6/12/22

خواجہ احمد عباس اور عورت کی تصویر کشی: معراج احمد

 

ممتاز صحافی، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، کالم نویس، فلم ساز، ہدایت کار، منظر نامہ نگار، مکالمہ نگار، خواجہ احمد عباس 7جون 1916 کو پانی پت میں پیدا ہوئے۔ وہ ادبی اور فلمی دنیا کی ایک نامور شخصیت رہے۔ ان کی زندگی کا ہر دور کسی نہ کسی عورت سے متاثر رہا ہے چاہے وہ ان کی نانی ہوں، ماں ہوں یا ان کی اہلیہ۔یہ نہ صرف ان کی تحریرمیں نظر آتا ہے بلکہ ان کی فلموں میں بھی اجاگر ہے۔ انھوں نے اپنی فلموں میں ہمیشہ عورت کو مضبوط اور آہنی عزم والا دکھایا ہے اور ان کی تحریر میں بھی کبھی عورت سہمی یا کمزور نظر نہیں آتی۔ انھوں نے ہمیشہ عورت کو بہادر اور خود کفیل دکھایا جو زندگی سے لڑنا جانتی ہے۔

خواجہ احمد عباس منظر نامہ نگار، مکالمہ نگار اور ہدایت کار سے زیادہ ایک مثالی شخصیت تھے۔ وہ اپنی فلموں اور تحریروں سے نہ صرف سماج اور دنیا کو آئینہ دکھاتے تھے بلکہ ان کے یہاں ہندوستان کے روشن مستقبل کی تصویر کشی بھی ہے۔

خواجہ احمد عباس نے 1951میں ’نیا سنسار ‘کے نام سے اپنی فلم کمپنی قائم کی۔ ان کی کمپنی کی پہلی فلم انہونی تھی جس میں نرگس اور راج کپور نے کام کیا تھا اس کے بعد ان کی کمپنی نے کئی فلمیں بنائی جن میں راہی 1952 (دیوآنند، نلنی جیونت)،منا1954 (رومی، ڈیوڈ)، پردیسی 1957 (نرگس، بلراج ساہنی)، چار دل چار راہیں 1959(راج کپور، مینا کماری، اجیت، نمّی، شمی کپور)، شہر اور سپنا 1963 (دلیپ راج، سریکھا)، ہمارا گھر 1964  (دلیپ راج، سریکھا)، بمبئی رات کی بانہوں میں 1968 (ومل آہوجہ، سریکھا)، سات ہندوستانی 1969( امیتابھ بچن، شہناز)، فاصلہ 1974 (شبانہ اعظمی، رمن کمار)، نکسلائٹ 1978 (متھن چکرورتی، سمیتا پاٹل) ہیں۔ 1985میں انھوں نے ایک فلم ’ایک آدمی‘ شروع کی تھی جو ان کے انتقال کی وجہ سے ادھوری رہ گئی۔ اس کے علاہ انہوں نے لاتعداد فلموں کی کہانی، منظر نامہ اور مکالمے تحریر کیے جن میں راج کپور کی فلمیں سرِ فہرست ہیں۔

خواجہ احمد عباس نے ہندی فلموں کے نہ جانے کتنے کرداروں کو زندگی بخشی جو آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ آوارہ کا راج، میرا نام جوکر کا راجو اور بابی کی بابی اس کی چند مثالیں ہیں۔

خواجہ احمد عباس نے فلموں میں کرداروں کی تصویر کشی بہت عمد گی سے کی ہے جن میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کا کردار زیادہ مضبوط اور اجاگر ہے۔ مثلاً میرا نام جوکر میں راجو کی ماں جو اپنے شوہر کو کھو نے کے بعد نہیں چاہتی تھی کہ اس کا بیٹا بھی یہی غلطی کرے یا حنا فلم کی بنجارن لڑکی جو ایک گمنام ہندوستانی لڑکے چند رپرکاش کے پیار میں اس کی زندگی بچاتے ہوئے اپنی زندگی قربان کر دیتی ہے۔

خواجہ احمد عباس نے خودداری اور عزتِ نفس اپنے والد خواجہ غلام السبطین سے ورثے میں پائی تھی اور والدہ سے ایک آزاد سوچ و فکر۔ اپنی والدہ کو ایک آزاد خیال خاتون بتاتے ہوئے خواجہ احمد عباس تحریر کرتے ہیں

’’میری فہرست میں سب سے اہم آزاد خیال عورت میری ماں ہیں۔ میں شروعات سے ان کی آزاد خیالی سے متاثر رہا ہوں۔ انھیں سنیما بہت پسند تھا  (اس لیے میری یہ بری عادت پڑی) ہمارے قصبہ میں صرف ایک سنیما ہال تھا۔ اس سے پہلے عارضی سنیما تھے۔ ایک ٹکٹ آٹھ آنہ کا تھا لہٰذا ہم پڑوسیوں اور بچوں کو بھی مدعو کرتے۔ سنیما دیکھنا ہمارے لیے کسی تقریب سے کم نہ تھا۔ میری ماں تو ایک ہیروئن کی طرح تھیں جو میرے والد کا یہ حکم نہیں مانتی تھیں۔‘‘

شروعات کی فلموں میں سب سے مشہور منظر نامہ خواجہ احمد عباس نے آوارہ کا لکھا۔ اس میں انھوں نے ریٹا کے کردار کو مستقبل کی عورت کے طور پر اجاگر کیا جسے پردے پر نرگس نے نبھایا۔ ایک خود اعتمادی سے بھر پور دولت مند عورت ریٹا ہیرو راج سے محبت کرنے لگتی ہے۔ راج کا کردار راج کپور نے نبھایا تھا۔ریٹا نہ صرف ایک جذباتی عورت ہے بلکہ عملی بھی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ راج ایک چور ہے تو وہ اسے اپنی زندگی سے باہر نہیں کرتی اور نہ ہی اپنے پیار پر شرمندہ ہوکر اپنے کو کوستی ہے بلکہ وہ راج کی ماں کے پاس جاکر تمام حقیقت معلوم کرتی ہے۔

یہی نہیں بلکہ راج جب پکڑا جاتا ہے اور اسے عدالت میں پولیس لے جاتی ہے تو ریٹا جو پیشے سے وکیل بھی ہے اپنے پیار کا بچاؤ کرتی ہے پھر جب راج کو تین سال کی جیل ہو جاتی ہے تو وہ وعدہ کرتی ہے کہ راج کا انتظار کرے گی۔ یہاں خواجہ احمد عباس نے عورت کے دل کے نرم جذبے کی عکاسی کی ہے کیونکہ وہ حقائق کی عکاسی کرتے تھے۔

خواجہ احمد عباس کی زندگی کو متاثر کرنے والی ایک اور عورت ان کی نانی ہیں جس کا عکس وہ مدر انڈیا کے روپ میں دیکھتے تھے۔ وہ بھی عباس کی ادبی تحریروں سے متاثر تھیں۔ عباس نے خود کہا ہے کہ ’وہ ایک تعجب خیز‘ بڑی آنکھوں والی عورت اور لمبی کہانیاں سنانے والی تھیں۔ ہم ان سے تین شہزادیوں اور سات شہزادیوں کی کہانیاں سنتے تھے، بڑے بڑے جنوں، دیو اور پریوں کی کہانیاں جو پھولوں میں رہتی تھیں۔ پردار گھوڑے جو بولتے تھے (شاید یہیں سے مجھے بھی کہانی لکھنے کا شوق پیدا ہوا)۔

یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ ایک قلم کار کے طور پر عباس کب پیدا ہوئے مگر کرشن چندر سے ایک انٹرویو میں خواجہ احمد عباس نے کہا ’ میں پیدائش سے پہلے ہی ایک قلم کار تھا میرا مطلب ہے کہ میں حالی کی شاعری میں پیدا ہوا اور کتابوں اور رسالوں میں پروان چڑھا آپ مجھے ایک کتابی کیڑا بھی کہہ سکتے ہیں۔‘‘

خواجہ احمد عباس نے اپنی فلموں میں ہمیشہ تعلیم یافتہ عورتوں کو پیش کیا ہے۔ فلم شری 420 میں نرگس نہ صرف تعلیم یافتہ ہے بلکہ غریب بچوں کو پڑھاتی بھی ہے۔ دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ نرگس کے کردار کا نام ’ودیاّ‘ ہے جس کے معنی علم ہیں۔ اور اسی فلم میں نادرہ کا نام مایا ہے جس کے معنی فریبِ دولت ہے۔ ان دونوں ناموں سے ہی دونوں کرداروں کی عکاسی ہو جاتی ہے۔ حالانکہ ودیاّ ایک سنجیدہ، غریب اور مذہبی لڑکی ہے جو اپنے محبوب کو غلط راسے پر چلنے سے روکتی ہے جب کہ مایا ایک دولت مند، ضدی اور اکھڑ مزاج کی ہے جو شاہانہ طریقے سے زندگی گزارتی ہے۔ عباس نے اس فلم کے مکالمے بھی تحریر کیے۔وہ ہمیشہ اپنی فلموں میں عورتوں کو جاندار مکالمہ دیتے تھے۔ فلم کا وہ سین جس میں مایا راج کو پاش پاش کرتی ہے یہ دکھاتا ہے کہ عورت کتنی طاقتور ہوتی ہے جو دولت مند بھی ہو۔

جس طرح خواجہ احمد عباس کی ادبی راہ گزر پر صحافت کا اثر ہے اسی طرح ان کی فلموں پر بھی ان کی صحافت اور ادب کا اثر ہے۔ ان دونوں کے درمیان بہت باریک لکیر ہے۔ خواجہ احمد عباس نے خود یہ مانا ہے ’ جب میں کوئی فلم بناتاہوں تو اس میں میری تحریروں کا اثر ہوتا ہے اور جب میں کچھ تحریر کرتا ہوں تو اپنی فلموں سے متاثر ہوتا ہوں۔‘ عباس کی پوری شخصیت انہی دونوں کے بیچ ہے۔

خواجہ احمد عباس کے لیے فلم اپنے سماجی نقطہ نظر کو اجاگر کرنے کا ایک ذریعہ ہے انھوں نے کبھی اسے پیسہ کمانے کا ذریعہ نہیں سمجھا۔ انھوں نے اپنی فلموں کو ویسا ہی ایک ذریعہ سمجھا جیسا انھوں نے اپنی صحافت، ناول اور افسانوں کو سمجھا تھا۔

خواجہ احمد عباس اپنی اہلیہ مجتبائی خاتون سے بھی بہت متاثر تھے کیونکہ وہ ان کی پہلی قاری اور ناقد تھیں۔ خواجہ احمد عباس نے نہ صرف اپنی کہانیوں سے کردار پیدا کیے بلکہ ہدایت کار کے طور پر کئی ایوارڈ یافتہ فلمیں بھی دیں۔ بدقسمتی سے ہدایت کار کے طور پر انھیں وہ شہرت نصیب نہ ہوئی جو انھیں ان کی کہانیوں سے ملی۔ حالانکہ ان کی کئی فلمیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر نہ صرف سراہی گئیں بلکہ ایوارڈ یافتہ بھی رہیں مگر لوگ ان کی صرف ان کہانیوں کو زیادہ جانتے ہیں جو انھوں نے آر کے بینر کے لیے لکھیں۔

خواجہ احمد عباس کی ایک اور کہانی بحیثیت ہدایت کار سات ہندوستانی بھی ہے۔ یہ فلم دکھاتی ہے کہ کس طرح سات انقلابی گواکو پرتگالیوں سے آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ ان سات کرداروں میں چھ مرد اور ایک عورت ہے۔ خواجہ احمد عباس نے عورت ماریا کا کردار ان سات ہندوستانیوں میں انتہائی بے خو ف اور نڈر دکھایا ہے، گو کہ وہ پرتگالی ظلم کا شکار ہے مگر پھر بھی وہ گوا کی آزادی کے لیے ثابت قدم ہے۔

یہ فلم اس لیے دیکھنے کے لائق ہے کیونکہ خواجہ احمد عباس نے اس میں مختلف پس منظر اور مختلف تہذیب و تمدن کے افراد کو یکجا کیا ہے جو ایک ساتھ انقلاب میں حصہ لیتے ہیں۔ اس میں خاص طور پر عورت کا کردار مثبت ہے حالانکہ اس فلم میں عورت اور مرد کے بیچ کہیں بھی رومانس نہیں دکھایا گیا مگر پھر بھی ساتوں کے بیچ افلاطونی عشق کا رشتہ ضرور ہے۔ یہی نہیں بلکہ جب ماریا موت سے ہمکنار ہونے لگتی ہے تو وہ اپنے چھ دوستوں کوجو چھ مختلف جگہوں پر ہیں خط لکھتی ہے۔ ماریا کو یقین ہے کہ وہ اس سے ملنے ضرور آئیں گے یہ اور بات ہے کہ وہ جب آئے تو وہ ان کا انتظار کرتے کرتے اس دنیا سے رخصت ہو چکی تھی۔

ماریا ایک عیسائی لڑکی دکھائی گئی ہے جو جدید لباس اور چھوٹے بالوں کے ساتھ ایک نڈر اور بیباک لڑکی ہے۔ اسے مردانہ خصوصیات کا حامل بھی دکھایا گیا ہے۔ اس نے فلم میں یہ بھی بتایا کہ ایک وقت میں اس کے بال لمبے تھے جنھیں پرتگالیوں نے کاٹ دیا تھااور اسے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ خواجہ احمد عباس نے کبھی یہ نہیں دکھایا کہ جنسی تشدد کا شکار ہوجانے کے بعد عورت خود کشی کر لے کیونکہ وہ سماج وادی کے ساتھ ساتھ اشتراکی بھی تھے اس لیے وہ بیباک نڈر اور پرانتقام عورت کا کردار دکھاتے تھے۔

خواجہ احمد عباس مثبت کرداروں کی عکاسی کرتے تھے جو ایک خوش آئند مستقل کے نقیب ہوں۔ عام طور پر فلم ساز تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے فلم بناتے ہیں مگر خواجہ احمد عباس ہمیشہ عام لوگوں کے لیے فلم بناتے تھے جن میں زیادہ تر غیر تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کی فلموں میں گانے اور ڈانس سین سے مطابقت رکھتے تھے۔خواجہ احمد عباس نے ایک بار کہا

’’کچھ لوگ کہتے ہیں کہ میں بے وقوف ضدی اور اڑیل ہوں میں صلح جو نہیں ہوں، میں جو لوگ چاہتے ہیں اس کے بجائے سماج کی سچائی دکھانے لگ جاتا ہوں۔ لوگوں نے مشورہ دیا کہ جو لوگ چاہتے ہیں وہ دکھاؤ مگر میں مطمئن ہوں کیونکہ یہ میری انا، میری سوچ اور شعور کو تسکین دیتا ہے۔ میں اپنی ہر فلم سے لطف اٹھاتا ہوں۔‘‘

خواجہ احمد عباس کے قلم سے ایک اور مشہور فلم میرا نام جوکر بھی ہے۔ یہ ہندی سنیما کی سنگم کے بعد دوسری فلم تھی جس میں دو انٹرول تھے۔ یہ فلم راجو کی زندگی کے مختلف ادوار پر مبنی ہے۔ اس میں راجو کی زندگی کے تین دور میں تین مختلف عورتیں آئیں جنھوں نے اس کی زندگی اور شخصیت پر اپنا اثر ڈالا۔ پہلی عورت میری جس پر راج فریفتہ ہو جاتا ہے حالانکہ وہ اسے صرف اپنا طالب علم سمجھتی ہے۔ اس نے اسے زندگی کے بہت سارے سبق دیئے اور راج میں خود اعتمادی بھی پیدا کی مگر پھر راج کو اس کی شادی پر اپنے دل کے ٹوٹنے کا تجربہ ہوا جب اسے یہ معلوم ہوا کہ میری نے کسی اور کو جیون ساتھی بنا لیا ہے۔

دوسری عورت جو راجو کی زندگی میں آئی وہ روسی سرکس اسٹا  میرینا تھی۔ دونوں کے درمیان کچھ مزاحیہ سین بھی ہیں۔ مگر راجو کا دل پھر ٹوٹ گیا جب میرینا اپنا جیمنی سرکس کا ٹور ختم کرکے واپس روس چلی گئی۔

در اصل یہ تین عورتیں تین مختلف شخصیات ہیں جنہیں خواجہ احمد عباس نے دکھایا۔ میری ایک سادہ عورت ہے جو راج کی فریفتگی سے نابلد ہے۔ میرینا ایک خود کفیل جسے زندگی میں کام ہی کرنا ہے اور مینو ایک خود غرض عورت جو مردانہ جذبات سے کھیل کر اپنا مطلب نکالتی ہے۔ خواجہ احمد عباس نے ان تینوں کرداروں کو حقیقی زندگی کے کردار کے طور پر اس طرح پیش کیا ہے کہ تینوں کرداروں کی صحیح عکاسی ہو جاتی ہے۔ یہ خواجہ احمد عباس کی ہی خصوصیت ہے کہ انھوں نے زندہ کرداروں کی عکاسی کی اور دیکھنے والوں کو حقیقت سے روشناس کرایا۔

خواجہ احمد عباس ایک ناقد بھی تھے۔ ہدایت کار بننے کے بعد وہ دوسری فلموں کو ناقدانہ نظر سے دیکھتے تھے لہٰذا وہ تنقید سے گھبراتے نہیں تھے۔ایک بار کسی نے ان سے پوچھا تو انھوں نے کہا

’’تقریباً سب بھاری بھرکم نقاد اس پر متفق ہیں کہ میں ادیب نہیں اخبار نویس ہوں اور میرے افسانوں میں صحافتی انداز جھلکتا ہے۔ یہ بھی آپ نے سنا ہوگا کہ میں اعلیٰ ادب تخلیق کرنے کے بجائے اخباروں میں پڑھی پڑھائی خبروں کو افسانوی رنگ دے کر افسانے کے نام سے چھپوا دیتا ہوں۔‘‘

انھوں نے یہ بھی کہا

’’ادیب اور نقاد کہتے ہیں خواجہ احمد عباس ناول یا افسانہ نہیں لکھتا وہ محض صحافی ہے ادب کی کی تخلیق اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ فلم والے کہتے ہیں اس کے فیچر فلم بھی محض ڈاکومینٹری ہوتے ہیں وہ کیمرے کی مدد سے صحافت کرتا ہے، آرٹ کی تخلیق نہیں...  اور جو مجھے کہنا ہے وہ صرف یہ ہی کہ انسان کی اندرونی زندگی اس کے ذاتی مسائل اور اس کی بیرونی، سماجی اور اقتصادی زندگی میں ایک گہرا تعلق اور رشتہ ہے جو کچھ دنیا میں اس کے اپنے ملک اور اس کے سماج میں ہوتا ہے اس کا اثراس کے اپنے کردار اور اس کے افعال پر پڑتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا، سماج، ملک کا اقتصادی، سیاسی اور سماجی نظام بدلتا جاتا ہے اسی طرح انسان بھی بدلتے رہتے ہیں۔‘‘

(خواجہ احمد عباس نمبر، ایوانِ اردو، دہلی دسمبر 1987، ص 66)

خواجہ احمد عباس کی ایک اور یاد گار فلم بابی ہے جس کی کہانی اور منظر نامہ انھوں نے تحریر کیا تھا۔ اس فلم میں ہندوستانی فلمی دنیا میں ’ٹین ایج‘ کے پیار کی ابتدا  کی۔ حالانکہ اس میں ایک دولت مند اور غریب خاندان کے بیچ کا ٹکراؤ ہے جو بہت ساری ہندی فلموں میں فلمایا گیا ہے مگر فلم کی ہیروئن بابی کا مرکزی کردار بہت عمدگی سے دکھلایا گیا ہے جو نوعمر، اسمارٹ اور راج سے زیادہ خود اعتماد ہے۔ وہ راج کے پیار میں انتہا پسندی کی حد تک چلی جاتی ہے جب کہ وہ جانتی ہے کہ راج کے والدین اس کے خلاف ہیں۔ بابی ایک خوبصورت غریب لڑکی جو ایک مال دار لڑکے راج کے پیار میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ وہ اتنی پراعتماد ہے کہ جب اس کا باپ اسے راج سے شادی کرنے سے منع کر تا ہے تو وہ اسے نہیں مانتی۔ وہ ایک مضبوط ارادے کی لڑکی ہے جو اپنا مستقبل خود بنانا چاہتی ہے۔ خواجہ احمد عباس نے نہ صرف بابی کو ایک مضبوط خود اعتمادی سے بھرپور لڑکی دکھایا ہے بلکہ بیسویں صدی کی نئی لڑکی کا تصور بھی پیش کیا ہے جو اپنی تقدیر خود لکھنا چاہتی ہے۔بابی فلم 1973 میں ریلیز ہوئی اور اس سے پہلے اس طرح کی لڑکی کی کسی فلم میں عکاسی نہیں کی گئی تھی لہٰذا بعد میں یہ ایک مثال بن گئی۔

ان تمام فلموں کے سامنے آنے پر ہر کردار کا نازک پہلو بھی ظاہر ہوتا ہے جو خواجہ احمد عباس کے قلم سے نکلا ہے۔ حالانکہ انھوں نے بہت سی کہانیاں تحریر کیں۔ جس میں متعدد اور عورتوں کے کردار رہے لیکن پھر بھی لوگ ہر کردار کو ایک دوسرے سے الگ دیکھتے ہیں۔ ان میں کچھ خوبصورت ہیں،کچھ نو عمرہیں، اور کچھ بوڑھے بھی مگر ہر کردار کی اپنی انفرادیت ہے۔

 خواجہ احمد عباس کا مطالعہ وسیع تھا، وہ اکثر جان ڈان کا یہ قول دہراتے تھے کہ

’’ کوئی انسان جزیرہ نہیں ہے

ہر انسان سمندر میں ایک قطرہ ہے

ہر انسان زمین کا ایک ذرہ ہے

ہر انسان کی موت میری موت ہے کیونکہ

میں اور انسانیت جدا نہیں ہیں‘‘

خواجہ احمد عباس نے بلٹز کے ایک کالم میں تحریر کیا’میں نے بحیثیت فلم ساز جو فلمیں دیں انھیں دیکھو اور مجھ سے مل لو‘ انھوں نے یہ بھی کہا

’’میں کمرشیل فلمیں نہیں بناتا۔ میرا ایک آئیڈیل ہے،  ایک مقصد ہے۔ میں فلم پیسے کمانے کے لیے بھی نہیں بناتا۔ سنیما سیمنٹ یا فولاد کی انڈسٹری نہیں ہے۔ اس کا مقصد ہے عوام کے احساس کو جگانا، ان کے دماغوں کو جھنجھوڑنا اور ان کو ایک نئی اور بہتر زندگی کی جھلک دکھانا تاکہ ان کو اپنی موجودہ زندگی کی محرومیوں اور نا انصافیوں سے نفرت ہو جائے اور وہ ان کو بدل سکیں‘‘

خواجہ احمد عباس کی فلمی کہانیوں کے کردار ہندوستانی معاشرے کے کردار ہیں جن میں ہر مذہب اور ہر ملت کے افراد شامل ہیں۔ان کے کردار جامد اور ٹھہرے ہوئے کردار نہیں ہیں بلکہ ایسے کردار ہیں جو حالات کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

اپنی پوری زندگی مصروفتیوں میں گزارنے والا یہ شخص بالآخر یکم جون 1987کو ممبئی میں ابدی نیند سو گیا۔



Meraj Ahmad

Asst. Prof., Dept of Mass Communication

and Journalism, MANUU

Hyderabad- 500032 (Telangana)

Mob.: 7500496666


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں