندی انھیں کشاں کشاں حجاز مقدس کی طرف لے گئی۔ یہ سفرنامہ اسی سفر کی روئداد پر مشتمل ہے۔ اسے آپ بیتی کے انداز میں تحریر کیا گیا ہے جس میں مشرف بہ اسلام ہونے کی روئداد ا ور سفرِ حجاز کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔ یہ سفر نامہ محمداسد کی انگریزی کتاب The Road to Mackkaکا اردو ترجمہ ہے جو معروف اسلامی اسکالرحضرت مولاناابوالحسن علی ندوی معروف بہ علی میاں کے ایما پر ہوا۔آپ کے تعارفی کلمات کی شمولیت سے اس کی قدر و قیمت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ اپنے مخصوص طرز فکر، انداز بیان اور لب و لہجے کے اعتبا رسے بھی یہ سفرنامہ اپنی انفرادی شناخت رکھتا ہے۔

مولانا حسن الدین خاموش کا ’مرقعِ حجاز‘ اردو کے اہم سفرناموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس میں انھوں نے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور طائف وغیرہ کے ڈیڑھ سالہ سفر کی روئداد کچھ اس خوبی سے قلم بند کی ہے گویا وہاں کی سیاسی، تہذیبی، معاشی اور مذہبی زندگی کو گویائی مل گئی ہو۔ یہ سفر نامہ روزنامچے کی تکنیک میں لکھا گیا ہے اور خامیوں اور کوتاہیوں کو بھی سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن خلوص کی کارفرمائی ہر جگہ نظر آتی ہے۔ حجاز مقدس سے وابستہ ان کی محبت و ارادت قارئین کو بھی اپنا ہم سفر بنالیتی جو اس کی مقبولیت کی بین دلیل ہے۔

مذکورہ بالاسفر نامے تقسیم ہند سے پہلے لکھے گئے۔ تقسیم کے بعد ان کی رفتار مزید تیز ہوگئی۔ایک ہی ملک میں رہنے والے افراد اب ذہنی طور پر کم لیکن جسمانی طور پر دو ملکوں کا حصہ ہو گئے۔ دونوں ملکوں میں سفر کرنے والے افرادکے ذہنوں میں تقسیم کا کرب بھی نمایاں تھا جس کا اندازہ ان کے سفر ناموں سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے علاوہ   بلادِ یورپ اور بلادِ اسلامیہ کا بھی سفر جاری رہا۔

آزادی کے بعد مقبولیت حاصل کرنے والے سفرناموں کی تعداد خاصی ہے۔الگ الگ مقاصد کے تحت لکھے گئے یہ سبھی سفر نامے مو ضوعات کے تنوع، اندازِ فکر، طرزِ پیش کش اور زبان و بیان کے اعتبارسے اپنی انفرادی شناخت رکھتے ہیں۔ اس دوران جو اہم سفرنامے معرض وجود میں آئے ان میں ڈاکٹر سید عابد حسین کا رہ نوردِ شوق، صالحہ عابد حسین کا سفرِ زندگی کے لیے سوز و ساز، سید احتشام حسین کا ساحل اور سمندر، ڈاکٹر ثریا حسین کا پیرس و پارس، ڈاکٹر عبادت بریلوی کا ارضِ پاک سے دیارِ فرنگ تک، سید ابوالحسن علی ندوی کا ترکی میں دو ہفتے، کابل سے یر موک تک اور شرق وسط میں کیا دیکھا، مسعود احمد برکاتی کا دو مسافر دو ملک ( بچوں کے لیے)، مرزا ادیب کا ہمالہ کے اس پار، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا سفر آشنا، خواجہ غلام السیدین کا دنیا میر ا گاؤں، مدیر نقوش محمد طفیل کا مسافرانہ، جگن ناتھ آزاد کا جنوبی ہند میں دو ہفتے، مدیرِاوراق و زیر آغا کا بیس دن انگلستا ن میں، محمود نظامی کا نظر نامہ، اختر ریا ض الدین کا دھنک پر قدم، جمیل الدین عالی کا دنیا مرے آگے، تماشا مرے آگے، مستنصر حسین تارڑ کے چار سفرنامے نکلے تری تلاش میں، اندلس میں اجنبی، خانہ بدوش اور ہنزہ داستان، قرۃ العین حیدر کے دو سفر نامے جہانِ دیگر اور دکھلائیے لے جا کے اسے مصر کا بازار، قدرت اللہ شہاب کا اے بنی اسرائیل اور تو ابھی رہ گزر میں ہے، ممتاز احمد خاں کا جہاں نما، عطاء الحق قاسمی کا شوق آوارگی، ذو الفقار احمد تابش کا جوار بھاٹا، ڈاکٹر وحید قریشی کا چین کی حقیقتیں اور افسانے، نجمہ افتخار راجا کا سایو نارا، ڈاکٹر صغریٰ مہدی کا سیر کر دنیا کی غافل خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ اور بھی سفرنامے اس فہرست میں شامل ہو نے کے متقاضی ہیں نیز اپنی رائے کی تائید اورتائیدِ مزید کے لیے مذکورہ سفرناموں سے اقتباسات کی شمولیت بھی ضروری ہے لیکن خو فِ طوالت مانع ہے۔

یہ سبھی سفرنامے صرف روئدادِسفر کو ہی پیش نہیں کرتے بلکہ یہ جملہ معلومات کا بیش بہا مرقع ہیں۔ ان کے مطالعے سے ہم مختلف ملکوں کی تاریخی، جغرافیائی، سیاسی، ثقافتی، معاشی اور معاشرتی معلومات نیز وہاں کے رسم و رواج، اخلاق و عادات اور تعلیم و تربیت سے گھر بیٹھے آگاہ ہو سکتے ہیں اور بہت سے ملکوں کی سیاحت سے بے نیاز بھی۔ علوم جدید ہ سے واقفیت،تجربے کی ندرت و جدت، زمان و مکا ن، مقاصد، تجربے اور مشاہدے، اخذو قبول،پیش کش اور اندازِ بیان کے افتراق کی وجہ سے یہ سبھی سفرنامے اپنی انفرادی شناخت اور جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں۔

بیسویں صدی کے نصف اول کے سفرناموں میں مختلف قسم کی معلومات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ سفرنامہ نگار نے اپنی پسند اور نا پسند کو بھی موقع دیا۔ اپنے تجربے اور مشاہدے کی وسعت کے علاوہ جزئیات اور جذبات نگاری کے فیضان سے بھی اس میںدل چسپی اور حیرت کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اندازِ بیان میں نسبتاً ادبی طریقِ کار کو روا رکھا ہے۔

تقسیم کے بعد لکھے گئے سفرناموں میں درج بالا خصوصیات کے علاوہ ماضی میں سفر کرنے کا رجحان بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ بعض سفرنامہ نگاروںنے یادوں کے وسیلے سے سفرکرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے خیالات، تاثرات، نظریات اور احساسات کو زیادہ اہمیت دے کر سفرنامے کو دل چسپ بنانے کی سعی کی ہے۔بعض سفرناموں میں سفر نامہ نگاروں کی ذات خود مرکزی کر دار بن کر رہ گئی ہے جس سے سفرنامے کے فن پر بھی حرف آیا ہے۔عجلت پسندی نے بھی بعض سفرنامے کو نقصان پہنچا یا ہے۔ اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا یہ سفر سفرنامے کا موضوع ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے مقصد کا تعین بھی ضروری ہے۔

بہر کیف بیسویں صدی میں اردو سفرنامے کی ایک صحت مند روایت کا سلسلہ پوری توانائی اور آب و تاب سے جار رہا۔ یہ سفر نئی منزلوں کی تلاش میں اکیسویں صدی میں قدم رکھ چکا ہے۔ موجودہ دور میں سفرناموں کی نوعیت قدرے تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ اب جزئیات نگاری اور صنف نازک کو زیادہ اہمیت دی جانے لگی ہے۔ قیا س آرائی بھی کسی قدر راہ پاگئی ہے۔ معمولی واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا رجحان بھی روز افزوں ہے۔ سفرنامے کے فنی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جدت سے کام لینا کوئی مضائقہ نہیں لیکن فطری حالات و واقعات، بے ساختہ انداز بیان اور صداقت نگاری سے ہی سروکار رکھا جائے تو بہتر ہے۔

(یہ مضمون اردو اکادمی کے ایک سمینار میں پڑھا  گیا ہے)


Prof. Mohd Moazzamuddin (Alig.)

DEL, NCERT

New Delhi - 110016

Mob.: 9868469267

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں