27/1/23

ہندوستان کا میزائل مین: ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام

 


ابوالفاخر زین العابدین عبدالکلام (15 اکتوبر، 1931،  27 جولائی، 2015) کی پیدائش سابقہ مدراس ریاست کے شہر رامیشورم میں ایک متوسط طبقے کے تامل خاندان میں ہوئی تھی۔ ان کے والد زین العابدین کی نہ تو زیادہ رسمی تعلیم تھی اور نہ ہی وہ صاحب ثروت تھے، لیکن وہ روح کی پاکیزگی اور فطری سخاوت کے دھنی تھے۔ ڈاکٹر کلام اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے اور معمولی شکل و شباہت کے تھے۔  وہ اپنے  جس آبائی گھر میں رہتے تھے، وہ 18 صدی کے وسط میں بنایا گیا تھا۔ مشہور شیو مندر، جس نے رامیشورم کو  زائرین  کے لیے مقدس شہر بنا دیا ہے، ان کے گھر سے تقریباً 10 منٹ کی دوری پر ہے۔ اس علاقے میں زیادہ تر مسلمانوں کے گھر  تھے، لیکن وہاں کچھ ہندو خاندان بھی رہتے تھے جو اپنے مسلمان پڑوسیوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے تھے۔

انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم رامیشورم پنچایت ابتدائی اسکول سے حاصل کی اور پھر راما ناتھا پورم شہر کے شوارٹز ہائی اسکول میں داخلہ لے لیا۔ جب انھوں نے شوارٹز میں اپنی تعلیم مکمل کر لی تو وہ خود اعتمادی سے پر اور کامیابی کے لیے پرعزم  ہوچکے تھے۔1950 میں انھوں نے انٹرمیڈیٹ کے امتحان کے لیے سینٹ جوزف کالج، تریچی میں داخلہ لیا۔ وہیں انھیں انگریزی ادب  سے شغف ہوا اور کلاسیکی ادب پڑھنا شروع کیا۔ یہی وہ وقت تھا جب ان کو فزکس میں بڑی دلچسپی پیدا ہوئی۔ جب انھوں نے سینٹ جوزف کالج میں بی ایس سی میں داخلہ لیا تھا تب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے کسی اور متبادل سے واقف تھے اور نہ ہی ان کو سائنس کے طالب علم کے لیے دستیاب کیریئر کے مواقع کے بارے میں  خاص معلومات تھی۔ فزکس میں بی ایس سی کرنے کے بعد انھیں احساس ہوا کہ فزکس ان کا موضوع نہیں ہے۔ وہ اب اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے انجینئرنگ میں جانا چاہتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (MIT) میں ایروناٹیکل انجینئرنگ میں داخلہ لے لیا۔

ایک سائنسدان کے طورپر ڈاکٹر کلام کا کیریئر

 MIT سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد، عبدالکلام ایک ٹرینی کے طور پر ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ (HAL)، بنگلور  سے وابستہ ہو گئے۔ وہاں انھوں نے ایک ٹیم  ممبر کے طور پر انجن کی اوور ہالنگ پر کام کیا۔ انھوں نے باضابطہ طور پر 1958 سے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (DRDO)  میں کام کرنا شروع کیا اور 1963 میں انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (ISRO) میں شمولیت اختیار کر لی۔ ڈاکٹر کلام نے ہندوستان کی پہلی دیسی سیٹلائٹ لانچ وہیکل (SLV-III) تیار کرنے میں پروجیکٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے اہم کردار ادا کیا جس نے روہنی سٹیلائٹ کو کامیابی کے ساتھ زمین کے مدار میں جولائی 1980 میں داخل کر کے ہندوستان کو خلائی کلب کا ایک خصوصی رکن بنا دیا۔ وہ اسرو کے لانچ وہیکل پروگرام، خاص طور پر پی ایس ایل وی کنفیگریشن کے ارتقا کے روح رواں تھے۔ ISRO میں دو دہائیوں تک کام کرنے اور لانچ وہیکل ٹکنالوجیوں میں مہارت حاصل کرنے کے بعد، ڈاکٹر کلام نے انٹیگریٹڈ گائیڈڈ میزائل ڈیولپمنٹ پروگرام (IGMDP) کے چیف ایگزیکٹو کے طور پر ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن میں دیسی گائیڈڈ میزائل تیار کرنے کی ذمے داری سنبھالی۔  AGNI اور PRITHVI  میزائلوں کی ترقی اور آپریشنلائزیشن اور متعدد اداروں کی نیٹ ورکنگ کے ذریعے اہم ٹکنالوجیوں میں قومی صلاحیت پیدا کرنے کا سہرا بھی انھیں کے سر جاتا ہے۔ وہ جولائی 1992 سے دسمبر 1999 تک وزیر دفاع کے سائنسی مشیر اور دفاعی تحقیق اور ترقی کے محکمہ کے سیکرٹری رہے۔ اس عرصے کے دوران انھوں نے ایٹمی توانائی کے محکمہ کے ساتھ مل کر اسٹریٹجک میزائل سسٹم اور پوکھرن-II جوہری تجربات کی قیادت کی جس نے  ہندوستان کو ایٹمی ہتھیاروں کا حامل ملک بنا دیا۔ انھوں نے متعدد ترقیاتی کاموں اور مشن پراجیکٹوں جیسے ہلکے جنگی طیاروں کو آگے بڑھا کر دفاعی نظام میں خود انحصاری پر زور دیا۔ اس طرح وہ بیلسٹک میزائل اور لانچ وہیکل ٹکنالوجی کی ترقی میں اپنے غیر معمولی کام کے لیے ’ہندوستان کے میزائل مین‘ کے طور پر معروف ہوئے۔

ٹکنالوجی انفارمیشن، فورکاسٹنگ اینڈ اسیسمنٹ کونسل (TIFAC) کے چیئرمین کی حیثیت سے اور ایک نامور سائنسدان کے طور پر، انھوں نے 500 ماہرین کی مدد سے ٹکنالوجی وژن 2020تیار کرنے کے لیے ملک کی قیادت کی جس میں ہندوستان کو ترقی پذیر ملک سے ایک ترقی یافتہ ملک میں تبدیل کرنے کا روڈ میپ دیا گیاتھا۔ ڈاکٹر کلام نے نومبر 1999 سے نومبر 2001 تک حکومت ہند کے پرنسپل سائنٹیفک ایڈوائزر کے طور پر خدمات انجام دی اور کئی ترقیاتی ایپلی کیشنوں کے لیے پالیسیوں، حکمت عملیوں اور مشینوں کو تیار کرنے کی ذمے دار ی نبھائی۔ ڈاکٹر کلام کابینہ کی سائنٹفک ایڈوائزری کمیٹی (SAC -C) کے چیئرمین، سابق آفیشیو اور انڈیا ملینیم مشن 2020 کے بھی سرخیل تھے۔ ڈاکٹر کلام نے نومبر 2001 سے انا یونیورسٹی، چنئی میں پروفیسر، ٹکنالوجی اور سماجی تبدیلی کی حیثیت سے تعلیمی سرگرمیاں شروع کیں اور تدریسی اور تحقیقی کاموں میں شامل رہے۔ 

عہدہ ٔ  صدارت

ڈاکٹر کلام 25 جولائی 2002 کو ہندوستان کے 11ویں صدر بنے اور 25 جولائی 2007 تک اس عہدہ پر فائزرہے۔

 اے پی جے عبدالکلام کی غیر سیاسی شخصیت نے ان کی پہچان ’عوامی صدر‘ کی بنا دی تھی۔ ہندوستان کے صدر کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے باوجود، ڈاکٹر کلام نے ہمیشہ سادگی اور عاجز ی کی زندگی گزاری اور اپنے ساتھ کام کرنے والے تمام لوگوں کے ساتھ خلوص وپیار اور گرمجوشی سے پیش آتے رہے۔

صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام اپنے ہم وطنوں سے مطالبہ کرتے تھے کہ وہ ہندوستان کو ایک ’ترقی یافتہ قوم‘ میں تبدیل کرنے کے وژن کو عملی جامہ پہنانے کی طرف پوری توجہ دیں۔ 25 جولائی 2002 کو نئی دہلی میں پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں صدر جمہوریہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی تقریر میں ڈاکٹر کلام نے کہا تھا، ’’اب ہمیں ملک میں ایک تحریک کی ضرورت ہے۔ اس تحریک کے لیے لوگوں کے ذہنوں کو متحرک کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ ہم اس کے لیے کام کریں گے۔ ہم ایک ترقی یافتہ قوم کے طور پر نہیں ابھر سکتے اگر ہم  وقت کی رفتار کے ساتھ چلنا نہیں سیکھیں گے۔‘‘

یوم آزادی  2002 کے موقع پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے،  صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے کہا تھا، ’’آزادی کے بعد، ہندوستان نے زراعت اور خوراک کی پیداوار، توانائی، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور سائنس و ٹکنالوجی کے مختلف شعبوں میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ خاص طور پر ہم نے فارماسیوٹیکل، انفارمیشن ٹکنالوجی، ماس میڈیا اور کمیونیکیشن، اسپیس، دفاع اور نیوکلیئر سائنس کے شعبوں میں بین الاقوامی سطح پراپنی شناخت بنائی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا، ’’پہلے وژن کی طرح، جس نے ہمارے لوگوں کومتحد کرکے آزادی کے حصول کے لیے ایک تحریک پیدا کی تھی، ہمیں ایک دوسرے وژن کی ضرورت ہے، جو ہمارے معاشرے کے تمام طبقات کو ایک مشترکہ مقصد کے لیے متحد کرے۔ ہماری قوم کا دوسرا وژن زراعت اور فوڈ پروسیسنگ، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال، بنیادی ڈھانچے کی ترقی بشمول پاور، انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹکنالوجیز اور دیگر اہم ٹکنالوجیوں کے شعبوں میں بیک وقت مربوط کارروائیوں کے ذریعے اسے موجودہ ترقی پذیر ملک سے ایک ترقی یافتہ قوم میں تبدیل کرنا ہے۔ اس عظیم تر وژن کا مقصد غربت، ناخواندگی اور بے روزگاری کو ختم کرنا ہے۔ جب ہمارے ملک کے لوگوں کے اذہان اس وژن کی طرف متحد ہوں گے توایک بہت بڑی طاقت ابھرے گی جو ایک ارب لوگوں کی خوشحال زندگی کا باعث بنے گی۔ قوم کا یہ وژن اختلافات اور چھوٹی سوچ سے پیدا ہونے والے تنازعات کو بھی ختم کرے گا۔‘‘

24 جولائی، 2007 کو، قوم کے نام شکریے کا  خطاب  کرتے ہوئے، صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے کہا، ''دہلی کے راشٹرپتی بھون میں اور ہر ریاست اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں اپنی بات چیت کے دوران اور ساتھ ہی اپنی آن لائن خطاب کے ذریعے، میرے پاس آپ کے ساتھ ساجھا کرنے کے لیے بہت سے منفرد تجربات ہیں جن میں پہلا تجربہ ترقی کی رفتار کو تیز کرنا ہے تاکہ نوجوانوں کی خواہشات کو پورا کر سکیں، دیہات کو بااختیار بناسکیں اور مسابقت کے لیے دیہی بنیادی اہلیت کو متحرک کرسکیں۔ دوسرا  فصل کی پیداوار کے لیے  بہتر  بیج مہیا کرانا ہے  تاکہ  زرعی ترقی کو یقینی بنایا جاسکے اور تیسراملک کا دفاع ہے۔

ایوارڈ اور اعزازات

ڈاکٹر کلام 30 یونیورسٹیوں اور اداروں سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری حاصل کرنے کا منفرد اعزاز رکھنے والے ہندوستان کے نامور سائنسداں ہیں۔ انھیں شہری ایوارڈپدمابھوشن (1981)، پدماوبھوشن (1990) اور اعلیٰ ترین شہری اعزاز بھارت رتن (1997) سے بھی  نوازا گیا۔ وہ کئی دوسرے ایوارڈوں کے وصول کنندہ اور کئی پیشہ ور اداروں کے فیلو بھی رہے۔

کتابیں اور شاعری

ان کی ادبی خدمات میں ڈاکٹر کلام کی چار کتابیں"Wings of Fire", "India 2020 - A Vision for the New Millennium", "My journey", "Ignited Minds - Unleashing the power within India"   ہندوستانی گھروں اور بیرون ملک ہندوستانی شہریوں میں اپنا اہم مقام بنا چکی ہیں۔ ان کتابوں کا متعدد ہندوستانی زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔

Wings of Fire یہ کتاب ہندوستان کے عام لوگوں کے لیے لکھی گئی ہے جن سے ڈاکٹر کلام کو بے پناہ انسیت اور محبت ہے۔ ان کا عام لوگوں سے جو گہرا رشتہ اور تعلق ہے وہ خودڈاکٹر کلام کی سادگی اور فطری روحانیت کا مظہر ہے۔ اس کتاب کے ذریعے وہ ہندوستان کے کروڑوں عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ کبھی بھی خود کو چھوٹا یا بے بس محسوس نہ کریں ''ہم سب اپنے اندر ایک الوہی آگ کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اس آگ کو ہوا دیں اور دنیا کو اس کی چمک سے بھر دیں۔‘‘ درحقیقت یہ کتاب ڈاکٹر کلام کی زندگی کا  مختصر خاکہ پیش کرتی ہے۔

India 2020 - A Vision for the New Millennium  یہ کتاب مضبوطی سے اس خیال کو پیش کرتی ہے کہ ہندوستانی عوام موجودہ غربت سے اوپر اٹھ سکتے ہیں اور اپنی بہتر صحت، تعلیم اور خود اعتمادی کی خوبیوں سے ملک میں زیادہ پیداواری حصہ ڈال سکتے ہیں۔ ہندوستان کے پاس کافی تکنیکی طاقت آ سکتی ہے، جو اس کی اسٹریٹجک، اقتصادی اور تجارتی ترقی کے لیے بہت اہم ہے۔ اس میں ان چند ایکشن پلان کے عناصر کا انکشاف بھی کیا گیا ہے، جو ملک کے بہت سے نوجوانوں کے لیے مشن بن سکتے ہیں۔

Ignited Minds - Unleashing the power within India  قومیں لوگوں سے بنتی ہیں اور ان کی کوششوں سے ایک ملک وہ سب کچھ حاصل کر سکتا ہے جو وہ حاصل کرنا چاہتاہے۔ ہندوستان کے لوگوں اور خاص طور پر یہاں کے نوجوانوں کو تحریک دینا اس کتاب کا مرکزی موضوع ہے، جو ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی ابتدائی دو کتابوں، وِنگس آف فائر اور انڈیا 2020 اے وژن فار دی نیو ملینیم میں اٹھائے گئے خیالات کے تسلسل کو جاری رکھتی ہے۔ یہ کتاب بالخصوص نوجوان نسلوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے جو ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے میں اہم رول اداکرسکتے ہیں۔

Envisioning an Empowered Nation ملک کے تمام حصوں کے طلبا اور نوجوانوں کے ساتھ بات چیت اور انا یونیورسٹی کے انجینئرنگ کے طلبا اور دیگر یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں کے طلبا کو دیے گئے لیکچروں کے نتیجے میں یہ کتاب تیار ہوئی ہے۔ اس لیے یہ کتاب ہندوستان کے نوجوانوں اور طلبہ برادری کو وقف ہے۔

The Life Tree ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے خلائی تحقیق اور دفاعی ٹکنالوجی میں ہمارے ملک کی ترقی میں انمول کردار ادا کیا ہے۔ تاہم وہ نہ صرف ایک نامور سائنسدان تھے بلکہ ایک حساس اور فکر انگیز شاعر بھی تھے۔ سائنسی ذہانت اور شاعرانہ صلاحیتوں کا یہ سنگم واقعی منفرد ہے۔ اس کتاب میں شامل نظمیں ڈاکٹر کلام کی ہندوستان اور اس کی کثیر جہتی ثقافت سے گہری محبت کو آشکار کرتی ہیں۔معبود حقیقی اور مادر وطن سے ان کی عقیدت کے ساتھ ساتھ ان کی انسان دوستی بھی ان اشعار میں منفرد انداز میں ظاہر ہوئی ہے۔          

ڈاکٹر کلام کی دیگر کتابوں میں My Journey, Developments in Fluid Mechanics and Space Technology, The Luminous Sparks, Mission India, Children Ask Kalam, Guiding Souls, Indomitable Spirit, Inspiring Thoughts    وغیرہ شامل ہیں۔

خود اعتمادی کی وراثت  (Legacy of self-belief) ڈاکٹر کلام مقصد کی وضاحت، اپنے اہداف کو حاصل کرنے کی ایک نادر صلاحیت اور غیر معمولی استقامت کی خصوصیات  سے پر تھے۔ وہ کسی بحران سے دوچار ہونے سے کبھی نہیں ڈرتے تھے اور آخری دم تک مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔

نوجوان ذہنوں کو متحرک کرنے کا جذبہ  (Passion to ignite the young minds)  ڈاکٹر کلام کو ہمارے ملک کے لاکھوں نوجوانوں اور طلبا کی تعلیمی اور علمی ترقی کے لیے ایک محرک ماناجاتا ہے۔ بچوں کے متحرک ذہنوں کی طاقت کوآشکار کرنا ان کا خواب تھا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ملک کو ’ترقی پذیر سے ترقی یافتہ‘ بنانے کے لیے بچوں کی مکمل شمولیت ایک لازمی شرط ہے۔ ان کے خیال میں متحرک ذہنوں کی طاقت کسی بھی دوسری طاقت سے عظیم ترہے۔ وہ بچوں کو موجودہ سطحوں سے بہت اوپر  پہنچنے اور اعلی کامیابی حاصل کرنے کی خواہش سے بھر دینا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر کلام نوجوانوں کو اونچے خواب بننے کا  مشورہ دیا کرتے تھے کیونکہ خواب،  خیالات میں منتقل ہوتے ہیں اور خیالات عمل کے لیے محرک بنتے ہیں۔ راشٹرپتی بھون میں ان کے قیام کے دوران، لوگ ڈاکٹر کلام سے آسانی سے مل سکتے تھے اور ان سے بات چیت کر سکتے تھے۔ وہ بچوں کے خطوط کا جواب انتہائی دلچسپی کے ساتھ دیا کرتے تھے۔

خلائی اور دفاعی شعبوں میں ’آتم نر بھربھارت‘ کے بنیادگزار (Laying foundations of 'Atma Nirbharta' in space and defence sectors) ڈاکٹر کلام نے ہندوستان کے دفاعی اور خلائی نظام کو خود کفیل بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ان کے وژن پر آگے بڑھتے ہوئے، حکومت ہند نے پچھلے کچھ برسوں میں 'میک ان انڈیا' پروگرام کے تحت کئی پالیسی اقدامات کیے ہیں اور ملک میں دیسی ڈیزائن، ترقی اور دفاعی آلات کی تیاری کی حوصلہ افزائی کے لیے اصلاحات کی ہیں۔ ان اقدامات میں دفاعی حصول کے طریقہ کار (Defence Acquisition Procedure-2020) کے تحت گھریلو ذرائع سے سرمائے کی اشیا کی خریداری کو ترجیح دینا؛ صنعت کی قیادت میں ڈیزائن اور ترقی کے لیے 18 بڑے دفاعی پلیٹ فارموں کا اعلان؛ طویل مدت کے لیے صنعتی لائسنسنگ کے عمل کو آسان بنانا؛ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کی پالیسی کو آزادانہ بنانا جو خودکار راستے کے تحت 74فیصد ایف ڈی آئی کی اجازت دیتا ہے؛ دو دفاعی صنعتی راہداریوں کا قیام؛ ا سٹارٹ اپس اور مائیکرو، اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز (MSMEs) پر مشتمل ڈیفنس ایکسیلنس  اسکیم کے لیے اختراعات کا آغاز (iDEX)  وغیرہ شامل ہیں۔

زندگی کے تمام شعبوں میں ہندوستان کو مکمل طور پر آتم نر بھر بنانے کے لیے، حکومت ہند نے 12.05.2020 کو ’آتم نر بھر بھارت ابھیان‘ کا اعلان کیاتھا اور ملک کو خود کفیل بنانے اور مقامی مینوفیکچرنگ پر توجہ مرکوز کرنے کے مقصد سے 20 لاکھ کروڑ روپے کے ایک خصوصی اقتصادی پیکج کا اعلان کیاتھا۔ یہ ملک کو عالمی سپلائی چین میں سخت مقابلے کے لیے تیار کرنے، کاروبار کرنے میں آسانی پیدا کرنے، MSMEs کو بااختیار بنانے، FDI سمیت سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور میک ان انڈیا کی پالیسیوں کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ یہ پیکیج کئی طویل مدتی اسکیموں/پروگراموں پر مشتمل ہے جن کا مقصد ملک کو آتم نربھر بنانا ہے۔ ان اسکیموں/پروگراموں کو مختلف وزارتوں/محکموں کے ذریعے نافذ کیا جا رہا ہے۔

دفاعی شعبے میں آتم نر بھربھارت کو بڑا فروغ دیتے ہوئے، 3 اکتوبر، 2022 کو ایئر فورس اسٹیشن، جودھپور، راجستھان میں منعقدہ ایک تقریب میں ہندوستانی فضائیہ میں باضابطہ مقامی طور پر تیار کردہ لائٹ کامبیٹ ہیلی کاپٹر (LCH) کو شامل کیا گیا۔ ایل سی ایچ کو 143 ہیلی کاپٹر یونٹ میں شامل کیا گیا اور اس کا نام ’پرچنڈ‘ رکھا گیا۔ LCH کو ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ (HAL) نے تیار کیا ہے۔ یہ ایک جدید ترین جنگی ہیلی کاپٹر ہے، جو بنیادی طور پر اونچے علاقوں میں تعیناتی کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ایل سی ایچ دنیا کا واحد ایسا اٹیک ہیلی کاپٹر ہے جو ہتھیاروں اور ایندھن کے کافی بوجھ کے ساتھ 5000 میٹر کی بلندی پر لینڈ اور ٹیک آف کر سکتا ہے۔    

بچوں کے صدر بچے اے پی جے عبدالکلام کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں اور وہ بھی بچوں کے درمیان  وقت گزارنا پسند کرتے تھے۔ ڈاکٹر کلام نے ایک بہتر ہندوستان کی تعمیر کے لیے نوجوانوں کو متحرک کرنے کا نعرہ دیا تھا۔ وہ ایک ماہر سائنسداں تھے اور نوجوان ذہنوں کوسائنس کے اسٹریم میں جانے کی ترغیب دیتے تھے۔ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے ایک بار کہا تھا، ''جب میں اسکول کے بچوں اور نوجوانوں سے بات چیت کرتا ہوں، جہاں بھی جاتا ہوں، ایک سوال اکثر آتا ہے۔ وہ مجھ سے پوچھتے ہیں ''ہمارے رول ماڈل کون ہیں؟'' روشن خیال شہریوں کے طور پر زندگی گزارنے کے لیے والدین اور اساتذہ کو بچوں کے لیے مثالی کردار بننا ہوگا۔ بچے مختلف شعبوں میں قومی سطح پر رول ماڈل تلاش کرتے ہیں۔ ہمارے ملک کی ہر ریاست میں ماضی کی ایسی متعدد ہستیاں موجود ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم موجودہ عہد سے مزید رول ماڈل بنائیں۔

ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام بطور استاذ ڈاکٹر کلام، اپنی متعدد لافانی کامیابیوں کے باوجود، ہمیشہ ایک استاذ کے طور پر یاد کیا جانا پسند کرتے تھے۔سوئے اتفاق دیکھیے کہ وہ ایک استاد کے طور پر آئی آئی ایم، شیلانگ میں ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے کہ انھوں نے 27 جولائی، 2015 کی شام کو آخری سانس لی۔ ڈاکٹر کلام کے الفاظ میں اگر کسی ملک کو بدعنوانی سے پاک اور خوبصورت ذہنوں کا ملک بننا ہے تو تین اہم سماجی ارکان ہیں جو یہ کام کر سکتے ہیں۔ و ہ ہیں ماں،باپ اور استاذ۔ ڈاکٹر کلام کے مطابق، استاذ طالب علم کو خود مختار سیکھنے والا بناتا ہے۔ معاشرے اور قومی تعمیر میں استاذ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کلام کا خیال تھا کہ حقیقی تعلیم وہ ہے جو انسان کو سوچنے پر مجبور کرے کہ 'میں کیا کر سکتا ہوں' چاہے وہ بچے ہوں، اساتذہ ہوں یا سیاسی قائدین ہوں۔ ان کا خیال تھا کہ اساتذہ کسی بھی ملک کا عظیم اثاثہ ہوتے ہیں اور اساتذہ ہمارے لاکھوں بچوں کی زندگی بدل سکتے ہیں اور معاشرے کو متحرک بنا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر کلام کا اکیسویں صدی میں تعلیم کا ماڈل ڈاکٹر کلام نے ہندوستان کے لیے اکیسویں صدی کا تعلیمی ماڈل بھی تجویز کیا تھا۔ ان کے مطابق ایک اچھا تعلیمی ماڈل نصاب کے اچھے معیار پر مبنی ہونا چاہیے اور پورا تعلیمی نظام صلاحیت سازی کے پروگرام پر مبنی ہونا چاہیے۔ یہ پروگرام مندرجہ ذیل پانچ اجزا پر مشتمل ہے

  •         تحقیق اور تفتیش
  •         تخلیقی صلاحیت اور جدت
  •         اخلاقی قیادت
  •         کاروبار ی فروغ
  •         سپر ٹکنالوجی استعمال کرنے کی صلاحیت

ڈاکٹر کلام کے مطابق اکیسویں صدی علم اور معلومات کے بہتر انتظام وانصرام کی صدی ہے۔ اس میں ادارے اور اساتذہ، طلبا کو زندگی کا راستہ تلاش کرنے کی سہولت اور ہنر فراہم کرتے ہیں۔ ہمارے آس پاس موجود معلومات کی مقدار بہت زیادہ ہے اس لیے ان کی نیٹ ورکنگ ضروری ہے۔ جب معلومات کی نیٹ ورکنگ ہوتی ہے تو معلومات کی طاقت اور افادیت بڑھ جاتی ہے۔ اکیسویں صدی میں علم کا نظم و نسق ایک فرد کی صلاحیت سے باہر ہے اور اسے فرد کے دائرے سے نکل کر نیٹ ورک گروپس میں منتقل ہونا چاہیے۔ طلبا کو یہ سیکھنا چاہیے کہ علم کو اجتماعی طور پر کیسے منظم کرنا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020بھی انھیں بنیادی عناصر پر مبنی ہے۔

ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی وراثت کو فروغ دینے والی میموریل اور تنظیمیں

اے پی جے عبدالکلام میموریل ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی وراثت کو ہر ہندوستانی کے دل میں زندہ رکھنے کے لیے 30 جولائی، 2016 کو نئی دہلی کے دلی ہاٹ میں کلام میموریل کا افتتاح کیا گیا تھا۔ یہ میموریل ڈاکٹر کلام کے لیے ہماری لازوال محبت کا بین ثبوت ہے۔  ہندوستان کے ہر بچے کے لیے وقف، یہ میموریل سیاحوں، خاص طور پر نوجوان ذہنوں کو متاثر کرتی رہتی ہے۔

ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام میموریل، رامیشورم 27 جولائی، 2015 کو شیلانگ میں ان کے اچانک انتقال کے بعد، ڈاکٹر کلام کو 30 جولائی، 2015 کو پی کرمبو، رامیشورم میں سپرد خاک کیا گیا۔ تدفین کے مقام پر ایک میموریل تعمیر کی گئی ہے۔ میموریل کے اندر، منتخب تصاویر، پینٹنگ اور میزائلوں کے چھوٹے ماڈل وغیرہ کو دیکھاجا سکتا ہے۔ یہ میموریل رامیشورم سے محض ایک کلومیٹر کی دوری پر ہے۔

عبدالکلام انٹرنیشنل فاؤنڈیشن (AKIF) ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کا آغاز 11 اکتوبر، 2015 کو ہاؤس آف کلام نے ان کی یاد میں کیا تھا۔ یہ فاؤنڈیشن ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے نظریات کو آگے بڑھانے کے لیے کام کرتی ہے۔ AKIF کی بنیاد ان کے بڑے بھائی اور خاندان کے لوگوںنے ڈاکٹر عبدالکلام کے ساتھیوں کے تعاون سے رکھی تھی۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں، ڈاکٹر کلام اپنے ساتھیوں اور خاندان کے افراد کے ساتھ مل کر ایک ایسی تنظیم قائم کرنے پر غور کر رہے تھے جہاں ان کا وژن حقیقت کا روپ لے سکے۔ زندگی نے ان کو یہ موقع نہیں دیا لیکن ان کے خاندان کے لوگوں اور ساتھیوں نے ان کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے انتھک محنت کرنے کا فیصلہ کیا اور اسی کے نتیجے میں AKIF کی بنیاد رکھی گئی۔

عبدالکلام وژن انڈیا موومنٹ ہاؤس آف کلام نے عبدالکلام کے وژن انڈیا موومنٹ کے آغاز کا بھی اعلان کیا، جو سابق صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے وژن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک قومی تحریک ہے۔ اس کا آغاز 4 ستمبر،2015 کو ہوا تھا۔ اس کا صدر دفتر نئی دہلی میں ہے۔ عبدالکلام  وژن انڈیا موومنٹ کا مقصد ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے وژن اور مشن کو آگے بڑھانا اور طلبا، نوجوانوں، عوام اور حکومتوں کے ساتھ زمینی سطح پر کام کرنا ہے۔

ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام پریرنا ا ستھل ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام پریرنا استھل کا افتتاح 15 اکتوبر، 2021 کو بھارت رتن ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی 90 ویں یوم پیدائش کے موقع پر نیول سائنس اینڈ ٹکنالوجی لیبارٹری (NSTL)، وشاکھاپٹنم میں کیا گیا۔ NSTL  ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) کی اہم نیول ریسرچ لیبارٹری ہے۔

اہم کامیابیاں

  •         ڈاکٹر کلام کی قیادت میں’ اگنی‘ اور’ پرتھوی‘ میزائلوں کی کامیابیوں کے بعد ہندوستان ایک بڑی فوجی طاقت بن گیا۔
  •         انھوںنے ISRO  میں دیسی سیٹلائٹ لانچ وہیکل کی ترقی کے لیے پروجیکٹ ڈائریکٹر کے طور پر 10 سال سے زیادہ طویل محنت کی تھی جس کے نتیجہ میں بالآخر  ہمارے ملک کو دیسی سیٹلائٹ لانچ وہیکل (SLV) ملاجو ہماری اہم سائنسی ترقیوں میں سے ایک ہے۔
  •         انھوں نے سوماراجو کے ساتھ ایک کم قیمت والی کورونری اسٹینٹ تیار کیا جس کو ''کلام راجو اسٹینٹ'' نام دیا گیا۔
  •         1998 میں، پوکھرن-II ٹیسٹوں نے ہندوستان کی جوہری صلاحیت کو مزید مستحکم کیا۔ ڈاکٹر کلام نے اس منصوبے میں اہم کردار ادا کیا۔
  •         کلام اور سوما راجو کی جوڑی نے 2012 میں دیہی اور کم قابل رسائی علاقوں میں صحت کی دیکھ بھال کے بہتر انتظام کے لیے ایک  ٹیبلٹ کمپیوٹر ڈیزائن کیا۔

ڈاکٹر کلام کی بایوپکچر

15 اکتوبر 2021 کو ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام  کے 90 ویں یوم پیدائش پر فلمز ڈویژن، وزارت اطلاعات و نشریات نے،ان کی زندگی اور کارناموں پر مبنی ایک بایو پک ’پیپلز پریزیڈنٹ‘ کی اسٹریمنگ اپنی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل  https://www.youtube. com/FilmsDivision  پر کی۔ اس کی ہدایت کاری پنکج ویاس نے کی ہے۔ یہ دستاویزی فلم ان کے شاندار کیریئر کے بہت سے اہم سنگ میلوں پر روشنی ڈالتی ہے۔


Dr. Jahangeer Ahmad

Researcher, PIB Research Unit

Soochna Bhawan, CGO Complex

Lodhi Road

New Delhi - 110003

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں