26/12/22

گلستان سعدی: عتیق الرحمن


فارسی ادب کے مشہور و معرو ف نثر نگار اور شاعرشیخ سعدی شیرازی کی پیدائش ایران کے مردم خیز خطہ شیراز میں ہوئی جو صدیوں سے ایران کا پایہ تخت اور علوم و فنون کا مرکز رہا ہے۔نام شرف الدین، لقب مصلح، تخلص سعدی اور شیراز کو وطن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ شیخ نے جب آنکھ کھولی تو شیراز میں علما، فضلا  و مشائخ کا ہجوم تھا اور اس ماحول میں سعدی میں تحصیل علم کا ولولہ پیدا ہونا لازمی تھا۔ لیکن ان دنوںایران اور خاص طور سے شیراز طوائف الملوکی کے دور سے گزر رہا تھا اور سعدی نے اپنے تعلیمی مشغلے کو جاری رکھنے کے لیے بغداد کا رخ کیا اور شہرئہ آفاق مدرسہ دارالعلوم نظامیہ سے فراغت حاصل کی۔

گلستان سعدی ان کی مقبول ترین کتاب ہے۔ شیخ سعدی نے یہ کتاب 656ھ میں شہزادہ سعد بن ابو بکر زنگی کے نام معنون کی، گلستاں اخلاق و موعظت کا ایک بہترین مرقع ہے، اس میں ایک مقدمہ اور آٹھ ابواب ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے وسائل نہ ہونے کے با وجود گلستاں شیخ سعدی کی زندگی ہی میں ایران، ترکستان، تاتاراور ہندوستاں میں پھیل گیا تھا۔

مولانا قاضی سجاد حسین گلستاں کی مقبولیت پر لکھتے ہیں :

ـ’’غور تو کرو گلستاں میں نہ غزل عاشقانہ ہے نہ قول عارفانہ، نہ بہادروں کے کار نامے، نہ فوق العادت قصے، نہ حقائق و معارف، نہ اسرار شریعت، نہ نقاط طریقت بلکہ اس کی بنیاد محض اخلاق و پندوموعظت پر رکھی گئی جس سے زیادہ بے نمک مضمون نہیں ہو سکتا۔ اس پر بھی وہ اس قدر مقبول ہوئی، اور محض اس لیے ہوئی کہ فصاحت وبلاغت، حسن بیان اور لطائف ادا کے لحاظ سے تمام فارسی ادب میں بے مثل اور لا جواب ہے اس لیے دنیا کی ہر زندہ قوم نے گلستاں کا اپنی زبان میں ترجمہ کیا ہے اور گلستاں زندئہ جاوید بن چکی ہے۔‘‘

(گلستاں، ترجمہ قاضی سجاد حسین،سب رنگ کتاب گھر، دہلی، ص4)

گلستاں کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سات سو سال سے زائد کا وقفہ گزر جانے کے بعد بھی اس کی ادبی معنویت اور چاشنی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ گلستان سعدی مندرجہ ذیل آٹھ ابواب پر مشتمل ہے:

باب اول : در سیرت پادشاہاں  (بادشاہوں کی سیرت کے بارے میں)

باب دوم: در اخلاق درویشاں  (درویشوں کے اخلاق کے بیان میں)

باب سوم: در فضیلت قناعت ( قناعت کی فضیلت کے بیان میں)

باب چہارم: در فوائد خاموشی(خاموشی کے فواید کے بارے میں)

باب پنجم: در عشق وجوانی (عشق اور جوانی کے بارے میں)

باب ششم: در ضعف  پیری  (بڑھاپے کی کمزوری کے بارے میں)

باب ہفتم: در تاثیر تربیت  (پرورش کی تاثیر کے بارے میں)

باب ہشتم: در آداب صحبت و حکمت  (صحبت اور حکمت کے آداب میں)

گلستاں کے آٹھوں ابواب اپنے موضوع کے لحاظ سے، حکمت، پند، موعضت و منفرد بیان اور جا بہ جاعربی مقولے کی آمیزش کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہیں اور یہی پر لطف بیان گلستاں کو اورفارسی کی دوسری نثری کتابوں کے درمیان انشا پردازی میں صف اول میں لا کھڑا کرتا ہے گلستاں کا دیباچہ اس کی افادیت کو اور جلا بخشتا ہے ۔

 گلستاں سعدی کا پہلا باب جو بادشاہوں کی سیرت کے بیان میں ہے اس میں مختلف حکایتیںمنفرد انداز میں بیان کی گئی ہیں مثلاً میں گلستاں کی تیسری حکایت کو اردو ترجمہ کے ساتھ نقل کرتا ہوں:

ــ’’ایک شاہزادے کو میں نے سنا کہ وہ چھوٹے قد کا اور حقیر صورت والا تھا  اور اس کے دوسرے بھائی لمبے اور خوبصورت تھے۔ ایک مرتبہ باپ نے کراہت اور حقارت سے اسے دیکھا تو بیٹے نے اپنی دانائی اور چالاکی سے سمجھ لیا اور کہا اے باپ چھوٹے قد کا عقلمند بہتر ہے لمبے قد کے بے وقوف سے۔ ایسا نہیں ہے کہ جو چیز قد میں بڑی ہو قیمت میں بھی بہتر ہو۔‘‘

دوسرا باب فقیروں کے اخلاق کے بارے میں ہے اور یہ باب بھی اپنی ادبی خوبیوں کی وجہ سے اپنا مقام رکھتا ہے۔ شیخ سعدی نے اس میں درویشوں، فقیروں اور بزرگوں کے مختلف اخلاق و خصائص کو بہت عمدہ اوراعلی انداز میں بیان کیا ہے اور اس کی خوبی کا اندازہ اس باب کی پہلی حکایت سے لگایا جا سکتاہے۔ میں اس باب کی حکایت کا اردو ترجمہ پیش کرتا ہوں:

’’بزرگوں میں سے ایک نے ایک پارسا سے دریافت کیا کہ فلاں عابد کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جبکہ دوسروں نے ان کے حق میں عیب بیان کیے ہیں؟ انھوں نے فرمایا کہ میں اس کے ظاہر میں کوئی عیب نہیں دیکھتا ہوں اور اس کے باطن کا پوشیدہ حال میں نہیں جانتا ہوں اس لیے کہ علم غیب خدا کے سواکسی اور کو نہیں ہے۔‘‘

 تیسرا باب قناعت کی فضیلت کے بیان میں ہے اس میں سعدی نے قناعت کی بٹرائی اور مختلف خوبیوں کو منفرد انداز میں بڑے ہی حسن و خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں ایک حکایت مندرجہ ذیل ہے

’’میں نے ایک درویش کے متعلق سنا کہ وہ فاقے کی آگ میں جلتا تھا اور پیوند پر پیوند لگاتاتھااور دل کی تسلی کے لیے یہ شعر پڑھتا تھا، جس کا مفہوم یہ ہے۔

ہم خشک روٹی اور پھٹے پرانے کپڑوںپر قناعت کرتے ہیں کیونکہ اپنی جان پر محنت و سختی برداشت کرنا خلقت کے احسان کا بوجھ اٹھانے سے بہتر ہے۔

باب چہارم خاموشی کے فوائد کے بیان میں ہے جس میں شیخ سعدی نے کم گوئی یا کم بات کرنے کے فائدے کے بارے  میں بحث کی ہے اور اس کے مختلف جزو کو گنائے ہیں اسی موضوع پر میں اس باب کی پہلی حکایت نقل کرتا ہوں:

’’میں نے ایک دوست سے کہا مجھے گفتگو سے باز (خاموش رہنا) اس لیے پسند آیا کہ اکثر اوقات اچھی  اور بری بات کرنے کا اتفاق ہوتا ہے اور دشمنوں کی آنکھیں سوائے برائی کے نہیں پڑتی ہیں یعنی دشمنوں کی نظروں میں برائی ہی پر پڑتی ہیں۔ اس دوست نے کہا اے بھائی دشمن وہی ا چھا ہے جونیکی نہ دیکھے۔‘‘  

باب پنجم میں عشق و جوانی کے مختلف پایے کو حکایت کے پیرایہ میں بیان کرکے شیخ سعدی نے انشا پردازی کے جوہر کو بخوبی نبھایا ہے اور اس کو متعدد حکایتوں کے ذریعے اس باب میں بہترین پیرایے میں بیان کیا ہے اسی ضمن میںمیں ان کی ایک حکایت یہاں پر نقل کرتا ہوں:

’’لوگوں نے حسن میمندی سے پوچھا کہ سلطان محمود اتنے حسن والے غلام رکھتا ہے کہ ان میں ہر ایک نادر زمانہ ہے، کیا وجہ ہے جو محبت و رغبت وہ ایاز کے ساتھ رکھتا ہے۔ حالانکہ وہ زیادہ حسین نہیں ہے وہ محبت کسی اور کے ساتھ نہیں رکھتا۔ حسن نے جواب دیا کہ جو چیز دل میں گھر کر جاتی ہے یعنی دل میں جگہ بنا لیتی ہے وہی آنکھوں کو اچھی لگتی ہے۔‘‘

باب ششم بڑھاپے کی کمزوری کے بارے میں ہے اس میں شیخ نے مختلف حکایتوں کے ذریعے ضعف و پیری کے موضوع کو زیر بحث لاکر مثال کے ساتھ بڑے پر لطف پیرایے میں بیان کیا ہے، ایک حکایت اسی موضوع پر مندرجہ ذیل ہے:

ـ’’ایک بوڑھے کا قصہ بیان کرتے ہیں۔کہ اس نے ایک نو جوان لڑکی سے شادی کی تھی اور کمرے کوپھولوں سے سجایا تھا۔ تنہائی میں اس کے ساتھ بیٹھا دل اور آنکھیں اس کی طرف لگائے ہوئے  رات رات بھرجاگتا اور قصے اور لطیفے بیان کرتا۔ تاکہ اس کی گھبراہٹ اور نفرت دور ہو جائے اور وہ لڑکی مانوس ہو جائے۔ ایک رات وہ اپنی بیوی سے کہہ رہا تھا۔ تیرا بلند نصیبہ مدد گار تھا اور دولت کی آنکھیں کھلی ہوئی تھی کہ ایک ایسے بوڑھے کی صحبت میں آئی جو عقلمند، تجربہ کار، زمانے کے سرد اور گرم کو آزمائے ہوئے ہے، صحبت کے حقوق جانتا ہے اور دوستی کی شرطیں بجا لاتا ہے، شفقت کرنے والا، مہربان، خوش طبع اور شیرین زبان ہے۔‘‘

ساتواں باب پرورش کی تاثیر کے بیان پر مبنی ہے اس میں شیخ سعدی نے پرورش او ر اس کے طریقۂ کار پر سیر حاصل بحث کی ہے اورحکایتوں کے ذریعے پر لطف و پر معنی انداز میں لفظوں کی آمیزش کی ہے اورانشاپردازی کی بہترین مثال پیش کی ہے اسی موضوع پر ان کی ایک حکایت مندرجہ ذیل ہے:

’’ایک وزیر کا لڑ کا نہایت کند ذہن اور احمق تھا اس کو ایک عالم کی خدمت میں بھیجا اور کہلایا کہ اس کی تعلیم و تربیت کیجیے شاید عقلمند ہو جائے۔ اس عالم نے بہت دنوں تعلیم دی یعنی بڑھاپے میںسر مارا۔ کچھ اثر نہ ہوا۔ آخر کار اس کو اس کے باپ کے پاس بھیج دیا کہ عقلمند نہیں ہوتا ہے بلکہ مجھ کو پاگل بنادیا۔‘‘ 

گلستاں سعدی کا آٹھواں اور آخری باب صحبت کے آداب کے بیان میں ہے جس میں سعدی نے صحبت کے آداب کو بڑے آسان و سلیس انداز اوربڑے پر کیف پیکر میںسجا کر نثر نگاری کو اور نکھارا ہے اسی ضمن میں ان کی ایک حکایت نقل کرتا ہوں:

’’مال زندگی کی راحت (آرام) کے لیے ہے۔ نہ کہ زندگی مال جمع کرنے کے لیے۔ لوگوں نے ایک عقلمند سے پوچھا خوش نصیب کون ہے؟ اس نے کہا نیک بخت وہ ہے جس نے کھایا اور (آخرت) بویا۔یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کردیا۔ بد بخت وہ ہے جو مرگیا اور مال چھوڑ گیا۔‘‘

سعدی کی ادبی خوبیاں

شیخ سعدی کی جادو بیانی اور فصاحت و بلاغت کا  چرچا اس کی زندگی ہی میں تمام ایران، ترکستان، تاتار اور ہندوستان میں اس قدر پھیل گیا تھا کہ اس زمانے کی حالت پر لحاظ کرنے کے بعد اس پر مشکل سے یقین آتا ہے۔ خود شیخ بھی دیباچے میں کہتے ہیں:

’’ذکر جمیل سعدی کہ در افواہ عوام افتادہ، وصیت سخنش کہ در بسیط زمین رفتہ۔‘‘

    (حیات سعدی، مولانا الطاف حسین حالی، مجلس ترقی ادب، لاہور،ص 58)

’’چمبرز انسائیکلوپیڈیا میں لکھا ہے کہ سعدی کے کلام کی لطافت اور بذلہ سنجی روما کے مشہور شاعر ہوریس کے کلام سے بہت ملتی ہے۔ چونکہ سعدی کو لاطینی زبان آتی تھی، اس لیے ظن غالب ہے کہ وہ ہوریس کے کلام سے مستفید ہوا ہوگا۔‘‘

لکھتے ہیں کہ اگر چہ یہ دونوں کتابیں حسن قبول، فصاحت و بلاغت، تہذیب اخلاق، پند و نصیحت اورا کثر خوبیوں کے لحاظ سے باہم دگر ایسی مشابہت رکھتی ہیں کہ ایک کو دوسری پر ترجیح دینی مشکل ہے، بلکہ ان پر عربی مقولہ صادق آتا ہے کہ ’’احد ھما افضل من الاخر‘‘ لیکن اگر بعض وجوہ سے گلستاں کو بوستاں پر ترجیح دی جائے تو کچھ بے جا نہیں ہے۔

(حیات سعدی، مولانا الطاف حسین حالی، مجلس ترقی ادب، لاہور، ص73)

گلستا ں اور بوستاں، شیخ سعدی شیرازی کے کلام کا خلاصہ اور لب و لباب ہے عموماً فارسی زبان میںدیگر اور کوئی کتاب اس پایے اور مقام کو نہیں پہنچ پائی جو ان دونوں کتابوں کو حاصل ہے۔    


منابع و مآخذ

  1.          گلستان سعدی،  سعدی شیرازی،  مترجم قاضی سجاد حسین، سب رنگ کتاب گھر، دہلی
  2.         گلستان، سعدی شیرازی،  مترجم و محشی، مو لاناقاضی سجاد حسین، مکتبہ رحمانیہ، لاہور
  3.          بوستان، سعدی شیرازی، مترجم و محشی، مو لاناقاضی سجاد حسین، مکتبہ رحمانیہ، لاہور
  4.         بوستاں سعدی،  سعدی شیرازی، مترجم قاضی سجاد حسین، سب رنگ کتاب گھر، دہلی
  5.         حیات سعدی، مولانا الطاف حسین حالی، مجلس ترقی ادب، لاہور،1960
  6.         سرسید اور رفقاء کی اردو نثر کا فنی اور فکری جائزہ، سید عبداللہ، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد
  7.          حیات سعدی، الطاف حسین حالی، مکتبہ جامعہ لمٹیڈ، نئی دہلی 


Dr. Atiqur Rahman

Assistant Professor of Persian

Dept. of Arabic, Persian, Urdu & Islamic Studies, Bhasha Bhavana

Visva-Bharati (A Central University), Santiniketan-731235 (West Bengal)

Mibile No: 9635193411

Email: atiqura044@gmail.com   


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں