5/1/23

اردو کے دخیل الفاظ اور رشید حسن خاں:مجاہدالاسلام


 

اقبال  نے ایک شعر میں کہاہے       ؎

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب

اور آزادی میں بحر بے کراں ہے زندگی

زبانوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ مسلسل تغیر و تبدل کے مرحلے سے گزرتی رہتی ہے۔ لیکن یہ کیفیت اس وقت تک ہوتی ہے جب تک وہ اپنے آپ کواس کے لیے تیار رکھتی ہے۔چونکہ زبانیں کسی بھی معاشرے، قوم یا پھر جتھے کی تعبیر اور اس کی نمائندگی کا ذریعہ ہوتی ہیں،تو معاشرہ جیسے جیسے کروٹ بدلتا ہے زبانوں میں بھی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔شروع شروع میں انسان کی زندگی قبائلی تھی تو وہاں پر زندگی کی راہیںبھی محدود ہوتی تھیں۔ ایک دوسرے سے کٹے ہونے کی وجہ سے ان کے الفاظ و تعبیرات بھی محدود تھے۔ لیکن جیسے جیسے انسان متمدن ہوا تو اس کی ضرورتیں بڑھیں، اس کے خیالات میں وسعت آئی اور اس طرح سے زبانوں میں بھی وسعت وپھیلائو آ تا گیا۔اس کی واقعاتی مثال آکسفورڈ ڈکشنری ہے جہاں پرہر سال یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ آکسفورڈ ڈکشنری اپنا نیا اڈیشن شائع کر نے جا رہی ہے اور اس میں اتنے جدید الفاظ شامل کیے جا رہے ہیں اور یہ الفاظ اب انگریزی کے ہو گئے ہیں۔ اس واقعاتی مثال کو اس طرح سے بھی ہم سمجھ سکتے ہیںکہ کچھ دنوں قبلـ’ ماشاء اللہ‘  اور’ ا ن شاء اللہ‘  جیسے الفاظ کا بڑا شہرہ ہوا کہ یہ کلمات اب جرمن لغت کا حصہ تسلیم کر لیے گئے ہیں۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ زبانیں تبدیلیوں کو قبول کرنے کی وجہ سے آگے بڑھتی ہیں۔ جیسے جیسے زمانہ بدلتا ہے ،حالات تبدیل ہوتے ہیں اوراس کی محدودیت ختم ہوکر وسعتوں سے ہم کنار ہوتی ہیں ، زبانیں بھی آگے بڑھتی ہیں اور اس میں وسعت آتی ہے۔ کھانے کے مینیو میں چاؤمین، پاستہ،  فرنچ فرائز کا اضافہ ایک طرح سے زبان کے ذخیرے میں بھی اضافہ ہے۔ اسی طرح سے جب انٹر نیٹ عام ہوا تو بہت سی سہولتوں سے ہمارا واسطہ پڑا جس میںخاص طور سے ’فیس بک‘ ’واٹس ایپ ‘ ڈاؤنلوڈ، اپلوڈ،  لاگ ان، پروفائل اور سبسکرائب جیسے الفاظ ہیں، یہ چیزیں ایک طرح سے کسی بھی زبان کے لغت میں اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ 

اگر کوئی زبان اور اس کے بولنے والے ان تبدیلیوں کے لیے اپنے دروازے وا نہیں کرتے ہیں تو ان کا حال بھی پراکرت، پالی و مگدھی جیسی زبانوں کاہی ہو گا، جو وقت کے گزرنے کے ساتھ قصہ پارینہ بن کر رہ گئیں۔ اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ زمانے کی ترقی کے ساتھ وجود میں آنے والے الفاظ کو زبانیں بھی اپنے وجود کا حصہ بنائیں۔ تبھی وہ ہم آہنگی بنائے رکھ کر مسلسل آگے بڑھ سکتی ہیں۔

زبان میں ’دخیل‘ الفاظ کی اہمیت و افادیت مسلم ہوجانے کے بعداس اہم پہلو پر بھی غور وفکر ضروری ہے کہ جس زبان میں یہ ا لفاظ داخل ہورہے ہیں، اُس زبان میں اس کی حیثیت کیا ہوگی؟یعنی کیا وہ اسی لہجے،اسی مخرج اور اسی املے کے ساتھ مد خل زبان کا حصہ بنیں گے جو ان کا خود اپنی اصل زبان میں خاصہ رہا ہے یا پھر ان کے ساتھ مد خَل زبان اپنے اصول و ضوابط کے مطابق معاملہ کرے گی۔تو اس سلسلے میں علمائے السنہ کے درمیان اختلاف رہا ہے۔ایک چھوٹاسا گروہ جس میں خاص طور سے عربی کے کچھ اسکالرز جن میں پروفیسر غازی علم الدین، خواجہ غلام ربانی مجال ، ڈ اکٹر ایس ایم شیر محمد زمان وغیرہ شامل ہیں ان کا خیال ہے کہ اپنی زبان میں ان کی جو حیثیت و حقیقت رہی ہے ، وہی مُد خَل زبان میں بھی قائم رہے گی۔ یعنی وہ لفظ جو اپنی اصل زبان میں جس مخرج و املے کے ساتھ استعمال ہوتا رہا ہے، وہی حیثیت اس کی یہاں بھی قائم رہے گی۔ جب کہ ایک دوسرا گروہ جس میں خاص طور سے رشید حسن خاں اور ماضی قریب کی بھی کچھ شخصیات سامنے آئی ہیں ، جن کا خیال ہے کہ اس ’بدیشی ‘  لفظ کے ساتھ مُد خَل زبان اپنے مطابق معاملہ کرے گی۔

رشید حسن کا خاںنے ایک بلند پایہ محقق، نقاد اور مدون کے طور پر اپنی شناخت بنائی تھی۔ ان کا نام تحقیق و تدوین کے میدان میں قاضی عبدالودود،حافظ محمود خاں شیرانی اور عبدالستار صدیقی وغیرہ کے ساتھ لیا جا ئے تو بے جا نہ ہوگا۔رشید حسن خان نے داستان’ باغ و بہار‘،’فسانہ عجائب‘ مثنوی’ گلزار نسیم‘ وغیرہ جیسی کئی کتابوں کی تدوین وتہذیب کی، وہیں انھوں نے اس فن کے اصول و ضوابط اور اس کے متعلقات پر بھی کئی کتابیںتصنیف کیں۔جن میں ادبی تحقیق مسائل اور تجزیہ، املائے غالب،  تدوین- تحقیق- روایت، تفہیم، تلاش و تعبیر، زبان اور قواعد، عبارت کیسے لکھیں وغیرہ کو اردو ادب کی تاریخ میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ اپنی ان تحریروں میں انھوں نے جا بہ جا اردو میں دوسری زبانوں کے دخیل الفاظ کے حوالے سے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

ہرسماج کا اپنا مجموعی اصول اور نظام ہوتا ہے اس کی نفسیات اور اس کاایک علاحدہ ذوق ہوتا ہے۔  ظاہر ہے اردو ایک مستقل زبان ہے،اس میں جو دوسری زبانوں کے الفاظ داخل ہو ںگے، اس کے ساتھ اردواپنے ہی لحاظ اور قواعد سے برتائو کرے گی۔ رشید حسن خاں اس ذیل میں امیش بہادرشریواستوافگار اناوی کے نام اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں

   ’’مشکور جیسے الفاظ اب اردو زبان کے لفظ ہیں۔ ان کو اردو میں چلن کے مطابق ماننا لازم ہے۔جب عربی لکھیں گے،  تب عربی قواعد کی پابندی کی جائے گی۔ الفاظ کا احوال افراد جیسا ہوتا ہے۔فرد جب ہجرت کرکے کسی نئے ملک میں جا بستا ہے تو اس پر اس نئے ملک کے قوانین کا نفاذ ہوتا ہے۔وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے ملک میں تو ایسا نہیں تھا۔‘‘

( رشید حسن خان کے خطوط(جلد اول) مرتب ڈاکٹر ٹی آر رینااردو بک ریویو،دریا گنج ،نئی دہلی،2011 ص283)

رشید حسن خاں کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ الفاظ چاہے کسی بھی زبان کا ہو، اس زبان میں اس کے ساتھ جو بھی معاملے رہے ہوں،مُدخَل زبان میں اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ یہاں خود اس زبان کے مذاق اور قواعد کے لحاظ سے اس الفاظ کے ساتھ معاملہ کیا جائے گا۔خواجہ حیدر علی آتش کا ایک واقعہ مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ انھوں نے ایک مشاعرے میں ایک شعر پڑھا         ؎

دخترِ رزمری مونس ہے مری ہمدم ہے

میں جہانگیر ہوںوہ نور جہاں بیگَم ہے

کسی نے ٹوکتے ہوئے کہاصحیح لفظ تو بیگُم ہے۔ آتش نے کہا جب ہم ترکستان جائیں گے تو بیگُم کہیں گے، یہاں تو  بیگَم ہی چلے گا۔

اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ آتش بھی دخیل الفاظ کے معاملے میں مدخل زبان کے اعتبار سے معاملہ کرنے کو نہ صرف فصیح سمجھتے تھے بلکہ اسے ضروری بھی خیال کرتے تھے۔ اسی طرح ہمارے یہاں ’مشکور‘ بولنے پر بعض لوگوں کا کافی سخت اعتراض ہوتا ہے اور وہ اسے عربی الاصل ہونے کی وجہ سے بھونڈی غلطی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ لفظ اردو میں اسی طرح قدیم زمانے سے ہی مستعمل ہوتا آیا ہے۔ مثال کے طور پر میر نے کہا ہے          ؎

رنگ رنگ اطمعہ ہیں بذل پھر اس درجہ وفور

کیا خداوندی ہے اللہ خدائی مشکور

(کلیات میر، جلد دوم منقبت درمدح حضرت علی)

 اسی طرح کیف مرادآبادی نے کہا ہے          ؎

رسائی سعیِ نامشکور ہو جائے تو کیا ہوگا

قدم رکھتے ہی منزل دور ہو جائے تو کیا ہوگا

مشکور لفظ کے استعمال کی اس تاریخی حیثیت کے باوجود اسے غلط سمجھنا اور متشکر یا شکرگزار بولنے پر ہی اصرار کرنا اردو کے مزاج و مذاق سے نہ صرف جنگ آرائی کے مترادف ہے بلکہ اس کے تاریخی استعمالات پر سوالیہ نشان لگانے کے بھی برابر ہے۔ اس رویے کو ظاہر ہے درست نہیں سمجھا جا سکتا۔ مشکور، متشکر اور شکر گزار یہ سبھی لفظ اردو میں درست تسلیم کیے جا تے ہیں۔ چنانچہ اسی بات پر بحث کرتے ہوئے رشید حسن خاں نے ڈاکٹر رئیس نعمانی کو ایک خط میں لکھا ہے کہ

’’تلفظ کا مسئلہ وہ نہیں جو آپ کے ذہن میں ہے۔ یہاں تغیرات کا مسئلہ ہے جو عربی فارسی کے الفاظ میں یہاں کے لسانی اور طبعی تقاضوں کے تحت رونما ہوئے ہیں اور ایسے تغیرات ہر زبان میں ہوتے ہیں۔خود مختار زبان کی پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنے سانچوں میں ڈھال لیتی ہے، تلفظ کے لحاظ سے بھی اور ساخت یا شکل و صورت کے اعتبار سے بھی۔مثلاً تنقید سے عربی والے نہیں مگر اردو والے آشنا ہیں۔اب ایک صاحب باب تفعیل کی ترازو پر اسے تولنا چاہیں تو ظاہر ہے کہ یہ مہمل کام ہو گا یا شکیل اور لئیق کو صراح و قاموس میں تلاشنا چاہیں اور نہ ملیں تو غلط کہہ دیں یا مقصِد بولنے پر اصرار کریں اور مقصَد کو غیر معتبر سمجھیں یا مثلاً’متشکر‘بولنے پر اصرار کریں اور اس معنی میں مشکور کو غلط سمجھیں یامرفن کو نکال باہر کرنا چاہیں وغیرہ... اصل مسئلہ یہ کہ اردو الفاظ کو عربی یا فارسی کے قواعد کی روشنی میں نہیں دیکھا جاسکتا، اگر کوئی شخص یہ حرکت کرتا ہے تو اس کا صاف طور پر مطلب یہ ہوگا کہ وہ علم لسان سے کم آشنا ہے اور زبانوں کے اصول ارتقا سے ناواقف ہے اور صحت مند نقطہ نظر سے محروم ہے۔ احمد اور اکبر دونوں بہ فتح ِ اول ہیں، مگر احمد میں فتح کا وہ تلفظ رونما نہیں ہوتا جو اکبر میں ہوتا ہے ،بات یہ کہ یہ اردو کا لسانی رجحان ہے ح  یا  ہ  سے پہلے حرفِ مفتوح آئے تو اس صورت میں اس زبر کے تلفظ میں اوریبی پن پیدا ہو جاتا ہے اور اشمام کسرہ والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ،جیسے محل، سہنا، بہنا، اب ایک صاحب احمد کو قرائت کے ساتھ بالکل عربی کے طریقے پراسی طرح بولیں جس طرح اکبر کو بولتے ہیں اور فتح کا ترچھا پن، زبر کے سیدھے پن سے ہی بدل جائے تو یہ حرکت فصاحت زبان کے قطعاً خلاف ہوگی اور بجا طور پر یہ سمجھنا چاہیے کہ ان صاحب کو اردو نہیں آتی یا یہ تازہ وارد ہیں۔وغیرہ۔‘‘

(رشید حسن خان کے خطوط(جلد اول) مرتب ڈاکٹر ٹی آر رینا اردو بک ریویو،دریا گنج ،نئی دہلی2011،  ص 445)

 رشید حسن خاں کے نزدیک عربی و فارسی الفاظ کے تغیرات کے احترام کے باوجود اردو کے مذاق و مزاج کو فوقیت دینا لازمی تھا، اس لیے وہ تنقید، تشکیل، شکیل، لئیق اور مشکور جیسے الفاظ کو اردو میں مروجہ تلفظ و ساخت کے لحاظ سے ہی استعمال کرنے کو درست سمجھتے تھے۔ ان اختلافات کی وجوہات پر ان کی نظر گہری تھی۔ اسی لیے وہ زبان کی بنیاد اور رموز سے بھی واقف تھے اور اس کی تبلیغ سے انھیں گریز بھی نہیں تھا۔  فرحت صاحب کے نام ایک خط میں ان اختلافات کی وجوہات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں

’’دیکھیے بھائی !علم اللسان ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہر زبان کے اپنے قانون ہوتے ہیں اور دوسری زبانوں کے جو لفظ کسی زبان میں داخل ہوتے ہیںیا اس کا جز ہوتے ہیں، وہ اس زبان کے ضابطوں کے سانچے میں ڈھل کر جزو زبان بنتے ہیں۔ایسے الفاظ کے لیے اصل زبان سے سند نہیں لائی جاتی ،بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس زبان میں وہ کس طرح مستعمل ہیں۔ عربی فاتح زبان کی حیثیت سے ایران میں داخل ہوئی تھی، مگر فارسی اور عربی دو بالکل مختلف خاندانوں کی زبانیں ہیں، عربی سامی خاندان کی زبان اور فارسی انڈو ایران خاندان کی، اس لیے دونوں زبانوں میں آہنگ اور تلفظ اور لہجے کے بنیادی اختلاف ہیں، اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ عربی کے بے شمار لفظ فارسی زبان کی خراد پر چڑھ کر اور ترش ترشا کر شامل زبان ہوئے۔ کسی فارسی والے نے یہ نہیں کہا کہ یہ تو عربی کا لفظ ہے ، اسے عربی زبان کی طرح ہی استعمال کرو۔یہی نہیں عربی طریقہ اشتقاق کے قیاس پر بہت سے الفاط فارسی دانوں نے بنا لیے، مثلاً زلف سے مزلّف، زیب سے مزیّب، نقد سے تنقید،شکل سے شکیل وغیرہ۔ اب آپ عربی کے لغات میں ڈھونڈیں تو ’تنقید‘آپ کو نہیں ملے گا، کیسے ملے ، وہاں تو نقد اور انتقاد اصل لفظ ہیں، باب تفعیل سے تنقیدی بنا لیا گیا۔ زلف تو سراسر فارسی لفظ ہے، اس لیے عربی قاعدے کے مطابق اسے مفعول مزلّف بنا لیا گیا۔’قرآن ‘بروزن مفعول ہے مگر فارسی کے اساتذہ  نے بیسوں جگہ ’ قُران ‘ بروزن فعول نظم کیا ہے۔ ایسے لفظوں کو مفرس کہاجاتا ہے اور مفرس لفظ اردو میں بلا تکلف مستعمل ہوتے ہیں۔ ’قران‘ بھی استعمال میں آتا رہا ہے۔‘‘  (ایضاً، ص756)

اسی خط میں وہ آگے لکھتے ہیں

’’یہ دلچسپ بات ہے کہ اردو میں جو عربی کے عالم گزرے ہیں، مثلاً مولانا شبلی ،مولانا حالی ،مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبد الماجد دریا آبادی، ان سب کا کہنا یہی ہے کہ اردو ایک مستقل زبان ہے، اس کے اپنے قاعدے قانون ہیں، جس قدر لفظ اس میں مستعمل ہیں۔ خواہ عربی فارسی میں وہ دوسری طرح مستعمل ہوں یا سرے سے موجود ہی نہ ہوں یا عربی فارسی لفظوں کے قیاس پر بن گئے ہوں ۔۔۔۔۔تمازت ایک لفظ ہے ،یہ آپ کو عربی میں نہیں ملے گا ،نہ فارسی میں۔بدلا، تبادلہ، تبدیلی، ان میں سے کوئی بھی لفظ آپ کو عربی میں نہیں ملے گا۔ غلطی، زیادتی، نور چشمی جیسے لفظ میں صرف اردو میں ملیں گے۔ آراضی، باغات، زمیندار فوجداری جیسے بیسیوں لفظ ہیں اور یہ سب آپ کو اردو ہی ملیں گے۔ عادی آپ کو عربی میں ملے گا وہاں اس معنی میں معتاد ہے۔شکریہ آپ کو نہ فارسی میں ملے گا نہ عربی میں۔‘‘  (ایضاً، ص756)

لسانی اعتبار سے عربی کے سامی خاندان کی زبان اور فارسی کو ہند ایرانی خاندان کی زبان کی صراحت کرکے رشید حسن خاں نے ان زبانوں کے مابین اختلافات کو ان زبانوں کے اندر محدود کر دیا اور یہ بھی کہا کہ اس اختلاف کے باوجود فارسی نے بہت سے عربی الاصل الفاظ کو اپنے مزاج و منہاج کے مطابق قبول کیا ہے۔اس میں کسی کو تردد بھی نہیں تھا۔ یہیں سے یہ نکتہ بھی نکلتا ہے کہ اردو بھی ایک ہند آریائی خاندان کی زبان ہے،  جس نے نہ صرف اپنے ہم رشتہ ہند آریائی زبانوں کے اثرات قبول کیے بلکہ دیگر سامی، ہند ایرانی و ہند یوروپی زبانوں کے اثرات بھی قبول کیے۔ اب ایسے میں اگر بقیہ زبانوں کے الفاظ کو اس کے اصل کے اعتبار سے اردو میں رائج کرنے کی کوشش کی  جائے گی تو اردو کی اپنی شناخت مٹ جائے گی، بلکہ زبان کے اندر ایک طرح کا فساد بھی جنم لے لے گا۔ رشید حسن خاں نے ڈاکٹر ٹی آر رینا کو لکھے ایک خط میں ان کو کچھ اس انداز سے مخاطب کیا ہے جو قارئین کی دلچسپی سے ہرگز خالی نہ ہو گا۔ وہ لکھتے ہیں

’’لفظوں کا حال اشخاص جیسا ہوتا ہے، ویسی ہی شخصیت، ویسی ہی صفات اور ویسی ہی صلاحیتیں۔ جب ایک زبان سے دوسرے میں الفاظ منتقل ہوتے ہیں (اور یہ عمل مسلسل ہے،جاری رہتا ہے) تو ان کا احوال ان مہاجرین جیسا ہوتا ہے جو نقل وطن کرکے کسی اور ملک میں آباد ہوجاتے ہیں۔ان مہاجرین پر قاعدے قانون تو اسی نئے ملک کے جاری ہوتے ہیں،مگر اس کی شکل صورت نہیں بدلتی، صرف طور طریقے بدلتے ہیں، اسی طرح ایسے مہاجر لفظوں کا تلفظ بدلتا ہے، معنی بھی بدل سکتے ہیں، ان میں اضافہ ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے، مگر ان کی صورت ،یعنی املا اسی طرح نہیں بدلتا۔ اگر بعض تبدیلیاں ہوتی ہیں تو وہ ضمنی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ عربی سے جو لفظ آئے وہ اپنے حرف تہجی کو، یعنی اپنے املا کو ساتھ لے کر آئے، ث، ص، ض، ظ، ع، غ ایسی ہی آوازیں ہیں اس لیے وہ نہیں بدلیں، بدل بھی نہیں سکتیں۔اب یوں دیکھو کہ ہندی کی ہکارہ آوازیں اردو میں آگئیں۔مگر اردو میں رھ، مھ، نھ، اس کی اپنی ہکارہ آوازیں ہیں ،جو ہندی میں نہیں، ہندی والا کلہاڑی لکھے گا، مگر اردو میں کلھاڑی ہے۔ بات وہی کہ لھ کی آواز اردو میں ہے ہندی میں نہیں۔‘‘

 رشید حسن خان کے خطوط(جلد اول) مرتب ڈاکٹر ٹی آر رینا اردو بک ریویو، دریا گنج ، نئی دہلی2011 ص 297)

یہاں پر رشید حسن خاں نے ہندی کی ہکاری آوازوں والے الفاظ کی مثال سے اپنی بات کو اچھی طرح واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسری زبان کے اثرات کو اس درجے میں قبول کرنے کی مثال شاذ و نادر ہی ملتی ہے۔ اردو نے نہ صرف ہندی کی ہکاری آوازوں کو قبول کیا ہے بلکہ رشید حسن خاں کے مطابق اس میں رھ، مھ،  نھ اور لھ جیسی آوازوں کا اپنی ضرورت کے حساب سے اضافہ بھی کیا ہے۔ ایسے میں اردو پر کسی غیر زبان کے لفظ کو من وعن قبول کرلینے کو ایک طرح کا جبر ہی مانا جائے گا۔ چنانچہ وہ احتشام حسین ندوی کو لکھتے ہیں

’’عربی کے الفاظ و تراکیب اسی طرح صحیح ہیںجس طرح وہ اردو میں رائج ہیں۔عربی یا فارسی میں ان کی صورت کیا ہے ،یہ الگ بحث ہے۔اردو کے ماہرین لسان اور ماہر ین لسانیات کا اس پر اتفاق ہے کہ جو لفظ اردو میں آیا، وہ اردو کا ہو گیا۔اب اس کی صحیح صورت وہی ہے جس طرح وہ اردو میں مستعمل ہے۔‘‘

(رشید حسن خان کے خطوط (جلد دوم) مرتب ڈاکٹر ٹی آر رینا اردو بک ریویو، دریا گنج ،نئی دہلی، 2015 ص  62)

اردو میں دخیل الفاظ کو لے کر یہ باتیں کوئی ایسی بھی نہیں ہیں کہ جسے پہلی بار رشید حسن خاں کہہ رہے ہوں بلکہ ان سے بہت پہلے یہ بات علامہ شبلی نے اپنے مضمون ’املا اور صحت الفاظ‘  میں اور علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنے مضمون’ تہنید‘ میں لکھ رکھی ہے۔یہ بالکل ممکن ہے کہ کسی دخیل لفظ کے معنی، تلفظ، جنس یا املا ہماری زبان میں وہ نہ ہوں جو اس زبان میں تھے جہاں سے وہ ہماری زبان میں آیا ہے۔ لیکن جب وہ ہماری ضرورت کے حساب سے ہماری زبان کا لفظ بن گیا ہے تو اسے ہم اپنے قواعد کے مطابق ہی برتیں گے۔ اس لیے اردو میں یہ تقریباً تسلیم شدہ اصول کی حیثیت اختیارکر چکا ہے کہ جب کوئی لفظ ہماری زبان میں آگیا ہے تو وہ لفظ اب ہمارا ہوگیا اور ہمیں اس کے ساتھ وہی سلوک روا رکھنا چاہیے جو اپنی زبان کے اصل ا لفاظ کے ساتھ ہم روا رکھتے ہیں،اس میں کسی قیل و قال کی گنجائش نہیں نکالنی چاہیے۔ جب ہم نے اسے اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق اپنے رنگ میں ڈھال لیا ہے اور اس پر اپنے قواعد جاری کردیے ہیں تو پھر اسے بدیشی طرز پر استعمال کرنا اور اس پر اصرار ایک مضحکہ خیز امر ہے۔ ہرزبان اپنے نظام اور ذوق کے مطابق کسی بھی زبان کے الفاظ کو قبول کرنے میں آزاد ہوتی ہے، اس لیے اردو زبان نے بھی اپنے مزاج کے لحاظ سے دیگر زبان کے لفظوں کو اپنے لحاظ سے تراش خراش کر لیا ہے اور یہی صحیح بھی ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ اس تعلق سے مزید کسی بحث کو طول نہ دیا جائے۔


Dr. Mujahid Ul Islam

504/122, Tagore Marg, Near Shabab Market Daliganj, Lucknow - 226020 (UP)

Mob.: 9628845713

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں