7/3/23

اردو، آزادی اور وطنیت: محمود قریشی


تاریخ گواہ ہے دنیا بھر کے سیاسی، معاشی اور انقلابی محرکات میں اردو زبان و ادب نے اہم کردار ادا کیا ہے۔جب ہم تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے،کہ تحریک آزادی میں اردو زبان و ادب نے جوش و ولولے سے ہند کی تہذیبی و انقلابی زبان ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اردو زبان ہندوستان کے تمام لوگوں کی مشترکہ زبان رہی ہے اور آزادی کا نعرہ ’انقلاب زندہ باد‘ اردو زبان کی ہی دین ہے۔

بر صغیر کی بات کریں تو انیسویں صدی میں انگریزی حکمراں کاروبار ی مقاصد لے کر ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں ہندوستان پہنچے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کا پہلا تجارتی جہاز13 فروری 1600 کو ہندوستان آیا۔ یہی ان کی اولین کامیابی تھی۔ کمپنی کا مقصد ’سونے کی چڑیا‘ کو قید کرنا تھا جس میں کامیابی ملی، چونکہ مغل سلطنت زوال آمادہ تھی  ایسے ماحول میں انگریزی حکومت کو ہندوستان میں پیر پسارنے میں کچھ زیادہ وقت نہیں لگا۔ وہ بہت جلد ملک کے ہر حصے پر قابض ہو گئے۔یہ معاملہ زیادہ پر اثر تب ہوا جب انگریزوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے مذہبی جذبات سے کھیلنا اور انھیں مجروح کرنا چاہا۔جس کے رد عمل کی ایک جھلک 1857 کی جنگ آزادی کی صورت میں نظر آتی ہے۔یہ جنگ آزادی صرف بغاوت نہیں بلکہ،انگریزی استعماریت کے مقابل اپنی بقا کی جنگ تھی۔ہندوستانی اب سمجھ گئے تھے کہ ہم زیادہ دیر اب غلامی کو برداشت نہیں کر سکتے۔اسی لیے 10مئی 1857کی جنگ آزادی میرٹھ سے شروع ہو کر ملک کے گوشے گوشے میں پھیل جاتی ہے۔ ہر طرف آزادی کے نعرے بلند ہونے لگے۔ملک میں تغیر آیا۔ ذہنوں کو ٹٹولہ گیا،اور انگریز حکومت کے خلاف ہندوستانیوں نے علم بغاوت بلند کردیا۔ انگریزوں نے ’پھوٹ ڈالو اور سیاست کرو‘ کی ترکیب اپنائی تو ہندوستان کا باشعور طبقہ بھی پیچھے نہیں رہا۔

1857 کی پہلی جنگ آزادی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ،یہ جنگ ہتھیاروں کے علاوہ اعلانوں اور حکم ناموں کے ذریعے بھی لڑی گئی تب قلم سے تلوار کا کام لینا وقت کا اہم تقاضا تھا۔انہی حالات کے نتیجے میں اردو ادیبوں نے اپنی تحریر کا رخ تحریک آزادی کی طرف موڑ دیا۔

تحریک آزادی کی طرف انقلابی ذہن پیدا کرنے کی کوشش کی بقول آل احمد سرور ’’ادب انقلاب نہیں لاتا بلکہ انقلاب کے لیے ذہن کو بیدار کرتا ہے۔‘‘

جتنے دور ہماری سیاسی،سماجی زندگی میں آئے ہیں اتنے ہی دور ہمارے ادب پر بھی آئے ہیں، جس کا اثر ہر صنف ادب پر دیکھا گیا، نظموں میں،افسانوں میں، ناول میں، اور ہماری شاعری پر،اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے،کہ آزادی کے تصور کو پھیلانے میں جو رول ہماری اردو شاعری نے ادا کیا ہے۔وہ کسی نے نہیں کیونکہ شاعری دل کے تاروں کو چھو لیتی ہے۔اور یہ جذبات کو بر انگیختہ کرنے کے لیے ایک کار آمد ذریعہ ہے۔

1857 کے دوران جو حالات رو نما ہوئے تو اردو زبان کے شاعروں،ادیبوں نے اپنی قلمی کارروائی کے ذریعے آزادی کی جدو جہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔

اردو زبان نے تحریک آزادی میں گراں قدر خدمات انجام دی ہے۔اس زبان نے تحریک آزادی کی جدو جہد میں قدم سے قدم ملا کر وفا داری کا ثبوت پیش کیا ہے۔وطن کی آزادی کے لیے اردو زبان و ادب نے جو قربانیاں پیش کی ہیں،وہ ہماری تاریخ کا درخشاں باب ہے۔ تحریک آزادی کے علمبرداروں نے اگر یورپ میں تعلیم حاصل کرکے انگریزی زبان سیکھ کر ملت کو ایک راہ پر گامزن کیا تو اس قوم اور ملت کو یکجا کرنے کا سہرا اردو زبان کو ہی حاصل ہوتا ہے۔ بقول شارب ردولوی

’’ہندوستان کی جنگ آزادی دو اسلحہ سے لڑی گئی،ایک ’اہنسا‘دوسرا ’اردو زبان‘۔

اردو کی تمام اصناف ادب میں یہ جذبہ پایا جاتا ہے۔خاص کر جدو جہد کا۔یہ جذبہ اردو نظم میں بھی پایا جاتا ہے۔ اردو نظم کا وہ دور تو خاص کر جنگ آزادی کے متوالوں کے لیے ہی تھا۔چونکہ پنجاب میں نظم جدید کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا۔جس کی بنیاد ہالرائڈ اور محمد حسین آزاد نے ڈالی تھی۔

ایسے نظم گو شعرامیں، الطاف حسین حالی، علامہ شبلی نعمانی، محمد حسین آزاد،اسمٰعیل میرٹھی، سرور جہان آبادی، برج نرائن  چکبست،

علامہ اقبال،حسرت موہانی، جوش ملیح آبادی، اکبر الہ آبادی، علی سردارجعفری،مخدوم محی الدین،مجاز،فیض احمد فیض،وغیرہ کا شمار  ہوتا ہے۔

حالی نے اپنی شاعری میں حب الوطنی کے جذبے کو پیش کیا۔ جس سے لوگوں میں سیاسی،سماجی اور تہذیبی قدروں کا احساس پیدا ہوا۔ حالی نے حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار ہو کر’حب وطن‘کے نام سے ایک مثنوی (نظم ) لکھی۔ انھوں نے اپنی نظموں کے ذریعے ہم وطنوں کو محبت،اتحاد،دوستی اور امن کا پیغام دیا ہے۔ ان کی ہر نظم ہی قومی و سیاسی رنگ کی عکاسی کرتی ہے         ؎

 اے وطن اے مرے بہشت بریں

کیا ہوئے تیرے آسمان و زمین

پھر کہتے ہیں         ؎

رات اور دن کا وہ سماں نہ رہا

وہ زمیں اور وہ آسماں نہ رہا

محمد حسین آزاد نے کرنل ہالرائڈ کے ساتھ انجمن پنجاب کی بنیاد رکھی جس کے تحت آزاد اور حالی نے اپنی نظموں کے ذریعے قوم کی اصلاح کے ساتھ حب الوطنی کے جذبے کو پھیلایا۔تو اکبرالہ آبادی نے اپنی شاعری میں طنز کا سہارا لیا۔انھیں انگریزی تہذیب و تمدن سے نفرت تھی اور ملک کی زوال آمادہ تہذیب کا قلق وافسوس تھا۔اس لیے طنز کے ذریعے اپنی بات کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حب الوطنی کا تصور سرور جہاں آبادی کی نظموں میں بھی صاف نظر آتا ہے۔چونکہ وہ مانتے ہیں کہ حب وطن ایسا جذبہ ہے جو مذہبی رسم و رواج کے بندھن سے آزاد ہے۔اس لیے ان کی نظموں میں وطن  سے عشق اور آزادی کے خیالات ہی پیش کیے گئے ہیں۔

علامہ اقبال نے خاص طور سے اپنی نظموں کے ذریعے حب الوطنی کو فروغ دیا،جس سے آزادی کی قومی جدو جہد میں بڑی قوت ملی۔انھوں نے تحریک آزادی کی جدو جہد کو بڑے غور و فکر سے جانچا تھا۔ جس کا اندازہ جگہ جگہ ان کی شاعری میں ملتا ہے         ؎

نہ سمجھو گے تو مٹ جائوگے اے ہندوستاں والو!

تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں،

حب الوطنی کے شاعر،برج نرائن چکبست نے تو جابہ جا اپنی شاعری کے ذریعے غافل قوم کو جگا نے اور ان کے دلوں میں حرکت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔وہ اپنی نظم’آواز قوم‘  میں لکھتے ہیں        ؎

یہ آرزو ہے کہ مہرو وفا سے کام رہے

وطن کے باغ میں اپنا ہی انتظام رہے

گلوں کی فکر میں گل چیں نہ صبح و شام رہے

نہ کوئی مرغ خوش الحاں اسیر دام رہے

یہ جوش پاک زمانہ مٹا نہیں سکتا

رگوں میں خوں کی حرارت مٹا نہیں سکتا

یہ آگ وہ ہے، جو پانی بجھا نہیں سکتا

دلوں میں آکے  یہ ارمان جا نہیں سکتا

شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کی شاعری کا بہت سارا حصہ جذبۂ آزادی سے بھرا پڑا ہے۔ان کے پر جوش اور ولولہ انگیز انداز بیاں نے آزادی کے متوالوں کو سر بکف ہونے پر آمادہ کیا۔ملک کو غلامی سے نجات دلانے کے لیے وہ ہمیشہ کوشاں تھے۔آزادی کی قدرو قیمت کا انھیں بہت احساس تھا۔تحریک آزادی زوروں پر تھی۔ انھیں کامل یقین ہو گیا کہ اب ملک آزاد ہو جائے گا۔ اس لیے ان کی نظمیں بغاوت و انقلاب جیسے جذبوں سے سر شار ہیں          ؎

کام ہے میرا تغیر،نام ہے میرا شباب

میرا نعرہ ہے، انقلاب و انقلاب و انقلاب

علی سردار جعفری نے بھی جنگ آزادی میں قلم کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی حصہ لیا۔زنداں میں قید و بند کی صعوبت برداشت کی۔ ان کی شاعری دعوت انقلاب، پیغام بیداری، جذبہ آزادی اور خواہش آزادی کے جذبوں  سے لبریز نظر آتی ہے۔ ’نئی دنیا کو سلام‘ میں علی سردار جعفری کہتے ہیں          ؎

رقص کر اے روح آزادی کہ رقصاں ہے حیات

گھومتی ہے وقت کے محور پہ ساری کائنات

حسرت موہانی جو سیاست داں،شاعر،ادیب،صحافی،اور نقاد  تھے آزادی کی لڑائی میں ان کا نعرہ ’انقلاب زندہ باد‘ نے پورے ہندوستان میں آگ لگا دی تھی اور لوگوں کو آزادی کی لڑائی میں کودنے پر آمادہ کیا۔ہندوستانیوں میں اس  نعرے نے جوش بھر دیا تھا۔سیاسی و ادبی سرگرمیوں کے سبب کئی بار جیل گئے۔لیکن آزادی کے جذبے کو پھیلانے میں کوئی فرق نہ آیا اور اپنی پر زور کاوشوں کے سبب آزادی حاصل کر کے رہے۔

جنگ آزادی صرف نظم گو شعرا نہیں لڑ رہے تھے بلکہ نثری ادب سے وابستہ ادیب،دانشور بھی اپنی تخلیقات میں اس نظر یے سے متاثر نظر آتے ہیں۔

ڈپٹی نذیر احمد ناولوں میں آزادی کے تصور کو پیش کرتے ہیں،ابن الوقت،بنات النعش میں سیاسی اور معاشرتی زندگی کی ترجمانی کے حوالے سے جنگ آزادی کے تصور کو پھیلایا۔

مرزاغالب بھی 1857 کی قتل اور غارت گری سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔لیکن ان کی ذہنی قوتیں اس قومی تباہی پر غصے اور رنج کا اظہار اور ماحول کا پورا نقشہ اپنے خطوط میں کھنچتے ہیں۔

پریم چند کی سبھی کہانیاں آزادی کے جذبے سے لبریز ہوتی ہیں۔ساتھ ہی ساتھ وہ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے انگریزوں کے ظلم و ستم کو برداشت نہیں کر سکے اور جابہ جا اپنی کہانیوں میں جذبۂ آزادی سے سر شار نظر آتے ہیں۔ان کے افسانوی مجموعے’سوز وطن‘ میںشامل افسانہ ’دنیا کا انمول رتن‘ ہے جس کو حکومت وقت نے آزادی کا تصور پھیلانے کے الزام میں ضبط کر لیا تھا۔

اردو صحافت کے ذریعے بھی آزادی کے تصور کو ہو ا مل گئی اردو صحافیوں نے آزادی سے متعلق خبریں چھاپیں۔  جس میں مولوی محمد باقر بھی تھے، جو پہلے شہید صحافی ہیں۔

آزادی کی لڑائی میں رام پرساد بسمل جن کو 19دسمبر 1937 ؁کوگورکھپور جیل میں پھانسی دی گئی۔ ان کی زبان پر اردو زبان میں بسمل عظیم آبادی نے جوشیلے اشعار کہے تھے      ؎ 

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

اَے شہید ملک و ملت تیرے جذبوں کے نثار

تیری قربانی کا چرچا غیر کی محفل میں ہے

وقت آنے دے بتا دیں گے تجھے اے آسماں

ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے

اب نہ اگلے ولولے ہیں اور نہ ارمانوں کی بھیڑ

ایک مٹ جانے کی حسرت اب دل بسمل میں ہے

غرض یہ کہ اردو کا اپناایک شاندار ماضی ہے۔یہی وہ زبان ہے جس نے جنگ آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ تحریک آزادی کے ساتھ اردو زبان و ادب قدم سے قدم ملا کر چلی،جس نے آزادی کے متوالوں کے نہ صرف حوصلے بلند کیے،بلکہ انگریزی حکومت کی بنیاد کو بھی ہلا دیا۔اگر ہم یہ کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ ملک میں سیاسی بیداری پیدا کرنے میں اس ملک کی دیگر زبانوں کے مقابلے میں اردو زبان نے سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ یہی زبان ہمارے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی امین بھی ہے۔اس زبان نے ہر دور میں ہندوستانیوں کے دلوں میں محبت کے دیپ،اور اتحاد و یکجہتی کی قندیلیں روشن کرنے کا مقدس فریضہ بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے۔

انگریز اس وقت اردو کے ان قلم کاروں سے جو آزادی کے تصور کو پھیلا رہے تھے،حد درجہ خائف تھے اس لیے انھوں نے اس زبان کا بہت سا شعری وادبی سرمایہ ضبط کر لیا تھا، جس میں بہت کچھ شائع ہو چکا تھا، اور کچھ شائع ہونا باقی تھا۔تاہم کچھ فرامین اور خطوط ابھی بھی دستیاب ہیں ان میں سے ایک فرمان جو نانا صاحب کا تھا اردو زبان میں لکھا گیا، یہ خط جس سے آزادی کے جذبے کا پتہ چلتا ہے

’’جان یک روز کبھی جائے گی ہی،پر عزت کھو کر کیوں مرنا ہم سے لڑائی،فساد،جنگ جو کچھ ہوگا سو کریں گے تلوار سے ہوگا تو تلوار سے لڑیںگے تاکہ عزت سے جی سکیں۔‘‘

ہمارے ادب کی یہ خوش قسمتی رہی ہے کہ اس کے گیسو سنوارنے اور اپنے ملک کی بقا کی حفاظت کرنے میں جتنا حصہ مسلمانوں نے لیا، اس کے کہیں زیادہ حصہ دوسرے مذہب کے پیرو کاروں نے لیا ہے، جس میںدیا شنکر نسیم، رتن ناتھ سر شار،درگاسہائے سرور جہاں آبادی، آنند نرائن ملا، فراق گورکھپوری،منشی پریم چند، فکر تونسوی، جگن ناتھ آزاد،راجندر سنگھ بیدی،پروفیسر گوپی چند نارنگ جیسے قدآور شخصیات نے اردو زبان و ادب کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں وہ اس زبان کی تاریخ کا روشن باب ہے،جسے اردو زبان کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔

مراجع و مآخذ

  1.        ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعریگوپی چند نارنگ، قومی اردو کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
  2.         تحریک آزادی میں اردو کا حصہ، مرتب ناشر نقوی
  3.         جنگ آزادی میں اردو کا حصہ ناشر اقبال بیدار ،اقبال جنس جہانگیر آباد بھوپال
  4.         تحریک آزادی میں  اردو کا حصہ  ڈاکٹر معین  الدین عقیل
  5.        تاریخ ہند۔ملک ہندوستان کی تاریخ (ہندی زبان میں) ساہتیہ پبلشر
  6.        کلیات حالی

Mehmooda Qureishi

22/78, Dholi Khar Mantola

Agra Fort

Agra - 282002 (UP)

Mob.: 7417912943

 

 

 

 

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں