1936میں ترقی پسند
تحریک اور 1939میں حلقۂ اربا ب ذوق کے زیر
اثر نظم میں فکری اور فنی سطح پر غیر معمولی تبدیلی رونما ہوئی۔ حلقہ ارباب ذوق کے
شعرا نئے موضوعات کے ساتھ نئی ہیئت اور نئے اسالیب کی تلاش میں سرگرم نظر آتے ہیں۔
ان کے یہاں موضوعات کی کوئی قید نہیں۔ لیکن حلقے کا رجحان انفرادی زندگی اور داخلی
مسائل کی طرف ہی رہا ہے۔ اس سے وابستہ شاعروں نے ہیئت کے تجربے، نئے اسالیب اور علامت
کو شاعری میں عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ آزاد نظم کو فروغ دینے اور مقبول عام
بنانے میں حلقے کے شعرا نے اہم رول ادا کیا۔میراجی
کا تعلق حلقۂ ارباب ذوق سے تھا۔ میراجی کا
شمار اردو نظم میں داخلیت کے سب سے بڑے علم بردار کے طور پر ہوتا ہے۔میراجی نے جس رنگ
کی شاعری کو رواج دیا، وہ اپنے پیش روؤں اور ہم عصروں سے بہت مختلف تھی۔میرا جی کے
یہاں موضوعات،ہیئت اور اسلوب کے تجربے چونکانے
والے تھے۔ ان کی خلاقانہ صلاحیت نے اردو نظم
میں اظہار کے نئے دریچے وا کیے۔ نئے اسالیب اور نئے موضوعات کی تلاش سے نظم کا دائرہ
وسیع ترہوا۔
میرا جی کے یہاں
روایتی اور مروجہ شاعری سے انحراف کی لے بہت تیز رہی ہے، ان کی جدت پسندی اور ہیئت
و اسلوب کے تجربوں سے بحث و مبا حثے کا ایک دور شروع ہوا۔ میرا جی نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے
اپنے ادبی نقطہء نظر کی وضاحت کی اور اس کا جواز بھی پیش کیا۔انھوں نے جس طرز کی شاعری
کو رواج دینے کی کوشش کی اس کے لیے روایتی اسالیب اور اظہار کے بنے بنائے سانچے نا
کافی معلوم ہوئے۔بلا شبہ میرا جی کے یہاںہیئت اور اسلوب کے تجربے کا رجحان نظر آتا
ہے، لیکن ان کا مقصد محض نئی ہیئت و اسلوب کو رائج کرنا نہیں تھا بلکہ نئے موضوعات
اور نئی طرزفکر کے اظہار کے لیے نئے پیمانے
وضع کرنا تھا، جس سے اظہار کی راہیںروشن ہوں۔ میرا جی تجربہ برائے تجربہ کے قائل نہ
تھے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ میراجی نے پابند، معریٰ اور آزاد نظم کی ہیئت کو اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ بقول ن م راشد
’’میراجی ان شاعروں میں تھے جنھوں نے محض تجر بے کی خاطر
یا ماضی سے کسی شعور ی علاحدگی کے باعث یا
محض جدید نظر آنے کے لیے رسمی عروضی ترکیبوں
کو ترک نہیں کیا تھا بلکہ جن کے مواد کا تقاضا تھا کہ وہ کامل طور پر نئے ڈھانچے پر
استور ہو ‘‘ (ن م راشد لا= انسان، ص
46)
اس حوالے سے میرا جی کے
دو اقتباس دیکھیے جن سے ان کے ادبی نقطہء نظر کا بخوبی اندازہ
ہوجاتا ہے
’’خیال ہی میری نظر میں بنیادی شے ہے اس میں اگر کوئی نئی
بات نہیں اس میں اگردوقدم آگے بڑھنے کی صلاحیت نہیں تو اظہار کی کوشش بے مصرف اور
بیکار ہے۔
( میرا جی اس نظم میں،ص
10)
’’بہت سے لوگ مجھے صرف آزاد نظم کا پرستار سمجھتے ہیںمگر
آزاد نظم کو میں موضوع یا فنی ضرورت کے ہی لحاظ سے جائز کہتا ہوں۔ ‘‘(میراجی میراجی کی نظمیں
(دیباچہ)، ص 15)
ظاہر ہے میراجی کا اصرار فکر وفن کے ارتباط پر تھا۔ان کے
نزدیک خیال کے لیے جب تک مناسب ذریعۂ اظہار نہ اختیار کیا جائے کلام موثر اور دیرپا
نہ ہوگا۔جدید شاعروں میں اپنے شعری رویوں کی وضاحت اور اپنی شاعری کا جواز پیش کرنے
کی ضرورت میرا جی ہی نہیںبلکہ ان کے ہمعصروں میں راشد، فیض، اخترالایمان اور بعض دوسرے
شاعروں کو بھی پیش آئی۔ ان شعرا کی شاعری مروجہ شاعری کے مزاج سے اگر اتنی الگ نہ
ہوتی تو شاید انھیں اس کی ضرورت بھی پیش نہ آتی۔ میراجی کے ساتھ ایک مشکل یہ تھی کہ
ان کی شاعری کی تفہیم میں ان کی شخصیت ایک مسئلہ بنی رہی۔ میرا جی کی شاعری میں اچھوتے
تجربات، داخلی زندگی کی طرف میلان، ذاتی علامتوں اور ابہام کے سبب ان کی نظموں کی تہہ
تک رسائی آسان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میرا جی کی شاعری کے متعلق یہ رائے ظاہر کی جاتی ہے کہ ان کی شاعری اپنے عہد کے زندہ مسائل سے دو ٹوک واسطہ نہیں رکھتی۔
در اصل میرا جی کے یہاں زندگی سے وابستہ مسائل کا اظہار مختلف انداز میں نظر آتا ہے۔
میراجی اپنے عہد کے مسائل کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والے واقعات
وحادثات سے میراجی کی گہری دلچسپی تھی۔ میراجی کے مضامین سے ان کا اپنے عہد اور سماج
کے زندہ مسائل سے وابستگی کا بخوبی اندازہ ہوتاہے۔ میرا جی اپنی شاعری کے سروکار کے
بارے میں لکھتے ہیں
’’مشاہدے کے لحاظ سے اگرچہ بہ نسبت مجموعی زندگی کے ہر پہلو
کی طرف میرے تجسس نے مجھے راغب کیا لیکن موجودہ صدی کی بین الاقوامی کش مکش (سیاسی
سماجی اوراقتصادی) نے جو انتشار نوجوانوں میں پیدا کردیا ہے وہ بالخصوص میرا مرکزِ
نظر رہا ہے۔ اور آگے چل کر جدید نفسیات نے اس تمام پریشاں خیالی کو جنسی رنگ دے دیا۔‘‘ (میراجی میراجی کی نظمیں
(دیباچہ، ص 20)
اپنے عہد کے مسائل سے گہرا رشتہ رکھنے کے باوجود ان کی شاعری
میںسماج کے مسائل کا واضح اظہار نہیں ملتا،جیسا کہ ان کے دوسرے ہم عصروں کے یہاں نظرآتا
ہے۔ دراصل میراجی نے زندگی کا ادراک عام طرز سے ہٹ کر کیا۔ میراجی نے زندگی سے وابستہ
مسائل کو سیدھے سادے انداز میں بیان نہیں کیا۔ خارجی حالات، داخلی زندگی پر جس قدر
اثر انداز ہوتے ہیںا ور داخلی زندگی جس کیفیت سے دوچار ہوتی ہے، میراجی نے اس صورت
حال کو گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے۔ دراصل میراجی کی طرزِ زندگی دوسروں سے بہت مختلف
تھی۔ ان کی پوری زندگی ناآسودگیوںسے عبارت تھی۔محبت میں ناکامی، جنسی ناآسودگی، معاشی
مسائل، میراجی کی زندگی سے ہمیشہ دامن گیر رہے۔ میرا جی سماجی قوانین، طور طریقے، عادات
و اطوار کے پابند نہیں تھے۔ خود میراجی کو اس بات کا احساس تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی
کو سماجی طور طریقوں کے مطابق گزارنے کی شاید کوشش بھی نہیں کی،بلکہ بعض سماجی قوانین
کے معاملے میں جنھیں وہ غیر ضروری سمجھتے تھے ان کے خلاف باغیانہ رویہ اختیار کیا۔
اس سلسلے میں سب سے زیادہ شدید ردِّ عمل جنس کے معاملے میں اختیار کیا۔ میراجی کی نظر
میں جنس قدرت کی سب سے بڑی نعمت اور راحت ہے،اس لیے جنس پر تہذیب و تمدن کی پابندی
انہیں گوارانہ تھی، چنانچہ ردِّعمل کے طور پر ہر عمل کو جنس کے آئینے میں دیکھنے کی
کوشش کی۔ ان کی نظموں میں جنسی جذبے کا اظہار بغاوت کے طور پر بھی ہے ان کے یہ اقتباسات
دیکھیے
’’جنسی فعل اور اس کے متعلقات کو میں قدرت کی بڑی نعمت اور
زندگی کی سب سے بڑی راحت اور برکت سمجھتا ہوں اور جنس کے گرد جو آلودگی تہذیب وتمدن
نے جمع کررکھی ہے وہ مجھے ناگوار گزرتی ہے اس لیے ردِّعمل کے طور پر دنیا کی ہر بات
کو جنس کے اس تصور کے آئینے میں دیکھتا ہوں جو فطرت کے عین مطابق ہے اور جو میرا آدرش
ہے۔‘‘ (میراجی میراجی کی نظمیں
14-15)
’’اس بات کو جانے دیجیے کہ بقائے نسل جو ایک خالص جنسی معاملہ
ہے اسے بھی بعض مذاہب میں عبادت کا رتبہ دیا جاتا ہے اس پر مجھے اعتراض نہیں اور نہ
اس سے بحث ہے کہنا صرف اس قدر ہے کہ جدید سائنسی علوم کی روشنی میں جب ہمیں یہ بتایا
جارہا ہے کہ ذہن انسانی میں ہر فعل کی تحریک کا باعث جنسی جذبہ ہے اور مذہبی احساس
اور تجربہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم روایات سے غیر جانب
دار ہوکر صحیح بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں محض خوش عقیدہ انسان بن کر ہی نہ
رہ جائیں۔‘‘
(میراجیمشرق و مغرب کے نغمے، لاہور، 1999، ص451)
میراجی ایک طرف مغربی مفکر فرائڈ کے نظر یے سے متاثر تھے تودوسری طرف عہد قدیم کے شعرا ’چنڈی داس‘ اور ’ودیاپتی‘
سے اثر قبول کیا۔ چنڈی داس اور ودیاپتی دونوں شعرا و یشنومت کے بہت بڑے پیرو تھے۔ میراجی
ویشنومت میں اعتقاد رکھتے تھے۔چنڈی داس اس عقیدے کا حامی تھا۔ و دیاپتی اپنی شاعری
میں راھا اورکرشن کی محبت ان کے ا حساسات و جذبات اور ان کے پریم پرسنگ کو بیان کیا
ہے۔ یہاں جنسی ملاپ کی عکاسی بھی موجود ہے اور اس کے ساتھ فطرت کے مظاہر میں ان کی
گونا گوں تصویر کشی بھی کی ہے۔
میراجی نے جنس کو جس انداز میں اپنی شاعری میں برتا اس کے
لیے انھیں سب سے زیادہ ہدف ملامت بنایا گیا۔ دراصل میراجی سے پہلے اردو شاعری میں جنس
کے موضوع کو اس انداز سے دیکھنے اور اسے شاعری کا موضوع بنانے کی مثال نہیں ملتی۔ میراجی جنس کو اپنا آدرش
اور دنیا کی سب سے بڑی راحت سمجھنے کے ساتھ جنسی معاملات میں مکمل آزادی کے خواہاں
تھے۔ ان کے یہاں جسم کا قرب اور لذت کوشی کا شدید اور عریاں اظہار ان کی بعض نظموں
میں دیکھا جاسکتا ہے۔
میراجی کی شاعری میںوقت کی سرگوشیوں کی آواز صاف سنی جاسکتی
ہے۔ میراجی نے وقت کو ایک ناگزیر حقیقت کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ حیات وکائنات کے ہنگامے
اس کے زیر نگیں وجود میں آتے ہیں اور فنا بھی ہوتے ہیں۔ عروج وزوال کی کہانی، تخریبی
اور تعمیری سرگرمیاں اس کے دم سے ہیں۔ زندگی کا سکھ دکھ،سرد گرم سب کچھ اسی کا حصہ
ہے۔ وقت کے حصار سے کوئی شے باہر نہیں۔ اس کی بالادستی ہر چیز پر قائم ہے۔ یہ مثال
دیکھیے ؎
گزرتے لمحوں کے آتشیں پائوں اس جگہ پے بہ پے رواں
کہیں مٹاتے کہیں مٹانے کے واسطے نقشِ نو بناتے
حیاتِ رفتہ حیاتِ آئندہ سے ملے گی یہ کون جانے
ہوا کے چھونکے ادھر جو آئیں تو ان سے کہنا
کہ جیسے وہ کائنات کا عکسِ بے کراں ہے
(عدم کا خلا)
میراجی کو اس اعتبار سے سیاسی اور سماجی شاعر تو نہیں کہہ
سکتے جیسا کہ اس عہد کے بیشتر شاعر نظر آتے ہیں، لیکن اس حقیقت سے انکا ر بھی نہیں
کیا جا سکتاکہ میراجی کوبھی اپنے عہد کی سیاسی، سماجی اور معاشی صورت حال سے گہراسروکار تھا۔ دراصل میرا جی کے یہاں
زندگی اور اس کے مسائل کو ایک خاص زایۂ نگاہ سے دیکھنے کا رجحان نظر آتا ہے۔ انھوں
نے کسی سیاسی یا سماجی نظریے کے تحت شاعری نہیں کی، اسی لیے ان کے یہاںاس کا واضح اظہار
نہیں ملتا،بلکہ ان مسائل کے سبب پیدا شدہ الجھنوں
کا اظہار ان کی نظموں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بقول میرا جی
’’میں اپنے ملک کے موجودہ سماج کا ایک جیتا جاگتا فرد بھی
ہوں میری خواہشات اسی سماج
کے تابع ہیں میرا دل پرانی فضا میں سانس لیتا ہے مگر میری آنکھیں اپنے آس
پاس دیکھتی ہیں اور اس مشاہدہ کا نقش بھی میری نظموں میں ہر جگہ موجود ہے ‘‘
(میراجی ہندستان کی غربت
کا مسئلہ ادبی دنیا، لاہور، فروری 1939 )
’’ہم نے کبھی بڑی منڈی ہونے پر اظہار تفاخر نہیں کیا کہ ہم
اپنی دولت کو ضائع کرنے لیے یہ بے مصرف امتیاز حاصل کریں۔ برطانیہ اگر یہ سبق دینا
چاہتا ہے کہ اس کے ماتحت ملک اپنی غلامی اور غربت پر اظہار مسرت کریں تووہ دوسروں کی
طرف توجہ کرے ہندستان اس سے باز آیا‘‘
(میراجی ہندستان کی غربت
کا مسئلہ ادبی دنیا، لاہور، فروری 1939 )
ان اقتباسات سے میراجی کی عصری آگہی اور اس عہد کے زندہ
مسائل سے گہرے سروکار کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ان کی نظموں میں اس نوع کے خیالات
کا برملا اظہار نہیں ملتا،بلکہ خارجی واقعات اور مسائل داخلی رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔انھوں
نے’کلرک کا نغمۂ محبت‘ نظم کے علاوہ کسی اور نظم میں طبقاتی اور اقتصادی نا انصافیوں
کا ذکر کھل کر نہیں کیا ہے۔ لیکن ان کی نظموں میں زندگی کی محرومیوں اور ناکامیوں کا
نوحہ ضرور سناجاسکتا ہے۔
میراجی کی نظموںمیں فطرت سے قرب کا رجحان بہت واضح طور پر
نظر آتاہے۔ ان کی نظموں اور گیتوں میں ہندستانی فضا یہاں کی مٹی کی خوشبو، یہاں کے
موسم، پھل پھول ندیاں پہاڑ دیوی دیوتا، غرضیکہ ہندستانی مزاج اور فطرت سے والہانہ لگائو
نمایاں ہے۔ہندو دیو مالا اور ویشنومت کے ربط
سے قدیم ہندستان کی پراکرتک زندگی کا عکس بھی ابھرتا ہے۔ میراجی کی نظموں اور گیتوں
میں فطرت کے آغوش میںپرورش پانے والی زندگی اورانھیں مناظر میں زندگی کے پروان چڑھنے
کی روش کا پتہ چلتا ہے۔ اس مقام پر نہایت پرسکون،
پاکیزہ اور سیدھی سادی زندگی کی فضا خلق ہوتی
ہے۔ جہاں موسم کے بدلنے سے انسانی خواہشات بھی بدلتی ہیں۔ میرا جی نے پرکرت کی نرملتا اور کوملتا میں انسانی
جذبات واحساسات کی موثر ترجمانی کی ہے۔ فطرت کی سادگی کے ساتھ میراجی کے یہاں’انوکھا
لاڈلا کھیلن کو مانگے چندر ماں ‘کی سی سادگی اور بھولا پن جھلکتا ہے ؎
ندی دھیمے دھیمے سروں میں گاتی ہے
ان تھک چپکے چپکے بہتی جاتی ہے
آو چندا ! کاہن نیلے منڈل کے!
چمکو کرشن کنھیّا اونچے جنگل میں
سات ستاروں کی ہر گوپی کو لاو
پھولوں میں کرنوں سے شبنم برساو
(ایک شام کی کہانی)
میراجی نے فطرت کی
سادگی اور معصومیت سے اپنے جذبوں کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ میراجی نے زندگی
کے تضادات کو اپنی ذات کی حوالے سے دیکھا۔ زندگی کے مسائل کو مختلف خانوں میں تقسیم
نہیں کیا،بلکہ ان مسائل کے اثرات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ انھوں نے سیاسی، سماجی
اور اقتصادی مسائل کواپنی ذات کے حوالے سے دیکھنے کی کوشش کی۔ انھوں نے اپنی نظموں میں سیاسی اور سماجی نظام سے بیزاری
یاان کے خلاف بغاوت کی صدا بلند نہیں کی،بلکہ زندگی کے تضادات اس کے سکھ دکھ کو خاموشی
سے قبول کرنے کو ترجیح دی۔ اپنی محرومیوں اور ناکامیوں کے باوجود زندگی سے بیزاری نہیں،
بلکہ امید کی کرن نظر آتی ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنی محرومیوں اور ناآسودگیوں میں
ہی لذت کی تلاش کی۔ان کے یہاںآشا اور نراشا کا ایک سنگم نظر آتا ہے۔ نظم ’درشن‘ کا
یہ حصہ دیکھیے ؎
پربت کو اک نیلا بھید بنایا کس نے ؟ دوری نے
چاند ستاروں سے دل کو بھر مایا کس نے؟ دوری نے
نئی اچھوتی انجانی لہروں کا ساگر نیارا ہے
دور کہیں بستی سے بن میں سونا مندر پیارا ہے
قدم قدم پر جیون میں دوری نے روپ نکھارا ہے
تب تک ناو سہائے دل کو جب تک دور کناراہے
دور بھی رہ کر دھن بھی امر ہے چاہے جو ڈھب ہو جیون کا
سکھ دکھ دونوں ہوا کے جھونکے کوئی سبب ہو جیون کا
……………………………
دور جو ہے وہ رہے دور ہی پاس بلانا ٹھیک نہیں
آپ قدم آگے لے جاکر اس کو مٹانا ٹھیک نہیں
پاس اور دور کا بھید انوکھا دور کی مہک سہانی ہے
ہاتھ بڑھائے من کی موج تو پل میں ختم کہانی ہے
(درشن)
زبان وبیان کے لحاظ سے میراجی کے یہاں استعارات، علامتیں
اور ابہام کی گہری پرت قائم ہے۔ اردو نظم میں جو روش عام تھی اس میں علامت کا استعمال
بہت کم تھا۔ میراجی کے یہاں علامتوں کا استعمال بہت نمایاں ہے۔ ان کی ذاتی علامتوں
اور ابہام کے سبب ان کی نظمیں پراسرار کیفیت لیے ہوئے ہیں۔ میراجی نے اپنی محرومیوں
اور اپنی خواہشات کے اظہار کے لیے علامتی اور مبہم انداز اختیار کیا،چونکہ میراجی کا
رجحان قدیم ہندوستان کی تہذیبی و تمدنی زندگی اور قدرتی مناظر سے گہرے لگائو کے سبب
ان کی علامتیں اسی سے ماخوذ ہیں۔ جنگل، دھرتی، سمندر، چشمہ، رات، کرن وغیرہ علامتیں
ان کی نظموں میں کثرت سے ملتی ہیں۔ انھو نے ان علامتوں کے ذریعے قدیم دور کی تہذیبی
زندگی کی بازیافت کی ہے۔ ان کے مجموعی مزاج پر ہندستانی دیومالا کا اثر نمایاں ہے۔
موضوعات اور زبان
وبیان کے لحاظ سے میراجی کی شاعری اپنے معاصرین کی شاعری سے منفرد دکھائی دیتی ہے۔
میراجی کی فکراور طرزِ اظہاردونوں میں نیاپن
ہے۔ میراجی نے اپنے تجربات ومشاہدات کو جس انداز میں پیش کیا وہ ہماری شعری روایت میں
عام نہ تھا۔جدید اردو نظم کو ایک مستحکم بنیاد اور نئی سمت ورفتار عطا کرنے میں میراجی
کا کارنامہ بہت اہم ہے۔ میراجی کے ہاتھوں نئے موضوعات کے لیے دریچے واہوئے اور ہیئت
و اسلوب کی سطح پر اظہار کے امکان روشن ہوئے۔
میراجی کے یہاں پر
اسرار علامتیں اور استعارات ابہام کی گہری پرت جنسی موضوعات اور نظم آزاد کے استعمال
سے ان کی شناخت ایک باغی شاعر کی قائم ہوئی۔ اردو نظم میں جو روش عام تھی اس میں ابہام
اور علامت کا استعمال بہت معمولی تھا۔ میراجی ابہام اور علامت کے استعمال میں نمایا
ں نظر آتے ہیں۔ ہندی لفظیات ابہام اور علامت کے استعمال سے ان کے اسالیب کی انفرادیت
قائم ہے۔ ان کی بیشترنظموں میں مبہم انداز
بیان اور علامتوں کا استعمال دیکھا جا سکتا ہے۔
میراجی چونکہ ویشنوں
بھگتی سے ذہنی ربط رکھتے تھے اور ان کا رجحان قدیم ہند ستان کی تہذیبی و تمدنی زندگی
کی طرف زیادہ رہاہے اور فطرت سے گہرا قرب رکھنے
کے سبب ان کی علامتیں اور استعارے اسی سے ماخوذ ہیں۔ جنگل، دھرتی،سمندر،چشمہ، چاند،
رات، کرن وغیرہ علامتیں ان کی نظموں میں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ ملبوس،
محل مرمریں قصر آئنہ گود رادھا کرشن جیسی علامتیں بھی موجود ہیں۔ان علامتوں کے ذریعے
قدیم دور کی تہذیب کی با زیافت کی ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو جدید اردو نظم کو نئی جہت عطا
کرنے میں میراجی کا کارنامہ بہت اہم ہے۔ میراجی نے جو تجربات کیے خواہ وہ موضوعات کی
سطح پر ہو ںیا ہیئت و اسلوب کی سطح پر ان سے اردو نظم کا دامن وسیع ہوا۔ اخلاقی تصورات سے قطع نظر میراجی کی شاعری
عہد حاضر کے انسان کی ذہنی، جذباتی اور جنسی الجھنوں تک پہنچنے کی کامیاب کوشش ہے۔
زبان وبیان کا جو پیرایہ میراجی نے اپنایا اس سے نظم میں اظہار کے امکانات روشن ہوئے۔
n
Dr.
Shah Alam
Associate
Professor, Dept of Urdu
Jamia
Millia Islamia
New
Delhi- 110025
Mob.:
9868669498
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں