20/1/23

اصغر عباس، عشق کا نام جس سے روشن تھا: معیدالرحمن


پروفیسر اصغر عباس صاحب فکر سرسید کے امین، سید والا گہر کے عاشق صادق، بے حد نستعلیق اور اعلیٰ اقدار حیات سے مزین تھے، صارفیت اور مادیت کے اس دور میں خود تشہیری کے بجائے علمی خلوص اور انہماک کے ساتھ تحقیق و تصنیف میں مشغول رہتے تھے۔ ایک ایسے دور میں جب کہ ہر شخص ہر موضوع پر اپنے تبحر علمی کا دعویدار ہو، اصغر عباس صاحب جیسی شخصیت کو خاطرخواہ مقام کا نہ ملنا قابل افسوس نہیں ہے۔

پروفیسر اصغر عباس صاحب کی پیدائش 9؍اکتوبر 1941 کو اترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے ایک مردم خیز گائوں بی بی پور میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ جب آپ کے والدین گورکھپور منتقل ہوگئے تو وہاں جارج اسلامیہ کالج سے ثانوی درجات کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے بی اے اور ایم اے کی اسناد گورکھپور یونیورسٹی سے حاصل کیں۔ اس وقت گورکھپور یونیورسٹی میں پروفیسر محمود الٰہی استاد تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اردو زبان پر پیمبری وقت آن پڑا تھا۔ اس زبان پر تقسیم کی مار سب سے زیادہ پڑی تھی۔ اس وقت اردو زبان و ادب کو ایک مضمون کے طور پر اختیار کرنا دیوانگی سے کم نہیں خیال کیا جاتا تھا۔ آپ نے 1966 میں شعبۂ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا۔ معروف نقاد اور دانشور پروفیسر آل احمد سرور آپ کے نگراں مقرر کیے گئے۔ اس زمانے کے شعبۂ اردو میں نابغہ روزگار اساتذہ تھے۔ ایسے اساتذہ کی ایک بڑی تعداد تھی جو اردو زبان و ادب کی تاریخ میں عہد آفریں اور رجحان ساز الفاظ سے یاد کیے جاتے ہیں۔ معین احسن جذبی، خورشید الاسلام اور نسیم قریشی وغیرہ شعبے کے سینئر اساتذہ میں شمار کیے جاتے۔ خلیل الرحمن اعظمی، ڈاکٹر محمد عزیر، خواجہ مسعود علی ذوقی، مجنوں گورکھپوری جیسے صاحب علم و فضل سے شعبۂ اردو مرکز علم و فن بنا ہوا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شعبے میں ڈاکٹر شمیم حنفی، ڈاکٹر سی ایم نعیم، شہریار اور ڈاکٹر مسعود عالم اس کاروان علم و فضل میں نئے نئے شامل ہونے والوں میں تھے۔ اصغر عباس صاحب کا تقرر شعبۂ اردو میں عارضی لکچرر کی حیثیت سے 1969 میں ہوا۔ 1976 میں آپ کی ملازمت مستقل ہوگئی اور آپ 2002 میں شعبۂ اردو سے چیئرمین کے عہدے سے سبک دوش ہوگئے۔

اصغر عباس صاحب نے اپنی ادبی سرگرمیوں کا آغاز انجمن ترقی اردو ہند کے ہفتہ وار اخبار ’ہماری زبان‘ اور اس کے سہ ماہی رسالے ’اردو ادب‘میں اسسٹنٹ کی حیثیت سے کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب آل احمد سرور انجمن اردو ہند کے اعزازی سکریٹری (1956-1974)  تھے۔ انجمن کا دفتر علی گڑھ میں تھا۔ اصغر عباس صاحب کے علمی اکتسابات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے 1857 کے رستخیز حالات سے پیداشدہ سرسید اور ان کے انقلاب آفریں تصورات کو اپنے مطالعے کا مرکز و محور بنایا۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے خاص طور پر اور بلالحاظ مسلک و ملت ہندوستانی عوام کے لیے عام طور پر 1857 کے حالات ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ وہ فیصلہ کن گھڑی تھی جب مغلیہ سلطنت کے باقی ماندہ آثار ختم ہورہے تھے اور مغربی تہذیب طرز نو کی بنیاد ڈال رہی تھی۔ دونوں تہذیبوں کے مابین بعد المشرقین تھا۔ ایسے پرآشوب دور میں سرسید اپنی عبقریت، دوراندیشی اور بصیرت سے دونوں تہذیبوں کے مابین وحدت اور یگانگت کے پل کی تعمیر میں مصروف تھے۔ پروفیسر اصغر عباس کا سرسید اور ان کے علمی کارناموں کو موضوع بنانے کا مقصود ان مضمرات اور ارتعاشات کو گرفت میں لینا تھا جس کے نتیجے میں سرسید اور ان کے افکار کی تشکیل ہوئی تھی۔ برصغیر کی انیسویں اور بیسویں صدی کی فکری تاریخ اور سیاسی سماجی اتھل پتھل مذہبی اور تہذیبی اتار چڑھائو کی تفہیم مطلوب ہو تو سرسید کو سمجھے بغیر یہ ناممکن ہے۔ اصغر عباس کا سرسید سے تعارف بچپن ہی میں ہوگیا تھا۔ انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں سرسید سے دلچسپی کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’’غالباً ساتویں یا آٹھویں جماعت میں تھا، جب میں نے سرسید کے دو مضامین خوشامد اور بحث و تکرار پڑھے۔ دونوں مجھے پسند آئے۔ سن شعور کی منزلیں طے کرتے ہوئے سرسید سے شیفتگی بڑھتی گئی۔‘‘

(مطبوعہ، اردو دنیا قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، دسمبر 2015)

سرسید اور ان کے سیاسی، سماجی، تہذیبی اور مذہبی تصورات کے مطالعے کا آغاز یوں تو مغرب اور برصغیر میں انیسویں صدی کے اواخر میں ہوچکا تھا۔ جی ایف آئی گراہم کی کتاب The life and work of Sir Syed Ahmad Khan (1885) اور خواجہ الطاف حسین حالی کی معرکہ آرا تصنیف حیاتِ جاوید (1901) سے سرسید شناسی کو ایک اہم علمی موضوع کے طور پر تسلیم کیا جاچکا تھا۔ سرسید کی حیات و خدمات پر جتنی تصنیفیں منظر عام پر آئیں وہ سب قومی اور وطنی جذبے کے تحت تحریر کی گئیں۔ بیسویں صدی کے وسط تک مطالعات سرسید کا زور بڑھ گیا۔ اس کے پس پردہ متعدد تہذیبی سماجی اور سیاسی محرکات کارفرما تھے۔ تقسیم کا جب سانحہ پیش آیا تو ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک میں سرسید کے مطالعات میں کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے اضافہ ضرور ہوا، لیکن ایک مسئلہ یہ پیش آیا کہ دونوں ممالک کے مصنّفین نے سرسید اور افکار سرسیّد کو اپنی سیاسی، سماجی، تہذیبی اور مذہبی ضرورتوں کے تحت پڑھنا شروع کیا۔ انھیں اپنے اپنے سانچوں میں ڈھالنا شروع کیا۔ غرض کہ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ مختار مسعود جیسے دانشور کو یہ کہنا پڑگیا کہ سرسید کا معروضی مطالعہ ہندوستان اور پاکستان میں ناممکن ہے۔ آزادی کے بعد ہندوستانی اور پاکستانی جامعات میں بطور خاص اسکالروں کے لیے سرسید اور افکار سرسید ایک اہم موضوع بن گئے۔ سرسید کو تاریخ، سیاسیات، دینیات، صحافت اور ادب کے اسکالروں نے اختصاص کے ساتھ موضوع تحقیق بنایا۔ خلیق احمد نظامی اور بی شیخ علی نے سیاسی اور سماجی نقطہ نظر سے ان پر کتابیں تحریر کیں، پروفیسر شان محمد نے سرسید احمد خاں پر ایک سیاسی سوانح کے عنوان سے کتاب لکھی، جو 1969 میں شائع ہوئی۔ یہ ان کا تحقیقی مقالہ ہے جو الٰہ آباد یونیورسٹی میں انھوں نے سپرد قلم کیا، افتخار عالم خاں نے فن تعمیر کے نقطہ نظر سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی عمارتوں کا تحقیقی مطالعہ پیش کیا۔ اس کے علاوہ متعدد مبسوط کتابیں تحریر کیں۔ یٰسین مظہر صدیقی، ظفر الاسلام خاں، سعود عالم قاسمی اور عبدالرحیم قدوائی نے سرسید کی تفسیر اور ان کے مذہبی افکار کو غور و خوض کا موضوع بنایا۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

مطالعات سرسید کے ضمن میں ایک اہم نام پروفیسر اصغر عباس کا ہے۔ پروفیسر اصغر عباس کو دیگر ماہرین سرسید میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سب سے پہلے انھوں نے سرسید کو اپنے تحقیقی مقالے کا موضوع بنایا۔ انھیں یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ انھوں نے اپنی علمی جستجو کو سرسید اور علی گڑھ تحریک کے لیے مخصوص کرلیا۔

سرسید شناسی کے سلسلے میں پروفیسر اصغر عباس صاحب کو ایک معتبر حوالہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اصغر عباس صاحب نے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کو اپنے تحقیقی و تنقیدی مطالعے کے لیے منتخب کیا تو گزٹ کی تمام فائلوں کا انھوں نے بالاستیعاب مطالعہ کیا۔ اس تحقیقی سفر میں انھیں یہ احساس ہوا کہ سرسید کی اصلاحی اور انقلابی سرگرمیوں کا مرکز سائنٹفک سوسائٹی ہے اور ان کے بصیرت افروز اور عہد آفریں تصورات کا ترجمان انسٹی ٹیوٹ گزٹ ہے۔ اصغر عباس صاحب اپنی کتاب سرسید کی صحافت کے مقدمے میں تحریر کرتے ہیں

’’سرسید کے مصلحانہ کارناموں کا نقطہ ماسکہ سائنٹفک سوسائٹی ہے … انیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں یہ ادارہ اردو کی تہذیبی مطبوعات کا گہوارہ بن گیا تھا۔ اسی لیے جدید اردو نثر کی ترویج میں اس سوسائٹی کا اساسی کردار ہے۔ مزے کی بات ہے کہ 1857 کی چیرہ دستیوں کو بھلانے اور اپنی نیک نیتی کا ثبوت پیش کرنے کے لیے انگریزوں نے بھی سوسائٹی کے کاروبار میں گہری دلچسپی لی۔ اسی سوسائٹی سے اردو صحافت کا مہر درخشاں علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ بھی طلوع ہوا، جس کی روشنی کلکتہ سے پشاور تک پھیل گئی۔ سائنٹفک سوسائٹی کی مطبوعات اور اس کی روئیداد سے بعض نئے پہلو سامنے آئے جو ابھی تک تاریکی میں تھے۔‘‘ (ص 8)

اصغر عباس صاحب کا تحقیقی مقالہ سرسید کی صحافت کے عنوان سے انجمن ترقی اردو ہند سے پہلی بار 1975 میں شائع ہوچکا ہے۔ اس کے متعدد ایڈیشن ہند و پاک سے شائع ہوکر علمی حلقوں میں مستند حوالہ بن چکے ہیں۔ مصنف کا یہ جذبۂ تحقیق قابل تحسین ہے کہ ہر ایڈیشن پر مصنف کے قلم سے ضمیمے اور کچھ اضافے شامل ہیں۔ پانچویں ایڈیشن میں متعدد ضمیموں کا اضافہ ہے۔ اس کتاب کا انگریزی زبان میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ سید عاصم علی نے پرنٹ کلچر کے عنوان سے 2015 میں پرائمس بک دہلی سے شائع کیا ہے۔ اس کتاب میں سرسید کی صحافت سے قبل اردو صحافت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ سائنٹفک سوسائٹی کی علمی سرگرمیوں کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ سوسائٹی کے ترجمان علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کی تاریخی تفصیلات، اس کے مدیران، اداریوں اور قلمی معاونین کا سیر حاصل احاطہ کیا گیا ہے۔ مشرق و مغرب کے ان اخبارات کی نشان دہی بھی کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے، جہاں سے ملکی اور بین الاقوامی خبریں حاصل کی جاتی تھیں۔ اس مقالے میں معاصر صحافت پر انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے اثرات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ مقالے کی تیاری میں بنیادی مآخذ سے استفادے کو ترجیح دی گئی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ گزٹ سے براہ راست کسب فیض کیا گیا ہے۔

اصغر عباس صاحب سرسید کے اصلاحی سفر میں سائنٹفک سوسائٹی اور انسٹی ٹیوٹ گزٹ کو سنگ میل سمجھتے تھے اور ان کے زرخیز اور درّاک ذہن کا اہم مظہر سمجھتے تھے۔ اصغر صاحب قاموسی مزاج کے حامل تھے۔ انھوں نے سوسائٹی اور گزٹ کے مختلف گوشوں کو اپنے تفصیلی مطالعے کا موضوع بنایا۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں سرسید اپنے رفقا اور معاصرین پر تعزیتی تحریریں لکھنے کا اہتمام کرتے تھے۔ ان تمام تحریروں کو سرسید کی تعزیتی تحریریں کے عنوان سے یکجا کردیا، جو کتابی شکل میں 1989 میں منظر عام پر آئی۔ مرتب اپنے مقدمے میں ان تحریروں کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں … ’’وہ اپنے حافظے کی قیمتی یادداشت کو تاثرات کی شکل میں اس طرح پیش کرتے کہ اس کی سیرت کے اہم خطوط اور اس کی شخصیت کے نمایاں اکتسابات، اس کی وضع قطع اور عادات و اطوار کی ایک جھلک ہمارے سامنے آجاتی۔ (ص8)

سرسید نے اپنے معاصرین، دوستوں اور اپنے سے متضاد خیال کے حامل علما پر تعزیتی تحریریں لکھیں۔ اس میں صرف مشہور و معروف شخصیات ہی کا ذکر نہیں ہے، بلکہ ایسی شخصیات بھی سرسید کے موئے قلم سے تاریخ کا حصہ بن گئیں جو علی گڑھ تحریک سے کسی درجہ میں منسلک تھیں۔ آپ نے اترپردیش اردو اکادمی کے ایما پر علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے مضامین کا انتخاب شائع کیا، جو 1982 میں شائع ہوا۔ اس میں متعدد اہم مضامین ہیں۔ محمد حسین آزاد کی کتاب آبِ حیات پر تبصرہ ہے۔ سید یحییٰ قرطبی کے اس عربی مرثیہ کا ترجمہ شامل ہے، جو سرسید نے مصائب اندلس کے عنوان سے کیا ہے۔ یہی وہ مرثیہ ہے جسے دیکھ کر سرسید نے حالی سے مسدس لکھنے کی فرمائش کی تھی۔ اصغر صاحب کی کتاب ’سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی‘ سرسید کے کارنامہ ہاے گراں مایہ کو یکجا کرنے اور انھیں نئی نسل کے سامنے پیش کرنے کی ایک کڑی ہے۔ یہ کتاب 2014 میں ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ سے شائع ہوئی ہے۔ اس میں سائنٹفک سوسائٹی کی تمام روداد کو محفوظ کردیا گیا ہے۔ مرتب کتاب تحریر کرتے ہیں  ’’یہ روئدادوں کا مجموعہ نہیں گلدستہ دانش ہے۔ اس سے انیسویں صدی کے سماجی اور دانشورانہ رویوں کو پرکھنے تخلیق اور بیداری کے ایک متحرک دور کا اندازہ کرنے نیز سرسید اور ان کے ہم نوائوں کے اضطراب، بے چینی اور تدبر کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔‘‘ (ص 7-8)

مرتب نے مقدمہ میں سائنٹفک سوسائٹی کے اغراض و مقاصد، ترجمہ شدہ کتابوں اور دیگر علمی سرگرمیوں اور عزائم کا مفصل تذکرہ کیا ہے۔ سائنٹفک سوسائٹی محض ترجمہ کا ادارہ نہیں تھا بلکہ فکر و ذہن میں تحرک اور زرخیزی پیدا کرنے کی منظم تحریک تھی۔ اس سوسائٹی کے تحت جن اہم مشرقی اور مغربی کتابوں کے ترجمے ہوئے ان سے اردو ادب و تہذیب متمول ہوگئی۔ سماجیات، معاشیات، سائنس اور متعدد اہم علوم و فنون کے ترجمے ہوئے۔ اردو شعر و ادب، اردو لغت سازی، اردو علم صرف و نحو کے ضمن میں سرسید کی خدمات اور ان کے عزائم کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جملہ علمی سرگرمیوں میں سے ایک اہم، مفید موضوعات پر توسیعی خطبات کا انعقاد، مندوبین اور ان کے عنوانات نیز خطبہ دینے والے ماہرین کے نام تحریر کیے گئے ہیں۔ خاص طور پر علم زراعت پر کتابوں کی فراہمی، اس سے متعلق مفید آلات کی جمع آوری اور تجربہ گاہ کے قیام کی کوششوں کو اوّلیات سرسید میں شمار کیا گیا ہے۔ مقدمے میں ان نابغوں کا بھی ذکر ہے جو سوسائٹی سے وابستہ تھے۔ ممتاز مستشرق گارساں دتاسی، انڈین نیشنل کانگریس کے مؤسس اے او ہیوم، جدید ہندی نثر کے معمار بھارتیندو بابو ہریش چندر، نواب مصطفی خاں شیفتہ، نواب ضیاء الدین احمد نیر درخشاں، منشی نول کشور کے اسما مذکور ہیں۔ یہ کتاب سائنٹفک سوسائٹی کی مستند تاریخ معلوم ہوتی ہے۔ اس میں بنیادی مآخذ سے استفادہ کیا گیا ہے۔ آرکائیوز اور لائبریریوں میں موجود اس عہد کے اخبارات اور رسائل سے مواد جمع کرنے کا بھی التزام کیا گیا ہے۔ مرتب کے مطابق اس تاریخ کی ساری شہادتیں، علی گڑھ آرکائیوز، مولانا آزاد لائبریری علی گڑھ، کریمیہ لائبریری بمبئی، برٹش لائبریری لندن، رائل ایشیاٹک سوسائٹی لندن، اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز لندن، بوڈلین لائبریری آکسفور یونیورسٹی، کیمبرج اور اڈنبرا یونیورسٹیوں کے کتب خانوں سے چنی گئی ہیں۔ (ص7)

انسٹی ٹیوٹ گزٹ کا اجرا سرسید کی اصلاحی کوششوں کی ایک اہم کڑی ہے۔ یہ اخبار دو زبانوں انگریزی اور اردو میں شائع ہوتا تھا۔ اس میں ہندوستانی باشندوں کی سیاسی، سماجی، تعلیمی، تہذیبی اور مذہبی ضروریات کے تحت سرسید مضامین لکھنے کا التزام کرتے تھے۔ ان مضامین میں سرسید کی فکری بصیرت کا بہ تمام و کمال اظہار ہوا ہے۔ فکر سرسید کی تفہیم کی کوئی کوشش گزٹ کے مضامین کے مطالعے کے بغیر ناممکن ہے۔ اصغر عباس صاحب نے ’شذرات سرسید‘ کے عنوان سے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے مضامین کا ایک جامع انتخاب مرتب کردیا ہے، جو دارالمصنّفین شبلی اکادمی اعظم گڑھ سے 2017 میں شائع ہوا ہے۔ مرتب نے اپنے مبسوط مقدمے میں انسٹی ٹیوٹ گزٹ کی تاریخ اور اس کے مضامین کی افادیت اور معنویت پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ گزٹ کے موضوعات کا اجمالی احاطہ کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی انگریزی زبان سے دوری، مسلمانوں کو عصری تعلیم کی طرف مائل کرنے کی کوششوں، دیگر قوموں کے ساتھ مسلمانوں کے روابط کو فروغ دینے، اور تجارت سے جوڑنے وغیرہ موضوعات بیان کیے گئے ہیں۔ زراعت اور علوم زراعت کو فروغ دینے کے تحت سرسید کی کاوشوں کا اجمالی ذکر ہے۔ اسپین کی علمی عظمت اور مغربی نشاۃ ثانیہ کے پس پردہ اسپین کی یونیورسٹیوں کی کارفرمائیوں کا ذکر ہے۔ مقدمہ میں انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے مضامین یکجا کرنے کے تحت اس واقعے کا بھی ذکر ہے کہ اس کام کا ڈول پہلے حالی نے ڈالا تھا۔ بعض عوارض کی بنا پر وہ اسے انجام دینے سے قاصر رہے۔ انھوں نے سرسید کے عزیز شاگرد مولوی عبدالحق سے ان مضامین کو مرتب کرنے کی گزارش کی، لیکن وہ بھی اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے سے قاصر رہے۔ اصغر عباس صاحب کے اس کارنامے کو حالی کے خوابوں کی تکمیل سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں اس وقت کمے بڑے علما و فضلا کے مضامین شائع ہوتے تھے۔ ان میں ایک اہم نام مولوی ذکاء اللہ کا تھا۔ مولوی ذکاء اللہ کی تاریخ ہندوستان معروف کتاب ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے جغرافیہ، طبعیات اور علم ہیئت پر نمایاں نقوش چھوڑے ہیں۔ اصغر عباس صاحب نے گزٹ میں مطبوعہ ان کے مضامین کا ایک انتخاب مرتب کیا ہے، جو اترپردیش اردو اکادمی سے 1983 میں شائع ہوا۔ اصغر عباس صاحب نے سرسید کا سفرنامہ مسافران لندن کو مرتب کرکے 2009 میں ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ سے شائع کرایا ہے۔ اس میں مرتب کا مبسوط مقدمہ اور فرہنگ شامل ہے، جو اس سفرنامہ کو مزید معنویت اور افادیت سے ہمکنار کرتا ہے۔ مسافران لندن کو مرتب کرنے کے پس پردہ یہ محرک کارفرما معلوم ہوتا ہے کہ یہ سفرنامہ قسط وار پہلے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں شائع ہوا۔ مقدمہ میں سفرنامہ مرتب کیے جانے کی روداد نیز اس سفرنامہ کے متعدد بار شائع کیے جانے کی تفصیلات کا بیان ہے، جو مرتب کی تحقیقی کاوش کا ثمرہ ہے۔ مرتب لکھتے ہیں  مسافران لندن تقریباً ایک صدی بعد مجلس ترقی ادب لاہور کے سربراہ سرسید کے عاشق اور اپنے حلقے کے نسائی تحریک کے اہم قائد سید ممتاز علی کے بیٹے امتیاز علی تاج کے ایما پر شیخ اسماعیل پانی پتی نے مرتب کیا اور مجلس ترقی ادب لاہور نے 1961 میں کتابی شکل میں شائع کیا۔ ہندوستان میں یہ سفرنامہ کتابی شکل میں اب تقریباً ڈیڑھ سو برس بعد پہلی بار شائع ہورہا ہے۔ شیخ اسماعیل پانی پتی نے اپنے مرتب کردہ مسافران لندن کو مختلف ماخذ تہذیب الاخلاق کے مذکورہ شمارہ، حیات جاوید، سرسید کے مکاتیب اور ان کے لکچر سے مرتب کیا ہے۔ زیر نظر کتاب میں سرسید کے سفرنامہ اور اس سے متعلق سارے مضامین علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے مختلف شماروں سے اخذ کیے گئے ہیں، کیونکہ یہ پہلی بار بالاقساط وہیں شائع ہوئے تھے۔ میرا خیال ہے کہ مسافران لندن کی ابتدائی دو قسطیں گزٹ کو انھوں نے عدن اور مصر سے بھیجی تھیں۔‘‘  (ص 22)

فرہنگ کے ذیل میں مشکل الفاظ کے معنی اور نامانوس الفاظ کی تشریحیں درج کی گئی ہیں۔ تعلیقات کے ذیل میں سفرنامہ میں مذکور شخصیات کا تفصیلی تعارف پیش کرنے کا التزام کیا گیا ہے۔ سرسید کے دست راست اور سائنٹفک سوسائٹی کے رکن اساسی مولوی سمیع اللہ خاں کا سفرنامہ مسافران لندن کو بھی اصغر عباس صاحب نے مرتب کرکے اپنے مقدمہ اور تعلیقات کے ساتھ 2012 میں ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ سے شائع کیا ہے۔ اس کو مرتب کرنے کے پس پردہ محرک انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں اس سفرنامہ کا قسط وار شائع ہونا ہے۔ مقدمے میں مولوی سمیع اللہ خاں کے سوانحی کوائف، سرسید سے ان کے روابط، سائنٹفک سوسائٹی میں ان کی شمولیت، پھر سرسید سے اختلاف اور وجوہ اختلاف کا سیر حاصل بیان ہے۔ سفرنامہ کے مندرجات کا تجزیہ بھی کیا گیا ہے۔ یہ سفرنامہ پہلے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں قسط وار شائع ہوا، پھر بعد میں تہذیب الاخلاق میں شائع ہوا۔ مرتب نے یہ سفرنامہ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ سے اخذ کیا ہے۔ تعلیقات کے تحت سفرنامہ میں مذکور شخصیات کا قدرے تفصیلی تعارف کا التزام کیا گیا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مختلف جہات میں پھیلی ہوئی سرسید تحریک آزادی کے بعد رفتہ رفتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دائرۂ کار میں سمٹ کر رہ گئی۔ اصغر عباس صاحب نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ افراد یہاں کی روایات و اقدار کی ترجمانی کرنے والے افراد کو موضوع تحقیق و تصنیف بنایا۔  رشید احمد صدیقی آثار و اقدار کے عنوان سے شعبۂ اردو میں منعقدہ سمینار کے مضامین مرتب کیے جو شعبۂ اردو سے 1984 میں کتابی شکل میں منظرعام پر آئی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں فکر سرسید کے نمایاں علم بردار اور فکر سرسید کو فلسفیانہ اساس فراہم کرنے والی ہستی کا نام علامہ اقبال ہے۔ اصغر عباس صاحب نے سرسید اور علی گڑھ سے اقبال کی وابستگی اور اہل علی گڑھ کا اقبال سے والہانہ تعلق کو تاریخ کی روشنی میں بیان کیا ہے۔ سرسید، اقبال اور علی گڑھ کے عنوان سے یہ کتاب 1987 میں ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ سے شائع ہوئی۔ کتاب کے مقدمے میں موضوع کے جواز پر روشنی ڈالتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے ’’اقبال علی گڑھ کے فارغ التحصیل نہیں تھے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان کے زادراہ میں علی گڑھ کے گہرے آثار و نقوش ملتے ہیں۔ وہ علی گڑھ سے متاثر بھی تھے اور اس پر اثرانداز بھی، لیکن یہاں ان اثرات کا جائزہ مقصود نہیں بلکہ اس رسالے میں صرف اقبال اور علی گڑھ کے ربط و تعلق کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے، تاکہ اقبالیات کے مطالعے میں یہ پہلو بھی نظرانداز نہ ہو۔ (شروع کی بات، ص 3)

عرفان سید حامد، ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ 2001، ارمغان سرور، انجمن ترقی اردو ہند 2001، سردار جعفری شخصیت اور فن شعبۂ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ 2002، اصغر عباس صاحب کی یہ وہ مرتبہ کتابیں ہیں جو علی گڑھ تحریک کی ارتقائی کڑی کے طور پر پڑھی جاسکتی ہیں۔ ان کتابوں کے علاوہ اصغر عباس صاحب کے خاصے مضامین ہیں جو سرسید اور یونیورسٹی سے متعلق کسی عمارت یا شخصیت پر مبنی ہیں۔ جیسے انھوں نے یونیورسٹی کی لٹن لائبریری پر خاصا معلوماتی مضمون سپرد قلم کیا ہے۔ اخیر عمر میں انھوں نے ’ضیابار افراد کے خطوط‘ کے عنوان سے اپنے نام ان خطوط کو مرتب کردیا ہے، جو ان کے سینئر اساتذہ، معاصرین، اعزہ اور شاگردوں نے تحریر کیے ہیں۔ ان خطوط میں ادبی، علمی و تہذیبی گفتگو، کتابوں کے  متعلق دریافت آپسی حال احوال اور علی گڑھ کی ادبی سیاست کی دستاویزات محفوظ ہیں۔ یہ مجموعہ خط 2020 میں منظرعام پر آیا۔

شعبۂ اردو میں تدریسی فرائض انجام دینے کے علاوہ آپ نے 1998-99 میں آکسفورڈ یونیورسٹی لندن میں وزیٹنگ آورسیز پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ متعدد بیرونی ممالک کے علمی اسفار کیے۔ تدریسی سرگرمیوں کے علاوہ آپ سرسید اکادمی علی گڑھ کے ڈائریکٹر (2002-2008) رہے۔ آپ نے اس زمانے میں سرسید کی متعدد کتابوں کو اپنے مقدمے، حواشی اور تعلیقات کے ساتھ شائع کیا۔ اصغر عباس صاحب کا ایک اہم کارنامہ یہ رہا کہ انھوں نے سرسید کی زندگی اور ان کے عہد آفریں تصورات سے عالم عرب کو روشناس کرانے کا ذریعہ تلاش کیا۔ پروفیسر صلاح الدین عمری سے سرسید کی سوانح اور ان کے افکار کا عربی زبان میں ترجمہ کرکے شائع کروایا۔ ہندوستان میں اردو زبان کے علاوہ دیگر زبانوں میں سوانح سرسید اور ان کے افکار کے متعلق کوئی کتاب موجود نہیں تھی۔ اصغر عباس صاحب نے سنسکرت، ہندی، تامل اور تیلگو زبانوں میں ان کے ماہرین کی مدد سے ترجمہ کروایا اور ہندوستان کے ایک بڑے علمی حلقے سے سرسید کو متعارف کرانے کا فریضہ انجام دیا۔

آپ کی علمی، ادبی اور تحقیقی خدمات کا قومی سطح پر متعدد بار اعتراف کیا گیا۔ اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ نے آپ کو بالترتیب 1975، 1987 اور 2001 میں آپ کی مختلف کتابوں پر انعامات سے نوازا۔ اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ نے آپ کو اپنے ممتاز انعام امتیاز میر سے سرفراز کیا۔ ہریانہ وقف بورڈ نے آپ کو خواجہ الطاف حسین حالی ایوارڈ 2011 عطا کیا۔ اترپردیش اردو اکادمی نے آپ کی مجموعی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے سب سے مؤقر انعام مولانا آزاد ایوارڈ 2020 سے نوازکر قدر شناسی کا ثبوت دیا۔ اصغر عباس صاحب کے انتقال سے علم و ادب اور تحقیق کی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا، ایک طویل عرصے تک اس کی بھرپائی ناممکن معلوم ہوتی ہے

یہاں ملتا رہے گا سوز و ساز آرزو برسوں

کیا ہے خون دل سے اک قلندر نے وضو برسوں

(سرور)

معتبر محقق، ممتاز سرسید شناس، سابق صدر شعبۂ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ پروفیسر اصغر عباس صاحب کا 7 ستمبر 2022 کو اپولو اسپتال میں انتقال ہوگیا۔ انا للّٰہِ وانا الیہ راجعون۔

Dr. Moyeedur Rahman

Asst. Prof., Dept of Urdu

Aligarh Muslim University

Aligarh - 202002 (UP)

Mob.: 8126410481

 

 

 

 

 

 

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں