6/3/23

اردو صحافت ایک جائزہ: محمد سجاد ندوی


 

صحافت پر اگر گہری نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اس کی تاریخ انسان کی اکثر ایجادو ںکی طرح بہت قدیم ہے۔ محمدعتیق صدیقی اپنی کتاب ہندوستان میں اخبار نویسی (کمپنی کے عہد میں) رقمطراز ہیں

’’حضرت عیسیٰ سے کوئی 751 برس پہلے رومن راج میں روزانہ ایک قلمی خبرنامہ جاری کیا جاتا تھا جس میں سرکاری اطلاعیں نیز میدان جنگ کی خبریں بھی ہوتی تھیں۔ اس قلمی خبرنامے کو ایک ٹاڈیوری کہتے تھے۔ یہ لاطینی زبان کا لفظ ہے جو Acta اور Durna سے مرکب ہے۔ اول الذکر کا معنی ہے کارروائی اور مؤخرالذکر کے معنی ہیں روزانہ۔‘‘

جدیداخبار نویسی کی تاریخ نسبتاً کم پرانی ہے۔ 1566 میں وینس کے شہر میں یہ طریقہ جاری کیا گیا تھا کہ ایک شخص عام شاہِ راہ پر کھڑے ہوکر بلند آواز سے عوام کی دلچسپی کی خبریں ایک قلمی مسودے سے پڑھ کر سناتا۔ یہ مسودہ حکومت کی نگرانی میں مرتب کیا جاتا تھا۔

پہلا مطبوعہ خبرنامہ 1609 میں جرمنی میں جاری کیا گیا۔ اس کا نام تھا ’اویساریلیشن اڈرزیٹنگ (Avisa Relation Order Zeitung) اس طرح مطبوعہ صحافت کی تاریخ تقریباً 377 سال قدیم ہے۔

سولہویں صدی یا سترہویں صدی کے اخباروں کی زیب و آرائش نہ ہوئی تھی جو آج ہمارے اخباروں کی ہوتی ہے، لیکن علم و سائنس کی ترقی اور تجارت کی گرم بازاری کے ساتھ ساتھ واقعات سے باخبر رہنے کا بھی لوگوں میں شوق پیدا ہوا چنانچہ سترہویں صدی میں کچھ لوگوں نے ذاتی طور پر خبر رسانی کا کام یورپ میں شروع کردیا۔ ملکہ الزبتھ کے عہد میں جس کا انگلستان میں وہی زمانہ تھا جو ہندوستان میں اکبر کا تھا۔ اخبارنویس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ان ہی کے عہد میں اخباروں کی آزادی کا حق 1641میں قانوناً تسلیم کیا گیا۔ اردو صحافت کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا اس نے اس زمانے کے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ اس کی تاریخ بہت ہی معرکۃ الآرا رہی ہے۔ 1857 سے لے کر 1935 تک ملک گیر پیمانے پر آزادی اور قومی اتحاد کے لیے جدوجہد کا سہرا اردو صحافت ہی کے سر ہے۔ (اردو صحافت، مرتب انور علی دہلوی، ص 20)

اردو کے اخبارات اور صحافیوں نے جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان میں ایک صحافی اور مدیر مولوی محمد باقر شہید ہوئے۔ اردو اخبارات ہی کے مالکان اور مدیران سب سے زیادہ سامراجی ظلم و ستم کا نشانہ بنے۔ قید و بند کی مصیبتیں جھیلیں۔ پریس اور ضمانتیں ضبط ہوئیں۔

لیکن ان سب کے باوجود وہ سنگین سے سنگین حالات کا پامردی اور استقامت کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج اردو صحافت کو ترقی یافتہ اور بام عروج تک پہنچانے میں ہمارے جن عظیم صحافیوں نے ناقابل فراموش قربانیاں دی ہیں، انھیں خراج عقیدت پیش کرنا ہم لوگو ںپر فرض ہے کیونکہ اگر یہ لوگ میدان کارزار میں استقامت کے ساتھ گامزن نہ ہوتے اور اپنی ہڈیوں کو نہ گھلاتے تو ہم ان فیوض و برکات سے قطعی محروم رہتے۔

اردو کے اہم صحافیوں میں مولانا محمد علی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خاں، مولانا محمدعثمان فارقلیط، مولانا عبدالماجد دریابادی، حامد الانصاری غازی کے نام سرفہرست ہیں۔ مولانا محمد علی کے اخبار ’ہمدرد‘ اور مولانا آزاد کے اخبار ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ نے ہمہ گیر شہرت پائی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان ناخوشگوار اور نازک حالات سے دوچار تھا۔ اس احساس کو بیدار کرنے میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابوالکلام آزاد نے نمایاں کردار ادا کیا۔

مولانا ابوالکلام آزاد ایک عبقری اور یکتائے روزگار شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی تحریروں میں طلسماتی اور مقناطیسی کیفیت پائی جاتی ہے۔ مولانا آزاد صحافت، خطابت، قیادت کے بادشاہ تھے۔

صحافت کے میدان میں تو اتنی کم عمری میں آئے کہ علامہ شبلی نعمانی نے انھیں دیکھا تو ان کی بے حد تعریف کی اور کہا کہ تم کسی نمائش میں بطور عجوبہ کے پیش کرنے کے قابل ہو۔

مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافتی، زندگی کا آغاز ’نیرنگ عالم‘ اور ’المصباح‘ سے ہوا۔ چند شماروں کے بعد یہ اخبارات بند ہوگئے۔ بعد ازاں وہ ’لسان الصدق‘ سے وابستہ رہے۔ یہ اس وقت کے چند معیاری پرچوں میں سے ایک تھا، اس پرچے کے جن مقاصد کا مولانا نے اعلان کیا ان میں سے ایک خاص مقصد مسلمانوں کی سماجی اصلاح اور ان میں جدید تعلیم کا شوق پیدا کرنا تھا۔ ’لسان الصدق‘ سے علاحدگی اختیار کرنے کے بعد مولانا شبلی نے انھیں ’الندوہ‘ میں بلا لیا، وہاں سے سبکدوش ہوئے تو امرتسر کے ’وکیل‘ کی ادارت سنبھالی۔ غالباً ’وکیل‘ میں کام کرنے کے دوران ہی انھیں احساس ہوا کہ اخبار نویس کے ذہن و دماغ اور قلم کو آزاد ہونا چاہیے اور یہ بات اسی وقت ممکن ہے جب اخبار پر اس کی اپنی ملکیت ہو، ان کے خواب کی تعبیر ’الہلال‘ کی صورت میں سامنے آئی۔

’الہلال‘ سامنے آیا تو اس نے صحافت کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اردو زبان کا ایک پرچہ حسن صورت اور حسن سیرت سے مزین اور مرصع ہوکر نکلا۔

مولانا ظفر علی خاں کا مولانا آزاد کے زمانے کے بڑے صحافیوں میں شمار ہوتا ہے۔ مولانا ظفر علی خاں نے اپنے اخبار ’زمیندار‘ کے ذریعے ملک و قوم کی بڑی خدمت کی۔ اردو صحافت میں بہت بلند مقام ہے۔ ’زمیندار‘ میں ان کی نظم و نثر کے جوہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کی تحریروں نے اردو ادب میں ایک نئی روح پھونک دی۔

مولانا نے انگریزی حکومت کے خلاف بہت بیباکی اور جرأت مندی کے ساتھ لکھا۔ کئی بار ان کے اخبار کو بند کیا گیا اور ضمانتیں طلب کی گئیں لیکن وہ حکومت کے ظلم و ستم سے نہ گھبرائے اور استقامت و پامردی سے مقابلہ کیا۔

سائمن کمیشن کی آمد پر انھوں نے انگریز نوازوں کے خلاف بڑی دلیری سے لکھا۔

مولانا ظفر علی خاں پوری زندگی زبان و قلم سے فرنگیوں کی نیند حرام کردی۔ ایک سال سے زائد جیل، قرقیاں اور انگریزوں کی دوسری سختیوں سے دوچار رہے، کبھی بھی پایۂ استقامت میں تزلزل پیدا نہیں ہوا۔ ان کی استقامت کا اندازہ ان کے اس شعر سے لگایا جاسکتا ہے      ؎

اگر مرنا ہے تجھ کو تو مر صحنِ مقتل میں

اِدھر بسمل تڑپتا ہو، اُدھر قاتل پھڑکتا ہو

مولانا حسرت موہانی بڑے صحافی کے ساتھ اچھے شاعر بھی تھے۔ ’اردوئے معلی‘ میں اردو صحافت کا لوہا منوایا۔ بڑے بڑے صحافی اور ادیب سرنگوں ہوگئے۔ مولانا اچھے تنقیدنگار بھی تھے۔ اپنی شاعری کے ذریعے غزل کو ازسر نو زندہ کیا۔

حسرت نے غزل کو سمت و رفتار عطا کی۔ اپنے معاصر شعرا کے کلام پر برجستہ اور بے لاگ تبصرے کیے اور ان کی خامیوں کی اصلاح کی۔ حسرت کے تنقیدی نشتر سے مولانا الطاف حسین حالی بھی نہ بچ سکے۔ حالی پر ان کا ایک باریک طنز ملاحظہ ہو

’’بعض اخباروں کی رائے ہے کہ مولانا حالی کی زبان کی لغزشوں پر ان کی قومی خدمات کے لحاظ سے اعتراضات نہیں کرنے چاہیے لیکن مشکل یہ واقع ہوئی ہے کہ ہندوستان کا ایک بڑا حصہ بدقسمتی سے ان کے کمال شاعری کا قائل ہے اور ان کی پیروی کو قابل فخر سمجھتا ہے اور جو کچھ خواجہ صاحب کے قلم سے نکلتا ہے اسے جائز قرار دیتا ہے۔ اسی حالت میں اگر ان سے زبانوں کی کوئی غلطی سرزد ہو ان سے چشم پوشی کرنا گویا دیدہ و دانستہ ایک حصہ ملک کی زبان خراب کرنا ہے۔‘‘ (اردوئے معلی، فروری 1904)

آج اردو صحافت ماضی کی شاندار روایات اور قابل فخر ورثے کی مالک ہے۔ اردو صحافت ایک بڑے مشن اور مقصد کے تحت آئی تھی لیکن آزادی کے بعد اردو کو وہ پذیرائی نہ ملی جو اسے ملنی چاہیے تھی۔

یہ بات حقیقت برمبنی ہے کہ اردو صحافت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اردو صحافت نے بڑی بڑی تحریکو ںاور تنظیموں کو جنم دیا ہے اور اردو اخبارات و جرائد ہندوستان کے گوشے گوشے سے شائع ہورہے ہیں۔ اردو ہمارے ملک کی آئینی زبان ہے۔ دیگر علاقائی زبانو ںکی طرح اس زبان کے لیے کوئی حد بندی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو کے بولنے اور سمجھنے والے ہندوستان کے ہر گوشے میں موجود ہیں۔ اس لیے اردو کسی فرقے یا مذہب کی زبان نہیں ہے۔ اردو ہندستان کی ایک مشترکہ زبان ہے۔ اردو ایک تابندہ اور زندہ زبان ہے۔ جس طرح  زندگی اور مسائل کا چولی دامن کا ساتھ ہے اسی طرح اردو مطبوعات ہوں یا اردو صحافت ان کو مسائل درپیش ہیں

   اردو صحافت کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو سب سے بڑا مسئلہ تعداد اشاعت کا ہے۔ اردو اخبارات محدود اشاعت ہونے کی وجہ سے انگریزی اور ہندی کے مقابلے میں اردو اخبار کی قیمت زیادہ ہوتی ہے، یہ حقیقت ہے کہ قیمت کا انحصار ریڈرشپ پر ہوتا ہے اور ریڈرشپ کا تعلق اردو اخبارات کے معیاری اور دیدہ زیب ہونے پر منحصر ہے اور المیہ یہ کہ تعلیم یافتہ اردو داں گھروں میں بھی انگریزی اخبار ہی پڑھا جاتا ہے کیونکہ اس میں مواد اور وزن بھی ہے اور قیمت کم ہوتی ہے۔ اگر ہم اردو داں پابندی سے ہر صبح اپنے مطالعے میں اردو اخبار رکھیں تو یقین کیجیے کہ اردو اخباروں کی تعداد بڑھے گی۔

 اردو صحافت کو درپیش مسائل کی ایک وجہ ہے تشہیر اور پبلسٹی کی کمی۔ جو لوگ تشہیر کی منفعت کو سمجھتے ہیں وہی اپنے کام کو وسعت اور ترقی دیتے رہتے ہیں۔ جبکہ اخبارات و رسائل پبلسٹی کا ایک عظیم ذریعہ ہیں۔ اردو اخباروں اور رسالوں میں اشتہار اتنے شائع نہیں ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اشتہار دینے والا سمجھتا ہے کہ اردو کی ریڈرشپ محدود ہے۔

یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ اردو خاص طبقے کی زبان بن گئی ہے اور یہ طبقہ مالی و اقتصادی طور پر کمزور ہے۔ ان کے یہاں بچوں کی تعلیم کا رواج کم سے کم ہے کیونکہ زیادہ تر بچوں کو کم عمری سے ہی کسی نہ کسی کام پر لگا دیا جاتا ہے، یہی بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو ان کی دلچسپی پڑھنے سے ختم ہوجاتی ہے۔ درحقیقت معاشی کمزوری اور تعلیم کی کمی ہماری توجہ ہٹائے رکھتی ہے۔

اردو صحافی تمام تر نامساعد حالات تکنیکی دشواریوں اور ناخوشگوارماحول میں بھی اخبارات کو اپنے خون جگر سے آبیاری کرتے رہے ہیں۔ اردو صحافت مشکل ترین دور سے گزر کر آج دیدہ زیب اور رنگین طباعت، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے دور میں پہنچتی ہے

اردو صحافت کا معیار مزید بلند سے بلند تر ہوسکتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ ذمے داران اور کارکنان اپنے فرائض منصبی کو سمجھیں، ایک دوسرے کا تعاون کریں۔ بہتر اور منتخب مواد اپنے قاری کو فراہم کریں تاکہ ریڈرشپ میں اضافہ ہو، سرکولیشن پر ہی اخبار و رسائل کی کامیابی کا دار و مدار ہوتا ہے۔

اردو صحافت کے تمام مسائل کی بنیاد صحافیو ںکی معاشی حالت ہے، اگر اردو صحافیوں کی اقتصادی حالت بہتر ہے تو صحافت کا معیار عمدہ اور بلند ہوتا ہے۔ صحافیوں میں ہمت افزائی اور حوصلہ ہوتا ہے۔

    اخبارات و رسائل کے ذمے داران اپنے اندر توسیع پیدا کریں۔ آپسی تعاون کے ذریعے ایک دوسرے کے اشتہارات چھاپیں اور اپنے اپنے حلقوں میں دیگر اخبارات و رسائل کو متعارف کرائیں۔ اس اقدام کے ذریعے دہلی، یوپی اور شمالی ہند کے اخبارات و رسائل کے تعارفی اشتہارات جنوبی ہند اور بنگال بہار کے اخباروں اور جرائد میں جگہ پاسکتے ہیں اور ان علاقوں میں متعارف کرایا جاسکتا ہے۔ اس طرح کے آپسی تعاون سے نہ صرف ریڈرشپ بڑھ سکتی ہے بلکہ نجی اداروں سے اشتہاروں کے حصول کے مواقع بھی بڑھ سکتے ہیں۔ ممکن ہے حیدرآباد کا کوئی تاجر بنگال اور دہلی کے اخبارات و رسائل کو اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے مفید سمجھے اور دہلی و بنگال کے صنعت کار حیدرآباد اور بنگلور کے اخبارات کو اپنی مصنوعات کا ذریعہ بنانا پسند کریں۔ آج یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اردو صحافت بھی دیگر زبانوں کی صحافت سے کم نہیں ہے اور ہمارے یہاں ایسے اخبارات و رسائل شائع ہورہے ہیں جو اپنے معیار و دلکشی، تنوع اور طباعت کے اعتبار سے دوسری زبانوں کے ہم پلہ ہیں لیکن ترقی کی یہ رفتار جہاں جنوبی ہند میں مسلسل ارتقا کی منزلیں طے کررہی ہیں وہیں شمالی ہند میں یہ بہت سست اور دھیمی ہے۔ حیدرآباد، بنگلورو اور ممبئی کے اردو اخبارات جس معیار اور زبان و بیان اور لب و لہجے اور حسن انداز کی صحافت کو برت رہے ہیں۔ وہ حسن اور تنوع ہمیں دلی، کولکاتا، پٹنہ اور لکھنؤ کے اخبارات میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ ہر چند کہ اردو صحافت کا آغاز ہی شمالی ہند سے ہوا تھا، لیکن جنوبی ہند کے اخبارات  نے جس تیزی سے ارتقا کی منزلیں طے کی ہیں ان کا مقالہ شمالی ہند کے اخبارات نہیں کرپائے اس کی وجوہات تہذیبی، تاریخی اور جغرافیائی تبدیلیوں کے علاوہ معاشی انقلاب کے فیوض بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔

یہ بات قابل اطمینان ہے کہ موجودہ دور کی اردو صحافت اطلاعاتی تکنالوجی کے تمام ذرائع کو پورے اعتماد کے ساتھ برت رہی ہے اور گلوبلائزیشن کے اس دور میں اردو اخبارات دیگر ترقی یافتہ زبانوں کے اخبارات کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں اور تعداد اشاعت میں بھی بتدریج بہتری آرہی ہے۔

اردو صحافت روز اول سے ہی درپیش مسائل کو حل کرنے میں مصروف نظر آتی ہے اور اپنے اپنے زمانے کے مخلص لوگ کمربستہ ہوکر اس کو پروان چڑھانے کے لیے میدان حق گوئی و بے باکی میں مصروف جہاد دکھائی دیتے ہیں۔ بقول شاعر مشرق علامہ اقبال   ؎

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی


مراجع و مآخذ

اردو صحافت کے مختلف صفحات سے ماخوذ، مرتب انور علی دہلوی، شائع کردہ، اردو اکادمی دہلی

n

Mohd Sajjad Nadvi

Uttam Palace, 208 Block-B

Khwajapura, Baily Road

Patna- 8000014

Mob.: 9934287655

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں