19/1/23

احتجاجی فکر اور ن م راشد: عالیہ بیگم


 ن م  راشد اردو شاعری کی تاریخ میںآزاد نظم کے خالق کی حیثیت سے ہمیشہ زندہ و تابندہ رہیں گے۔ بقول آغا ظفر حسنین’’انھوںنے اردو میں رائج پابند شاعری سے انحراف کرتے ہوئے آزاد نظم کو متعارف کرایا۔‘‘

(ڈاکٹر آغا ظفر حسنین: مزاحمت اور پاکستانی اردو شاعری،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 2006، ص126)

وہ ایک انقلابی ہی نہیں بلکہ باغی شاعر کی حیثیت سے ہمارے ادب کا حصہ ہیں۔ ان کے فکر و طبع میں احتجاجی روش عہد طفلی سے ہی رونما ہونے لگی تھی۔ جس کا ثبوت ان کی پہلی نظم’انسپکٹر آف مکھیاں‘ ہے جو انھوں نے ہائی اسکول کی تعلیم کے دوران انسپکٹر آف اسکول کو ہدف تنقید بناتے ہوئے تخلیق کی اور اپنے شدیدرویے کا برملا اظہار کیا۔

راشد کی نظمیں محض ذاتی اظہار کی پابند نہیں ہیں بلکہ وہ ہر قسم کے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔ انھوںنے لسانی اورموضوعاتی سطح پر کسی قسم کی غیر ضروری پابندیاں نہیں برتی، البتہ جلد ہی وہ ماورا کی افسوں سازی سے باہر آ گئے۔بہرحال انھیں رجعت پسندشاعر کہا گیاکیونکہ وہ کمیونزم کی شدید مخالفت کرتے تھے۔ ان کے شعری مجموعے ’ایران میں اجنبی‘ میں متعدد ایسی نظمیں موجود ہیں جو کمیونزم کے خلاف لکھی گئیں،لیکن 1947 میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران کمیونسٹوں کے رویے نے انھیں بے حد متاثر کیا جس کے باعث انھوںنے اس پارٹی میں داخل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔ بہرحال راشد اپنے معاصرین شعرا میں امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی اہمیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغا یوں رقمطراز ہیں:

’’جدید اردو نظم میں راشد کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے، اور اگر لخطہ بھر کے لیے راشد کی نظم کو اردو ادب سے خارج کر دیا جائے تو جدید اردو نظم مفلس اور بے آبرو نظر آئے گی۔‘‘

(ن م  راشد ایک مطالعہ: مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر وزیر آغا، مضمون؛ ن  م راشد،مکتبہ اسلوب، کراچی،1986، اشاعت اول، ص 185)

علامتی طرز انداز نے انھیں علامتی شاعری کے میدان میں نقش اول کا مقام عطا کیا۔ ان کا وصف خاص یہ ہے کہ انھوںنے ناامیدی و مایوسی کے بجائے تمثیلی لب و لہجے میں غم و اندوہ جذبات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور بے حس و شکست خوردہ معاشرے کو علامتی انداز میں پیش کرکے اپنے احتجاجی جذبات کا برملا اظہار کیا۔ مثال کے طور پر ان کی بہترین علامتی نظم ’اندھا کباڑی‘ خصوصی توجہ کی حامل ہے۔ اس میں انھوںنے ایک ایسے منہزم اور پسپا معاشرے کا بیان کیا ہے، جہاں کسی کے درون قلب میں خواب دیکھنے کی سکت موجود نہیںہے۔ مثلاً        ؎

’’خواب لے لو خواب...‘‘

صبح ہوتے چوک میں جا کرلگاتا ہوں صدا

’’خواب اصلی ہیں کہ نقلی؟‘‘

 یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑھ کر

خواب داں کوئی نہ ہو!

 

شام ہو جاتی ہے

میں پھر سے لگاتا ہوں صدا...

’مفت لے لو مفت، یہ سونے کے خواب...‘‘

’ مفت ‘سن کر اور ڈر جاتے ہیں لوگ

اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ

یکھنا، یہ ’مفت‘ کہتا ہے

کوئی دھوکا نہ ہو؟

ایسا کوئی شعبدہ پنہاں نہ ہو؟

گھر پہنچ کر ٹوٹ جائیں

یا پگھل جائیں یہ خواب؟

بھک سے اڑ جائیں کہیں

یا ہم پہ کوئی سحر کر ڈالیں یہ خواب

 جی نہیں کس کام کے؟

ایسے کباڑی کے یہ خواب

ایسے نابینا کباڑی کے یہ خواب!‘‘     

(اندھا کباڑی: گمان کا ممکن، کلیات راشد: ن م راشد،کتابی دنیا، دہلی،  2004، ص496-97)

دراصل یہ معاشرہ نہ تو خودخواب دیکھنے کی استطاعت رکھتا ہے اور نہ ہی دوسرے کے خواب کوخریدنے کا حوصلہ۔ حتیٰ کہ مفت کا خواب بھی اسے موافق طبع نہیں لگتا۔ اس طرح خواہش مرگ لیے وہ معاشرے میں زندگی بسر کرتا رہتا ہے۔ بقول کوثر مظہری :

’’ یہ خواب درحقیقت معاشرے کی اعلیٰ قدریں ہیں جو تہذیب و ثقافت کا حصہ ہیں۔ ایک ’اندھا کباڑی‘ جو بظاہر دیکھ نہیں سکتا لیکن اس کی باطنی بصیرت محفوظ ہے، اور اس پوری بستی (معاشرے ) میں وہی خواب دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘ اس طرح زندگی کے اعلیٰ اقدار جو ہماری تہذیب و ثقافت کا لازمی جزوہیں، اس شکست خوردہ اور پست ہمتی معاشرہ میں وہ اندھا کباڑی ہی درحقیقت ان اقدار اور انسانی جذبات و احساسات کا پاسدار معلوم ہوتا ہے۔’’پورا معاشرہ زندگی کی بے معنویت اور شعور کی بے سمتی کا شکار ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ معاشرے کو سانپ سونگھ گیا ہو اور سب کے سب خائف و ہراساں ہوں۔ یہ نظم زوال آمادگی اور انحطاط کی بدترین تصویر پیش کرتی ہے۔‘‘

(کوثر مظہری: جدید نظم، حالی سے میرا جی تک ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی،مئی 2008، ص371)

راشد کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کی مذہبی بیزاری اور الحادی مزاج کا شدید احساس ہوتا ہے۔ انھوںنے ایسی بے شمار نظمیں تخلیق کی جن میں خدا کی قدرت و اختیارات پر سوال قائم کیے گئے ہیں۔ اس مذہبی بیزاری کی سب سے بڑی وجہ راشد کا یہ خیال تھاکہ ذات خداوندی کے ہوتے ہوئے بھی اہل اقتدار طبقہ استحصال اور ناہمواری کے ذریعے اختیارات حاصل کیے جا رہا ہے۔وہ مذہبی معاملات میں لاادریت کے مسلک کے قائل تھے۔

راشدنے مغربی بالادستی کا تذکرہ کرتے ہوئے تمام ایشیا کو اس کا اسیر بتایا۔حکومت برطانیہ سے آزادی حاصل کرلینے کے بعد بھی ہندوستان میں انگریزی حکومت کے واضح اثرات نظر آرہے تھے۔ انھوںنے اپنی شاعری کے ذریعے تمام ایشیا کی ذہنی و نفسیاتی اذیتیں بیان کرنے کی شعوری کوشش کی اور مشرق و مغرب کے سیاسی و تہذیبی تصادم سے پیدا ہونے والی جذباتی و فکری دشواری اور گنجلک پن کی مکمل  غمازی کی۔

راشد کو ایران میں بھی وہی فرسودگی و بدحالی نظر آئی جو ہندوستان میں محسوس ہوتی رہی تھی۔ اہل ہند کی مانند اہل ایران بھی انگریزوں کے سیاسی و اقتصادی تشدد اور جبر آمیز رویے سے قہر آلود تھے۔انھیں اس بات کا شدید احساس تھا کہ حکومت برطانیہ اور مغربی تہذیب اہل مشرق کو اپنے تصرف میں لے کر ان کے فکر و خیالات پر قبضہ آوری کرنے کی پر زور کوشش کر رہی۔ جو ان کے سیاسی اقدار، تہذیبی پہلو اور معاشی پامالی کی وجہ بن رہے تھے۔ لہٰذا انھوںنے نظم ’من و سلویٰ‘ کی تخلیق کے ذریعے ایرانی عوام کو ان کے اعلیٰ اقدار کا احساس دلانے کی شعوری کوشش کی          ؎

یہ سنگدل، اپنی بزدلی سے

فرنگیوں کی محبت ناروا کی زنجیر میںبندھے ہیں

انہی کے دم سے یہ شہر ابلتا ہوا سا ناسور بن گیا ہے        ؎

محبت ناروا نہیں ہے،

بس ایک زنجیر،

ایک ہی آہنی کمند عظیم

پھیلی ہوئی ہے،

مشرق کے اک کنارے سے دوسرے تک،

مرے وطن سے ترے وطن تک،

بس ایک ہی عنکبوت کا جال ہے کہ جس میں

ہم ایشیائی اسیر ہو کر تڑپ رہے ہیں!

(من و سلویٰ: ایران میں اجنبی، کلیات راشد، ن م  راشد،کتابی دنیا، دہلی، 2004، ص191-92)

راشد کی شاعری میں احتجاجی و مدافعتی رد عمل کی سب سے بڑی وجہ ہندوستان کی تحریک آزادی اور دوسری جنگ عظیم کے تشویشناک حالات تھے۔وہ قومی و بین الاقوامی انتشار و بد نظمی اور شکست و ریخت کے حالات سے یکساں متاثر تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں نظام ملوکیت کی مخالفت و خصلت کے جذبات و احساسات کا اظہار جابجا نظر آتا ہے۔ ’’آپ راشد کی ان نظموں کو دیکھیے جن کا تعلق راشدکی ذات اور سامراج سے ہے۔ راشد کی ان نظموں میں جنگ دو مورچوں پر لڑی جاتی ہے۔ ایک تو سامراج کے خلاف، اور دوسرا اپنی ذات کے خلاف... دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں جب ملک میں آزادی کی جد و جہد جاری تھی تو راشد برطانوی فوج میں ملازم تھااور فوج کے ایک افسر ہی کی حیثیت سے ہندوستانی دستے کے ساتھ ایران گیا تھا۔ جنگ آزادی کا سرفروش سپاہی بننے کے بجائے وہ سامراج کا ایک ادنیٰ سپاہی بن گیا.....راشد کے لیے یہ کشمکش ناقابل برداشت حد تک پہنچ جاتی ہے اور یہ احساس اسے بھلائے نہیں بھولتا.....غلامی بہرحال راشد کو ورثہ میں ملی تھی۔‘‘

(ن م راشد ایک مطالعہ: مرتبہ، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر وزیرآغا، مضمون ن م راشد کی شاعری، مکتبہ اسلوب، کراچی 1986، ص 145-46)

جس کا ذکر انھوںنے اپنی شاعری میں بخوبی کیا۔ ان کے دل میں دشمنان ملک سے مقابلہ کرنے کی حسرت امڈتی رہتی تھی۔ اس کی بہترین مثال نظم ’سپاہی‘ کے مذکورہ اشعار ہیں            ؎

عمر گزری ہے غلامی میں مری

جس سے اب تک مری پرواز میں کوتاہی ہے!

زمزمے اپنی محبت کے نہ چھیڑ

 اس سے اے جان پر و بال میں آتا ہے جمود

میں نہ جاؤں گا تو دشمن کو شکست

آسمانوں سے بھلا آئے گی؟

دیکھ خونخوار درندوں کے وہ غول

میرے محبوب وطن کو یہ نگل جائیں گے؟

ان سے ٹکرانے بھی دے

جنگ آزادی میں کام آنے بھی دے

(سپاہی: ماورا، کلیات راشد، ن م راشد،کتابی دنیا، دہلی، 2004، ص79)

اس نظم میں راشد نے میدان کارزار میں دشمنان ملک سے متصادم و مقابل ہونے کا جذبہ ایک سپاہی کی زبان سے بیان کیا۔ علاوہ ازیں جذبۂ حب الوطنی کا باہمی اظہار اور غیر ملکی فرمانرواؤں کے ظلم و بربریت کے خلاف شدید باغیانہ روش کا اظہار ان کی احتجاجی فکر کی نظیر ہے۔ ان کا معاشرتی شعور ترقی پسند شعرا سے قدرے مختلف بلکہ بعض صورت میں مزید بلیغ، آزمودہ کار اور بالاستقلال تھا۔تاہم ’ایران میں اجنبی‘ اپنی پوری دانائی وفہمیدگی کے ساتھ ترقی پسند نظریۂ فکر کی حامل کہی جا سکتی ہے۔ زبان و بیان، طرزتحریر، جدید محاورے کے استعمال اور انفرادی خصوصیات کی بنیاد پر راشداپنے معاصرین میں،منفرد و ممتاز نظر آتے ہیں۔ ان کا لہجہ اور انداز مزید سخت اور خطیبانہ رہاہے۔مثلاً          ؎

زندگی تیرے لیے بستر سنجاب و سمور                     اور میرے لیے افرنگ کیدریوزہ گری

عافیت کوشئی آبا کے طفیل،

میں ہوں درماندہ و بے چارہ ادیب

خستۂ فکر معاش!

پارئہ نان جویں کے لیے محتاج ہیں ہم

معاشرتی نظام اور عوامی رنج و آلام کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انھیںمعاشرتی و اقتصادی مسائل سے لگاؤ تھا۔نظم ’دریچے کے قریب‘ میں ان کے انقلابی رویے کی کارفرمائی بخوبی نظر آتی ہے        ؎

اسی مینارکے سائے تلے کچھ یاد بھی ہے ـ

 اپنے بیکار خدا کے مانند

اونگھتا ہے کسی تاریک نہاں خانے میں

 ایک افلاس کا مارا ہوا ملاّئے حزیں

ایک عفریت.....اداس

 تین سو سال کی ذلت کا نشاں

ایسی ذلت کہ نہیں جس کا مداوا کوئی

 

 دیکھ بازار میں لوگوں کا ہجوم

بے پناہ سیل کی مانند رواں!

٭٭٭

ان میں مفلس بھی ہیں بیمار بھی ہیں

زیر افلاک مگر ظلم سہے جاتے ہیں !

٭٭٭

میں بھی اس شہر کے لوگوں کی طرح

 ہر شب عیش گزر جانے پر

بہر جمع خس و خاشاک نکل جاتا ہوں

چرض گرداں ہے جہاں

شام کو پھر اسی کاشانے میں لوٹ آتا ہوں

(دریچے کے قریب:ماورا، کلیات راشد،ن م راشد، کتابی دنیا، دہلی، 2004، ص97-99)    

یہاں ظلم برداشت کرنے والوں کی کمزوریاں اور پست ہمتی کا تذکرہ کرتے ہوئے راشد نے اپنی بے ثباتی و کم ہمتی کا بھی بیان کیا ہے۔ عوام کی مانند ان کے درون قلب میں بھی وہ عزم و استطاعت نہیں ہے جو جبر و ظلم کے خلاف آواز حق بلند کرسکے۔ وہ بھی شب و روز دوسرے لوگوں کی مانند مسجد کی میناروں کو دیکھتے رہتے ہیں لیکن کچھ کرنے کی تاب و توانائی نہیں لاپاتے۔

راشد کی شاعری مغربی فکر و نظریات سے مغلوب نظر آتی ہے حالانکہ انھوںنے مشرقی افکار و نظریات سے مکمل رو پوشی نہیں کی۔ ان کی شاعری میں جو مشرق نمودار ہوا وہ محض سیاسی بیداری اور مادی برکتوں کے تصور پر مبنی ہے۔ورنہ انھوںنے مشرقی روایت و روحانی قدروں کے تعلق سے باغیانہ روش اختیار کرتے ہوئے مشرقی روایت و ماضی کی عظیم وراثت کو پابجولاں قرار دیا۔بقول وارث علوی ’’راشد مشرق کی روحانی قدروں کا ثنا خواں نہیں بلکہ مادی برکتوں اور انسان کی ّآزادی کے لیے تصورات کا نوحہ گر ہے۔ راشد کو مغرب کی مادی ترقی اور انسانی آزادی کے تصورات پرکشش معلوم ہوتے ہیں۔‘‘

(ن م راشد ایک مطالعہ مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی، وارث علوی مضمون ؛ ن م راشد کی شاعری،مکتبہ اسلوب، کراچی، 1986، ص152)

تاہم مشرقی روایت اور ماضی پرستی کے خلاف انھوںنے باغیانہ روش اختیار کی۔ ’’راشد کی نظر میں آج کے انسان کے لیے ماضی ایک بند کتاب کی مانند ہے۔ راشد محسوس کرتاہے کہ ماضی کی جانب مڑ کر دیکھنے والا تو کہانی کے شہزادے کی طرح پتھر بن جاتا ہے۔ نئے انسان کی جولاں گاہیں میدان کے کھنڈروں میں نہیں بلکہ نئی بستیوں کی تلاش کرنی چاہئیں         ؎

مگر اب ہمارے نئے خواب کا بوس ماضی نہیں

ہمارے نئے خواب ہیں آدم نو کے خواب                 

 جہان تگ و دو کے خواب

جہان تک دو مدائن نہیں

یہ اس آدم نو کا ماویٰ نہیں

نئی بستیاں اور نئے شہریار

تماشہ گہ لالہ زار

بہرحال راشد ماضی پرستی کے شدید مخالف رہے کیونکہ ماضی پرستی و روایت پرستی کے باعث نئی دنیا کی تعمیر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوںنے اس کے خلاف شدید احتجاجی عمل کا مظاہرہ کیا۔ ’’راشد کے یہاں ماضی کے خلاف جو اتنا شدید رد عمل ملتا ہے۔ اس کا سبب ایک تو مشرقی مزاج کی ماضی پرستی اور روایت پرستی ہے اور دوسرا ہند و پاک کی وہ احیائی تحریکیں ہیں جو انسان کے نئی دنیا کی تعمیر کے حوصلوں کو کچل کے رکھ دیتی ہیں۔ راشد کی نظم ’سومنات‘ اس احیا پسندی کے خلاف شدید رد عمل ہے۔‘‘

(ن م راشد ایک مطالعہ: مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی، وارث علوی، مضمون ؛ ن م راشد کی شاعری،مکتبہ اسلوب، کراچی، 1986،ص 154)

اردو شاعری کی روایت میں شب،ظلم و تاریکی اور روز، روشنی و فرحت کے طور پر مستعمل رہاہے لیکن راشد نے شب و روز کا تجزیہ استدلالی انداز میں کیا۔ تاہم ان کے یہاں قدیم روایاتی اقدار رونما ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان کے کلام میں عجمی آہنگ کا اشتراک ہے۔اس کے باوجود ان کی شاعری عربی ثقافت و تمدن، صحرائی اور مشرقی تہذیبی روایات کے عناصر کا احاطہ کرتی ہے۔مثال کے طور پر نظم’ریت‘ جس میں انھوںنے عصری تہذیب کی فریب کاری اور عریانی پر شدید تنقید کرتے ہوئے منفرد انداز میں نایاب تجزیہ کیا۔ اس نظم میں پر خاموش صحرا کی دلکش منظر سازی کرتے ہوئے پانی اور گھاس کو دور سے دیکھنے پر نخلستان کی مانند بتایا اور اس صحرا میں گرسنگی و تشنگی سے بے اختیار ایک پرندہ اور ایک صحرا نورد مسافر کی نغمہ سرائی کی۔یہ تمام مناظر دراصل صحرا میں سسکتی حیات کی رمق کے غماز ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اشعار قابل ذکر ہیں           ؎

تسلسل کے صحرا میں

ایک ریت کے ٹیلے کی آہستہ آہستہ لرزش

کسی گھاس کے نامکمل جزیرے میں اک جاں بلب

طائر شب کی لرزش

کسی راہ بھٹکے عرب کی سحر گاہ حمد و ثنا

تسلسل کے بے اعتنا رات، دن میں تغیر کا

تنہا نشاں.....محبت کا تنہا نشاں!

(تسلسل کے صحرا میں: لاانسان، کلیات راشد: ن  م  راشد،کتابی دنیا، دہلی، 2004، ص 359-60)

یہاں شاعر نے خشک درخت کو ماضی کے معنی میںبیان کرکے خشک شجر سے روشن ہونے والے شعلۂ آتش کو مثل رہنما قرار دیا۔ حالانکہ راشد ماضی پرست نہیں تھے لیکن ان کے لاشعور میں ماضی کی تہذیبی قدریں منقوش تھی جن سے وہ عقب گزاری نہ کر سکے۔ 

اس طرح’’ ن م راشد ایک باشعور فنکار تھے۔ اپنے خیالات و محسوسات کو موزوں ترین لفظوں میں اپنے قارئین تک پہنچانے کے لیے اپنی نظموں میں محنت و کاوش کے ساتھ تبدیلیاں کرتے رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف ان کا فن آخری وقت تک آگے بڑھتا رہا اور دوسری طرف ان کی نظمیں ابلاغ، ساخت اور اظہار کے اعتبار سے بہتر ہوتی چلی گئیں۔‘‘

(ن م راشد:ایک مطالعہ مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی، مضمون:راشد کی چند نظموں کی ابتدائی صورتیں، جمیل جالبی، مکتبہ اسلوب، کراچی، 1986، اشاعت اول، ص 220)

بہرحال راشد کی شاعری اپنے عہد و ماحول کے سیاسی و معاشی بحران،معاشرتی قباحت و بے ترتیبی، انسانی و تہذیبی اعلیٰ اقدار کی پامالی،قومی و ملی انحطاط اور نوع انسان کی شکست و ریخت اور فرد کی آزادی کا رزمیہ ہیں ’’جس میں تغزل کا رنگ بھی ہے اور شاہنامہ فردوسی اور الیڈ کا عکس لطیف۔‘‘

(کوثر مظہری: جدید نظم : حالی سے میرا جی تک ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی،مئی 2008، ص375)

Aliya Begum

Research Scholar,  Dept of Urdu

University of Allahabad

Mob.: 7706040760

aliyashaikh380@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں