27/12/22

نظریہ تعمیریت اور سماجی علو کی تدریس: شیخ وسیم شیخ شبیر

 

سماجی علوم کی تعلیم  اسکولی نصاب کا ایک اہم حصہ ہے۔ سماجی علوم کا بنیادی مقصد طلبا کو موثر شہری بننے کے طریقوں کی تعلیم دینا ہے۔ یہ ایک قابل اطلاق شاخ ہے جو مستقبل کے شہریوں میں مناسب رویوں، احساسات  اور مہارتوں کی نشوونما کے لیے نصاب میں شامل ہے۔ سماجی علوم میں اکتساب  کے مقاصد، علم،تفہیم اور مہارت کے حصول میں امدادی  درس و اکتساب کے طریقوں کا دوبارہ جائزہ لینے کی  ضرورت ہے۔ چونکہ وقت بہت تیزی سے بدل رہا ہے اور اس بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ سماجی علوم میں تدریس کے وہ طریقے اپنانا چاہیے جو تخلیقی صلاحیتوں، جمالیاتی حساسیت اور تنقیدی نقطہ نظر کو فروغ دیتے ہیں۔

تاہم، سماجی علوم کی تعلیم میں، متعامل  درس و اکتساب کے ایسے ماحول کو بنانے پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے جس میں طلبا کی تعلیم بہتر ہو۔ سوشل سائنس کی تعلیم میں ایک ترقی پسند نقطہ نظر کو جمالیاتی افہام و تفہیم، تنقیدی استدلال اور تخلیقی سوچ وغرہ متعدد تعلیمی اصولوں کو اپنانا اور اسے فروغ دینا ضروری ہے۔ اس تحریرمیں، درس و تدریس کے لیے تعمیری نظریے کا تجزیہ، سماجی علوم کی تدریس اور تعمیری نظریہ کے مابین تعلق پر غور کیا گیا ہے۔

تعمیری نظریہ : تعمیری نظریہ تعلیم کا وہ نظریہ ہے جس کی جڑیں فلسفہ اور نفسیات دونوں میں ملتی ہیں۔ اس نظریے کی جڑیں برسوں سے بہت سارے فلسفیوں کی فکر میں پائی جاتی ہیں، جن میں ڈیوے، ہیگل، کانٹ شامل ہیں۔ تعمیری نظام کا بنیادی جز یہ ہے کہ سیکھنے والے اپنے تجربات سے فعال طور پر اپنے علم اور معنی کو تعمیر کریں۔ تعمیریت کے نظریے کو اسلوب تعلیم کے انداز سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جو طالب علم کو حصول علم اور تفہیم کے کارگزار/ فاعل کے طور پر ترجیح دیتا ہے( Bada and Olusegun, 2015) ۔ جیسا کہ بڈا اور اولوسیگن (2015) نے نوٹ کیا ہے، یہ نقطہ نظر متعلم مرکوز ہے، اور طلبا کو محض معلومات کو ہلکے سے سننے اور جذب کرنے کی بجائے اپنی تعلیم کے لیے فعال طریقے استعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ تعمیر نو اس نظریے پر مبنی ہے کہ لوگ فعال طور پر اپنا علم تشکیل دیتے ہیں، اور اس حقیقت کا تعین آپ اپنے تجربات سے بطور متعلم طے کرتے ہیں (WGU,2020

ادراکی اور سماجی تعمیر نو (Cognitive And Social Constructivism):  تعمیر کاروں کو بڑے پیمانے پر دو گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ وہ جو نفسیاتی زاویے پر توجہ دیتے ہیں، اور وہ جو زیادہ معاشرتی ذہنیت رکھتے ہیں

1        نفسیاتی تعمیر کار (جیسے جین پییاجے) سیکھنے کے عمل کو ایک ایسا عمل سمجھتا ہے جس میں علم کی تبدیلی اور (دوبارہ) تنظیم شامل ہوتی ہے جو طالب علم کے پاس پہلے ہی سے موجود ہے۔

2        دوسری طرف، سماجی تعمیر کار کے لیے، علم کی تعمیر اور جذب سماجی روابط کی فائدہ مند نوعیت پر زور دیتا ہے (خاص طور پر لیوا ویوگسکی)۔

وقوفی تعمیری نظریہ اور  پیاجے کے مطابق علم کی تعمیر وقوفی تعمیری نظریہ جین پیاجے کے کام پر مبنی نظریہ ہے،  یہ بیان کرتا ہے کہ علم ایک ایسی چیز ہے جو سیکھنے والے اپنے موجودہ علمی ڈھانچے کی بنیاد پر فعال طور پر تعمیر کرتے ہیں۔ لہٰذا، تعلیم ان کی اکتسابی ترقی کے مرحلے سے متعلق ہے.

پیاجے کے اکتسابی  نظریے  کے مطابق،اکتساب یا سیکھنا ایک ایسا عمل ہے جو تبدیلی کے حالات میں ہی سمجھ میں آتا ہے۔لہٰذا، جزوی طور پر سیکھنا ان تبدیلیوں کو اپنانے کا طریقہ ہے۔ یہ نظریہ امتزاج (Assimilation)اور مطابقت (Accommodation) کے عمل کے ذریعے موافقت (Adaptation) کی حرکیات کی وضاحت کرتا ہے، جسے خاکہ (Schema)کہتے ہیں۔

پیاجے کی وقوفی نشوونما یہ بتاتی ہے کہ ایک بچہ دنیا کا ایک ذہنی خاکہ کس طرح تیار کرتا ہے۔ انھوں نے اس خیال سے اتفاق نہیں کیا کہ ذہانت ایک طے شدہ خصلت ہے، اور ساتھ ہی وہ وقوفی ترقی کو ایک عمل کے طور پر مانتے ہیں جو حیاتیاتی پختگی اور ماحولیات کے ساتھ تعامل کی وجہ سے ہوتا ہے۔

پیاجے کا پیش کردہ اسکیما/ خاکہ (Schema): ایک اسکیما، سمجھنے اور جاننے میں شامل دونوں ذہنی اور جسمانی اعمال کو بیان کرتا ہے۔اسکیما علم کی وہ قسمیں ہیں جو دنیا کی ترجمانی اور سمجھنے میں ہماری مدد کرتی ہیں۔ پیاجے کے نظریہ کے مطابق، اسکیما میں علم کا ایک زمرہ اور اس علم کے حصول کا عمل شامل ہے۔ جیسے جیسے تجربات ہوتے ہیں، اس نئی معلومات کا استعمال پہلے سے موجود اسکیموں میں ترمیم کرنے، شامل کرنے یا تبدیل کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔

امتزاج،توازن،  نئی صورت حال، عدم توازن کی حالت، مطابقت،موافقت

امتزاج (Assimilation) :امتزاج سے مراد ایسی صورت حال جس میں ایک بچہ بطور متعلم نئی چیزیں دیکھتا، سمجھتا اوران سے متعلق اپنا ذاتی تصور قائم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک بچہ چار ٹانگوں والا ایک جانور دیکھتا ہے اور کوئی اس سے کہتا ہے کہ، وہ جانور گھوڑا ہے۔ اب یہ تصور کہ چار پیر والا جانور گھوڑا ہوتا ہے، اُس متعلم کے ذہن میں یہ خاکہ تیار ہو جاتا ہے۔

توازن(Equilibration) توازن سے مراد کسی فرد کا  ذہنی  خاکہ یا فریم ورک  اور اس کا اس کے ماحول کے ساتھ میل کہلاتا ہے۔ اس طرح کا توازن اس وقت ہوتا ہے جب ہماری توقعات، سابقہ علم پر مبنی نئے علم کے ساتھ میل کھاتی ہیں۔ پیاجے کا خیال ہے کہ توازن اس وقت ہوتا ہے جب کسی بچے کے ذہنی خاکہ (schema) امتزاج کے ذریعے زیادہ تر نئی معلومات سے نمٹ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر بچہ اس معلومات کے ساتھ امتزاج قائم کرتا ہے اور یہ تصور بناتا ہے کہ چار پیروں والا جانور گھوڑا ہی ہوتا  ہے۔

نئی صورت حال(New Situation)نئی صورت حال سے مراد وہ حالت ہے جس میں سیکھنے والا ایسی معلومات یا تصورات سے متعارف ہوتا ہے جو اُس کی سابقہ معلومات سے ہٹ کر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر وہ متعلم جو چار پیر والا جانور یعنی گھوڑے کا تصور بنا چکا تھا، اب ایک دوسرا چار پیر والا جانور دیکھتا ہے اور اُسے بھی گھوڑا ہی  تصور کرتا ہے لیکین حقیقت میں وہ جانوار ایک بیل ہوتا ہے اور  جب اس بات سے وہ واقف  ہوتا ہے کہ یہ گھوڑا نہیں بلکہ ایک بیل ہے۔

عدم توازن کی حالت(Disequilibrium) عدم توازن کی حالت وہ ہوتی ہے جب متعلم اپنی سابقہ معلومات کو نئی معلومات سے جوڑ نہیں پاتا یعنی وہ جو تصور کرتا ہے وہ غلط ثابت ہوتا ہے۔وہ اپنی سابقہ معلومات میں اور نئی  معلومات میں کوئی یکسانیت نہیں دیکھتا۔ مثال کے طور پر وہ متعلم جو چار پیر والا جانور یعنی گھوڑا یہ تصور بنا چکا تھا یہ جانتا ہے کہ یہ چار پیر والا جانور تو ہے لیکن گھوڑا نہیں ہے۔

مطابقت(Accommodation)مطابقت میں نئی معلومات یا نئے تجربات کے نتیجے میں موجودہ ذہنی خاکوں (Schemas)، یا نظریات میں ردوبدل شامل ہے۔ یہ موافقت(Adaptation) کا ایک اور حصہ ہے جس میں نئی معلومات کی روشنی میں ہمارے موجودہ اسکیموں کو تبدیل کرنا یا اس میں ردوبدل شامل ہے، یہ عمل مطابقت کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس عمل کے دوران نئے اسکیموں کو بھی تیار کیا جاسکتا ہے۔مثال کے طور پر وہ متعلم جو چار پیر والا جانور یعنی گھوڑا یہ تصور بنا چکا تھا یہ جانتا ہے کہ یہ دوسرا جانور چار پیر والا جانور تو ہے لیکن گھوڑا نہیں ہے بلکہ بیل ہے اوراتنا ہی نہیں بلکہ چار پیر والا کوئی  دوسرا بھی جانور  ہو سکتا ہے اس تصور کو قائم کرتا ہے۔ یعنی  اپنی سابقہ معلومات میں نئی معلومات جوڑتا ہے۔

سماجی/معاشرتی تعمیری نظریہ اور  لیو ویوگسکی  کے مطابق علم کی تعمیرمعاشرتی تعمیری نظریے کے مطابق سیکھنا ایک باہمی تعاون کا عمل ہے، اور علم ان کی ثقافت اور معاشرے کے ساتھ افراد کے باہمی تعامل سے فروغ پاتا ہے۔ معاشرتی تعمیری نظریہ لیو ویوگسکی  (1978) کے فلسفے  پر مبنی  ہے جس نے تجویز کیا تھا کہ،بچے کی ثقافتی نشوونما میں ہر کام دو بار ظاہر ہوتا ہے پہلے، معاشرتی سطح پر اور بعد میں انفرادی سطح پر۔ پہلے، لوگوں کے درمیان (Inter-Psychological) اور پھر بچے کے اندر (Intra-Psychological

لیو ویوگسکی کے مطابق علم کی تعمیراور متعلم

  1.   ہر ایک بچہ توجہ، ادراک  اور یادداشت ان بنیادی صلاحیتیوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے
  2.     بچے  اپنے علم کی تعمیر خودکرتے ہیں
  3.   بچے کو ایک فعال سالک علم کے طور پر دیکھا جاتا ہے
  4.    خود رابطہ کاری بچوں کو اعلی سطح کی فکر کی جانب راغب کرتی ہے
  5.     زبان اور خیالات آزادانہ طور پر تشکیل پاتے ہیں، لیکن آخر کار ضم ہوجاتے ہیں
  6.        بچے کا ذہن معاشرتی طور پر تعمیری ہوتا ہے 
  7. نشوونماکو اس کے معاشرتی سیاق و سباق سے الگ نہیں کیا جاسکتا • نشوونما ماحول کے ساتھ براہ راست رابطے کا نتیجہ ہے
  8.   اکتساب میں مصالحت ضروری ہے۔
  9.  اکتساب دو بار ظاہر ہوتا ہے/دو سطح پر   ظاہر ہوتا ہے۔(بین نفسیات اور خودسر نفسیات)

تعمیری نظریہ کے ضروری علمی اصول:  تعمیری نظریہ اور اس کے اقسام کے تفصیلی مطالعے کے بعد مندرجہ ذیل تعلیمی اصول سامنے آتے ہیں

اکتساب فعال ادراکی عمل ہے:  اس تھیوری کا ماننا ہے کہ سیکھنے کو نظریاتی طور پر نہیں لیا جاسکتا۔ اس میں فعال شرکت کی ضرورت ہے۔ طالب علم ایک خاص چیز اس وقت سیکھ سکتا ہے جب اس نے اس صورت حال کا تجربہ کیا اور یہ اس وقت ممکن ہے جب وہ اپنے آپ کو اس صورت حال میں متحرک طور پر شامل کرتے ہیں۔

اکتساب حسب منشا ہوتا ہے: ادراک /cognizing  ایک حسب منشا عمل ہے جو کسی خاص ماحول کے پیش نظر کسی فرد کے طرز عمل کو زیادہ سے زیادہ قابل عمل بناتاہے۔سیکھنے والا تب تک نہیں سیکھ سکتا جب تک وہ خود سیکھنا  نہیں  چاہتا۔ یہاں یہ خیال سامنے آتا ہے کہ ہم اساتذہ کو اپنے طالب علم کو سب سے پہلے سیکھنے کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ طالب علم تب  تیار ہوں گے جب وہ اُس مخصوص صورت حال اور تصورسے خود کو جوڑیں گے۔

اکتساب موضوعی ہے معروٖٖضی نہیں: ہر ایک متعلم  اپنے موجودہ نظریات اور اقدار پر مبنی ایک الگ نقطہ نظر رکھتا ہے۔مثال کے طور  پر ایک ہی سبق، درس یا سرگرمی کے نتیجے میں ہر متعلم  کا اکتساب مختلف انداز میں ہوسکتا ہے، کیونکہ ان کی شخصی تشریحات میں فرق ہوتا ہے۔اس لیے  اکتساب موضوعی ہے معروٖٖضی نہیں۔

اکتساب میں معاشرتی / ثقافتی اور انفرادی عمل دونوں شامل ہیں: علم کی جڑ حیاتیاتی / اعصابی تعمیرات اور معاشرتی، ثقافتی اور زبان پر مبنی تعامل دونوں میں ہے۔  یہ اور بات کہ اکتساب موضوعی ہے معروٖٖضی نہیں۔ سیکھنا ایک معاشرتی سرگرمی ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو  ایک دوسرے کے ساتھ مصالحت کے  ذریعے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، ویاگٹسکی (1978) کا کہنا ہے کہ معاشرتی تعامل کی وجہ سے بچوں اور ان کے ساتھی کے تعاون سے علم کو فروغ ملتا ہے۔ اس طرح، تمام درس و تدریس، سماجی طور پر تشکیل دیے گئے علم کو بانٹنے اور مصالحت کرنے کا معاملہ ہے۔

درس و  تدریس  اور تعمیری نظریہ: مذکورہ بالا گفتگو سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم میں تعمیری نظام بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ لہذا اب ہم دیکھیں گے کہ ہمارے نظام تعلیم کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے میں کمرہ جماعت میں تعمیری نظریہ   در حقیقت کس طرح مدد کرسکتا ہے۔

تعمیری کلاس روم کے تدریسی (Pedagogical) اہداف؟ Honebein (1996) نے تعمیری اکتسابی ماحول کے سات تعلیمی اصولوں کا خلاصہ اس طرح کیا ہے۔

  1.      علم کی تعمیر میں عمل کے ساتھ تجربہ فراہم کرنا (طلبہ طے کرتے ہیں کہ وہ کس طرح سیکھیں گے)
  2.      متعدد نقطہ نظر (متبادل حل کی تشخیص) کے لیے تجربہ اور تعریف فراہم کرنا۔
  3.   حقیقت پسندانہ ماحول (مستند کام) میں سیکھنے کو سرایت کرنا۔
  4.       سیکھنے کے عمل میں ملکیت(Ownership) اور آواز(Voice raise) کی حوصلہ افزائی کرنا۔ (سیکھنے میں طالب علموں کی مرکزیت)۔
  5.      سماجی تجربے (باہمی تعاون) میں سیکھنے کو سرایت کرنا۔
  6.      پیشکش کے متعدد طریقوں، (ویڈیو، آڈیو متن، وغیرہ) کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرنا
  7.       علم کی تعمیر کے عمل (عکاسی/، میٹا شناسی) کے بارے میں شعور کی حوصلہ افزائی کرنا۔

یہاں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ اساتذہ  ایک انوکھا تعلیمی ماحول پیدا کرنے کے لیے اپنے کلاس روم میں تعمیری نظام کیسے استعمال کرسکتے ہیں۔

تعمیراتی کلاس روم میں،اساتذہ کا کردار ایک باہمی تعاون کے ساتھ ماحول  تیار کرنا ہے جہاں طلبا خود اپنی تعلیم و اکتساب میں سرگرم عمل ہوں۔ اساتذہ اصل انسٹرکٹرز کے مقابلے زیادہ سہولت کار بنیں۔ اساتذہ کو لازمی ہے کہ وہ طلبا کے پہلے سے موجود تصورات اور افہام و تفہیم کو سمجھیں، پھر ان شعبوں میں علم کو شامل کرنے کے لیے کام کریں۔ اساتذہ کو بھی سیکھنے والے کی افہام و تفہیم کی سطح کے مطابق ہونے کے لیے اپنی تدریس کو ڈھالنے  کی ضرورت ہوگی۔

ایک کامیاب تعمیراتی کلاس روم چار کلیدی شعبوں پر انحصار کرتی ہیں

  1.          اساتذہ اور طلبہ کے مابین مشترکہ علم
  2.         اساتذہ اور طلبہ کے مابین مشترکہ اختیار
  3.        اساتذہ ایک رہنما یا سہولت کار کے طور پر کام کرتے ہیں۔
  4.        طلبا کے گروہ کم تعداد پر مشتمل ہوتے ہیں۔

تعمیراتی کمرہ  جماعت روایتی کمرہ جماعت سے بہت سے معنوں میں الگ ہوتا ہے۔ تعمیری کلاس روم طلبا کے سوالات اور مفادات یا دلچسپی پر مرکوز ہوتے ہیں،اساتذہ  اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ طلبا پہلے ہی سے کچھ جانتے ہیں، وہ انٹرایکٹو سیکھنے پر توجہ دیتے ہیں اور پورا اکتسابی ماحول طالب علم مرکوز ہوتا ہے، اساتذہ طلبا سے بات چیت کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے علم کی تعمیر میں مدد کرسکیں، وہ مذاکرات میں معلومات کی  جڑوں پر بات کرتے ہیں اور طلبا بنیادی طور پر گروہ میں کام کرتے ہیں۔ تعمیراتی کلاس روموں میں اکثر اساتذہ ہوتے ہیں جو چھوٹے گروہی کام، باہمی تعاون اور انٹرایکٹو سرگرمیاں کرتے ہیں، اور اُس عمل کی کامیابی کے حصول کے لیے طلبا کو کیا ضرورت ہے اس کے بارے میں بھی مکالمہ کرتے ہیں۔

تعمیری نظریہ پر مبنی تدریسی طریقے تعمیریت میں تدریس کا کوئی طے شدہ طریقہ موجود نہیں ہے۔ لیکن اس کے تعلیمی اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اور ان کو اپناتے ہوئے ہم مختلف حکمت عملیوں کا منصوبہ بناسکتے ہیں جو بالآخر تعمیری انداز میں تدریسی اہداف کے حصول میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں-

پیشگی منتظمین (Advanced Organizers) اس حکمت عملی میں طلبا کو ہدایت سے پہلے عام بیانات دیے جاتے ہیں، جو انھیں اپنے موجودہ علم کو نئی معلومات سے مربوط کرنے میں مدد کرتے ہیں، جس سے متعلمین نئے نظریات سے مطابقت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تشبیہات (Analogies) اس طریقہ کار میں چیزوں کے درمیان مماثلت کی نشاندہی کی جاتی ہے،  اس سے طلبا کو نئی معلومات سیکھنے اور پچھلے علم کے ساتھ روابط قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

وضاحت/ توسیع(Elaboration) نئی چیزوں کے بارے میں اس طرح سوچنے کا عمل جو اسے موجودہ علم سے مربوط کرنے میں معاون ہو۔

تفتیش پر مبنی  اکتساب (Inquiry Based Learning) تفتیش پر مبنی  اکتساب فعال اکتساب کی ایک قسم ہے, جو سوالات، مسائل یا منظرنامے پیش کرتے ہوئے شروع ہوتی ہے۔ یہ سیکھنے اور درس و تدریس کا وہ طریقہ ہے جو طلبا کے سوالات، نظریات اور مشاہدات پر زور دیتا ہے۔  اس  میں طلبا کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں میں تبادلہ خیال کریں۔سیکھنے کی اس شکل سے  صرف حقائق کو حفظ کرنے اور نوٹ لینے کی بجائے طلبا کی تفہیم میں اضافہ ہوتا ہے۔

تفتیش پر مبنی  اکتساب کیوں؟

  1.         یہ طریقہ مستند  اکتساب کو فروغ   دیتا ہے
  2.         یہ تعمیریت کے نظریے پر مبنی ہوتا  ہے
  3.         یہ معاشرتی، اور باہمی تعاون کے ساتھ عمل میں لایا جاتا ہے
  4.         یہ اکتساب کو مزیدار  اور دلچسپ بناتا ہے
  5.         اس  طریقے میں طالب علم  توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔
  6.         یہ تنقیدی سوچ اور مسئلہ حل کرنے کی مہارت کو بڑھاوا  دیتا ہے۔
  7.         یہ طریقے براہ راست تجربات فراہم کرنے میں معاون ہوتا ہے۔
  8.         اس  طریقہ سے سیکھنے کی منتقلی (حقیقی زندگی) بہت زیادہ ہوتی ہے۔

مسئلہ پر مبنی اکتساب(Problem Based Learning) مسئلے پر مبنی اکتساب  وہ عمل ہے جس میں ایک انجان صورت حال کے تناظر میں علم و مہارت کو حاصل کرنا اور سمجھنا اور اس  کے اکتساب کو اس صورت حال(مسئلے) پر لاگو کرنا۔مسئلے پر مبنی اکتساب طالب علموں پر مرکوز حکمت عملی ہے جس میں طلبہ باہمی تعاون سے مسائل کو حل کرتے ہیں اور یہ ان کے تجربے کی عکاسی کرتا ہے۔ پی بی ایل میں، نقطہ آغاز ایک مسئلہ، سوال، یا ایک پہیلی ہوتا ہے جسے متعلم حل کرنا چاہتا ہے-

دریافتی اکتساب(Discovery Learning) دریافتی اکتساب تفتیش پر مبنی اکتساب کی ایک تکنیک ہے اور یہ تعمیریتی نظریے کا اطلاق کرتی ہے۔ اس کو مسئلے پر مبنی اکتساب، تجرباتی اکتساب اور 21 ویں صدی کی تعلیم بھی کہا جاتا ہے۔ ڈسکوری لرننگ جیروم برونر نے متعارف کروائی، اور یہ انکوائری پر مبنی ہدایت کا ایک طریقہ ہے۔ یہ مقبول تھیوری متعلم کو ماضی کے تجربات اور جانکاری کو فروغ دینے، ان کے الہام، تخیل اور تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرنے اور حقائق، ارتباط اور نئی سچائیوں کو، نئی معلومات  کو دریافت کرنے کے لیے ترغیب دیتی ہے۔

5E Model Atkinاور Karplus نے 5E ماڈل کی تخلیق کی، جس میں طلبا کو متعین اقدامات یا مراحل کی ایک سیریز کے ذریعے وقت کے ساتھ ساتھ کسی تصور کو سمجھنے کی جانب راغب کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ ان مراحل میں مشغول(Engage)، کھوج(Explore)، وضاحت (Explain)،تفصیل(Elaborate) اوراندازۂ قدر یا تعین قدر(Evaluation) شامل ہیں-

ٹکنالوجی کا استعمالآج ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر منحصر ہے،خاص طور پر کمپیوٹرز۔تعلیم معاشرے کا ایک ایسا  شعبہ ہے جس میں آج ٹیکنالوجی اہمیت حاصل کر رہی ہے۔معاشرتی سائنس کے کلاس روم میں، تعمیراتی نظام کے بہت سے پہلوؤں کی تائید کے لیے ٹکنالوجی شامل کی جاسکتی ہے۔کمپیوٹر ٹیکنالوجیز ایسے بہت سارے آلات مہیا کرتی ہیں جن کو سوشل سائنس کے درس و اکتساب کے دوران کمرۂ جماعت میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔کچھ مختلف اقسام میں simulative اور حکمت عملی والے سافٹ ویئر، ملٹی میڈیا پیشکشیں، ڈیٹا بیس، اور ٹیلی مواصلات شامل ہیں (Rice & Wilson-1999)۔اس طرح  کمرۂ جماعت میں ٹکنالوجی کا استعمال کرکے طلبا کو زیادہ متحرک اور انٹرایکٹو ماحول فراہم کیا جا سکتا ہے۔

اختتامتعمیری نظریہ تعلیم کے بارے میں ایک متبادل نظریہ پیش کرتا ہے۔تعمیریت ایک نظریہ ہے جس کے بارے میں افراد کو حصول علم کا پتہ چلتا ہے۔اس کی بنیاد یہ ہے کہ علم اور حقیقت معاشرتی اتفاق رائے پر مبنی ہے۔یہ ایک نظریہ ہے جو روایتی طریقوں کو چیلنج کرتا ہے جسے سوشل سائنس اساتذہ کی اکثریت طلبا کو پڑھانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔یہ نظریہ معاشرتی سائنس کے کلاس روم میں متعدد تبدیلیاں کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔اس کا ایک اہم پہلو یہ ہو گا کہ مواد ایسے پیش کرنا شروع کیا جائے جو پیچیدگی کو ظاہر کرتا ہو اورحقیقی دنیا کے حالات کے متعدد تناظر بتاتا ہو۔

براؤن کے مطابق، 'اس  نظریے میں  اساتذہ کا کردار بدل جائے گا  وہ ایک گائیڈ اور سہولت کار کی طرح کام کرے گے۔کلاس روم کا ماحول ''سیکھنے کی برادری'' کی شکل اختیار کرنا شروع کردے گا جہاں بات چیت ایک اہم کلیدی حیثیت رکھتی ہوں۔ کلاس روم میں اس نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہونے کے لیے اساتذہ کواپنے موا د  پر  مہارت اور   اس نظریے کو اور اس کے مضمرات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ (براؤن 2000)۔

Dr. Shaikh Wasim Shaikh Shabbir

Associate Prof. of Education, MANUU

College of Teacher Education

Darbhanga- 847306 (Bihar)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں